Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ”میں تو تابع دار ہوں…“

    ”میں تو تابع دار ہوں…“

    بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…

    اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔

    کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

    کافی رد و کدّ کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑیئے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

    ہم نے گھبرا کر پوچھا، ”پھر کیا کرو گے؟“

    ”یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔“

  • محمد مرزا خاں اور عمو جان کی وضع داری اور دوستی

    محمد مرزا خاں اور عمو جان کی وضع داری اور دوستی

    ایک زمانہ تھا جب دوستیاں اور تعلق کسی قسم کی نفرت اور عناد سے آلودہ نہیں‌ تھے۔ عقیدے اور ذات پات، عہدہ و منصب، مالی حیثیت اور اس کی بنیاد پر سماج میں‌ رُتبہ آپس میں‌ تعلق استوار کرنے کا پیمانہ اور معیار نہیں‌ ہوتا تھا بلکہ دوست احباب ایک دوسرے سے بے لوث محبّت کرتے تھے۔ مصیبت میں یا کوئی ضرورت پڑنے پر ساتھ نبھا کر خود کو وضع دار اور باظرف ثابت کرتے تھے۔

    سید محمد ارتضیٰ المعروف ملّا واحدی دہلوی اردو کے صاحب ِطرز ادیب اور مشہور جیّد صحافی تھے جن کے قلم کی نوک سے نکلے یہ دو مختصر واقعات سچّی دوستی اور مذہبی رواداری کی مثال کے طور پر ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چیلوں کا کوچہ جہاں میرا گھر ہے، یہاں دو صاحب رہتے تھے۔ ایک محمد مرزا خاں، دوسرے عمو جان۔ ان دونوں نے بہت طویل عمریں پائی تھیں۔ محمد مرزا خاں کا تو لوگوں نے نوح نام رکھ دیا تھا اور عموؔ جان حضرت شاہ عبدالعزیزؔ رحمۃ اللہ علیہ کی گودوں کے کھیلے ہوئے تھے۔

    شاہ عبدالعزیزؒ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فرزند تھے۔ شاہ ولیؔ اللہ جنہوں نے شہنشاہ اورنگ زیبؔ عالمگیر کے زمانے میں فتاویٰ عالمگیری کی تدوین میں حصہ لیا تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں محمد مرزا خاں کو بھی دیکھا ہے اور عمو جان کو بھی۔ دونوں کے خاندان اب تک موجود ہیں اور دونوں کے دیکھنے والے مجھ سے بڑے ابھی زندہ ہیں۔ پہلے محمد مرزا خاں کی وضع داری اور دوستی کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔

    ایک ہندو سے ان کا بھائی چارہ تھا۔ انقلاب 1857ء کی ابتداء ہوچکی تھی کہ ہندو صاحب نے شادی رچائی۔ بارات بازاروں سے گزر رہی تھی کہ کچھ لوٹ مار کرنے والے آپہنچے۔ بارات کی بارات مع دولھا کے دُلہن کا ڈولا چھوڑ بھاگ گئی مگر محمد مرزا خاں نے چند اور ساتھیوں کی مدد سے دلہن کو بچایا اور لشتم پشتم دولھا کے مکان پہنچا دیا۔

    عموؔ جان کا واقعہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ تاجرانہ دوستیوں کے دور میں اسے تسلیم کرنے میں تأمل ہوگا۔ عموؔ جان کی بھی ایک ہندو سے ملاقات تھی۔ وہ ہندو وکیل تھے۔ ان پر کسی کے قتل کا الزام لگ گیا۔ عموؔ جان نے الزام اپنے سَر لے لیا۔ پھر وکیل صاحب ان کے لیے جو کوشش نہ کرتے، تھوڑی تھی۔

    عموؔ جان بالکل غریب آدمی تھے اور وکیل صاحب کا اقبال برابر ترقی کر رہا تھا۔ مگر مجھے ان کا عموؔ جان کے جھونپڑے میں آنا جانا خوب یاد ہے۔

    محمد مرزاؔ خاں اور عمو جان تو صحیح معنوں میں اگلے وقتوں کے آدمی تھے۔ اگلے وقتوں کے آدمی وضع اور دوستی کو نبھانا ہنر سمجھتے تھے، اور نہ نبھانے کو عیب جانتے تھے۔ ایک محلے کے صرف دو آدمیوں کا ایک ایک واقعہ سنا دیا ہے، ورنہ 1857ء کے بہت بعد تک ایسے لوگوں سے سارا شہر بھرا پڑا تھا۔”

  • ہدایت کار چیتن آنند کا فلمی سفر اور اداکارہ پریا سے بے نام تعلق

    ہدایت کار چیتن آنند کا فلمی سفر اور اداکارہ پریا سے بے نام تعلق

    مشہور ہدایت کار چیتن آنند کو ان کی فلم ’نیچا نگر‘ نے بین الاقوامی سطح پر پہچان دی۔ اس کاوش پر چیتن آنند نے کانز کے مشہورِ زمانہ فلمی میلے میں بہترین فلم کا ایوارڈ وصول کیا۔ یہ 1946ء کی بات ہے۔ چیتن آنند 1997ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے، لیکن فلم انڈسٹری کے اوّلین دور کے کام یاب فلم ساز اور رائٹر کے طور پر ان کی پہچان آج بھی قائم ہے۔

    1940ء کے اوائل میں جب چیتن آنند تاریخ کے مضمون کی تدریس سے منسلک تھے، تب انھوں نے ایک فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    چیتن آنند کا آبائی شہر لاہور تھا جہاں انھوں نے 1915ء میں‌ آنکھ کھولی اور والد نے انھیں روایتی مذہبی اور مخصوص نظامِ تعلیم کے تحت پڑھنے کے لیے بھیج دیا، بعد میں چیتن آنند نے لاہور سے انگریزی کے مضمون میں‌ گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اداکار دیو آنند ان کے بھائی تھے۔ نوجوانی میں‌ چیتن کو تھیٹر اور فلم میں دل چسپی پیدا ہوئی اور فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے بعد بطور ڈائریکٹر ان کی پہلی کاوش ان کی وجہِ شہرت بن گئی۔ ’نیچا نگر‘ بھارت میں رجحان ساز ثابت ہوئی۔ اس فلم کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے وہاں کے فلم ساز سماجی حقیقت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے بعد چیتن آنند نے افسر، آندھیاں، ٹیکسی ڈرائیور، ارپن، حقیقت، آخری خط اور ہیر رانجھا جیسی فلمیں ریلیز کیں جو کام یاب ہوئیں۔ ان فلموں میں دیو آنند بھی اپنے بھائی کے معاون رہے۔ دراصل انھوں نے مل کر 1950ء کے اوائل میں فلم سازی کا فیصلہ کرکے ایک ادارہ بنام نوکتن فلمز شروع کیا تھا۔ چیتن آنند تو ہدایت کار اور فلمی مصنّف کے طور پر جانے گئے، لیکن ان کے چھوٹے بھائی دیو آنند نے بطور اداکار ہندی سنیما میں خوب نام کمایا وہ ہر قسم کے کردار خوبی سے نبھاتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کے سدا بہار فن کار مشہور ہوئے۔

