Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برصغیر میں تجارت کا پروانہ لے کر آنے والے انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اپنے قدم جمائے اور ہندوستان میں برطانوی راج قائم ہوگیا تو انتظامی امور کے ساتھ قانون سازی اور عدالتی نظام بھی متعارف کروایا۔ انگریزی قانون کے ذریعے بااختیار افسر ہندوستانیوں‌ کی تذلیل کر کے خوش ہوتے تھے۔

    غدر کے بعد تو ہر انگریز افسر کو اختیار تھا اور وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا حکم یا پھانسی دینے یا جیل بھیجنے کا حکم دے دیتا تھا۔ باغیوں ہی نہیں عام شہریوں کا بھی قتل کیا گیا اور معمولی جرم پر یا کسی انگریز افسر کی مرضی کے خلاف کام ہوجانے پر سزا سنا دی جاتی تھی۔

    یہاں ہم برطانوی راج میں جرم و سزا سے متعلق کتاب تاریخِ جرم و سزا سے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ اس کے مصنّف امداد صابری ہیں‌ جن کی یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    امداد صابری ہندوستان کے نام ور صحافی اور مجاہدِ آزادی تھے جنھیں تحریر اور تقریر میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ادب اور تاریخ کے موضوع پر بہت مفید اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان کی کتاب سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    طریقۂ عدل
    اس زمانہ میں عدل کا طریقۂ کار انتہائی مہمل اور طفلانہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیسٹنگز نے عدالتوں کا بندوبست کیا۔ اور انگریزی عدالتوں کی بنیاد رکھی۔اور اس نے انگریزی کلکٹروں کے ساتھ پنڈت اور مولوی مقرر کئے جو ان کو دھرم شاستر اور فقہ کے اصول سمجھاتے تھے۔ اس نے کلکتہ میں اپیل کی دو عدالتیں بھی قائم کیں جو دیوانی اور فوجداری مقدمات علیحدہ علیحدہ فیصلہ کرتی تھیں۔ قانون کی ایک کتاب بنائی گئی تھی تاکہ عوام قانون سے واقف ہو جائیں۔

    بنگال کے پہلے سپرنٹنڈنٹ کی ڈائری
    انگریزی قانون پر شروع میں جس طرح عمل درآمد ہوا وہ بہت بھونڈا اور مضحکہ خیز تھا جو شاید کسی بھی حکومت کے دور میں اس بے ڈھنگے طریقے سے شروع نہ کیا گیا ہوگا۔ جب سپریم کورٹ (موجودہ ہائیکورٹ ) قائم ہوا اور اس کی حیثیت یہ تھی کہ چند زیورات تک چوری کے مقدمات ابتدائی سماعت کے لئے وہاں پیش کئے جاتے تھے۔ اور سزائے تازیانہ، تشہیر کرنے اور جوتوں کی سزا دینے اور دریا پار کرنے کا اختیار بطور خود سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تھا۔

    اگر آپ کو وہ مضحکہ خیز منظر دیکھنا ہے تو آئیے کلکتہ کے پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پلیڈل کی ڈائری کے چند اوراق ملاحظہ کیجئے۔

    بھگوڑے ملازم کی سزا
    4 جون 1775، آج میں ناشتہ سے فارغ ہو کر اپنے برآمدہ میں بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ مسٹر جان نگول کے ملازم نے رپورٹ کی کہ اس کے آقا کا باورچی رنجن کام چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اور اس کی جگہ جو نیا باورچی رکھا گیا ہے اسے رنجن نے مارا۔ میں نے رنجن کو بلوایا۔ معلوم ہوا وہ پرانا مفسد ہے اور ایسی حرکتوں کی بناء پر اس کا کان بھی کاٹا جا چکا ہے۔ میں نے حکم دیا کہ رنجن کو دس بید لگائے جائیں اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

    دھوکہ دہی کی سزا
    کرنل واٹسن نے رپورٹ کی کہ رام سنگھ نے انہیں دھوکہ دیا اور اپنے کو بڑھئی ظاہر کر کے تنخواہ وصول کی حالانکہ وہ حجام ہے اور بڑھئی کے کام سے بالکل واقف نہیں۔ حکم ہوا کہ رام سنگھ کے پندرہ بید لگائے جائیں اور قلی بازار میں کرنل واٹسن کی کوٹھی تک اسے تشہیر کیا جائے۔

    مرمت حسبِ وعدہ نہ کرانے/ لونڈی کے فرار پر سزا
    کپتان اسکاٹ نے شکایت کی کہ بنارسی نے ان کی گاڑی کی مرمت حسبِ وعدہ نہیں کی، حکم دیا گیا کہ بنارسی کے دس جوتے لگائے جائیں۔ اینڈرسن پگی نے رپورٹ کی کہ ان کی لونڈی بھاگ گئی لیکن اسے چوکیدار نے گرفتار کر لیا۔ لونڈی کے دس بید لگائے گئے اور اسے مسٹر اینڈرسن کے حوالے کر دیا گیا۔

    چوری کی سزا
    جیکب جوزف نے شکایت کی کہ اس کے باورچی متھول نے چند برتن چرائے۔ میں نے حکم دیا کہ ملازم کو ہرنگ باڑی میں اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ برتن واپس نہ کر دے۔ رام ہری نے فریاد کی کہ رام گوپال اس کے بچے کی گردن سے تلسی دانہ اتار کر بھاگ رہا تھا اسے موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ حکم ہوا کہ مجرم کو پانچ جوتے لگا کر اسے سارے شہر میں تشہیر کیا جائے۔

    سرکاری حکم نہ ماننے کی سزا
    آٹھویں ڈویژن کے سپاہی بائیکس نے ایک لڑکے کے مولیہ کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا۔ وہ کئی بار چوری کے الزام میں سزا یاب ہو چکا تھا اور آخری مرتبہ میں نے حکم دیا تھا کہ اسے پندرہ بید لگا کر ہمیشہ کے لئے دریائے ہگلی کے دوسری جانب نکال دیا جائے۔ لڑکا مفسد ہے، میرے حکم کے خلاف دریا کو عبور کیا پھر کلکتہ آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے اسے بیس بیدوں کی سزا دی اور دریا پار کرا دیا۔

    راہ گیروں کو چھیڑنے کی سزا
    مسٹر نوملے نے اپنے حقہ بردار کلو کی رپورٹ کی کہ وہ سڑک پر راہگیروں کو چھیڑتا ہے، حکم ہوا پانچ جوتے لگائے جائیں۔

    غلط رپورٹ کرنے کی سزا
    باقر محمد نے مسماۃ رام رجنی کے خلاف شکایت کی کہ اس نے مستغیث کی بیوی کو مغلط گالیاں دی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ باقر محمد کی بیوی بھی مسماۃ رام رجنی سے کم بد مزاج اور جنگجو نہیں ہے۔ دونوں عورتیں آپس میں گالی گلوچ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ اس فضول شکایت سے میرا وقت خراب ہوا تھا اس لئے باقر محمد اور رام رجنی دونوں کو پانچ پانچ روپیہ جرمانہ کی سزا دی اور کہہ دیا کہ آئندہ اس قسم کی شکایت میرے کانوں تک پہنچی تو رام رجنی اور محمد باقر کی بیوی دونوں کو دریا پار کرا دیا جائے گا۔

    چور کی تشہیر/ کام چور کو جوتوں کی سزا
    مسٹر کینڈل نے اپنی مہترانی کے خلاف شکایت کی کہ وہ آبدار خانہ کی بوتلیں چرا کر ایک کالے (یعنی ہندوستانی) دکاندار بکتا رام کے ہاتھ فروخت کرتی ہے۔ بکتا رام نے اقبال جرم بھی کیا۔ نیٹو (Native) بنیوں کی شرارت کا سدباب کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ بیس بید بکتا رام کے لگائے جائیں۔ اور دس بید مہترانی کے اور دونوں کو پنجرے میں بٹھا کر تشہیر کی جائے۔

    کمپنی کے کلرک مسٹر پیسیج نے شکایت کی کہ خدا بخش اور پیاری نے ان سے پیشگی تنخواہ لے لی ہے مگر دونوں کام نہیں کرتے۔ دونوں کو دس دس جوتوں کی سزا دی گئی۔

    چاول کے عمل سے ملزم کی گرفتاری
    مسٹر ولنکسن کے بنگلہ میں چوری ہوئی، انہوں نے عمل کے ذریعے چور پکڑنے کے لئے ایک ملّا کی خدمت حاصل کی۔ ملّا نے ان کے ملازموں کو چاول چبانے کے لئے دیے۔ ولنکسن کی دائی گوری کے منہ سے سوکھے چاول نکلے اور اس پر شبہ ہوا۔ دائی نے ملّا کو بطور رشوت دس روپے نقد دیے کہ وہ مسٹر ولنکسن سے اس کی چوری کا ذکر نہ کرے۔ مسٹر ولنکسن کو خبر ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے رپورٹ کی۔ حکم دیا گیا کہ دائی کو تفتیش کے لئے تیسرے ڈویژن کے تھانہ میں بند رکھا جائے۔

    جوتا لگانا قانونی سزا تھی
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری کے مطالعہ سے ہندوستان میں برطانوی انصاف کی ابتدائی انگریز پرستی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ وہ کس طرح رعایا پر انگریزوں کا رعب جمانے کے لئے صرف حسبِ وعدہ مرمت نہ ہونے پر جوتے پڑواتا ہے۔ اس ڈائری سے ان باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہندوستانی امراء کس طرح انگریزوں کے جلو میں بھی مشعلچی ہوتے تھے۔ اور انگریز حقہ پیتے تھے۔ لونڈی غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ انگریزوں کے قبضہ میں بھی لونڈیاں تھیں۔ اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے ظلم و ستم سے بھاگتی تو اسے سزائے تازیانہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔جوتے لگانا ایک قانونی سزا تھی۔ برطانوی نظم و نسق سے پیشترعادی مجرموں کا ایک کان کاٹا جاتا تھا۔

    مولویوں کے عملیات کا زور
    اس زمانہ کے انگریز بھی مولویوں کے عملیات کے قائل تھے۔ اور چوری تک کے معاملات میں مولویوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اور وہ اٹھارہویں صدی میں مشتبہ چوروں کا پتہ چاول چبوا کر لگاتے تھے۔

    سزائے تشہیر کا طریقہ
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری میں بعض مجرموں کے لئے جو سزائے تشہیر تجویز کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو بڑے سے چوبی پنجرے میں بند کر دیتے تھے۔ اور پنجرہ ایک خاص قسم کی بنی ہوئی اونچی گاڑی کے دھرے سے (جس کے پہیے پندرہ سولہ فٹ بلند ہوتے تھے) لٹکا دیا جاتا تھا۔ پولیس کے سپاہی گاڑی کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک شخص ڈھول بجا کر مجرم کے نام، جرم اور نوعیتِ جرم کی تشہیر کرتا تھا۔

  • عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے؟

    عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے؟

    حاجی لق لق پر پچھلے دنوں بھینس کے ہاتھوں قیامت گزر گئی۔

    یہ تو اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ حاجی صاحب نے کوئی سال بھر سے ایک بھینس پال رکھی ہے اور اس کی خدمت اس تن دہی سے کرتے ہیں کہ کوئی اس طرح بزرگوں کی خدمت بھی کیا کرے گا؟ اگرچہ حاجی صاحب خود ’’بیچارہ‘‘ ہیں۔ مگر بھینس کے لیے چارہ فراہم کرنے میں ان سے کبھی کو تاہی نہیں ہوئی۔ لیکن پچھلے دنوں خدا جانے اس بھینس کے جی میں کیا آئی کہ رسہ تڑا کے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور جوار کے کھیت سے بخط مستقیم کانجی ہاؤس جا پہنچی۔

    حاجی صاحب دلؑی گئے ہوئے تھے۔ آتے ہی یہ واقعہ سنا۔ کلیجہ دھک سے رہ گیا اور منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’الٰہی مری بھینس کی خیر ہو۔‘‘ ہوش ٹھکانے ہوئے تو کانجی ہاؤس پہنچے اور بھینس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ کانجی ہاؤس والوں نے کہا، صاحب! کانجی ہاؤس کے قوانین بورسٹل جیل کے قاعدوں سے زیادہ سخت ہیں۔ بھینس سے ملنا ہے تو درخواست دیجیے ہم اسے مسٹر میکناب (افسر اعلیٰ مونسپلٹی) کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ چاہے اجازت دیں چاہے نہ دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مجبور ہو کر درخواست لکھی اور مسٹر میکناب کے پاس بھیج دی۔ تیرہ دن گزرگئے مگر کوئی جواب نہ آیا۔

    وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا معلوم نہیں آپ کو بھینس سے ملاقات کی اجازت ملے یا نہ ملے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت حاصل کرنے میں پورا سال صرف ہوجائے۔ اب جرمانہ ادا کرکے بھینس کو چھڑا کیوں نہیں لاتے؟ حاجی صاحب کو یہ بات پسند آئی۔ چناں چہ جرمانہ ادا کرنے کے لیے نہ تو کوئی چندے کی اپیل شائع کی، نہ لوگوں سے کہا کہ آپ کی غیرت کے امتحان کا وقت آگیا ہے اور نہ یہ فرمایا کہ پنجاب کی اتحادی وزارت نے مجھ سے انتقام لینے کے لیے میری عزیز از جان بھینس کو کانجی ہاؤس بھجوا دیا ہے بلکہ جرمانہ کی رقم جو غالباً پندرہ روپے ساڑھے سات آنے تھی، اپنی جیب سے ادا کرکے بھینس کو چھڑوا لائے۔

    سنا ہے کہ بھینس کا جلوس بڑی دھوم دھام سے نکلا۔ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ اور مصری شاہ کے گلی کوچوں میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کانجی ہاؤس ہائے ہائے اور ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ کے نعروں کے ساتھ اسے پھرایا گیا۔ بھینس شاعر نہیں بن سکتی۔ شعر فہم نہیں بن سکتی تو کیا، لیڈر تو بن سکتی ہے۔

    آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ حاجی لق لق کے خاندان میں اس بھینس کے سوا کبھی کسی نے قانون شکنی نہیں کی۔ بھینس کو شاعری سے اس لیے بھی کوئی تعلق نہیں کہ عقل اور شاعری میں ہمیشہ سے جنگ رہی ہے اور بھینس کا مقابلہ ہمیشہ عقل سے کیا جاتا ہے۔ چناں چہ آج تک بڑے بڑے عالم یہ فیصلہ کرسکے کہ عقل بڑی ہے یا بھینس۔ بھینس کا طول و عرض حتیٰ کہ اس کا وزن تک لوگوں کو معلوم ہے لیکن عقل کے حدود و اربعہ کے متعلق ہی علما میں اختلاف نہیں بلکہ اس کے وزن کا مسئلہ بھی مشتبہ ہے۔ اب تک صرف اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ عقل اور علم کے وزن میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’یک من علم را دہ من عقل باید‘‘۔

    علم کا وزن متعین ہوجائے تو عقل کے وزن کا مسئلہ بھی طے ہوسکتا ہے۔ اور عقل کا وزن معلوم ہوجائے تو اس متنازع فیہ مسئلہ کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے۔ بہرحال اس مسئلہ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ اتنا ظاہر ہے کہ بھینس کو شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔

    (ممتاز ادیب اور شاعر چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • کیا ہم اپنا دامن کانٹوں سے بچا سکیں گے؟

    کیا ہم اپنا دامن کانٹوں سے بچا سکیں گے؟

    شاہد احمد دہلوی دہلی سے ادبی پرچہ ساقی نکالا کرتے تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب ادیب اور کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے کراچی سے ساقی کا اجراء بھی کیا۔ اس کا پہلا شمارہ نکالا تو اداریہ لکھتے ہوئے اس وقت کے سیاسی حالات اور انتشار کو بھی ضبطِ تحریر میں لائے۔

    بانی پاکستان اس وقت تک رحلت فرما چکے تھے اور ان کی لازوال قیادت اور اسلامیانِ ہند کے لیے ان کی سیاسی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شاہد احمد دہلوی نے ایسی تلخ باتیں لکھیں جنھیں پڑھ کر لگتا ہے کہ اداریہ گویا آج کے حالات پر لکھا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    رنگِ خوں اشک میں گہرا نظر آتا ہے مجھے
    آج دامن پہ کلیجا نظر آتا ہے مجھے​

    آخر وہ وقت آہی گیا جسے کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں بھی نہ روک سکیں اور قائدِ اعظم ہم سے رخصت ہوگئے۔ اناللہِ وانا الیہ راجعون۔ اب وہ وہاں ہیں جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔ قائدِ اعظم کی موت درحقیقت زندگی پر عظیم الشّان فتح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خوابوں کے دیوانے نے حقائق کے فرزانوں پر جیتے جی ایسی شاندار فتح پائی کہ اس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا۔ایک مردہ قوم کو زندہ کر دیا اور ان کے لیے ایک نیا ملک بنا دیا۔

    ایسا نیا ملک جو نہ صرف دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں سب سے بڑا ہے بلکہ ہر اعتبار سے اتنا توانا بھی ہے کہ اسلامیانِ عالم اسے اپنا ملجا و ماوا سمجھیں۔ قائدِ اعظم اپنی زندگی کا مقصد پورا کر کے ہم سے رخصت ہوئے۔ رونا اس کا ہے کہ وہ ہم سے ایسے وقت میں جدا ہوئے جب کہ ہمیں اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ مسلمانوں پر چاروں طرف سے یلغار ہورہی ہے اور ہمارا سالار ہم سے بچھڑگیا۔ کچھ تسکین صرف اس خیال سے ہوتی ہے کہ اُن کی بتائی ہوئی راہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اُن کی ہدایات ہمارے دلوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوگی؟ اُن کے جاتے ہی گلابی خوابوں نے خار زاروں کا روپ دھار لیا ہے۔ کیا ہم اپنا دامن ان کانٹوں سے بچا سکیں گے؟خود غرضی، نفس پروری، تن آسانی، ناانصافی، تعصب، بے ایمانی اور سب سے زیادہ خطرناک وہ مہلک عنصر جو ہمیں میں سے ہے اور ہمارے ہی خلاف کام کررہا ہے! کیا ہم اِن سب کا کام یابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے؟ یقیناً، بشرطے کہ ہم قائدِ اعظم کے ارشادات کی تعمیل کریں۔

    قائدِ اعظم نے ایک مضحکہ خیز تصور کو ایک زندہ حقیقت بنا دیا۔ یہ ہمارا وہ بیش قیمت ورثہ ہے جسے ہم نے اپنی جان، اپنا مال ، اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنا سب کچھ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ بہارِ تازہ یونہی نہیں آگئی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی جانیں اس کے لیے خزاں کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ یہ شفق کے گلاب خود بخود نہیں کِھل گئے ہیں، اِن میں سُرخیٔ خونِ شہیداں بھی شامل ہے، اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیا، آج اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہیں۔ در بدر اور خاک برسر ہیں۔ ہم چشموں میں ذلیل و خوار ہیں۔ اُن کے لیے سر چھپانے تک کو جگہ نہیں۔ اُن کے تن ننگے اور اُن کے پیٹ خالی ہیں۔ اور وہ نڈھال آنکھوں سے ایک ایک کا منہ تکتے ہیں۔ اور قہر بار نظروں سے اُن کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ وہ ’’مہاجر‘‘ ہیں جو ’’انصار‘‘ کے رحم و کرم کے محتاج ہو گئے ہیں۔ کیا وہ صرف مہاجر ہیں؟ تو پھر مجاہد کون ہے؟ قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری لمحے بھی انہی کی فکر میں گزرے۔ کیا عجب کہ انصار کا طرزِ تپاک اب بھی اس روح عظیم کی خلش کا باعث ہو؟ یہ ہوش میں آنے کا وقت ہے۔ اگر قائدِ اعظم کی موت بھی تمہیں نہیں چونکا سکتی تو اپنی موت کے خیر مقدم کے لیے خود بھی تیار ہو جاؤ۔ یوں زندگی نہیں ہوسکتی کہ تمہارے محل قہقہے لگاتے رہیں اور اور دوسروں کی جھونپڑیوں کو رونے کی بھی اجازت نہو۔ اتنی پستی اور اتنی بلندی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر قدرت کے اس ابتدائی قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو تاریخ کے اوراق میں اُن قوموں کے انجام دیکھو جو خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بھٹک گئیں۔ اور جناح کی اِس للکار کو نہ بھولو:

    ’’پاکستان جیسی نوزائیدہ ریاست کی ترقی، نہیں بلکہ اس کی بقا کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہاں کے شہریوں میں خواہ وہ کسی علاقے کے ہوں یگانگت اور یکجہتی ہونی چاہیے۔

    پاکستان تو مسلمان قوم کے اتحاد کی تجسیم ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ آپ کو سچے مسلمانوں کی طرح اس اتحاد کا دل و جان سے تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہم اولاً پنجابی، سندھی، بنگالی وغیرہ ہیں اور ہم مسلمان، پاکستانی اتفاقی طور پر ہوگئے ہیں تو پھر پاکستان کا شیرازہ بکھرجانا لازمی ہے۔‘‘

    (اداریہ از شاہد احمد دہلوی، رسالہ ساقی، کراچی شمارہ اوّل، اکتوبر 1948)

  • ادھوری ماں…

    ادھوری ماں…

    کہنے کو تو نادر چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، لیکن گھر میں اُس کا خیال اس طرح رکھا جاتا، جیسے وہ سب سے چھوٹا ہو۔ بہن بھائیوں کے درمیان جب بھی کسی بات پر جھگڑا ہوتا، تو چاہے قصور نادر ہی کا کیوں نہ ہو، امی ابو کی ڈانٹ ڈپٹ ہمیشہ دوسرے بہن بھائیوں کے حصّے میں آیا کرتی۔

    ایک دن سارے بہن بھائی گھر کے چھوٹے سے صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ امجد بولنگ اسٹینڈ پر فاسٹ بولروں کے انداز میں گیند کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور نادر گھی کے خالی کنستر کے آگے بلّا تھامے شاٹ کھیلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اپنی طرف آتی گیند کو اُس نے نظروں ہی نظروں میں تولا اور ایک زور دار شاٹ لگانے کے لیے بلّا گھما دیا۔ گیند سیدھی ایک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے شیشہ چکنا چور ہو کر فرش پر بکھر گیا۔ پورے ”میدان“ میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔ اُس دن اتوار تھا اور صبح ہی سے بچوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔

    نادر کے والد افتخار حسین اپنے کمرے میں اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔ شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنتے ہی وہ اور اُن کی بیوی صغراں دوڑتے ہوئے صحن میں آئے۔ افتخار حسین نے غصّے سے تمام بچوں کی طرف باری باری دیکھا۔ تمام کھلاڑیوں پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ نادر کے ہاتھوں میں بلاّ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ شیشہ اسی کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ افتخار حسین نے ایک سرسری نگاہ نادر اور بلّے پر ڈالنے کے بعد بولنگ اسٹینڈ پر کھڑے امجد کو شعلہ بار نظروں سے گھورا۔

    ”ابّو! شیشہ بھائی…. نے توڑا….ہے۔ میں تو بولنگ کروا رہا تھا۔“ امجد نے فوراً ہکلاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی۔

    ”امجد سچ کہہ رہا ہے، شیشے پر گیند بھائی نے ماری ہے۔“ ”سلپ“ میں کھڑی ننھی تہمینہ نے فوراً امجد کے حق میں گواہی دی اور دیگر بہن بھائیوں کے سر اُس کی تائید میں ہلنے لگے۔ ”عینی شاہدوں“ کے بیانات نظر انداز کرتے ہوئے افتخار حسین کا ایک بھرپور تھپڑ امجد کے گال پر پڑا اور دوسرا پرویز کی پیٹھ سہلا گیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے ننھی تہمینہ نے پہلے ہی کمرے کی جانب راہِ فرار اختیار کرلی تھی۔

    ”کمینو! تم لوگ مجھے زندہ بھی رہنے دو گے کہ نہیں۔ بیٹھے بٹھائے ڈیڑھ دو سو روپے کا نقصان کرا دیا۔ مار مار کے ادھ مُوا کر دوں گا، اگر آیندہ کسی کو صحن میں کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔“ اس سے پہلے کہ افتخار حسین کے غصّے کے مزید سنگین نتائج برآمد ہوتے، صغراں نے خود ہی آگے بڑھ کر امجد اور پرویز کی پیٹھ پر دھپ جمائی اور کوسنے دیتی ہوئی بچوں کو کمرے میں لے گئی۔ اس بار بھی اصل ’مجرم‘ نادر صاف بچ نکلا تھا۔

    کمرے میں پٹے ہوئے کھلاڑی اپنی اپنی چوٹیں سہلانے میں مصروف تھے۔ نادر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب بہن بھائی اُسے کینہ توز نظروں سے گھورنے لگے۔

    ”شیشہ تو بھائی نے توڑا، پھر مار ہمیں کیوں پڑی؟“ امجد نے سرگوشی کے انداز میں ماں سے شکایت کی۔ ”اس لیے کہ یہ تمھارا بڑا بھائی ہے اور بڑوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتے۔“

    آج پہلی بار اپنے بہن بھائیوں کو پٹتے دیکھ کر نادر کو اچھا نہیں لگا۔ اُس کے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ کچھ گھنٹوں بعد گھر کی فضا اعتدال پر آگئی۔ بچے اس ”ہول ناک“ سانحے کو بھول کر پھر سے آپس میں کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔ شیشے کی کرچیاں سمیٹ لی گئیں اور افتخار حسین کا پارا بھی نیچے آگیا۔ لیکن نہ جانے کیوں نادر کے ذہن سے اس واقعے کا اثر زائل نہیں ہوا۔ کوئی کرچی سمیٹنے سے رہ گئی تھی، جو نادر کے دل میں مسلسل چبھے جا رہی تھی۔ اُس کا معصوم ضمیر اُسے اندر ہی اندر کچوکے لگا رہا تھا۔ ذہن ایک ہی سوال کی بار بار تکرار کیے جا رہا تھا۔

