Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں 1857ء ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے اس کو شورش قرار دیا تو کسی نے غدر اور فوجی بغاوت سے تعبیر کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے 1857ء کو آزادی کی پہلی جنگ یا قومی تحریک کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ غرض کہ ڈیڑھ سو سال قبل 9 مئی 1857ء کو جو فوجی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی وہ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگِ آزادی کی پہلی آواز تھا۔

    تاریخ اور ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ملکی اور غیر ملکی مؤرخ 1857ء کی بغاوت کی ماہیت کے بارے میں جتنی بھی بحث کریں لیکن ہندوستان کے عوام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ میرٹھ کی یہ بغاوت ہماری قومی تحریک کا سر چشمہ ہے۔

    خود فیلڈ مارشل لارڈ رابرٹس نے تسلیم کیا ہے کہ ’’حکومتِ ہند کے سرکاری کاغذات میں مسٹر فارسٹ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جو روغنی محلول استعمال کیا گیا تھا، واقعی وہ قابلِ اعتراض اجزاء یعنی گائے اور سؤر کی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصبات اور جذبات کی مطلق پروا نہیں کی گئی۔

    1857ء کے اس خونیں انقلاب میں میرٹھ کے 85 بہادر سپاہیوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، جذبۂ ایثار، مادرِ وطن کی خاطر مذہبی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے والے اور گائے کی پوجا کرنے والے، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور منتروں کا جاپ کرنے والے ہندوؤں نے مل کر بغاوت کی۔

    میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصہ کی طرف کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ’’ بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔‘‘ انقلابیوں کے اس حقارت آمیز نعرے میں تین الفاظ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے یعنی ’’ہندو اور مسلمان ‘‘۔ ان تین الفاظ میں اس بات کی تلقین کی جا رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان مل کر یہ قومی جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر غلامی سے نجات نہیں ہو سکتی۔ اس اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔

    میرٹھ کے فوجیوں میں انقلاب کی روح پھونکنے والا شخص عبداللہ بیگ نام کا ایک بر طرف فوجی افسر تھا جس نے اپنے ہم وطن فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کارتوس تمہیں دیے جا رہے ہیں ان میں سؤر اور گائے کی چربی لگی ہوئی ہے اور سرکار تمہاری ذات بگاڑنے کی خواہش مند ہے۔ میرٹھ فوج کے دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی نائک اور قدرت علی نے سب سے پہلے 23 اپریل 1857ء کی رات کو ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ کی اور اسی وقت ہندو اور مسلم فوجیوں نے مقدس گنگا اور قرآن شریف کی قسمیں کھا کر حلف لیا کہ وہ اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے۔ 24 اپریل 1857ء کو فوجی پریڈ گراؤنڈ پر نوے فوجیوں میں سے 85 فوجیوں نے جن میں سے اڑتالیس مسلمان اور37 ہندو تھے کمپنی کمانڈر کرنل اسمتھ (Smyth) کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ چربی والے کارتوس اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ ایک فوجی عدالت میں ان سپاہیوں کو پیش کیا گیا اور جابر فوجی عدالت نے تمام سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جو جنرل ہیوٹ (Hewitt) نے مسترد کر دی۔

    9 مئی 1857ء کو ہندوستانی رسالے کی پلٹن کو میدان میں آنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف توپ اور گورا فوج تیار کھڑی تھی۔ پچاسی سپاہیوں کو ننگے پاؤں پریڈ کراتے ہوئے میدان میں لایا گیا اور چار سپاہیوں کو وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور بقیہ اکیاسی سپاہیوں کی وردیاں پھاڑ کر اتار دی گئیں، فوجی میڈل نوچ لئے گئے اور وہاں پہلے سے موجود لوہاروں سے ان باغی سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔

    جو سپاہی پلٹن میدان سے واپس آ گئے تھے ان میں نفرت اور غصہ پھوٹ رہا تھا اور انہوں نے 10 مئی کو اتوار کے دن جب سبھی انگریز فوجی افسر گرجا گھر میں اتوار کی عبادت کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ یکایک چند جوشیلے نوجوانوں نے مشتعل ہو کر ہندوستانی سپاہیوں کی بیرکوں میں آگ لگا کر آزادی کی جد و جہد کا اعلان کر دیا۔ کرنل فینس (Finnis) سب سے پہلے ان انقلابی سپاہیوں کی گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد نو اور انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جن کی قبریں آج بھی میرٹھ۔ رڑکی روڈ پر واقع سینٹ جونس سیمٹری میں اس تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین نے ہزاروں انگریزوں کے قتلِ عام کا حوالہ دیا ہے مگر میرٹھ کے قدیمی مسیحی قبرستان میں صرف دس قبریں ہیں جو دس مئی کے واقعہ کی خاموش گواہ ہیں۔

    ان انقلابی فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں میرٹھ کے صدر بازار کی چار طوائف صوفیہ، مہری، زینت اور گلاب کو بھی بہت دخل ہے۔ ان فوجیوں کو ان طوائفوں نے ہی وطن پرستی کے لئے للکارا تھا اور اس طرح 1806ء میں قائم میرٹھ کی فوجی چھاؤنی دیکھتے دیکھتے ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی۔

    ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ ان عورتوں نے لعن و طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نارِ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور ان کی چرب زبانی آتشِ فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کیے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہی گری کا دعویٰ کرتے ہو مگر نہایت بزدل بے عزت اور بے شرم ہو۔ تم سے تو ہم عورتیں اچھی ہیں تم کو شرم نہیں کہ تمہارے سامنے افسروں کے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پڑ گئیں مگر تم کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتھیار ہم کو دے دو ہم افسروں کو چھڑا کر لاتی ہیں۔ ان کلمات نے اشتعال طبع پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردانگی کی آگ بھڑک اٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ میرٹھ کے اس واقعہ نے عام بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور آگ کی طرح یہ خبریں پھیل گئیں تھیں۔ میرٹھ چھاؤنی کی اس چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلۂ جوالہ بن کر پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    اسی دوران انقلابیوں نے میرٹھ سینٹرل جیل کے دروازے توڑ دیے، کھڑکیاں اکھاڑ پھینکیں اور ایک دن پہلے جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان کے ساتھ تقریباً بارہ سو قیدی بھی جیل سے نکل بھاگے۔ بعض قیدی ہتھکڑی اور بیڑی لگے ہوئے وہاں سے چل دیے اور عبداللہ پور، بھاون پور، سیال، مبارک پور ہوتے ہوئے مان پور پہونچے جہاں کسی نے انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں مان پور گاؤں کے ایک لوہار مہراب خاں نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو کنویں میں ڈال دیا۔

    میرٹھ کے عالم مولانا سید عالم علی اور ان کے بھائی سید شبیر علی جو صاحبِ کشف بزرگ تھے، دل کھول کر ان باغی سپاہیوں کی مدد کی۔ شاہ پیر دروازے سے نوچندی کے میدان تک ہزاروں جوان سر بکف آتشِ سوزاں بنے ہوئے نبرد آزما دکھائی دے رہے تھے۔ یکایک کپتان ڈریک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لئے ہاپوڑ روڈ پر نمودار ہوا اور ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہاں زبردست قتلِ عام ہوا۔ 11 مئی1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی گئی جن میں سید عالم اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔ شہر کے باشندے یہ خبر سن کر بھڑک اٹھے اور اسی دن سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دھوئیں سے آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔

    میرٹھ کے ممتاز شاعر مولانا اسمٰعیل میرٹھی جو خود اس ہنگامے کے عینی گواہ تھے ان کے بیٹے محمد اسلم سیفی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ دس مئی 1857ء کا واقعہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی 14تاریخ اس دن تھی۔ پڑوس میں دعوت روزہ افطار کی تھی۔ مولانا اور دیگر اعزا اس میں شریک تھے۔ یکایک ہولناک شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    معلوم ہوا کہ جیل خانہ توڑ دیا گیا ہے اور قیدی بھاگ رہے ہیں۔ لوہار ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ شہر کے لوگ سراسیمہ ہر طرف رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ کثیر التعداد آدمی جیل خانہ کی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے قلب پر اس ہنگامہ کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس عظیم الشان ہنگامۂ دار و گیر کا تلاطم۔ دہلی کی تباہی کا نقشہ، اہلِ دہلی کا حالِ پریشان، ان باتوں نے مولانا کے دل و دماغ پر بچپن ہی میں ایسا گہرا اثر بٹھایا کہ آئندہ زندگی میں فلاح و بہبود و خلائق کے لئے بلا لحاظ دین و ملت یا ذات پات مصروفِ کار رہے۔‘‘ مولانا اسماعیل میرٹھی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

    ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
    ہے وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
    جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
    بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

    (برصغیر کی تاریخ پر مبنی تحقیقی کتاب "میرٹھ اور1857ء” سے اقتباس، تالیف و تدوین ڈاکٹر راحت ابرار)

  • غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    میں نہ تو غالب کا ماہر ہوں اور نہ ہی میں نے غالیبات کے سلسلے میں لکھی گئی ساری کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں، ہاں چند کتابوں اور چند مضامین کا مطالعہ کیا ہے اور کلیات غالب (ڈاکٹر گیان چند نسخہ عرشی کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح بھی ہے) کا مطالعہ کرنے کا شرف ضرور حاصل ہے، اس لیے میں اپنے ’’پراگندہ ذہن‘‘ کی مدد سے چند باتیں لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں۔

    غالب کے ماہرین اور محققین سے بہ صد عجز عرض ہے کہ دیوانے کی ہو بھی کبھی کبھی قابل توجہ ہوتی ہے۔

    مجھے ہمیشہ کی طرح غالب کی شخصیت کا مطالعہ ایک ایسے ڈیلیما سے دوچار کرتا ہے جس کا حل آسان نہیں ہے۔ غالب کے محققین نے ان کی شخصیت کے اتنے ایکسرے پیش کیے ہیں کہ ان کی زندگی کے شب و روز کبھی دھوپ اور کبھی چاندنی کی طرح تیز گرم، روشن اور ٹھنڈے دھندلے عکس نظر آتے ہیں مگر محققین کی اس ’’کام یابی‘‘ کے باوجود غالب کی شخصیت کے سارے پیچ و خم کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں۔ غالب سے مکمل تعارف بھی ایک قسم کی پراسراریت کو قائم رکھتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مکمل تجزیہ ہمیشہ تشنہ ہی رہے گا۔ غالب اپنے اشعار اور خطوط میں اتنا عریاں نہیں ہیں جتنا کہ قیس تصویر کے پردے میں تھا، اس لیے کہ قیس تو ایک یک رخا عاشق اور غالب ’’مجموعۂ اضداد‘‘ ہیں اور یہی رنگا رنگی ہے جو ہم لوگوں کے لیے ’سوہانِ روح‘ بن گئی ہے۔

    اگر اس پر یقین آ جائے کہ ان کی شخصیت کا جائزہ ممکن ہی نہیں ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے اور ان کی شاعری کے بارے میں یقین سے رائے دی جا سکتی ہے مگر ناتمامی اور تشنگی کا یہ مسلسل احساس ہی ان کی شخصیت اور شاعری کو اور بھی قابل توجہ بناتا ہے۔ جشن غالب (۱۹۶۹ء) کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نئے ناقدین غالب پر ’حملہ آور‘ ہوں گے اور غالب کی پرانی آرزو یعنی’’اڑیں گے پرزے‘‘ پوری ہوگی۔ تماشا تو خوب دھوم سے ہوا مگر کچھ نہ ہوا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالب آج بھی اردو تنقید پر خندہ زن ہیں۔ میری کیا بساط ہے کہ میں ان کی دیرینہ آرزو پوری کروں، میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں:

    رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    غالب کی شخصیت پر لکھے گئے درجنوں مضامین، غالب کے خطوط اور ان کی شاعری کا تمام تر مطالعہ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ وہ ایک Precocious Child تھے، کم عمری میں بالغ ہو گئے تھے۔ بچوں کی نفسیات کے ایک امریکی ماہر ڈاکٹر اسپاک Dr. Spock کا خیال ہے کہ ایسے ذہین بچے اکثر اپنی ذہانت کا خود شکار ہو جاتے ہیں اور بہت جلد تازگی اور ندرت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بچے شاید ان غنچوں کی طرح ہیں جو کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں مگر غالب اس تجزیے سے مستثنا نظر آتے ہیں۔ وہ خاصی کم سنی میں فارسی اور اردو زبانوں میں اعلیٰ پائے کے شعر موزوں کرنے کے اہل ہو گئے تھے، یہی نہیں پندرہ بر س کی عمر میں وہ آفات زمانہ کی تلخیوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا سلیقہ جان گئے تھے۔ ان کے خطوط ان کی کھلی ہوئی شخصیت Open Personality کی ا چھی مثالیں ہیں مگر اس کے باوجود اپنی شخصیت کے سارے پہلو عیاں نہیں کرتے ہیں۔

    وہ اپنی انا کے ساتھ خاکساری کے جواہر بھی پیش کرتے ہیں، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہونے کے باوجود دوستی کے حدود اور دشمنی کی بیکرانی سے واقف ہیں۔ وہ شخص جو کم سنی میں یتیم ہو گیا ہو، جس کو اپنی ماں سے کوئی خاص محبت بھی نہ ہو، جس نے کم عمری سے آزادانہ جنسی زندگی گزاری ہو اور جو اپنی شخصیت کی تعمیر میں اتنا کوشاں بھی نہ ہو کہ ہر قدم پر احتیاط کرتا ہو، ایسے شخص کی زندگی سے ساری نقابیں اٹھ جائیں تووہ عریاں نظر آئے گا مگر غالب پھر بھی اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر اپنے کو چھپانے والا شخص سہما ہوا اور اکثر بکتر بند نظر آتا ہے۔
    غالب کی بے پناہ ذہانت ان کا مطالعہ کرنے والی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ بذلہ سنج تھے، شاعر نغز گو تھے، ہشت پہلو شخصیت رکھتے تھے، پھر بھی یہ احساس کیسے قائم رہتا ہے کہ غالب سے ملے لیکن غالب کو نہ سمجھ پائے۔ مجھے دو ایک ماہر غالبیات سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرے مسلسل سوالات کے بعد بھی وہ میری تشفی نہیں کر سکے۔

    غالب کی شخصیت میں خود پر خندہ زن ہونے کی جو بے مثال صلاحیت ہے وہ انہیں (شاید) پراسرار بنائے رکھتی ہے۔ حالی کے ’’حیوان ظریف‘‘ کی ذہانت، فطانت اور ندرت تجزیہ نگار کو مبہوت کر دیتی ہے۔ آپ لاکھ ان کی شخصیت کو مختلف خانوں میں بند کرنے کی کوشش کریں وہ بند بھی نظر آتے ہیں اور نہیں بھی۔ اور ان کی شخصیت کے ایک پراسرار پہلو پر تیز شعاعیں ڈالی جائیں یعنی ان کے طنز و مزاح کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو وہ کبھی ایک دل جلے کی ہنسی ہنستے ہیں جیسے:

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
    ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

    مگر یہ تبسم بھی پھیکا نہیں ہے اور معنی خیز ہے اور کبھی ایک ایسے دانشور کے تبسمِ زیرِ لب کا احساس ہوتا ہے جو دل ہی دل میں قہقہے لگاتا ہے مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی پوری طرح قائم رہتی ہے، صرف آنکھوں کی چمک شوخ تر نظر آتی ہے:

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    وہ شخصیت جو اپنے ’’یارب‘‘ سے اتنے گہرے دوستانہ مراسم رکھتی ہو، اس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگانا: دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غالب کی آزادانہ شخصیت اپنی آزادی کے حدود سے واقف تھی۔ وہ زخمی ہوکر اپنا ضبط و غم نہیں کھوتے بلکہ اپنی شکست کو بھی ایسے طنز آمیز تبسم سے قبول کرتے ہیں کہ فاتح بھی ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائے۔ چارلی چپلین نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کہیں لکھا ہے کہ ’’وہ مسخرہ کس کام کا جو دوسروں کو صرف ہنسا سکے۔‘‘ غالب تبسم کی زیریں لہر میں خاموش غم کو بھی اس طرح سمونے کا فن جانتے تھے کہ آدمی دکھی ہو کر بھی ان کی خندہ زنی میں شریک ہو جاتا ہے، بے دلی سے نہیں بلکہ کشادہ دلی سے:

    ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
    یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

    اور اس شعر کا ’’اگر‘‘ گناہوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ ناکردہ گناہوں کو جنسی تلذذ کی خواب بندی کہا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کا بنیادی مطالعہ ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ یتیم تھے مگر ان کا بچپن محرومیوں سے بہت دور تھا۔ انہیں اپنے باپ کی یاد بھی بہت کم آتی ہے۔ گو کہ خطوط میں وہ اپنے باپ اور چچا کی موت کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ خورشید الاسلام کا خیال ہے کہ ’’افسردگی اور تصوف سے دلچسپی کے اسباب ان کے تجربوں میں ڈھونڈنے چاہیے۔‘‘ یعنی یتیمی، کم عمری کی شادی اور ۲۵ برس کی عمر میں عشق۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ بچے کو اگر شروع میں محرومی کا احساس نہ ہو تو یتیم ہونے کے باوجود اپنے والد کے سائے کا خواہاں نہیں رہتا ہے بلکہ اس پودے کی طرح تیزی سے بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے جس پر کوئی برگد سایہ فگن نہیں ہوتا ہے، کیونکہ غالب کی شخصیت میں وسیع المشربی، رندی، شوخی اور طنز کے جو بنیادی عناصر ہیں وہ اسی وجہ سے اتنے گہرے اور پائیدار ثابت ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

    جنس کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کو عام بنے بنائے پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا، اس لیے خورشید صاحب نے شخصیت کے نقوش اجاگر کرنے کے لیے جو پیمانہ بنایا ہے وہ اپنی جگہ تمثیلی ہوتے ہوئے بھی غالب کے لیے نامناسب ہے۔ ان کی کم عمری میں شادی بھی اسی لیے کی گئی تھی کہ انہیں آزادانہ زندگی بسر کرنے سے روکا جا سکے۔ اسی لیے انہوں نے شادی کو’بیڑی‘ کہا ہے، ورنہ وہ اپنی بیوی سے محبت نہ کرتے ہوئے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت اولادیں ہیں۔ ہاں ان کے عشق کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ حمیدہ سلطان نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’امراؤ بیگم نے ان کے (غالب کے) ذوق شعر کو بلند کیا، کردار کو پاکیزگی بخشی، آگرے کی بے راہ روی اور رنگ رلیاں دلّی کے مستقل قیام کے بعد تقریباً ختم ہو گئیں۔‘‘ حمیدہ سلطان کے اس بیان پر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے صحیح نکتہ چینی کی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر خود حمیدہ سلطان یہ بھی کہتی ہیں کہ ترک نامی ایک خاتون تھی جس سے مرزا کا عشق تھا۔ محترمہ کے الفاظ ہیں:

    ’’مرزا کی شاعری کا بے مثل حسن، انفرادی بانک پن جس نگہِ ناز کا عطیہ ہے، مرزا کے فکر کو جس دلکش خیال نے رنگینی و دل آویزی بخشی، اس شعلہ خُو حسینہ کے حسنِ صورت پر ہی نہیں حسنِ سیرت و ذہانت پر بھی مرزا فریفتہ تھے۔ بہت ممکن ہے کہ غالب کے ہر شعر میں جو دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، وہ ترک کا عطیہ ہو۔‘‘ (اقتباس از مضمون ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، نقوش غالب نمبر ص ۳۶۸، ۱۹۶۹ء)

    یہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ ان سے غالب کا عشق ثابت کرنا ایک قسم کی قیاس آرائی ہے۔ اصل میں غالب کا کوئی ایک محبوب نہیں ہے۔ وہ نہ بھونرے ہیں اورنہ مگس، ان میں ان دونوں کی ایک ایک خوبی ہے یعنی حسن پرستی مگر یہاں بھی غالب کی دانشورانہ طراری کبھی سپر نہیں ڈالتی، وہ اپنے آپ کو کسی حسین سے کمتر نہیں سمجھتے تھے اور یہ خود نگری اور خود سری اس انا کو جنم دیتی ہے جو ان کی ہمیشہ ممد و معاون رہی اور تیزابی ذہانت کے ساتھ ساتھ وہ درد مند دل بخشا کہ اس کو کسی ایک نفسیاتی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ہے۔

    کہا گیا ہے کہ جینیئس خود اپنا پیمانہ لے کر آتا ہے۔ جبھی تو غالب کی کم سنی، جوانی اور عمر کی خستگی کا اندازہ ایک پیمانے، ایک نظریے اور ایک معیار سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے غالب سے مستعار لے کر معیارات قائم کرنے ہوں گے، اس لیے کہ وہ صرف فخرِ عرفی اور رشک طالب نہیں تھے بلکہ ان سے اپنا الگ معیار رکھتے تھے۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • ذوق کے ساتھ غالب کا جھگڑا اور جواں بخت کا سہرا

    ذوق کے ساتھ غالب کا جھگڑا اور جواں بخت کا سہرا

    ہمارے اردو کے ممتاز شعرا میں ابراہیم ذوق اور مرزا اسد اللہ خان غالب، بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان سخت نوک جھونک ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ذوق اور غالب کی معرکہ آرائی معاصرانہ چشمکوں سے زیادہ حیثیت کی نہ تھی لیکن ذوق کے مقابلے میں غالب کے یہاں معاندانہ جذبات زیادہ نظر آتے تھے۔ ناقدین ادب نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

    اردو ادب اور مشاہیر سے متعلق تحریریں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بادشاہ کی ملکہ زینت محل کی فرمائش پر مرزا جواں بخت کے سہرے کے موقع پر ذوق اور غالب کے درمیان کافی حملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اردو کے ممتاز ادیب محمد حسین آزاد نے ذوق و غالب کے ایک معرکے کا حال بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں درج کیا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ناقدین ادب میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد دونوں نے بیک زبان اس بات کی گواہی دی ہے کہ ذوق اور غالب دونوں ہی طبعاً ایسے نہ تھے جو کسی کی طرف سے دل میلا کرتے یا کسی کی ہجو کر کے اسے آزار پہنچاتے۔

    پروفیسر احتشام حسین نے اپنے مضمون ’’ذوق و غالب‘‘ میں دونوں ہم عصروں کی باہمی چشمک کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ انہی کے الفاظ میں درج کی جاتی ہیں۔ شعراء حساس ہوتے ہی ہیں اگر انہیں ایک دوسرے سے شکایت رہی ہو تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’اتفاق تھا کہ بہادر شاہ ظفر نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں ذوق کو اپنا استاد بنا لیا اور گو انہیں صرف چار روپے مہینہ تنخواہ ملتی تھی لیکن یہ اعزاز کیا کم تھا کہ لال قلعہ میں ان کی رسائی تھی اور شہزادے انہیں استاد ذوق کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ معلوم نہیں کہ ابتداً غالب نے اس کا اثر لیا یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف تو وہ اس اعزاز سے محروم رہے دوسری طرف وہ فارسی آمیز اردو شاعری، وہ بیدل کا رنگ فکر جس میں شعر کہنا وہ خود بھی قیامت سمجھتے تھے، دلّی کے عام حلقوں میں مقبول نہ ہو سکا۔

    سر دست اس بحث کو طول نہ دیتے ہوئے ہم ذوق اور غالب کے درمیان پیش آئے ایک معرکے کی روداد پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح غالب نے بادشاہ کے بیٹے کا سہرا لکھ کر شاہ ظفر کے استاد ذوق کو چیلنج کیا تھا۔ ذوق کے ساتھ ان کے جھگڑے کی اسی صورت حال کے دوران بادشاہ کی ملکہ زینت محل نے غالب سے مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر ایک سہرا لکھنے کی فرمائش کی۔ غالب نے حکم کی تعمیل میں یہ سہرا لکھ کر پیش کیا۔