    چیتن آنند نے اپنی ایک فلم میں‌ شملہ کی ایک لڑکی کو متعارف کروایا تھا جس کا نام پریا راج ونش (Priya Rajvansh) اور فلم کا نام حقیقت تھا۔ پریا راج ونش اور ہدایت کار چیتن آنند کی عمر میں‌ 20 برس کا فرق تھا۔ یہ فیچر فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی جو پروڈیوسر اور ہدایت کار چیتن آنند کی ایک اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلن نے بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    جس زمانے میں پریا سے ہدایت کار چیتن کی ملاقات ہوئی، وہ اپنی بیوی سے الگ ہوچکے تھے۔ ان کے دو بچّے بھی تھے، مگر چیتن آنند اس نوعمر لڑکی پریا جو فلم کی دنیا میں نوارد بھی تھی، پر فدا ہوگئے اور پریا نے بھی ان کی محبّت کو قبول کر لیا۔ ان دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور ایک جگہ رہے، مگر شادی نہیں‌ کی۔ چیتن کے فلمی سفر کے ساتھ اُن کا اپنی محبّت یعنی پریا سے تعلق برقرار رہا۔ پریا وہ اداکارہ تھی جس نے صرف چیتن آنند کی فلموں‌ میں کام کیا اور کبھی کسی اور بینر تلے نظر نہیں‌ آئی۔ نوکتن فلمز نے 1970ء میں فلم ہیر رانجھا ریلیز کی جس میں‌ مرکزی کردار (ہیر) پریا نے نبھایا اور لاجواب اداکاری کی۔

    چیتن آنند بطور ہدایت کار اپنی کام یابیوں اور خوشی و غم میں شریک پریا سے اپنے تعلق کو تاعمر کوئی نام نہیں دے سکے جس سے انھیں سماج میں عزّت اور اعتبار حاصل ہوتا، اور چیتن کی موت کے بعد وہ درد ناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ 1937ء میں پیدا ہونے والی پریا راج ونش کو ممبئ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 27 مارچ 2000ء کو پیش آیا۔ ابتدائی طور پر اسے حادثہ سمجھا گیا، لیکن پھر سامنے آیا کہ اس قتل میں چیتن کے دونوں بیٹے ملوث ہیں جنھیں گرفتار کرلیا گیا اور سزا ہوئی۔

    اس قتل کی وجہ وہ جائیداد اور دولت تھی جس کی مالک چیتن آنند کی وصیت کے مطابق پریا راج ونش تھیں۔

  • عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    لاہور کے کچھ ادبی اور ثقافتی مرکز ایسے ہیں جنہیں لوگ بالکل فراموش کر چکے ہیں اور ان کا ذکر اب صرف تذکروں میں ہی ملتا ہے۔ ان میں کچھ ادبی ٹھکانے تو اپنے زمانے میں بڑی شہرت کے مالک تھے جہاں علم و ادب کے نامور لوگ اپنی محفلیں سجایا کرتے تھے۔

    سب سے پہلے میں عرب ہوٹل کا ذکر کروں گا۔ عرب ہوٹل ریلوے روڈ اسلامیہ کالج کے بالکل سامنے واقع تھا۔ کہتے ہیں کہ 1926ء سے 1936ء تک لاہور کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا خاموش مرکز رہا۔ یہاں اس زمانے میں خواجہ دل محمد، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، گوپال متل، پنڈت ہری چند اختر، مولانا چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، عبدالمجید بھٹی اور باری علیگ بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آنے والوں میں عبدالمجید سالک شامل تھے۔ جس زمانے میں مَیں نے عرب ہوٹل دیکھا اس وقت وہاں مولانا چراغ حسن حسرت کی شخصیت سب سے نمایاں تھی۔ میں عرب ہوٹل گیا بھی حسرت صاحب سے ملنے تھا کیونکہ ان کی فیملی سے ہمارے گھر والوں کے دیرینہ مراسم تھے اور حسرت صاحب مجھے جانتے تھے۔ یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔

    عرب ہوٹل کا ماحول مجھے ذرا پسند نہیں تھا۔ میں نے رنگون، بمبئی اور کلکتہ میں بڑے بڑے ریستوران اور ہوٹل دیکھے تھے۔ عرب ہوٹل ان کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے اندر ایک تنور بھی تھا، جہاں نان لگتے تھے اور سالن وغیرہ بھی پکتا تھا اور چائے بھی پکتی تھی جو چینی کی زرد پرانی چینکوں میں چھوٹے (فنجانوں) پیالوں میں اور کپ میں بھی دی جاتی تھی۔ بڑا غریبانہ ہوٹل تھا۔ وہاں کے نان تنور سے نکلتے تو ان کی خوشبو سے ہی بھوک تیز ہو جاتی تھی۔ بُھنے ہوئے گوشت کی فل پلیٹ بھی ملتی تھی اور ہاف پلیٹ بھی ملتی تھی۔ کباب بے حد لذیز تھے۔ بھنے ہوئے گوشت کی ہاف پلیٹ شاید دو آنے کی ہوتی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں عرب ہوٹل میں تنور کی وجہ سے گرمی زیادہ ہوتی تھی۔

    چند ایک میزیں لگی تھیں۔ حسرت صاحب سگریٹ سلگائے چائے کی پیالی سامنے رکھے اپنی خاص نشست پر بڑی شان سے بیٹھے ہوتے۔ ان کے گرد لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے بڑے ادب سے بیٹھے ہوتے تھے۔ میرے لیے ان لوگوں کے چہرے اجنبی تھے۔ صرف باری علیگ کا چہرہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ حسرت صاحب نے سادہ اور آسان اردو میں جس میں ہندی کے الفاظ کی آمیزش بھی تھی کچھ طبع زاد کہانیاں لکھی تھیں جن کے بارے میں بعد میں گوپال متل نے لکھا تھا کہ اگر حسرت صاحب کی یہ کہانیاں دیونا گری رسم الخط میں ترجمہ کر دی جاتیں تو انڈیا والے حسرت صاحب کو ہندی کا بہت بڑا ادیب تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ عرب ہوٹل کے مالکان میں ایک درمیانی عمر کے گورے چٹے خوبصورت آدمی تھے جو عرب تھے اور اردو پنجابی بڑی روانی سے بول لیتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔ ان کے ساتھی جو شاید ان کے پارٹنر تھے وہ بھی گورے چٹے تھے مگر ان کا قد درمیانہ اور چہرے کے نقوش موٹے تھے۔ میں ان دنوں لکھتا لکھاتا بالکل نہیں تھا۔ ادب کا طالب علم تھا اور مشہور ادیبوں کی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ گوپال متل نے اپنی کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ میں عرب ہوٹل کا تھوڑا سا نقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    ’’اسلامیہ کالج کے سامنے عرب ہوٹل لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈہ تھا۔ ان میں زیادہ تر ادیب، شاعر اور صحافی تھے۔ یہ ایسے اداروں میں کام کرتے تھے جہاں تنخواہ بڑی قلیل ملتی تھی۔ بروقت نہیں ملتی تھی اور کسی ماہ ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن یہ اپنے حال میں مست رہتے تھے اور اپنی زندہ دلی پر غمِ زمانہ کی پرچھائیاں نہیں پڑنے دیتے تھے۔عرب ہوٹل بڑا ہی غریب نواز ہوٹل تھا۔ وہ کبابوں، نصف نان اور چائے کی ایک پیالی میں صبح کا ناشتہ ہو جاتا تھا اور بھنے ہوئے گوشت کی نصف پلیٹ اور ایک نان میں ایک وقت کا کھانا ہو جاتا تھا۔ مولانا چراغ حسن حسرت عرب ہوٹل کے میر مجلس تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ’’الہلال‘‘ میں کام کیا تھا۔ زمیندار میں وہ ’’فکاہات‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے جس کی اس زمانے میں بڑی دھوم تھی۔ عبدالمجید بھٹی کا دفتر عرب ہوٹل کے پاس ہی تھا۔ پہلے وہ بچوں کی نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ بالغوں کے لئے نظمیں لکھنے لگے تھے۔ عرب ہوٹل کے حاضر باشوں میں انتہائی دل چسپ شخصیت باری علیگ کی تھی۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے انہوں نے جو کتاب لکھی وہ بے حد مشہور ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن چھپے۔ بڑے آزاد خیال اور قلندر صفت آدمی تھے۔ پنجابی زبان کے عاشق تھے۔ ایک بار کہنے لگے…’’جب کوئی پنجابی اردو بولتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے جھوٹ بول رہا ہو۔‘‘

    ’’خواجہ دل محمد ایم اے، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، باری علیگ، عبدالمجید سالک اور عبدالمجید بھٹی ان لوگوں کے دم قدم سے عرب ہوٹل میں گہما گہمی رہتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ عرب ہوٹل سے ایک ایک کرکے جدا ہوتے گئے۔ آخر میں صرف چراغ حسن حسرت صاحب اور باری علیگ عرب ہوٹل کی رونقیں بحال کرنے کے لیے رہ گئے۔ حسرت صاحب فوجی اخبار کی ادارت سنبھالنے کے لیے دلّی چلے گئے تو عرب ہوٹل کی وہ گہما گہمی ختم ہو گئی جو لاہور کے ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے دم سے قائم تھی۔‘‘

    عرب ہوٹل سے میرا رابطہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ حسرت صاحب چلے گئے تو میں نے بھی عرب ہوٹل میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کر دیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔

    (اے حمید کے قلم سے)

  • ‘‘چراغ حسن حسرت’’  سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    ‘‘چراغ حسن حسرت’’ سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    اردو زبان میں سوانح اور آپ بیتیاں، شخصی خاکے اور ادبی تذکرے مشاہیر اور علم و ادب کی معروف ہستیوں کے درمیان نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، طعن و تشنیع، رنجش و مخالفت پر مبنی دل چسپ، بذلہ سنج، کچھ تکلیف دہ اور بعض ناخوش گوار واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے کون واقف نہیں‌…. وہ نہایت حساس شخصیت کے مالک اور تند خُو ہی نہیں‌ انا پرست بھی تھے۔ جس سے یارانہ ہوگیا، ہوگیا، اور جس سے نہ بَنی، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ اگر منٹو کی کسی وجہ سے کسی کو ناپسند کرتے تو پھر خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    اس پس منظر کے ساتھ یہ اقتباس پڑھیے جو آپ کو اپنے وقت کے چند بڑے ادیبوں‌ کے مابین نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا۔ اسے اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں‌ رقم کیا ہے۔

    ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’

    منٹو نے جھلّا کر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’

    مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے، ‘‘مقاماتِ حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہے یہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔

    منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’

    بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا، ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنّف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آگئے۔

    منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پَر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’

    مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تُو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’

    منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’

  • نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    مجید لاہوری کا نام طنز و مزاح نگاری اور معروف ادبی رسالے نمک دان کے مدیر کی حیثیت سے اردو ادب میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گا، لیکن نئی نسل کے باذوق قارئین کی اکثریت ان سے کم ہی واقف ہے۔ آج مجید لاہوری کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مجید لاہوری پاکستان کے نام وَر مزاح نگار اور مقبول کالم نویس تھے جنھوں نے نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں اپنی ظرافت اور حسِ مزاح پر داد پائی۔ مجید لاہوری کا رنگ جداگانہ ہے اور وہ اپنے ہم عصروں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ نمک دان پندرہ روزہ ادبی رسالہ تھا جو ملک بھر میں مقبول تھا جب کہ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں شایع ہوتے تھے اور علمی و ادبی حلقوں‌ کے علاوہ عام لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ مجید لاہوری کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کی بات کرتے اور بالخصوص اپنے کالموں میں‌ مسائل پر ظریفانہ انداز میں اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرواتے۔

    26 جون 1957 کو مجید لاہوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں ایشین انفلوئنزا نامی وبا پھیلی تھی اور مجید لاہوری بھی اس کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے مجید لاہوری نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ محکمہ پبلسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 1947 میں کراچی آگئے اور انصاف، انجام اور خورشید میں خدمات انجام دینے کے بعد قومی سطح کے کثیرالاشاعت روزنامے سے وابستہ ہوگئے اور "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ ان کا آخری کالم بھی ان کی وفات سے ایک روز قبل شایع ہوا تھا۔

    وہ لحیم شحیم، اور خوب ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ وہ پہلوان رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ مجید کا حلیہ اس طرح بیان کیا، ’بال کبھی مختلفُ البحر مصرعے ہوتے، کبھی اشعارِ غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کُھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے، معلوم ہوتا لالہ زار کِھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا۔‘

    مجیدؔ لاہوری نے طنز و مزاح کے لیے نثر اور نظم دونوں اصناف کا سہارا لیا۔ ان کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، ناہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان کے قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    تحریف کے وہ ماہر تھے۔ اور اس کے ذریعے نہایت شگفتہ اور لطیف پیرائے میں‌ اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا دیتے تھے۔ مجید لاہوری نے نہ صرف اپنی تحریروں سے نمک دان کو سجایا بلکہ ملک بھر سے ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تحریروں کا انتخاب کر کے قارئین تک پہنچاتے رہے۔

    ان دنوں ملک میں گویا مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور مزدور پیشہ یا غریب تو روزی روٹی کو ترس ہی رہا ہے، مگر ایک برس کے دوران متوسط طبقہ اور تنخواہ دار افراد بھی اس گرانی کے سبب نڈھال ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مجید لاہوری کی یہ نمکین غزل ملاحظہ کیجیے۔

    چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
    لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

    از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
    کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

    مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہو جائے گا
    ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
    کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

    آج اس ملک میں رہائشی مقصد کے لیے زمین اور اس پر گھر تعمیر کروانا تنخواہ دار طبقہ کے لیے ممکن نہیں‌ رہا۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی گھر خریدنے کا تصور بھی نہیں‌ کرسکتی اور کرائے کے گھروں میں ان کا قیام ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر ایسے ہی لوگوں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔

    چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
    رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

  • ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس:: خادم بیٹا یہ کیسا شور ہے اور فائرنگ کی آوازیں کیسی ہیں؟

    خادم:: امّی حضور! پریشان نہ ہوں کبیر صاحب کے ہاں پانچ بکرے اور دو بیل آئے ہیں۔ اس خوشی میں فائرنگ ہو رہی ہے۔“

    ساس:: ہاں بھئی خوشی کا موقع ہے، خادم بیٹا! تم کب لا رہے ہو جانور؟

    خادم:: امی حضور میں تو روز جاتا ہوں۔ جانوروں کے دام میرے ہوش اڑا دیتے ہیں۔ جانور اتنا مہنگا ہے معلوم نہیں خرید بھی پاؤں گا کہ نہیں؟

    بہو:: آپ کے ہوش کا کیا ٹھکانہ خادم! وہ تو سستی اشیاء دیکھ کر بھی اڑ جاتے ہیں، اب لے ہی آئیں، ہاں اس بار تگڑا بکرا لائیے گا، دو سال سے ایسا کمزور جانور آرہا ہے کہ میرے میکے والو ں کا حصہ تو لگتا ہی نہیں، اس دفعہ پنکی کو ران بھی ضرور جائے گی۔

    ساس:: کیوں بھئی پنکی کے لیے ران اتنی لازمی کیوں ہے؟ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری میں خود رکھوں گی، رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں بھون کر کھلاؤں‌ گی۔

    بہو:: ایک رانی اور ایک پنکی کو چلی جائے گی۔ ہو سکے تو دو بکرے لے آئیے گا، دو رانیں گھر میں رکھ لیں گے اس سے جھگڑا بھی نہیں ہوگا اور انصاف سے سب کا حصہ بھی لگ جائے گا۔“

    بیٹا:: یہاں تو ایک ہی کے لالے پڑ رہے ہیں بیگم صاحبہ نے دو کی فرمائش کردی۔

    ساس:: ہاں بھئی بڑی دیالو ہیں تمہاری بیگم۔ منہ دھو رکھو ملکہ، تمہارے میکے میں گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں جائے گا اور پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگزنہ مانوں۔“

    بیٹا:: ملکہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے امی اور پھر رانی کی شادی کو دس سال ہو گئے۔ ران ہر سال رانی ہی کو جاتی ہے، پنکی کی شادی کو تو ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں، دو بکرے آگئے تو ایک ران پنکی کو بھی چلی جائے گی۔ ملکہ تم دل چھوٹا نہ کرو، دعا کرو دو بکرے مل جائیں تو بہن اور سالی دونوں کا حق ادا کر دوں گا۔“

    ساس:: بک بک بند کر، بس چُپ کر

    بیٹا:: ابھی تو میں جانور لینے گیا تک نہیں اور شروع ہو گیا ساس بہو کا سالانہ جھگڑا۔ میں منڈی جارہا ہوں۔
    ٭٭٭
    ساس:: سات گھنٹے ہو چلے ہیں خادم کو گئے ابھی تک نہیں آیا اور بہو! تم کیا کھاتہ کھول کر بیٹھ گئیں؟

    بہو:: رش بھی تو بہت ہوتا ہے۔ آجائیں گے، پریشان نہ ہوں، ہاں میں فہرست بنا رہی ہوں گوشت کے حصوں کی۔“

    ساس:: میں بھی تو سنوں کیا فہرست بنا رہی ہو؟

    بہو:: ایک ران پنکی کی۔

    ساس:: ہرگز نہیں، اللہ رکھے ایک ہی تو میری بیٹی ہے وہ بھی تمہاری نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہے۔

    بہو:: میری بھی ایک ہی بہن ہے جس کا نام آتے ہی آپ انگارے چبانے لگتی ہیں۔

    ساس:: کیوں نہ چباؤں انگارے وہ کلموہی میری بچّی کا حق مارے، میں کچھ نہ کہوں۔ تم اگر ملکہ ہو بہو بیگم تو میں بھی نواب بیگم ہوں، تم سیر ہو تو میں سوا سیر۔“

    بیٹا:: ساس بہو میں کیا تکرار ہو رہی ہے؟ یہ لیجیے آ گیا ہمارا بکرا۔

    ساس:: جیتے رہو بیٹا، کیسا پیارا صحت مند بکرا لائے ہو، پھٹکری دینا بیٹا نظر اتار دوں۔ نظر نہ لگ جائے کہیں میرے پیارے بکرے کو۔

    بہو:: نظر بعد میں اتروائیے گا خادم، پہلے میری سن لیجیے، اس بار ران میری پنکی کو ضرور جائے گی اور پائے امی کے گھر جائیں گے۔ میرے سارے بہن بھائی بھرپور گوشت بھیجتے ہیں اور میں بیچاری۔“

    ساس:: ہاں ہاں تم بیچاری، درد کی ماری، ارے سب سمجھتی ہوں تمہارے چلتر پن کو، کچا گوشت بیشک میکے نہیں بھیجتیں لیکن گوشت پکا کرخوب بھر بھر میکے والوں کی دعوتیں جو کرتی ہو اس کا کوئی ذکر ہی نہیں، مجھ سے پوچھتی تک نہیں کہ
    بتا اماں، تیری رضا کیا ہے

    غضب خدا کا میرے بیٹے کی خون پسینے کی کمائی اپنے میکے والوں پر ایسے لٹاتی ہے جیسے اس پر ان ہی کا تو حق ہے۔ سن لو ملکہ عالیہ پائے تو میں رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں پکاؤں گی۔ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری کا ران روسٹ بناؤں گی۔

    بہو:: اور میں نے بھی کہہ دیا پنکی سسرال میں نئی ہے۔ ران اگر پرانی بیاہی رانی کو جائے گی تو میری پنکی کو بھی جائے گی۔

    ساس:: کیسے جاتی ہے پنکی کو ران؟ میں بھی دیکھتی ہوں، انھیں خیال نہ آیا کہ میں اپنی ملکہ آپا کے لیے ران بھیج دوں، اتنا بڑا بیل آیا تھا، ایسی کنجوس کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں۔

    بہو:: ران ہی تو نہیں بھیجی تھی پنکی نے، گوشت کیسا بھرپور بھیجا تھا میری بہن نے، دیکھ کر پانی بھر آیا تھا آپ کے منہ میں، سب یاد ہے مجھے آپ کی فرمائشیں، جیسے ہی گوشت آیا، آپ کی رال ٹپکنے لگی تھی، اے بہو! اس کی تو بریانی پکا لینا، خاص بریانی کا گوشت ہے، جب میں نے بریانی پکائی تو ڈکار پر ڈکار لے رہی تھیں لیکن کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچ رہی تھیں، ہڈیاں تک اچھی طرح سے سوتی تھیں۔ آپ کا تو وہ حال تھا ”جان جائے خرابی سے ہاتھ نہ رکے رکابی سے۔“

    ساس:: ہاں بہو کم ظرفی دکھاؤ، یہی ہے تمہاری اوقات۔ دو نوالے کیا کھا لیے اس کو اتنا بڑھاوا دے رہی ہو۔ سن رہے ہو خادم، اپنی بیگم کی گز بھر کی زبان کیسے ماں کی بے عزتی کر رہی ہے اور تم منہ بند کیے بیٹھے ہو زن مرید، پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں چاہے آج زمین آسمان ایک کر دے۔“

    بہو:: میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک ران پنکی کو ضرور جائے گی، مما پپا ہمیشہ پنکی کے نام کی ایک ران الگ رکھتے ہیں۔“

    ساس:: تو کہو اپنے اماں باوا سے نبھائیں اپنی روایت۔ ایک کیا چار رانیں بھیجیں پنکی کو۔ دس سال تو تمہاری شادی کو ہوگئے، آج تک ایک ران بھی نہ بھیجی اماں باوا نے تمہارے واسطے۔ وہ پنکی بیگم کہاں کی نواب زادی ہیں جن کے لیے ایک ران لازمی ہے۔

    بہو:: نواب زادی تو آپ کی رانی ہے مہا رانی، دختر نواب بیگم۔ خادم کیوں منہ بند کیے بیٹھے ہیں کچھ تو کہیے۔

    ساس:: ”ہاں بیٹا تم بھی ساز چھیڑ دو تم کیوں خاموش ہو۔“

    خادم:: کروں تو کیا کروں اور کہوں تو کیا کہوں؟ میں غریب۔

    ساس::
    کہ دو تم بھی اپنے دل کی بچے
    تم تو ہو ہی من کے سچے

    بہو:: ہاں آپ بھی بھڑاس نکال لیں کہیں دل کے ارمان دل ہی میں نہ رہ جائیں۔

    خادم:: دل کے تار سلامت ہوں گے تو ارمان نکلیں گے، میرے تو حواس بھی چھوٹے جا رہے ہیں ساس بہو کے جھگڑے میں۔

    بہو:: بند کریں خادم اپنا راگ۔ آپ کے دل کے تار ٹوٹیں یا حواس چھوٹیں میری پنکی کو ران ضرور جائے گی۔“

    ساس:: اگر تم کھال اتارنے میں ماہر ہو بہو! تو میں بھی کھال کھینچنے میں کسی سے کم نہیں۔

    بیٹا:: (منمناتے ہوئے) کھال میں لُوں گا۔

    ساس:: خادم بیٹا تمہیں کھال کی اچھی سوجھی۔ کیا کرو گے کھال لے کر؟

    بیٹا:: یتیم خانے میں دوں گا امی حضور۔

    ساس:: کیوں دو گے یتیم خانے میں؟ یتیم تم بھی ہو اور میں بھی تمہارے باپ کو مرے پانچ برس اور میرے باپ کو مرے پچّیس سال ہوگئے، زیادہ حق میرا بنتا ہے، اس لیے کھال تو میں ہی لوں گی۔ یوں بھی میں نے غفار بھائی سے پہلے ہی معاملہ طے کر لیا ہے۔ ان کے ہاتھوں فروخت کروں گی۔

    بہو:: فرمائش بھی دل والوں سے کرتے ہیں خادم! مجھ سے کہتے اپنا دل چیر کر رکھ دیتی آپ کے آگے۔

    ساس:: ہاں بھئی ”ماں سے بڑھ کر چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے“ بی کٹنی نکلتا کیا تمہارے دل سے۔

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

    بہو:: ظاہر ہے جب سارا لہو آپ نچوڑ لیں گی تو بچے ہی گا کیا؟ خادم آپ لے لیجیے گا کھال۔

    ساس:: کباب میں ہڈی آپ خاموش رہیں تو بہتر ہے، ہاں خادم بیٹا! غفار بھائی سے میں کھال کے بدلے میں بچھیا خریدوں گی اپنی رانی بٹیا کے لیے۔

    بہو:: آپ بھی ساون کی اندھی ہیں ادھر قربانی کے جانورکی بات چلی ادھر آپ کو ایسی ہری ہری سوجھتی ہے کہ باغ کا سبزہ بھی ماند پڑ جاتا ہے۔

    ساس:: تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے لیکن میں بھی میں ہوں۔ کھال کا جو فیصلہ میں نے کر لیا سو کر لیا۔ اب میں کسی کی نہیں مانوں گی۔ ہرگز بھی نہ مانوں۔

    بہو:: میں بھی دیکھتی ہوں کیسے نہیں مانیں گی؟ کیسے جاتی ہے آپ کی رانی کو ران؟

    ساس:: رانی کے ابا حضور کا ذوق اچھا تھا بکرا ایسا لاتے دیکھ کر میرا دل خوش ہوجاتا اور پھر رانی کی فرمائش پر ایسا سجاتے کہ سارا محلہ اکٹّھا ہو جاتا، خادم بیٹا تم! بھی اپنے بکرے کو ویسا ہی سجا کر اپنے ابا حضور کی یاد تازہ کر دو۔

    بہو:: باسی یادیں تازہ کرتے ہوئے پنکی کو نہ بھول جائیے گا۔ اگر رانی مہارانی کو ران جائے گی تو پنکی بھی محروم نہیں رہے گی۔

    ساس:: اس کا فیصلہ بھی ابھی ہو جاتا ہے، اچھا خادم یہ بتاؤ بیٹا ”بکرا کس کے نام کا ہے؟“

    خادم:: یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ آپ کے نام کا ہوتا ہے آپ کے نام کا ہوگا۔

    ساس:: سن لیا ملکۂ عالیہ، فیصلہ تو ہو گیا۔ میرے نام کا بکرا، میری مرضی جس کا جو حصہ لگاؤں۔

    بہو:: خادم اس بار میرے نام کی قربانی کر دیجیے۔“

    ساس:: ارے کیسے کر دے، کیوں بھئی خادم کس کے نام کی قربانی ہو گی؟

    بیٹا:: آپ کے نام کی امی حضور۔

    ساس:: شاباش میرے بیٹے شاباش، کیسا ماں کا دل رکھتا ہے میرا خادم۔

    بہو:: (روتے ہوئے) یہ نا انصافی ہے خادم کیا آپ کی کمائی پر میرا کوئی حق نہیں؟

    ساس:: ہے کیوں نہیں سارا سال تم ہی تو ڈکارتی ہو۔

    بہو::
    کر لو تم اپنی من مانی مہارانی
    اگلے برس ہوگی میری حکمرانی

    ہاں ساسو جی تم دیکھ لینا اگلے برس میرا راج ہوگا اور تمہاری ”میں“ کند چھری کی زد پہ ہوگی پھر کیسے کہو گی ”میں تو ہر گز نہ مانوں“

    ساس:: ارے تو کیا اگلے برس تم مجھے سولی پہ چڑھا دو گی؟ جب تک میں زندہ ہوں میری ”میں“ تند چھری کی زد پہ رہے گی۔

    میں نے کبھی کسی کی نہ مانی ہرگز بھی نہ مانی
    میں ہُوں اپنی ”میں“ کی رانی سُن لو میری بہو رانی

    اور ہاں پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز بھی نہ مانوں۔
    ٭٭٭٭
    بیٹا:: ہائے امی حضور میں لٹ گیا تباہ ہو گیا، ساس بہو کی کل کل نے سب ختم کردیا۔ ہائے میرے خون پسینے کی کمائی کیسے چٹ پٹ ہو گئی، ہائے میرا بکرا اتنا مہنگا خریدا تھا۔

    بہو:: کیا ہو گیا آپ کی امی حضور کے بکرے کو؟

    ساس:: کیا ہوا میرے بکرے کو؟

    بیٹا:: یہ سب آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے، آپ لوگوں کی میں میں نے برکت ہی اٹھا دی۔

    ساس بہو:: ہوا کیا ہے؟

    بیٹا:: امی حضور بکرا نہیں ہے۔

    ساس:: بکرا نہیں ہے؟ فجر کی نماز پڑھ کر تو میں نے خود اسے چارا دیا ہے۔

    بہو:: قربانی کا جانور اور نیت اچھی نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ساس حضور۔

    ساس:: اری چپ کر بدبخت
    ہستی ہی تیری کیا ہے بھلا میرے سامنے

    ہائے خادم بیٹا! میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے، ہائے میرے بچے کہیں سے بکرا ڈھونڈ کر لاؤ، اب میں کیا کروں گی، ہائے میرا بکرا۔

    بیٹا:: کہاں سے لاؤں امی حضور؟

    ساس:: ہائے بیٹا! میرا بکرا

    بہو:: ہائے امی کی نیت کھا گئی بکرے کو

    ساس:: میری نیت یا تمہاری پنکی کی نیت؟

    بیٹا:: ختم کریں بک بک جھک جھک۔ آپ دونوں کی میں میں سے بکرا گیا ہاتھ سے، ار ے ایک کی نہیں دونوں کی نیت خراب ہے

    ہائے بکرا، وائے بکرا
    کھا گیا دونوں کا جھگڑا

    (تحریر: شائستہ زریں ؔ)

  • جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    مرزا اسد اللہ خاں غالب کے واقعاتِ اسیری کے بابت بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ کے لوگ وضع داری اور پردہ پوشی کے قائل تھے۔ وہ شخصی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ غالب نے بھی اپنے واقعۂ اسیری کو اپنی ’’بے آبروئی‘‘ تصوّر کرتے ہوئے اس کا عام ذکر نہیں کیا۔ لیکن ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ ان پر الزام قمار بازی کا تھا۔

    ہمارا مقصد اردو کے اس عظیم شاعر کو بدنام اور بعد از مرگ اُن کی شہرت کو ‘داغ دار’ کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں ہم اس تمہید کے ساتھ جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ سے متعلق چند اقتباس نقل کررہے ہیں جو پاکستان کے نام وَر مؤرخ، محقق اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے لیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

    ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا۔

    روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاح برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔

    خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سَر اڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاح نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا۔

    یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قید خانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والٹیر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا۔

    برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لیے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سَر کو اٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سَر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی۔

  • ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    پرسوں میں نے کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی سنچری اور اپنی زندگی کی نصف سنچری ایک ساتھ مکمل کر لی تو سوچا کہ کیوں نہ اس مبارک و مسعود موقع کو سیلبریٹ کیا جائے۔

    یہ اعزاز کسے ملتا ہے کہ سواں مکان شروع اور زندگی کا پچاسواں سال ختم ہو۔ یہ حسنِ اتفاق نہیں، عشقِ اتفاق ہے۔

    میں خوشی خوشی گھر پہنچا تو بیوی کو افسردہ و رنجیدہ پایا۔ میں نے کہا: ’’بہت اداس دکھائی دیتی ہو۔ کیا نیا مکان تمہیں پسند نہیں آیا۔‘‘ بولی ’’تمہاری رفاقت میں آج تک میں نے اَن گنت مکان بدلے۔ کبھی کسی مکان کے بارے میں شکایت کی؟‘‘ میں نے کہا ’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے ہی یہ شکایت ہے کہ اتنے مکان بدلنے کے باوجود تم نے میرا ساتھ اور ہاتھ نہیں چھوڑا۔‘‘ بولی ’’اگر میں مکانوں کے بدلنے میں ہنسی خوشی تمہارا ساتھ نہ دیتی تو تم مکان بدلنے کی بجائے بیویاں بدلتے اور اس کوشش میں ایک نہ ایک دن کہیں گھر داماد لگ جاتے۔‘‘

    میں نے کہا ’’بات کیا ہے؟ تم نہ صرف اداس نظر آتی ہو بلکہ لڑائی کے موڈ میں بھی ہو۔‘‘ بولی ’’ایک بری خبر ہے، خدا کرے کہ جھوٹی ہو، ابھی ابھی تمہارے بھتیجے نے آکر یہ اطلاع دی ہے کہ 25 سال پہلے تم جس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ممبر بنے اس نے بالآخر مکان بنا لیے ہیں یہ کہ تمہیں اب اپنا مکان ملنے ہی والا ہے۔‘‘ اس اطلاع کو سن کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ پیروں تلے سے مکان سمیت زمین نکلنے لگی۔ میں نے سوچا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اور اپنا ذاتی مکان! زندگی کے 50 برس بیت چکے ہیں اب میں اپنا مکان لے کر کیا کروں گا۔

    میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بیوی نے کہا ’’کسی سوچ میں پڑ گئے، بتاؤ اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے بیوی پر قابو پانے کی خاطر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا ہے، اگر ذاتی مکان ملتا ہے تو اس میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ تو ذاتی مکان کے لیے ترستے ہیں۔ یہ اداس ہونے کی نہیں خوش کی بات ہے۔‘‘ بولی ’’مگر میرے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے۔ کرایہ کے مکان میں ازدواجی زندگی کا جو لطف ہے وہ ذاتی مکان میں کہاں۔ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تھی کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جس دن تمہیں اپنا مکان مل جائے گا تم اپنی ساری توجہ مجھے بنانے سنوارنے کی بجائے مکان کو بنانے سجانے میں صرف کر دو گے۔ میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی مکان کو حائل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ پھر ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ تمہارا زیادہ وقت مکانوں کے مالکوں سے لڑنے یا انہیں خوش کرنے میں گزرتا ہے۔
    مجھ سے لڑنے کی تمہیں مہلت ہی نہیں ملتی۔ جس دن مالک مکان ہم دونوں کے بیچ سے نکل جائے گا، ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ یہ ایک جنگی حکمت عملی ہے جس کے باعث ہمارے گھر میں دائمی اور پائیدار امن قائم ہے۔ میں گھریلو اور عالمی امن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہوں۔ چاہے مجھے ذاتی مکان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔‘‘

    زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیوی کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا۔ میں نے کہا ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اب کرایہ کے مکانوں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جس آدمی نے فی برس دو مکانوں کے حساب سے اپنی جائے رہائش تبدیل کی ہو، اس کی خانہ بدوشی کو کم از کم تمہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے۔
    اپنی تو ساری زندگی اس طرح گزری کہ ایک پاؤں ایک مکان میں ہے اور دوسرا پاؤں دوسرے مکان میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں مکانوں کو بدلتے بدلتے مکاں سے لامکاں تک پھیل گیا ہوں۔ میں مکان میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ میں مکان کے اندر ہوں اور مکان میرے اندر ہے۔ کرایہ کے مکانوں کی برکتوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید کوئی اور ہو، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں وہ کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا تھا۔ مالک مکان نے تین چار مہینوں تک ہمیں ہنی مون منانے کی اجازت دے دی۔ پانچویں مہینے سے اس نے کرایہ کی ادائیگی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس سے منہ چھپاتا پھرا۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا ’’آخر تم کرایہ کیوں ادا نہیں کرتے؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ بے روزگار ہوں۔ کہیں نوکری لگے تو کرایہ بھی ادا کروں۔‘‘ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ مالک مکان کئی دنوں تک میری ملازمت کی خاطر جوتیاں چٹخاتا پھرا۔ جگہ جگہ میری درخواستیں دیں۔ بالآخر اس نے مجھے نوکری سے لگا دیا۔ تنخواہ سے سارا کرایہ وصول کیا اور اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)

  • البرٹ کامیو اور انیس ناگی

    البرٹ کامیو اور انیس ناگی

    انیس ناگی کامیو کے فلسفۂ لایعنیت کے حامی تھے، ان کے نالوں میں کامیو کی تحریروں کی پرچھائیاں ملتی ہیں کامیو الجزائرکے مشہور فلسفی اور معروف ناول نگار تھے۔

    سارتر کی طرح وہ بھی وجودیت کے حامی تھے اور انفرادی آزادی کے بڑے پُرجوش حامی تھے۔ ان کے ناول’’ دی پلیگ‘‘ (The Plague)،’’ دی فال‘‘ (The Fall) اور’’ دی آؤٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) اب تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتاب سسی فس کی کہانی (Myth of Sisfus) کو بھی بہت پذیرائی ملی۔

    ان ساری کتابوں میں جہاں کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل دیے وہاں وہ یہ منطق بھی پیش کرتے ہیں کہ انفرادی آزادی کے بغیر حیاتِ انسانی جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتی ہے، اس کے نتیجے میں زندگی مطلق طور پر لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ زندگی کی اس بے معنونیت (Absardity) کو ختم کرنے کا نسخۂ کیمیا وہ اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں۔

    کامیو کا ناول طاعون (The Plague) دراصل دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیا، جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا تھا۔ فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا اور کامیو نے اس استعماریت کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی لیکن اس نے جرمنی کے فرانس پر قبضے کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی۔ جنگ کے بعد طاعون پھیل گیا تھا۔ کامیو نے طاعون کو جنگ کے استعارے کے طور پر استعمال کیا۔

    جنگ کتنی خوفناک چیز ہے اور اس کے کتنے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسانوں کی زندگیاں کس طرح بے معنیٰ ہو جاتی ہیں، اس کا اظہار کامیو نے بڑے ارفع طریقے سے اپنے اس ناول میں کیا ہے۔

    اس طرح اپنے ناول ’’اجنبی‘‘ (Outsider) میں بھی اس نے مغائرت (Alienation) کے پس پردہ محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ انسان کس طرح اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن جاتا ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو اجنبیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کامیو نے انتہائی نفاست سے محاکمہ کیا ہے۔ اب ذرا انفرادی آزادی پر بات ہو جائے۔

    سارتر اور کامیو اس نظریے کے حامی ہیں کہ جب تک اشتمالیت اور وجودیت (Communism and Existentialism) کو ساتھ ملا کر نہیں چلایا جاتا، اس کرۂ ارض کے انسانوں کو حقیقی مسرت سے سرفراز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دو فلسفوں کا مرکب ہی انسانی زندگی کے لیے سکھ کا پیغام لا سکتا ہے۔

    ان کے خیال میں مارکسزم انفرادی آزادی کو کچل دیتا ہے جس سے انسان کی روح تک تڑپ اٹھتی ہے۔ کامیو کہتا ہے کہ موت ایک لایعنی چیز ہے لیکن اگر زندگی موت سے بھی لایعنی ہو جائے تو پھر جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر انسان کو خاموشی سے اس دنیا کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔

    کامیو کے ناول سسی فس کی کہانی لایعنیت کا استعارہ ہے۔ سسی فس یونانی اساطیری کردار ہے جس کو آگ چرانے کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا کیا تھی۔ ایک ڈھلوان سے دوسری ڈھلوان تک پتھر لڑکھانے کی سزا تھی۔ کامیو کے نزدیک یہ ایک لایعنی عمل تھا۔ اس کو بنیاد بنا کر کامیو انسانی زندگی کی بے معنویت کی مختلف شکلیں پیش کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کی گاڑی چلانے والے کروڑوں لوگ دراصل ایک لایعنی زندگی گزار رہے ہیں۔

    ان کا اسلوبِ حیات مجبوریوں کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے اور ان زنجیروں سے انہیں موت تک نجات نہیں ملتی۔ وہ ان زنجیروں کو توڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ غلامی کا طوق ان کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ جسے وہ صرف دیکھ سکتے ہیں، اس سے نفرت کر سکتے ہیں اور کبھی کبھی ان کے دل میں بغاوت کا خیال بھی آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ شاید لایعنی زندگی گزارنا ہی ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔

    بسا اوقات کامیو کی تحریریں قاری کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیتی ہیں۔ قاری کو کہیں امید کا سورج نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن کامیو اتنا بھی قنوطی نہیں۔ وہ کافکا کی طرح ہر چیز کا منفی پہلو سامنے نہیں لاتا۔ اس کی تحریروں میں رجائیت کی روشنی بھی ملتی ہے۔

    اس میں کامیو کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے جبر و ستم کی داستانیں رقم ہوتی ہوئی دیکھیں۔ وہ الجزائر کے عوام پر فرانسیسی مظالم دیکھ کرناقابلِ بیان کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے ان مظالم پر شرم آتی ہے۔

    البرٹ کامیو کی موت 47 برس کی عمر میں ایک کارحادثے میں ہوئی تھی۔ موت کا یہ انداز بھی لایعنی تھا۔ انیس ناگی نے ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی۔ وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔

    وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے پر تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ وہ وجودیت اور انفرادی آزادی کے علمبردار تھے۔ تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کو متأثر کیا۔ ان میں ’’ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری، تنقیدِ شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔ اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

    انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔ مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکسزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کا انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔

    جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ ’’دیوار کے پیچھے میں اور وہ اور زوال‘‘ میں جا بجا ہمیں البرٹ کامیو کے فلسفے کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ یعنی انفرادی آزادی۔ اجتماعی آزادی کافی نہیں، انفرادی آزادی بھی مقدم ہے لیکن انفرادی آزادی کی حد کیا ہے؟ اس کی کوئی واضح شکل نظر نہیں آتی۔

    بعض اوقات تو قاری کو اس امر کا شدید احتجاج ہوتا ہے کہ انیس ناگی لامحدود انفرادی آزادی کے حامی ہیں۔ اور یہ انفرادی آزادی انارکی کی حدوں کو چھوتی نظرآتی ہے۔ یعنی ایسی آزادی جس میں کسی نظم و ضبط کی کوئی پابندی نہیں۔ کیا ایسی زندگی بنی نوع انسان کے لیے جائز ہے یا قابل قبول ہے؟

    اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ بہرحال انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کے اس باغیانہ پن میں بھی البرٹ کامیو کے ناول ’’باغی‘‘ (The Rebel) کو کئی ایک مقامات پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔

    ’’میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔ ان کا ناول زوال بھی کامیو کے ناول (The Fall) کے سائے میں لکھا گیا ہے۔ کامیو اور انیس ناگی کی ایک اور مماثلت یہ ہے کہ دونوں خاصی حد تک ہم شکل تھے اور مرحوم انیس ناگی کو اس بات پر فخر بھی تھا۔

    ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیے۔ خاص طور پر پابلو نیرودا کی نظموں کا جتنا شان دار ترجمہ انہوں نے کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کامیو اور انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

    (از قلم: عبدالحفیظ ظفر)