    ”جب شیشہ میں نے توڑا، تو امجد اور پرویز کو مار کیوں پڑی۔ مجھے تو کسی نے ڈانٹا تک نہیں؟“ اس سوال کے ساتھ ہی اس طرح کے کئی اور واقعات اُس کے ذہن کی اسکرین پر چلنے لگے…..ان سارے سوالات کے جوابات نادر کو سولہ سال کی عمر میں ملنا شروع ہوئے۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کی ظاہری ساخت اپنے دیگر بہن بھائیوں سے مختلف ہے۔ اسے لگتا تھا کہ جنس کے اعتبار سے اس کی بہن تہمینہ ماں کے زیادہ قریب ہے، جب کہ امجد اور پرویز باپ کی شباہت رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود کو بیچ دوراہے پر اُس مسافر کی طرح کھڑا پاتا، جو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ کون سا راستہ اس کی منزل کی طرف جاتا ہے۔
    نادر کو لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا اچھا لگتا تھا۔ اُس کی ماں اُسے ٹوکتی کہ وہ اپنی بہن اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بہ جائے اپنے بھائیوں اور محلے کے لڑکوں کے ساتھ گھوما پھرا کرے۔ یہ بات کہنے کے بعد نہ جانے کیوں اُس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ اپنا منہ پھیر کر دوپٹے سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگتی۔ نادر کو لڑکوں کی صحبت سے آہستہ آہستہ کوفت ہونے لگی۔ اسکول اور محلے کے لڑکے اس کا مذاق اُڑایا کرتے اور اس کے بات کرنے اور چلنے کے انداز پر پھبتیاں کستے تھے۔ چناں چہ، اپنے دو بھائیوں کے مقابلے میں اس کا زیادہ تر وقت گھر ہی پر کٹنے لگا۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کے والدین اُسے شادی کی تقریبات میں ساتھ لے جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی کہ وہ اُن کے ساتھ جانے کے بہ جائے گھر پر رہے۔

    ایسے ہی ایک موقعے پر جب سارا گھر محلے کی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا ہوا تھا، نادر گھر میں اکیلا بُری طرح بور ہو رہا تھا۔ اُس کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہ تھا۔ چناں چہ، وقت گزاری کے لیے اُس نے ایک فلمی رسالے کی ورق گردانی شروع کر دی۔ رسالے کے پورے ایک صفحے پر اُس کی پسندیدہ ہیروئن جیا پرادا کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ وہ انہماک سے اس تصویر کو دیکھنے لگا۔ اچانک اُس کے دل میں ایک انوکھے خیال نے جنم لیا۔

    ”کیا میں جیا پرادا کی طرح بن سکتا ہوں؟“ اس خیال کے آتے ہی اُس کے قدم مشینی انداز میں کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھنے لگے۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اُسے جیا کے لباس جیسا اُس کی ماں کا سبز جوڑا مل گیا۔ وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس تبدیل کرنے لگا۔ اس کام میں اس کے ارادے کا کوئی دخل نہ تھا۔ اُس کے اندر کوئی ایسی چیز تھی، جو اسے اس کام کے لیے اُکسا رہی تھی۔ زنانہ لباس زیب تن کرکے وہ الماری کے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اپنا عکس آئینے میں دیکھنے سے نادر کے پورے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا مختلف زاویوں سے اپنے سراپے کا جائزہ لینے لگا۔

    اچانک اس کی نظر سنگھار میز پر رکھے، میک اپ کے سامان پر پڑی، جو تہمینہ جلدی میں کُھلا چھوڑ گئی تھی۔ نادر اسٹول کھینچ کر سنگھار میز کے سامنے بیٹھ گیا اور دل چسپی سے میک اپ کے سامان کا جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کا ہاتھ ٹالکم پاؤڈر کی جانب بڑھا۔ تھوڑا سا پاؤڈر ہتھیلی پر نکالا اور آہستہ آہستہ چہرے پر ملنے لگا۔ اس کام میں نادر کو مزہ آنے لگا اور وہ مزید پاؤڈر نکال کر اسے دونوں ہاتھوں سے جلدی جلدی اپنے چہرے اور گردن پر اچھی طرح ملنے لگا۔ پھر لپ اسٹک کی باری آئی۔ آنکھوں میں کاجل لگانے سے نادر کی پوری شخصیت ہی تبدیل ہوگئی اور وہ ایک بار پھر آئینے میں اپنا بھرپور جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کی ہنسی چھوٹ گئی، جو جلد ہی قہقہوں میں تبدیل ہوگئی۔ نادر قہقہے لگاتا ہوا پورے کمرے میں تھرکنے لگا۔ ایسا کرنے میں اُسے بڑا لطف آرہا تھا۔ وہ تھرکنے کے ساتھ ساتھ دونوں بازو پھیلائے گول گول گھومنے بھی لگا۔ کافی دیر تک اس طرح تھرکنے اور گھومنے کے بعد وہ نڈھال ہوکر بستر پر گرگیا۔ تیز سانسوں کی وجہ سے اُس کا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ نادر کی بند آنکھیں اور ہونٹوں پر پھیلی ہلکی مسکان اس کے ذہن میں چلنے والے خوش کن خیالات کا پتا دے رہی تھی۔ آج معما حل ہوگیا تھا۔ نادر کو اُس کی منزل کی طرف جانے والا راستہ مل گیا تھا اور اُس نے اِس راستے پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔

    کئی برس گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد آج اس زنانہ لباس میں اُس کی شخصیت کی تکمیل ہوگئی تھی۔ ”اب مجھ سے میرا اپنا پن کوئی نہیں چھین سکتا۔“ نہ جانے کتنی دیر تک نادر کا ذہن ان ہی خیالات کی آماج گاہ بنا رہا اور اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ رات کے کس پہر اُس کی آنکھ لگ گئی۔

    سکوت کے یہ لمحات دروازے پر ہونے والی تیز دستک کی آواز سے درہم برہم ہوگئے۔ نادر ہڑبڑا کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔ دوسری دستک کے ساتھ ہی اُس کے قدم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ نیم غنودگی کے عالم میں اسے لباس تبدیل کرنے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ زنانہ لباس میں ملبوس اپنے اہل خانہ کے سامنے کھڑا تھا۔ افتخار حسین کو نادر کو اس حالت میں دیکھ کر سانپ سونگھ گیا اور صغراں کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ امجد اور پرویز کے چہروں پر پہلے تو حیرت کے آثار نمودار ہوئے، پھر اُن کی ہنسی چھوٹ گئی۔ تہمینہ فیصلہ نہ کرسکی کہ اُسے اپنے بڑے بھائی کو اس حلیے میں دیکھ کر کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ صغراں کے رونے کی آواز اور افتخار حسین کی شعلہ بار نگاہیں جلد ہی نادر کو غنودگی کی کیفیت سے باہر لے آئیں۔
    ”وہ ابّو، میں….بور….بور ہو رہا تھا، اس لیے سوچا….. امّی….. کے کپڑے پہن کر دیکھوں….کیسا لگتا ہوں۔“ زندگی میں پہلی بار افتخار حسین کا ہاتھ نادر پر اٹھا۔ اُس رات انھوں نے نادر کو ملنے والا خصوصی استثنیٰ واپس لے کر پچھلی ساری کسر ایک ساتھ پوری کر دی۔

    مار پیٹ، قید و بند اور ایذارسانی سے عادتیں تو سدھاری جا سکتی ہیں، لیکن کسی کی فطرت بَھلا کب بدلی ہے، جو نادر کی بدل جاتی۔ گھر والوں کے تشدد اور منت سماجت کے باوجود اُس نے اپنی چال ڈھال نہ بدلی۔ وہ اپنے ہی حال میں مست رہنے لگا۔ کئی مہینوں سے اُس نے حجامت نہیں بنوائی تھی، جس کی وجہ سے اُس کے بال زلفوں میں تبدیل ہونے لگے اور ناخن نیل کٹرکی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔ کاجل ہمہ وقت نادر کی آنکھوں کی زینت بنا رہتا، مگر اُس کے ہونٹوں کو اُس واقعے کے بعد لپ اسٹک نصیب نہ ہوسکی۔ افتخار حسین اپنے ہی گھر کے اندر اپنی عمر بھر کی کمائی کو یوں برباد ہوتا دیکھتے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ نادر کی موجودہ ذہنی کیفیت کے سبب تہمینہ کی سہلیوں نے بھی نادر سے ایک خاص فاصلہ رکھنا شروع کر دیا تھا، جب کہ لڑکوں سے وہ خود فاصلے پر رہنا چاہتا تھا، جواس پر غلیظ جملے کستے اور اُسے چھیڑنے سے باز نہ آتے۔

    کوئی بھی جان دار شے اپنے ہم جنسوں کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ سو، نادر نے بھی ایک دن اپنے ہم جنس ڈھونڈ ہی نکالے۔

    خواجہ سراؤں سے اُس کا پہلا باقاعدہ رابطہ طارق روڈ کے ٹریفک سگنل پر ہوا۔ نادر گھر جانے کے لیے بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور کافی دیر سے اُن دو خواجہ سراؤں کی جانب دل چسپی سے دیکھ رہا تھا، جو سامنے سگنل پر رُکی گاڑیوں کے مسافروں سے پیسے مانگنے میں مصروف تھے۔ اچانک لال رنگ کی شلوار قمیص پہنے ایک خواجہ سرا کی نظریں نادر کی نظروں سے چار ہوئیں اور فطرت نے اپنا کام شروع کردیا۔ سُرخ پوش خواجہ سرا نے ہرے رنگ کے زنانہ لباس والے دوسرے خواجہ سرا کو آواز دی،
    ”اری او چمکی، ذرا ادھر تو دیکھ، کیسا چیسا لورا (خوب صورت لڑکا) ہے، کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔“

    چمکی نے نادر کی طرف غور سے دیکھا، جو اشتیاق بھری نظروں سے پہلے ہی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ”ہائے میں مر گئی، نی زیبا، واقعی بڑا چیسا ہے۔ اگر یہ تھوڑا تڑاواہ (میک اپ) کر لے تو اپنی ہی برادری کا لگے۔“ یہ کہہ کر دونوں خواجہ سرا ہنسنے لگے۔
    ”چل، اس سے بات کرتے ہیں۔ پتا تو چلے کہ پیدایشی ہے یا صرف زنانہ ہے۔“ زیبا نے اپنے سر پر دوپٹے کو ٹھیک کیا اور چمکی کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنے لگی۔
    ”سلام علیکم، کیسا ہے رے ہیرو۔“ قریب پہنچ کر زیبا نے نادر کو خواجہ سراؤں کے مخصوص انداز میں سلام کیا۔

    ”ٹھیک ہوں۔“ نادر خواجہ سراؤں کو اپنے قریب پا کر تھوڑا سا نروس ہوگیا۔
    ”اگر بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں۔“ زیبا نے استفسارانہ انداز میں نادر کی آنکھوں میں دیکھا۔

    ”ہا…… ہاں پوچھو، کیا پوچھنا ہے۔“ نادر نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
    ”کیا تم بھی ہماری برادری کے ہو۔“

    ”کیا مطلب، میں کچھ سمجھا نہیں۔“ نادر نے استعجابیہ انداز میں کہا۔

    ”ارے، اس کا مطلب ہے کیا تم بھی ہماری طرح خواجہ سرا ہو۔“ چمکی نے تالی بجا کر لچکتے ہوئے زیبا کے سوال کی وضاحت کی۔ پتا نہیں آپ لوگ کیا پوچھ رہی…. رہے ہیں۔ کیا آپ لڑ…کیاں…. ہیں۔“

    نادر کے اس جملے پر زیبا اور چمکی نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ چمکی پھر لچکنے لگی۔

    ”ہاں ہاں لڑکیاں ہیں، خوب صورت لڑکیاں۔“ جملے کے اختتام پر دونوں مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے۔

    ”ایسی لڑکیاں تو میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں، جو شیو بھی کرتی ہیں۔“ نادر کو ان دونوں کے ساتھ بات کرنے میں مزہ آنے لگا۔ اُس کی ہچکچاہٹ دور ہوگئی اور وہ دل لگی پر اُتر آیا۔
    ”کیا تجھے بھی میک اپ کرنے کا شوق ہے؟“ زیبا بے تکلفانہ انداز میں نادر کے سراپے کا بھر پور انداز میں جائزہ لینے لگی۔

    ”ہاں ہے۔“ مختصر جواب ملا۔ ”اور زنانیوں جیسے کپڑے پہننے کا؟“ تفتیش جاری رہی۔
    ”ایک بار پہنے تھے، ابّو نے بہت مارا تھا۔“

    ”کیا تو بچپن سے ایسا ہی ہے۔“ پھر سوال پوچھا گیا۔

    ”پتا نہیں، لیکن میں شروع سے اپنے بہن بھائیوں سے الگ ہوں۔ مجھے گھر والے ہر بات پر روکتے ٹوکتے ہیں۔“ نادر نے افسردگی سے کہا۔

    ہمارے ساتھ چل، ہم تجھے اپنے گرو، بالی شاہ سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ٹھکانے پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہاں تُو اپنے سارے ارمان پورے کرلینا۔“

    وہ دن نادر کی بے سمت زندگی کو ایک سمت دے گیا۔ اس کے پاؤں پھر اپنے گھر پر نہیں ٹکے اور وہ بہانے بہانے سے گھر سے غائب رہنے لگا۔ بالی شاہ کے ٹھکانے پر اپنے ”ہم جنسوں“ سے مل کر اُسے بہت خوشی ہوتی تھی۔ وہ خواجہ سراؤں کے ہم راہ گلی محلوں میں ودھائی (بخشش) لینے بھی جانے لگا تھا۔ افتخار حسین کو جلد ہی اپنے بیٹے کے ان کرتوتوں کا علم ہوگیا اور وہ اس پر اور زیادہ سختیاں کرنے لگے۔

    گھر والوں کی طرف سے لاکھ پہرے بٹھانے کے باوجود نادر نے بالی شاہ کے ٹھکانے پر جانا نہیں چھوڑا۔ وہ بالی شاہ سے ملنا چھوڑ بھی کیسے سکتا تھا۔ اُسے تو بالی شاہ کا ٹھکانا ہی اپنا اصل گھر اور بالی شاہ کے چیلے اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ افتخار حسین جب بھی اُسے مارتے تو وہ روتا ہوا بالی شاہ کے ٹھکانے پر جا پہنچتا۔ بالی، نادر کو افسردہ دیکھ کر تڑپ اُٹھتا، فوراً اُسے اپنی بانہوں میں بھر کر اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرنے لگتا اور اس کے رستے زخموں پر مرہم رکھتا۔ نادر کو زنانہ لباس میں دیکھ کر اُس کے بہن بھائی اُس سے نفرت کرتے اور بالی شاہ کے چیلے اُس کی بلائیں لیتے۔ افتخار حسین اور صغراں نادر کو کسی تقریب میں لے جانے اور گھر آئے مہمانوں سے اُس کا تعارف کروانے میں بھی شرمندگی محسوس کرتے، جب کہ بالی شاہ بڑے فخریہ انداز میں لوگوں سے نادر کا تعارف اپنے چیلے کے طور پر کرواتا۔

    قدرت نے نادر کے ساتھ اگر بھیانک مذاق کیا تھا، تو اُس کے گھر والوں نے کون سا اُس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تھا؟ معاشرے نے اسے دھتکار دیا تھا۔ لے دے کر صرف اُس کا اپنا ایک گھر تھا، جو اُسے پناہ کا احساس دلاتا تھا، لیکن جب گھر والے بھی اُس کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرنے لگے، تو نادر کے پاس بالی شاہ کے پاس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ افتخار حسین اور صغراں اپنے بیٹے کو عام لڑکوں کی طرح دیکھنا چاہتے تھے، لیکن نادر کی فطرت اُسے ان جیسا بننے نہیں دیتی تھی۔ اگرچہ یہ بات دونوں اچھی طرح سمجھتے بھی تھے، لیکن لوگوں کا تضحیک بھرا رویہ انھیں فطرت کی مخالفت پر اکساتا رہتا تھا۔ وہ اپنے بچے کو بُرا بھلا کہہ کر معاشرے کو مطمئن کرکے لوگوں کے سامنے سُرخ رو ہونا چاہتے تھے۔ چناں چہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے بچے کی فطرت کچلنے اور دبانے کی کوشش کرتے۔ آخر کار نادر نے اپنے گھر والوں کو روز روز کی شرمندگی سے بچانے کے لیے انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بالی شاہ کے ٹھکانے پر آج شادی کا سا سماں تھا۔ آس پاس کے علاقوں کے خواجہ سرا اس کے ٹھکانے پر جمع تھے۔ شیرمی (چائے) اور چھمک (ناچ گانے) کے دور وقفے وقفے سے چل رہے تھے۔ ایک طرف بالی شاہ خواجہ سراؤں کے دیگر گروؤں کے ساتھ بڑی شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ خوشی اس کے چہرے پر سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ آج اُس کے چیلوں میں ایک نئے چیلے کا اضافہ جو ہوا تھا، جس کی خوشی میں اُس نے آس پاس کے خواجہ سراؤں کی دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ آج کی تقریب کا دولھا یا دلہن، نادر تھا، اس لیے خواجہ سراؤں نے مل کر اُسے خصوصی طور پر تیار کیا۔ سُرخ جوڑے، گہرے میک اپ اور مصنوعی زیورات سے آراستہ نادر آج سب سے الگ نظر آرہا تھا۔ اس تقریب میں نادر کو اپنے گرو بالی شاہ کی طرف سے ایک خصوصی نام ”جَیا“ عطا ہوا۔ آج کے دن نادر اپنے ماضی کی تمام چیزوں کے ساتھ اپنے والدین کا دیا ہوا نام بھی چھوڑ کر ایک نئے نام کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا۔

    خواجہ سراؤں کی اپنی تو کوئی اولاد ہوتی نہیں، اس لیے ممتا کے مارے خواجہ سراؤں نے عمر رسیدہ بالی شاہ (گرو) کو امّی کہہ کر اُس سے ماں اور بچے (چیلا) کا رشتہ قایم کر لیا تھا۔ گُرو کا گُرو، وڈی امّی (دادی، نانی) کہلاتا اور سینیر خواجہ سرا، جونیر خواجہ سراؤں کی باجی بن گیا۔ اس طرح بالی شاہ کا یہ ”خاندان“ وجود میں آیا۔ اس خاندان میں حال ہی میں ایک نئے فرد (جیا) کا اضافہ ہوا تھا۔

    اولاد چاہے گوری ہو یا کالی، لولی ہو یا لنگڑی، والدین کے لیے بہرحال اولاد ہوتی ہے۔ اسی جبر کے تحت نادر کے والدین رات کے اندھیرے میں بالی شاہ کے ٹھکانے پر جاکر نادر سے چوری چھپے ملنے پر مجبور ہوگئے۔ جیا کے نزدیک اپنے والدین کی عزت سب چیزوں سے مقدم تھی، چناں چہ نہ وہ باپ کا آخری دیدار کر سکی، نہ مُردہ ماں کے پیروں سے لپٹ کر اپنی جنت لٹ جانے کا غم منا سکی۔ وہ اپنے کفن میں لپٹے والدین کے جنازے کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ جنازے کے ساتھ جانے والے عزت دار معاشرے کے معزز افراد کو یہ پتا ہی نہ چل سکا کہ جنازے کے سب سے پیچھے بال بکھرائے روتا ہوا جو خواجہ سرا چلا آ رہا ہے، وہ کوئی اور نہیں بل کہ مرنے والوں کا اپنا سگا بیٹا ہے۔

    وقت جیسے پر لگا کر اُڑتا رہا اور بیس سال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس دوران جیا نے اپنے بہن بھائیوں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ایک بار بھی ان کے گھر کا رُخ نہیں کیا۔ اُس کا اصل گھر اب بالی شاہ کا ٹھکانا تھا اور اس کے چیلے اس کے بہن بھائی۔ جیا نے بالی شاہ کی دن

    رات خدمت کر کے اُس کے جانشین کی حیثیت حاصل کر لی۔ اُس کا شمار اب بالی شاہ کے سینیر چیلوں میں ہونے لگا تھا، اور دیگر چیلے اُسے اپنی ماں تصور کرتے تھے۔ جیا بھی انھیں اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتی اور اُن کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔
    معاشی مجبوریاں بسا اوقات ایسے ایسے گُل کھلاتی ہیں، جسے دیکھ کر قدرت بھی حیران رہ جاتی ہے۔ افتخار حسین اور صغراں کی وفات کے بعد جیا کے بہن بھائیوں کو معاشی پریشانیوں نے آن گھیرا۔ امجد ایم اے کرنے کے باوجود کوئی نوکری تلاش کرنے میں ناکام رہا اور پرویز کی کلرکی سے گھر کے اخراجات بہ مشکل پورے ہو رہے تھے۔ معاشی حالات نے انھیں ایک خواجہ سرا کو منہ لگانے پر مجبور کر دیا۔ والدین کی وفات کے بعد اب جیا ہی اُن کی مائی باپ تھی۔ بالی شاہ دیگر خواجہ سراؤں کے مقابلے میں ایک متمول خواجہ سرا تھا، جس نے کئی حج کر رکھے تھے۔ چناں چہ، جیا نے کبھی اپنے بھائیوں کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا۔ جیا جیب اور دل دونوں سے غنی تھی اور بالی شاہ کی چہیتی تھی۔
    پھر ایک دن جیا اپنی سب سے بڑی متاع سے خود ہاتھ دھو بیٹھی۔ اُس کی سب سے بڑی دولت موت کے بے رحم ہاتھوں نے لوٹ لی۔ جیا کو اس کی اصل پہچان دینے والا، اُس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور حقیقی ماں باپ سے زیادہ پیار دینے والا بالی شاہ اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ اس بے رحم معاشرے کے ہر طعنے سے آزاد ہو کر ایک ایسی دنیا کو سدھار گیا، جہاں عزت و ذلت کا معیار جنس نہیں بل کہ اعمال تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ امجد اور پرویز کی شادیاں ہوگئیں اور تہمینہ بھی پیا گھر سدھار گئی۔ اپنے
    بہن بھائیوں کی شادیوں کے تمام تر اخراجات جیا نے خود اُٹھائے اور ایک ماں بن کر اپنی چھوٹی بہن کو رخصت کیا۔ اخراجات اُٹھانے سے جیا کو بہر حال اتنی عزت مل گئی کہ اُس کا اپنے بھائیوں کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ لیکن بالی شاہ کی وفات کے بعد چوں کہ جیا خواجہ سراؤں کی گرو بن چکی تھی، اس لیے ٹھکانے پر اُس کی ذمے داریاں بھی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھیں اور وہ اپنے چیلوں کو چھوڑ کر کسی اور جگہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اُس کے چیلے اُس کی اولاد تھے اور اُسے امیّ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک سال بعد اوپر والے نے امجد کو چاند سا بیٹا عطا کیا۔ اُس دن جیا اپنے ٹھکانے پر بد مستوں کی طرح کئی گھنٹے تک ناچتی رہی۔ اپنی امّی کو خوش ہوتا دیکھ کر اُس کے تمام چیلے بھی اُس کے ہم رقص بن گئے تھے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امجد اور پرویز کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران تہمینہ بھی دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں بن گئی تھی۔ مشترکہ خاندان میں رہنے کی ایک پرانی خرابی نے امجد اور پرویز کے گھر اپنا ڈیرا جمالیا اور ان کے گھر کے برتن آپس میں ٹکرانے لگے۔ اگرچہ دونوں بھائیوں کی محبت اپنی جگہ برقرار رہی، لیکن اُن کی بیویوں میں جاری سرد جنگ، گرم جنگ میں تبدیل ہوگئی، جس کے باعث دونوں بھائیوں کے تعلقات بھی متاثر ہونے لگے۔ اکثر اوقات بچوں کی لڑائی بڑوں کو آپس میں لڑا دیتی۔ ایسے مواقع پر امجد اور پرویز کو پھر سے جیا کی مدد کی ضرورت پڑتی، جو اُن کی ماں جیسی تھی۔ جیا جب بھی صلح صفائی کے لیے اُن کے گھر آتی، تو اپنے بھائیوں کے بچوں کے لیے کھانے پینے کی ڈھیر ساری چیزیں اور کھلونے لاتی۔ امجد اور پرویز کے بچے بھی جیا سے بہت مانوس تھے۔ جیا کے گھر میں قدم رکھتے ہی وہ دوڑ کر اُس سے لپٹ جاتے اور جیا اُنہیں گود میں اُٹھائے ڈھیر سارا پیار کرتی اور بلائیں لینے لگتی۔ اپنی بھابھیوں کی ایک دوسرے کے خلاف بُرائیاں سنتی اور آخر میں دونوں میں صلح کروا کر اپنے ٹھکانے لوٹ آتی۔

    یوں جیا کی زندگی ایک کچے مگر رنگارنگ دھاگے سے بندھی ہوئی تھی، مگر دھاگا تو ٹھہرا کچا دھاگا، سو ایک دن ٹوٹ گیا۔ اُس دن ایک اخباری رپورٹر کو جیا کا انٹرویو لینے آنا تھا۔ جیا رپورٹر کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی، جس کی اسکرین پر امجد کا نام جگمگا رہا تھا۔ امجد سے گفتگو کرکے اس کے چہرے پر پریشانی نے ڈیرا جمالیا۔ آج پھر دونوں بھائیوں کی بیویوں میں جھگڑا ہوا تھا اور اس بار پرویز نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر امجد سے بد تمیزی کی تھی۔ جیا نے اپنے چیلوں کو اخباری رپورٹر کے بارے میں چند ہدایات دیں اور کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئی۔ راستے میں اُس نے حسب معمول بچوں کے لیے کھانے پینے کی چند چیزیں خریدیں اور دس منٹ میں اپنے بھائیوں کے گھر پہنچ گئی۔

    بچّے جیا کو دیکھ کر اُس سے لپٹ گئے۔ جیا نے انہیں باری باری پیار کیا اور پرویز کی چار سالہ بیٹی رخشی کو اپنی گود میں بٹھالیا۔ آج پرویز کی بیوی کا موڈ زیادہ خراب تھا۔ جیا نے دونوں بھابھیوں کی صفائیاں سُنیں اور اُنھیں نرمی سے سمجھانے لگی۔ اس بار پرویز کی بیوی کا قصور زیادہ تھا۔ جیا نے جب اُس کی غلطی کی نشان دہی کرنا چاہی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئی اور جنونی انداز میں جیا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر چلائی، ”جا رے ہیجڑے! تو کیا ہم دونوں میں صلح صفائی کروائے گا، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ تو کیا جانے اولاد کسے کہتے ہیں۔“

    یہ کہتے ہوئے اُس نے جھٹکے سے جیا کی گود میں بیٹھی رخشی کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
    پرویز نے اپنی بیوی کی طرف غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا، ”یہ تو کیا بک رہی ہے، پتا ہے تو کس سے بات کر رہی ہے۔“

    ”ہاں ہاں، اچھی طرح جانتی ہوں اسے، یہ ہیجڑا ہے۔ ہیجڑا بن کر رہے تو اچھا ہے، خواہ مخواہ دوسروں کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑایا کرے۔“ پرویز کا زناٹے دار تھپڑ بیوی کے منہ پر پڑا اور وہ غصّے سے پاؤں پٹختی کمرے سے باہر چلی گئی۔

    جیا کے لیے ہیجڑا ہونے کا طعنہ نیا نہیں تھا۔ اُس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، دنیا والوں کے اسی قسم کے طعنے سنتی آرہی تھی۔ لیکن بے اولادی کا طعنہ اُسے آج پہلی بار اپنوں کی طرف سے ملا تھا۔ اس سے پہلے کسی غیر نے بھی اسے اس طرح کا طعنہ نہیں دیا تھا۔ جیا کے اندر کوئی چیز ٹوٹ سی گئی، جسے وہ کوئی معنی نہ دے سکی۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ اپنے گھر کے صحن کو دیکھ کر نہ جانے کیوں تیس سال پرانا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ امجد اور پرویز اُس سے معذرت کرتے ہوئے اُس کے ساتھ ہی صحن میں چلے آئے، لیکن جیا کے کان میں تو کرکٹ کھیلتے بچوں کے شور کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ سلپ میں کھڑی تہمینہ امجد کو چلا کر جلدی گیند کرانے کا کہہ رہی تھی۔ پرویز اور امجد بولنگ کرانے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے۔ پھر جیا نے خود کو بلّا پکڑے دیکھا۔ نہ جانے جیا کب تک ٹکٹکی باندھے سامنے کی جانب دیکھتی رہی۔ اچانک شیشہ ٹوٹنے کی زور دار آواز اُسے خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔ جیا نے بے ساختہ دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیے۔ کرچی کی برسوں پرانی چبھن پھر سے تکلیف دینے لگی۔

    وہ نہ جانے کب اور کیسے اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹی۔ کمرے میں قدم رکھا تو اخباری نمایندے اور اُس کے ساتھی فوٹو گرافر کو اپنا منتظر پایا۔ جیا نے سر کو جھٹکا، چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور کمرے میں داخل ہو کر اخباری رپورٹر سے انتظار کرانے پر معذرت کرنے لگی۔ انٹرویو شروع ہوا۔ جیا پرسکون انداز میں ہر سوال کا جواب دیتی رہی۔ اس کے چیلے اس دوران خاموشی اور توجہ کے ساتھ اپنی ماں کو انٹرویو دیتے سنتے رہے۔ کوئی بھی شخص اُس وقت جیا کے دل کی کیفیات کو اُس کے چہرے پر محسوس نہیں کر سکتا تھا۔

    اخباری رپورٹر نے اپنا آخری سوال کیا، ”یہ تاثر عام ہے کہ خواجہ سرا ناچے گائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا آپ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں خوشی سے ناچتے گاتے ہیں؟“

    نہ جانے کیوں جیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ جذباتی سی ہوگئی، ”بھیّا! خوشی سے انسان صرف اپنوں کی شادی میں ناچتا گاتا ہے، بیگانوں کی شادی میں مجبوری میں ناچنا پڑتا ہے۔ پیٹ ہمیں ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگوں کو تو صرف ناچتا ہوا خواجہ سرا دکھائی دیتا ہے، لیکن ناچتے وقت اس کے دل میں جو مناظر طلوع اور غروب ہوتے ہیں، ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ ایک منظر میں اُس کی عمر ڈھل رہی ہوتی ہے۔ وہ ناچتے ہوئے سوچتا ہے کہ جوانی ڈھل گئی تو اُسے کون ناچنے کو کہے گا۔ اگر وہ ناچے گا نہیں تو اُسے پیسے کون دے گا۔ سامنے بیٹھے دُولھا کو دیکھ کر ایک اور منظر پہلے منظر کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس منظر میں وہ خود کو دوُلھا کی جگہ بیٹھا محسوس کرتا ہے۔ دُلہن کو دیکھ کر دُولھا بننے کا منظر دھندلا جاتا ہے اور وہ تصور میں خود کو دُلہن بنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔“

    جیا نے اخباری رپورٹر کے مختصر سوال کا طویل جواب دے کر چائے کا آخری گھونٹ بھی اپنے حلق سے نیچے اُتارا اور سگریٹ سُلگا کر سلگتے ہوئے لہجے میں اُلٹا اُس سے سوال کر ڈالا، ”کیا لوگ ہمیں نچوائے بغیر پیسے نہیں دے سکتے۔“ پھر خود کلامی کے انداز میں کہنے لگی، ”ہمیں لوگوں نے انسان ہی کب سمجھا ہے۔ کسی کے لڑائی جھگڑے میں صلح کروانے جاؤ تو یہ طعنہ سُننے کو ملتا ہے، جا رے جا! تُو تو ہیجڑا ہے، تجھے کیا فکر، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں۔“

    اپنی بات کے اختتام پر جیا نے تالی پیٹی اور زور سے قہقہہ لگا کر کمرے میں بیٹھی اپنی اولادوں (چیلوں) کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی، جو اُس کی بات سن کر کچھ افسردہ سی ہوگئی تھیں۔ جیا کے چہرے پر اُس وقت ایک ممتا بھرا تقّدس اُبھرنے لگا، جس کے سامنے ساری دنیا کی ممتا ہیچ محسوس ہو رہی تھی۔

    (افسانہ نگار: شفیع موسیٰ منصوری)

  • بلیک ہول، سائنس اور ہم

    بلیک ہول، سائنس اور ہم

    سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس ناک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا ملک کی معاشی پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس علاقے کی چڑیا کا نام ہے؟

    سائنس سے ہماری یہ دشمنی عمرِ عزیز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے، میٹرک میں ہمیں زبردستی سائنس پڑھنا پڑی تھی اور کیمسٹری مسلسل تین دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے ہی نالاں رہتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئین جو میٹرک کرنے کے جاں گسل لمحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیپرز“ کا سیلاب سا آجایا کرتا ہے۔ کچھ راز ہائے سربستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکثر لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سوالات انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معتبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسٹری کے پرچے میں ”نائیٹروجن“ کے بارے میں سوال لازمی طور پر ہوگا۔ چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے صرف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کو ایک طرف رکھا اور نائیٹروجن کا ” رَٹّا “ لگانا شروع کردیا!

    اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیٹروجن کا شمسُ العلماء کہلانے کے مستحق ہو گئے تھے… صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے، کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیٹروجن پر نظر ڈالی اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے امتحان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بلاوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحانی پرچہ ہمیں دیا گیا تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا، پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈالی اور اچانک نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آکسیجن کی طرح بالکل بے بُو، بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چکی ہے۔ پرچے میں نائیٹروجن کا ذکر بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے، ذہن چکرانے لگا، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قریب کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کی صورت ہمیں بالکل ملکُ الموت جیسی نظر آنے لگی مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیٹروجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمیں یوں لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کوئی دستی بم نگل کر آئے ہوں، مجال ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کبھی ہماری ذرا سی بھی واقفیت یا سلام دعا رہی ہو… ہم نے نائیٹروجن کے بارے میں زیرِ لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس شریف گیس کی توہین کا نہایت غیر اخلاقی پہلو نکلتا تھا، پھر قلم سنبھالا اور دوسرے سوالات حل کرنے کے لئے بساط بھر کوشش شروع کردی مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال لازمی تھا، چنانچہ آخر میں ہم نے اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عبرت انگیز کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیٹروجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیٹروجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی لکھا تھا لہٰذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں امتحانی کاپی پر لکھا ” کاربن ڈائی آکسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیٹروجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔ ہمارا اشہبِ قلم تیزی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیٹروجن کے خواص کے علاوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ایک وسیع و عریض مقالہ تحریر کر ڈالا!

    اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے ہوں گے… جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں، یعنی جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے کی خبر پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسٹری کے پرچے کے نابینا ممتحن کی درازیٴ عمر کے لئے رقت انگیز انداز میں دعا مانگی کہ اس کے درجات بلند ہوں، وہ ہیڈ ماسٹر بنے، رزق کشادہ ہو، بال بچے روز افزوں ترقی کریں اور آخر میں شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!

    اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنسی مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیر توانائی و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خبر مختصر طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bang کے چند لمحوں کے بعد حالات کو ایک مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینئرز اور سائنسدان ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزاریں گے اور دو مخالف سمت سے آنے والی پروٹانز کی شعاعوں کو تقریباً روشنی کی رفتار سے 10 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ پر آپس میں ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے باریک ذرات کو حرکت دینے والی مشین انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مشین ہے، بیس برس کی تیاریوں کے بعد 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی 27 کلومیٹر سرنگ نما اس مشین میں پروٹان کی شعاعوں کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نئی طبعیات میں ” بگ بینگ “ جیسی کیفیت پیدا کی جا سکے، کئی ایسے سائنسدان بھی ہیں جو کائنات کی تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کسی مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت مسلمان کسی بھی بگ بینگ پر یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق کسی بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند کریم نے لفظ ” کُن “ کہہ کر کی تھی اور کُن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دوسرے سائنسدان بھی جو بگ بینگ تھیوری پر یقین نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں اتنی بڑی رقم خوراک اور صاف پانی جیسے وسائل کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

    سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خیز دھماکے کے نتیجے میں زمین پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہلا نوالا یہ خطرناک تجربہ کرنے والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں، اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مصرف موقع شناس سیاست داں بھجوانے پر تیار ہیں۔

    (از قلم: اطہر شاہ خان جیدیؔ)

  • دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    نرالی شخصیت ،افسانہ نگار اور شہر شہر گھوم پھر کر لوک گیت اکٹھے کرنے والے دیوندر ستیارتھی بھی تقسیم سے پہلے کے برسوں میں لاہور میں موجود تھے۔ ان کی ایک عادتِ بد، جس سے ان کے دوست تنگ رہتے، اپنا افسانہ زبردستی دوسروں کے گوش گزار کرنا تھی۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنھیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہایش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“
    اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • جب دو جواں سال بیٹیوں‌ کی موت کے بعد مارک ٹوین موت کے آگے سپر انداختہ ہوئے!

    جب دو جواں سال بیٹیوں‌ کی موت کے بعد مارک ٹوین موت کے آگے سپر انداختہ ہوئے!

    مارک ٹوین امریکا ایک ادیب، بے باک طنز نگار اور مدرّس تھے جن کی حاضر جوابی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے بچّوں کی کہانیاں اور ناول بھی لکھے جنھیں بہت پذیرائی ملی۔ مارک ٹوین 21 اپریل 1910ء کو چل بسے تھے۔ آج مداح اور ان کے طنزیہ مضامین کے شیدائی مارک ٹوین کی یاد منا رہے ہیں۔

    وہ 1835ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا اور جہانِ ادب میں انھیں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ اپنے طنزیہ مضامین کے علاوہ مارک ٹوین نے اپنے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کی بدولت بہت نام کمایا۔ ان کی یہ کہانیاں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ انہی تراجم کی بدولت مارک ٹوین کو برصغیر میں پہچانا گیا اور وہ یہاں بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔

    گیارہ سال کی عمر میں مارک ٹوین اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ اس کنبے کو مالی مسائل کا سامنا تھا جس کی وجہ سے مجبوراً مارک ٹوین کو اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکر ہوگئے۔ وہیں کام سیکھنے کے دوران اخبار بینی کتب کے مطالعہ کا موقع ملا جس کے سبب مارک ٹوین کو مختلف علوم میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی اور ادب کا شوق پروان چڑھا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ جب انھوں نے خود لکھنے کے لیے قلم تھاما تو کسے معلوم تھا کہ وہ امریکا بھر میں‌ مشہور ہوجائیں گے۔ انھوں نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت کو تحریروں میں‌ یوں‌ سمویا کہ مقبول ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوئے۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں جنھیں تحریر سے تقریر تک خوبی سے اظہارِ خیال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ امریکی سیاست دان، بڑے بڑے سرمایہ دار اور فن کار بھی ان سے متأثر تھے اور مارک ٹوین کے احباب میں‌ شامل تھے۔ اپنے دور کے ممتاز ناقدین اور مارک ٹوین کے ہم عصروں نے بھی ان کے تخلیقی جوہر کا اعتراف کیا اور مارک ٹوین کو ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز نگاری پر سراہا۔

    مارک ٹوین کو ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے اور جس طرح اردو ادب میں غالب کی ظرافت اور ان کی شوخ مزاجی مشہور ہے، اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

    عالمی شہرت یافتہ طنز نگار مارک ٹوین کی ذاتی زندگی کے دو بڑے المیے ان کی دو جوان بیٹیوں کی اچانک موت ہیں۔ مارک ٹوین کی 24 سالہ بیٹی سوزی سنہ 1896ء میں انتقال کر گئی تھی۔ بیٹی کی موت کے صدمے سے نڈھال مارک ٹوین کو چند برس بعد 1904ء میں اپنی اہلیہ اولیویا کو بھی کھونا پڑا اور وہ بہت ٹوٹ گئے۔ سنہ 1909ء میں ان کی دوسری بیٹی بھی صرف 29 برس کی عمر میں چل بسی اور اس کے اگلے برس مارک ٹوین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حاضر جواب اور برجستہ گو مارک ٹوین کو بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔

  • قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

    "باوجود اس کے کہ علومِ عربیہ کے بڑے بڑے علمائے گراں پایہ لکھنؤ کی خاک سے پیدا ہوئے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربی کی تعلیم مقتدایانِ امت اور پیشوانِ ملّت تک محدود تھی۔ ہندوستان میں درباری زبان فارسی تھی۔”

    ملازمت حاصل کرنے اور مہذب و معزز صحبتوں میں چمکنے کے لیے یہاں فارسی کی تعلیم بخوبی کافی خیال کی جاتی تھی۔ اودھ ہی نہیں سارے ہندوستان میں ادبی و اخلاقی ترقی کا ذریعہ صرف فارسی قرار پا گئی تھی۔ مسلمان تو مسلمان اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کا عام رجحان فارسی ادب و انشا کی طرف تھا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ درجے کی انشائیں ہندو مصنفوں ہی کے قلم سے مرتب و مدون ہوئی تھیں۔ ٹیک چند بہار نے بہارِ عجم کی سی لاجواب کتاب تصنیف کر دی جو مصطلحاتِ زبانِ فارسی کا ایک بے عدیل و نظیر ذخیرہ ہے۔ اور جس میں ہر محاورے کی سند میں اہلِ زبان کے بے شمار اشعار پیش کر دیے گئے ہیں۔ لکھنؤ کے ابتدائی عروج میں ملا فائق کا اور پھر مرزا قتیل کا نام مشہور ہوا جو ایک نومسلم فارسی دان تھے۔ وہ خود تو مذاقاً کہا کرتے کہ ‘بوئے کباب مرا مسلمان کرد’ مگر سچ یہ ہے کہ فارسی کی تعلیم، اُس کے شوق، اور کمالِ فارسی دانی کی آرزو نے اُنہیں مسلمان ہونے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے محض اسی شوق میں ایران کا سفر کیا۔ برسوں شیراز و اصفہان اور طہران و آذربائجان کی خاک چھانی۔ اور ادبِ فارسی کے اس اعلیٰ کمال کو پہونچ گئے کہ خود اہلِ زبان بھی ایسے باکمال زبان دان پر حسد کریں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

    مرزا غالب نے جا بجا مرزا قتیل پر حملے کیے ہیں۔ بے شک مرزا غالب کا مذاقِ فارسی نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔ وہ اس اصول پر بار بار زور دیتے تھے کہ سوا اہلِ زبان کے کسی کا کلام سند نہیں ہو سکتا۔ مگر اُن کے زمانے میں چونکہ اودھ سے بنگالے تک لوگ قتیل کے پیرو تھے اور بات بات پر قتیل کا نام لیا جاتا تھا اس لیے مرزا غالب کو اکثر طیش آ گیا۔ اور جب پیروانِ قتیل نے اُن کی خبر لینا شروع کی تو کہنے لگے:
    فیضے از صحبتِ قتیلم نیست
    رشک بر شہرتِ قتیلم نیست

    مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ قتیل نے فارسی دانی میں جو کوششیں کی تھیں اور اس میں واقفیت و کمال حاصل کرنے میں جو زندگی صرف کی تھی وہ بالکل بیکار گئی۔ اس بات کے ماننے میں کسی کو عذر نہیں ہو سکتا کہ قتیل کا کوئی دعویٰ جب تک وہ اہلِ زبان کی سند نہ پیش کریں قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ اور نہ خود قتیل کے ذہن میں کبھی یہ خیال گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی خصوصیت قتیل ہی کے ساتھ نہیں۔ ہندوستان کا کوئی شخص بجائے خود سند نہیں ہو سکتا۔ خود مرزا نوشہ غالب بھی کوئی فارسی کا محاورہ بغیر اہلِ عجم کے ثبوت پیش کیے نہیں استعمال کر سکتے۔ ہندوستانی فارسی دانوں کا اگر کچھ وقار قائم ہو سکتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ کلامِ فارسی میں اُن کی نظر وسیع ہے اور ہر ہر لفظ کے صحیح محلِ استعمال سے واقف ہیں۔ اور اس حیثیت سے سچ پوچھیے تو غالب کے مقابلے میں قتیل کا پایہ بہت بلند تھا۔ غالب زندگی بھر ہندوستان کی خاک چھانتے رہے۔ اور اس کے ساتھ طلبِ معاش میں سرگرداں رہے۔ قتیل کو اطمینان کا زمانہ ملا تھا۔ اور مدتوں خاکِ پاکِ ایران میں رہ کے گاؤں گاؤں کی ٹھوکریں کھاتے پھرے تھے۔

    بہر تقدیر لکھنؤ کی فارسی دانی کا آغاز قتیل سے ہوا۔ اور اُن سے کچھ پہلے ملا فائق نے جن کا خاندان آگرے سے آ کے مضافاتِ لکھنؤ میں بس گیا تھا ادب و انشائے فارسی اور فارسی نظم و نثر میں اعلیٰ درجے کی بے نظیر کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی گو اور فارسی دان ہندوستان میں ان سے پہلے بھی گزرے تھے۔ مگر فارسی دانی کے ساتھ زبانِ فرس کے اصول و ضوابط اور اُس کی صرف و نحو کے مدون کرنے کا شوق پہلے پہل لکھنؤ ہی میں شروع ہوا۔ اور وہ اُنہیں کے قلم سے ظاہر ہوا۔ اُن کی کتابیں اگر سچ پوچھیے تو بے مثال و لاجواب ہیں۔

    اس کے بعد فارسی یہاں کی عام تعلیم میں داخل رہی۔ اور نصابِ فارسی ایسا بلیغ و دقیق رکھا گیا جو سچ یہ ہے کہ خود ایران کے نصاب سے زیادہ سخت تھا۔ ایران میں جیسا کہ ہر ملک کے لوگوں کا معمول ہے سیدھی سادی فصیح زبان جس میں صفائی کے ساتھ خیال آفرینی کی جائے پسند کی جاتی ہے۔ اور اُسی قسم کا نصاب بھی ہے۔ ہندوستان میں عرفی و فیضی اور ظہوری و نعمت خان عالی کے ایسے نازک خیال شعرا کا کلام داخلِ درس کیا گیا۔ ملا طغرا اور مصنفِ پنج رقعہ کے ایسے دقت پسندوں کا کلام پڑھا اور پڑھایا جانے لگا۔ جس سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی زبان دانی اس آخر عہد میں خود ایران سے بڑھ گئی تھی۔ اور یہیں کے لوگوں نے فارسی کی تمام درسی کتابوں پر اعلیٰ درجے کی شرحیں لکھ ڈالیں تھیں۔ اور اُسی کا یہ حیرت خیز نتیجہ ہے کہ جب کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعرا اہلِ زبان ہی کے حلقے میں محدود رہتے ہیں، اور غیر اہلِ زبان میں اگر دو چار شاعر پیدا بھی ہو جاتے ہیں تو اہلِ زبان میں اُن کا اعتبار نہیں ہوتا۔ فارسی کے شعرا ایران سے زیادہ نہیں تو ایران کے برابر ہی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

    خصوصاً گذشتہ صدی میں جب کہ ترقی و تعلیم کی دنیا میں لکھنؤ کا ڈنکا بج رہا تھا یہاں کا بچّہ بچّہ فارسی گو تھا۔ اور بھانڈ تک فارسی کی نقلیں کرتے تھے۔ قصباتِ اودھ کے تمام شرفا کا مہذب مشغلہ اور ذریعۂ معاش فارسی پڑھانا تھا۔ اور ایسے اعلیٰ درجے کے دیہاتی فارسی مدرس لکھنؤ کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ اُن کی زبان دانی پر خود اہلِ عجم بھی عش عش کر جاتے۔ اُن کا لب و لہجہ اہلِ زبان کا سا نہ ہو مگر فارسی کے محاوروں اور بندشوں اور الفاظ کی تحقیق و تدقیق میں ان کو وہ درجہ حاصل تھا کہ معمولی اہلِ زبان کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔

    (عبدالحلیم شرر لکھنوی کی کتاب ‘گذشتہ لکھنؤ سے مقتبس)

  • بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ایک درد مند انسان

    بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ایک درد مند انسان

    بلراج ساہنی نے فلموں میں جو کردار ادا کیے، وہ ہیرو سے لے کر کریکٹر ایکٹر تک منفرد تھے۔ فلم سے بلراج ساہنی کا اوّلین تعارف زمانۂ طالبِ علمی میں ہوا تھا۔ کون جانتا تھا کہ آگے چل کر یہ بچّہ اسٹیج اور پھر بمبئی کی فلمی دنیا کا باکمال اداکار اور مصنّف بھی بنے گا۔ بلراج ساہنی ایک دردمند اور سماجی شعور رکھنے والے انسان مشہور تھے اور فن کی دنیا میں‌ انھیں استاد کا درجہ حاصل تھا۔

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس اداکار نے لگ بھگ 130 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1940 سے لے کر 1970 تک تین دہائیوں پر محیط فلمی سفر میں‌ بلراج ساہنی کو سدا بہار اداکار کے طور پہچانا گیا۔

    ایک روز بلراج کے اسکول میں اعلان ہوا کہ شہر میں بائی سکوپ آئی ہے۔ طالبِ علموں کے لیے ٹکٹ کی قیمت آدھی ہے۔ بچّوں کو والدین اجازت دیں تو تفریح کا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ بلراج اور ان کا بھائی ایک ہی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ وہ اسکول سے گھر لوٹے تو بلراج نے اپنی ماں سے خواہش کا اظہار کیا اور بات بن گئی۔ انھیں‌ نہ صرف اجازت ملی بلکہ ماں نے ٹکٹ کے پیسے بھی دے دیے۔

    وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ اسکرین پر نظریں‌ جمائے شائقین کے کانوں‌ میں اس شخص کی آواز حسبِ موقع پڑتی رہتی تھی جو فلم کے سین کے مطابق اور اداکاروں کے پردے پر نمودار ہونے پر کمنٹری کرتا رہتا تھا۔ یوں فلم کی کہانی اور آرٹسٹوں کے تأثرات شائقین پر کھلتے جاتے اور وہ محظوظ ہوتے تھے۔

    فلمی دنیا اور فن کاروں‌ سے متعلق مضمون نگاری کے لیے مشہور انیس امروہوی، بلراج ساہنی جیسے بے مثال فن کار کی زندگی اور اس کے فن سے متعلق لکھتے ہیں، ” بلراج ساہنی کا جنم یکم مئی 1913 کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو تقسیم وطن کے بعد اب پاکستان میں ہے۔ راولپنڈی دو بڑے شہروں، لاہور اور پشاور کے درمیان میں ایک نسبتاً چھوٹا شہر تھا۔ پشاور کے لوگ پرانی وضع کے تھے، جب کہ لاہور نئی روشنی کا شہر تھا، لیکن بلراج جی کے بچپن میں راولپنڈی میں بھی نئی روشنی ہونے لگی تھی، اور قدیم شہر جدیدیت کی طرف گامزن ہوگیا تھا۔”

    "بلراج ساہنی کی زندگی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک عجیب وغریب داستان ہے۔ بڑی سادہ سی زندگی، مگر کتنی جدوجہد بھری۔ بلراج ساہنی کے والد ہربنس لال ساہنی راولپنڈی کے چھاچھی محلہ کے ایک دو منزلہ مکان میں اپنی بیوی لکشمی، دو بیٹوں، بلراج اور بھیشم اور دو بیٹیوں، ویراں اور سمترا کے ساتھ رہتے تھے۔ ان سب بچوں میں تیسرے نمبر پر بلراج ساہنی تھے اور بھیشم سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس میں کمیشن کے طور پر اوسط آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ ان کے والد کی بازار میں کوئی دکان نہیں تھی، بلکہ گھر پر ہی مکان کے نچلے حصے میں انھوں نے ایک چھوٹا سا دفتر بنا لیا تھا۔ خاندان کے سب لوگ گھر کے اوپری حصے میں رہتے تھے۔ بلراج جی کے والد ہربنس لال ساہنی آریہ سماجی خیالات کے تھے اور راولپنڈی کے آریہ سماج کے منتری بھی تھے۔ ان دِنوں آریہ سماج کا ہمارے معاشرے پر اثر بڑھ رہا تھا اور مورتی پوجا، مذہبی ڈھونگ اور اندھے عقائد و روایات کے خلاف ویدک ادب، سنسکرت زبان اور سچے صوفی ازم کے رجحانات سماج پر کافی اثر ڈال رہے تھے۔”

    "بلراج ساہنی اور اُن کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو بچپن میں گروکل میں سنسکرت پڑھنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہاں دونوں کا دل نہیں لگا اور ایک دن بلراج ساہنی نے اپنا فیصلہ اپنے والد کو سنا دیا کہ وہ اب گروکل میں نہیں بلکہ اسکول میں پڑھیں گے۔ اُن کے والد اس بات سے حیران رہ گئے، مگر حقیقت میں بلراج ساہنی نے جیسے ان ہی کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ وہ اپنا سارا کام اُردو یا انگریزی میں کرتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ نئی طرز کی تعلیم اب اُن کے بچّوں کے لیے بھی ضروری ہو گئی ہے۔ ان کی والدہ بھی بچّوں کو نئی تعلیم دلانے کے حق میں تھیں، اس لیے دونوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بڑے بھائی بلراج ساہنی چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی سے صرف دو سال ہی بڑے تھے، مگر انہیں چوتھی کلاس میں اور بھیشم ساہنی کو پہلے درجے میں داخلہ ملا۔”

    "بلراج ساہنی لڑکپن سے ہی اپنا ادبی رجحان نظموں کے ذریعے ظاہر کرنے لگے تھے، صرف پندرہ برس کی عمر میں ہی وہ اردو میں شعر کہنے لگے۔ ایک پوری نظم انگریزی میں بھگت سنگھ کی یاد میں کہہ ڈالی۔ بلراج اور بھیشم دونوں بھائیوں نے مڈل کلاس تک کی تعلیم راولپنڈی میں ہی حاصل کی، بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لاہور چلے گئے۔
    بلراج ساہنی کو بچپن سے ہی ادبی ماحول اپنے خاندان میں ہی مل گیا تھا۔ ان کی دو پھوپی زاد بہنیں کشمیر میں رہتی تھیں، جن میں سے ایک پروشارتھ وتی کے شوہر جانے مانے ادیب اور مدیر چندر گپت وِدیا لنکار تھے، جو ادب پر اکثر بحثیں کرتے رہتے تھے۔ بلراج ساہنی نے بچپن میں اپنی والدہ سے بھی سنا تھا کہ ان کی دادی بھی کویتا کہتی تھیں اور ان کے کاروباری والد نے بھی بتایا تھا کہ ایک زمانے میں انھوں نے بھی ایک ناول لکھا تھا، مگر وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔”

    "بلراج ساہنی کی تعلیم ایم۔ اے انگریزی تک ہونے کے بعد ان کے والد ہربنس لال ساہنی نے ان کو اپنے کپڑے کے کاروبار میں شامل کر لیا۔ شادی کے بعد 1937 میں بلراج ساہنی نے والد اور چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو کاروبار اور دفتر کی ذمے داریاں سونپ کر گھر والوں سے الوداع کہا اور اپنی بیوی دمینتی کے ساتھ کولکاتہ میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں انھوں نے ہندی اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔”

    "شانتی نکیتن کا ماحول بلراج ساہنی کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وہاں پہنچ کر بلراج کے دل نے گواہی دی کہ یہی زندگی ہے جو وہ جینا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں شانتی نکیتن کے پُرسکون ماحول میں بلراج ساہنی کا دل خوب لگا، مگر جلد ہی وہ وہاں کی یکسانیت اور موسیقی ریز ادبی ماحول سے اُکتا گئے۔ ان کو وہاں کی شانت اور پُرسکون زندگی سے الجھن سی ہونے لگی، کیونکہ ان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا ارمان جوش مار رہا تھا۔ بلراج ساہنی کے دل میں ملک و قوم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک کی روح، ہندوستان کی آتما اُن کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ملک و قوم کی اس آواز پر بلراج ساہنی مہاتما گاندھی کے پاس وَردھا جا پہنچے۔ وردھا پہنچ کر انھوں نے رسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اپنے ذمے لے لی۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ 1939 میں بلراج ساہنی کو بی بی سی لندن سے مراسلہ ملا کہ ان کا انتخاب ہندی سروس میں اناؤنسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے۔ لہٰذا وہ گاندھی جی سے آشیرواد لے کر انگلینڈ چلے گئے، جہاں بی بی سی کی ریڈیو سروس میں ہندی کے اناؤنسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ اس طرح بلراج ساہنی پورے چار برس تک ملک سے باہر رہ کر ملک کی اہم خدمت انجام دیتے رہے اور یہ چار برس بلراج ساہنی کی زندگی میں بڑے عجیب گزرے اور ان کی زندگی کے لیے اہم بھی تھے۔”

    "یہاں رہتے ہوئے ہندوستان میں چل رہی آزادی کی لڑائی میں شامل نہ ہونا اب ان کے بس کی بات نہ رہی تھی۔ لہٰذا وہ اس جنگِ آزادی میں اپنے ہم وطنوں کے کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے کے لیے وطن واپس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے ’لوک ناٹئیہ منچ‘ کی ذمے داریاں قبول کر لیں۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا عام لوگوں سے وابستہ ہونے اور عام زندگی سے قریب رہنے کا۔ ناٹک یا ڈرامے کے ذریعے ایک عام آدمی سے اداکار یا فن کار کا کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، یہ بات بلراج ساہنی کو بہت اچھی طرح معلوم تھی، اور وہ یہی کر بھی رہے تھے۔ ڈراموں سے اُن کو اتنا لگاؤ تھا کہ رات دن سوتے جاگتے بس ڈراموں کی ہی باتیں ان کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک آزادی میں بھی برابر حصہ لیتے رہے اور ہر طرح سے کانگریس کے ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران بلراج ساہنی کا ذہن فلموں کی طرف متوجہ ہوا، اور انہوں نے فلموں سے وابستہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ 1944 میں وہ اِپٹا (انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن) سے وابستہ ہو گئے، وہیں سے فلم ساز و ہدایت کار مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔
    اس کے فوراً بعد ہی خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں ایک بھرپورکردار ادا کرنے سے ان کی پہچان شروع ہوئی۔ یہ فلم بنگال کے قحط زدگان سے متعلق ایک انتہائی اثردار فلم تھی۔”

    "جب بلراج ساہنی پوری طرح فلموں سے وابستہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر فلموں سے جوڑ لیا تب اس زمانے کے چند بڑے اچھے اور قابل فلم ساز اور ہدایتکار فلمی دنیا میں موجود تھے۔ یہ بلراج ساہنی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ قابل اور سلجھے ہوئے ہدایتکار اور فلم ساز ملے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی آسمان پر بلراج ساہنی کا نام اس روشن ستارے کی طرح جگمگایا جس سے لوگ دشاؤں کا گیان حاصل کرتے ہیں۔”

    "بلراج ساہنی نے اپنی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1946 میں فلم ’دھرتی کے لال‘ سے کیا، مگر ان کو شہرت ملی 1953 میں ریلیز بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ سے۔ اس فلم نے عالمی شہرت حاصل کی اور کانز فلم فیسٹیول میں اعزاز سے نوازی گئی۔ 1947 میں کم عمری میں ہی اُن کی بیوی کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال بعد ہی بلراج ساہنی نے اپنی ایک کزن سنتوش چنڈھوک سے شادی کر لی، جو ٹیلی ویژن میں ایک مصنفہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔”

    "گرم کوٹ، ہیرا موتی، دو بیگھہ زمین، ہم لوگ، کابلی والا، سیما، گرم ہوا، ہنستے زخم، وقت، حقیقت، سنگھرش اور ’نیل کمل‘ وغیرہ کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں بلراج ساہنی نے اپنی فنی صلاحیتوں سے ان سب کرداروں کو زندگی بخشی جو اِن فلموں میں انھوں نے پیش کیے۔ یہ چند ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے بلراج ساہنی کو فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔”

    انیس امروہوی اپنے اس طویل مضمون میں مزید لکھتے ہیں، "فلموں سے وابستہ ہو کر بھی بلراج ساہنی کی دیش بھگتی اور قوم پرستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے درمیان خدمت خلق کا کام جاری رکھا۔ ان کے ساتھیوں میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کیفی اعظمی اور رشی کیش مکرجی کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں۔ بلراج ساہنی نے اُن دنوں ایسی ہی فلموں میں کام بھی کیا۔ ’گرم کوٹ، فٹ پاتھ، وقت‘ اور ’حقیقت‘ وغیرہ فلموں کی کہانی مکمل طور پر سچائی سے بھری زندگیوں کی ہی کہانیاں تھیں۔ اسی لیے ان فلموں کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان فلموں کو فلم بینوں کے ہر طبقے نے سراہا۔”

    "بلراج ساہنی اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بلراج جی کے فلمی کرداروں میں بھی ورائٹی ملتی ہے۔ ’دو بیگھہ زمین‘ میں رکشہ چلانے والے کا کردار، ’تلاش‘ میں ایک کروڑ پتی تجارتی آدمی کا کردار اور ’سنگھرش‘ میں گنپتی پرساد کا کردار، جس کی آنکھوں میں ہر وقت نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہتی ہے، ’کابلی والا‘ کا بھولا بھالا پٹھان جس کی نگاہیں محبت اور خلوص و ہم دردی سے ہمیشہ بوجھل رہتی ہیں۔ ’گرم ہوا‘ میں جوتے بنانے والے ایک مسلم کاریگر کا کردار کون بھلا سکتا ہے۔ ’حقیقت‘ میں میجر کا کردار اور اسی طرح کے بہت سے مختلف کردار جن کو بلراج ساہنی نے زندگی بخشی۔ وہ اپنے آپ کو کردار میں اتنا جذب کر لیا کرتے تھے، کہ بلراج ساہنی کا پردے پر کہیں نام ونشان نہیں ملتا تھا اور صرف کردار ہی رہ جاتا تھا۔”

    اس باکمال اداکار نے پردے پر پہچان بنانے کے ساتھ بطور مصنّف بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا اور اپنے زورِ قلم کو آزمایا۔ انیس امروہوی نے اس کا تذکرہ کچھ یوں کیا، "بلراج ساہنی کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے ترقی پسند مصنف بھی تھے۔ انہوں نے ہندی، انگریزی اور پنجابی ادب کو بہت یادگار تخلیقات بخشی ہیں۔ ’’میری غیر جذباتی ڈائری، یورپ کے واسی، میرا پاکستانی سفرنامہ‘‘ اور’یادیں‘ کافی مقبول کتابیں ہیں۔ فلم اور اسٹیج کے موضوع پر بھی انھوں نے ’سنیما اور اسٹیج‘ اور ’میری فلمی آتم کتھا‘ تصنیف کیں۔”

    "1949 میں بلراج ساہنی کو ان کی کتاب ’میرا روسی سفرنامہ‘ کے لیے سوویت نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1969 میں بلراج ساہنی کو حکومت ہند کی طرف سے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بلراج ساہنی نے دیوآنند کے لیے فلم ’بازی‘ کی کہانی بھی لکھی تھی جس کو گرودت کی ہدایت میں بنایا گیا۔”

    13 اپریل 1973 کو صرف ساٹھ برس کی عمر میں بلراج ساہنی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی بیٹی شبنم کا انتقال کم عمری میں ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت دل برداشتہ اور رنجیدہ تھے۔”

    "اس میں دو رائے نہیں کہ بلراج ساہنی اداکاری کی دنیا میں ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جس کو پُر کرنا برسوں تک ہندوستانی فن کاروں کے بس کی بات نہیں۔”

  • رفیع پیر:‌ فنونِ لطیفہ کا نہایت معتبر نام، باکمال شخصیت

    رفیع پیر:‌ فنونِ لطیفہ کا نہایت معتبر نام، باکمال شخصیت

    "پیر صاحب دراز قد آدمی تھے۔ وفورِ ذہانت سے چمکتی ہوئی آنکھیں، شفاف و کشادہ پیشانی، ناک اونچی جو چہرے پر نمایاں تھی۔ پیر صاحب کم گو تھے۔ لب و لہجہ دھیما مگر ڈرامائی کیفیت سے بھرپور، دورانِ گفتگو ان کی آنکھیں یوں دکھائی دیتی تھیں جیسے ایک ایک لفظ سوچ کر کہہ رہے ہوں۔” آج رفیع پیر کا یومِ وفات ہے۔

    یہ چند سطری شخصی خاکہ میرزا ادیب کے قلم سے نکلا ہے اور یہ اُس مضمون سے لیا گیا ہے جو رفیع پیر کے ڈرامے کے نام سے ان کی مرتب کردہ کتاب میں شامل ہے۔ رفیع پیر سے متعلق اپنے اس مضمون میں میرزا ادیب مزید لکھتے ہیں:

    "رفیع پیر نے ڈرامے کی تربیت جرمنی میں پائی تھی اور جب بارہ برس تک جرمن اسٹیج پر عملاً حصّہ لینے کے بعد وطن لوٹے تھے تو ان کا سینہ نئی نئی امنگوں اور نئے نئے ولولوں سے معمور تھا۔ انھوں نے آتے ہی آل انڈیا ریڈیو پر لاہور سے اپنی آواز کا جادو اس انداز سے جگایا کہ ہزاروں کے دل موہ لیے۔ اس وقت ریڈیو سے باہر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ڈرامے میں خصوصی شہرت کے مالک تھے مگر پیر صاحب ان سے الگ تھلگ اور منفرد نظر آئے تھے۔”

    "ان کے یوں الگ تھلگ اور منفرد نظر آنے کی وجہ یہ تھی کہ پیر صاحب صدا کار ہی نہیں تھے، تمثیل نگار بھی تھے، اداکار بھی تھے اور ہدایت کار بھی۔ اور ان سبھی شعبوں میں انھیں‌ کمال حاصل تھا۔”

    رفیع پیر پاکستان میں فنونِ لطیفہ کی ایک نہایت معتبر شخصیت اور پائے کے فن کار تھے جن کی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا اعتراف اپنے زمانے کی ممتاز ہستیوں نے بھی کیا ہے۔ رفیع پیر کو تھیٹر، پتلی تماشہ، فلم اور ڈرامہ، رقص اور موسیقی میں کمال حاصل تھا۔ وہ ایک بہترین صداکار بھی تھے اور اداکار بھی اور اپنے اس فن کا اظہار پاکستان میں خوبی سے کیا۔ انھیں ایک ایسی علمی و ادبی ہستی کہا جاسکتا ہے جس نے دورانِ تعلیم اور بیرونِ ملک قیام کے دوران اپنے کام اور تجربات سے جو کچھ جانا اور سیکھا، اسے اپنے ڈراموں‌ اور مضامین کے ذریعے تحریری اور تھیٹر کے پلیٹ فارم سے عملی طور پر نئے آنے والوں‌ تک پہنچایا۔ رفیع پیر فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنی فکر اور فن کی بدولت خوب جانے گئے اور اپنے ہم عصروں‌ میں‌ یگانہ و ممتاز ہوئے۔

    1898ء میں بنّوں میں آنکھ کھولنے والے رفیع پیر کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور بنّوں میں تعینات تھے۔ ان کا خاندان کشمیر سے گجرات میں آکر آباد ہوا تھا اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے آئے تھے۔ اِن کا شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال سے گہرا قلبی تعلق اور بڑی دوستی تھی۔ پیر تاج الدّین انہی کے صاحب زادے تھے جنھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہیں ایک برطانوی خاتون سے ذہنی ہم آہنگی بڑھی اور پھر انھوں نے اسی عورت سے شادی کر لی۔ رفیع پیرزادہ نے اسی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ فنونِ لطیفہ سے نوعمری ہی میں واقف ہوگئے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کی دل چسپی علم و فنون میں بڑھتی چلی گئی اور پھر تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے بھی اپنے شوق اور رجحان کے مطابق یہی سب پڑھنے اور سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیر اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر سجانے کے لیے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا۔ اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ تھیٹر کا آخری روز ہے۔ اب یہ تماشا لگانے والے دلّی چلے جائیں‌ گے۔ کم عمر رفیع پیر کے دل میں کیا آیا کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ان لوگوں کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ اہلِ خانہ ان کے یوں لاپتا ہوجانے پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ دلّی میں جب تھیٹر کے منتظمین نے اپنا شو شروع کیا تو اس روز وہاں جو شخصیت بطور خاص مدعو تھی، وہ رفیع پیر کے دادا قمر الدّین کے قریبی دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑی تو جھٹ پہچان لیا اور اس سے مل کر دریافت کہا کہ یہاں کیسے اور کس کے ساتھ آئے ہو؟ اس پر معلوم ہوا رفیع پیر تھیٹر کے شوق میں بغیر بتائے گھر سے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ فوراً اس بچّے کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو مطمئن کرنے کے بعد چند روز میں رفیع پیر کو لاہور پہنچا دیا۔ اس واقعے سے رفیع پیر کی ڈرامہ اور اداکاری سے لگاؤ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ غور و فکر کرنے کے عادی، متجسس اور مہم جُو قسم کے نوجوان تھے جو سنجیدہ بھی تھے اور سیاسی و سماجی شعور بھی رکھتے تھے۔ رفیع پیر اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ رفیع پیر کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔ رفیع پیر ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متأثر تھے۔ اکثر جلسوں میں اگلی صفوں میں نظر آتے اور پُرجوش انداز میں سب کے ساتھ مل کر خوب نعرے لگاتے۔ تحریک کے قائدین کے ساتھ ساتھ ایسے سرگرم کارکنوں‌ اور تحریک کے متوالوں پر پولیس نظر رکھتی تھی۔ رفیع پیر بھی ایک روز پولیس کی نظروں میں آ گئے تھے اور جب اس کا علم اہلِ خانہ کو ہوا تو رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے فوری لندن بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یوں 1916ء میں رفیع پیر قانون کے طالبِ علم بن کر اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر وہاں سے تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لے لیا۔ یہ اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ وہ برلن چلے گئے جسے پورے یورپ میں اس دور میں فن و ثقافت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے۔ یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا ثابت ہوئی۔ وہ بھی فنونِ لطیفہ کے ایسے ہی دیوانے تھے۔ اسی دیوانگی اور شوق نے رفیع پیر کو وہاں‌ برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کے قریب کردیا جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں کام کرتے ہوئے رفیع پیر نے معروف فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا۔ جرمنی میں‌ ہی میں قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    جب جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے تو رفیع پیر ہٹلر سے اپنی نفرت اور کچھ دوسرے معاملات کی وجہ سے ہندوستان چلے آئے، لیکن خدشات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ بدقسمتی سے ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں۔ رفیع پیر کی اکلوتی بیٹی کسی طرح بچ گئی تھیں اور انھوں نے طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ جدید تھیٹر کی تعلیم و تربیت مکمل کرکے آنے والے واحد ہندوستانی تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس سے نکلنے آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوئے اور مختلف شعبہ جات میں اپنی اداکاری، صداکاری اور قلم کا زور آزمایا۔ اسی زمانے میں رفیع پیر نے پنجابی کا مشہور ڈرامہ ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسے اسٹیج کیا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا پنجابی کھیل تھا جس کے بعد انھوں‌ نے پنجابی زبان میں مزید ڈرامے تحریر کیے۔ ان کا آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں ان کے نظر ثانی شدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو زبان میں فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی فنی صلاحیتوں اور تھیٹر، ڈرامہ کی پیش کاری میں ان کی مہارت کا خوب چرچا ہوا۔ رفیع پیر نے اس دور میں‌ تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے اور لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد والدہ کے اصرار پر رفیع پیر نے شادی کر لی تھی۔ برلن سے واپسی کے بعد رفیع پیرزادہ نے ہندوستان میں کم و بیش 12 برس گزارے اور اس دوران بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے فلم نگر میں زبردست کام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے جان اینڈرسن نامی تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ بمبئی میں قیام کے دوران ’’وائس آف انڈیا‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ اوم پرکاش، کامنی کوشل اور پرتھوی راج جیسے بڑے اداکار ان کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور ان کی صلاحیتوں کے معترف بھی تھے۔ پرتھوی راج نے اُن کے ساتھ مل کر ایک تھیٹر کمپنی بھی بنائی تھی، جس نے شیکسپیئر کے ڈراموں کو خوبی سے اسٹیج پر پیش کیا اور ان میں مرکزی کردار خود رفیع پیر ادا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں لاہور چھوڑ کر بھارت چلے جانے والے ہندوؤں کے اسٹوڈیوز کی ذمّے داری سونپی گئی تھی، جسے بخوبی انجام دیا۔ بعد ازاں، رفیع پیر نے ’’تصویر محل‘‘ نامی تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا اور اس میڈیم کے ذریعے کئی بہترین کھیل سامعین تک پہنچائے جن میں پنجابی کھیل ’’اکھیاں‘‘ بھی شامل تھا۔ انھوں نے خواتین کے مسائل اور اُن سے امتیازی سلوک پر اردو اور پنجابی زبان میں ایسے ڈرامے پیش کیے جن کا اُس وقت تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفیع پیر نے ریڈیو اور اسٹیج کے سیکڑوں اداکاروں کو تربیت دی۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جو بعد میں ملک کے بڑے فن کاروں میں شامل ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ رفیع پیر پاکستان کے ایسے ڈرامہ نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی اہلِ علم و فنون نے افسوس کا اظہار کیا اور ان کی رحلت کو جہانِ فن کا بڑا نقصان قرار دیا۔ رفیع پیر 1974ء میں آج ہی کے روز اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رفیع پیر کی اولاد نے بھی فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنے والد کی طرح معیار اور شان دار کام کیا۔ رفیع پیر کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے ’’رفیع پیر تھیٹر‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت بہترین اور بامقصد ڈرامے پیش کیے گئے۔ پیرزادہ خاندان نے فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو آزمایا اور بالخصوص ’رفیع پیر ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز‘ کا آغاز کر کے فن و ثقافت کے شعبے میں اہم اور منفرد کام کیا۔ اس پلیٹ فارم کے تحت میلے 1978ء سے 2007ء تک منعقد ہوتے رہے ہیں۔ 1978ء میں اس کے تحت پہلا 25 روزہ عالمی فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس پلیٹ فارم پر پتلی تماشے، موسیقی اور رقص کے عالمی فیسٹیول کے علاوہ صوفی سول ورلڈ میوزک فیسٹیول کا بھی انعقاد کیا گیا جسے بہت پذیرائی ملی۔

    رفیع پیر کی اولادوں میں عثمان پیرزادہ نے اداکار، ہدایت کار اور منظر نویس کے طور پر نام کمایا، ان کی شریکِ حیات ثمینہ پیرزادہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور فلموں میں شان دار اداکاری کی اور نام و مقام بنایا۔ رفیع پیر کے بڑے صاحب زادہ سلمان پیر زادہ جو 1963ء میں برطانیہ چلے گئے تھے، ان کا شمار بھی برطانوی اداکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کی مقبول برطانوی ڈرامہ سیریل، ’’ایمرجینسی وارڈ نمبر 10‘‘ میں ڈاکٹر مراد کا کردار ادا کرچکے ہیں۔ ایک صاحب زادی تسنیم پیر زادہ نے صحافی، کالم نگار، شاعرہ اور ناول نگار کے طور پر معروف ہیں۔ عمران پیرزادہ بھی اداکار، لکھاری اور فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں بہترین اداکار کے زمرے میں انھیں بھی نام زد کیا گیا تھا۔ رفیع پیرزادہ کی اولادوں نے جس طرح فنونِ لطیفہ کی خدمت کی، اس خاندان کی اگلی نسل بھی رفیع پیر تھیٹر کو آگے بڑھاتے ہوئے فن و ثقافت اور شوبز کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہے۔ پاکستان ہی نہیں‌ پیرزادہ خاندان کے ان فن کاروں‌ کو ان کی بہترین پرفارمنس پر عالمی سطح پر منعقدہ میلوں‌ اور شوبز انڈسٹری کی جانب سے بھی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