Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    اردو کے ممتاز ادیبوں، شعرا اور نام وَر اہلِ‌ قلم سے متعلق کتابوں میں مختلف واقعات، دل چسپ قصّے درج ہیں‌۔ ان شخصیات نے اپنی خودنوشت یا آپ بیتی میں بھی اپنی یادیں محفوظ کی ہیں اور اپنے ہم عصروں کی پُرلطف باتیں ہم تک پہنچائی ہیں۔

    یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے سعادت حسن منٹو کی کتاب اندھیر نگری سے لیا گیا ہے۔

    ایک دفعہ عبدالمجید سالک کسی کام کے سلسلے میں حکیم فقیر محمّد چشتی صاحب کے مطب پر گئے۔

    وہاں ایک مشہور طوائف نجو بھی دوا لینے آئی ہوئی تھی۔ کِھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید ریشمی دوپٹہ جس کے کنارے چوڑا نقرئی لپہ لگا ہوا تھا۔

    سالک جو پہنچے تو حکیم صاحب نے نجو سے کہا: "یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لاؤ۔”

    وہ سَر و قد اُٹھ کھڑی ہوئی اور جھک کر آداب بجا لائی۔ پھر سالک سے کہا، "یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہیں۔ آپ اُس کوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سنا ہو گا؟”

    سالک بولے: "جی ہاں نام تو سنا ہے لیکن نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    حکیم صاحب فرمانے لگے، "لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں۔ اِس کا پورا نام تو نجاتُ المومنین ہے۔”

  • طلعت محمود اور جہاں آرا کجن

    طلعت محمود اور جہاں آرا کجن

    طلعت محمود کے والد ماجد کپتان منظور محمود ایک زمانے میں ریاست رامپور (اترپردیش) میں اے۔ ڈی۔ سی کے عہدے پر فائز تھے۔ منظور صاحب عمر میں مجھے سے بہت بڑے تھے لیکن ان کے اہلِ خاندان اور میرے بزرگوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ اسی سلسلے سے میرا ان سے تعارف ہوا اور مخلصانہ روابط قائم ہو گئے۔

    پھر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ چلا گیا اور وہ کچھ عرصہ بعد ملازمت چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے۔ ان سے دوبارہ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں اسسٹنٹ پروگرام ڈائریکٹر بن کر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر متعین ہوا۔

    منظور صاحب اس زمانے میں لکھنؤ میں بجلی کے سامان کی تجارت کرتے تھے اور نظیر آباد بازار میں ان کا شوروم تھا۔ اکثر شام کو ان کے شوروم میں میری ان کے ساتھ نشستیں ہونے لگیں۔ منظور صاحب بہت خوش گلو تھے اور ان کو موسیقی سے خاص شغف تھا۔ میں نے اکثر منظور صاحب کی نظم خوانی اور خصوصاً اقبال کی ‘شکوہ’ اور ‘جواب شکوہ’ ان کی آواز میں لکھنؤ ریڈیو سے نشر کرائیں۔

    عزیزی طلعت اس زمانے میں اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ منظور صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا کہ: "طلعت کو موسیقی کا بہت شوق ہے۔ میں نے سنا ہے کہ دوستوں میں گایا کرتا ہے۔” میں نے کہا کہ "یہ تو اس کا موروثی شوق ہے۔ مناسب ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ میٹرک سے فراغت پا لے تو اسے میریس میوزک کالج میں داخل کرا دیں۔”

    آخرکار طلعت نے میٹرک پاس کر لیا اور میریس میوزک کالج میں داخلہ لے کر فنِ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ اس کالج کے پرنسپل پنڈت ٹھاکر اور وائس پرنسپل بڑے آغا تھے۔ یہ دونوں صاحبان لکھنؤ ریڈیو سے کلاسیکی میوزک کے پروگرام باقاعدگی سے نشر کیا کرتے تھے۔ مجھ سے اچھے مراسم تھے۔ میں نے دونوں صاحبان سے کہہ دیا کہ طلعت محمود کا خاص خیال رکھیں۔

    کچھ عرصہ بعد میں نے منظور صاحب سے کہا کہ طلعت کو اب ریڈیو سے پروگرام نشر کرنا چاہیے، کیونکہ میں نے اس کے اساتذہ سے اس کی خوش آوازی اور رسیلے پن کی تعریف سنی ہے۔ میری بات سن کر منظور صاحب کو اطمینان ہو گیا۔

    اس زمانے میں میرے ایک ساتھی پروگرام اسسٹنٹ نرمل کمار بھٹاچاریہ موسیقی کے پروگراموں کے انچارج تھے۔ میں نے ان سے طلعت محمود کا آڈیشن لینے کو کہا۔ آڈیشن کامیاب ہوا اور طلعت کے باقاعدہ پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ ایک دو پروگراموں کے بعد ہی طلعت کی پرسوز اور طلسمی آواز نے سامعین کو مسحور کر دیا۔

    کچھ عرصہ بعد میں ڈائریکٹر آف پروگرام کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ شوکت تھانوی (مرحوم) شروع سے لکھنؤ ریڈیو پر بہ حیثیت مصنف مستقلاً موجود تھے۔ ان کے دم سے بڑی رونق رہتی تھی۔ ان دنوں ہم اردو کی قدیم مشہور مثنویوں پر مبنی ریڈیو اوپیرا نشر کیا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں، میں نے مشہور مثنوی "زہر عشق” پر مبنی ریڈیو اوپیرا ترتیب دیا۔ اس میں ہیرو (قمر) کا کردار طلعت محمود نے اور ہیروئن (مہ جبیں) کا کردار جہاں آرا کجن نے ادا کیا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب ابتدائی ریہرسل ہونے لگی تو کجن جیسی معروف اسٹار اور گلوکار کے بالمقابل اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عزیزی طلعت محمود کی پیشانی پر، موسمِ سرما ہونے کے باوجود پسینہ آ گیا تھا۔ دراصل یہ ان کی طبعی شرافت اور شرم و حیا کے باعث تھا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اس پر قابو پایا۔

    "زہرِ عشق” کی ملک گیر مقبولیت میں کجن اور طلعت دونوں کا مرتبہ برابر تھا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسے متبحر عالم اور مستند ادیب نے خاص طور پر تعریفی خط لکھ کر داد دی تھی۔

    چند ماہ بعد ہم نے حضرت جگر مرادآبادی سے ایک نئی مثنوی "دردانہ” لکھوائی۔ اس کا پلاٹ خود ہم نے تجویز کیا تھا۔ اور اس مثنوی پر مبنی ریڈیو اوپیرا شوکت تھانوی اور میں نے ترتیب دیا۔ یہ اوپیرا میرے ایک ساتھی سید انصار ناصری دہلوی کی زیر ہدایت نشر ہوا، جس کے ہیرو اور ہیروئن بھی طلعت محمود اور جہاں آرا کجن تھے۔

    اس دوران میں نے منظور محمود صاحب کو رائے دی کہ عزیزی طلعت کو بمبئی جانے کی اجازت دے دیجیے۔ اس کی فطری صلاحیتوں کے لیے ریڈیو کا میدان تنگ ہے۔ منظور صاحب کو پھر اندیشہ ہوا کہ فلمی دنیا کا ماحول اس کے چال چلن پر اثرانداز نہ ہو۔ میں نے نہایت وثوق سے منظور صاحب کو طلعت محمود کی فطری نیک سیرتی کا یقین دلا کر مطمئن کر دیا۔

    بالآخر طلعت محمود بمبئی جا کر فلمی دنیا کے آسمان پر چمکے اور خوب چمکے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، مؤرخ، نقّاد اور براڈ کاسٹر عشرت رحمانی کے خط سے اقتباس، بولی وڈ کے مشہور گلوکار اور اداکار طلعت محمود سے متعلق یہ تحریر مقبول ترین فلمی رسالے ‘شمع’ میں 1981ء میں شائع ہوئی تھی)

  • ‘اس تکلف میں کیوں پڑیں؟’

    ‘اس تکلف میں کیوں پڑیں؟’

    روزمرّہ، محاورہ اور کہاوتیں کسی انسان کے مشاہدات اور زندگی کے تجربات کی وہ شکل ہوتی ہے جو عام بول چال میں‌ جگہ پا کر اس کا حُسن بڑھاتے ہیں۔ ان محاوروں اور ضربُ الامثال میں ہم تہذیب و تمدن کے رجحانات، کسی سماج کے قدیم عقائد اور رسم و رواج کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔

    اردو ادب میں نثر اور نظم کی اصناف بھی رنگا رنگ محاوروں سے مزیّن ہے اور اسی لیے زبان و ادب کی تفہیم کے لیے محاورہ سے واقفیت ضروری ہے۔ مگر آج عام آدمی تو کیا اہلِ علم بھی بامحاورہ زبان بولنے اور لکھنے سے دور ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے محمد حسن عسکری کے مضمون ’محاوروں کا مسئلہ‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر سیدھے سادھے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟

    دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔ اگر اس طرح سے محاوروں کا استعمال سیکھا جا سکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا بُرا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔ کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔ لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا۔

    اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟ اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟

    خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ ایک آدھ محاورے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ سرشار نے کہیں لکھا ہے، ’’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہو جائے اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟ اس سے فائدہ؟

    فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیاد ہ ہے۔ ’’شام ہونا‘‘ تو فطرت کا عمل ہے۔ ’’چراغ میں بتی پڑنا‘‘ انسانوں کی دنیا کاعمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصا ہنگامہ خیز ہے۔ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پوں مچتی تھی۔ اندھیرا ہو چلا، ادھر بتی کے لئے روئی ڈھونڈی جا رہی ہے۔ روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جا رہی۔ کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔ دوسری طرف بچّے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔ یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔ توے پر روٹی نظر نہیں آ رہی، روٹی پکانے والی الگ چلّا رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

    ’’چراغ میں بتی پڑنے‘‘ کے معنیٰ محض یہ نہیں کہ شام ہو گئی۔ اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہو گئی ہے۔ بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہماہمی غالب آگئی ہے۔

    سرشار نے یہ نہیں کہا کہ سورج غروب ہوتے ہی سو جانا صحت کے لئے مضر ہے۔ انہیں تو اس پر تعجب ہوا کہ ایسے وقت جب گھر کے چھوٹے بڑے سب ایک جگہ جمع ہوں اور اتنی چہل پہل ہو رہی ہو، ایک آدمی سب سے منہ موڑ کر الگ جا لیٹے۔ انہیں اعتراض یہ ہے کہ سونے والی نے اجتماعی زندگی سے بے تعلقی کیسے برتی؟ پھر ’’چادر تاننا‘‘ بھی سو جانے سے مختلف چیز ہے۔ اس میں ایک اکتاہٹ کا احساس ہے۔ یعنی آدمی زندگی کی سرگرمیوں سے تھک جانے کے بعد ایک شعوری فعل کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر کے چادر کے نیچے پناہ لیتا ہے۔ سرشار نے محض ایک واقعہ نہیں بیان کیا بلکہ عام انسانوں کے طرزِعمل کا تقاضا دکھایا ہے۔ اس انفرادی فعل کے پیچھے سے اجتماعی زندگی جھانک رہی ہے۔ محاوروں کے ذریعے پس منظر اور پیش منظر ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔”

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)

  • شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    شہرۂ آفاق شاعرہ ایملی ڈکنسن جو "سنکی” مشہور تھی

    ایملی ڈکنسن کی نظمیں‌ غم و اندوہ اور گہری یاسیت کا مرقع ہیں۔ امریکہ میں انگریزی زبان کی یہ سب سے بڑی شاعر تنہائی پسند تھی اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے کم ہی باہر نکلتی تھی۔

    ایملی ڈکنسن کی خلوت پسندی تو غیرمعمولی یا پریشان کُن نہیں‌ تھی، لیکن وہ پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی گریزاں رہتی تھی۔ ایملی ڈکنسن لوگوں سے میل جول بڑھانے میں ہمیشہ جھجکتی رہی۔ اسی بنیاد پر مقامی لوگوں کے درمیان وہ ایک سنکی عورت مشہور ہوگئی تھی۔ جواں عمری میں ایملی موت کو ایک بڑا خطرہ تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب انھوں نے ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    انیسویں صدی کی شاعرہ ایملی ڈکنسن نے موضوعات کے برتاؤ اور ہیئت کے تجربات میں جس جدّت کا اظہار کیا، اس نے اگلی صدی میں‌ بھی پڑھنے والوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ تاہم اس شاعرہ کو ابدی نیند سونے کے بعد دنیا بھر میں پہچان مل سکی۔ امریکہ میں ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے 10 دسمبر 1830ء میں امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے، لیکن یہ کنبہ مالی طور پر مستحکم نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور ڈسپلن کا خیال رکھنے والے انسان تھے اور یہی عادت ایملی ڈکنسن میں‌ بھی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے پرائمری کی تعلیم قریبی اسکول سے مکمل کی اور پھر ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں داخلہ لیا جہاں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ ایملی ڈکنسن نے کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی اور بعد میں طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں اس نے شاعری کا آغاز کیا، مگر ایک عرصہ تک وہ کسی پر بطور شاعرہ نہیں‌ کُھلی تھی۔ ایملی ڈکنسن نے مکتوب نگاری کے ذریعے دوسروں سے رابطہ رکھنا پسند کیا اور اس کے ذریعے دوست بنائے۔

    اگرچہ ایملی ڈکنسن کے شناسا جانتے تھے کہ وہ شاعری کرتی ہے، لیکن اکثریت اس کا کلام پڑھنے سے قاصر تھی۔ ایملی کی موت کے بعد اس کی بہن نے کئی نظمیں کتاب میں یکجا کیں اور 1890 میں‌ اس کا پہلا مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے دوستی کے بعد ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں اور یوں اسے بڑا حوصلہ ملا۔ سموئیل اور اس کی بیوی میری ایملی ڈکنسن سے ملنے کے لیے اکثر اس کے گھر آتے تھے۔ اس زمانے میں ڈکنسن نے مذکورہ مدیر کو تین درجن سے زائد خطوط لکھے اور پچاس کے قریب نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ چند نظمیں دیگر رسائل کی زینت بنی تھیں، لیکن یہ قابلِ‌ ذکر تعداد نہیں‌۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔ اس امریکی شاعرہ کو عام طور پر ایک گوشہ نشیں خاتون اور غم زدہ شاعرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

    15 مئی 1886ء کو ایملی وکنسن نے اُس خطرے کا سامنا کیا جس کے تصوّر سے کئی سال تک وہ خوف زدہ رہی تھی۔ ایملی وکنسن کو موت نے ابدی نیند سلا دیا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    تعجب کی بات ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال کے دوران ادبی رسائل اور ایملی ڈکنسن سے متعلق تحریروں کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ ایک مداح نے نیلام کے دوران ایک تصویر میں‌ شاعرہ کو پہچان کر اسے خرید لیا تھا۔تاہم یہ تصویر بھی اس کے دس سال بعد منظرِ عام پر آئی اور شاعرہ کے آبائی قصبے ایمہرسٹ کے کالج کی جانب سے اعلان میں کیا گیا کہ تحقیق کے بعد یقین سے کہا جا رہا ہے کہ انگریزی کی اس بڑی شاعرہ کی ایک اور تصویر بھی موجود ہے۔ یوں ایملی ڈکنسن کی زندگی کی صرف دو تصویریں ملی ہیں جن میں‌ سے پہلی اس وقت کی ہے جب شاعرہ کی عمر 17 برس تھی۔ دوسری اور دریافت کی گئی تصویر میں ایملی اپنی ایک سہیلی کے ساتھ نظر آرہی ہے جس کا نام کیٹ ٹرنر بتایا گیا ہے۔ یہ تصویر 1859ء کی ہے۔

  • جب ایک اپاہج نے بلراج کو پُرشباب پارٹی چھوڑ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا

    جب ایک اپاہج نے بلراج کو پُرشباب پارٹی چھوڑ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا

    زمانۂ طالبِ علمی میں پہلی مرتبہ فلم دیکھنے والے بلراج ساہنی کے بارے میں اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ آگے چل کر یہی لڑکا پہلے اسٹیج اور پھر ہندی سنیما کا باکمال اداکار اور بہترین مصنّف بنے گا۔

    بلراج ساہنی ایک دردمند انسان اور باشعور شخص تھے جس نے فن کی دنیا میں‌ اپنی صلاحیتوں کی بدولت استاد کا درجہ پایا اور اپنی نیک نیّتی اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے سبب لوگوں کے دل بھی جیتے۔

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس اداکار نے لگ بھگ 130 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1940 سے لے کر 1970 تک تین دہائیوں پر محیط فلمی سفر میں‌ بلراج ساہنی کو سدا بہار اداکار کے طور پہچانا گیا۔ انیس امروہوی نے بلراج ساہنی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند دل چسپ اور مثالی واقعات رقم کیے ہیں جو سب کے خیرخواہ اور سب سے مخلص بلراج ساہنی کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بلراج ساہنی ایک نیک دل، سلجھے ہوئے اور دانش ور قسم کے سادگی پسند انسان تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ انسان کو انسان ہی سمجھتے تھے اور چھوٹے، بڑے یا امیر غریب کی تفریق کرنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔”

    ایک واقعہ بلراج ساہنی نے اپنی کتاب ’یادیں‘ میں تحریر کیا ہے۔ "بلراج ساہنی کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے چنڈی گڑھ آئے ہوئے تھے۔ آؤٹ ڈور کا کام تھا اور فلم کا سارا یونٹ ایک رات کسی امیر دوست کے گھر پارٹی میں مصروف تھا۔ بڑے زوروں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ پنجابی مہمان نوازی، پنجابی حسن، پنجابی ہنسی مذاق اپنے شباب پر تھا۔ مارچ کے مہینے کا بے حد سہانا موسم تھا۔ دن بھر تمام یونٹ نے شوالک کی پہاڑیوں کے آنچل میں شوٹنگ کی تھی اور بڑے حسین شاٹ لیے تھے۔ اسکاچ کے گھونٹ بھرتے ہوئے دن بھر کی تھکاوٹ میں بھی بڑا سرور محسوس ہو رہا تھا۔ ڈرائنگ روم بھی دوشیزاؤں سے دہک رہا تھا۔ ایسے ماحول میں بلراج ساہنی کے ایک دوست نے آکر کان میں کہا۔ ’’بَلّی! باہر ایک آدمی کھڑا ہے تم سے ملنے کے لیے۔ ذرا ایک منٹ باہر جاکر اُسے درشن دے آؤ۔‘‘

    ’’یہ نہیں ہوگا۔‘‘ بلراج نے کہا۔ ’’آج کے دن میں ساری ڈیوٹیاں ادا کر چکا ہوں۔ اب اپنے نجی وقت پر مجھے مکمل اختیار حاصل ہے اور اس کا پورا پورا مزہ لینا چاہتا ہوں۔ تم اس سے کہہ دو کہ کل صبح مجھے ہوٹل میں آکر ملے۔‘‘

    ’’میری درخواست ہے بلی۔ وہ شام پانچ بجے کے پہلے سے ہی میری کوٹھی پر تھا اور اب اس کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔‘‘ دوستوں میں سب ان کو بَلی کہتے تھے۔

    دوست کی اس درخواست پر بلراج ساہنی بڑی بے دلی کے ساتھ باہر آئے۔ دودھیا چاندنی میں چمک رہے سیمنٹ کے فرش پر کھڑے کچھ لوگوں کی ٹولی کے پاس بگھی پر پلاسٹک کے پُتلے کی طرح اوم پرکاش نام کا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بلراج کو دیکھ کر اس نے فوجی ڈھنگ سے سلام کیا، جس کا مطلب بلراج ساہنی سمجھ نہ پائے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اتنے لوگوں میں ان کو کس سے ملنا ہے۔ قریب جاکر وہ ان سب لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے، اور اوم پرکاش بگھی پر بیٹھے ہوئے ہی بولا۔ ’’کیا ہم بھی میجر رَنوِیرسنگھ صاحب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔

    بلراج ساہنی کو حیرت ہوئی اور اس کو بغیر ٹانگوں کے دیکھ کر ہمدردی بھی۔ ایک خیال ان کے دماغ میں یہ بھی آیا کہ یہ لوگ کہیں ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے۔

    ’’کون میجر رنویر سنگھ؟‘‘ بلراج ساہنی نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’حقیقت‘‘ کے رنویر سنگھ، اور کون؟‘‘ وہ پھر اسی طرح ہنسا۔

    اب بلراج جی کو یاد آیا کہ فلم ’حقیقت‘ میں انھوں نے ایک فوجی میجر رنویر سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ بات کافی پُرانی ہو گئی تھی مگر اس وقت اوم پرکاش کے ان الفاظ سے بلراج جی کو خوشی ضرور ہوئی تھی۔
    ’’میں نے تین بار دیکھی تھی صاحب وہ پکچر۔ چوتھی بار اپنی ماں کو ساتھ لے کر دیکھنا چاہتا تھا، مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘ اوم پرکاش نے پھر کہا۔

    ’’اتنی زیادہ پسند آئی تمھیں۔‘‘ بلراج جی نے رسمی طور پر پوچھا۔ ’’کیسے نہ آتی صاحب، ہم بھی تو لڑے ہیں چینیوں کے ساتھ۔ آپ میجر ٹھہرے، ہم ایک معمولی سپاہی سہی۔‘‘

    اس کی طنزیہ ہنسی اور لکڑی کی ٹانگوں کی اصلیت جان کر بلراج جی حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک فوجی جوان جس نے جنگ میں دونوں ٹانگیں کھوئی تھیں، اُن سے ملنے کے لیے چار گھنٹے سے انتظار کر رہا تھا۔ ان کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔

    ’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی کہ تم فوجی جوان ہو؟‘‘ بلراج ساہنی نے پوچھا۔

    ’’بتا کر ملنے میں نہیں، بلکہ مل کر بتانے میں مزہ ہے میجر صاحب۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے بار بار میجر کہہ کر شرمندہ نہ کرو، خدا کا واسطہ ہے۔‘‘ بلراج ساہنی نے عاجزی سے کہا۔

    ’’آپ اپنی قیمت ہمارے دل سے پوچھیے۔‘‘ اوم پرکاش نے کہا۔ اس کی باتوں میں کتنی حقیقت تھی، کتنی ایکٹنگ تھی، بلراج ساہنی کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایکٹنگ میں بھی مجبوری کا جزو ہوتا ہے۔ عورت ہمارے سماج میں مجبور ہے، اس لیے اپنی خواہشوں کو تہوں میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔ وہ اپنی ہار میں بھی جیت کا مزہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ بلراج بھی اگر اس وقت مجبور نہ ہوتے تو بغیر ہچکچاہٹ اس بہادر نوجوان کو پوری عزت کے ساتھ پارٹی میں اندر لے جاتے اور اس سے ہاتھ ملانا ہر کسی کے لیے فخر کی بات ہوتی۔ اس کی بدولت پارٹی کو چار چاند لگ جاتے۔ مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتے تھے کیونکہ اپنی سوچ پر عمل نہ کرنے کے لیے وہ مجبور تھے۔ اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے انہوں نے جوان سے اتنا ہی کہا۔ ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔‘‘

    ’’وہ تو ابھی بتائے دیتا ہوں۔ آپ منظور کریں گے؟ میرا گھر یہاں سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ذرا چل کر میری ماں سے مل لیجیے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ اوم پرکاش نے بلا تکلف کہہ دیا۔

    بلراج جی اسی وقت اپنی رنگین اور پُرشباب پارٹی چھوڑ کر دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اس جوان کے ساتھ اس کی خوشی کے لیے اس کے گھر روانہ ہو گئے۔

  • مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    عبد المجید سالک اردو زبان کے بڑے ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور کالم نویس تھے جو اپنے دور کے مقبول اخبار ’زمیندار‘ کے مدیر رہے، تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کی ادارت کی۔ سالک صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی نثر طنز و مزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو آج بھی فکرِ انسان کو معطر رکھے ہوئے ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرتِ خیال ان کے ذہن کی رفعت کا ثبوت۔

    یہاں ہم عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور اپنے کام سے لگاؤ کی ایک مثال انہی کے اُس کالم سے پیش کررہے ہیں جو روزنامہ "انقلاب” میں "افکار و حوادث” کے نام سے سالک صاحب لکھا کرتے تھے۔ ان کا یہ کالم ہر خاص و عام میں‌ بہت مقبول تھا۔ عبدالمجید سالک اپنے اُن ملاقاتیوں سے بہت بیزار تھے جو ان کا وقت برباد کرتے اور گپیں ہانکنے کے لیے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

    "ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار” بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروّت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بے تکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار” ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔”

    "ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔”

    "دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرفِ مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔”

    "تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا۔ محض "نیاز حاصل کرنے” کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز” کی مدّت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔”

    "خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بہ سہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔”

    "ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا: "حضرت اس وقت کہاں ؟” فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا۔ سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانکیں۔”

    "لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے۔”

    "آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں” برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروّتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں” سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرتِ ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔”

    "دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے: "رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے۔” ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے: "جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِِ گزشتہ تھی۔” وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ: "مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔”

    "وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دیے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔”

    اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    جس طرح کسی ڈرامے یا فلم کی شان دار کہانی اور متأثر کن اداکاری ناظرین کے دل جیت لیتی ہے بالکل اسی طرح ان پر نفسیاتی طور پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ فلمیں اپنے ناظرین کو گرفت میں لے لیتی ہیں‌ اور اس کے منفی یا مثبت دونوں طرح کے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔

    اکثر کوئی فرد فلم دیکھنے کے بعد وہی کچھ کرتا ہے جو فلم میں دکھایا گیا ہو۔ ہم نے کئی خبریں‌ سنی اور پڑھی ہیں‌ جب کسی فلم بین نے اپنے پسندیدہ ہیرو یا ولن کی خودکشی کا منظر دیکھنے کے بعد ٹھیک اسی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اسی طرح مار پیٹ یا بینک لوٹنے کے چند واقعات کا محرک بھی کوئی فلم رہی ہے۔ حقیقی زندگی میں کسی بے وفا محبوب کو بھیانک انجام سے دوچار کرنے والوں نے بعد میں بتایا کہ انھوں نے فلاں فلم دیکھنے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا۔ یہ تو چند منفی باتیں تھیں، لیکن فلم بینوں نے اداکاروں کو دیکھ کر کئی فیشن اور وضع قطع کے مختلف انداز بھی اپنائے۔ یہاں ہم صرف بھارتی سنیما کی بات کریں‌ تو پریم پال اشک کے ایک مضمون سے چند پارے آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "فلمیں ہمارے نوجوانوں پر نفسیاتی طور پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں کہ انہی سے نئے نئے فیشن بھی جنم لیتے ہیں۔ مس گوہر اور دیویکا رانی کے بالوں کا ہر اسٹائل خواتین نے اپنایا۔”

    "دیویکا رانی اور نرگس جب سفید ساڑھی میں جلوہ گر ہوئیں تو ملک کی خواتین نے سفید براق ساڑھیاں پہننی شروع کر دیں۔ سلوچنا، مس کنچن اور سادھنا بوس نے بغیر آستین کا پارسی کٹ بلاؤز پہنا تو ہمارے ملک کی خواتین نے بھی اسے فیشن بنا لیا۔ ناڈیا اور نرگس کے ہیئراسٹائل کو دیکھ کر لڑکیوں نے اسی انداز سے اپنے بال ترشوائے۔ اپنے زمانے کی مشہور ایکٹرس سدھنا کا ماتھا چوڑا تھا۔ اس عیب کو چھپانے کے لئے میک اپ مین نے اس کے ماتھے کے سامنے کے بال اس انداز سے سنوارے کہ عیب چھپ گیا اور بالوں کا نیا اسٹائل سادھنا کٹ مشہور ہوگیا۔”

    "اس کے علاوہ دلیپ کمار کی فلموں "بابل”، "میلہ”، دیدار” اور "شہید” وغیرہ میں ان کے بالوں کی ایک لٹھ کو ماتھے پر لانے کا اسٹائل دلیپ کمار اسٹائل بن گیا۔ اگر کسی اداکار کے بالوں کی سائیڈیں یعنی قلمیں بڑی ہوتیں تو وہ بھی نوجوانوں کا فیشن بن جاتا۔ اور اگر بولی وڈ کے نامور اداکار امریش پوری سر گھٹوا کر پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے تو نوجوانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر سر گھٹوانے کو ہی ایک فیشن بنا لیا۔ اسی طرح جب دیو آنند نے کھلی چوڑے پائنچے کی پینٹ اور فلیٹ ہٹ ایک خاص اسٹائل سے پہنی تو نوجوانوں نے اسی کو فیشن بنا لیا۔”

    "راج کپور نے ہندوستانی نوجوانوں کو فیشن کا ایک نیا اسٹائل دیا۔ چوڑی موری کی پینٹ کے پائنچے موڑ کر انہیں اوپر چڑھانے اور فلیٹ ہیٹ پہننے کا مخصوص انداز فلم "آوارہ”‘ اور”چار سو بیس” میں دیکھنے کو ملا جسے نوجوانوں نے بڑے انہماک سے اپنایا۔”

    پاکستان میں فلم انڈسٹری کے نام ور اداکاروں کی تقلید کرتے ہوئے شائقینِ سنیما نے نہ صرف انہی کی طرح بال بنائے، ملبوسات سلوائے بلکہ اسی برانڈ کی گھڑی کلائی پر سجائی، ویسا ہی مفلر، رومال اور بٹوا خریدا جو انھوں نے فلم میں اپنے محبوب ہیرو کے پاس دیکھا تھا۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا ہیئر اسٹائل اور اداکار شاہد کی طرح بڑی بڑی قلمیں رکھنے کا شوق ہر نوجوان نے اس زمانے میں پورا کیا تھا۔

  • اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی کہانیاں ماضی پرستی کے ساتھ اس رومانوی فضا کو جنم دیتی ہیں جس میں اُن کی کتاب کا قاری دیوانہ وار اور بصد شوق صفحے الٹتا چلا جاتا ہے۔ اے حمید اردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے افسانہ نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں بڑا نام پایا۔ یہاں ہم ان کی کتاب یادوں کے گلاب سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا اور اے حمید کی ایک حرکت پر حیرانی بھی ہو گی۔

    “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“
    میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“