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
    دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا

    اگرچہ مقطع میں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی جو دونوں استادوں کے درمیان نزاعی جنگ اختیار کر لیتی مگر چونکہ دلوں میں پہلے سے غبار موجود تھا اور اس سے پیشتر’ بنا ہے شہ کا مصاحب‘ والی باتیں تحت الشعور میں بیٹھی ہوئی تھیں پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ خود غالب دربار میں جگہ پا چکے تھے، اس لیے اس شعر کو ذوق کے لیے چیلنج تصور کیا گیا۔

    غالب کی جانب سے اس حملہ کے بعد ظاہر ہے استاد ذوق نے محاذ سنبھالا۔ ان کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع میسر آسکتا تھا۔ انہوں نے غالب کے سہرے کو سامنے رکھ کر جواباً سہرا لکھا اور اپنے مقطع میں غالب کے چیلنج کو قبول کر کے بھرپور جواب دیا۔

    جس کو دعوی ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
    دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا

    دو بڑے شعرا کے درمیان ایک ہی زمیں پر لکھا گیا سہرا پڑھ کر ناقدین ادب آج بھی اس پر بحث کرتے ہیں۔ کسی کو غالب کا تو کسی کو استاد ذوق کا سہرا اچھا لگتا ہے۔ لیکن بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ بلاشبہ ذوق کا لکھا ہوا سہرا فنی اعتبار سے بلند ہے اور اس اعتبار سے بھی وہ ذوق کے لیے مشکل تھا کہ اسی زمین میں غالب نے پہلے لکھ دیا تھا لہٰذا استاد ذوق نے شان دار جواب دے کر کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

    جب بہادر شاہ ظفر کے دربار تک ذوق کے سہرے کی گونج سنائی دی اور غالب کو معلوم ہوا کہ بادشاہ کے استاد سے ٹکر لینے میں ان کے لیے خیر نہیں ہے اس لیے موقع کی نزاکت محسوس کر کے غالب نے ایک معذرت نامہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کیا جس کے کچھ اشعار پیش ہیں۔

    منظور ہے گزارش احوال واقعی
    اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
    سو سال سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
    کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
    آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
    ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
    کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
    مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
    استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
    یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
    مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
    مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
    قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
    ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
    صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
    کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

    کہا جاتا ہے کہ غالب کے ان اشعار کو پڑھ کر بہادر شاہ ظفر نے غالب کو بخش دیا تھا۔

    (برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکلی کی ادبی تحقیق پر مبنی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • حفیظؔ ہی کیوں؟

    حفیظؔ ہی کیوں؟

    شیخ عبدالحفیظ سلیم کو اردو ادب میں حفیظ ہوشیار پوری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی ایک غزل پاکستان کے معروف گلوکاروں‌ کی آواز میں بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اسے پسند کیا جاتا ہے۔

    اس غزل کا مطلع ہے:
    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تیری محفل میں‌ لیکن ہم نہ ہوں گے

    یہی غزل شاید اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں‌ کے لیے حفیظ کا ایک تعارف اور حوالہ رہ گئی ہے، اور شاید حفیظ ان شعراء میں سے ایک ہیں جن کے کلام اور فن پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں‌ کی گئی۔ 5 جنوری 1912 کو پیدا ہونے والے حفیظ ہوشیار پوری 1973ء میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ اس خوب صورت شاعر کے کلام کے ایک انتخاب پر بطور مرتب ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ لکھتی ہیں:

    حفیظؔ کی غزل کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے۔ ان کی شاعری محبت میں تہذیب و شائستگی کی وہ مثال ہے جو جدید اردو غزل کے لیے نئی تو نہیں لیکن کمیاب ضرور ہوتی جا رہی ہے۔

    حفیظؔ غزل کی اس روایت سے منسلک ہیں، جس کے سلسلے کی پہلی کڑی میرؔ تھے۔ حفیظؔ کی غزل، غزل کے معیار پر پوری اترتی ہے کہ غزل زخمی ہرن کی آہ کا نام ہے۔ حفیظؔ کی شاعری میں اس آہ کی گونج ہے۔ غزل تیرِ نیم کش کی کسک ہے، یہ چبھن حفیظؔ کی غزل میں جا بجا نظر آتی ہے۔ غزل، محبوب سے باتیں کہنے سننے کا فن ہے، حفیظؔ کی غزل اس سے عبارت ہے۔ غزل ذاتی واردات کا بیان ہے۔ شاعر کائنات کا فرد ہے، چنانچہ کائنات بھی ذات کے حوالے سے غزل میں عیاں ہوتی ہے۔ حفیظؔ کی غزل میں ذات و کائنات کا آہنگ موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ذات نمایاں رہتی ہے۔

    حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ مسائل سے تہی نہیں لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ فلسفیانہ فکر کی نشو و نما کے لیے تین مرحلے ناگزیر ہیں۔ پہلا مرحلہ عقلیت کا ہے، جس سے انسان اپنی ذات اور کائنات کا علم حاصل کرتا ہے۔ دوسرا مرحلہ حسّیت کا ہے کہ اب انسان معلوم کرنے کے بجائے محسوس کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تیسرا مرحلہ وہ ہے کہ جب انسان عالم معلوم اور عالم محسوس کو کبھی رد کرتا ہے اور کبھی قبول اور نقد و نظر سے کام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ عقل و حواس دونوں ہی علم کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔ حفیظؔ کی غزل اسی معلوم اور محسوس کرنے کا بیان ہے لیکن ان کی غزل ثابت کرتی ہے کہ وہ عقل کی برتری کے قائل نہیں۔

    تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
    سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے

    حفیظؔ کی غزل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا، اسے کسی تجربہ گاہ کی حیثیت کبھی نہیں دی جب کہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ساٹھ کی دہائی ہر صنف میں تجربات کا ایک طوفان لیے ہوئے ظاہر ہوئی تھی۔ چوک میں تانگہ الٹ جانے سے لے کر گاہک کا کال دیکھ کر دھندا بدل دینے تک سبھی تجربے اور مشاہدے اپنی تمام تر اسلوبی اور موضوعاتی کرختگی و درشتی کے ساتھ غزل میں در آئے تھے۔ وہ تمام موضوعات انتظار، اداسی، تنہائی، محرومی، یافت و نایافت، محبت کی طلب، ترکِ محبت کی آرزو، اپنی ذات کی تلاش وغیرہ، جو ابتدا سے غزل کا حصّہ رہے ہیں، حفیظؔ کی غزل میں بھی موجود ہیں لیکن صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان عمومی موضوعات پر ایسے اشعار مل جاتے ہیں جہاں کسی اور شاعر کے تخیّل کی پرواز نہ پہنچ پائی تھی۔ انتظار کے موضوع پر حفیظؔ کا یہ شعر دیکھیے جو آج زبانِ زدِ عام ہے اور جس میں انسانی نفسیات کے ایک گہرے اور پیچیدہ پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
    اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

    حفیظؔ کی شاعری میں زمانے کے سیاسی نشیب و فراز کا گہرا شعور بھی ملتا ہے۔ قیامِ پاکستان، ہجرت اور پھر سیاسی رہنماؤں کا طرزِ سلوک سبھی رویّوں کا بیان ہے۔

    خوفِ رہزن بھی ہے اندیشۂ رہبر بھی حفیظؔ
    منزلیں سخت ہیں آغازِ سفر سے پہلے

    حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظر نہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔ ان کی غزل کا دھیما لہجہ بڑی سے بڑی بات بالکل عام انداز میں کہہ دینے کا فن، کہ قاری پہلے سرسری گزر جاتا ہے پھر سوچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ خیال اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔ ایجاز و اختصار، سادگی، روانی، نغمگی، لطیف انداز بیان، زیر لبی اور مترنم طرز ادا ان کی غزل کے خاص اوصاف ہیں۔

    آغازِ محبت سے انجامِ محبت تک
    محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں

    مختصر یہ کہ حفیظؔ کا کلام انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک عام شعر کہنے والا شاعر زیادہ مشہور ہو جاتا ہے۔ (مشہور اور مستند میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) اور کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ ایک اہم اور معتبر شاعر زمانے کی ناقدری کے ہاتھوں پامال ہو کر خاک میں جا سویا اور ساتھ ہی اس کا کلام بھی۔

    حفیظؔ وہ شاعر تھے، جو ایک طویل عرصے تک اہم سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ وہ زندگی میں اپنا مختصر مجموعۂ کلام بغیر کسی دشواری کے شائع کروا سکتے تھے لیکن فطری بے نیازی اور بے داغ تکمیلیت کی عادت کے باعث وہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور جو مجموعۂ کلام ان کی وفات کے بعد منصۂ شہود پر آیا وہ ان کی مکمّل نمائندگی نہیں کرتا۔ پھر ان چند خوش قسمت مرحوم شعراء، کہ جن پر ان کی وفات کے بعد مسلسل اور خاصا اہم کام ہو رہا ہے، کے برعکس حفیظؔ کی شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ متقاضی تھی۔

    حفیظؔ کی غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں میرؔ کا سوز، غالبؔ کی ایمائیت، جگرؔ کا ایجاز و اختصار، اصغرؔ کی فلسفیانہ ژرف نگاہی، حسرتؔ کی اخلاقی اقدار کی پاس داری و مہذب و شائستہ انداز اور فراق ؔکی محبوبیت موجود ہے۔

    کیا شاعر اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتا، حفیظؔ کا انفرادی رنگ کیا تھا، کیا خوبی تھی ان کی غزل میں کہ ان کے ہم عصر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

    ’’اچّھے اشعار سب حفیظؔ کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں۔‘‘

    لفظ ’’مکمّل‘‘ کا استعمال بہت احتیاط کا متقاضی ہے لیکن حفیظؔ کے معاملے میں اسے برتا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مکمل شاعر، مکمل تاریخ گو اور مکمل محقّق تھے۔

    اس عصرِ ناپرساں اور عہدِ فراموشاں میں اردو ادب کے قاری کے ذہن سے اگر حفیظ محو ہوتا جا رہا ہے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ حفیظ کا مختصر تعارف اور کلامِ حفیظ کا انتخاب، حفیظ کو یاد کرنے اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی خواہش ہے۔

  • اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    شعرائے متقدمین اور نثر نگاروں کے درمیان ادبی معرکہ آرائی، معاصرانہ چشمک کے علاوہ بعض ایسے تنازع بھی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں‌ جن میں اپنے عہد کی نام ور شخصیات اور مشاہیر کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ جھگڑے کہیں خالص ادبی نوعیت کے تھے تو کبھی ان کی وجہ محض عداوت اور حسد رہا۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کو بھی اپنی مثنوی میں قدیم صوفی شعرا پر تنقید کے بعد اپنی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    ادبی تحریریں‌ اور علمی و تحقیقی مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فارسی کی مثنوی اسرارِ خودی کی اشاعت 1915ء میں ہوئی جو اقبال کے فلسفیانہ خیالات پر مبنی تھی۔ اسرارِ خودی کو چند سطروں میں سمیٹا جائے تو یہ ایسی مثنوی تھی جس میں اقبال نے اس دنیا کا تصور پیش کیا ہے جس میں مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنیاد پر متحد ہوں۔ اقبال کی فکر کہتی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے ‘خودی’ پر انحصار کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن صوفی شاعروں کے ترکِ دنیا کا فلسفہ بے عملی کی ترغیب دیتا ہے جو مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقبال نے صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ مسلمانوں کو گوشہ نشینی کی نہیں عملی میدان میں‌ اترنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اقبال نے فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی اور ساتھ ہی فلسفۂ وحدت الوجود پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بعض ایرانی شعرا نے وحدت الوجود سے متعلق جو نکتہ طرازیاں کی ہیں، وہ صرف پُرکشش ہیں، مگر اس شاعری نے تقریباً تمام اسلامی دنیا کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا ہے جسے خودی کا فلسفہ بیدار کرسکتا ہے۔

    ادبی تذکروں میں یہ تفصیل کچھ اس طرح پڑھنے کو ملتی ہے:

    علّامہ اقبال کی فارسی مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علّامہ نے تنقید کی تھی۔ انہوں نے حافظؔ پر 35 اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے دور رہنے کی تلقین کی تھی جس پر ادبی حلقوں میں بحث چھڑ گئی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ اہلِ تصوف علاّمہ سے بدظن ہوگئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظ شیرازی کا دفاع کیا، اسی طرح پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے ’اسرارِ خودی‘ کے جواب میں ’’رازِ بے خودی‘‘ کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں علاّمہ اقبال پر تنقید اور حافظ کا دفاع کیا گیا تھا۔

    فارسی کے عظیم شاعر حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ مؤخرالذّکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’اسرار خودی‘ کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط تحریر کیا:’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے، خلافِ اسلام ہے۔‘‘

    جب ’رموز بے خودی‘ شائع ہوئی تو اقبالؔ نے اس کا نسخہ اکبر الہ آبادیؔ کو بھی روانہ کیا جنھوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا: ’اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموزِ بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا۔‘ تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروا دی۔

    حافظ پر تنقید سے اہلِ تصوف بھی علّامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوّف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ 15 جنوری 1916ء کو علامہ اقبال نے ’’وکیل‘‘ میں ’اسرارِ خودی اور تصوّف‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس سے یہ سطور ملاحظہ ہوں:

    ’’شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملّی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افرادِ قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے۔‘‘

    انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو بھی اس کے دو ماہ بعد ایک خط میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا۔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔‘‘

    ادھر علاّمہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔ کے بارے میں اس طرح کی آرا پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔

  • قدریں ابدی اور حقیقی ہیں جن کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں

    قدریں ابدی اور حقیقی ہیں جن کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں

    ’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ معلوم نہیں شیخ فرید الدینؒ نے کس موقع پر کن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا لیکن اس کا اشارہ قدروں کی ترجمانی اور منتقلی کی طرف تھا اور اس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے اور اس وقت ہیں جو اپنے علم اور عمل کے ذریعے قدروں کا احساس پیدا کر سکتے اور اسے تقویت پہنچا سکتے ہیں۔

    کیا اچھا ہوتا اگر بحث شروع کرنے سے پہلے صاف صاف بتایا جا سکتا کہ ’’قدروں‘‘ سے کیا مراد ہے اور انہیں ایک سے دوسرا کیسے حاصل کر سکتا ہے، یعنی ترجمانی کا منصب کس طرح ادا کیا جاتا ہے۔

    مشکل یہ ہے کہ جب کبھی کسی تصور کی واضح تعریف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یقینی باتوں کا بھی اعتبار نہیں رہتا۔ ہم زندہ ہیں پھر بھی نہیں بتا سکتے کہ زندگی کیا ہے، خوش اور مطمئن ہوں تب بھی یہ نہیں سمجھا سکتے کہ خوشی اور اطمینان کی ماہیت کیا ہے، ہم کا میابی کی آرزو کرتے ہیں مگر جب سوچتے ہیں کہ دراصل اس سے کیا حاصل ہوگا تو وہ ایک دھوکا معلوم ہوتی ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ایمانداری، حیا، سچائی، سخاوت، شرافت کا کوئی تصور، کوئی معیار موجود نہ ہو یا اس پر عمل نہ کیا جاتا ہو تو انسانی زندگی ناقابل برداشت ہو جائے گی، اس لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کی کوشش کرتے ہیں کہ ایمانداری، سچائی وغیرہ کی ضرورت اور ان کی قدر کو محسوس کرتے اور کراتے رہیں۔ لیکن اس میں بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کسی ایک قدر، مثلاً ایمانداری کو لے لیجیے اور ادھر ادھر نظر دوڑائیے تو اس کی ایک مثال کے مقابلے میں بے ایمانی کی دس مثالیں ملیں گی اور کامیابی کی عام طور پر مسلمہ علامتوں کے مطابق دیکھیے تو شاید آخر میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ایمانداری سے فائدہ پہنچنے کا لگ بھگ اتنا ہی امکان ہے جتنا کہ بے ایمانی سے نقصان پہنچنے کا۔

    پھر ہر سماج میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمانداری کا کوئی فرضی معیار اس مصلحت سے قائم کر لیا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے لیے ایک آڑ ہو جائے۔ چند ایماندار لوگ اس معیار کو صحیح اور قطعی مان کر دھوکا کھاتے ہیں اور جو اس معیار کو عملاً نہیں مانتے انہیں سچا فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ گویا معمولی روز مرہ کی ایمانداری کو قائم رکھنے کے لیے بھی ایک طرح کے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے اور اسی نسبت سے اعلٰی اخلاقی قدروں پر یقین رکھنے کے لیے ایمان بالغیب اور پختہ ہونا چاہیے۔

    انسان کی محدود صلاحیتیں اسے اس پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ قدروں کو دینی، اخلاقی، سیاسی، سماجی، جمالیاتی قسموں میں تقسیم کرکے انہیں الگ الگ نام دے، لیکن دوسری طرف جو شخص بھی کسی قدر کی پوری خدمت کرنا چاہتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ قدر ایک بنیادی، ہمہ گیر قدر کا ایک پہلو، ایک سورج کی کرن ہے۔ ہمیں قدریں الگ الگ نظر آتی ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ان کی وحدت کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ترجمانی کا منصب اس طرح ادا ہوتا ہے کہ انسان محسوس یا غیر محسوس طریقے پر کسی قدر کو اپنی شخصیت اور اپنے عمل میں نمایاں کرتا ہے اور یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ اس خاص شکل میں یہ قید قابلِ قبول ہے یا نہیں۔

    قدروں کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ ان کی ترجمانی کی جاتی ہے تو بحث اس پر ہوتی ہے کہ ترجمانی صحیح ہے یا غلط، لیکن معاملہ دراصل قدروں کی اعلی اور ادنیٰ شکلوں کی کشمکش کا ہوتا ہے۔ کسی جماعت کا عام میلان اس طرف ہو کہ وہ قدروں کی ادنی شکلوں پر مطمئن ہے تو اعلیٰ شکلیں نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، اسی وجہ سے ان لوگوں کو، جو اعلیٰ شکلوں کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں، یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میدان میں آئیں یا نہ آئیں اور آئیں تو کیا لے کر۔

    ’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ ……..کیا ترجمانی کا منصب مال بیچنے اور خریدنے سے کوئی سے نسبت رکھتا ہے؟ اصولی بحث کرنے والے کہیں گے کہ ہرگز نہیں رکھتا۔ حکم کی تعمیل فرض ہے اور ایسی بات کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے جس سے ایک طرف یہ خیال پیدا ہو کہ حکم سے آگاہ کرنے والا حکم کی تعمیل کرنے والے کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کہ تاجر خریدار کی مرضی کا، اور دوسری طرف حکم کی تعمیل کرنے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ اسے اختیار ہے کہ جس حکم کی تعمیل کرنا چاہے کرے، جس کی نہ کرنا چاہے نہ کرے۔ انسان کی فطری سرکشی کو دیکھتے ہوئے حکم دینے اور اس کی تعمیل کرانے کے سوا چارہ نہیں ہے۔

    اصولی بات کہنے والوں کا یہ اعتراض ایک تو اس وجہ سے کمزور ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدریں بذات خود مقبول نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے انہیں قانون کی شکل دینے اور جبر سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے اگر مان لیا جائے کہ انسان فطرتاً سرکش ہوتا ہے تو عام تجربے کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ جبر کرنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ سرکشی اور بھی بڑھ جائے، یا وہی قدریں جنہیں ذہن نشین کرنا حکم کا مقصد ہوتا ہے منافقت کے گرد و غبار میں گم ہو جائیں۔ اصولی بحث کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ دینی اور اخلاقی حکم کی ظاہری اور رسمی تعمیل کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ خلوص نیت بھی لازمی ہے۔ لیکن نیت کا سوال اٹھ جائے تو پھر حکم کے کچھ اور معنی ہو جاتے ہیں۔

    دراصل ہر قدر جو تسلیم کی جاتی ہے حکم بن جاتی ہے اور اس کی خدمت ایک حکم کی تعمیل ہوتی ہے جو انسان اپنے کو دیتا ہے۔ قدروں کا وہ ترجمان جو کھرے اور کھوٹے کے درمیان تمیز کرنا قدر کی صحیح ترجمانی کے لیے لازمی سمجھتا ہے، یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگوں کو کسی قدر کا زبردستی حامل نہیں بنایا جا سکتا، اس لیے وہ حکم دینے کے طریقے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اصرار اور تکرار کے ساتھ نصیحت اور تنبیہ کرنا حکم دینے کی شکل ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی سے اپنی بے بسی کا اعتراف کر لیا جائے اور جو اختیار دوسروں کو بہرحال حاصل ہے اسے تسلیم کر لیا جائے۔

    اسے تسلیم کر لینے کے بعد شیخ فرید الدینؒ کے مقولے پر پھر غور کیجیے۔ تاجر اور قدروں کا ترجمان دونوں صاحبِ مال ہوتے ہیں، دونوں کا کام ان کے سرمائے کے مطابق ہوتا ہے، دونوں کے لیے سرمائے کے ساتھ ہمت اور حوصلہ بھی ضروری ہے اور اس میں کمی ہو تو ان کا کاروبار خود بخود سمٹ جاتا ہے۔ بعض تاجر سرمائے کی فراوانی کے باوجود کسی ایک بستی یا بازار کو اپنی کل کائنات سمجھ لیتے ہیں اور مقرر مال مقرر گاہکوں کے ہاتھ بیچتے رہتے ہیں۔ بعض تاجر دنیا کی وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نیا مال دور دور سے لاتے ہیں اور خریدار تلاش کرنے میں کسی بازار اور بستی کی قید گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح قدروں کا کوئی ترجمان حق کی طلب کو چند لوگوں اور چند دینی اور اخلاقی امور تک محدود سمجھ سکتا ہے، اپنا منصب یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہے وہ پڑھا دے، اس کا مطلب سمجھا دے اور نتیجے کو دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔

    کوئی ترجمان یہ محسوس کر سکتا ہے کہ وہ خود قدروں کا خادم اور حامل ہے، یہ قدریں کسی خاص شکل کی پابند نہیں، ان کا اثر خاص لوگوں کی توفیق کا دست نگر نہیں ہے۔ وہ اپنے فکر اور عمل کو یہ جان کر آزاد کر سکتا ہے کہ اگر ایک طرف قصاص کی حد مقرر کی گئی ہے تو دوسری طرف عفو اور رحم کی بے شمار کیفیتیں ہیں۔ اگر ایک طرف حکم ہے تو دوسری طرف شوق ہے۔ ایک طرف صحو ہے تو دوسری طرف سکر ہے۔ قدروں کی ترجمانی کو کاروبار سے تشبیہ دینے میں سب سے اہم نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی مادّی ضرورتوں کی طرح اس کی اخلاقی ضرورتیں بھی قائم رہتی ہیں، مگر دونوں کو پورا کرنے کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔

    آدمی کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا ہمیشہ چاہیے مگر وہ ایک ہی طرح کا کپڑا اور ایک ہی طرح کا کھانا ہمیشہ پسند نہیں کرتا۔ اخلاقی قدروں کا ترجمان اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ ایک ہی بات ایک ہی طریقے سے بیان ہوتی رہے تو اس میں اثر نہیں رہتا۔ دین اور اخلاق کے معلم جب لوگوں کو گمراہ اور جماعت کی حالت کو خراب کہنے لگیں تو اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خود خاصی مدت تک ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کی مصلحت سے غافل رہ چکے ہیں۔

    قدریں ابدی اور حقیقی ہیں۔ یہ بھی مسلّم ہے کہ ان کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اگر کوئی جماعت اس وجہ سے نقصان اٹھائے کہ اس کے اندر خود اس کی اپنی قدریں مقبول نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدروں کے ترجمان اپنے منصب کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناکامی کے احساس اور اس سے بھی زیادہ ناکامی کے خوف نے انہیں اس طرف مائل کیا ہو کہ وہ خریدار کے سامنے وہی دینی اور اخلاقی مال پیش کریں جس کے بارے میں انہیں یقین ہوکہ وہ صدیوں تک برتا جا چکا ہے، اس لیے ہر خریدار سمجھے گا کہ وہ اس کے لیے کارآمد ہے، مگر خریدار اسے اس وجہ سے قبول نہ کرے کہ اس کی ضرورتیں بدل گئی ہیں۔

    لیکن مقبولیت کا معیار کیا ہے؟ تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور چھوٹے پیمانے پر بھی۔ کوئی تاجر گراں مال بیچتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس کے خریدار کم ہوں گے اور جو سودا وہ کرتا ہے اس میں وہ اپنا منافع زیادہ رکھتا ہے، کوئی سستا مال کم منافع پر مگر بڑی تعداد میں بیچتا ہے، کوئی چھوٹی سی دوکان لگاتا ہے اور تھوڑے سے منافع کو کافی سمجھتا ہے۔ جہاں ہر قسم کے تاجر، طرح طرح کے مال اور مختلف ضرورتیں اور شوق رکھنے والے گاہک ہوں وہاں مقبولیت کے بارے میں رائے قائم کیسے کی جائے گی۔ مال کی خوبیاں دیکھی جائیں گی یا خریداروں کی تعداد، تاجر کی آمدنی کا حساب لگایا جائے گا یا خریدار کی تسلی کا اندازہ کیا جائےگا؟

    تجارت میں نفع نقصان کا حساب لگانا آسان ہوتا ہے، اس لیے کہ آخر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ روپیہ آنہ پائی میں ملک کی دولت کتنی بڑھی۔ قدروں کی ترجمانی کرنے والے اپنی خاص قدروں کی مقبولیت کا اندازہ کیسے کریں؟ ان کی دنیا میں ادنیٰ بہر حال ادنیٰ ہے اور اعلٰی بہرحال اعلیٰ رہے گا، اور اعلی قدروں کے ترجمان ادنیٰ اور اعلیٰ کو جوڑ کر اوسط نکالنے کے طریقے کو گوارا نہیں کر سکتے۔ شیخ فرید الدینؒ نے تنگ گلیوں میں سستا اور ناقص مال بکتے دیکھا ہوگا، قدروں کے ایسے ترجمان دیکھے ہوں گے جن کے نزدیک اعلیٰ قدروں کو رد کر دینے کے لیے کافی تھا کہ وہ اپنے دروازے کے سامنے ایسے طلب گاروں کے ہجوم دکھا دیں جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ادنیٰ قدروں کو کافی ٹھہراتے تھے۔

    اگر صرف قدر کو دیکھا جائے اور اس بات کو نظر انداز کیا جائے کہ اسے قبول کرنے والے کتنے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکثریت کے لیے کیا کیا جائے، اگر اکثریت کی مرضی اور صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو پھر سوچنا پڑتا ہے کہ اعلیٰ قدروں کی خدمت اور ترجمانی کیسے کی جائے۔ ایمان اور انکار کی جنگ بے شک سخت ہوتی ہے، مگر وہ یکسوئی سے لڑی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ اور ادنیٰ قدروں کے درمیان جنگ کی نوبت آجائے تو اعلیٰ کی شکست تقریباً یقینی ہوتی ہے اور اعلٰی قدروں کے نمائندے میدان میں نہ آئیں تو ادنیٰ قدروں کا سیلاب انہیں ڈبو دیتا ہے۔

    ممکن ہے ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ سے شیخ فرید الدین ؒ کی مراد یہ ہو کہ طالب حق کو اپنا مال اپنے پاس رکھنا چاہیے، مقبولیت کے پھیر میں پڑ کر اعلیٰ قدروں کو رسوا نہ کرنا چاہیے۔ یہ قدریں ایسا سرمایہ نہیں ہیں جو ضائع ہو جائے، اس کا جمع ہونا اور محفوظ رہنا خود ایک امر عظیم ہے۔ جن لوگوں کو حق کی طلب ہوگی وہ صاحب معرفت کے پاس آپ ہی کھنچ کر آ جائیں گے اور اس آرزو میں تڑپتے ہوں گے کہ انہیں اعلیٰ قدروں کی خدمت کا اہل سمجھا جائے۔

    جسے شیخ نظام الدین جیسا مرید مل گیا تھا، وہ انتہائی تنگدستی کی حالت میں بھی کہہ سکتا تھا کہ مجھ سے تمہیں جتنا ملنا تھا وہ مل گیا، اب جاؤ، ہندوستان پر قبضہ کرو۔ اور اسی مرید سے وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ لیکن ہندوستانی مسلمان ان بزرگوں، ان کے خیالات اور ان کے طریقوں کو اپنی تاریخ کی اعلی قدریں مانیں اور اس لحاظ سے ان کی خدمت اور ترجمانی کرنا چاہیں تو انہیں کون سا مسلک اختیار کرنا چاہیے۔ ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کا یا ’’ملک ہند بگیر‘‘ کا؟

    ہمارے زمانے میں قدروں کی ترجمانی اور اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان امتیاز کرنا تعلیم گاہوں کا خاص منصب ہے۔ جدید تعلیم گاہوں کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ جس مال کے خریدار ہوں اسی کو پیدا کریں، مال کو پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔ اب یہ دستور ایک اصول بن کر اتنا مسلؑم ہو گیا ہے کہ اس کے سوا تعلیمی قدروں کی اور کوئی کسوٹی نہیں رہ گئی ہے۔ لیکن کسوٹی نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پرکھنے کی کوئی ضرورت اور کوئی صورت نہیں ہے۔

    ملک کے حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ لوگوں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ استعداد کی کمی کا صرف تعمیری کاموں پر نہیں بلکہ معمول کے کاموں پر بھی بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اخلاقی قدریں کمیاب ہوتی جا رہی ہیں جن پر ملکی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ اعلی قدروں کا ذکر سبھی کرتے ہیں، ان کی فکر کوئی نہیں کرتا، اس لیے کہ فکر کرنے والے کو کوئی پوچھتا نہیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں وہ تعلیم گاہ ہوگی جو قدروں کا سودا نہ کرنا چاہے۔ جو یہ سمجھے کہ ’’ملک ہند بگیر‘‘ ایک ہمت آزما اور حوصلہ پر ور اخلاقی دعوت ہے اور اسے قبول نہ کرنا اعلیٰ قدروں کی خدمت اور ترجمانی سے انکار ہے۔
    افراد کے مقابلے میں تعلیم گاہیں قدروں کی ترجمانی کرنے میں اس لحاظ سے کچھ فائدے میں ہوتی ہیں کہ وہ بھٹک جانے کے دو بڑے خطروں سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ افراد قدروں کی ترجمانی کرتے وقت اعلی اور ادنی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں، جن قدروں کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں انہیں اعلیٰ قرار دے کر تسلیم کرانا چاہتے ہیں، اس وجہ سے لامحالہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے اور مخالفت شدید ہو تو وہ توازن جو صحیح ترجمانی کے لیے لازمی ہے قائم نہیں رہتا۔ مخالفت کی شدت ایسی صورت بھی پیدا کر سکتی ہے کہ اسلام یا کسی اور مذہب کی قدروں کا ترجمان خود اپنے آپ کو ایک قدر تصور کرنے لگے، اور اپنی پیروی کو قدروں کی خدمت کے لیے لازمی قرار دے۔

    تعلیم گاہوں کی شخصیت اجتماعی ہوتی ہے۔ قدروں کی ترجمانی کے لیے تصورات کی جس ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ ان میں اختلاف رائے کی اتنی گنجائش بھی ہوتی ہے کہ ترجمانی کا منصب بالکل شخصی نہیں ہو جاتا۔ ہماری آج کل کی تعلیم گاہوں میں، اگرچہ وہ قومی پالیسی اور سیاسی پارٹیوں سے اثر لیتی ہیں، اتنی آزادی ہے کہ خیالات اور عقائد اعلانیہ مقبول اور مردود نہیں ٹھہرائے جاتے اور جو استاد اپنی اور دوسروں کی خود داری کا لحاظ رکھے، وہ آزادی کے ساتھ دینی اخلاقی اور سماجی قدروں کی ترجمانی کر سکتا ہے۔

    تعلیم گاہیں چاہیں تو قدروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور صرف کتابیں پڑھا دینا اور امتحان لے کر سندیں دے دینا اپنا کام سمجھیں۔ بظاہر ہماری بیشتر تعلیم گاہیں یہی کر رہی ہیں۔ لیکن قدروں سے منھ پھیر لیا جائے تو وہ سب مٹ نہیں جاتی ہیں۔ صرف یہ ہوتا ہے کہ ادنیٰ قدریں حاوی ہو جاتی ہیں۔

    اب ہم یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو دینی اور اخلاقی تعلیم سے محروم رکھنا غلط ہے، اور ایسے نصاب کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس میں تمام مذہبوں کا نچوڑ ہو۔ یہ نچوڑ ایک نیا نسخہ ہوگا جس میں سب مفید دوائیں ہوں گی، مگر اس سے نہ کوئی بیماری دور ہو گی نہ تندرستی قائم رکھی جاسکے گی، صرف اس وجہ سے کہ اس میں کسی کے مزاج کا خیال نہ رکھا گیا ہو گا۔ ہمارے یہاں ایسی تعلیم گاہیں بھی ہیں جو اپنے منصب کو کسی خاص ملت یا دینی جماعت کی دینی اور اخلاقی تعلیم تک محدود رکھتی ہیں، ان کا نصاب شروع سے آخر تک اسی پر مشتمل ہوتا ہے، اس نصاب کے ساتھ چند جدید دنیاوی علوم بھی پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ہندوستانیوں کے مجمع میں دوچار یوروپی لوگوں کی۔ ایسی تعلیم گاہیں دینی اعتبار سے بہت ممتاز ہو سکتی ہیں لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اپنے میدان عمل کو مخصوص اور محدود کرنے کے بعد وہ قدروں کی ترجمانی کا حق پورا پورا ادا کرسکتی ہیں یا نہیں۔

    (محمد مجیب بھارتی اسکالر اور ماہر تعلیم تھے جنھوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ علمی اور ادبی موضوعات پر بھی کئی مضامین تحریر کیے اور ترجمان کا منصب کے عنوان سے یہ طویل مضمون بھی انہی کا ہے جو ان کے غور و فکر کا نتیجہ ہے)

  • مانگے کی چیز برتنا!

    مانگے کی چیز برتنا!

    چراغ حسن حسرت کا یہ مضمون اُن کے قلم کی شوخی و ظرافت اور مزاح کی طاقت سے ایک نہایت دل پذیر تحریر کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں پر گہری چوٹ ہے۔ حسرت نے یہ شگفتہ پارے کئی سال پہلے تحریر کیے تھے، مگر اس کی افادیت آج بھی وہی ہے، جو اس دور میں رہی ہوگی۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے مقبول ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے۔

    حسرت اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں۔

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے، اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔

    میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔

    اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارا یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

    آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

    یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگیے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

    اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھرا پن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔

    مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

    مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔

    غرض یہ کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیز یں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

  • اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    فراز جیسے سخن طراز کا تذکرہ ہو تو ان کا وہ مشہور کلام بھی سماعتوں میں رس گھولنے لگتا ہے جسے پاکستان کے بڑے گلوکاروں نے گایا۔ فراز کی غزلیں ہوں یا نظمیں اور فلموں میں‌ شامل کی گئی وہ شاعری جو نور جہاں اور مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کی گئی، آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔ فراز کے مجموعہ ہائے کلام کے کئی ایڈیشن بازار میں آئے اور فروخت ہوگئے۔ احمد فراز اردو کے صفِ اوّل کے شاعر اور اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری میں رومانویت اور مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے۔

    یہ پارہ جمیل یوسف کی کتاب "باتیں کچھ ادبی’ کچھ بے ادبی کی” سے لیا گیا ہے جو بطور شاعر احمد فراز کی اہمیت اور مقبولیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جمیل یوسف نے شاعری اور ادبی تنقید کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

    جمیل یوسف لکھتے ہیں، ”شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فراز کے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔

    جمیل یوسف مزید لکھتے ہیں، ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ ” فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟”

    احمد فراز نے جواب دیا، ”ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔”

  • کوٹھی کے صحن میں ‘بزمِ‌ اقبال’

    کوٹھی کے صحن میں ‘بزمِ‌ اقبال’

    علّامہ اقبال کی کوٹھی پر یوں تو روز ہی کوئی ملاقاتی آیا کرتا تھا، لیکن اکثر شام کو مشاہیر اور کئی باذوق شناسا اکٹھا ہوتے تو علمی و ادبی موضوعات کے ساتھ سیاست پر بھی خوب گفتگو ہوتی اور مباحث چھیڑے جاتے۔ اقبال سب کو سنتے اور مناسب سمجھتے تو اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے۔ وہ حقّہ پیتے جاتے اور عام دل چسپی کے موضوعات بھی باتیں کرتے۔ یوں اقبال کی صحبت میں وقت گزرنے کا احساس ہی کسی کو نہ ہوتا۔

    مشاہیرِ اردو ادب کی تحریریں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    چراغ حسن حسرت جیسے انشا پرداز، شاعر اور صحافی بھی علّامہ اقبال کی شخصیت اور افکار سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تحریر بعنوان بزمِ اقبال میں چند لمحے سپردِ‌ قلم کی تھی جس سے یہ سطور قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کی جارہی ہیں۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں:

    میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

    شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

    حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

    میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

    ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ ان سے انہیں کے ڈھب کی باتیں کرتے۔

  • لالٹین کا جواب

    لالٹین کا جواب

    خواجہ حسن نظامی کو اردو ادب کے تاریخ میں کئی حیثیتوں سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ وہ ایک ادیب و مؤرخ، انشا پرداز اور صحافی تھے جنھوں نے اپنی فکرِ‌ رسا اور نکتہ بینی کی عادت سے کئی ایسے مظاہر اور اشیاء کو بھی اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جنھیں‌ ہم غیر اہم یا معمولی خیال کرسکتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کی نثر رواں، بے حد شگفتہ اور دل کش ہے اور ان کا انداز قاری کو متوجہ کرنے کی قوّت رکھتا ہے۔

    مشاہیرِ‌ اردو ادب کی بہترین اور لازوال تحریریں پڑھیے

    خواجہ صاحب کے زمانے میں‌ اجالا کرنے کے لیے لالٹین کا استعمال عام تھا جو بظاہر ایک سادہ اور معمولی چیز تھی، مگر جب خواجہ حسن نظامی کی خوش فکری نے اس پر توجہ کی تو یہ مختصر مگر نہایت پُراثر مضمون سامنے آیا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا: کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟

    بولی: آپ کا خطاب کس سے ہے؟ بتی سے، تیل سے، ٹین کی ڈبیہ سے، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزا کا مجموعہ ہوں۔

    لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کر لیتا تو ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزا کو ملا کر لالٹین کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔

    جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا: میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔

    یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی، ہلی، کپکپائی۔ گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا: "اے نورِ خدا کے چراغ، آدم زاد! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہے جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے۔ تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔”

    دیکھو، خدا کے ولیوں کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے، تو دن کے وقت ان کو نورِ خدا سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا رہا ، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی ان کی وہی شان رہتی ہے۔ تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔”