Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    مولوی وحید الدّین سلیم اسی سرزمینِ پانی پت کے فرزند تھے جس نے جدید رجحانات کے پہلے علم بردار مولانا الطاف حسین حالی کو جنم دیا تھا۔ پروفیسر وحید الدّین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثار، شاعر، ماہرِ لسانیات اور واضع اصطلاحات تھے۔

    مرفہ الحال ریاست دکن میں‌ جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تو وہ اردو کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور بعد ازاں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب "وضعِ اصطلاحات” تصنیف کی جو اصطلاح سازی کے فن پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ "افاداتِ سلیم” ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو کے مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ ان پر لکھا گیا ایک خاکہ نہایت مقبول ہے جس سے ہم یہ اقتباسات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:

    "خدا بخشے، مولوی وحید الدّین سلیم بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں نا تراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا، پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔”

    "مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ جہاں ثبوت طلب کیا اور انہوں نے شعر پڑھا، اور کسی نہ کسی بڑے شاعر سے منسوب کر دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ خود ان کا شعر ہوتا تھا یا واقعی اس شاعر کا۔ بھلا ایک ایک لفظ کے لیے کون دیوان ڈھونڈتا بیٹھے۔ اگر کوئی تلاش بھی کرتا اور وہ شعر دیوان میں نہ ملتا تو یہ کہہ دینا کیا مشکل تھا کہ یہ غیر مطبوعہ کلام ہے۔”

    "انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے، اور اس اصل کے کیا معنے ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔”

    "الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھا کہ انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے اور ہمیشہ کام یاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدّین سلیم اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا ناممکن ہے۔ عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی، مگر وہ اردو کے لیے بنے تھے۔ اور اردو ان کے لیے۔

    خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑے بڑے اہلِ قلم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتے۔”

    "مولوی صاحب کیا مرے، زبانِ اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایک ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصّے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے۔ اس کی جگہ بھرنے کے لیے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے اربابِ حلّ و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اِس سرے سے اُس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدّین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔”

    (ماخوذ از مضمون ‘ایک وصیّت کی تعمیل میں’)

  • عشق انسان کی ضرورت ہے!

    عشق انسان کی ضرورت ہے!

    محبّت کا جذبہ کسی ایک مخلوق یا شے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کی بات ہو تو بالخصوص ادیب اور شعرا نے عشق اور محبّت کو اپنی تخلیقات اور تحریروں کا خاص موضوع بنایا ہے۔

    قابل اجمیری کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا
    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد عشقِ مجازی اور عشقِ‌ حقیقی کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:

    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔

    جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

    (کتاب زاویہ، باب: محبت کی حقیقت سے اقتباس)

  • جب علّامہ اقبال نے لاہور میں‌ زمین خریدی!

    جب علّامہ اقبال نے لاہور میں‌ زمین خریدی!

    لاہور کی مٹّی سے عشق کرنے والوں‌ میں‌ عام لوگ ہی نہیں کئی نابغۂ روزگار ہستیاں اور مشاہیر بھی شامل ہیں جو سیاست، سماج اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

    لاہور علم و ادب، تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانے میں‌ لاہور کی پُرسکون اور رومان پرور فضا کو علمی و ادبی مشاغل اور تخلیقی کاموں کے لیے فن کار بہت پسند کرتے تھے۔ لاہور شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے کئی لوگوں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور ملک بھر میں‌ ان کی عظمت و شہرت کا ڈنکا بجا۔ ہم یہاں‌ ذکر کررہے ہیں‌ شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال ؒ کا جو لاہور آئے تو یہاں سے کبھی کہیں‌ جانے کا نہ سوچا۔ ان کی آخری آرام گاہ بھی اسی شہر میں ہے۔

    لاہور میں علّامہ اقبالؒ کی زندگی کا بیشتر حصّہ کرائے کے مکانوں میں گزرا۔ وہ ہمیشہ اپنے کنبے کے لیے ذاتی گھر کے خواہش مند رہے اور بالآخر ان کی خواہش پوری ہوئی۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب اقبال میکلوڈ روڈ کی کوٹھی میں مقیم تھے، انھیں معلوم ہوا کہ میو روڈ (موضع گڑھی شاہو) میں ریلوے کی اراضی نیلام ہو رہی ہے۔ علّامہ اقبال نے جگہ خریدنے میں دل چسپی کا اظہار کیا اور پھر نیلامی میں سب سے زیادہ بولی ان کے بیٹے جاوید اقبال کے نام سے لگائی گئی جو ضابطے کی کارروائی کے بعد منظور ہوگئی۔ اسی برس دسمبر لاہور میونسپلٹی کی جانب سے علامہ اقبال کو اس زمین پر گھر تعمیر کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔

    علّامہ اقبال کے تحریر کردہ ایک وثیقے کے مطابق اس پلاٹ کا رقبہ متوازی سات کنال تھا جس پر مکان کی تعمیر جلد مکمل کرلی گئی۔ کہتے ہیں اس کی تعمیر میں علّامہ کی اہلیہ سردار بیگم نے پس انداز کی ہوئی اور زیورات کی رقم ملا کر جب کہ اقبال نے صرف 1700 روپے خرچ کیے تھے۔ جاوید منزل تیار ہوگئی جو علامہ اقبال نے اپنے بیٹے کے نام سے موسوم کی تھی اور وہ 1935ء کے وسط میں اس گھر میں منتقل ہو گئے۔ اسی گھر میں‌ تھوڑے عرصہ بعد اقبال کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ جاوید منزل سے اقبال کی یہ رفاقت آخری وقت تک قائم رہی۔ اقبالؒ کی وفات کے بعد بھی ان کا کنبہ 38 سال اس گھر میں مقیم رہا۔

    پاکستان بن جانے کے بعد آزادی کی تحریک اور اس کے مجاہدین کی یادگاروں کو محفوظ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو منٹو پارک کو اقبال پارک کا نام دیا گیا۔ اسی طرح اقبال میوزیم بنانے کا منصوبہ زیرِ غور آیا۔ 1977 ء میں جب علامہ اقبالؒ کا سو سالہ جشنِ ولادت منایا جا رہا تھا، اقبال منزل سیالکوٹ اور جاوید منزل لاہور کو سرکاری طور پر محفوظ کر لیا گیا۔ جاوید منزل کو اقبال میوزیم میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

    نو کمروں کے اس میوزیم میں نمائش میں رکھنے کے لیے علامہ کی یادگاری اشیاء جمع کی گئیں جو خاندان کے مختلف افراد اور احباب کے پاس تھیں۔ ان لوگوں نے میوزیم کے لیے عطیہ کر دیں اور یہ سارا کام انجام کو پہنچا۔

  • چارلٹن ہسٹن: جب ہالی وڈ اسٹار کراچی آئے اور اپنے ایک مداح سے ملے

    چارلٹن ہسٹن: جب ہالی وڈ اسٹار کراچی آئے اور اپنے ایک مداح سے ملے

    رمضان کا پہلا عشرہ تھا جب امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن کراچی میں موجود تھے۔ وہ افغان پناہ گزینوں‌ کی پاکستان میں‌ حالتِ زار پر دستاویزی فلم کی تیّاری کے سلسلے میں‌ یہاں آئے تھے۔

    یہ بات ہے 1980- 82 کی۔ چارلٹن ہسٹن نے اپنی آمد کے اگلے روز امریکن قونصلیٹ کی لائبریری میں ایک پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ کراچی کے سینئر صحافی نادر شاہ عادل جو اچھی فلمیں‌ دیکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں‌، اس اداکار کے مداحوں‌ میں سے ایک ہیں۔ اُن دنوں‌ وہ ایک روزنامے سے وابستہ تھے اور ادارے کی جانب سے چارلٹن ہسٹن سے اس فلم سے متعلق گفتگو کے لیے انہی کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا آسٹرین نے میری چارلٹن ہسٹن سے ملاقات کرائی۔ میں نے انھیں 8 سالوں پر محیط وہ ساری تصاویر اور ان کے خطوط دکھائے جو انھوں نے مجھے بھیجے تھے، چارلٹن بہت خوش ہوئے، گفتگو مختصر مگر بہت یادگار رہی۔ شیلا سے کہنے لگے اس صحافی نے مجھ پر کئی مضامین لکھے، مجھے ایک ایمبرائیڈرڈ ٹوپی بھیجی تھی، میں ان کا ممنون ہوں۔ جی ہاں، نادر شاہ اس امریکی اداکار کے ایسے مداح تھے جس کی ہسٹن کے ساتھ ایک عرصہ تک خط کتابت بھی ہوتی رہی۔

    مشہور امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن نے امریکہ میں 4 اکتوبر 1923ء کو آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرکے وہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی پہنچے اور یہاں سے سند لینے کے بعد تین برس تک امریکی فضائیہ میں‌ خدمات انجام دیں۔ انھیں اداکاری کا شوق ایسا تھاکہ باقاعدہ تربیت حاصل کی اور فوج سے الگ ہونے کے بعد اداکاری کا آغاز کیا، لیکن اس کے لیے انھیں‌ بڑی تگ و دو اور محنت کرنا پڑی تھی۔

    ایک زمانہ تھا جب وہ اور ان کی اہلیہ لِڈیا شکاگو میں فقط ایک کمرے میں‌ رہے اور مقامی آرٹسٹوں کے لیے معمولی معاوضہ پر لائیو ماڈلنگ کرتے رہے تھے۔ قسمت نے پلٹا کھایا اور پھر ان کا شمار بہترین اداکاروں‌ میں‌ ہونے لگا وہ متعدد اعزازات سے نوازے گئے جن میں‌ آسکر نمایاں‌ ہے۔

    چارلٹن ہسٹن ہالی وڈ کی تاریخی و مذہبی موضوعات پر مبنی فلموں میں اپنے کرداروں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں‌ گے۔ انھوں نے بن حُر جیسی عہد آفریں‌ فلم کا مرکزی کردار نبھا کر شہرت حاصل کی۔

    1952ء میں چارلٹن ہسٹن نے براڈوے میں کام کرنے کے بعد فلم ’دی گریٹیسٹ شو آن ارتھ‘ میں رِنگ ماسٹر کا کردار نہایت خوبی سے نبھایا۔ اس کے چار برس بعد وہ ’دی ٹین کمانڈمینٹس‘ میں مذہبی پیشوا کے روپ میں‌ نظر آئے اور یہ ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ انھیں‌ اس فلم میں‌ بہترین اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح بِن حُر کے کردار نے ان کے کیریئر کو گویا بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔

    ہسٹن ایسے اداکار تھے جس نے ہالی وڈ کی ایپک فلموں کے دیو مالائی کرداروں میں اپنی افسانوی شخصیت اور قد و کاٹھ سے جان ڈال دی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں اس دور کی ایک مقبول سائنس فکشن فلم ’پلینٹ آف دی ایپس‘ پردے پر سجی تو چارلٹن ہسٹن کے مداحوں‌ کی تعداد میں‌ زبردست اضافہ ہوا اور وہ ستّر کی دہائی میں کئی فلموں میں‌ مرکزی کردار نبھاتے ہوئے نظر آئے۔

    اس کے علاوہ ایک ماحولیاتی سائنس فکشن ’سوئیلینٹ گرین‘ کے سنسنی خیز ڈرامے میں ان کے مرکزی کردار کو بہت سراہا گیا۔

    چھے فٹ چار انچ کے قد کے ساتھ اس اداکار کی گہری اور گونج دار آواز فلم بینوں پر جادو کردیتی تھی۔ انھیں‌ معروف فلمی ہدایت کار مائیکل اینجلو ایک تراشیدہ مجسمہ سے تشبیہ دیتے تھے۔

    ہسٹن کے چہرے کے نقوش ایسے تھے جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے اسے نکھارا ہو اور اپنے فن کی انتہا کو چُھو لیا ہو۔ ہالی وڈ کے اس اداکار نے 2008ء میں آج ہی دن وفات پائی تھی۔

    آنجہانی چارلٹن ہسٹن سر لارنس اولیویئر کے زبردست مداح تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس بڑے اداکار سے میں نے چھ ہفتے میں اداکاری کے جو رموز سیکھے دوسرے اداکار عمر بھر نہیں سیکھ پاتے۔ چارلٹن ہسٹن کی ایک آپ بیتی بھی شایع ہوئی تھی جس میں‌ انھوں نے اپنی زندگی اور فنی سفر کے کئی واقعات رقم کیے ہیں جو دل چسپ بھی ہیں اور اس اداکار کی شخصیت اور جدوجہد کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔

    چارلٹن ہسٹن نے اداکاری کے سفر میں‌ لگ بھگ 100 فلموں‌ اور ڈراموں‌ میں‌ کام کیا اور اپنے کریئر میں‌ فلمی پردے کے لیے مختلف شعبوں‌ میں‌ اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ ان میں ہدایت کاری کے علاوہ مکالمہ اور منظر نویسی کے علاوہ صدا کاری بھی شامل ہے۔

  • بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    کھیل کے میدان میں چُستی پھرتی دکھانا اور اکھاڑوں میں جسمانی طاقت کا مظاہرہ اور زور آزمائی شاید اُس زمانے کی باتیں‌ ہیں‌ جب غذا اور ہماری خوراک خالص اور مقوّی ہُوا کرتی تھی۔ انسان کسرت اور صحت مند مشاغل کے عادی تھے۔ ایسے طاقت وَر لوگ کسی حملہ آور یا لٹیرے کا مقابلہ بھی ڈٹ کر کیا کرتے تھے۔

    آج کا دور کُشتی، ملاکھڑے، پنجہ آزمائی کا نہیں‌، لیکن ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ کھیل اور دیسی ہتھیاروں کا استعمال باقاعدہ فن کا درجہ رکھتا تھا۔ پٹے بازی اور بنّوٹ بھی ایک قسم کے ہتھیار تھے۔ یہاں ہم تقسیمِ ہند سے کئی سال قبل دلّی کے ماہر بنّوٹ باز اور طاقت وَر لٹیرے سے متعلق دو حیران کن واقعات نقل کررہے ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جنھیں‌ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "پٹے بازی اور بنّوٹ یہ دونوں فن حقیقت میں عجیب و غریب ہیں۔ پٹے بازی کے ایک ادنیٰ درجے کا فن ہے مگر بنّوٹ اس کے مقابلے میں میں بہت اعلٰی درجے کا ہے۔ ایک شخص جو عمدہ بنّوٹ جانتا ہے دو، چار نہیں بلکہ دس بیس آدمیوں کے قابو میں نہیں آ سکتا!”

    "ان دونوں فنون کے استاد دہلی میں میں بکثرت موجود تھے مگر اب ان کا بالکل کال ہے۔ سارے شہر میں اس فن کے شاید دو ایک استاد ہوں تو ہوں۔”

    "1881ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جس پر خون کا الزام تھا اور بڑا قوی ہیکل اور زبردست جوان تھا، وہ یکایک دہلی پولیس کے ہاتھ سے ہتھکڑیاں توڑ کر نکل گیا اور ایک سپاہی کی تلوار چھین کر عدالت سے نیچے اتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ عدالت میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر چند اس سے تلوار چھیننے کی کوشش کی گئی مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ دلیری سے اس کے پاس جاتا اور اس سے تلوار چھین لیتا۔ وہ برابر آواز پر آواز دے رہا تھا کہ کسی کو جرأت ہو تو میرے سامنے آئے۔”

    "آخر یہ بات طے ہوئی کہ اگر یہ آسانی کے ساتھ تلوار نہ دے تو اسے گولی مار دی جائے کہ اتنے میں ایک میر صاحب جو بہت ہی کمزور ہاتھ پیر کے، پستہ قامت تھے اور غالباً دہلی کے رجسٹری کے محکمے میں کام کرتے تھے اپنے دفتر سے باہر نکل آئے اور حکام سے یہ کہا کہ اگر حکم ہو تو میں اسے زندہ گرفتار کر لوں۔ یہ سن کر ان کو بڑا تعجب ہوا۔ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ واقعی اس سے تلوار چھین لیں گے؟ انھوں نے کہا یہ معمولی سی بات ہے۔ میں اس ایک سے نہیں بلکہ کئی ایک آدمیوں سے تلوار چھین سکتا ہوں۔ چنانچہ انہیں حکم ملا۔ انھوں نے ایک پیسہ اپنے رومال میں باندھا اور اس کے آگے گئے۔ اس نے ہنس کر کہا کہ آپ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں، سامنے سے ہٹ جائیے ورنہ میں تلوار سے آپ کی گردن اڑا دوں گا۔ میر صاحب نے ہنس کر کہا کہ بھائی تیری خیر اسی میں ہے کہ تلوار دے دے، ورنہ تجھے سخت نقصان پہنچے گا۔ وہ یہ سنتے ہی لال پیلا ہو گیا اور میر صاحب پر تلوار لے کے شیر کی طرح جھپٹا۔ میر صاحب نے پینترا کاٹ کے اس کی کلائی پر اس زور سے رومال میں بندھا ہوا ہوا پیسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے کئی گز آگے جا پڑی۔ چوںکہ وہ پیسہ کلائی کی رگ پر لگا تھا، خود ایسا چکرا کے گرا کہ کئی منٹ تک اسے ہوش نہ آیا۔ آخر وہ زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور میر صاحب کی بڑی واہ واہ ہوئی۔”

    "اسی طرح ایک ڈاکو جس کا قد آٹھ فٹ سے کم نہ تھا اور جو ایک دیو معلوم ہوتا تھا، جس کی قوّت یہاں تک تھی کہ موٹی موٹی زنجیریں بہت آسانی سے توڑ دیا کرتا تھا۔ جس کے آگے آٹھ دس من کا بوجھ اٹھا لینا ایک معمولی بات تھی جو تنہا ڈاکہ مارا کرتا تھا۔ اپنی حسبِ عادت وہ نجف گڑھ کے ایک سپاہی جو انگریزی پلٹن میں ملازم تھا، کے گھر میں آیا۔ اس ڈاکو کی یہ عادت تھی کہ وہ گھر میں گھس کے سارا سامان نہایت اطمینان کے ساتھ باندھ لیتا تھا اور جب چلنے لگتا تھا تو گھر والوں کو جگا کے آگاہ کر دیتا تھا کہ اگر تم سے روکا جائے تو مجھ کو روکو، میں تمہارا سامان لے کے جاتا ہوں۔”

    "اتفاق سے سپاہی کی بیوی اور اس کی بڑھیا ساس کے سوا مکان میں کوئی نہ تھا، اس نے حسبِ عادت ان عورتوں کو جگایا اور کہا میں سامان لے کے جاتا ہوں۔ سپاہی کی بیوی پہلے ہی سے جاگ رہی تھی، اور یہ سارا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ڈاکو کی آواز سن کر صرف اتنا کہا کہا کہ اچھا تُو میرے گھر کا سامان لے جا رہا ہے، لے جا۔ میں عورت ذات ہوں اور ایک میری بڑھیا ماں ہے۔ اس وقت اگر میرا شوہر ہوتا اور تُو اس کے آگے سے سامان لے جاتا تو میں جانتی کہ تُو بڑا ڈاکو ہے۔ یہ سن کر ڈاکو نے ایک بڑا قہقہہ لگایا اور اس سے دریافت کیا کہ تیرا شوہر کب آئے گا۔ اس نے کہا کہ وہ جلد آنے والا ہے، اس کی رخصت منظور ہو چکی ہے ہے۔ وہ غالباً ہفتہ عشرے میں یہاں پہنچ جائے گا، اس پر ڈاکو بولا کہ ہم یہ سامان یہیں چھوڑ جاتے ہیں، جب تیرا شوہر آئے گا اسی وقت آ کے لے جائیں گے۔ یہ کہہ کر ڈاکو چلا گیا۔ کوئی پندرہ دن کے بعد وہ دیو نژاد ڈاکو جس کے ہاتھ میں ایک من کے وزن کا لوہے کا ڈنڈا رہتا تھا۔ پھر اس سپاہی کے مکان میں آیا۔ اسی طرح بے تکلفی سے اس نے سارا سامان باندھا اور جب اپنا کام کر چکا تو اس نے سپاہی کو جگایا اور کہا میں یہ سامان لے جاتا ہوں۔ سپاہی اٹھ کھڑا ہوا، بانس کی ایک معمولی لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اور اس نے ڈاکو سے کہا تیری اسی میں خیر ہے کہ تو یہ کُل سامان جہاں سے سمیٹا ہے وہیں رکھ دے اور اپنی جان بچا کے چلا جا۔”

    "دیو نژاد ڈاکو بہت حقارت سے خندہ زن ہوا اور کہا کہ ڈنڈا جو میرے ہاتھ میں ہے اتنے وزن کا ہے کہ تو اسے اٹھا نہیں سکتا۔ تین ڈنڈے سے ایک زبردست بھینسے اور سانڈ کو بٹھا دیتا ہوں۔ تیری عورت حقیقت میں بڑی دلیر ہے کہ اس نے مجھ سے دو بہ دو باتیں کی تھیں۔ ایسی عورت پر مجھے رحم کھانا چاہیے۔ تیری اس جرأت سے یقینا وہ بیوہ ہو جائے گی اور تو مفت میں جان دے دے گا۔ میرے ایک ہاتھ کا بھی تُو نہیں ہے۔ بس تُو جا اور اپنی بیوی کی جوانی پر رحم کھا کے اپنے پلنگ پر سو جا۔”

    "سپاہی نے ایک قہقہہ مارا اور پھر جھلا کے کہا کہ اس بیہودگی سے کوئی نتیجہ نہیں، اگر تو اپنی جان کی خیر چاہتا ہے تو اس سامان کو کھول اور جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ ڈاکو کو سپاہی کی یہ بد زبانی اچھی نہ معلوم ہوئی۔ اس نے فوراً اپنے لوہے کا ڈنڈا رسید کیا۔ سپاہی چونکہ ہوشیار کھڑا تھا اس کا ہاتھ خالی دے کے اور بڑی دلیری سے للکار کے کہا کہ او نامراد! اگر تجھ میں میں جرأت ہے تو اور دل کا حوصلہ نکال لے۔ چنانچہ ڈاکو نے غصے میں آ کے ڈنڈا پھرا کے مارا، مگر وہ بھی خالی گیا۔ سپاہی نے اس پر کہا کہ لے اب سنبھل، تیرے دو وار ہو چکے ہیں، تیسرا وار میرا ہے۔ یہ کہہ کر کچھ ایسی لکڑی اس کی شہ رگ پر ماری کہ وہ دیو چکرا کے گر پڑا۔ سپاہی اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور زور سے ٹھوکر مار کے کہا، بس اس برتے پر اتنا پھول رہا تھا، ایک معمولی بانس کی لکڑی بھی نہ کھا سکا۔ چنانچہ بڑی دیر میں اسے ہوش آیا، مگر اس میں کسی قسم کی ہمت نہ رہی۔ وہ سپاہی کے پیروں پر گر پڑا اور کہا مجھے امان دو، میں تمہارا مدتُ العمر خادم رہوں گا۔”

    "یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جو لوگ بنّوٹ کے فن سے ناواقف ہیں وہ ممکن ہے کہ اسے کہانی سمجھیں یا مبالغہ خیال کریں، مگر فی الواقع جنہوں نے بنّوٹ کے استادوں کو دیکھا ہے یا کم و بیش اس فن کی خود ورزش کر چکے ہیں، وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک صاحبِ فن کس آسانی سے دس بیس آدمیوں پر غالب آ سکتا ہے۔ دہلی میں 1857ء سے پہلے اور بعد تک لکڑی اور بنّوٹ کے علیحدہ علیحدہ اکھاڑے تھے۔ شرفا اور امرا کے بچّے اس کی باقاعدہ تعلیم پاتے تھے۔ اسی طرح پنجہ اور کلائی کے استاد دہلی میں ایسے موجود تھے جن کی نظیر اب نہیں ملتی۔”

    (دہلی کی یادگار ہستیاں از امداد صابری)

  • پان دے کر مجھ سے تم چاہو تو دنیا مانگ لو!

    پان دے کر مجھ سے تم چاہو تو دنیا مانگ لو!

    مرزا جگنو کی کمزوری شراب ہے نہ عورت بلکہ پان، آپ پان کچھ اس کثرت سے کھاتے ہیں جیسے جھوٹا آدمی قسمیں یا کام چور نوکر گالیاں۔ خیر اگر پان کھا کر خاموش رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اپنا اپنا شوق ہے، کسی کو غم کھانے میں لطف آتا ہے۔ کسی کو مار کھانے میں اور کسی کو پان کھانے میں۔

    لیکن مصیبت یہ ہے کہ مرزا پان کھاتے ہی نہیں۔ دن رات اس کے گن بھی گاتے ہیں۔ انہوں نے مشہور ضرب المثل ’’جس کا کھائے اسی کا گائے ‘‘ میں یہ ترمیم کی ہے ’’جسے کھا ئےاسی کا گائے‘‘ جو شخص پان نہیں کھاتا وہ ان کی نگاہ میں اوّل درجے کا کور ذوق ہے۔ اکثر فرمایا کرتے ہیں، ’’پان کھائے بغیر تحریر و تقریر میں رنگینی پیدا کرنے کی کوشش گلال کے بغیر ہولی کھیلنے کے مترادف ہے۔‘‘

    مرزا صاحب یو پی سے پنجاب میں آئے ہیں۔ اس لئے انہیں بنارسی اور لکھنوی پانوں کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی ہے۔ لکھنؤ کے پستئی پانوں کا ذکر کرتے وقت اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ ’’اجی صاحب! کیا بات تھی پستئی پانوں کی۔ واللہ! تلے اوپر چار گلوریاں کھائیے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور اب یہاں وہ پان زہر مار کرنا پڑ رہا ہے جسے پان کے بجائے ڈھاک کا پتہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ اس پر ستم یہ کہ یہاں قریب قریب ہر شخص تنبولی سے خرید کر کھاتا ہے۔ غضب خدا کا! بڑے بڑے رئیس کے ہاں چلے جائیے میز پر مٹھائیوں اور لسی کے بڑے بڑے گلاسوں کا انبار لگا دے گا لیکن پان کی فرمائش کیجئے تو بغلیں جھانکنے لگے گا۔ یا خفت مٹانے کے لئے نوکر سے کہے گا ’’اوئے بھٹی چوکے لال! مرزا صاحب کے لئے پان خریدنا تو یاد ہی نہیں رہا۔ ذرا لپک کر ماتا دین پنواڑی سے ایک پان تو لے آؤ۔‘‘ اور پھر یک لخت معصوم سا بن کر آپ سے ایک ایسا سوال کرے گا، جسے سن کر آپ کا جی سر پیٹنے کو چاہے گا۔ ’’کیوں صاحب! میٹھا کھائیں گے یا الائچی سپاری والا؟‘‘ لاحول ولا قوۃ! پانوں کی بڑی بڑی قسمیں سننے میں آئیں لیکن یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ میٹھا پان کیا بلا ہوتی ہے۔ بارہ مسالے کو ایک فضول سے سبز پتے میں کچھ اس طرح لپیٹ دیتے ہیں کہ اس پر جوشاندے کی پڑیا کا گمان ہوتا ہے۔ اسے یہ حضرات میٹھا پان کہتے ہیں۔ صاحب حد ہو گئی ستم ظریفی کی، اس سے تو بہتر ہوگا کہ پان کی بجائے آدمی دو تولے گڑیا شکر پھانک لیا کرے۔‘‘

    مرزا جگنو پان کے اس قدر عاشق ہیں جس وقت دیکھو یا پان کھا رہے ہوں گے یا پان کی شان میں قصیدہ تصنیف کر رہے ہوں گے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ زبان کے علاوہ جو چیز ہمیشہ ان کے بتیس دانتوں میں رہتی ہے وہ پان یا ذکر پان ہی ہے۔ یہ کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، چائے نہ ملے تو کوئی بات نہیں لیکن پان کے بغیر ماہی بے آپ کی مانند تڑپنے لگتے ہیں۔ ایک بار ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’مرزا صاحب پان کھا کھا کرآپ نے دانتوں کا ستیا ناس کر لیا ہے۔ آپ کے منہ میں اب دانت نہیں گویا کسی گلے سڑے انا ر کے دانے ہیں۔ خدا کے لئے اب تو پان کھانا چھوڑ دیجئے۔‘‘ مرزا صاحب نے پیک کی پچکاری ہماری سفید پتلون پر چھوڑتے ہوئے جواب دیا، ’’کیا کہا، پان کھانا چھوڑ دوں؟ یہ کیوں نہیں کہتے خود کشی کر لوں۔ اجی حضرت، پان ہے تو جہان ہے پیارے۔ آپ کے سر عزیز کی قسم ہم تو جنت میں بھی قیام کرنے سے انکار کر دیں گے اگر وہاں پان سے محروم ہونا پڑا۔ آپ کو معلوم ہے کہ والد ماجد ہمیں ولایت بھیجنے پر مصر تھے۔ فرماتے تھے دو ایک سال آکسفورڈ گزار آؤ زندگی بن جائے گی لیکن ہم نے وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ انگلستان میں پان کہاں۔‘‘

    ’’وہ تو شاید آپ نے اچھا کیا جو ولایت نہیں گئے نہیں تو فرنگیوں کی پتلونوں کی خیر نہیں تھی۔‘‘ ہم نے مرزا کو بناتے ہوئے کہا، ’’لیکن یہ جو آپ نے ہماری مکھن زین کی قیمتی پتلون کو تباہ کر دیا یہ ہمیں کس گناہ کی سزا دی۔‘‘

    مرزا صاحب نے اپنا پیک سے بھرا ہوا نہ اوپر اٹھا کر اور ضرورتاً دیوار پر پیک سے گلکاری کرتے ہوئے فرمایا، ’’اجی حضرت! یہ سب آپ کا قصور ہے۔ یہ دیوان خانے میں اگلدان نہ رکھنے کی سزا ہے جو آپ کو دی گئی ہے۔ بندۂ خدا! الم غلم سے سارا کمرہ بھر رکھا ہے لیکن اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک اگلدان ہی خرید لیں۔ اپنے لئے نہیں تو مہمانوں کے لئے۔ گلے میں جب ایک نہ دو اکٹھی چار گلوریاں ہوں اور مشکی دانے کا تمباکو ضرورت سے زیادہ تیز ہو اور سامنے اگلدان موجود نہ ہو تو خود ہی بتائیے بجلی کی طرح پیک آپ کی پتلون پر نہیں گرے گی تو کہاں گرے گی؟‘‘

    ہمیں مرزا جگنو کے گھر جب کبھی جانے کا موقع ملا ہمیشہ انہیں اس قسم کے مشاغل میں مصروف پایا۔ کبھی چھالیا کتر رہے ہیں، کتھے کو کیوڑے کی خوشبو میں بسا رہے ہیں، چونا چکھ چکھ کر دیکھ رہے ہیں کہ مطلوبہ تندی کا ہوا ہے یا نہیں اور کبھی مرادآباد تمباکو کی بلائیں لے رہے ہیں۔ کئی بار ان سے عرض کیا آپ اتنے عالم و فاضل ہیں۔ غزل کہنے میں استاد تسلیم کئے جاتے ہیں۔ مشاعروں کو لوٹ لینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ زہد اور پارسائی کی محلے بھر میں دھوم ہے۔ پھر آپ پان کھانے کی عادت کیوں نہیں ترک کر سکتے جب کہ آپ جانتے ہیں کہ پان دانتوں و مسوڑھوں کا زیاں ہے؟‘‘

    ہر بار مرزا بگڑ کر فرماتے ہیں، ’’حضرت! ہر بڑے شخص میں ایک آدھ کمزوری ہوتی ہے۔ یہ بات نہ ہو تو اس کا شمار فرشتوں میں ہونے لگے۔ غالب کو ہی لیجئے اتنے عظیم شاعر لیکن بادہ نوشی کی ایسی لت پڑی کہ ادھار پینے میں بھی انہیں عار نہیں تھی۔ وہ تو دعا بھی اس لئے مانگتے تھے کہ انہیں شراب ملے۔ تم نے وہ لطیفہ سنا ہوگا۔ ایک دفعہ جب انہیں شراب دستیاب نہ ہوئی تو وضو کر کے نماز پڑھنے کی ٹھانی۔ ابھی وضو ہی کر پائے تھے کہ ان کا ایک شاگرد کہیں سے شراب کی بوتل لے آیا۔ فوراً نماز پڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور شراب پینے لگے۔ شاگرد نے پوچھا، ’’نماز پڑھئے گا کیا؟‘‘ ہنس کر فرمایا، ’’جس چیز کے لئے دست بدعا ہونا تھا وہ مل گئی، اب نماز پڑھنے کا فائدہ ؟‘‘

    ’’لیکن مرزا صاحب! شراب کی بات اورہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی، لیکن پان میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ ہم نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مشورہ دیا۔

    ’’اجی حضرت!‘‘ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’پان کھانے کا لطف پان خور ہی جانتا ہے۔ آپ پاکباز قسم کے لوگ کیا جانیں۔ اس کی فضیلت کا حال تو بیربل سے پوچھئے جس نے اکبر کے سوال کرنے پر کہ سب سے بڑا پتا کون سا ہے۔‘‘ عرض کیا تھا، ’’مہا بلی! پان کا پتا جسے اس وقت ظل الٰہی کھا رہے ہیں‘‘، لیجئے اب تو سند بھی مل گئی کہ پان وہ چیز ہے جسے خود مغل اعظم نے منہ لگایا۔ اب آئندہ ہمارے پان کھانے پر اعتراض نہ کیا کیجئے۔‘‘

    ’’مگر پھر بھی ہمارا خیال ہے اگر آپ پان خور نہ ہوتے تو ولی ہوتے۔‘‘

    سبحان اللہ! کیا پتے کی بات کہی ہے آپ نے یعنی صرف اتنی سی بات کے لئے ہم ولی کہلوائیں۔ پان خوری چھوڑ دیں نا صاحب! ہمیں یہ خسارے کا سودا بالکل پسند نہیں۔ ہمارا تو عقیدہ ہے؛

    تم مرا دل مانگ لو دل کی تمنا مانگ لو
    پان دے کر مجھ سے تم چاہو تو دنیا مانگ لو

    اور ہاں دیکھئے صاحب! اب بحث بند کیجئے۔ ایک گلوری اپنے اور ایک ہمارے منہ میں ڈالئے اور کسی لکھنوی شاعر کا ایک بے نظیر شعر سنیے اور سر دھنیے کہ پان کے ذکر نے شعر کو کتنا رنگین بنا دیا ہے۔ ہاں تووہ شعر ہے؛

    پان لگ لگ کے مری جان کدھر جاتے ہیں
    یہ مرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں

    ہم نے مرزا صاحب کے اصرار پر گلوری منہ میں ڈالی، شعر بھی سنا اور سننے کے بعد زیر لب گنگنانے لگے؛

    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ پان خور ہوتا

    (مزاح نگار کنہیا لال کپور کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ممتاز محقّق، دانش وَر اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا بچپن

    ممتاز محقّق، دانش وَر اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا بچپن

    ساتھیو!
    کیسے ہیں آپ؟ آج میں آپ کی ملاقات اپنے وطن کے ایک ایسے دانشور سے کروا رہی ہوں جن کے اندر آج بھی ایک بے حد معصوم اور شرارتی بچّہ چھپا بیٹھا ہے۔ آپ ہیں نہایت محترم اور شفیق استاد، محقّق، دانشور، ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، کئی کتابوں کے مصنّف، اُردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب۔
    ڈاکٹر صاحب کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو کئی اعزازات سے نوازا گیا اور قومی اعزاز ”ستارۂ امتیاز“ بھی دیا گیا۔ میں نے ”بڑوں کا بچپن“ کے زیرِ عنوان ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے طویل اور دل چسپ گفتگو کی تھی، جو اے آر وائی کے قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی اور وہ اپنے بچوں اور چھوٹوں کو بھی پڑھ کر سنا سکتے ہیں جس سے وہ نہ صرف اپنے وطن پاکستان کی اس بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت کے بارے میں جان سکیں گے بلکہ اس سے ان میں مفید مشاغل اور مثبت سرگرمیاں اپنانے کا شوق پروان چڑھے گا۔ ڈاکٹر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن وہ بچّوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کے بڑوں سے کہتے تھے کہ ”بچّوں پر بھرپور توجہ دیں۔ آپ کی ذاتی توجہ آپ کے بچّوں کو اچھا انسان ہی نہیں اپنے شعبے کی ممتاز شخصیت بھی بنا دے گی۔“
    سوال: آپ کا بچپن کیسا گزرا؟
    جواب: میرا بچپن میرے دوسرے بھائی بہنوں کی بہ نسبت زیادہ لاڈ پیار میں گزرا، چونکہ میں ان سب سے زیادہ چھوٹا تھا۔ میرا بچپن بہت یادگار ہے۔
    سوال: آپ نے اسکول میں کب داخلہ لیا؟
    جواب: ہمارے ابا جی نے گھر میں پہلے فارسی پڑھائی اس کے بعد مثنوی مولانا روم یاد کرائی، گلستان بوستان پڑھائی۔ چار پانچ سال کی عمر سے ابّا جی مجھے قرآنی آیات بھی یاد کرانے لگے تھے، سات سال کی عمر میں ناظرہ ختم کر کے قرآن پاک کے چودہ پارے بھی حفظ کر لیے تھے۔ ان ہی دنوں ابّا جی کا انتقال ہو گیا تو حفظِ قرآن کا سلسلہ بھی رک گیا، لیکن میں نے سات سال کی عمر میں یعنی 1933ء میں اسکول میں داخلہ لے لیا۔
    سوال: آپ کا شمار کیسے طالب علموں میں ہوتا تھا؟
    جواب: بھئی ہم شرارتی بھی تھے، کھلنڈرے بھی تھے اور پڑھاکو بھی۔ اس وقت یوپی میں پرائمری اسکول درجہ چہارم تک ہوتے تھے۔ اور فائنل کا امتحان ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت تحصیلی مرکزوں میں ڈپٹی انسپکٹر کی نگرانی لیا جاتا تھا۔ مختلف اسکولوں کے اساتذہ پرچے بناتے تھے اور کاپیاں جانچتے تھے، ریاضی کے سخت سے سخت امتحان میں بھی میرے سو فیصد نمبر آتے تھے۔ ہر امتحان میں میری پوزیشن اوّل رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے میرا پرائمری کا فائنل امتحان منعقد ہوا۔ اسکول سے تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر امتحانی مرکز تھا۔ اس میں میرے ساتھ ہارون احمد، سید فرمان علی بھی شریک ہوئے تھے لیکن کام یاب صرف میں ہُوا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔
    سوال: پہلی پوزیشن لانے پر کیا احساسات تھے؟ گھر والوں نے کیسے سراہا؟
    جواب: میں اور میرے گھر والے تو خوش تھے ہی لیکن ہمارے علاقے میں ایک مسلمان طالب علم چونکہ ایک مدت بعد اس طرح کے امتحان میں اوّل آیا تھا اس لیے میری کام یابی کا جشن جگہ جگہ اس طرح منایا گیا جیسے میں نے کوئی معرکہ سر کر لیا۔
    سوال: دوبارہ کبھی ایسی کام یابی حصّے میں آئی؟
    جواب: جی ہاں مڈل اسکول کا فائنل امتحان میں نے درجہ اوّل میں پاس کیا اور ضلع بھر میں اوّل آیا۔ ہمارے اسکول کو برسوں بعد اس طرح کی امتیازی حیثیت حاصل ہُوئی تھی اس لیے خوب جشن منایا گیا۔ اچھے طالب علم کی حیثیت سے میرے ضلع میں میرا نام ممتاز ہو گیا۔
    سوال: اس کام یابی پر سرکاری سطح پر آپ کی حوصلہ افزائی کی گئی؟
    جواب: چوتھی جماعت میں پوزیشن آئی تو وظیفہ ملا، مڈل میں امتیازی کام یابی پر پہلے دو سال چھ روپے اور پھر آٹھ روپے مہینے کے سرکاری وظیفہ ملنے لگا۔
    سوال: اس صورت حال میں اپنی مرضی کے ہائی اسکول میں داخلہ لینا تو بہت آسان ہو گیا ہوگا؟
    جواب: اس وقت شہر میں تین ہائی اسکول تھے اور ان میں سے ہر ایک بہت سی رعایتوں کے ساتھ مجھے داخلہ دینے پر آمادہ تھا۔ لیکن میں نے مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں جس کی انگریزی شاخ کا نام مسلم ہائی اسکول تھا داخلہ لیا۔
    سوال: کون سا مضمون دل چسپی سے پڑھتے تھے؟
    جواب: اردو اور ریاضی ہمیشہ میرے پسندیدہ مضامین رہے۔ ہمارے خاندان کے بیشتر افراد ریاضی داں کہلاتے تھے۔ ریاضی کے پرچے میں دس میں سے پانچ سوال حل کرنے ہوتے تھے مگر میں دس کے دس سوال حل کرتا تھا اور اُوپر لکھتا تھا کہ کوئی پانچ سوال دیکھ لیجیے۔
    سوال: سب سے زیادہ نمبر کون سے مضمون میں آتے تھے؟
    جواب: سب سے زیادہ نمبر ریاضی اور اُردو میں آتے تھے۔ شعر و ادب میں دل چسپی کا یہ حال تھا کہ غالب کا دیوان پورا یاد رہتا تھا۔ مڈل اور میٹرک تک تمام استاد شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار یاد تھے جنھیں میں بیت بازی کے مقابلوں میں استعمال کرتا تھا۔
    سوال: گویا غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیتے تھے؟
    جواب: یقیناً بیت بازی، اور تقریری مقابلوں میں تو بہت زیادہ۔ ایک مرتبہ اسکول کے سالانہ مشاعرے میں جگرؔ صاحب صدارت کر رہے تھے۔ فی البدیہ تقریر کے لیے موضوع تھا ”شاعری تضیع اوقات ہے“ میں نے موضوع کی حمایت میں تقریر کر کے اوّل انعام حاصل کیا جو جگرؔ صاحب نے اپنے ہاتھ سے دیا تھا۔ وہ تقریر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔

    سوال: شعر و ادب سے گہرے لگاؤ نے کبھی شعر گوئی کی جانب مائل نہیں کیا؟

    جواب: زریں بٹیا! شاعری تو ہماری گھٹی میں پڑ گئی تھی۔ اپنے قصبے کے مشہور شاعر تھے ہم، کئیوں کو تو شاعری لکھ کر بھی دی۔ چوتھی پانچویں کلاس سے ہم نے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ ایک واقعہ یاد آگیا، فتح پور کے مشہور قصبے ہتگام میں ضلع بھر کے اسکولوں کے مابین مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہتگام میں بندر بہت ہوتے تھے اسی کو سامنے رکھ کر میں نے چند شعر کہے جس پر مجھے پہلا انعام ملا۔ یہ شعر خاص طور پر بہت مشہور ہوا تھا
    واہ واہ کیا قصبہ ہتگام ہے
    بندروں کا یاں ہجوم عام ہے
    بیت باز ی اور فی البدیہ مباحثوں کے درجنوں مقابلے جیتے اور مولانا حسرتؔ موہانی اور جگرؔ مراد آبادی جیسے بڑے شاعروں کے ہاتھ سے انعامات حاصل کیے۔
    سوال: بچپن کے دوستوں کے حوالے سے کوئی ایسا واقعہ جو ناقابلِ فراموش ہے؟
    جواب: میرے چچا زاد بھائی سید فرمان علی میرے ہم جماعت اور پکے دوست تھے۔ ہماری دوستی اتنی پکی تھی کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تقریباً ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ مڈل اسکول گھر سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میرے پاس سائیکل تھی ہم دونوں اسی پر جاتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے جب میں فرمان کے دروازے پر پہنچا اور اسکول چلنے کے لیے آواز دی تو چچی جان نے بتایا کہ ”ابھی وہ بڑے تالاب سے نہا کر آئے تھے۔ بہت تیز بخار چڑھ گیا“ اُتر گیا تو کسی کے ساتھ آجائیں گے، تم جاؤ، ماسٹر صاحب کو حال بتا دینا اور فرمان نہ پہنچیں تو چھٹی کی درخواست لگا دینا۔“ مجھے اسکول پہنچے بمشکل دو گھنٹے گزرے تھے کہ گاؤں کا ایک باسی ہانپتا کانپتا یہ منحوس خبر لایا کہ فرمان میاں کا انتقال ہو گیا۔ فرمان میرے عزیز ترین دوست تھے۔ لنگوٹیا یار تھے۔ میرے لیے اُن کی وفات بڑی جان لیوا تھی۔ کسی کام میں جی نہ لگتا تھا۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے میں نے ایک نظم کہی تھی۔ جو اب یاد نہیں، البتہ میں نے یہ کیا کہ اپنے نام کے ساتھ اُن کے نام کو تخلص کے طور پر لگا لیا، فرمانؔ کو بطور تخلّص لگا کر دل خوش کرتا تھا۔
    سوال: ڈاکٹر صاحب! آپ کے اصل نام سے تو بہت کم لوگ واقف ہیں آپ کو کبھی اس کا خیال نہیں آیا؟
    جواب: یہ واقعہ 1938ء میں پیش آیا۔ اس وقت سے ” فرمان“ میرے نام کا جزو بن گیا، لوگ میرا اصل نام بھول گئے اور سب اسی نام سے پکارنے لگے۔ میں خوش ہوں کہ میرے ساتھ ساتھ میرا دوست بھی زندہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اب صرف وہی زندہ ہے میرا نام کوئی جانتا بھی نہیں۔ (ان کا اصل نام سید دلدار علی تھا)
    سوال: بچپن میں کون سے کھیل شوق سے کھیلتے تھے؟
    جواب: ہاکی، کرکٹ اور کبڈی شوق سے کھیلتا تھا، کُشتی کا تو بہت ہی شوق تھا۔باقاعدہ اکھاڑے میں کشتی سیکھنے جاتا تھا۔ کشتی کے ایک دنگل میں میرا مقابلہ گڑی ذات کے ہندو جاٹ سے ہُوا۔ اس سے پنجہ ملانے کے ساتھ ہی میں نے اندازہ کرلیا کہ وہ طاقت میں کسی طرح بھی مجھ سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اس لیے طاقت سے زیادہ داؤ پیچ سے ہی کام چل سکتا ہے لیکن داؤ لگانا بھی آسان نہ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں پوری دقت کے ساتھ پنجے دیے اور پیشانی سے پیشانی بھی ملا رکھی تھی اور میری کوشش یہ تھی کہ یہ جاٹ ذرا ڈھیلا پڑے تو میں گردن جھکا کر اُس کی ٹھوڑی پر حملہ کروں، لیکن شاید وہ بھی اسی تاک میں تھا، اس لیے ایسا کرنے کا موقع نہ ملا۔ ہم دونوں پندرہ بیس منٹ تک اسی قوت اور شدت سے ایک دوسرے کی پیشانی رگڑتے رہے کہ خون بہ نکلا۔ آخر کار ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر کے ہی مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا۔
    سوال: کبھی کشتی کے مقابلے میں فتح بھی حاصل کی؟
    جواب: فتح پور کے ضلعی ٹورنامنٹ میں کشتی کا پہلا انعام بھی ضلع کے کلکٹر جناب زاہد حسین کے ہاتھوں وصول کیا۔ یہ وہی زاہد حسین تھے جو بعد میں پاکستان اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر مقرر ہوئے۔
    سوال: بچپن میں آپ کے کیا مشاغل تھے؟
    جواب: وہی جو ہمارے گاؤں کے سارے بچّوں کے تھے۔ ہر موسم سے بھرپور لطف اندوز ہونا، بارش میں ایک دوسرے پر پانی پھینکنا، مچھلیاں پکڑنا، جھولے ڈالنا، اونچے درختوں پر چڑھ کر آم اور جامن توڑنا، میلوں ٹھیلوں اور جنگلوں میں جانا۔سردی میں صبح سویرے بٹیر کے شکار کے لیے ٹولیاں بنا کر نکلنا، شام کو الاؤ لگانا، اس کے ارد گرد بیٹھ کر رات گئے تک آگ تاپنا، کہانیاں سننا اور سنانا، جنگ نامہ اور شاہنامہ کبھی زبانی کبھی پڑھ کر الاپنا، نو ٹنکی اور اتائیوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے دور دراز کا سفر کر کے پیدل چلنا۔ گرمی کے موسم میں کبھی چھت پر، کبھی گھر کے باہر میدان میں، کبھی کھیت کھلیان میں بھی سلائی ہوتی تھی، تربوز، خربوزے، ککڑی اور مونگ پھلی کے کھیتوں میں سونا ضروری ہوجاتا تھا کہ اس طرح فصلیں گیدڑوں سے محفوظ رہتی تھیں۔
    سوال: اکثر بچوں کو جانور پالنے کا شوق ہوتا ہے، آپ کو دل چسپی تھی؟
    جواب: دل چسپی کیوں نہ ہوتی جب گھر میں دو طوطے، ایک بندر، دو تین دودھ دینے والی بکریاں، ایک گائے، ایک بھینس اور ایک مینڈھا پلا ہُوا تھا۔ میں ان ہی کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ میری عمر کا کوئی دوسرا بچہ گھر میں نہ تھا، بندر کے رہنے کے لیے گھر کے صحن میں ایک اونچا بانس گڑا ہُوا تھا جس کے اوپر ایک مچان بنا دیا تھا، بندر ڈھیلی زنجیر سے اس طرح بندھا رہتا کہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر آتا جاتا رہتا تھا، اگر کبھی زنجیر کی قید سے نکل بھاگتا تو اُچھل کود سے سارے گاؤں کو پریشان کر دیتا تھا اور مشکل سے قابو میں آتا تھا۔ مینڈھا چھوٹے قد کا تھا، اس کے چھوٹے چھوٹے سے سفید نرم بال مجھے بھی اچھے لگتے تھے۔ اس کے سر پر اندر کو مڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی دوسینگیں بہت بھلی معلوم ہوتیں۔ بظاہر یہ بے خطر تھیں لیکن جب مینڈھا کسی کو سر مارنے آتا تھا تو جان کے لالے پڑ جاتے تھے، مجھ پر ایک بار خطرناک حملہ کیا تھا لیکن میں نے شور مچایا تو ایک چرواہے نے مجھے بچا لیا۔
    سوال: بچپن کی ڈانٹ یا مار یاد ہے؟
    جواب: ڈانٹ مار سب یاد ہے بٹیا۔ میں بہت چھوٹا تھا میرا گاؤں دریائے گنگا کے کنارے واقع تھا، ابا جی شادی کی ایک دعوت میں گنگا کے اس پار پریاں نامی قصبہ جا رہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ میں شادی میں جانے کی ضد کر رہا تھا۔ ابا جی نے پہلے تو پیار سے سمجھایا لیکن جب میں نہیں مانا تب انہوں نے تھانے داری والے دو تین بید رسید کیے (سب انسپکٹر جو تھے)۔ میں چیختا چلاتا گھر واپس پہنچا، امی جنھیں میں بی بی کہتا تھا کی گود میں بہت دیر تک سسکتا رہا۔
    دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے چچا جو سارے خاندان کے بچوں کے سرپرست تھے، ندی اور تالاب میں نہانے اور جامن اور آم کے درختوں پر چڑھنے سے ہر لڑکے کو بہت سختی سے منع کرتے رہتے تھے، اگر کوئی پکڑا جاتا تو پٹائی بھی خوب لگتی تھی۔ لیکن ہمیں اتنا مزہ آتا کہ ہم میں سے کوئی بچہ باز نہیں آتا، کسی بچے کو معلوم ہوجاتا کہ چچا جان دوپہر کو سو رہے ہیں یا اس وقت گاؤں میں نہیں ہیں تو ہم تالاب میں نہانے اور جامن یا آم توڑنے کے لیے دوڑ پڑتے۔ ایک بار میں آم کے پیڑ سے گر گیا تو میرا دایاں ہاتھ کاندھے کے پاس سے اکھڑ گیا، بدن کے اکثر حصوں میں سخت چوٹیں آئیں، درد بہت شدید تھا، ہاتھ اُٹھائے نہیں اٹھ رہا تھا، بی بی کو خبر ہوئی تو انہوں نے چچا کو اطلاع کروائی، چچا جان غصے میں بھرے ہوئے آئے۔ نہ میرا حال پوچھا، نہ میری حالت دیکھی، دو تین ہاتھ رسید کیے اور جس ہاتھ میں چوٹ آئی تھی۔ اس کو پکڑ کر گھسیٹا اور کہنے لگے”میں نے منع کیا تھا نا کہ پیڑ پر مت چڑھنا اب بھگتو۔“ لیکن اتفاق سے ان کا یہ عمل میرے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ جس ہاتھ کی ہڈی، شانے کے پاس سے اکھڑ گئی تھی، یعنی جگہ سے بے جگہ ہو گئی تھی وہ اُن کے جھٹکوں اور مار کٹائی سے خود بخود اپنی جگہ پر آگئی اور اس طرح مجھے ہاتھ کی ناقابلِ برداشت تکلیف سے بہت جلد نجات مل گئی۔
    سوال: کیا چیز آپ بچپن میں شوق سے کھاتے تھے؟
    جواب: تل کے لڈو اور باجرے کے آٹے کی ٹکیاں۔ خود بھی کھاتا اوروں کو بھی کھلاتا تھا۔
    سوال: آپ کو اپنے بچپن کے بے شمار واقعات یاد ہیں، یہ سب بڑوں سے سن سن کر یاد ہوئے یا آپ کے حافظے کا کمال ہے؟
    جواب: کمال تو اللہ تعالیٰ کا ہے بٹیا! جس نے ہمیں اتنا اچھا حافظہ دیا اور فیضان ابا جی کا جنھوں نے محض چھ سات سال کی عمر میں فارسی کے متعدد اشعار اور گلستان بوستان کے بہت سے ٹکڑے بالخصوص فارسی کے نعتیہ اشعار زبانی یاد کرا ئے۔ میں بھی دل چسپی لیتا تھا، میری کتاب ”اردو کی نعتیہ شاعری“ کے مقدمے میں فارسی کے جو اشعار نقل کیے گئے ہیں، وہ میرے بچپن ہی کی یادوں کا سرمایہ ہیں۔
    سوال: ڈاکٹر صاحب! بچوں کے لیے کوئی پیغام؟
    جواب: میرے پیارے بچو! محنت اور شدید محنت کو اپنا شعار بنالو، جو بھی کام کرو دیانت داری، محنت اور لگن سے کرو۔ جب تک ہمارے عمل میں یہ چیزیں شامل نہ ہوں ہم کام یابی حاصل نہیں کر سکتے۔ میرا تجربہ تو یہی بتاتا ہے، لہٰذا میں تم سے بھی یہی کہوں گا کہ جس میدان میں کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے لیے بنیادی اہمیت اپنے کام سے محبت اور جذبے کی ہے۔ کام یابی کا راز تو پوشیدہ ہی محنت میں ہے۔ بقول شاعر
    چمن زارِ محبت میں اُسی نے باغبانی کی
    کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا
    (شائستہ زرّیں فیچر رائٹر اور مضمون نگار ہیں، ریڈیو، روزناموں اور ڈائجسٹ کے لیے انھوں نے کئی دل چسپ موضوعات پر سروے رپورٹیں اور نام ور شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں، پیشِ نظر انٹرویو کئی سال قبل بچوں کے ایک رسالے کے لیے کیا گیا تھا)
  • یومِ وفات: معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین سے یادگار گفتگو

    یومِ وفات: معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین سے یادگار گفتگو

    حسینہ معین کا شمار پاکستان کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ حسینہ آپا کے نام سے مشہور تھیں۔

    آج پاکستان کی اس نام وَر ڈرامہ نگار اور کئی مقبول کہانیوں کی اِس مصنّف کی برسی ہے۔ حسینہ معین 2021ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی عمر 79 برس تھی۔

    یہاں ہم فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں کی حسینہ آپا سے کی گئی ایک گفتگو نقل کر رہے ہیں‌ جس سے قارئین کو حسینہ معین کے فنی سفر اور یادگار ڈراموں کے ساتھ پاکستانی عورت، اپنے معاشرے اور تہذیب و روایات سے متعلق ان کے خیالات جاننے کا موقع ملے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    بلاشبہ حسینہ معین کے ڈراموں کے طفیل صنفِ نازک نے آگے قدم بڑھانا ہی نہیں قدم جمانا بھی سیکھا۔ حسینہ معین کے بعض کرداروں میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے، مثلاً نڈر اور بے باک ہیروئن، وہ ہیرو جس کے مزاج میں متانت اور شرارت کی آمیزش ہو، ایک ہونق سا کامیڈین، بے حد شرارتی اور حاضر جواب لڑکی جوعموماً ہیروئن کی سہیلی یا بہن ہوتی ہے، لیکن باوصف اس کے حسینہ معین کے ہر ڈرامے کی کہانی اور کرداروں میں تازگی اور ندرت محسوس ہوتی ہے اور کسی بھی نئے ڈرامے میں اس مماثلت کے باوجود پرانے کردار کی جھلک نظر نہیں آتی۔ اس کی مثال ہیں کرن کہانی کے ڈاکٹر سلیمان اور دھوپ کنارے کے ڈا کٹر احمر۔ انکل عرفی کی بینا اور تنہائیاں کی زارا۔ انکل عرفی کے حسنات بھائی اور تنہائیاں کا قباچہ۔ انکل عرفی کی افشین اور تنہائیاں کی سنیعہ۔ کرن کہانی کا عرفان اور بندش کا خالد۔ انکل عرفی کے انکل عرفی اور بندش کے شعیب انکل۔ پرچھائیاں اور دھوپ کنارے کے بابا۔ ان تمام کرداروں میں محسوس کیا جانے والا نمایاں فرق ہی دراصل حسینہ معین کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔

    ان کے ڈراموں کے موضوعات سنجیدہ، حساس لیکن مکالمے شوخ، برجستہ، بامحاورہ گفتگو پر مبنی، چبھتے ہوئے فقرے ہوتے ہیں۔ چونکہ آپ تاریخ کی طالبہ رہ چکی ہیں اس لیے کچھ تاریخی حوالے بھی ملیں گے۔

    ان کہی کا جبران کتنا مضبوط کردار تھا۔ حسینہ معین کے قلم کی مشاقی کہ گہری، جاندار اور بڑی سے بڑی بات چھوٹے سے جملے میں اپنے کردار کی زبانی کہلوا دیں گی۔ مثلاً کہانی ختم ہوگئی، ناجیہ بابا چلے گئے۔ مصروفیت بہت اچھی پناہ گاہ ہے۔ باہمّت اور بے حس ہو نے میں بڑا فرق ہے۔ آپ نے ’’ان کہی“ میں ایک کردار کی زبانی کہلوایا تھا کہ” بعض سمندر دلوں میں بھی ہوتے ہیں جن پر کہانیاں لکھی ہوتی ہیں۔“ اور ان کے مزاح سے بھرپور ڈراموں میں بھی دلوں پر لکھی ہوئی کہانیاں جذبوں کی شدت اور گہرائی کے ساتھ نہ صرف موجود ہوتی ہیں بلکہ اپنا اثر بھی دکھاتی ہیں۔ اگر حسینہ معین کے دل چسپ اور پرمزاح مکالمے ہنساتے ہیں تو اُن کے سنجیدہ مکالمے دلوں کی کہانیاں پڑھنے کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔ عشق کے جذبے کو حسینہ معین نے بڑے سلیقے اور تہذیب کے ساتھ اپنے ڈراموں میں پیش کیا ہے۔ یہ بھی ان کا امتیاز ہے کہ ان کی ہیروئن بے باک ہونے کے باوجود باوقار نظر آتی ہے۔

    حسینہ معین نے پاکستانی فلموں نزدیکیاں، کہیں پیار نہ ہو جائے، یہاں سے وہاں تک کے مکالمے بھی لکھے۔ حسینہ معین نے اپنے ڈراموں کی داد محض ناظرین ہی سے وصول نہیں کی بلکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی بھی حاصل کیا۔ امریکہ کی hopkins یونیورسٹی کی جانب سے اپنے ڈرامے آہٹ پر ایوارڈ حاصل کیا اور یہ حسینہ معین کے لیے ہی نہیں ہمارے لیے بھی یہ باعثِ افتخار ہے کہ ورلڈ بک 1992ء میں ان کا نام شامل ہوا۔ حسینہ معین نے نگار اور گریجویٹ ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ فنِ ڈرامہ نویسی پر متعدد سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اعزازات پائے۔

    پاکستان کی اس نام وَر ڈرامہ نویس نے جامعہ کراچی سے تاریخ میں ایم اے کیا تھا۔

    ہم نے حسینہ معین سے اُن کے ڈرامہ نگاری کے سفر پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میری کالج اساتذہ سلمیٰ شان الحق حقی اور بسم اللہ نیاز نے محسوس کرلیا تھا کہ میں لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ اُنہوں نے ہی مجھے جشن طلباء (ریڈیو پاکستان کراچی مرکز) کے لیے ڈرامہ لکھنے کو کہا تھا مگر میں نے اسے مشکل کام کہہ کر انکار کر دیا تھا۔ یہ انکار ان کے اصرار کے آگے ٹھہر نہ سکا۔ انہوں نے کہا ”کچھ بھی ہو تم ہی لکھو گی۔“ میں اُن کی بات رد نہ کرسکی۔ کالج میں ہی بیٹھ کر ڈرامہ لکھا جسے پہلا انعام ملا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور اسٹوڈیو نمبر 9 کے لیے میں نے آٹھ، نو ڈرامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ جب کراچی ٹیلیویژن اسٹیشن بنا تو وہاں کے جنرل منیجر نے میرا ایک ریڈیو ڈرامہ ”بُھول بھلیاں“ لے کر مجھ سے کہا کہ اسے ٹی وی کے لیے لکھ دیں۔اس طرح ڈرامائی سلسلے ”ارژنگ“ میں میرا پہلا ٹی وی ڈرامہ ”نیا راستہ“ تھا۔ انہوں نے ٹی وی کے لیے کئی ماخوذ ڈرامے لکھے۔ اپنے اوّلین طبع زاد ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی کے لیے میرا پہلا طبع زاد ڈرامہ ”ہیپی عید مبارک“ تھا۔ یہ کھیل 1971ء کی جنگ کے بعد مجھ سے لکھوایا گیا تھا اور ناظرین کو بے حد پسند آیا جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ٹیلی کاسٹ ہوا تو مجھے اس میں بہت سی خامیاں نظر آئیں مگر رائے عامہ یکسر مختلف تھی۔ ٹیلیویژن حکام نے ہیپی عید مبارک کو بہترین ڈرامہ قرار دیتے ہوئے ایک تقریب میں مجھے ایوارڈ بھی دیا۔

    ڈرامے کی بنیادی تکنیک، اسلوب، منظر نگاری اور کردار نگاری کے ضمن میں وہ کہتی ہیں، پلاٹ، مسئلہ، مسئلے کا حل، کردار اِن تمام چیزوں کو ساتھ لے کر ڈرامہ بنتا ہے۔ کہانی تو ہوتی ہی ہے، میں کردار نگاری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔

    انہوں نے اپنے تخلیق کردہ پسندیدہ نسوانی کرداروں اور خواتین کی فلاح اور ترقی میں ٹی وی ڈرامے کے مؤثر کردار سے متعلق کہا کہ ”انکل عرفی“ میں بینا کا، ”سنگسار“ اور ”پرچھائیاں“ میں ساحرہ کے کردار مجھے بہت پسند ہیں۔ میرے تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ خواتین کی خوش حالی اور ان کی ترقی میں ڈرامہ سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ امریکہ کی hopkans یونیورسٹی نے پاپولیشن کے حوالے سے مجھ سے ڈرامہ آہٹ لکھوایا تھا اور ساحرہ کاظمی سے بنوایا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کی صحّت کے حوالے سے یہ ڈرامہ کام یاب رہا تھا۔ پی ٹی وی سے چند سال پیشتر قسط وار ڈرامہ شروع ہوا تھا، ”شاید کہ بہار آجائے“ خواتین کے مسائل پر یہ بھی ایک کام یاب ڈرامہ تھا۔ نجی ٹی وی چینل سے 80 منٹ کا ڈرامہ دُعا نشر ہوا تھا، یہ بھی خواتین کے اہم مسئلے کی عکاسی کر رہا تھا۔ چند برس قبل عورت فاؤنڈیشن نے مجھ سے دو ڈرامے لکھوائے جو کئی اقساط پر مبنی تھے اور پنجاب ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ ان میں ایک ڈرامہ زراعت میں عورت کے کردار اور دوسرا صحت میں عورت کے کردار پر تھا۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہ بہت مضبوط میڈیم ہے۔ میرے ڈراموں کی پُراعتماد لڑکیوں کے کردار بہت اثرانگیز ثابت ہوئے۔

    میڈیا پالیسی، سنسر شپ اور مختلف سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے لکھنے یا نہ لکھنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سے موضوعات ہیں جن پر ہم لکھنا چاہتے ہیں لیکن بہت سے عوامل مثلاً مذہب، سیاست، معاشرہ وغیرہ درمیان میں آتے ہیں۔ اس لیے ان موضوعات کو نہیں چھیڑتے، حالانکہ زندگی میں جو کچھ ہے، وہ ادب میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم زندگی کے راستے پر آنکھیں بند کر کے گزرتے ہیں۔ غیر ضروری سنسر سے اچھے بھلے ڈرامے کا تأثر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر مجھے کوئی پیغام دینا ہوگا تو میں کسی نہ کسی طرح یہ گنجائش نکال لوں گی کہ وہ بات کہہ سکوں جو کہنا چاہتی ہوں، دستبردار ہونا میں نہیں جانتی۔

    اپنے ڈرامے ”پل دو پل“ کی ناکامی کا جواز دیتے ہوئے انہوں نے کہا، پل دو پل ناکام نہیں تھا مگر آج کل اتنے زیادہ سیریل آرہے ہیں کہ کوئی بھی بھرپور اور مکمل کام یاب ثابت نہیں ہوتا۔ لوگ چینل بدلتے رہتے ہیں۔ وہ soft سیریل تھا اس میں چونکا دینے والے واقعات نہ تھے، سماجی موضوع نہ تھا، در اصل وہ ڈرامہ سکون سے دیکھا جانے والا تھا اور اس طرح دیکھا نہ گیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ جب پڑوسی ٹیلی کاسٹ ہوا تھا تو اسے کمزور قرار دیا گیا اور جب ری ٹیلی کاسٹ ہوا تو اسی ڈرامے کو بے حد پسند کیا گیا۔

    حسینہ معین کا ڈرامہ دیس پردیس بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تسمینہ شیخ اور ذوالفقار شیخ نے اسکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کی جانب میری توجہ مبذول کروائی۔ تسمینہ کی خواہش پر میں خود اسکاٹ لینڈ گئی۔ اُن کے مسائل اور مصائب کا اندازہ کیا اور پوری شدّت کے ساتھ محسوس کیا۔ اُن کی حماقتوں پر دکھ بھی ہوا، غصّہ بھی آیا، اور اُن کے جذبات و احساسات کو کہانی کے قالب میں ڈھال لیا۔

    اپنے ڈراموں میں عشق و محبّت کے معاملات میں تہذیب اور اپنے نظریۂ محبّت کے بارے میں انہوں نے انٹرویو کے دوران بتایا محبّت بہت عظیم جذبہ ہے جو انسانوں کو عطا ہوا ہے۔ جہاں گھٹیا پن ہو وہ عشق یا محبت نہیں سستی جذباتیت ہے اور میرا یہ نظریہ میرے ڈ راموں میں بھی نمایاں ہے، اس لیے ان معاملات میں تہذیب نظر آتی ہے۔

    پروڈکشن ہاؤسز کی تعداد میں اضافے کے باوجود کمزور ڈرامے کی بابت اظہارِ رائے کے دوران ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی کام خلوصِ نیّت سے نہ کیا جائے تو اس میں بھی کام یابی نہیں ملتی۔ اب پی ٹی وی میں ڈرامہ بنانے والے لوگ وہ نہیں رہے، نئے لوگ آگئے۔ اس کے علاوہ اب یہاں بھی پرائیوٹ پروڈکشن ہاؤسز سے ڈرامے خریدے جاتے ہیں، ان کے معیار کی چھان بین نہیں کی جاتی تو معیار کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ پی ٹی وی بھی اب اتنا جان دار نہیں رہا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے اُس نے پروڈکشن ہاؤس بنا لیا ہے۔ جب یہ حال ہو تو مضبوط اور کام یاب ڈرامہ کیسے بن سکتا ہے۔

    پاکستانی ڈرامے کی بازیابی کے لیے محنت اور کوشش کرنی پڑے گی، جن لوگوں نے اسے بگاڑا ہے وہ اس جانب توجہ دیں گے تو اس طرح جو بھرمار ہورہی ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جو اہلِ قلم اور فن کار صحیح معنوں میں باصلا حیت ہیں وہ ایک بار پھر سامنے آئیں گے۔

    ہمارے معاشرے میں ورکنگ ویمن کے مقام اور حقوقِ نسواں سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ دراصل کسی بھی معاشرے میں ورکنگ ویمن کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو مردوں کو حاصل ہے۔ عورت دو وجوہات کی بنا پر ملازمت کرتی ہے، ایک تو اس کی معاشی ضرورت اسے مجبورکرتی ہے، دوسرے وہ تعلیم حاصل کر کے جوکچھ سیکھتی ہے اسے برتنا چاہتی ہے۔ ایک ورکنگ ویمن کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مرد یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ عورت سے گھریلو ذمہ داری میں کہیں کوتاہی ہو جائے، اس اعتبار سے عورت پر دہری ذمہ داری اور بوجھ ہوتا ہے کیون کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں مرد گھریلو کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جب کہ مغربی معاشرے میں مرد کسی حد تک عورت کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مشرق کی ورکنگ ویمن کا یہ سفر بہت مشکل ہوتا ہے۔

    نوآموز ڈرامہ نگاروں کی راہ نمائی کے لیے حسینہ معین کا پیغام تھاکہ وہ محنت کریں، پڑھیں، ڈرامے پڑھیں، ڈرامے کی Definition میں رہ کر ڈرامہ لکھیں، میانہ روی اختیار کریں، تیز دوڑنے کی کوشش نہ کریں۔

  • پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    جب سے پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے، ہمارے دانشور پاکستانی تہذیب اور اس کے عناصرِ ترکیبی کی تشخیص میں مصروف ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا پاکستانی تہذیب نام کی کوئی شے ہے بھی یا ہم نے فقط اپنی خواہش پر حقیقت کا گمان کر لیا ہے اور اب ایک بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر ریاست قومی ریاست ہوتی ہے اور ہر قومی ریاست کی اپنی انفرادی تہذیب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہیے۔

    لیکن پاکستانی تہذیب پر غور کرتے وقت ہمیں بعض امور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔ مثلاً جرمن قوم ان دنوں دو آزاد ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی حال کوریا اور ویت نام کا ہے۔ مگر جب ہم جرمنی اور کوریا یا ویت نام کی قومی تہذیب سے بحث کریں گے تو ہمیں مشرقی اور مغربی جرمنی، جنوبی اور شمالی کوریا اور جنوبی اور شمالی ویت نام کو ایک تہذیبی یا قومی وحدت ماننا پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں ہیں جو 14 اگست 1947ء کو تھیں۔ مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔

    تیسری بات یہ ہے کہ بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اطالوی قوم اور فرانس میں فرانسیسی قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں۔ جیسے کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔ چیکو سلوواکیہ میں چیک اور سلاف، عراق میں عرب اور کُرد، سویت یونین میں روسی، اُزبک، تاجک وغیرہ۔ جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہوتی ہے وہاں ریاستی تہذیب اور قومی تہذیب ایک ہی حقیقت کے دو نام ہوتے ہیں، لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوں وہاں ریاستی تہذیب کی تشکیل و تعمیر کا انحصار مختلف قوموں کے طرز عمل، طرز فکر اور طرز احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔

    اگر اتفاق اور رفاقت کی قوتوں کو فروغ ہو تو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی تہذیب تشکیل پاتی ہے اور اگر نفاق اور دشمنی کی قوتوں کا زور بڑھے، مختلف قومیں صنعت و حرفت میں، زراعت و تجارت میں، علوم و فنون میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے ایک دوسرے پر غلبہ پانے یا ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی کوشش کریں، یا ایک دوسرے سے نفرت کریں، اگر ملک میں باہمی اعتماد کے بجائے شک و شبہ اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو جائے تو مختلف تہذیبی اکائیوں کی سطح اونچی نہیں ہوسکتی اور نہ ان کے ملاپ سے کوئی ریاستی تہذیب ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔

    تہذیب کی تعریف
    کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات اور اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسوں، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔

    انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے ’’کلچر‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ہیں، ’’زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی، کھیتی باڑی کرنا۔‘‘

    اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا، چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی ، ’’آراستن پیراستن، پاک و درست کردن و اصللاح نمودن‘‘ ہیں۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور پر شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا مہذب یا تہذیب یافتہ ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ شخصِ مذکور کی بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کا طریقہ ہمارے روایتی معیار کے مطابق ہے۔ وہ ہمارے آدابِ مجلس کو بڑی خوبی سے ادا کرتا ہے اور شعر و شاعری یا فنونِ لطیفہ کا ستھرا ذوق رکھتا ہے۔

    تہذیب کا یہ مفہوم دراصل ایران اور ہندوستان کے امراء و عمائدین کے طرز زندگی کا پرتو ہے۔ یہ لوگ تہذیب کے تخلیقی عمل میں خود شریک نہیں ہوتے تھے اور نہ تخلیقی عمل اور تہذیب میں جو رشتہ ہے، اس کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے۔ وہ تہذیب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا تو جانتے تھے، لیکن فقط تماشائی بن کر، ادا کار کی حیثیت سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب کا تخلیقی کردار ان کی نظروں سے اوجھل رہا اور وہ آدابِ مجلس کی پابندی ہی کو تہذیب سمجھنے لگے۔ وہ جب’’تہذیبِ نفس‘‘ یا ’’تہذیب اخلاق‘‘ کا ذکر کرتے تھے تو اس سے ان کی مراد نفس یا اخلاق کی طہارت یا اصلاح ہوتی تھی۔

    تہذیب کی اصطلاح اردو تصنیفات میں ہمیں سب سے پہلے تذکرۂ گلشن ہند صفحہ 129 (1801ء) میں ملتی ہے۔ ’’جوان مؤدب و باشعور اور تہذیبِ اخلاق سے معمور ہیں۔‘‘ اسی زمانہ میں مولوی عنایت اللہ نے اخلاقِ جلالی کا ترجمہ جامعُ الاخلاق کے نام سے کیا۔ مولوی عنایت اللہ کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے خواصِ مخلوقات کو زیورِ تہذیبُ الاخلاق سے مہذب اور عوامِ موجودات کے تئیں ان کی بیعت سے ماَدب کیا۔‘‘ اسی نوع کی ایک اور تحریر کبیر الدین حیدر عرف محمد میر لکھنوی کی ہے۔ وہ ڈاکٹر جانسن کی کتاب تواریخِ راسلس کے ترجمہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’زبانِ اردو میں ترجمہ کیا کہ صاحبانِ فہم و فراست کو تہذیبِ اخلاق بخوبی ہو۔‘‘ (1839ء)

    ان مثالوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انیسوی صدی کے وسط تک ہمارے صاحبانِ علم و فراست کے ذہنوں میں تہذیب کا وہی پرانا تصور تھا جو فارسی زبان میں رائج تھا۔

    سر سید احمد خاں غالباً پہلے دانشور ہیں جنہوں نے تہذیب کا وہ مفہوم پیش کیا جو 19 ویں صدی میں مغرب میں رائج تھا۔ انہوں نے تہذیب کی جامع تعریف کی اور تہذیب کے عناصر و عوامل کا بھی جائزہ لیا۔ چنانچہ اپنے رسالے’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے سر سید پرچے کی پہلی اشاعت (1870ء) میں لکھتے ہیں کہ، ’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن (Civilisation) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے (سویلائزڈ) مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہووے اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں۔

    سویلائزیشن انگریزی لفظ ہے جس کا تہذیب ہم نے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعالِ ارادی، اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقۂ تمدن اور صرفِ اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکین و وقار اور قدر و منزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘
    (منقول از دبستانِ تاریخِ اردو مصنّفہ حامد حسن قادری 1966)

    سرسید نے کلچر اور سویلائزیشن کو خلط ملط کردیا ہے لیکن اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ خود بیشتر دانیانِ مغرب کے ذہنوں میں اس وقت تک کلچر اور سویلائزیشن کا تصور واضح نہیں ہوا تھا۔

    سرسید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ انہوں نے ہمیں تہذیب کے جدید مفہوم سے آشنا کیا۔ تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ ’’جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہشِ تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سویلائزیشن ہے۔‘‘ (مقالاتِ سر سیّد )

    سرسید احمد خاں نے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں اب سے سوسال پیشتر ایسی معقول باتیں کہی تھیں جو آج بھی سچی ہیں اور جن پر غور کرنے سے تہذیب کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    تہذیب کی خصوصیات
    تہذیب اور انسان لازم اور ملزوم حقیقتیں ہیں۔ یعنی انسان کے بغیر تہذیب کا وجود ممکن نہیں اور نہ تہذیب کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ تہذیب انسان کی نوعی انفرادیت ہے۔ یہی انفرادیت اس کو دوسرے جانوروں سے نوعی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے۔ گویا ان میں بعض ایسی نوعی خصوصیتیں موجود ہیں جو دوسرے جانوروں میں نہ ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں اور انہی خصوصیتوں کے باعث انسان تہذیبی تخلیق پر قادر ہوا ہے۔

    مثلاً انسان ریڑھ کی ہڈی کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں پر سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل آزاد رہتے ہیں۔ اس کے شانوں، کہنیوں اور کلائیوں کے جوڑوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ پورے ہاتھ کو جس طرح چاہے گھما پھرا سکتا ہے، ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں جو تین تین جوڑ ہیں ان کی وجہ سے انگلیاں بڑی آسانی سے مڑ جاتی ہیں اور انسان ان انگلیوں سے طرح طرح کے کام لے سکتا ہے مثلاً وزنی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور نئی نئی چیزیں پیدا کرنا۔ ان فطری اوزار کی بدولت ہی انسان ہر قسم کے آلات و اوزار بنانے پر قادر ہوا ہے۔ دوسرے جانور اپنے آلات و اوزار، پنجے، دانت، چونچ، کانٹے وغیرہ کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکتے۔ انسان اپنی تمام تخلیقات کو اپنے جسم سے الگ کر لیتا ہے۔ خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔ دوسری جسمانی خصوصیات جو انسان کو اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اس کی دو آنکھیں ہے جن کا فوکس ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو فاصلے کا تعین کرنے، آلات و اوزار بنانے، شکار کرنےاور چھلانگ لگانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    انسان واحد حیوان ہے جس میں گویائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی فطری یا خداداد صلاحیت نہیں ہے بلکہ انسان نے دماغ، زبان، دانت، تالو، حلق اور سانس کی مدد سے اور آوازوں کے آہنگ سے بامعنی الفاظ کا ایک وسیع نظام وضع کر لیا ہے۔

    زبان انسان کی سب سے عظیم الشّان سماجی تخلیق ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان اپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور چیزوں کا رشتہ زمان و مکان سے جوڑتا ہے یعنی وہ دوسروں سے ماضی، حال، مستقبل اور دور و نزدیک کے بارے میں گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اس طرح آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب کا نہایت بیش بہا قیمت اثاثہ چھوڑ جاتا ہے۔

    انسان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور حقیقی معنی میں سماجی حیوان بھی نہیں ہے۔ بھیڑوں کے گلّے، ہرنوں کی ڈاریں اور مرغابیوں کے جھنڈ بظاہر سماجی وحدت نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی سماجی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ اکائیاں ہیں۔ وہ نہ مل کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور نہ ان کی زندگی کا مدار ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے طبعی اوصاف یہی ہیں۔

    اسی طرح جانور کسی چیز یا واقعے کو کوئی مخصوص معنی نہیں دے سکتے۔ یعنی وہ علامتوں کی تخلیق سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان اشیاء اور واقعات کو نئے نئے معنی دیتا رہتا ہے۔ مثلاً جانور کے نزدیک چشمے کے پانی اور چاہِ زم زم کے پانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ کروڑوں انسانوں کے نزدیک آبِ زَم زَم نہایت مقدس پانی ہے۔ یہی حال عید، بقرعید، شبِ برأت، محرّم اور دوسرے تاریخی دنوں کا ہے کہ انسان کے لیے ان کی ایک خاص اہمیت ہے جب کہ جانوروں کے لیے سب دن یکساں ہوتے ہیں۔ جانور آپس میں خاندانی رشتے بھی قائم نہیں کرسکتے۔ ان میں دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، بھائی بہن کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ والدین اور ا ولاد کا رشتہ بھی بچّوں کے بڑے ہوجانےکے بعد بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔

    جانوروں کے جنسی تعلقات کی نوعیت بھی انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جانور بھی جوڑا نبھاتے ہیں مگر ان میں جوڑا کھانے اور بچّے پیدا کرنے کا مخصوص موسم ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح وہ ہر موسم میں جنسی تعلقات قائم کرنے یا نسلی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کا جنسی عمل کسی سماجی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ اس عمل میں وقت اور جگہ کی تبدیلی سے کوئی فرق آتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کے جنسی ضابطے برابر بدلتے رہتے ہیں۔

    انسان کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں دیوی، دیوتا، بھوت پریت، جن، شیطان، جنت، دوزخ، جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ کا بھی رواج نہیں ہے۔ اسی طرح جانور نہ تو خودکشی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں موت کا شعور ہوتا ہے۔

    یہ انسان کی خالص نوعی خصوصیات ہیں جو دوسرے کسی جانور میں موجود نہیں ہیں اور نہ وہ تربیت سے اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔

    انسان کے نوعی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے سر سیّد احمد خاں لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے اعضا اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اس کو یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کرسکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں سے لے سکتا ہے جو اس کے بڑے مطیع کار پرداز ہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آرام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مرتبہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے۔‘‘ (مقالات سرسید، لاہور 1963ء)

    تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ طبعی ماحول کے تابع تھا۔ وہ نہ تو اس ماحول پر قابو پانے کی قوت رکھتا تھا اور نہ اس میں اپنے ماحول کو بدلنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تھی لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے مجبور ہو کر اپنے طبعی ماحول کو بدلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ چنانچہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان کی پوری تاریخ طبعی ماحول یا قدرت کی تسخیر کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ چنانچہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنے طبعی ماحول کو اب اتنا بدل دیا ہے کہ اگر دو ہزار سال پہلے کا کوئی باشندہ دوبارہ زندہ ہو کر آئے تو وہ اپنی جائے پیدائش کو بھی پہچان نہیں سکے گا۔

    پتھر کی تہذیب ہو، یا کانسی، لوہے کی، بہرحال انسانوں ہی کی جسمانی اور ذہنی محنتوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ انہی کے ذہنی اور جسمانی قویٰ کے حرکت میں آنے سے وجود میں آتی ہے، لہٰذا کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی سے کس حد تک کام لیا ہے۔

    اگر کوئی معاشرہ روحِ عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، اگر نئے تجربوں، تحقیق اور جستجو کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اس کی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل ان کے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجامِ کار فنا ہو گئیں۔

    (نام وَر ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سیّد سبط حسن کے فکری و علمی مضمون سے اقتباسات)

  • ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    سنہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ادیبوں اور شعرا میں ساحر لدھیانوی بھی شامل تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مقبول شاعر تھے، ان کی مقبولیت ایسی تھی جو اُن کے بعض ہم عصروں کے لیے باعثِ رشک تھی تو اکثر اہلِ قلم میں اُن کے لیے رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔

    ’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا جس کے چند شمارے ساحر لدھیانوی کے زیرِ ادارت شایع ہوئے۔ اس دور میں‌ ایسے انقلابیوں اور کمیونسٹوں پر حکومت کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ ساحر اپنی شاعری اور اس رسالہ میں اپنے مضامین کے ذریعے انقلابی فکر کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ یہاں لاہور کے قیام کے دوران ساحر لدھیانوی نے سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی تھی۔ سویرا کا چوتھا شمارہ ان کے زیرِ‌ ادارت آخری شمارہ تھا۔ اسی سویرا کے تیسرے پرچے میں ساحر نے مدیر کی حیثیت سے فیض احمد فیض کے بارے میں چند خوب صورت سطریں‌ سپردِ قلم کی تھیں۔ انھوں نے فیض کو اس وقت ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر لکھا۔ ساحر کی تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "فیض احمد فیض: ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر ہے۔ بہت کم لکھتا ہے، لیکن جب لکھتا ہے تو پڑھنے والوں کے ساتھ لکھنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اردو کے نوجوان شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو گا جس نے اس کے انداز بیان اور اسلوبِ فکر سے اثر نہ لیا ہو۔

    فیض وہ پہلا فن کار ہے جس نے جدید شاعری اور انفرادی دکھوں کو سماجی پس منظر میں جانچنا سکھایا اور رومان اور سیاست کا سنگم تلاش کیا۔ دو ایک برس سے تکلیف دہ حد تک خاموش رہنے لگا ہے، جیسے اب کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہو لیکن فرصت نہ ملتی ہو۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی حادثہ کسی نہ کسی گوشے سے ابھر کر اس کے جذبات کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور وہ کچھ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اپنی مخصوص مدھم اور ملائم لے میں ‘سحر’ ایک ایسے ہی حادثے کی پیدوار ہے۔

    بچپن سیالکوٹ میں گزرا۔ ایم اے کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر اور ہیلی کالج لاہور میں بطور پروفیسر کام کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں لیفٹننٹ، میجر اور کرنل کے عہدے بھی سنبھالے، آج کل پاکستان ٹائمز لاہور کا ایڈیٹر ہے، اور آنکھوں کی گہری افسردگی اور لبوں کی موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی کا ساتھ نبھا رہا ہے۔”