Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • جرمنی کا مشہور شاعر ہائینے اور اس کی محبوبہ

    جرمنی کا مشہور شاعر ہائینے اور اس کی محبوبہ

    ہیری ہائینے ایک طفل طرار تھا اور اگرچہ وہ جسمانی طور پر مضبوط نہ تھا لیکن اس کے احساسات تیز تھے۔ وہ مطالعے کا بے حد شوقین تھا اور ڈان کوہیٹے (Don Quixote) اور گلیور کے سفر (Gulliver’s Travels) اُس کی محبوب کتابیں تھیں۔

    ان کتابوں کے نکتہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ ان کتابوں ہی کی خیالی دنیائیں تھیں، جن کا نقش شاعر کے ذہن پر بہت گہرا ہوا اور نوجوانی اور آیندہ عمر میں ان طفلانہ تاثرات کا اظہار اس کے کلام میں ہوا۔

    ہائینے اپنی بہن کے ساتھ مل کر بچپن ہی سے شعر و شاعری کے مشغلہ میں حصہ لیا کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں اس نے ایک ایسی نظم لکھی، جسے اس کے استادوں نے ایک شاہکار تسلیم کیا۔ اسکول کی طالب علمی کے زمانہ میں وہ دن رات بہت اچھی طرح پڑھائی میں مصروف رہا۔ اس دوران میں صرف ایک بار اسے غم کا سامنا ہوا۔

    ایک دفعہ وہ اسکول کے کسی مجمع میں ایک نظم پڑھ کر سنارہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہیں ایک خوبصورت لڑکی پر پڑیں۔ یہ لڑکی سامعین میں موجود تھی۔ وہ پڑھتے پڑھتے جھجکا، رک رک کر اُس نے پھر پڑھنے کی کوشش کی، لیکن بے کار، وہ خاموش ہو گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ مشہور ماہرِ جنسیات ہیولاک ایلس لکھتا ہے کہ اس واقع سے ہائینے کی زندگی میں بچپن ہی سے اس شدت احساس کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں موجود تھی۔ گویا وہ بچپن ہی سے اپنے جذبات و تخیل کا محکوم تھا۔

    اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ ہائینے سترہ سال کا تھا اور اس کا امیر چچا سلیمان ہائینے اس بات کی بے کار کوشش میں تھا کہ اپنے بھتیجے کو تجارت کی طرف لگا دے۔ اس زمانہ میں ہائینے کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، جس نے اس کے دل میں پہلی اور آخری بار ایک گہرے جذبہ کو بیدار کیا تھا۔ لیکن اس جذبہ کی اس کے سوا اور کسی طرح تسکین نہ ہوسکی کہ شاعر کی نظمیں اس سے چمک اٹھیں۔ ہائینے نے کبھی اس عورت کا نام تک اپنی زبان پر نہ آنے دیا اور میر تقی کی طرح ساری عمر ایک غیر سر زمین میں جا کر گزار دی اور اپنی محبوبہ کی شخصیت کو ہمیشہ چھپائے رکھا۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے بھی بہت بعد میں جا کر لوگوں کو معلوم ہوا کہ جس عورت کے متعلق شاعر ایسے میٹھے اور دکھ بھرے گیت گاتا رہا ہے اور جس کی شخصیت پر وہ میریا، زلیما اور ایوسے لینا کے ناموں کے پردے ڈالتا رہا ہے، وہ اس کی بنتِ عم (چچا زاد) ایمیلی ہائینے تھی۔

    1856ء میں ہائینے اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    (از میرا جی)

  • قلم اور قدم سے سفر

    قلم اور قدم سے سفر

    نوال السعدوی قلم اور تحریر کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں، موت کی طرح تحریر کو بھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔

    حقوقِ نسواں کی علم بردار، سماجی کارکن، ڈاکٹر اور ادیبہ نوال السعدوی نے پوری زندگی موت کی دھمکیوں کا سامنا کیا، جیل بھی گئیں، لیکن مصر کی اس مصنّفہ نے جرأت مندی کے ساتھ قدامت پرستی، عورتوں‌ پر جنسی تشدد اور مصر میں‌ عورتوں‌ کے سماجی اور سیاسی استحصال کے خلاف قلم کو متحرک رکھا۔

    اُنھوں نے بالخصوص دیہات میں عورتوں کے ساتھ رسم و رواج یا مذہب کی آڑ میں ہونے والے استحصال کے خلاف بھی بے باکی سے لکھا۔ عالمی سطح پر ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نوال السعدوی کی ایک تحریر کا ترجمہ معروف شاعرہ اور ادیبہ کشور ناہید نے کیا ہے، جس میں نوال السعدوی اس بات پر نازاں ہیں‌ کہ وہ ایک لیکھک ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میرا تعلق اُس معاشرے سے ہے جہاں لڑکی کی پیدائش کو نحوست اور بدنصیبی تصور کیا جاتا تھا۔ اگر پیدا ہو کر زندہ بھی رہیں تو اوّل تو لڑکی کی اندامِ نہانی کو سی دیا جاتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔ ہم لوگ چھ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ کئی دفعہ میرے باپ نے تعلیمی اخراجات سے تنگ آکر کہا کہ مجھے اسکول سے اٹھا لیا جائے تاکہ میں ماں کی بچّوں کو سنبھالنے میں مدد کرسکوں، مگر میری ماں بہت بہادر عورت تھی۔ وہ نو بچوں، اپنے باپ اور شوہر کی خدمت کرتے کرتے پینتالیس سال کی عمر میں وفات پاگئی۔

    میری ماں کے دودھ کی خوشبو آج تک میری تحریروں میں ہے۔ میرے استاد مجھ سے کلاس میں پوچھتے تھے، "یہ السعدوی کون ہے؟” اور میں جواب دیتی، حضرت موسیٰ کی طرح کا ایک بچّہ جو پالنے میں پڑا نیل کی لہروں پر تیرتا ہوا آیا تھا۔ وہ نامعلوم مقام سے آیا تھا۔ اس کا نام اسعدوی تھا۔ میں بھی نامعلوم مقامات کی سمت قلم اور قدم سے سفر کے لیے نکلی ہوں، اس لیے میرا نام بھی اسعدوی ہے۔”

    "مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جنّت اور خدا، ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ میں نے میڈیکل کی کتابوں کے ساتھ ساتھ لکھنا اور ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ خواب میں بھی میں نے خود کو ڈاکٹر کے طور پر کبھی نہیں دیکھا، ہمیشہ ادیب کے طور پر دیکھا تھا۔ میں جب بھی اپنے خواب سناتی تو میری سہیلیاں کہتیں، روٹی روزی تمہیں ادب لکھنے سے نہیں میڈیکل کی پریکٹس ہی سے ملے گی۔ جب میرا پہلا مضمون شائع ہوا تو میں اپنا نام دیکھ کر یوں محسوس کررہی تھی، جیسے میرا نام چاند لکھا گیا ہو۔ البتہ میرا مضمون پڑھ کر میرے ابا بہت ہنسے تھے اور کہا تھا تم سب کی باتیں بہت اچھی نوٹ کرتی ہو۔ اس زمانے میں دوسری لڑکیاں اپنی کتابوں میں محبت نامے رکھ کر، اپنے دوستوں کو بھیجا کرتی تھیں۔ میں تو ڈاکٹر بن کی بھی نہرِ سویز کے قامیانے پر تیار ہو گئی تھی کہ میں بھی بارڈر پر جاکر لڑائی میں حصہ لوں گی۔ وہ تو جنگ ہی بند ہوگئی تھی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر تو بہت ہیں مگر میرے اندر جو لکھنے کی طاقت ہے، وہ ہر ایک کے پاس نہیں ہے۔ بس یہی احساس تھاکہ میں اب تک لکھ رہی ہوں۔”

    نوال السعدوی نے اپنی زندگی میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا؛ خواہ وہ ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہو یا پھر ہر عورت کے حق کی اور انصاف کی لڑائی ہو۔ وہ موقع پرست نہیں تھیں، اور انعام و اکرام یا اپنی جان کی خاطر اپنے نظریات سے دستبردار نہیں ہوئیں۔

  • مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ نوجوانوں میں صرف مقبول نہیں، بلکہ ان کے محبوب شاعر تھے۔

    کالج کے لڑکے اور لڑکیاں مجازؔ کی نظموں کو یاد کر کے ان کے اشعار والہانہ جوش اور سرمستی کے عالم میں پڑھتے تھے۔ اسرارُ‌ الحق مجاز کی بات کی جائے تو وہ پرستارِ حسن بھی تھے اور لیلائے انقلاب کے دیوانے بھی۔ معاملاتِ حسن و عشق کا بیان ہو یا روایت سے نفرت کا اظہار، مجاز نے انفرادیت کا ثبوت دیا اور بلاشبہ جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم شعرا کو نصیب ہوئی۔ شراب نے مجازؔ کو کہیں‌ کا نہ چھوڑا۔ وہ رندِ‌ بلانوش تھے۔ مجاز نے لکھنؤ میں‌ 1955ء میں اپنی زندگی تمام کی۔ یہاں ہم آل احمد سرورؔ کے مضمون سے دو واقعات اس شاعرِ بے بدل سے متعلق نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ سرورؔ جدید اردو تنقید کا اہم ترین نام ہیں، وہ شاعر بھی تھے۔ سرورؔ کی مجاز سے ملاقاتیں رہیں جن کا تذکرہ انھوں نے اپنے مضامین میں کیا ہے۔

    سرورؔ لکھتے ہیں:
    جولائی 1955ء میں ریڈیو سری نگر کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے میں بھی گیا اور مجازؔ بھی۔ دوستوں نے مجاز ؔکی اس طرح دیکھ بھال کی جیسے کسی بہت قیمتی اور نازک چیز کی۔ ہم لوگ انہیں گلمرگ اور سری نگر کے شاہی باغ دکھانے لے گئے تھے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہ ہوتا تھا۔ نشاط اور شالامار میں بکثرت فوارے ہیں۔ ان فواروں میں پانی اتنے زور سے چلتا ہے اگر کوئی لیموں فوارے کے منہ پر دیا جائے تو کچھ دیر کے لئے پانی کی زد سے ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ایک دوست یہ کھیل کر رہے تھے کہ ایک پنجابی عورت(جو سیر کی غرض سے وہاں آئی تھی) نے کہا، ’’اللہ دی قدرت ہے!‘‘ مجاز کو اس جملے نے بہت محظوظ کیا۔ شالامار اور نشاط کے تأثرات کا حاصل مجازؔ کے نزدیک یہ لطیفہ تھا۔

    ایک اور واقعہ سرورؔ نے کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
    ایک دفعہ مجازؔ اور جذبیؔ لکھنؤ میں میرے (آل احمد سرور) پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دور کے ایک مشہور شاعر ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ سرورؔ صاحب! سوچتا ہوں شادی کر لوں۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں انہیں شادی شدہ سمجھتا تھا۔ پھر کہنے لگے اور سوچتا ہوں کسی بیوہ سے کروں۔ اب تک یہ باتیں صرف میں سن رہا تھا کیونکہ مجازؔ اور جذبیؔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی مزے دار گفتگو میں دوسرے شریک نہ ہوں، چنانچہ میں نے مجازؔ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاحب شادی کرنے والے ہیں اور کسی بیوہ سے شادی کرنے کا خیال ہے۔‘‘ مجاز نے بے ساختہ کہا، ’’حضرت آپ سوچیے نہیں کر ہی لیجیے بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد وہ ہو ہی جائے گی۔‘‘

  • فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کررہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثّار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اردو دانی ہی ایک حد تک اُن کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محققِ فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنے کمال کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ اور پرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلہ کے راجہ درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے۔ آب و ہوا بدل گئی۔ مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں۔”

    (از قلم عبدالحلیم شرر لکھنوی)

  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    انسان کی تاریخ بہ ظاہر جنگوں کی تاریخ نظر آتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہوسکتی تھی، مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے، اس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیز بن چکی ہے۔

    اب جنگ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) کام ہے۔ وہ سب کچھ، جس کو حاصل کرنے کے نام پر جنگ کی جاتی تھی، وہ اب جنگ کے بغیر زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُرتشدد ذرائع کے مقابلے میں جدید پُرامن ذرائع کہیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔

    قدیم زمانے میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلے کے تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی دیگر راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ ان کے سامنے بہ ظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative) موجود نہ تھا۔

    اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دو ایسی چیزیں موجود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا ناگزیر بنائے ہوئے تھیں: ایک، خاندانی بادشاہت، اور دوسری، زرعی اقتصادیات۔

    قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت کا طریق چلا آ رہا تھا۔ اس نظام کے بنا پر ایسا تھا کہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی؛ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکم ران کو قتل یا معزول کر کے اس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔

    موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجے میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکم رانی کا نظام قائم ہوا۔

    اب سیاسی حکم ران دَوری انتخابات (periodical election) کے ذریعے چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کے نکاس (outlet) کا موقع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرّر میعاد (term) کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔

    دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحبِ مال ہے، اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحبِ مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے زمین دے دے۔

    ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلے کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی؛ یہ کہ وہ مالکِ زمین سے لڑ کر اس سے زمین چھیننے اور اس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلے کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانے میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بہ ظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا: یا تو مستقل اپنی غربت پر قانع رہے، یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔

    موجودہ زمانے میں اس پہلو سے ایک نیا واقعہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورتِ حال کو یک سَر بدل دیا۔ اب ہزاروں بلکہ اَن گنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آ گئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اس کو بہ جا طور پر معاشی انفجار (economic explosion) کہنا درست ہو گا۔

    یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بہ ظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقعہ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

    اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو وہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے، پُرامن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔

    ایسی حالت میں جنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدّد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔

    (از قلم: مولانا وحیدُ الدّین خان)

  • سُر، لفظ اور تال

    سُر، لفظ اور تال

    فن موسیقی تین چیزوں کا امتزاج ہے سُر، لفظ اور تال۔ موسیقی میں ان تینوں عناصر کی اپنی اپنی جداگانہ اہمیت ہے جس میں یہاں ہم لفظ کی غنائی نوعیت کو موسیقی کی مختلف صورتوں کے ذریعے زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

    قارئین، ہر لفظ اپنی ایک غنائی ترکیب کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے صوت، لفظ اور غنا دونوں پر مقدم ٹھہرتی ہے، کیونکہ صوت سے ہی لفظ تشکیل پاتا ہے اور غنا (موسیقی) بھی صوت ہی سے ترتیب پاتی ہے۔

    لفظ آوازوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ آوازوں کے اس مجموعے کو ایک خاص معنویت دے دی جاتی ہے۔ ماہرِ لسانیات کے نزدیک زبان گلے سے نکلی ہوئی ایسی آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں اس کی معنویت اس زبان کے بولنے والوں نے شعوری طور پر متعین کی ہوتی ہے۔ اس کی معنویت میں اشاروں، چہرے اور ہاتھوں کی حرکات و سکنات سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔

    کچھ لوگ زبان کے اس عمل کو شعوری کی بجائے نفسیاتی عمل قرار دیتے ہیں، کچھ اس عمل کو حیاتیات سے جوڑ دیتے ہیں اور کچھ کے نزدیک زبان مخصوص علامات کا ایک نظام ہوتا ہے۔ پیش نظر مضمون میں موسیقی کے حوالے سے ہمارا تعلق صرف لفظ کے معنوی اور صوتی تصور سے ہو گا۔

    لفظ اور معانی کا آپس جو رشتہ استوار ہوا ہے یہ عمل کس بنیاد پر ہوا ہے، یعنی اس کے پس منظر میں وہ کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں جو لفظ کی معنویت کا تعین کرتے ہیں۔ یہ وہ پیچیدہ مسئلہ ہے جو صدیوں سے لسانیات کا موضوع رہا ہے۔ موسیقی کا، لفظ اور معانی کے اس پیچیدہ مسئلے سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ کے غنائی یا صوتی تصور کے حوالے سے دیکھا جائے تو موسیقی میں میں حروف علّت (vowel) حروفِ صحیح (consonant) کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی کا اصل تعلق حروفِ علّت سے ہے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ یہی وہ حروف ہیں جن کو کھینچ تان کر کے یا گھٹا بڑھا کر ان سے صوتیت یا غنا پیدا کی جاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے یہ جملہ دیکھیے:

    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر، جاؤں گا
    میں آج، گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا؟
    میں آج گھر جاؤں گا!

    آپ اس جملے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اسے روزمرّہ کے مطابق مختلف طریقوں سے ادا کیا جائے تو مختلف معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جملے سے مختلف معانی برآمد کرنے کے لیے صرف الفاظ پر تاکید کو بدلنا ہوگا۔ جملے میں مختلف مقامات پر ٹھہرنے اور کچھ الفاظ کو کھینچ کر ادا کرنے سے مفاہیم میں تبدیلی واقع ہوتی جائے گی۔ یہ معنی آفرینی عمل موسیقی میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔

    موسیقی میں حروف علّت پر معنی آفرینی کے اس عمل سے ایک ہی لفظ سے مختلف احساسات اور اس کی معنویت کو برآمد کرنا ممکن ہے۔

    اس طرح ایک ہی لفظ سے حیرت، استعجاب، خوف، امید، مسرت، طنز، نفی، اثبات اور استفہام کی معنویت برآمد کی جاسکتی ہے۔ اور ایک ہی لفظ سے کثیرالمعانی کے اس امر کی مثالوں کو صرف اور صرف موسیقی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ایک لفظ کو مختلف غنائی لہجوں میں ادا کیا جائے تو اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔

    زبان کے عام بول چال کے لہجہ کے برعکس زبان کے غنائی لہجہ سے الفاظ کی معنویت بدلتی ہے۔ عام بول چال کے لہجے میں لفظوں کی معنویت متعین ہوتی ہے جب کہ موسیقی میں ماہر مغنّی اپنے غنائی لہجے کے اتار چڑھاؤ سے ان کے معنی اور احساسات میں رد و بدل کرتا ہے۔ معنی آفرینی کا یہ عمل موسیقی میں خاص کر ان جذبات و کیفیات کےابلاغ کا سبب بنتا ہے جہاں ابلاغ کے دیگر ذرائع پوری طرح ساتھ نہیں دے پا تے۔ بقول رشید ملک:“جہاں ابلاغ کے مختلف ذرائع کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے موسیقی کی اقلیم شروع ہوتی ہے۔ موسیقی بھی ایک زبان ہے۔ جس کے اپنے حروفِ تہجی، اپنے الفاظ، اپنی لسانی ترکیبیں، اپنا روزمرّہ، صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت کے لیے اپنے معیار ہیں۔ یہ زبان ان کیفیات اور جذبات کا ابلاغ کرتی ہے جن کی ترسیل کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    یہی وجہ ہے کہ کسی فلم میں ڈرامائی عناصر کو تقویت دینے میں موسیقی ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ فلمی گانوں کو فلمی سین، کسی ایکٹر کی شخصیت یا اس کے جذبات و احساسات کو اجاگر کرنے یا ابھارنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ فلم یا ڈراما میں کسی کردار کی باطنی کیفیت کا ابلاغ کسی گانے ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

    فلمی موسیقی میں شعری ضابطے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور گانے کے الفاظ کا معانی کے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ استوار کرنے کے لیے چاہے فنِ موسیقی کے دیگر اصول و ضوابط کو نظرانداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہی صورتحال عوامی موسیقی میں ہوتی ہے۔ عوامی موسیقی میں بھی شاعری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لفظوں کی ادائیگی میں گانے والا معانی اور تفہیم کے عمل کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، گائیکی کے اس عمل میں سُر کی اور دیگر فنِ موسیقی کی شعریات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی میں اکثر گانوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ فلمی موسیقی اپنی ذات میں ایک فن نہیں ہے بلکہ ایک ہنر یا تکنیک ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ڈرامائی عناصر کو تقویت دینا ہوتا ہے۔ فلمی موسیقی ہو یا فلمی شاعری دونوں فلم کی کہانی کے تابع ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے فلمی موسیقی ہر دور میں ایک خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔

    اس کی اپنی ایک خاص وضع قطع ہوتی ہے۔ فلمی گانے کافی چنچل اور شوخ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اثر انگیز ہوتے ہیں جن میں معنوی گہرائی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔ فلمی موسیقی اور فلمی شاعری خاص طرح کا رومانی تأثر لیے ہوئے ہوتے ہیں جس سے ڈرامائی کیفیت کا تأثر بھرپور انداز سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

    کلاسیکی موسیقی یا موسیقی کی آرٹ فارم جو کافی ریاضت طلب فن ہے، فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی سے کافی مختلف ہے۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی کے بر عکس اس میں لفظوں کو سُر کے تابع کر کے ادا کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی کی اس آرٹ فارم میں ہمیشہ سُر کو اوّلیت حاصل رہی ہے۔ راگ کا الاپ، گانے کو مکمل طور پر راگ کے رچاؤ کے ساتھ مخصوص کلاسیکل لے تال میں پیش کرنا کلاسیکی موسیقی کی خاصیت ہے۔

    کلاسیکی گائیکی میں فنِ موسیقی کی تمام حدود و قیود اور ضابطوں کا پابندی کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے۔ جب کہ فلمی موسیقی یا عوامی موسیقی میں یہ پابندیاں ضروری نہیں ہوتیں۔ کلاسیکی موسیقی میں جو گانے والا ہوتا ہے وہ ایک منجھا ہوا مغنّی ہوتا ہے جو فن کی باریکیوں پر مکمل دسترس رکھتا ہے اور گانے کے دوران اس کی پیش کش باقی تمام چیزوں پر حاوی رہتی ہے۔ مثلاً وہ سازوں میں خود کو پابند کر کے نہیں گائے گا اور نہ ہی اس کی گائیکی کا انداز پہلے سے متعین کردہ ہوگا۔ اس کا تان، پلٹا، مرکی، زمزمہ اور دوسرے النکار وغیرہ ہر چکر میں پہلے والے تان، پلٹے اور زمزمہ سے مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔

    موسیقی کی جمالیات بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ غنائی ترکیبوں کی تکرار پیدا نہ کی جائے کیوں کہ اعادے اور تکرار سے فن پارہ معیار سے گر جاتا ہے۔ گانے کے آغاز سے لے کر اختتام تک وہ ہر چیز سے آزاد رہے گا۔ لیکن اس کی گائیکی موسیقی کے اصول و ضوابط سے باہر نہیں جائے گی۔ پوری گائیکی کے دوران مغنی کا سارا زور راگ کو متشکل کرنے پر صرف ہو گا۔ کیوں کہ کلاسیکی موسیقی اور دیگر موسیقی کے اوضاع میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کلاسیکی موسیقی میں راگ اپنی تمام رعنائیوں اور جمالیات کےساتھ سامنے آتا ہے کلاسیکی گائیک اور فلمی موسیقی کے گائیک میں وہی فرق ہوتا ہے جو فلمی شاعر اور غیر فلمی شاعر میں ہوتا ہے۔

    فلمی شاعر اپنی شاعری اور موضوع کی تخلیق کے حوالے سے فلمی کہانی اور اس کے ڈرامائی عناصر کا پابند ہو گا جب کہ غیر فلمی شاعر ایسی تمام روشوں سے آزاد ہو گا جن کا تعین پہلے سے کیا گیا ہو گا۔ فلمی شاعر کے برعکس غیر فلمی شاعر تخیل، موضوع اور جذبات و احساسات میں پہلے سے متعین کی گئی کسی چیز کا پابند نہیں ہوگا۔ اس کی شاعری اس کے اپنے جذبات، تجربات اور مشاہدات کی غماز ہوگی، لیکن شاعری کے اصول و ضوابط کا وہ پوری طرح خیال رکھے گا۔

    جہاں تک کلاسیکی موسیقی میں لفظ اور اس کے معانی کا تعلق ہے تو کلاسیکی موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ اور معنی کا آپس میں رشتہ معطل ہو جاتا ہے، لفظ کو اس طرح سُر میں توڑ موڑ کر ادا کیا جاتا ہے کہ اس کی غنائی اہمیت تو بڑھ جاتی ہے لیکن معنوی سطح پر وہ گر جاتا ہے۔ اس ضمن میں رشید ملک رقم طراز ہیں: “جب موسیقی آرٹ فارم بنتی ہے تو الفاظ اور معانی کا رشتہ معطل ہو جاتا ہے۔ لفظ اپنی ادبی حیثیت کھو دیتا ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے دست کش ہو کر نئی نئی صورتیں اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    دھرو پد، خیال، ترانہ، پربندھ، دھمار، تروٹ اور پَدجو موسیقی کی آرٹ فارم کی اہم اقسام ہیں، ان میں پوری توجہ سُر پر ہی رہتی ہے اور لفظ ٹکڑوں میں تقسیم اس طرح ہو جاتا ہے کہ اس کی پہچان کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل و صورت یعنی مارفولوجی بالکل بدل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موسیقی کی آرٹ فارم میں شعری ضابطے ثانوی سطح پر چلے جاتے ہیں اور موسیقی کی شعریات کی پابندی اور سُر کی ادائیگی ہر چیز سے مقدم ہو جاتی ہے۔ موسیقی کی اس فارم میں سُروں کے ذریعے جذبے یا احساس کی ترسیل کی جارہی ہوتی ہے جو کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ لفظ کی معنویت کو غنائی ترکیب سے برآمد کیا جا رہا ہوتا ہے۔

    نیم کلاسیکی موسیقی دیگر موسیقی کی فارمز کی نسبت موسیقی کی آرٹ فارم کے قدرے زیادہ قریب ہے۔ نیم کلاسیکی موسیقی میں ٹھمری، غزل اور کافی وغیرہ آجاتے ہیں لیکن ان میں بھی لفظ کا معنی کے ساتھ مکمل طور پر رشتہ قائم رہتا ہے اور گائیکی کے دوران شعری ضابطے زیادہ اہمیت اختیار کیے رکھتے ہیں۔ جب کہ موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ کے معانی غنا میں معدوم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو لفظ کی ادائیگی کو اس طرح غنائی ترکیب میں باندھا جاتا ہے اس کی شکل بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ دراصل موسیقی کی آرٹ فارم جو خالص کلاسیکی موسیقی پر مشتمل ہے اس میں مغنی فن موسیقی کے تمام اصولوں و ضوابط کو دیگر تمام چیزوں پر چاہے وہ شاعری ہے، لفظ یا اس کی معنوی وضاحت ہے، سب پر مقدم سمجھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کی آرٹ فارم اپنی ذات میں مکمل ایک زبان ہے جس میں جذبات و احساسات اور مافی الضمیر کا ابلاغ سُروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور ایسے خفیف جذبات و احساسات جن کا ابلاغ لفظ اور اس کی معنوی کشمکش میں پھنس کر رہ جاتا ہے، ایسے جذبات و احساسات کا ابلاغ موسیقی کی آرٹ فارم کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ بشرطے کہ اس فارم میں “ابلاغ کے فن” پر مغنّی پوری طرح دسترس رکھتا ہو۔ اس کے فن میں کسی طرح کا جھول نہ ہو اور وہ لفظوں کے صوتی تاثر سے ہی معنی پیدا کرنا جانتا ہو۔ لفظ کی صوتی تاثیر کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں: “معانی سے الگ ہو کر بھی ہر لفظ کا اپنا ایک خاص تاثر ہوتا ہے جس کا تعلق ان حروف کی آوازوں اور ان کی ترتیب سے ہوتا ہے جن سے کوئی لفظ بنتا ہے۔ کوئی لفظ ناچتا، گنگناتا ہے، کوئی روتا بسورتا ہے۔ کوئی لبھاتا ہے، کوئی سننے والے کے ذہن پر خوف کا تأثر چھوڑتا ہے اور کوئی سرخوشی و سرمستی کا تأثر دیتا ہے۔ لفظ کے اس تأثر کو جس کا تعلق لفظ کی آوازوں سے ہوتا ہے صوتی تأثر کہتے ہیں۔”
    (کشاف تنقیدی اصطلاحات)

    لفظ کی موسیقیت دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے، اصوات کی موسیقیت اور معانی کی موسیقیت۔ اوّل الذّکر کا تعلق اس صوتی تأثر سے ہے جو ان حروف کی آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے جس سے وہ لفظ تشکیل پاتا ہے۔ صوتی تأثر سے تشکیل پانے والی موسیقی لفظ کی خارجی موسیقی کہلائے گی۔ مؤخر الذّکرکا تعلق لفظ کی معنوی تاثیر سے ہوتا ہے۔ لفظ کے معنوی احساس سے ایک لطیف موسیقیت وجود میں آتی ہے۔ معنوی تاثر سے پیدا ہونے والی موسیقی لفظ کی داخلی موسیقی کہلائے گی۔

    کلاسیکی موسیقی میں تیسرا اہم شعبہ تال کا ہوتا ہے۔ موسیقی کی آرٹ فارم میں تال کا چکر اپنے متعین کردہ ماتروں کے ساتھ ایک دائرہ میں حرکت کرتا ہے۔ تال دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    موسیقی کی کوئی فارم بھی تال کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی۔ بندش کے لفظ چاہے وہ حروف صحیح پر مشتمل ہوں یا حروف علّت پر سب تال میں بندھے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی موزوں شعر کے الفاظ اس کی بحر کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔

    (از قلم: یاسر اقبال، کتابیات: راگ درپن کا تنقیدی جائزہ، ایلیٹ کے مضامین، شعر، غیر شعر اور نثر، کشاف تنقیدی اصطلاحات، تنقید کی شعریات، مبادیاتِ موسیقی)

  • سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔

    ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔

    یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

    سنیل دت کے بارے میں علی سفیان آفاقی کا یہ مضمون اداکار کے یومِ وفات کی مناسبت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بولی وڈ کے معروف اداکار اور کئی کام یاب فلموں کے ہیرو سنیل دت 6 جون 1929 کو جہلم میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 25 مئی 2005 کو تمام ہوگیا تھا۔

    علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، 0سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
    جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

    دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

    ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

    ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔

    ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

    پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

    میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

    سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

    ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

    ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’ (پاکستان)

  • عیّاش اور فضول خرچ نازنین بیگم جو آخر عمر میں‌ پاگل ہوگئی تھی

    عیّاش اور فضول خرچ نازنین بیگم جو آخر عمر میں‌ پاگل ہوگئی تھی

    متحدہ ہندوستان میں فلم سازی کی ابتدا اور ناطق فلموں کے آغاز کے بعد اس زمانے کے روزناموں اور جرائد میں فلموں اور فن کاروں سے متعلق تفریحی و معلوماتی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت مقبول ہوئے۔ یہاں ہم ایک اداکارہ کی عیّاشی، فضول خرچی کی عادت اور اس کے بدترین انجام کا قصّہ نقل کررہے ہیں جو بظاہر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اداکارہ کا نام تھا نازنین بیگم اور ان سے متعلق یہ قصّہ فلمی دنیا کی معلومات پر مشتمل کتاب سے لیا گیا ہے۔

    برِصغیر میں فلموں کے ابتدائی دور کے بارے میں مختلف رسائل و جرائد سے نقل کردہ معلومات کو کتابی شکل دینے والوں میں الف انصاری بھی شامل ہیں۔ اپنے وقت کے مقبول ترین اداکاروں کے بعض غیرمصدقہ واقعات اور ان سے متعلق غیر مستند باتیں سستی شہرت اور مالی فائدے کے پیشِ نظر بھی قلم کاروں نے اپنے مضامین میں شامل کی ہیں اور یہی سنی سنائی باتیں اور افواہوں تحقیق کیے بغیر کتابوں کا حصّہ بنا دی گئیں۔ لیکن اداکارہ نازنین بیگم کی عیّاشی اور فضول خرچی کا قصّہ الف انصاری کی کتاب "فلمی معلومات” میں شامل ہے اور وہ ایک ذمہ دار قلم کار رہے ہیں۔ الف انصاری نے ادب، فلم اور اسپورٹس کے موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔ وہ اپنی کتاب "فلمی معلومات” سے متعلق لکھتے ہیں کہ 1980ء سے اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں بے شمار فلمی اخبارات، جرائد اور رسائل کی ورق گردانی کے دوران جو معلومات حاصل ہوتی رہیں، میں انہیں نوٹ کرتا رہا اور یوں برسوں کی تحقیق کے بعد یہ کتاب منظرِ عام پر آسکی۔

    اداکارہ نازنین بیگم کے بارے میں الف انصاری کی کتاب میں لکھا ہے: نازنین بیگم بہت دولت مند ہیروئن تھیں۔ وہ ہیروں سے جڑی رسٹ واچ (گھڑی) اپنی ایڑی کے سینڈل پر باندھے رکھتی تھیں۔ جب کوئی ان سے پوچھتا کہ کیا وقت ہوا ہے تو وہ بڑی شان سے اپنا سینڈل اس کے قریب لے جاتیں۔

    اداکارہ نازنین جب بہت مقبول ہوئیں اور دولت قدم چومنے لگی تو وہ ہزار کے نوٹ کو لپیٹ کر اس میں‌ تمباکو بھر کر سگریٹ بناتی تھیں اور دن بھر میں‌ تقریباً ایک درجن سگریٹ پی جاتی تھیں۔ لیکن ایک دن وہ صرف ایک رات میں اپنی ساری دولت جوئے میں ہار گئی۔ آخر عمر میں‌ پاگل ہو کر مری۔

    واضح رہے کہ برصغیر میں‌ اوّلین بولتی فلم "عالم آرا” کے بعد دھڑا دھڑ فلمیں بننے لگی تھیں۔ اسی دور میں‌ نازنین بیگم نے بھی بطور اداکارہ قسمت آزمائی تھی۔ نازنین بیگم کی بطور اداکارہ پہلی فلم "میڈم فیشن” یکم جنوری 1936 کو ریلیز کی گئی تھی۔

    نازنین بیگم اس دور کے ایک امیر خاندان کی چشم و چراغ تھی۔ جدّن بائی ہندوستان میں سنیما کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھیں۔ وہ گلوکار، موسیقار، رقاص اور اداکار کے طور پر ہی مشہور نہیں‌ تھیں بلکہ ان کا نام ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی فلمی تاریخ کا حصّہ ہے۔ میڈم فیشن جدّن بائی ہی کی فلم تھی جس میں نازنین کو کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ جذباتی رومانوی فلم تھی جس کی کہانی ایک رحم دل اور نیک صفت لڑکی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ لڑکی اپنے خوابوں‌ کی تکمیل کے لیے محنت اور لگن سے آگے بڑھتی ہے، لیکن اس دوران اسے کئی مشکلات اور رکاوٹوں‌ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ ایک شخص کی محبّت میں‌ گرفتار ہو جاتی ہے جو اس کی ہمّت بندھاتا ہے اور ہر موقع پر اس کا ساتھ دیتا ہے، لیکن بدقسمتی آڑے آجاتی ہے اور وہ لڑکی پھر بدترین موڑ پر آکھڑی ہوتی ہے۔ اس لڑکی کا نام لکشمی تھا۔

  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)