Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو کو 1998ء میں نوبیل انعام کا حق دار تسلیم کیا گیا، لیکن وہ اس سے کافی عرصہ پہلے غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر اپنی پہچان ضرور بنا چکے تھے۔ حوزے سارا ماگو 76 برس کے تھے جب انھیں نوبیل انعام دیا گیا اور ان کا نام عالمی ادب کے افق پر چمکا۔ 18 جون 2010ء کو حوزے ساراماگو نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    1947ء میں حوزے ساراماگو نے اپنا پہلا ناول شائع کروایا تھا، اور بعد کے برسوں میں ان کے متعدد ناول اور تنقیدی مضامین منظرِ عام پر آئے جن کی بدولت عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو زبردست تخلیقی قوت کے حامل فکشن نگار کے طور پر پہچانا گیا۔

    براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک پرتگال کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی نام اصنافِ ادب میں اپنے منفرد کام کی بدولت دنیا میں معروف ہوئے۔ حوزے ساراماگو انہی میں سے ایک تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور اسی بناء پر یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں نوبیل انعام نہیں مل سکتا، لیکن وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ حوزے سارا ماگو کی تخلیقات کا نہ صرف کئی زبانوں بشمول اردو، ترجمہ ہوا بلکہ نوبیل انعام کی شکل میں ان کی فنی عظمت کو تسلیم اور ان کی تخلیقات کو سراہا گیا۔

    حوزے ساراماگو (Jose Saramago) نے ناول ہی نہیں تخلیق کیے بلکہ ان کے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے بھی قارئین تک پہنچے اور انھیں متاثر کیا۔ اس کے علاوہ حوزے سارا ماگو کے اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی پرتگالی ادب کا حصہ بنے اور بعد میں ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حوزے سارا ماگو 1922ء میں پرتگال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر افلاس کی آغوش میں شروع ہوا۔

    اسی غربت اور تنگ دستی کے دوران انھوں نے کسی طرح اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھنے لگے۔ انھوں نے دو سال یہی کام کیا۔ مزدوری اور مشقت کی عادت نوعمری میں پڑ گئی تھی اور ورکشاپ چھوڑنے کے بعد ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے چھوٹے چھوٹے کام اور مزدوریاں کرتے رہے۔ حوزے ساراماگو نے پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی تھیں۔ وہ سیاسی انتشار کے ساتھ سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اسی عرصہ میں انھیں ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت ملی، لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کے باعث یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1969ء میں ساراماگو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور پھر عملی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ وہ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

    حوزے ساراماگو نے 1966ء میں اپنی نظموں کا مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالموں اور ادبی تراجم میں منہمک ہوگئے۔ پرتگال میں ان کی ادبی تحریریں کی مقبولیت کے ساتھ انھیں ایک فعال ادبی شخصیت کے طور پر شہرت ملی۔ عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو ان کے ناول Blindness (جس کا اردو ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا گیا) نے پہچان دی۔ یہ ناول 1995ء میں سامنے آیا تھا جس کے تین برس بعد وہ نوبیل انعام کے مستحق قرار پائے تھے۔ اس پرتگالی ادیب اور ناول نگار کو ایک تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ حضرت عیسٰی کی زندگی پر مبنی ناول کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جسے پرتگال کی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نام زد ہونے سے روک دیا۔

    ساراماگو کی تحریر کی ایک خاص بات رمز ہے اور وہ استعارہ تشکیل کرتے ہیں اور جہاں جہاں وہ اس کی توضیح کرتے ہیں وہاں اس کے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ رموز اوقاف کو ثانوی سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول اکثر قارئین کے لیے صبر آزما ثابت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے قاری کہانی پر مکمل توجہ نہ دے سکے تو الجھن کا شکار اور کردار اور مکالمے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔

    ساراماگو کے ناول اندھے لوگ کی کہانی کے مرکزی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ ایک کار سوار کے اچانک بینائی سے محروم ہوجانے کی داستان ہے جو ایک مقام پر سگنل کے سبز ہونے کے انتظار میں ہے تاکہ آگے بڑھ سکے۔ سگنل سبز ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی کار آگے نہیں بڑھاتا، اور جب اس کی کار کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اسے دودھیا خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بے نام شہر میں اندھا ہونے والا یہ پہلا فرد ہے۔ یہ ایک ایسی وبا کا نتیجہ تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو صورت حال جنم لیتی ہے وہ تعجب خیز بھی ہے اور اس کے بطن سے واقعات پھوٹتے چلے جاتے ہیں، اس اندھے پن کا شکار ہونے والے پہلے فرد کے بعد اسی نوع کے اندھے پن کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جب یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے تو حکومت یہ سمجھتی ہے یہ کوئی ایسی بیماری ہے جو کسی اندھے سے دوسرے لوگوں کو لگ رہی ہے اور گویا یہ ایک وبا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب تک اندھے ہونے والے تمام لوگوں کو پکڑ کر ایک ایسی عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جو کبھی دماغی امراض کے مریضوں کے لیے مخصوص رہی تھی۔ کئی کرداروں پر مشتمل اس ناول نے حوزے ساراماگو کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کیا۔

    ساراماگو کے تخلیقی عمل کا محور اپنے ناول میں فرض کردہ واقعات کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی کسی کڑی کو بیان کرنا ہے جو انسانی تہذیب کا تماشا دکھاتی ہے۔ وہ اپنے فکشن میں ایک فرضی صورتِ حال اور کرداروں کے ساتھ انسانی معاشرت، سیاست، مذہب اور انسانی نفسیات کی قلعی کھولنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں اور اِن کا قاری اختتام تک ناول پڑھے بغیر نہیں رہ پاتا۔

  • پُل پر بیٹھا بوڑھا

    پُل پر بیٹھا بوڑھا

    ایک بوڑھا، جس نے اسٹیل کے کناروں والی عینک پہنی ہوئی تھی اور جس کے کپڑے بہت گرد آلود تھے، سڑک کے کنارے بیٹھا تھا۔

    یہاں دریا پر کشتیوں والا ایک پل تھا، چھکڑے، ٹرک، مرد عورتیں اور بچّے اس پر سے گزر رہے تھے۔ چھکڑوں کو خچر کھینچ رہے تھے، جو پل کی ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ سپاہی ان پہیوں میں ہاتھ ڈال کر ان کو چڑھنے میں مدد کر رہے تھے۔ ٹرک آگے بڑھ رہے تھے اور نظروں سے اوجھل ہوتے جا رہے تھے، ان کے پیچھے پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے ہوئے کسان گھٹنوں تک مٹی سے اٹے تھے مگر بوڑھا آدمی بنا کوئی حرکت کیے یہاں بیٹھا تھا۔

    میرا کام تھا کہ پل کو عبور کروں، آگے بڑھوں اور دیکھوں کہ دشمن کتنی پیش قدمی کر چکا ہے۔ میں نے ایسا کیا اور واپس پل پر لوٹ آیا۔ اب یہاں زیادہ چھکڑے نہیں تھے اور چند لوگ ہی تھے، جو پیدل عبور کر رہے تھے مگر بوڑھا آدمی اب بھی یہاں موجود تھا۔

    ”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“ میں نے اس سے پوچھا۔

    ”سین کارلوس سے“ اس نے کہا اور مسکرایا۔

    یہ اس کا آبائی گاؤں تھا، اس لیے اس کے ذکر نے اسے خوشی دی، تب ہی وہ مسکرایا ”میں جانوروں کی دیکھ بھال کررہا تھا۔“ اس نے وضاحت کی۔

    ”اوہ!“ میں نے کہا، مگر میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔

    ”ہاں“ اس نے کہا، ”میں وہاں رہا، تم نے دیکھا میں جانوروں کی حفاظت کر رہا تھا، میں وہ آخری آدمی تھا، جس نے سین کارلوس گاؤں چھوڑا۔“

    وہ گڈریا نہیں لگتا تھا نہ ہی چرواہا۔ میں نے اس کے سیاہ گرد آلود کپڑوں کی طرف دیکھا اور اس کے دھول میں اٹے ہوئے سانولے چہرے کو اس کی اسٹیل کے کناروں والی عینک کو اور پوچھا ”وہ کون سے جانور تھے؟“

    ”مختلف جانور“ اس نے کہا اور اپنے سر کو ہلایا، ”مجھے ان کو چھوڑنا پڑا۔“

    میں پل کو دیکھ رہا تھا اور ابروڈیلٹا کے افریقہ جیسے دِکھنے والے ملک کو اور حیران ہو رہا تھا کہ اب وہ وقت کتنا دور ہے، جب ہمارا سامنا دشمن سے ہوگا۔ میں غور سے اس پہلے شور کو سننے کی کوشش کر رہا تھا، جو کہ اشارہ ہوگا کہ دشمن قریب ہے۔ بوڑھا آدمی اب بھی وہاں بیٹھا تھا۔

    ”وہ کون سے جانور تھے؟“ میں نے پوچھا

    ”وہاں تین جانور اکٹھے تھے“ اس نے وضاحت کی، ”وہ بکریاں ایک بلّی اور کبوتروں کے چار جوڑے تھے۔“

    ”اور آپ نے ان کو چھوڑ دیا تھا؟“ میں نے پوچھا

    ”ہاں۔ فوج کی وجہ سے۔ کپتان نے مجھے جنگی سامان توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

    ”اور آپ کا خاندان نہیں گیا؟“ میں نے پل کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، جہاں چند آخری چھکڑے جلدی جلدی ڈھلوان پارکررہے تھے۔

    ”نہیں“ اس نے کہا، ”صرف جانور میں نے کہا ناں، بلی یقیناً وہ ٹھیک ہوگی۔ بلی اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے مگر میں نہیں جانتا دوسروں کا کیا بنے گا۔

    ”میں سیاست کے بغیر ہوں اس نے جواب دیا، ”میری عمر چھہتر برس ہے۔ میں بارہ کلو میٹر سفر کر کے آیا ہوں اور اب میرا خیال ہے کہ مزید نہیں چل سکتا۔“

    ”یہ رکنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔“ میں نے کہا، ”اگر آپ تھوڑی ہمت کریں تو سڑک پر کافی ٹرک جا رہے ہیں جو تمہیں ٹورٹو سانک پہنچا دیں گے۔“

    ”میں کچھ انتظار کروں گا۔“ اس نے کہا، ”اور پھر میں چلا جاؤں گا۔ ٹرک کس طرف جا رہے ہیں؟“

    ”بارسلونا کی طرف۔۔“ میں نے اسے بتایا۔

    ”میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی اس سمت پر نہیں ہے“ اس نے کہا، ”مگر آپ کا شکریہ، آپ کا ایک بار پھر بہت شکریہ۔“

    اس نے میری طرف بہت خالی اور تھکی ہوئی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اپنی پریشانی کسی دوسرے کے ساتھ بانٹ رہا ہو۔ وہ بولا، ”بلی بالکل ٹھیک رہے گی۔ مجھے یقین ہے۔ بلّی کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر دوسرے۔۔۔ آپ دیگر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟“

    ”شاید وہ بھی اس سب سے نکل آئیں اور ٹھیک رہیں۔“

    ”تمہیں ایسا لگتا ہے؟“

    ”کیوں نہیں۔“ میں نے پل کے کنارے کی طرف دور تک دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں اب مزید چھکڑے نہیں تھے۔

    ”مگر وہ لوگ توپ خانے سے کیا کریں گے۔ جب کہ مجھے توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

    ”کیا آپ نے کبوتروں کے پنجرے کا تالا کھول دیا تھا؟“ میں پوچھا۔

    ”ہاں“

    ”پھر وہ اڑ جائیں گے۔“

    ”ہاں، وہ ضرور اڑ جائیں گے۔۔ مگر دوسرے۔۔۔ دوسروں کے بارے میں سوچنا شاید بہتر نہیں۔“ اس نے کہا ”اگر آپ نے آرام کر لیا تو میں جاؤں۔“

    میں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”اٹھیے اور چلنے کی کوشش کیجیے۔“

    ”آپ کا شکریہ۔“ اس نے کہا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔۔ وہ ادھر ادھر جھولتا اور پھر گرد آلود راستے پر بیٹھ جاتا۔

    ”میں جانوروں کا خیال رکھ رہا تھا۔“ اس نے دھیمی آواز میں کہا مگر اس کی آواز مجھ تک نہیں آئی۔ ”میں صرف جانوروں کا خیال رکھتا تھا۔“

    میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ایسٹر کا اتوار تھا اور فسطائی اصولوں کے پیروکار اِبرو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ یہ ایک سرمئی دھندلکے والا دن تھا، دھیمی پرواز والا۔۔ پس ان کے منصوبے زیادہ بلند نہیں تھے۔ اور یہ سچ ہے کہ بِلیاں جانتی ہیں کہ اپنا خیال کیسے رکھا جا سکتا ہے اور بس یہی ایک خوش قسمتی تھی جو اس بوڑھے آدمی کے ساتھ تھی۔

    (ارنسٹ ہیمنگوے کا افسانہ، جس کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    متحدہ ہندوستان میں‌ شمسُ العلما مولوی سیّد ممتاز علی کا نام ان کے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ انہی کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَر ورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔ وہ 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    محمدی بیگم کے 1908ء میں انتقال کرجانے کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور اردو کے نام ور ادیب اور ڈرامہ نگار تھے۔

  • پیار کا پہاڑ

    پیار کا پہاڑ

    قدیم دور میں سندھ کا شہر اروڑ یا الور کئی راجاؤں کا پایۂ تخت رہا ہے۔

    اروڑ، سکھر میں‌ روہڑی سے چند میل کی مسافت پر جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اروڑ پر چندر ونسی راجاؤں کی 450ء سے 642ء تک حکم رانی رہی جن کو تاریخ میں‌ رائے گھرانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ چندر ونسی گھرانے نے 1100 قبلِ مسیح میں اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جب سکندر نے اپنی فوجوں کا رخ ہندوستان کی جانب موڑا اس وقت یہاں کا موسیکانوس کی حکومت قائم تھی جب کہ رائے سہاسی کے زمانے میں نمروز ایرانی نے حملہ کیا تھا۔ قدیم دور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں‌ دل چسپی رکھنے والے بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں اروڑ بڑی بندرگاہ بھی رہا ہے۔ اس شہر اور بندرگاہ کا ذکر ہمیں‌ چچ نامہ کے علاوہ تحفتُہ الکرام جیسی اہم اور مسنتد کتب میں‌ بھی ملتا ہے۔

    اسی اروڑ میں‌ ’’پیار کا پہاڑ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس قدیم مقام سے ایک پہاڑی سلسلہ تاریخی شہر کوٹ ڈیجی سے ہوتا ہوا نارو کے صحرا تک جا پہنچتا ہے جس میں یہ چھوٹا سا پہاڑ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ زمین کی سطح سے تین سو فٹ اونچا پیار کا پہاڑ اپنی بنیادوں کے ساتھ دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کے آمنے سامنے دو دراڑیں ہیں، جنھوں نے پہاڑ کو چار حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان میں سے تین حصّے آج صحیح حالت میں موجود ہیں، لیکن چوتھا حصّہ خاصی حد تک منہدم ہوچکا ہے۔

    اس کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کے اطراف چار محرابی دروازے بھی ہیں۔

    اسے ’’پیار کا پہاڑ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس حوالے سے مقامی لوگوں میں چند باتیں مشہور ہیں جب کہ عاشق مزاج لوگ یہاں‌ اپنی محبّت کی آزمائش اور محبوب سے وعدے نبھانے اور ساتھ دینے کی قسمیں اٹھانے کے لیے اس پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں‌ تو پھر محبوب کو بھی پاسکتے ہیں، کچھ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ملا تو اسی پہاڑ کی چوٹی سے اپنی جان دے دیں‌ گے۔ چند سال پہلے تک اس پہاڑ پر چڑھ کر متعدد لوگوں‌ نے خودکشی بھی کی ہے۔ مقامی لوگوں‌ میں‌ مشہور ہے کہ یہ پہاڑ عاشقوں کے لیے ایک امتحان اور قربان گاہ ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ 712ء میں اروڑ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی یادگار کے طور پر سفید رنگ کا ایک گنبد تعمیر کروایا تھا، جو کچی اینٹوں اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوائوں اور بارشوں کے باعث یہ یادگار تقریباً زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگ اسے بچانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں‌ لیکن بیس سال قبل خمیسو فقیر نامی ایک مقامی شخص نے اس یادگار کی مرمت کروائی تھی۔ اس عمارت میں سیمنٹ اور پتھروں کا استعمال کیا گیا، اور اسی لیے اب یہ قدرتی آفات اور حوادث کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ ہر سال سندھ کی فتح کے دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے 10 رمضان المبارک کو اس عمارت میں نہ صرف مقامی لوگ روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ اس دن کو شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔

    ’’پیار کا پہاڑ‘‘ گویا ایک قدرتی مینار ہے جس کی چوٹی پر چڑھ کر سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تاریخی مقامات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سادہ سی سیڑھیاں بنائی ہیں، جس کی مدد سے اوپر جانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔

    ’’پیار کے پہاڑ‘‘ کے دامن سے ایک خوب صورت ندی بھی گزرتی ہے، جسے ’’کونرڑے جی ندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ندی بارش کے موسم میں پانی سے لبالب بھر جاتی ہے اور دل کش نظارہ پیش کرتی ہے۔

    کچھ روایات میں آیا ہے کہ محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان آخری معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں ہوا تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف ان سپہ سالاروں اور بزرگوں‌ کے مزارات ہیں جن کے بارے میں‌ قیاس یہی ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے۔

    یہاں جن بزرگوں کے مزارات ہیں‌ ان میں سید چھتن شاہ، سید نور شاہ جب کہ پہاڑ کے شمال مشرق میں درگاہ عارف فقیر بھٹی بھی ہے جن کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اروڑ کے بہت بڑے صوفی بزرگ اور دینی عالم تھے۔ اسی طرح ’’شاہ اوٹھے پیر‘‘کا مزار بھی پیار کے پہاڑ کے مشرق میں موجود ہے۔ آپ کے مزار کے عقب میں تھوڑی سی اونچائی پر نامور درویش محمد قاسمانی کا مزار بھی واقع ہے۔

    پیار کے پہاڑ کے دامن میں سندھ کے کئی قدیم قبائل آباد ہیں، جن میں خاص طور پر سروہی، بُرڑا، کٹبر، ماڑیچا، بھیل، ہندو، میرانی اور شیخ اکثریت میں ہیں۔

    اس پہاڑ کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیّاح آتے ہیں‌ اور چھٹیوں اور تہواروں پر خصوصاً قریبی اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آکر وقت گزارتے ہیں اور ’’پیار کا پہاڑ‘‘ آباد ہوجاتا ہے۔

  • نازلی رفیعہ سلطان اور سیرِ یورپ

    نازلی رفیعہ سلطان اور سیرِ یورپ

    بیسویں صدی اردو سفر نامہ نگاری کے اعتبار سے ایک اہم صدی مانی جاتی ہے جس میں بہت سے عمدہ اور بامقصد سفر نامے لکھے گئے۔

    ہندوستانی ادیبوں اور ممتاز شخصیات نے اپنے وطن کو چھوڑ کر دور دراز کے ممالک کی خاک چھانی۔ ان سفر نامہ نگاروں نے دوسرے ممالک کی رسموں، رواجوں کے علاوہ اس دور کی ٹیکنالوجی سے متعلق اپنے تجربات ان سفرناموں میں محفوظ کیے۔ سر سید، شبلی اور آزاد نے بھی اسی صدی میں سفر کیا۔ لیکن اردو سفر نامہ نگاری کا باضابطہ آغاز یوسف خان کمبل پوش کے ہاتھوں ہوتا ہے جنہوں نے سفر نامہ عجائباتِ فرہنگ (تاریخِ یوسفی ) لکھ کر اس صنف میں اپنا نام سر فہرست کیا۔ اور یہ انیسویں صدی میں‌ ہوا، اس کے بعد متعدد ادیبوں نے دور دراز کے سفر کیے اور سفر نامے لکھے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے اردو زبان میں سفر نامے لکھنے والوں میں‌ حضرات کے ساتھ خواتین قلم کار بھی شامل ہوگئیں۔ اس دور میں مغربی سیاحت کو خاص اہمیت دی جانے لگی۔ اس ضمن میں انور سدید لکھتے ہیں:

    ’’اس دور میں ہندوستان میں انگریزی حکومت نہ صرف مستحکم ہوچکی تھی بلکہ اس کے خلاف ردِ عمل کی تحریکوں نے بھی سَر ابھارنا شرع کر دیا تھا۔ غلامی کے اس احساس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے علمی افلاس کو دور کرنے کے لیے مغرب کے علمی خزانوں تک براہِ راست رسائی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چنانچہ بیرونی ممالک کے اسفار کو اس دور میں خصوصی اہمیت حاصل ہوئی اور دورانِ سفر جو تجربات حاصل ہوتے ان میں ابنائے وطن کو شریک کرنے کی کاوش بھی کی جاتی۔‘‘

    بیسویں صدی تغیرِ زمانہ کے اعتبار سے اہم صدی رہی ہے۔ ایک طرف پوری دنیا دو عظیم جنگوں سے جھلس گئی، وہیں دوسری طرف ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی یہ دور خاصہ تبدیلی کا رہا۔

    ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کی مدد سے سفر کے طریقے آسان ہونے کے ساتھ ہی دل چسپ بھی ہو گئے۔ اس طرح ہر ادیب میں سفر کی خواہش پیدا ہونے لگی بالخصوص مشرقی قلم کار مغرب کی سرزمین کی سیر کو باعثِ فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ سیّاح مغربی دنیا کے حیرت انگیز تجربات اور ایجادات کو فخریہ الفاظ میں تحریر کرنے کو بھی اپنی شان سمجھتے تھے۔ اس دوران نہ صرف مردوں نے دور دراز کے سفر کیے بلکہ عورتوں نے بھی گھروں کی دہلیزوں سے باہر قدم رکھ کر دوسرے مقامات جا کر وہاں کے حالات و واقعات قلم بند کیے۔

    بیسویں صدی کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار نازلی رفیعہ سلطان ہیں جنہیں اردو ادب میں پہلی سفر نامہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے یورپ کا سفر کر کے یہ ثابت کیا کہ عورت بھی ایک اچھا ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا سفر نامہ نگار بھی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے سیرِ یورپ لکھ کر اردو میں پہلا سفر نامہ تحریر کیا۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اردو سفر نامہ نگاری کے ارتقاء میں خواتین سفر نامہ نگاروں کا اہم کردار ہے۔

    نازلی رفیعہ سلطان صرف بیسویں صدی کی ہی نہیں بلکہ اردو ادب کی بھی پہلی سفر نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے اس زمانے میں یورپ کا سفر کیا جب عورت کا گھر سے نکلنا باعثِ‌ تعجب تھا۔ اس ضمن میں سعد احمد یوں رقم طراز ہیں:

    ’’اردو سفر نامے کے ارتقاء کو تیز تر کرنے میں بیسویں صدی کے نصف اوّل کی خواتین سفر نامہ نگاروں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔ اردو کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار ہونے کا شرف نازلی رفیعہ سلطان کو حاصل ہے۔‘‘

    رفیعہ سلطان نے سفر نامہ ’سیرِ یورپ‘ کو خطوط کی تکنیک میں تحریر کیا تھا۔ دورانِ سفر انہوں نے جو خطوط اپنے بزرگوں کو لکھے تھے، بعد میں ان خطوط کو ترتیب دے کر سفر نامہ مرتب کیا۔ مصنفہ خود اس سفر نامے کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’اس میں نہ عبارت ہے نہ قافیہ پیمائی۔ صاف سیدھی عبارت ہے، وہاں کے حالات، طرزِ معاشرت، تدبیرُ المنازل، بعض امورِ سیاسیہ، تجارت، ہنروری، اقسامِ فنون کی کثرت۔ تہذیب، طریقۂ تعلیم، دربار کے آداب، جو میں جتنا سمجھ سکی اپنی زبان میں اپنے اہلِ وطن کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نسبتاً جب یورپ اور ایشیا کو دیکھتی ہوں تو اپنی نظروں میں تھوڑی تھوڑی ہو جاتی ہوں۔‘‘

    اس سفر نامے میں انھوں نے یورپی ترقی سے متاثر ہوکر جو خطوط لکھے تھے ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یورپ کے گن گائے جائیں بلکہ وہ اس ترقی سے اپنے ہم وطنوں کو ترقی کا راستہ دکھانا چاہتی تھیں۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستانی تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں۔ اس طرح ان خطوط کی وجہ سے مصنفہ نے اپنے ہم وطنوں کو یورپ کی سیر کرائی، انھیں یورپی صنعتی اور تمدنی ترقی سے روشناس کرایا۔ جس دور میں سفر نامہ ’ سیرِ یورپ‘ رفیعہ سلطان بیگم نے تحریر کیا تھا اسی دور میں عطیہ فیضی نے سفر نامہ ’زمانہ تحصیل‘ لکھا اور شاہ بانو نے سفر نامہ ’سیاحتِ سلطانی‘ تحریر کیا تھا۔

  • آسیب

    آسیب

    شروع میں تو کتنا عرصہ ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ یہ جو دن رات کی دوڑ دھوپ کے باوجود ہماری پوری نہیں پڑتی اور آئے روز بیماری، لڑائی جھگڑے اور چھوٹے موٹے حادثات کی صورت، کوئی نہ کوئی آفت ہمیں گھیرے رکھتی ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ بلکہ امی ابّا کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔

    حالانکہ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ جب اللہ میاں نے گناہوں کی سزا کے لئے اگلی دنیا میں دوزخ کی آگ بھڑکا رکھی ہے تو یہاں کیوں؟ یہ تو دہری سزا ہو گئی۔ اور یہ جو ہمارے آس پاس کے لوگ مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو کیا انہوں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور ان کی رسی کیوں اتنی دراز ہے۔ اور حالانکہ اس بات کے اشارے کہ نظر نہ آنے والی کوئی مخلوق وہاں پہلے سے رہ رہی ہے مکان کی تعمیر کے وقت ہی سے مل رہے تھے۔ کبھی رنگ کا ڈبہ، کبھی سیمنٹ کی بوری اور کبھی مستریوں کاریگروں کے اوزار گم ہو جاتے۔ کبھی تازہ پلستر پر یوں الٹی سیدھی لکیریں ڈال دی جاتیں جیسے رات بھر بھتنے کٹم کاٹا کھیلتے رہے ہوں۔ بعض اوقات کوئی فضول سا جملہ بھی لکھ دیا جاتا جس کے ہجوں سے پتہ چلتا پرائمری اسکول سے بھاگے ہوئے کسی بچے کی تحریر ہے۔ اس لئے ہم اسے مزدوروں اور ملحقہ کچی بستی کے آوارہ لڑکوں کی کارروائی سمجھتے رہے۔ بلکہ مکان میں منتقل ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد جب گھر کی عورتیں شکایت کرتیں کہ رات کو گلدان میں سجائے گئے پھول اگلی صبح کو پتی پتی ہوئے پڑے ملتے ہیں، ایک کمرے کی چیز دوسرے اور دوسرے کی تیسرے یا کوڑا دان میں ملتی ہے اور بچوں کے کھلونے اور وڈیو گیمز توڑ کر پھینک دی جاتی ہیں تو ہم اسے گھر کے بچوں کی شرارت سمجھتے اور انہیں سرزنش کر کے مطمئن ہوجاتے۔ وہ زیادہ اصرار کرتیں تو ہم، گھر کے مرد، انہیں ضعیفُ العقیدہ اور توہم پرست قرار دیتے اور ان کا مذاق اڑاتے۔

    مگر حیرت ہوتی کہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والی بھابی بھی ان کی ہمنوا ہو گئیں کہ گھر پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ چھوٹی بہن روحی نے فلاسفی پڑھی تھی اس نے شروع شروع میں کچھ روز فلسفہ بگھارا پھر وہ بھی چپ ہو گئی۔ بلکہ ہر وقت ڈری ڈری رہنے لگی۔ بعد میں پتہ چلا وہ میرا سویٹر بُن رہی تھی جب آدھا بُن چکی تو ایک صبح وہ سارا ادھڑا ہوا ملا۔ بچّوں کو ڈانٹا ڈپٹا گیا اور اس نے دوبارہ بُننا شروع کیا مگر وہ جتنا ہر روز بُنتی وہ اگلے روز ادھڑا ہوا ملتا۔ اور سرہانے رکھ کر سونے سے اسے ڈر لگتا مبادا وہ غیبی ہاتھ جو سویٹر ادھیڑتا تھا اس کا گلا دبا دے۔ آخرکار اس نے سویٹر بُننا ہی چھوڑ دیا اور میرے لئے بازار سے ریڈی میڈ خرید لائی۔

    قریب ہی کچی آبادی تھی اور اگرچہ بلدیہ نے اس کے گرد چار دیواری تعمیر کر رکھی تھی اور آنے جانے کے راستے مقرر کر دیے تھے مگر یہاں کے کھمبیوں کی طرح اگنے والے بچّے جہاں سے جی چاہتا دیوار پھلانگ کر آس پاس کی کوٹھیوں بنگلوں میں گھس آتے اور جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا لے جاتے اور پھل دار درختوں پر تو بیتالوں کی طرح ایک ساتھ کئی کئی لٹکے نظر آتے۔ مگر اس سے محلّے کے لوگوں کو کچھ آسانیاں بھی تھیں۔ گھر کے کام کاج کے لئے لڑکے، لڑکیاں اور عورتیں کم معاوضے پر مل جاتیں اور ان کے مردوں کو آسانی سے بیگار میں پکڑا جا سکتا۔ خود ہمارے ہاں اسی آبادی کی ایک بیوہ عورت کام کرتی تھی۔ شروع میں وہ رات کو اپنے گھر چلی جاتی تھی مگر جب امی کو پتہ چلا وہ اپنے دو بچّوں کے ساتھ زمین کھود کر بنائے گئے غار نما کمرے میں رہتی ہے جس کے بیٹھ جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے انہوں نے سرونٹ روم کو، جو اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، خالی کر کے رہائش کے لئے دے دیا۔ ابّا کا خیال تھا ساری خرابی یہیں سے پیدا ہوئی تھی اور یہ ساری حرکتیں ملازمہ کی نو دس سالہ بیٹی کرتی تھی جسے پڑھنے اور کھیلنے کی عمر میں اسکول چھڑوا کر کام پر لگا دیا گیا تھا۔ لیکن وارداتوں کی نوعیت دیکھ کر یقین نہ آتا۔ یہ اتنی چھوٹی بچّی کے بس کی بات نہ تھی، پھر بھی اس کی خوب نگرانی اور باز پرس کی گئی مگر آخر کار اسے بری الذّمہ قرار دے دینا پڑا۔ اس کی بجائے خواتین کو ملازمہ کا چند ماہ کا بچّہ زیادہ پُر اسرار اور منحوس معلوم ہوتا تھا جو پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو کھا گیا تھا ورنہ اس زمانے میں صرف بخار سے بھی کوئی مرتا ہے۔ یوں بھی وہ عام بچّوں کے برعکس بہت کم روتا تھا۔ ماں اسے دودھ پلاتی یا بھوکا رکھتی، وہ گھنٹوں چپ چاپ پڑا انگوٹھا چوستا اور کھیلتا رہتا۔

    میرا اپنا خیال تھا کہ یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی۔ پیدا کرنے والے کو تو پتہ ہی تھا اسے کس مٹی سے بنانا اور اس میں صبر و شکر کی کتنی مقدار ملانی ہے۔ مگر گھر کی عورتوں کو اس سے خوف آتا اور وہ کبھی دبے اور کبھی واشگاف لفظوں میں اس کا اظہار کرتیں۔ مگر ایک کی تنخواہ میں کام کرنے والی دو، انہیں اور کہاں مل سکتی تھیں، ناچار برداشت کرتی رہیں۔

    پھر رفتہ رفتہ پریشان کن واقعات جلدی جلدی اور تواتر سے رونما ہونے لگے۔ چھوٹی چھوٹی اور خاص طور پر خوشبودار چیزیں غائب ہونے لگیں۔ کبھی ہیر آئل کی شیشی، کبھی شیمپو اور کبھی پاؤڈر کا ڈبہ۔ واش ہینڈ بیسن سے صابن کی ٹکیا غائب ہو جاتی اور کسی روشن دان یا الماری کے اوپر جہاں کسی کوتاہ قد یا بچّے کا ہاتھ نہ پہنچ سکتا ہو پڑی ملتی۔ سنگھار میز کی اکثر چیزیں غائب یا خراب کر دی جاتیں۔ لپ اسٹک دیواروں پر اور شو پالش آئینوں پر مل دی جاتی۔ خوشبودار چیزوں کے ساتھ ہی گھر سے مہرومحبت کی خوشبو بھی اٹھ گئی۔ ایک دوسرے پر شک و شبے کا اظہار، الزام تراشیاں اور جھگڑے۔

    گھر میں ابّا جان کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی بیمار رہنے لگا۔ اور سرہانے رکھی دوا کی شیشی یا کیپسولز غائب ہو جاتے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اکثر چیزیں کہیں دوسری جگہ پڑی مل جاتیں۔ بعض اوقات گندی اور ناکارہ چیزیں پاک صاف جگہوں اور پاک صاف چیزیں غسل خانے یا گٹر سے برآمد ہوتیں۔ لیکن پھر یہی بچگانہ حرکتیں خطرناک صورت اختیار کر گئیں جیسے وہ نامراد اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلانا چاہتے ہوں۔ اب چاقو، بلیڈ اور قینچی وغیرہ کا استعمال ہونے لگا۔ خوبصورت اور نئے سل کر آئے ہوئے کپڑے خاص طور پر نشانہ بنتے۔ شوخ رنگ کی ٹائیاں، کامدار دوپٹے، شادی کے جوڑے اور تکیوں کے پھول دار غلاف کاٹ، کتر دیے جاتے۔ آج اگر مُنّی اپنا فراک چاک ہو جانے پر رو رہی ہے یا روحی اپنے جہیز کے کسی قیمتی جوڑے میں شگاف ڈال دیے جانے پر آنسو بہا رہی ہے تو کل بھابی اپنی کسی ساڑھی یا دوپٹے پر قینچی چل جانے پر واویلا کر رہی ہیں۔ بالآخر گھر کے لوگ ایک دوسرے سے اور دور ہونے لگے۔ شاید ان بد ذاتوں اور بد ذوقوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ بھابی نے ایک روز حساب لگایا کہ روحی کے مشترکہ کھاتے کے جہیز کو چھوڑ کر ان کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے صرف قیمتی اور نئے جوڑوں پر جب کہ ہمارے معمولی اور پرانے کپڑوں پر قینچی چلی۔

    دراصل بھائی کی تنخواہ اور میرا کنبہ بڑا تھا۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بے اولاد بیوی سے طلاق کے کئی سال بعد وہ مشکل سے دوسری شادی پر رضامند ہوئے تھے۔ اب ان کے دو بچّے تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ میرے بچّوں کی تعداد ان سے تین گنا تھی۔ دو بڑے اور سمجھدار، چار چھوٹے جو پرائمری اور ہائی اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ بھابی کو مشترکہ کھاتے کے مستقل نقصان کا قلق رہتا تھا۔ بہانہ ہاتھ آ گیا تو گھر کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ والدہ اور روحی ہمارے اور والد صاحب بھائی کے حصّے میں آئے اور کچی آبادی کی ماں بیٹی اسی تنخواہ پر دو گھروں کا کام کرتی رہیں۔

    دل چسپ بات یہ ہوئی کہ بھائی بھابی کے علیحدہ ہو جانے سے اچانک امن اور سکون ہو گیا جس سے ان کے اس شبے کو تقویت ملی کہ میرے بیوی بچّے ان کے قیمتی اور شاندار کپڑوں سے جلتے تھے اور موقع پا کر انہیں خراب کر دیتے تھے۔ ابّا ان کے دسترخوان پر کھاتے تھے، قدرتی طور پر وہ بھی ان کی ہمنوائی کرنے لگے۔ مجھے خود بھی شک ہو گیا اور میں نے اپنے کنبے کے ہر فرد سے باز پرس کی۔ راتوں کو اٹھ اٹھ اور چھپ چھپ کر ان کی جاسوسی کرتا خصوصاً لڑکیوں پر نگاہ رکھتا کہ سائے اور آسیب کی ہر کہانی کا تعلق عام طور پر کسی بالغ یا نابالغ لڑکی یا گھٹن اور ہسٹیریا میں مبتلا عورت ہی سے ہوتا ہے۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بچّوں کو پڑھائی سے فرصت نہیں اسی لئے وہ امتحانوں میں اوّل دوم آتے رہتے ہیں تو میں نے صفائی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کوئی تیسرا ہے جو بھائیوں میں نفاق ڈال رہا ہے۔ غیر برادری کی بھابی نے سمجھ لیا میرا اشارہ ان کی طرف ہے۔ اس پر گھر میں خوب ہنگامہ ہوا۔ غریب کی تو معافی بھی کوئی قبول نہیں کرتا خواہ وہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس دوران ایک اچھی بات یہ ہو گئی کہ میرے بڑے بیٹے کو نتیجہ نکلتے ہی کینیڈا کا ویزا مل گیا۔ اور ہمارے بھی دن پھر گئے۔ ہماری بات میں بھی وزن پیدا ہو گیا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ گھر میں روپے پیسے کی چوریاں ہونے لگیں۔ تاہم زیورات عام طور پر مل جاتے۔ بھابی کا نیکلس میری بیوی کے ٹرنک اور اس کی بالی بھابی کی الماری سے ملی۔ مگر نقدی غائب ہو جاتی اور اپنے پیچھے لڑائی جھگڑے کا ختم نہ ہونے والا طویل سلسلہ چھوڑ جاتی۔

    دونوں گھروں میں کشیدگی کی فضا تھی اور آنا جانا نہیں تھا اس لئے ادھر کی چیز ادھر کرنے والے یا تو بھوت تھے یا کام کرنے والی ماں بیٹی۔ جن کا دونوں طرف آنا جانا تھا۔ ماں مصیبت زدہ اور جہاں دیدہ تھی اسے روزگار اور پناہ ملی ہوئی تھی وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔ اور لڑکی بھی کب، کیوں اور کیسے کر سکتی تھی۔ یوں بھی وہ بہت چھوٹی اور معصوم تھی اور اتنے بہت سے افراد کی مسلسل نگرانی کے بعد کبھی تو پکڑی جاتی۔ شاید یہ واقعی کوئی آسیب تھا۔ لیکن میرا جی نہ مانتا۔

    یہ گھر آسیب زدہ ہے۔ یہ خبر اخبار میں شائع ہوئے بغیر رشتے داروں، دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچ گئی تھی اور جواب میں طرح طرح کے افسانے سنائے اور مشورے دیے جاتے۔ ہر شخص کے علم میں ایسے کئے واقعات تھے۔ کہیں راتوں کو میوزک بجتا تھا۔ کہیں پتھروں کی بارش ہوتی تھی۔ کسی گھر میں خود بخود آگ بھڑک اٹھتی اور کسی کی دیواروں پر سیکڑوں چھپکلیاں چپکی نظر آتیں۔ ان سب واقعات میں مشترک بات یہ تھی کہ بالآخر کسی پیر یا عامل کے وظیفے، تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک نے اس مصیبت سے نجات دلائی۔ ناچار ہم نے بھی ایک کے بعد دوسرے عامل، پیر اور پہنچے ہوئے بزرگوں کی تلاش جاری رکھی۔ گھر میں آئے روز عجیب و غریب حلیے کا نیم خواندہ قسم کا کوئی عامل یا پیر نظر آتا۔ طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے اور وظیفے، دھونیاں، اگر بتیاں اور چراغ۔ کلامِ الٰہی کے خوف، وظیفوں کی مار اور عاملوں کی ڈانٹ پھٹکار سے وہ عارضی طور پر چلے بھی جاتے اور کچھ دن چین سے گزر جاتے مگر پھر کسی دن اچانک کوئی نیا اور پہلے سے زیادہ شدید واقعہ رونما ہو جاتا۔

    گھر کی خواتین کو پہلے ہی شک تھا یہ سب بھائی کی مطلقہ بیوی کروا رہی تھی۔ اب عامل لوگوں نے ان کے شک کو یقین میں بدل ڈالا۔ گھر کے کونوں کھدروں سے وقتاً فوقتاً تعویذ دھاگے، بالوں کے گچھے یا کچھ نہ کچھ برآمد ہوتا رہتا۔ جس کے پیچھے اسی کا ہاتھ سمجھا جاتا حالانکہ وہ بیچاری اپنے بھائی کے پاس پیرس چلی گئی تھی اور کہیں بے بی سٹر کی ملازمت کر کے وقت گزار رہی تھی۔ گھر میں صرف ایک میں تھا جو خلافِ عقل باتوں کو نہیں مانتا تھا اور اتنے بہت سے واقعات رونما ہونے کے بعد بھی پوری طرح یقین نہیں کرتا تھا کہ نظر نہ آنے والی مخلوق انسانی زندگی میں یوں دخیل اور اثر انداز ہو سکتی ہے۔ گھر اور باہر اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہتے اور میں اکثر ہنستا اور کہتا کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کوئی شریر یا متعصب قسم کا مسلمان یا کافر جن اپنی مرضی سے ہمارا یا پڑوسی ملک کا ایٹم بم بھی اٹھا کر چلا سکتا ہے۔ اس پر ابّا کہتے دیکھ لینا ایک روز ایسا ہی ہو گا۔

    میں ان کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں بحث مباحثہ بھی بہت کرتا تھا۔ چنانچہ ایک رات بد ذاتوں نے مجھے سوتے میں بستر سے نیچے لڑھکا دیا۔ شکر ہے چوٹ زیادہ نہیں آئی۔ میں نے بتی جلا کر دیکھا۔ وہ دوسری طرف منہ کئے سو رہی تھی۔ شرمندگی ذرا کم ہو گئی کہ کسی نے اس حال میں دیکھا نہیں۔ مگر ایک نامعلوم سا شبہ رہا کہ شاید ابھی وہ کروٹ بدل کر مسکرائے گی یا بال کھول کر سرخ آنکھوں سے مجھے گھورے گی اور مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے گی۔ مگر جب اس نے کروٹ بدلی، نہ قہقہہ لگایا تو میں چپ چاپ بستر پر دراز ہو گیا۔ مگر اس ڈر سے بتی نہیں بجھائی کہ پھر نیچے نہ گرا دیا جاؤں۔ اس کے بعد میں بھی محتاط ہو گیا اور کھلے بندوں انکار اور مذاق کرنا ترک کر دیا۔

    ابّا کے ایک دوست بڑے مستند اور مشہور حکیم تھے۔ وہ بھی بھوت پریت کو نہیں مانتے تھے۔ مذہبی حوالوں کی اپنے طور پر مختلف توجیہات کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر گھر کی کوئی عورت یا بچّہ ہسٹیریا میں مبتلا نہیں تھا تو کسی کو نیند میں چلنے کی عادت ضرور تھی اور وہ اسی عالم میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا تھا۔ چنانچہ ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے کی پڑتال کرنے اور جاگنے لگے۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔

    کچھ وقت اسی طرح گزر گیا۔ ہم بھی اچھا کھانے اور پہننے لگے۔ بیٹے نے اب مجھے کمپیوٹر بھیج دیا تھا اور میں نے اس پر کام کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ای میلز بھیجتے بھیجتے میری ٹائپنگ کی رفتار بھی بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن مجھے قطعاً اندازہ نہ تھا کہ جب میں کمپیوٹر کھولتا ہوں۔ کوئی اور بھی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور چھیڑ خانی کرتا رہتا ہے۔ شروع میں یہی سمجھتا رہا کہ مجھے کمانڈز کا صحیح پتہ نہیں ہے، اس لئے مجھ سے اکثر غلطیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جب اچھی مشق ہو جانے کے بعد بھی کمپیوٹر میری ہدایات کی خلاف ورزیاں کرنے لگتا۔ کوئی دوسرا پروگرام کھول دیتا، جام ہو جاتا یا ہر پروگرام کو غیرقانونی قرار دے کر بند کرنے کی دھمکیاں دینے لگتا۔ تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ بعض اوقات انٹرنیٹ کی کوئی ناپسندیدہ سائٹ کھول دیتا جو ہٹائے نہ ہٹتی۔ ایک بار میں نے بیٹے کی ای میل کھولی جس میں نئے سال کی مبارک باد دی گئی تھی۔ نئے سال کی خوشی میں خوب آتش بازی ہو رہی تھی۔ اسکرین پر انار سے چھوٹ رہے تھے۔ ہم سب اس منظر سے خوب محظوظ ہوئے مگر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس آتش بازی میں سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ سارے پروگرامز، میرا قیمتی ڈیٹا، اور ونڈوز۔ میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا مگر لگتا تھا کمپیوٹر ایک خالی ڈبے کے سوا کچھ نہیں۔ ابّا نے سنا تو بولے سچ ہے بنی آدم کو شیطان سے کہیں مفر نہیں۔ وہ آسیب اور وائرس کی صورت کمپیوٹر میں بھی چلا آیا ہے اور قیامت تک ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔

    پھر ہمیں تحریری پیغامات آنے لگے۔ میز کی دراز میں یا کسی تکیے کے نیچے عام سی سیاہی میں لکھا ہوا رقعہ ملتا۔ اتنی خیرات کر دو، صدقہ دو، دیگ پکا کر غریبوں کو کھلاؤ، محلّے کے بچّوں میں مٹھائی بانٹو، باقاعدگی سے نماز پڑھو وغیرہ۔ جب تک ایسی معقول ہدایات ملتی رہیں ہم ان پر عمل کرتے رہے۔ مگر ایک روز ایک عجیب قسم کا حکم ملا۔ گھر کے سب لوگ ٹی وی لاؤنج میں جمع ہو کر باری باری فرش پر ناک رگڑیں۔ ورنہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ظاہر ہے ایسی مضحکہ خیز ہدایت پر عمل کرنا ہمارے لئے ممکن نہ تھا۔ جس پر وہ واقعی خفا ہو گئے اور اگلے روز استری اسٹینڈ پر بند کر کے رکھی ہوئی استری کا سوئچ خود بخود آن ہو گیا اور استری اور اسٹینڈ دونوں بھسم ہو گئے۔ اس سے اگلے روز رسی پر سوکھنے کے لئے لٹکائے گئے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور بھائی کی مُنّی کی نکسیر پھوٹ پڑی۔

    اب ہم قدرتی طور پر ہر بات اور ناخوش گوار واقعے کو غیبی طاقتوں سے جوڑنے لگے۔ بچّوں کے ہوم ورک کے وقت بجلی چلی جاتی۔ نہانے یا کھانا پکانے کے وقت واٹر سپلائی بند ہو جاتی یا گھر کے کسی فرد کو چوٹ لگ جاتی تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ سب انہی کا کیا دھرا ہے۔

    اس بار کسی ایسے عامل کی تلاش، جس کے عمل سے مستقل فائدہ ہو، میرے ذمے لگائی گئی۔ میرے لئے یہ ایک مشکل کام تھا، کیوں کہ وہ سب ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے تھے اور ایسی بے سرو پا باتیں کرتے تھے جنہیں عقل سلیم ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔ ان کی باتوں سے صاف پتہ چلتا تھا وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ان کے دعوے اور داستانیں سنی سنائی اور گھڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور فوق الفطرت کے بارے میں ان کا تصور تک درست نہ تھا۔ مجھے ان سے ملتے اور اپنی بپتا سناتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہوتی کہ میں بھی عام پڑھے لکھے لوگوں کی طرح اپنے عقائد اور نظریات پر ڈھلمل یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ان کی بے تکی باتوں پر خاموشی اختیار کی کیوں کہ گھر والوں کا اصرار تھا جلدی کسی کو لاؤ۔ کوئی ناقابلِ برداشت نقصان نہ ہو جائے۔

    اور شاید یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہتا اگر میرا بلیک ریفل والا پارکر بال پوائنٹ گم نہ ہو جاتا۔ یا پھر تیسرے چوتھے روز اسی سے لکھا ہوا بھوت کا رقعہ نہ ملتا۔ اس بار اسے قلم تو اچھا مل گیا تھا مگر کاغذ بہت خراب تھا۔ کسی پرانی رف کاپی سے پھاڑے ہوئے ورق سے کام چلایا گیا تھا۔ میں چونکا کیسا نالائق اور کاہل جن بھوت ہے ہاتھ بڑھا کر چین کے کسی کارخانے سے بہترین کاغذ اور جرمنی کے کسی اسٹور سے نیا شیفرڈ قلم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی گھر میں چوری کرتا ہے۔ اب جو غور کیا تو عبارت میں دو ایک ہجّوں کی فاش غلطیاں دکھائی دیں۔ گھر کے سب چھوٹے بڑوں کی لکھائی کا آسیب کی اس تحریر سے موازنہ کیا گیا تو عقدہ وا ہو گیا۔ بے حد حیرت ہوئی کہ طبقاتی نفرت اور احساسِ محرومی اتنی کم سِن لڑکی کو بھوت بنا سکتا ہے۔ ہمارا ارادہ نرمی سے پیش آنے کا تھا مگر اس کی ماں اسے لے کر راتوں رات غائب ہو گئی۔

    (معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس منشا یاد کی ایک تخلیق)

  • عورتوں کی لڑائی

    عورتوں کی لڑائی

    بوا سلام! سکینہ نے اپنے کوٹھے کی دیوار سے سر نکال کر رضیہ کو مخاطب کرکے کہا، جو مکان کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔

    اس نے اپنی سفید سفید بھنویں سکیڑ کر بے رونق نگاہوں سے اوپر کو دیکھا، اور بے رخی سے کہا، پڑے خاک ایسے سلام پر!

    کیا ہوا بوا، آج کیوں منھ سجائے بیٹھی ہو؟

    چل پرے۔ لمبی بن، آئی وہاں سے بوا کی لاڈلی۔

    بوا کیا ہو گیا تمہیں، کیوں تمہارے سر پر سنیچر سوار ہے آج؟

    سنیچر سوار ہو تیرے سر پر، دیکھ سکینہ میرے منہ مت لگیو!

    بوا کیا باؤلے کتے نے کاٹ لیا تمہیں، جو کاٹ کھانے کو دوڑی پڑتی ہو۔

    باؤلا کتا کاٹے تجھے، تیرے پیاروں کو، اللہ نہ کرے جو مجھے کاٹے باؤلا کتا!

    بوا، دیکھ میرے پیاروں کا نام لیا تو چٹیا کی خیر نہیں، ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔

    منھ وہ سنبھالے جو تیری دبی بسی رہتی ہو۔ تیرا دیا کھاتی ہو۔ مجھ پر تیرا کیا دباؤ ہے جو میں سنبھالوں منھ کو۔

    دیکھ سکینہ منھ میں لوکا دیدوں گی، جو میرے بوڑھے چونڈے کا نام لیا!

    بوا تمہارا تو دماغ چل گیا ہے، زبردستی جیب چلانے کو بیٹھ گئیں تم! میں نے بھلا کہا کیا تھا۔ تمہیں سیدھے سبھاؤ سلام کرنے کو چلی آئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی، یوں جلی پھنکی بیٹھی ہو۔

    جلے تو، پھنکے بھی تو، میں کیوں جلتی۔ جیب چلانے کو مجھے تیرا کیا ڈر پڑا ہے؟

    ہے کیسی لُگائی، باز ہی نہیں آتی، بالکل سر پر ہی چڑھی جارہی ہے، ہم تو بڑھاپے کا خیال کر رہے ہیں، آپ ہیں کہ آپے ہی سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔

    آئی وہاں سے بیچاری بڑھاپے کا خیال کرنے والی۔ بڑھاپے کا خیال کرتی تو مردوں میں بیٹھ کر میری صورت میں کیڑے ہی تو ڈالتی، ارے میرے منھ میں دانت نہیں رہے۔ آنکھوں سے پانی بہتا ہے تو تیرے باوا کا کیا نقصان ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، جس کو چاہے جیسا بنا دے، مگر بندے کو کسی بات پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔

    بوا، ذرا دوسرے کی بھی سنا کرو۔ تم تو اپنی ہی کہے جارہی ہو، کون کہتا ہے میں نے تمہاری صورت میں کیڑے ڈالے، بوا جھوٹ بولنے کی میری عادت نہیں۔ دیکھو ایسے طوفان مت اٹھاؤ تم مجھ پر، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ میرے ہی جنم میں تھوکے گا کہ ضرور اس نے بوا کو کچھ کہا ہوگا۔

    اس گھر میں رہتے رہتے میرے بال سفید ہوگئے، آج تک کوئی کہہ تو دے میں نے کس پر طوفان اٹھائے ہیں، کس پر تہمت لگائی ہے۔ اکیلی تم ہی تو رہتی ہو، محلے میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں، ایک تم پر ہی طوفان توڑ رہی ہوں میں!

    اوروں کی میں کیا جانوں بوا، میں تو اپنی کہتی ہوں بوا، خدا اپنا دیدار اور محمد کی شفاعت نصیب نہ کرے، جو میں نے کسی کے سامنے تمہیں کچھ کہا ہو۔

    خدا کے خوف سے ڈر سکینہ!

    اب اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں کہ اَن ہوئی بات کو تم میرے سر تھوپ دو، کوئی بیچ میں ہو تو اس کا نام لو، میں اولاد کی قسم دے کر پوچھوں کس کے آگے کہا میں نے بوا کو بُرا بھلا!

    سکینہ یوں باتوں میں مت اڑاؤ مجھے، میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے۔

    بوا تم نے دھوپ میں سفید کیے ہوں بال یا سایہ میں، مجھے اس سے واسطہ نہیں میں تو یہ کہتی ہوں تم اس بندی کا نام بتاؤ، جس کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ جب جھوٹ سچ کھلے گا، بوا اللہ کرے میں اتنی ہی بڑی مرجاؤں، جو میں نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو۔

    کس کس کا نام بتاؤں سکینہ! کوئی ڈھکی چھپی بات ہو تو میں نام بھی بتاؤں کسی کا، بھرے مجمع میں بیٹھ کر تم نے اس دن نیم والے گھر میں مجھے اندھا بنایا، منحوس کہا، آنسو ڈھال کہا، تم نے کہا صبح صبح کوئی اس کی صورت بھی نہ دیکھے، جس دن میں اس کا منھ دیکھ لیتی ہوں شام تک چین نہیں ملتا۔

    توبہ کرو بوا توبہ! دیکھو ایسا طوفان مٹ اٹھاؤ۔ اللہ، کیسے بہتان باندھ رہی ہو، خدا جانے آسمان کس کے بھاگوں کھڑا ہے۔

    اچھا قسم کھاؤ، تم نے نہیں کہا۔

    بوا تمہارے سر کی قسم، اپنے بچہ کی سوں، جو میں نے تمہارا نام بھی لیا ہو، پڑے خاک جھوٹ بولنے والے کی صورت پے، بچہ سے زیادہ دنیا میں مجھے اور کیا ہے؟ ہاں اتنی بات تو ہوئی تھی، بوا، دیکھو میں سچی سچی بتاؤں تمیں کہ بلو دھوبن کا ذکر آگیا تھا، تو میں یوں بولی کہ آپ تو اُسے سوجھتا بھی نہیں اور منھ پے تو چھبروں نور برستا ہے جس دن سویرے ہی سویرے صورت دکھائی جاتی ہے، روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور کچھ نہیں تو کتا ہی ہنڈیا میں منھ ڈال جاتا ہے۔ بوا لو یہ بات تو ضرور میں نے کہی تھی، تمہارا تو نام بھی نہیں لیا۔ نامعلوم بڑھاپے میں تمہاری عقل چرنے چلی گئی ہے کیا، پہلے بات کا انجام سوچ لیا کرو پھر منھ سے کچھ نکالا کرو۔ وہ تو اچھا ہوا میں چلی آئی اس وقت، نہیں تو تہارے دل میں یہ غبار بھرا ہی رہتا۔

    سکینہ اللہ تیرا کلیجہ ٹھنڈا رکھے، بچی! لے میری کیا خطا ہے، مجھ سے تو جیسا کسی نے کہہ دیا، میں نے یقین کرلیا، میں آپ تو کچھ سننے گئی نہیں تھی، مجھے کیا خبر کہ بلو دھوبن کا قصہ تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ تو مجھی کو کہہ رہی ہوگی، سکینہ میرا دل تو اندر سے گواہی دے رہا تھا کہ زمین آسمان ٹل جائے اپنی جگہ سے، مگر سکینہ میرے لیے ایسے بول منھ سے نہیں نکال سکتی، اور انہیں باتوں کی بدولت تو رات دن تیرے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میرے بدن کے روئیں روئیں سے!

    مگر بوا اتنے کچے کان بھی کس کام کے۔ آج تو یہ ہوا کل کو اور کچھ کہہ دیا کسی نے تم سے، تو میں کیا بگاڑ لوں گی، اس کا یا تمہارا۔

    یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے سکینہ! ایسی میں پاگل سڑی تھوڑا ہی ہوں جو ہر کسی کے کہنے سے یقین کر لوں گی، اب لے اتنی بات تو کہنے والے نے بھی جھوٹی نہیں کہی، کسی کا ذکر تو تھا، تم خود ہی کہتی ہو۔ بلو دھوبن کو کہہ رہی تھیں، ہاں اتنی بات اور بڑھ گئی کہ اس کی جگہ میرا نام لے دیا۔

    یہی تو کرتوت ہیں بوا دشمنوں کے، میں تمہاری ہی جان کی قسم کھاکر کہتی ہوں بلو دھوبن کو کہہ رہی تھی، تمہیں کیا معلوم نہیں اس کی صورت دیکھ لو صبح صبح تو روٹی نہیں ملتی سارے دن، بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بھائی خدا کی قسم! میں نے تو جس روز اس مردار کی صورت دیکھی مجھے سورج ڈوبنے تک چین نصیب ہوا نہیں۔

    کیا کہہ رہی ہو سیدانی، بلو دھوبن کا دم نہ ہوتا تو جھینک جھینک کر مرجاتیں تم۔ یہ میں ہی تھی کہ جب ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر پڑی تھیں تم اور کوئی پانی پلانے والا بھی پاس نہ تھا تو اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر تمہاری پٹی نیچے آبیٹھی تھی۔ پیر میں نے دبائے تمہارے، منھ ہاتھ میں نے دھلوایا۔ روٹی میں نے پکا کے کھلائی سارے کنبہ کو، اور آج تم کہتی ہو بلو منحوس ہے، اس کی صورت دیکھنے سے روٹی نہیں ملتی، وہ دن بھول گئیں کیا جب بلو کے سوا تمہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے نیکی کر اور کنویں میں ڈال۔

    سکینہ بلو کو دیکھتے ہی چونک گئی۔ اس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی بوند نہیں۔ اسے سان و گمان بھی نہ تھا کہ بلو دیوار کے نیچے کھڑی سب کچھ سن رہی ہے۔ وہ بہت ہی گھبرائی، بلو نے سارا قصہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا۔ اب اس کی تردید ہی کیا ہوسکتی تھی۔ بوا کو تو اس نے سمجھا کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نیک دل بیوی تھیں، مگر بلو باہر پھرنے والی بے باک عورت، اس کی زبان کسی کے سامنے رکنے والی ہی نہ تھی، مگر سکینہ نے ہمت کرکے کہا۔

    بلو کیوں آپے سے باہر ہوئی جارہی ہے۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بوا کو نہ معلوم کیا ہوگیا تھا، ایک دم سے مجھ پر برس ہی تو پڑیں۔ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو میں نے تیرا نام لے دیا تھا۔ تیرے بچہ کی قسم کوئی اور بات تھوڑا ہی تھی، پوچھ لے بوا سے میں نے کوئی گالی دی ہو تجھے تو!

    گالی تم کیا دیتیں سیدانی، میں تو اچھے اچھوں کی نہیں سنتی، تم تو بیچاری ہو کس شمار قطار میں۔ اور گالی دینے میں تم نے کیا کسر رکھی ہے، منحوس تم نے کہا، اندھا تم نے کہا، اور کیا رہ گیا بھلا کہنے کو، سیدانی مجھے تمہارے یہ گن معلوم نہ تھے، نہیں تو کبھی تھوکتی بھی نہیں تمہارے گھر آکے اور اب دیکھو آگے کو۔

    بلو معلوم ہوتا ہے تو بھی بھنگ پی کے آئی ہے، میں نے تو گھر بسی منحوس اور اندھا نہیں کہا تجھے، پوچھ لے بوا سے!

    آنکھوں میں انگلیاں مت کرو سیدانی، میں بہری تو ہوں نہیں، اللہ رکھے میرے کان ابھی سلامت ہیں۔ میں یہیں بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو اینٹ مار کے یہیں سے سر پھوڑ دیتی۔ اللہ کی سوں! وہ تو نہ معلوم کس بات کا خیال آگیا، اور بوا سے کیا پوچھوں، یہ تو تم سب کی کہی بدی ہے۔ تم سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ پھر بوا کاہے کو کہیں گی؟

    بلو دیکھ میں اور قسم کی عورت ہوں، سکینہ ہی سے منھ ملائے جا، میرا نام لیا تو ٹھیک نہیں۔

    کس قسم کی عورت ہو بوا۔ میرا بھلا کیا کر لو گی، جیسا کہو گی، ویسا سنو گی، میں کب تمہاری دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں جو دبوں گی۔

    دبے گی کیسے نہیں۔ کمینوں کو منھ لگانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ سکینہ دیکھو ہمارے برابر بیٹھتے بیٹھتے آج بلو کا یہ حوصلہ ہوگیا کہ وہ کہتی ہے جیسا کہو گی ویسا سنو گی، بلو اچھی طرح سن لے کان کھول کر میں تیری برابری کی نہیں ہوں۔

    زمین پے پاؤں رکھ کے چلو بوا زمین پے!

    اب کیا تیرے سر پے رکھ کے چل رہی ہوں۔

    میرے سر پے تم کیا پیر رکھو گی بیچاری، چرخہ کاتتے کاتتے تمہاری عمر گزر گئی، ایک دن چرخہ پونی لے کے نہ بیٹھو تو اگلے دن کھانے کو روٹی نہ ملے۔ تم میرے سر پے کیا پاؤں رکھو گی؟

    بلو دیکھ منھ میں لگام دے، چڑیل کہیں کی آئی وہاں سے باتیں بنانے ایران توران کی۔

    بوا عمر کا خیال کرتی ہوں، سفید بالوں سے اللہ میاں کو بھی شرم آتی ہے، نہیں تو وہ سناتی کہ سر پیٹ لیتیں تم اپنا۔

    کھڑی تو رہ مردار۔ پیڑھی سر پے دے ماروں گی۔

    میں چونڈا اکھاڑ لوں گی، پیڑھی مارنے والی کا۔

    بک بک کیے جارہی ہے۔ چپ نہیں ہوتی کمینی۔

    تم ہزار دفعہ کمینی!

    سکینہ سن رہی ہو، اس دھوبن کی باتیں تم۔

    ہاں بوا سن تو رہی ہوں مگر کیا کروں کچھ بس نہیں چلتا۔

    وہ کیا سنے گی، ابھی تو مجھے اس کے دانے دیکھنے ہیں تم تو ویسے ہی بیچ میں ٹانگ اڑا بیٹھیں، جھگڑا تو سیدانی سے ہو رہا تھا۔

    میرے کیا دانے دیکھے گی تو چڑیل؟

    سیدانی زبان سنبھالو، نہیں تو منھ نوچ لوں گی، بالوں میں آگ لگا دوں گی۔

    میں تیری چٹیا مونڈ لوں گی!

    میں تیرے لالوں کا خون پی لوں گی!

    ارے تیرے منھ میں لگے آگ، خون پی اپنے پیاروں کا۔

    سیدانی اللہ کرے تو مجھ سی ہی ہو جا!

    خدا نہ کرے مجھے تجھ سا۔

    تیرے مریں بچے سیدانی! مجھے منحوس کہنے والی۔

    بلو دیکھ زبان قابو میں رکھ، کیسا منھ بھر بھر کے کوس رہی ہے، نمک حرام۔

    تیرے مریں لال۔

    بلو خدا کے لیے۔

    تیرا لٹے سہاگ۔

    تیرا مرے خصم۔

    تیرا نکلے جنازہ۔

    بلو، تیرے پھوٹیں دیدے۔

    تیرے منھ میں نکلے کالا دانہ۔

    بوا خدا کے لیے اس کی جیب کتر لو!

    سیدانی تو اتنی ہی بڑی مر جائے، اللہ کرے تجھے شام ہونی نصیب نہ ہو۔ اور بوا رذالی کون ہوتی ہے جیب کترنے والی۔

    بلو میں پہلے کہہ چکی ہوں میرے منھ مت لگ تو۔

    تو میرا کیا بگاڑ لے گی؟

    میں تیرا کلیجہ نکال لوں گی۔

    میں تیرے منھ پے خاک ڈال دوں گی!

    نکل چڑیل میرے گھر سے!

    بوا دیکھو مجھے ہاتھ لگایا تو جان کی خیر نہیں، میں تو مرنے ہی کو پھر رہی ہوں، کل کی مرتی آج مر جاؤں۔ مجھے پروا نہیں۔ مگر تم کھینچی کھینچی پھرو گی زمانے بھر میں۔

    بوا اور بلو کو الجھا کر، سکینہ دبے پاؤں کوٹھے سے اتر آئی اور جلدی سے کواڑوں کی زنجیر لگا دی۔ تھوڑی دیر تو بلو بوا کو کوستی کاٹتی رہی، وہ بھی برابر جواب دیتی رہیں۔ اتنے میں دن چھپ گیا اور بوا نماز کو کھڑی ہوگئیں، بلو نے فرصت پا کر اوپر دیکھا تو سکینہ غائب! اس نے غصہ میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنے ہاتھ کو کھڑا کرکے زور سے مارا اور دانت کچکچاکے بولی، تیرے کھاؤں قتلے! تو آگ لگا کر چل دی چترا کہیں کی۔ مجھے بوا سے لڑا دیا اور آپ کھسک گئی۔

    (یہ مزاحیہ تحریر کوثر چاند پوری کی ہے، جنھوں نے افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ مزاح بھی تخلیق کیا)

  • ظالم محبّت

    ظالم محبّت

    دوسرے دن میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حسین صبح اپنی سحر انگیز آنکھوں کو کھول رہی ہے۔ باغ کی طرف کے دریچے کھلے ہوئے تھے اور آفتاب کی اچھوتی کرنیں گرجنے والے نیلے سمندر پر مسکرا رہی تھیں۔ باغیچے میں راگ گانے والے پرند مصروفِ نغمہ تھے مگر میرا دل اس دل فریب صبح میں بھی پریشان تھا۔

    میں نے سرہانے کی کھڑکی کا سنہرا پردہ ہٹایا اور جھانک کر باغ میں دیکھنے لگی۔

    عین دریچے کے نیچے ایک بڑا سا سرخ گلاب بہار کی عطر بیز ہواؤں میں والہانہ جھوم رہا تھا۔ نہ جانے زندگی کی کون سی تفسیر بیان کررہا ہے! کسے معلوم محبت کے کس پیچیدہ مسئلہ کی تشریح کررہا ہے! میں نے پریشان لہجہ میں اپنے آپ سے کہا۔ اتنے میں پردہ ہٹا۔ دیکھا تو زوناش (بوڑھی حبشی خادمہ) اپنی موٹی کمر سمیت اندر داخل ہورہی ہے: "خاتون روحی!” اس نے قدرے حیران ہوکر کہا۔

    "آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟ بیگم زبیدہ ناشتہ کے لئے آپ کا انتظار کررہی ہیں۔”

    صبح کے وقت میں کچھ زیادہ تنک مزاج ہوتی ہوں۔ زوناش سے خصوصاً کچھ چڑ سی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جھک کر صوفے کے پیچھے سے ستار اٹھا لیا اور اس کے تاروں کو درست کرنے لگی۔ زوناش ایک خوش رنگ ایرانی قالین پر کھڑی مجھ سے سوال پر سوال کئے جارہی تھی۔ اتنے میں دادی زبیدہ کی خادمہ صنوبر اندر آئی۔ خاتون روحی، چائے تیار ہے بیگم آپ کی منتظر ہیں۔

    میں ایک بیزار ادا سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ قد آدم آئینہ کے آگے کھڑی بالوں پر ایک پن لگا رہی تھی کہ ایک خیال نے مجھے چونکا دیا۔

    "زوناش! چائے کی میز پر دادی زبیدہ تنہا ہیں یا چشمی صاحب بھی موجود ہیں؟ مجھے کیا معلوم بی بی؟ زوناش کے ان روکھے سوکھے جوابوں سے مجھے دلی نفرت تھی۔ اور منیر کو رات بخار تو نہیں ہو گیا؟ کیسے رہے؟ یہ سوال میں نے مصلحتاً کیا۔

    "نہیں۔ وہ اچھے ہیں۔” میں تبدیلیٔ لباس کے بعد چپ شاپ نچلی منزل میں آگئی۔ دیکھا تو دادی زبیدہ ایک نفیس ریشمی لباس میں بیٹھی ناشتہ کے لئے میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک ہاتھ فاختائی رنگ کے دستانہ میں ملفوف تھا۔ دوسرا دستانہ سے خالی تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ پکڑ رکھا تھا جس کا مسلسل دھواں اٹھ اٹھ کر دائرہ کی شکل میں گھوم رہا تھا۔ سامنے حسبِ عادت اخبار پڑا تھا جسے وہ کبھی کبھی پڑھ لیتی تھیں۔ میں نے جاکر انہیں پیار کیا۔ آداب دادی جان پیاری! آداب۔ تم بڑی دیر میں آئی پیاری۔ میں سویرے اٹھ گئی تھی۔ نماز میں کچھ دیر لگ گئی۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے مقابل والی خالی کرسی پر نگاہ ڈالی۔ پھر کچھ تأمل کے بعد پوچھا، چشمی صاحب کہاں ہیں؟ کیا وہ چائے پی چکے؟ وہ آج صبح سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ دادی زبیدہ نے بے پروائی سے کہا: مربہ لو گی؟ لے لوں گی۔ وہ کہاں گئے ہیں دادی جان؟ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔

    یہ لو گاجر کا حلوا۔ اور یہ شہتوت کا مربہ۔ اس موسم میں صبح کے ناشتہ پر تازہ پھل ضرور کھانے چاہئیں۔ انناس کے قتلے لے لو۔ میں نے بادلِ ناخواستہ ایک ٹکڑا لیا اور چھری سے کاٹ کر کھانے لگی۔ دو منٹ بعد ہمت کر کے وہی سوال دہرایا۔ تو چشمی صاحب کہاں گئے ہیں دادی جان؟

    جو انناس تم کھا رہی ہو وہ ترش تو نہیں؟ اگر ترش ہو تو کیلا لے لو۔ چشمی صاحب کشتی کی سیر کے لئے گئے ہیں۔ غریب دن رات منیر کے کمرہ میں رہتا ہے۔ آج اس نے چھٹی منائی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو نہایت شریف پایا۔ یہ انجیر لو بیٹی۔

    میں چپ تھی اور سوچ رہی تھی ۔ منیر کی تیمار داری نے آخر چشمی کو مضمحل کر دیا۔ میں جانتی تھی کہ دوسرے کی تیمار داری ایک دن خود انہیں بیمار کر ڈالے گی۔ میں نے دبی زبان سے پوچھا: "تو کیا چشمی صاحب علیل ہیں دادی جان؟”

    "نہیں۔ ویسے ہی تفریحاً باہر گئے ہیں۔ لڑکی! تمہاری آنکھیں گلابی ہو رہی ہیں۔ طبیعت کیسی ہے؟” "جب سے یہاں آئی ہوں طبیعت کچھ سست سی رہتی ہے ، دادی جان۔”

    دادی زبیدہ نے فکر مندی کے الفاظ میں کہا۔ "سمندر کی ہوا تمہارے لئے مفید ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں چشمی صاحب سے التجا کرتی کہ تمہیں کشتی کی سیر کے لئے ساتھ لے جائیں۔ بڑا شریف آدمی ہے۔” مالک جانے میرا دل کیوں دھڑکنے لگا ۔ کشتی کی سیر! لہروں کی خاموش موسیقی! جھکی ہوئی خم دار ٹہنیوں کے سایہ میں چشمی جیسے ملاح کے ساتھ ایک نامعلوم آبی راستہ پر چلا جانا! یہ سب کچھ کس قدر رومان آفریں تھا۔

    "شام تک وہ لوٹ آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ شام کو باہر جاسکتی ہوں دادی جان؟” میں نے بھولی شکل بناکر پوچھا۔ "ہاں کیوں نہیں مگر منیر سے پوچھ لو۔ منیر سے پوچھ لو!” میری خوشیوں کے افق پرایک سیاہ بدلی ابھرنے لگی۔

    ناشتہ کے بعد میں منیر کی مزاج پرسی کے لئے ان کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ تک جا کر رک گئی ۔ کہیں چشمی نے اس بد نصیب آدمی کو میرا پیام پہنچا تو نہیں دیا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ڈرتے ڈرتے پردہ ہٹا کر اندر آگئی مگر آثار کچھ ایسے معلوم نہ ہوئے۔ کیونکہ مجھے دیکھ کر منیر کے چہرے پر وہی پرانی شگفتہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر میرا دل دکھا۔ کچھ دیر بعد میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کی کہ میں کیوں اس سے محبت نہیں کر رہی، کیا باوجود کوشش کے میں اس سے محبت نہ کر سکوں گی؟ اپنے منسوب سے!! اپنے ظلم پر خود اپنی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں نے چہرہ دریچہ کی طرف پھیر لیا۔ پھر بڑی ملائمت سے سوال کیا:

    "منیر! آج تم بہت شگفتہ نظر آرہے ہو ۔ کہو رات کیسی کٹی؟ ”

    "شکریہ! بہت اچھی کٹی۔ نیز محسوس کررہا ہوں کہ صحت بڑی سرعت سے مجھ پر عود کر رہی ہے۔” اسی وقت دادی جان اندر آئیں اور کہنے لگیں: "خدا نے چاہا تو ایک ہفتہ میں بالکل تندرست ہوجاؤ گے۔ پھر انشاء اللہ میں تم دونوں کو ایّام عروسی بسر کرنے کوہ فیروز کے پُر فضا مرغ زاروں میں چھوڑ دوں گی۔” منیر مسکرا پڑا۔ میں دور کہیں فضا میں تک رہی اور تشنج کی سی کیفیت محسوس کررہی تھی۔

    کچھ دیر بعد دادی زبیدہ چہل قدمی کے لئے باہر چلی گئیں اور کمرے پر موت کی سی خاموشی طاری ہوگئی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ ایک ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا، دوسرا ابھر ابھر کر ڈوب جاتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے منیر کو دیکھا۔ وہ بغور مجھے تک رہا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کا نوجوان چہرہ وفور مسرت سے آفتاب کی طرح دمک رہا تھا۔ وہ مجھ پر جھک کر کہنے لگا۔ "تمہیں کوہ فیروز کے مرغ زار پسند ہیں؟”

    "بہت منیر!” دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے کہا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ نہایت دھیمے لہجہ میں بولا: "میری جان! زندگی کی کلی ایسے ہی مرغزاروں میں کھل کر پھول بنتی ہے۔ روحی اس دن کا خیال کرو جس دن ہم دونوں۔۔۔ پھولوں سے سجے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے باغیچوں میں چنبیلی کی معطر بیلوں تلے ایک دوسرے کی محبت کا اعتراف کریں گے۔”

    میرے دل پر ایک تیر سا لگا کیونکہ میں ابھی تک اس کشتی کا خواب دیکھ رہی تھی جس کا ملاح چشمی تھا۔ دو منٹ بعد مجھے اپ نی خاموشی کا احساس ہوا۔ بولی: "واقعی منیر! باغیچوں میں چنبیلی کی بیلوں تلے محبت کا رات گانا بے حد پرلطف ہوگا۔”

    "اور پھر ہم دونوں”۔۔۔ منیر نے جملہ ختم نہ کیا۔ مگر "ہم دونوں” کے لفظ نے میرے کاہیدہ جسم میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔ کون دونوں۔۔۔؟ منیر اور میں۔۔؟ یا دو محبت کرنے والے دل؟

    کچھ دیر بعد میں منیر کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ باغ کے زینے پر کھڑی سوچتی رہی۔ آہ! میری زندگی کا پلاٹ کتنا عجیب ہے! اگر میں منیر سے نفرت کر سکتی تو میں ان الجھنوں میں مبتلا نہ ہوتی۔ اگر محبت کر سکتی تو ان تمام مصائب کا خاتمہ ہو جاتا! مگر آہ! اس شخص سے نہ میں محبت کر سکتی نہ نفرت! میرے دل میں منیر کے لئے ہمدردی موجود تھی۔ میں اپنے آپ کو اس کی گنہگار محسوس کر رہی تھی۔ آہ! گناہ کا احساس! محبت کی مجبوری!

    میں باغ میں چلی گئی اور فوارہ کے قریب ایک کوچ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں بار بار نہر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ چشمی کی کشتی واپس آ رہی ہوگی مگر نہ آئی۔ جب دوپہر کی گرم ہوائیں چلنے لگیں تو میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ بہت دیر ایک صوفے پر پڑے موجودہ حالات پر غور کرتی رہی۔ چشمی دوپہر کے کھانے پر بھی نہ آئے تو مجھے شبہ ہوا کہ وہ مصلحتاً گھر سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    جب سائے ڈھل گئے اور ہواؤں میں دوپہر کے آفتاب کی تمازت کم ہوگئی تو میں بلاارادہ پھر باغ میں گھاٹ پر نکل آئی اور آنے والی کشتیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ میں انتظار کی درد انگیز خلش محسوس کر رہی تھی۔

    سورج زیتون کی ٹہنیوں کے اوپر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ درختوں کی شاخوں تلے نظر آنے لگا۔ نہر کا پانی خالص سونے کی طرح سنہرا ہو گیا اور پورا باغیچہ دھوپ کی لہروں میں جگمگا اٹھا۔ دور۔۔ سنہری سنہری لہروں میں ایک ننھی سی نیلے رنگ کی کشتی نظر آنے لگی۔ میرا دل دھڑکا۔

    اللہ جانے کیوں یہ آج کل غیر معمولی طور پر دھڑکنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گنگنانے لگی

    چشم قمر کو بھی مرے خوابوں پہ رشک ہے
    پیش نظر ترا رخ روشن ہے آج کل
    جس آستاں کو سجدۂ پرویں بھی بار تھا
    وہ آستاں جبیں کا نشیمن ہے آج کل

    بانس کے سر بلند درختوں پر ایک ہد ہد زور سے گا رہا تھا کہ اتنے میں وہ نیلی کشتی گھاٹ پر آ لگی۔ ادھر میرے دیکھتے دیکھتے چشمی اتر آئے۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی۔”

    آپ یاں کیا کررہی ہیں خاتون روحی؟” انہوں نے بچوں کے سادہ لہجہ میں پوچھا۔

    لیکن میں کیا جواب دیتی؟ کیا یہ کہہ دیتی کہ آپ کے انتظار نے قریب المرگ کر رکھا تھا۔ توبہ توبہ۔ یہ کس طرح کہہ سکتی تھی۔ کچھ بوکھلا سی گئی۔ بولی: "میں؟ یوں ہی یہاں بیٹھی تھی۔ اندر بہت گرمی تھی۔ آج کا دن بڑا گرم رہا۔ آپ کہاں گئے تھے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی جاپانی وضع کی نارنجی چھتری کھول لی۔

    "میں ذرا دل بہلانے نکل گیا تھا۔”

    "ہاں” میں نے کہا۔

    "گھر میں وحشت ہوتی ہوگی۔ تیمار داری کوئی دل چسپ کام نہیں۔”

    "یہ آپ کیا فرماتی ہیں خاتون روحی!” چشمی نے مؤثر لہجے میں کہا۔ "منیر صاحب کی تیمار داری میرا ایک مرغوب فرض ہے۔ آپ نہیں جانتیں مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔”

    "میں جانتی ہوں” میں نے سنجیدگی سے کہا۔ "آپ نہیں جانتیں” چشمی ہنس کر بولے: "اس کا اندازہ یا تو منیر لگا سکتے ہیں یا پھر میرا دل۔”

    میں اب بھی سنجیدہ تھی: "افوہ! اتنی گہری محبت ہے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بے چینی سی محسوس کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چشمی نے میری وحشت کو محسوس کیا پھر کہنے لگے: "آپ گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ شمشاد کے درختوں کی طرف چلیے، اس چبوترے پر ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔” اس نے میرا بازو تھام لیا اور شمشاد کے درختوں کے پاس سنگ مرمر کے ایک سفید چبوترہ پر لے گیا۔

    "میں گھبرائی ہوئی نہیں ہوں، صبح سے ایک افسانہ لکھ رہی تھی۔ ایک جگہ پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں تو سوچنے کے لئے ادھر نکل آئی۔ کیا اپنے افسانہ کا پلاٹ آپ کو سناؤں؟ آپ کوئی رائے دے سکیں گے؟”

    "زہے نصیب!” چشمی نے کہا: "مگر میں صائب الرّائے نہیں۔ ویسے افسانے بڑی دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔ فرمائیے۔”

    "تو سنئے!” میں نے کہا: "مگر افسانہ کچھ زیادہ رنگین ہے۔ آپ مجھ پر عریاں بیانی کا الزام تو نہ لگائیں گے۔”

    "میری مجال نہیں۔ میں موپاساں کے افسانے پڑھ چکا ہوں”۔ چشمی نے کہا۔
    "توبہ کیجئے۔ یہ افسانہ ایسا نہیں۔ اس کی عریانی میں بھی زندگی کا درد پوشیدہ ہے”۔

    "فرمائیے”۔

    میں نے احتیاطاً ایک دفعہ اور کہا: "مجھ پر شوخی کا الزام کسی طرح بھی نہیں لگ سکتا کیونکہ یہ پلاٹ میرا اپنا نہیں۔ میں نے کہیں سے لیا ہے۔ اس لئے اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ اس کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔”

    "بالکل”۔ میں کہنے لگی: "افسانہ دو مردوں اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے۔”

    "اف!” چشمی نے کہا: "یہ پلاٹ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں۔۔۔”
    "ٹھہریے، دیکھئے چشمی صاحب! پہلے آپ پلاٹ سن لیجئے پھر آپ سے آپ کی رائے پوچھی جائے گی۔”

    "بہت اچھا!”

    "تو ایک عورت اور دو مرد۔ عورت اس مرد سے بے پروا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے۔ مرد اس عورت کو نہیں چاہتا جس سے یہ عورت محبت کرتی ہے۔ تو ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟” چشمی کہیں دور ہری ہری دوب کے اس پار سنہری لہروں کو دیکھ رہے تھے۔

    "میں زود فہم نہیں ہوں۔ اک دفعہ پھر آسان زبان میں کھول کر فرمائیے۔”

    کھول کر! یہ ظالم اس کتاب کو کھول کر پڑھنا چاہتا ہے! آہ۔۔۔ میں بولی: "آپ نہیں سمجھے۔ عورت اس مرد کو چاہتی ہے جس کے متعلق اسے خود خبر نہیں کہ وہ مرد بھی اس سے محبت کر رہا ہے یا نہیں اور اس مرد کو نہیں چاہتی جس کے متعلق اسے علم ہے کہ اس سے محبت کر رہا ہے۔ میں کسی قدر کانپ رہی تھی۔

    "اب میں سمجھ گیا”۔ چشمی نے دور کہیں فضا میں تکتے ہوئے کہا۔

    "تو پھر ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟”

    "مگر سوال یہ ہے”۔ چشمی کہنے لگے: "عورت جس مرد کو چاہتی ہے اس کے متعلق اس کے پاس اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ وہ مرد بھی اس پر جان نہیں دے رہا۔”

    "کیا۔۔۔؟” بیساختہ میں بول پڑی ۔ میرے چہرے پر سرخی دوڑ گئی: "آپ نے کیا کہا ؟وہ مرد؟۔۔۔”

    چشمی کے چہرے پر بے چینی اور اضطراب کی علامات نمودار ہوئیں، کہنے لگے: میں۔۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اپنے محبوب سے عورت کو گمان ہونے کے اسباب کیا ہیں؟”

    واقعی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا: "تو۔۔۔ تو کیا وہ مرد بھی۔” اتنا کہہ کر میں یک لخت رک گئی۔

    "ہاں تو آپ چپ کیوں ہو گئیں؟ پورا پلاٹ سنا ڈالیے۔”

    "ختم ہو گیا۔” میں نے کہا: "بس اتنی ہی بات پوچھنی تھی۔ آج کئی دن سے اس پلاٹ کو سوچ رہی تھی کہ ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا وہ مرد بھی۔ اس سے محبت کرتا ہے؟” میری آواز لرز گئی۔ میرا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح زرد پڑ گیا۔

    ہائے کبھی کاہے کو میں نے ایسی مصیبتیں اٹھائی تھیں؟ میرے معبود مجھ پر رحم کر۔ چشمی نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔ سنجیدہ لہجہ میں بولے: "تو کیا عورت کو اس دوسرے مرد سے جس کی محبت کا اسے یقین نہیں، واقعی محبت ہے۔”

    "ہائے، ہاں۔ شدید شدید ہے چشمی صاحب !” میرے منہ سے نکل گیا۔ پھر میں سہم گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دعا کے پیرایہ میں میرے ہونٹوں سے اک آہ نکل گئی کہ اے عشق! نسوانی خودداری کو اس طرح پامال نہ کرو۔ یہ سچ ہے کہ تیرے آہنی ہاتھوں نے شاہنشاہوں کے تاج چکنا چور کر دیے مگر ایک بے بس مظلوم لڑکی پر رحم کر۔ آہ محبت کی مجبوریاں!

    بڑی دیر تک ہم خاموش رہے۔ نارنجی رنگ کا بڑا سا آفتاب سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا۔ باغ پر ایک افسردگی سی چھا گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چشمی کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ ان کی گہری نیلی آنکھیں اداس نظر آ رہی تھیں۔ لیکن دفعتاً انہوں نے کہا:
    "آپ نے افسانہ کے تیسرے فرد کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اس کا کیا ہوگا؟”

    میں بوکھلا سی گئی۔ غم ناک لہجہ میں بولی: "یہ ایک نامکمل پلاٹ ہے چشمی صاحب۔ میں اسے ختم نہیں کر سکی۔ نہیں معلوم، اس پلاٹ کے اختتام پر کتنی زندگیوں کا انحصار ہے۔”

    میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جھٹ میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
    "ایسے پلاٹ عموماً بہت مشکل ہوتے ہیں خاتون روحی! بہرحال ایسی افسانوی باتوں پر آپ زیادہ غور نہ فرمایا کیجیے۔”

    "شعر اور افسانہ تو میری جان ہے اور اس پر غور کرنا میری زندگی۔” میں نے بمشکل کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی: "چلیے دادی جان چائے پر انتظار کر رہی ہوں گی۔”

    (نوٹ:‌ بیسویں صدی کی حجاب امتیاز علی کا نام اردو فکشن نگاروں میں سرفہرست ہے۔ ان کی تحریروں کا دل کش انداز اور اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ حجاب امتیاز علی کا یہ دل چسپ اور یادگار افسانہ "ظالم محبت” کے عنوان سے پہلی بار 1938 میں شائع ہوا تھا۔)

  • ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    "یوں تو اردو ہندی کا جھگڑا برسوں سے چلا آ رہا تھا، لیکن اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب گاندھی جی نے بھارتیہ ساہتیہ پریشد ناگپور کے جلسے (1936ء) میں برصغیر کی مجوزہ قومی زبان کو "ہندوستانی” کے بجائے ہندی، ہندوستانی کا نام دیا۔”

    اور وضاحت طلب کرنے پر کہا: "ہندی ہندوستانی” سے مراد ہندی ہے۔ اردو کے متعلق فرمایا: "یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے اور مسلمان ہی اس کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔”

    جامعہ ملّیہ دہلی کے پروفیسر محمد مجیب نے گاندھی جی کو انگریزی میں طویل خط لکھا جسے پنڈت نہرو نے پریشد کے اجلاس 1936ء میں پڑھ کر سنایا۔ لیکن گاندھی جی نے کوئی توجہ نہ دی۔ یہ خط گاندھی جی کی تصنیف "آوَر لینگوئج پرابلم (Our Language Problem)” میں شامل ہے اور ہندی اردو تنازع کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔

    اس خط کے اردو ترجمہ کو نگار میں‌ جگہ دیتے ہوئے فرمان فتح پوری مزید لکھتے ہیں کہ میں شکر گزار ہوں کہ میری گزارش پر سحر انصاری صاحب نے اسے اردو میں منتقل کرنے کی زحمت فرمائی۔

    اس خط سے یہ اقتباسات علمی و ادبی ذوق کے حامل قارئین کی دل چسپی کا باعث اور بالخصوص متحدہ ہندوستان کی تاریخ اور زبان و ادب کے طالبِ علموں کے لیے معلومات افزا ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں بالکل شروع سے اپنی بات کا آغاز کروں گا۔”

    "گزشتہ کئی سال سے کانگریس ایک مشترکہ سیاسی مقصد کے لازمی جزو کے طور پر ایک مشترکہ زبان کی حمایت کر رہی ہے۔ ادبی نقطۂ نگاہ سے عوامی مقررین اس باب میں متعدد فروگزاشتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں اس نے سادگی اور بے تکلفی کا ایسا معیار پیدا کر دیا ہے جو اس سے قبل مفقود تھا۔ حتّٰی کہ مولانا سید سلیمان ندوی جیسے ادیب جن کی ساری زندگی عربی کتب کے مطالعے اور ناقابلِ تحریف اصطلاحات کے حامل موضوعات کو برتنے میں گزری ہے، پورے خلوص کے ساتھ اپنی زبان کو آسان کرنے اور ہندوستانی سے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ایک مشترکہ ہندوستانی زبان کا تصور انہیں بے حد عزیز ہے۔”

    "کانگریسی حلقوں میں اس مشترکہ زبان کو "ہندوستانی” کہا جاتا ہے، حالانکہ کانگریس نے اس نام کے سلسلے میں اردو اور ہندی بولنے والوں کے مابین کوئی قطعی مفاہمت پیدا نہیں کی ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں نام اپنے تلازمات کی بنا پر بے پایاں سیاسی و سماجی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی مشترکہ زبان کا نام تجویز کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔”

    "اب تک اردو ہی ایک ایسی زبان رہی ہے جو کسی ایک صوبے یا مذہبی فرقے تک محدود نہیں، سارے ہندوستان کے مسلمان یہ زبان بولتے ہیں اور شمال میں اس زبان کے بولنے والے ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ رہی ہے۔ اگر ہماری مشترکہ زبان کو اردو نہیں کہا جاسکتا تو کم از کم اس کا ایک ایسا نام ضرور ہونا چاہیے جس سے مسلمانوں کا یہ مخصوص منصب مترشح ہو سکے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان کے ارتقا میں حصہ لیا ہے جو کم و بیش ایک مشترکہ زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔”

    "ہندوستانی” سے یہ مقصد حل ہو سکتا ہے، "ہندی” سے نہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے یہ زبان (ہندی) پڑھی ہے، اور اگر زیادہ نہیں تو اپنے ہندو بھائیوں ہی کے برابر انہوں نے بھی اسے ادبی زبان کے مرتبے تک پہنچانے میں حصہ لیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ مذہبی اور ثقافتی تلازمات بھی ہیں جن سے مسلمان من حیث المجموع خود کو وابستہ نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں، اب یہ اپنا ایک الگ ذخیرۂ الفاظ وضع کر رہی ہے ، اور یہ ان افراد کے لیے عمومی طور پر ناقابلِ فہم ہے جو صرف اردو جانتے ہیں۔”

    "اردو اور ہندوستانی کے بجائے اگر ہندی اور ہندوستانی کے مابین خلط مبحث پیدا کرنے کا ایک واضح رجحان نہ پایا گیا ہوتا تو اس امر پر زور دینے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ گزشتہ سال اندور میں آپ کی تقریر نے یہ قطعی تأثر دیا کہ آپ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں اور "ہنس” کے پہلے شمارے کے لیے اپنے پیش نامے میں آپ نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے۔”

    "مجھے پورا یقین ہے کہ ہندی سے آپ کی مراد بنیادی طور پر عام لوگوں کی زبان ہے۔ ایک ایسی زبان جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کی تعلیم کے بہترین ذریعے کے طور پر کام آ سکتی ہے۔ لیکن متعدد ایسے افراد کے لیے جو اس کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کوشاں ہیں، "ہندی” ایسی کوئی زبان نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ ہندی کو ہندوستانی کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک ذخیرۂ الفاظ ایک ذوق اور سیاسی و مذہبی وابستگیوں کو متعارف کرتے ہیں۔ میں اسی رجحان کے خلاف آپ سے اپیل کر رہا ہوں کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ ساہتیہ پریشد بھی اس کا شکار ہو گئی ہے۔”

    "میں پریشد کی تشکیل پر خوش ہونے والوں میں سے ایک تھا، کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ یہ ایک مشترکہ زبان کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی۔ میں نے "ہنس” کی اشاعت کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔ میں پریشد کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اگر "ہنس” کے شمارے اس کے رویے اور حکمت عملی کی ذرا سی بھی غمازی کرتے ہیں تو اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ منشی پریم چند صاحب اس وقت شاید ہماری سب سے بڑی ادبی شخصیت ہیں، وہ ان کمیاب شخصیتوں میں سے ہیں جن کے لئے ادب ذاتی اظہارِ رائے کا ذریعہ بھی ہے اور خدمتِ خلق کا بھی۔ وہ اردو اور ہندی پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور ان میں ہندو مسلم تہذیب کے بہترین ادبی و سماجی روایات کا امتزاج ملتا ہے، "ہنس” کو وہی زبان استعمال کرنی چاہیے تھی جو وہ خود لکھتے ہیں اور اسی روایت کا نقیب بننا چاہیے تھا جس کی وہ خود نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یہی میرا سارا کرب ہے۔”

    "ہنس” واضح طور پر ایک فرقہ پرست رسالے کا تأثر دیتا ہے۔ دوسرے ہندی رسائل کے مقابلے میں یہ زیادہ سنسکرت آمیز ہندی استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جسے کسی طرح بھی ہندوستانی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے نقطۂ نظر یا انتخاب مضامین سے ہرگز یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ ہنودستانی قوم مختلف معاشرتوں کا مجموعہ ہے یا یہ کہ ایک کے سوا کوئی اور ثقافت بھی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ اس سے اتحاد کی نہیں بلکہ سامراجیت کی بو آتی ہے۔”

    "ایک چھوٹی سی مثال سے میرا موقف واضح ہو جائے گا، ساہتیہ پریشد کو "بھارتیہ” کہا گیا ہے نہ کہ ہندوستانی۔ ایسا کیوں ہے؟”

    "اگر بھارت کا کوئی مطلب ہے تو صرف یہ کہ یہ آریوں کا ہندوستان ہے جس کی زندگی میں نہ صرف مسلمانوں اور ان کی خدمات کو بلکہ صدیوں کے ارتقاء اور تغیر کو بھی کوئی مقام حاصل نہیں۔ کیا اس سے علیحدگی پسندی اور رجعت پسندی کا اظہار نہیں ہوتا ہے؟ پھر ہمیں جو گشتی مراسلے ہندی میں بھیجے گئے ہیں ان میں بات چیت کی زبان کے دو یا تین سے زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ عام ہندی کے [नीचे लिखे हुए] (نیچے لکھے ہوئے) کی جگہ [निम्न लिखित] (نیمن لکھت) جیسے خالص سنسکرت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ناگری رسمُ الخط سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود میرے لیے بھی یہ ناقابلِ فہم ہیں۔”

    "یہ امر بالکل واضح ہے کہ فنّی اصطلاحات کے لحاظ سے سنسکرت اور عربی دونوں زبانیں بھرپور ہیں لیکن ایک عام ہندوستانی زبان ان میں سے کسی ایک پر بھی مکمل انحصار نہیں کر سکتی کیونکہ اگر عربی ایک بدیسی زبان ہے تو سنسکرت بھی کبھی عام بول چال کی زبان نہیں رہی ہے۔ بول چال کی ہندی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوگا کہ اس میں شامل شدہ تمام سنسکرت الفاظ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصے تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوستان کے عام لوگ آسانی سے ان کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے۔”

    "ہندی کے بیشتر حامیوں نے یہ سارے حقائق نظر انداز کر دیے ہیں اور یہ اور کئی دوسرے الفاظ کے اصل سنسکرت متبادل شامل کر دیے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ سب کچھ ادعائے فضیلت کا نتیجہ ہے یا ناواقفیت کا یا تعصب کا؟ کیونکہ سنسکرت کے بول چال کے تو سارے الفاظ اردو میں شامل ہی ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور واضح ہے کہ ان دوستوں کا براہِ راست تعلق زندہ اور بولی جانے والی زبان کی ترویج و اشاعت سے نہیں بلکہ ہندوستانی زندگی کو آریائی طرز پر ڈھالنے سے ہے۔ اگر ہمارے ہندو بھائی اپنے اندر اصلاح یا رجعت کی کوشش کر رہے ہیں تو مسلمانوں کو اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں لیکن مشترک دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس قسم کی تحریکوں کو لسانی مسئلہ سے سختی کے ساتھ دور رکھا جائے۔”

    "عقیل صاحب کے ایک خط کے جواب میں شری کے۔ ایم۔ منشی نے کہا ہے کہ: "گجرات، مہاراشٹر، بنگال اور کیرالا کے لوگوں نے ایسی ادبی روایات استوار کی ہیں جن میں خالص اردو عناصر تقریباً مفقود ہیں۔ اگر ہم ہندی کی طرف متوجہ ہوئے تو فطری طور پر ہم سنسکرتی ہندی کی طرف متوجہ ہوں گے۔”

    "سب سے پہلے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ گجراتی، مرہٹی اور بنگالی، ان ساری زبانوں میں فارسی کے الفاظ کی خاصی تعداد موجود ہے۔ نیز یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ایک دوسرے سے اور مسلمانوں سے قریب آنے کے لیے گجرات اور بنگال کے ہندوؤں کو سنسکرت آمیز زبان اختیار کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں ہمیں خالص اردو عناصر سے نہیں بلکہ شمالی ہند کی زندہ زبان اور محاوروں سے سروکار ہے۔ اگر اس زندہ زبان اور محاورے کو ایک مشترکہ زبان کی بنیاد بنایا جائے تو مسلمان مؤثر طور پر تعاون کر سکتے ہیں۔ سنسکرت کی سمت مراجعت کا مطلب یہ ہے کہ ہندی، بنگالی اور گجراتی کے سلسلے میں مسلمانوں کی گزشتہ خدمات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ان حالات میں ہم سے تعاون کے لیے کہنا ایسا ہی ہے جیسے ہم سے کہا جائے کہ خودکشی کے لیے رضامند ہو جاؤ۔”

    "یہ امر کہ ہندی اردو کا سوال عنقریب ایک فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر سکتا ہے، اس تقریر سے ظاہر ہے جو مسٹر پرشوتم داس ٹنڈن نے اس ماہ کے پہلے ہفتے میں بنارس میں ہندی میوزیم کی افتتاحی تقریب میں کی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ چینی کے بعد ہندی دوسری زبان ہے جو ایشیا کے طول و عرض میں بولی جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مشترکہ زبان کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اور وہ ہندی ہوگی، کیونکہ ہندوستانیوں کی اکثریت ہندی بولتی ہے۔ جو لوگ ہندوستانی کا نعرہ بلند کریں انہیں اکثریت دبا دے گی۔ لہذا ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن سروں کا گننا اور سروں کا توڑنا کوئی مداوا نہیں ہے۔ مسٹر ٹنڈن کا حقیقی مفہم خواہ کچھ ہی ہو لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے Cummunal award کی طرح کی ایک اور شرمناک صورت حال کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔”

    "اب آپ کا وقار اور آپ کی شخصیت کا عطا کردہ اعتماد ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ میں ذیل میں چند ایسے نکات پیش کر رہا ہوں جو میری ناچیز رائے میں اعتدال پسندانہ ہیں اور ایک مشترکہ زبان کے لیے صحت مند اساس مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نہ صرف اپنے نقطۂ نظر سے بلکہ ایک مقصد کی بجاآوری کے نقطۂ نظر سے ان پر غور کریں اور انہیں کسی قابل سمجھیں تو آپ انہیں دوسروں تک بھی پہنچا دیجیے۔ میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ یہ عوام کے سامنے آپ کے کسی اعلان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

    نکات یہ ہیں کہ:

    1۔ ہماری مشترکہ زبان کو "ہندی” نہیں بلکہ "ہندوستانی” کہا جائے گا۔

    2۔ ہندوستانی کا کسی بھی فرقے کی مذہبی روایات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوگا۔

    3۔ "بدیسی” یا "دیسی” کے معیار پر کسی لفظ کو نہیں پرکھا جائے گا بلکہ استعمال کو سند مانا جائے گا۔

    4۔ اردو کے ہندو ادیبوں اور ہندی کے مسلمان ادیبوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سب کو رائج سمجھا جائے گا۔ بلاشبہ، اردو اور ہندی پر الگ الگ زبانوں کی حیثیت سے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

    5۔ فنی اصطلاحوں بالخصوص سیاسی اصطلاحات کے انتخاب میں صرف سنسکرت ہی کو ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ اردو، ہندی اور سنسکرت کی اصطلاحوں سے فطری انتخاب کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے گا۔

    6۔ دیوناگری اور عربی ہر دو رسم الخط مستعمل اور سرکاری سمجھے جائیں گے۔ ان تمام اداروں میں جن کی پالیسی ہندوستانی کے سرکاری فروغ دہندگان مرتب کریں گے، ہر دو رسم الخط کے سیکھنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    کچھ ایسے دوست بھی ہوں گے جنہیں یہ تجاویز مسلم مطالبات قسم کی چیز معلوم ہوں گے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ کی اور پریشد کی جانب سے اس قسم کی کسی یقین دہانی کے بغیر، ایک مشترکہ زبان کے سلسلے میں مسلمانوں کی ادبی جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے میں نے یہ تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔”

    "میں جانتا ہوں کہ اگر یہ حد سے متجاوز ہیں تو آپ مجھے معاف کر دیں گے اور اگر یہ نامناسب ہیں تب بھی آپ کی اہانت کا باعث نہیں بنیں گی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں صرف اپنا فرض ادا کرنا اور آپ سے ایک درخواست کر کے آپ کے فیصلے کے ضمن میں اپنی بے پایاں عقیدت اور آپ کے گہرے احساسِ انصاف و تحمل پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔”

    (اماخوذ از رسالہ: نگار، اردو ترجمہ: سحر انصاری)

  • جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    بی آر چوپڑا کو ہندوستان کا عظیم فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے بولی وڈ کو کئی سپرہٹ فلمیں دیں۔ مشہور شاعر اور کام یاب فلمی گیت نگار کی حیثیت سے ساحر لدھیانوی کو بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس دوران ان دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق استوار ہوگیا۔ یہاں ہم جو قصّہ بیان کرنے جارہے ہیں، اس کا تعلق ساحر لدھیانوی کی حقیقی زندگی سے ہے۔

    ‘گمراہ’ بی آر چوپڑا کی فلم تھی اور جن دنوں وہ یہ فلم بنا رہے تھے، ان کا کسی کام سے ساحر کے گھر جانا ہوا۔ وہاں میز پر ساحر لدھیانوی کی ڈائری رکھی ہوئی تھی جسے فلم ساز نے اٹھایا اور ورق گردانی شروع کر دی۔ انھیں اس میں تحریر کردہ ایک نظم بہت پسند آئی۔ فلم ساز بی آر چوپڑا نے ساحر سے کہا کہ وہ اس نظم کو اپنی فلم ‘گمراہ’ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ساحر نے انکار کر دیا۔ بی آر چوپڑا نے اصرار کیا تو ساحر نے انھیں کہاکہ یہ نظم نہیں‌ ہے بلکہ اس کی آپ بیتی ہے، اور چوں کہ ان اشعار کا تعلق اس کی ذات سے ہے، اس لیے وہ اسے کسی فلم کے لیے نہیں دے سکتا۔ ساحر لدھیانوی کے عشق اور رومان کے قصّے اس زمانے میں عام تھے۔ ساحر ایک قبول صورت انسان تھے، لیکن ایک مقبول شاعر ضرور تھے اور رومان پرور مشہور تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم ساحر نے سدھا ملہوترا سے اپنے ناکام عشق کے بعد لکھی تھی۔ بی آر چوپڑا نے کہا کہ میری آنے والی فلم کے ایک منظر کے لیے اس سے اچھی نظم کوئی نہیں ہو سکتی اور تم مجھے انکار نہ کرو۔ ساحر نے بار بار اصرار کرنے پر وہ نظم بی آر چوپڑا کو دے دی۔

    موسیقار روی کے ساتھ مہندر کپور کی آواز میں یہ نظم بی آر چوپڑا نے اپنی فلم ‘گمراہ’ میں شامل کر لی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ یہ نظم آپ نے بھی سنی ہوگی، ‘چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں…’

    اس نظم کے یہ اشعار اس زمانے میں ہر دل شکستہ، ناکام عاشق اور حالات کے آگے ڈھیر ہوجانے والا ضرور پڑھتا یا اپنی ڈائری میں لکھ لیتا تھا اور لوگ اس نظم کے یہ اشعار خاص طور پر پڑھتے تھے۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
    چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں