Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • امّاں سردار بیگم…

    امّاں سردار بیگم…

    امّاں جی کو باسی کھانے، پرانے ساگ، اترے ہوئے چاول اور ادھ کھائی روٹیاں بہت پسند تھیں۔ دراصل وہ رزق کی قدر دان تھیں۔ شاہی دستر خوان کی بھوکی نہیں‌ تھیں۔

    میری چھوٹی آپا کئی مرتبہ خوف زدہ ہو کر اونچی آواز میں‌ چیخا کرتیں:
    "اماں حلیم نہ کھاؤ، پھول گیا ہے۔ بلبلے اٹھ رہے ہیں‌۔”
    "یہ ٹکڑا پھینک دیں امّاں، سارا جلا ہوا ہے۔”
    "اس سالن کو مت کھائیں، کھٹی بُو آرہی ہے۔”
    "یہ امرود ہم نے پھینک دیے تھے، ان میں سے کیڑا نکلا تھا۔”
    "لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں، اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں۔”
    "اس کٹورے میں نہ پییں، باہر بھجوایا تھا۔”

    لیکن امّاں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاروں کی پروا کیے بغیرمزے سے کھاتی جاتیں۔ چوں کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں‌ تھیں‌، اس لیے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں، صرف خدا سے ڈرتی تھیں۔

    از قلم : اشفاق احمد

  • اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اوتھانٹ ایک سعادت مند بیٹا

    اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اوتھانٹ ایک سعادت مند بیٹا

    مختار مسعود کی تصنیف ‘آوازِ دوست ‘ کئی مضامین اور خاکوں پر مشتمل ہے جن پر انہوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کیے۔ یہ نثر پارے بلیغ اور بلند خیالی کے ساتھ اپنے بے حد دل کش اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہمیشہ مختار مسعود کو زندہ رکھیں‌ گے۔

    انشاء پرداز اور ادیب مختار مسعود کی کتاب سے ہم وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جو ماں اور بیٹے کے رشتے اور اس انمول لمحے کو ہمارے سامنے ایک خوب صورت مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا عالمی میڈیا میں چرچا ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    اوتھانٹ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری لاہور آئے۔ ان کا استقبال کرنے والوں میں‌، میں بھی شامل تھا۔ انہوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔ اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔ یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔بے وزن باتیں جنہیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہِ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیراعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں‌ کرسکتا۔ آٹوگراف بک جیب میں‌ ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

    میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ جب اسے کھولا تو اس میں‌ اوتھانٹ کی تصویر تھی۔ وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔

    تصویر میں‌ ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔ اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بک میں اپنے دستخط کر دے۔

  • مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    طمانیت نہ کہ انبساط’ طمانیت، نفسِ مطمئنہ، ایک اندازِ نظر، ایک اساسی اندازِ نظر جسے اپنا کر عین ممکن ہے آدمی پر کبھی کوئی آنچ نہ آ سکے۔

    آدمی اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور پھر اسے دوبارہ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ دنیا اسی کا نام ہے۔ وہ اپنی غلطی سے یا کسی اور کی غلطی سے ٹھوکر کھاتا ہے اور گر جاتا ہے اور پھر خدا یا دنیا کو قصور وار ٹھہرائے بغیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

    وہ اپنی بدولت یا دوسروں کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے، لیکن اپنے حال زار پر قابو پا لیتا ہے۔مایوسیوں کو پی جاتا ہے اور زیادتیوں کو برداشت کرتا ہے، معمولی حیثیت کے لوگوں کی معمولی باتوں کا چڑھتا دھارا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور وہ اپنے میں ان سب باتوں کی اہلیت طیش میں آئے بغیر دل سخت کئے بغیر پیدا کر لیتا ہے۔

    اس طمانیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر کسی کو اور ہر بات کو شفقت سے کام لے کر معاف کر دیا جائے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ آدمی چپ چاپ مار کھاتا رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طمانیت اس کے حق میں نہیں کہ آدمی آنکھیں میچ کر بیٹھا رہے۔ اس کے برعکس اس اندازِ نظر کو اپنانے والا آدمی ہر چیز پر نظر رکھتا ہے۔ انسانیت کی طفلانہ غیر اصلاح پذیری اور اس کی غفلت۔ ہولناکیوں کی تہی مغزانہ تکرار اور مدتوں کے گلے سڑے تصورات کے احیا کو تو بالخصوص کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ خود کو کھیل سے الگ تھلگ کیے بغیر ہی وہ اس کی تہ تک پہنچ جاتا ہے، وہ اعتماد کرتا ہے لیکن حزم کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ محبت کرتا ہے لیکن اس کی ذات کا ایک حصہ دیکھنے بھالنے کی غرض سے آزاد رہتا ہے۔ وہ زیادہ کی توقع نہیں رکھتا اور غیر مترقبہ یافت کو سوغات سمجھتا ہے۔ اس کے دوستانہ رویے میں مسکینی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ نہ کسی پر مربیانہ انداز میں دستِ شفقت رکھتا ہے، نہ گھٹنوں کے بل جُھک جانے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ اس کی طمانیت کو خدا رسیدہ اولیاء کے مطمئن توکل اور رنج و غم کے اندر مال سے قطعاً کوئی سروکار نہیں۔ اس طمانیت کا جواز بس اسی دنیا تک ہے اور اسے نہ یہاں کوئی جزا ملے گی نہ اگلے جہاں میں۔ وہ اپنے دوستوں پر اسی طرح بھروسا کرتا ہے جس طرح وہ اس پر بھروسا کرتے ہیں، لیکن کبھی ان کے بھید لینے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ کبھی بعض زخموں کے بارے میں کسی قسم کی پوچھ گچھ کرتا ہے، وہ پیچھے پڑ جانے والوں میں سے نہیں۔

    اس طمانیت کی بدولت یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ کسی بھی لحاظ سے حتیٰ کہ ایسے دور میں بھی جو اپنی تیغ بکف عدم رواداری اور بھانت بھانت کی دہشت گردیوں کے لئے بدنام ہے، عقائد کے معاملے میں خود رائے ہو سکے۔ اسے کسی قسم کی قوم پرستی کی فرصت نہیں، خواہ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہو یا بائیں سے اور یوں وہ آدمی اپنے سماج بدر ہونے کا اعلان کرتا ہے۔

    وہ اپنے زمانے کی تمام نام نہاد، سیاہ و سفید نو و کہن اساطیر کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا۔ وہ خواہ مخواہ بول بول کر خود کو ہلکان کرنے کا قائل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں وہ ان گیتوں کو گانے میں بھی پس و پیش کرتا ہے جنہیں عوام النّاس گاتے پھر رہے ہوں۔ وہ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ ایک بار اس نے ایسا کیا تھا اور بڑا نقصان اٹھایا تھا۔ وہ قدم سے قدم ملا کر جو چلا تو لاشوں سے بھرے ہوئے ایک گڑھے میں جا پہنچنے سے بال بال بچا۔ اسے یوٹو پیاﺅں پر ایمان لانے سے انکار ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ حرارتِ ایمانی سے محروم ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ انسانیت کس قدر مائل بہ بدی ہے اور وہ اس کی طرف سے بدگمان ہے۔ وہ لمبے چوڑے وعدوں کے جھانسوں میں نہیں آتا۔

    اصل نکتہ یہی ہے۔ وہ دھوکا نہیں کھاتا۔ میں مکرر کہتا ہوں جو آدمی طمانیت کے اساسی اندازِ نظر کا حامل ہو، وہ کھیل سے الگ تھلگ رہے بغیر اس کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ اس پر کوئی فریب کارگر نہیں ہوتا۔ وہ کھیل میں حصّہ لیتا ہے، لیکن اس قدر اندھا دھند طریقے سے نہیں کہ اسی میں مست ہو کر رہ جائے۔ وہ شراکت اور لاتعلقی کے مابین آزادی سے حرکت کرتا رہتا ہے اور ان دونوں کیفیتوں کو جدا رکھنے والی لکیروں کا خود تعین کرتا ہے۔

    (والٹر باؤیر، مترجم محمد سلیم الرحمٰن)

  • فلسطین: اردو ادب میں

    فلسطین: اردو ادب میں

    انتظار حسین کے افسانے’’ شرم الحرم‘‘ کے مرکزی کردار کی نیند اُڑ گئی ہے۔ وہ آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ بیتُ المقدس میں ہے اور لڑ رہا ہے۔ انتظار حسین کا یہ کردار ہماری قوم کا ضمیر ہے۔
    ہماری قوم جو گزشتہ نصف صدی سے بیت المقدس میں ہے اور لڑ رہی ہے اقبالؔ اس محاذ کے مجاہدِ اوّل تھے۔ وہ آزادیٔ فلسطین کے محاذ پر عربوں سے بھی پہلے پہنچے- اقبالؔ نے اس جنگ کو اپنی قومی آزادی کی جنگ کا اٹوٹ سمجھا اور اس کی تہہ در تہہ معنویت کو آشکار کیا۔ ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر 1931ء میں وہ عالمِ اسلام کے نمائندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن میں ہندی مسلمانوں کی آزادی کے مذاکرات کو ادھوڑا چھوڑ کر بیت المقدس جا پہنچے تھے۔
    اقبالؔ نے اقوامِ مشرق کو اس جہانِ پیر کی موت کی بشارت ہی نہ دی تھی جسے فرنگ نے قمار خانہ بنا رکھا تھا بلکہ آزادی کی منزل سَر کرتے ہوئے مشرق کو مغرب کے نو آبادیاتی اور سامراجی عزائم سے خبردار بھی کیا تھا۔ اقبالؔ کی زندگی کا نصف آخر مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق کو مغرب کی تہذیبی اور سیاسی استعمار سے نجات کی راہیں سمجھانے اور اپنی خودی کی پرورش کی ترغیب دینے میں صرف ہوا۔ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصوّر نے مسلسل بے چین رکھا۔ اقبالؔ نے اُس وقت سے ہی فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز ہر دو سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامّہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدو جہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا اور بالآخر فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ نافذ ہو کے رہا۔
    اقبالؔ کے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ در حقیقت یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے۔ وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں،
    رندانِ فرانسیس کا مے خانہ سلامت
    پُر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا
    ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
    ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟
    مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور
    قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رَطَب کا!
    رائل کمیشن کی رپورٹ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز نے اقبالؔ کو اس قدر مضطرب کیا کہ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی اقبالؔ نے لاہور کے موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسہ عام کا اہتمام کروایا۔ اس اجتماع میں اقبال کا جو بیان پڑھا گیا، وہ سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی بدولت دنیائے اسلام کی جدید سیاسی فکر میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس بیان میں اقبال نے مغربی سامراج کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اِسلام کو خود احتسابی کا درس بھی دیا ہے۔ وہ اس اَلمیے کو دو بڑی عبرتوں کا آئینہ دار بتاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ دُنیائے اسلام کی سیاسی ہستی کی بقا کا راز عربوں اور ترکوں… عرب و عجم کے اتحاد میں مضمر ہے اور دوم یہ کہ:
    ’’عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بہ حالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔‘‘
    اقبالؔ کا یہ بیان تحریکِ آزادیٔ فلسطین کو عرب بادشاہوں کی مسندِ اقتدار سے متصادم دیکھتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کو موجودہ عالمی اداروں سے برگشتہ کر کے بالآخر اپنی علیحدہ جمعیت اقوام کے قیام کے امکانات پر غور کرنے پر مجبور کر دے گا:
    طہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
    شاید کرۂ اَرض کی تقدیر سنور جائے
    اقبالؔ نے عرب عوام کو عرب بادشاہوں سے بیزاری کا درس صرف اپنی سیاسی تحریروں میں ہی نہیں دیا بلکہ جمالِ فن سے بھی اس درس کو دل نشین بنایا ہے:
    یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
    گلیم بو ذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا
    پیرِ حرم تو حفظِ حرم کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال چکا ہے، اس لیے اب اقبالؔ کی آخری امید عرب عوام ہیں جن سے اقبال یوں مخاطب ہیں:
    زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
    مَیں جانتاہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
    سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
    خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
    مگر اقبالؔ کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہماری طرح دُنیائے عرب بھی اپنی خودی کی پرورش سے کہیں زیادہ غیر کے دست و بازو پر ناز کرتی رہی۔ نتیجہ یہ کہ فروری 1949ء کی پسپائی نے اسرائیل کے قدموں تلے روند ڈالنے اور صفحۂ ہستی سے مٹا کر دم لینے کے نعروں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ اس شکست نے مصر میں شہنشاہیت کے خلاف فوجی انقلاب کو ممکن بنایا اور صدر ناصر کی زیرِ قیادت تمام عرب دنیا میں انقلاب کی صدائیں گونجنے لگیں۔ برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ یلغار کے مقابلے میں مصر کی ثابت قدمی اور کامرانی نے غریب عوام کو وہ اعتمادِ ذات اور غرورِ نفس بخشا جو ، ن م، راشد کی نظم ’’ دل مرے صحرا نوردِ پیر دل‘‘ میں جلوہ گر ہے۔ ریگِ صحرا میں تمنائوں کے بے پایاں الاؤ کے قریب بیٹھ کر راشد اپنے ہم نفسوں سے یوں مخاطب ہیں:
    سالکو، فیروز بختو،آنے والے قافلو!
    شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
    ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے ’’ شکوہ ہائے نے‘‘ سے وہ
    ریت کی تہہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے حریت کی لے سے وہ
    ریگِ شب بیدار، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
    ریگِ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
    دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ!
    ریگ ہر عیّار غارت گر موت کی!
    ریگِ استبدار کے طغیا کے شوروشر کی موت
    ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
    ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب
    ریگ، اے صحرا کی ریگ
    ان اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی نئی تعبیر دے
    یہ ستم ظریفی بھی تاریخ میں یادگار رہے گی کہ ’’ جاگتے ذروں کے خوابوں کی نئی تعبیر‘‘ اُس عالمی قوت کو بھی خوش نہ آئی جو ’’انقلاب ‘‘ برآمد کرنے کی خوگر ہے۔ چنانچہ الجزائر میں سامراجی نقطۂ نظر سے بروقت فوجی بغاوت سے لے کر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ تک جب مغرب کے سرمایہ پرست اور روس کے ترمیم پسند ایک ہی مقامِ دل و جاں پر کھڑے نظر آئے تو احمد ندیم قاسمی نے اپنے کرب کو اس سوال میں ڈھالا:
    اب کہاں جاؤ گے؟ اے دیدہ ورو!
    اب تو اس سمت بھی ظلمت ہے
    جہاں شب کے الاؤ میں نہا کر
    مرے سورج کو نکلنا تھا
    گجر بجنے تھے
    اب تو مشرق پہ بھی مغرب کا گماں ہوتا ہے
    اب تو ذکر کرو نور سحر کا
    تو بلک اٹھتی ہے دنیا کہ کہاں ہوتا ہے؟
    اب تو اُس شب کی سیاہی نے ہمیں گھیر لیا ہے
    کہ جہاں چاند تو کیا…کوئی ستارہ بھی نہیں جی سکتا
    اب کہاں جاؤ گے؟… اے دیدہ ورو!
    صرف ایک سمت کے ماتھے پہ لرزتی ہے اُجالے کی لکیر
    اور یہ سمت گزرتی ہے ہمارے ہی گھروں اور ہمارے ہی دلوں سے
    یہ ہے وہ سمت کہ جس پر مرے ٹیپو کے نشانِ کفِ پا
    چاند تاروں کی طرح روشن ہیں
    خود شناسی اور خود انحصاری کی یہ رو ہمیں جون 67ء کی شکست سے پھوٹنے والی ہر یادگار نظم میں ملتی ہے۔’’ دوستوں‘‘ کی قوتِ بازو پر بھروسا کرنے کا چلن ہر جگہ مرقعِ عبرت ہے۔ ادا جعفری مامتا بھری برہمی کے ساتھ سرزنش کرتی ہیں:
    نامناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے
    تم مگر شعلہ بہ دل شعلہ بہ جاں بھی ہوتے
    کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر
    تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
    تو ابنِ انشاؔ یوں بلند آواز میں سوچتے ہیں:
    اپنے دشمن تو ملعون و ناخوب ہیں
    ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں
    جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت
    جن کے وعدے بہت تھے وعیدیں بہت
    بیٹھے لفظوں کا راکٹ چلایا کیے
    یا بیانوں کے بم آزمایا کیے
    دھمکیوں کے میزائل اڑایا کیے
    کوئی گرتوں کو آیا مگر تھامنے
    بیٹھے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
    اپنی طویل نظم ’’ دیوارِ گریہ‘‘ میں ابنِ انشا اگر ایک طرف عرب حکمرانوں کی عیاشی اور اوباشی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف عرب عوام کو عزت کی زندگی کا راستہ بھی دکھاتے ہیں:
    یا اخی! یا اخی!
    آ دکھائیں تجھے تیری دلجوئی کو
    دور مشرق میں احرارِ ہنوائی کو
    ان کا دشمن شکستوں سے بے حال ہے
    ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے
    یہ بھی ملحوظ رکھ تو جو دل تنگ ہے
    یہ بھی اُن کی ہے، وہ بھی تری جنگ ہے
    جنگ میں گام دوگام ہٹتے بھی ہیں
    آگے بڑھنے کو پیچھے پلٹتے بھی ہیں
    سوئز کے بحران کے گرد و پیش عرب بیداری کی بلند لہر سے وابستہ توقعات کے پس منظر میں جون 67ء کی جنگ عربوں کی آناً فاناً شکست نے ہمارے تخلیقی فن کار کی انا کو شدید چوٹ لگائی اور وہ منظور عارف کا ہم زباں ہوکر چیخ اٹھا:
    مَیں نے دیکھا نہیں محسوس کیا ہے
    پھر بھی اک درد کی شدت ہے میرے سینے میں
    شکل کیا دیکھوں کئی داغ ہیں آئینے میں
    (آئینے کے داغ)
    اپنے داغ داغ چہرے اور اپنی زخم زخم ہستی کا اندمال اُسے اسلام کی انقلابی روح کی بازیافت میں نظر آیا اور یوں اس کی انسان دوستی کا رخ نمایاں طور پر اسلامی ہوگیا۔ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں ہلچل مچانے والے سوال کو ابنِ انشاؔ نے یوں لب گویا عطا کیا:
    ’’آدھی دُنیا سوشلسٹ ہوچکی ہے اور باقی آدھی آزاد اور خود مختار…اور یہ سب مل کر اقوامِ متحدہ کے ایوانوں پر حاوی۔ لیکن ان کی مجموعی مادی اور اخلاقی قوت اسرائیل کی جارحیت کے معاملے میں صرف ایک بڑے اور امیر ملک کے ویٹو اور دھونس کی وجہ سے بے کار ہو کر رہ گئی ہے۔ بیروت کے تل زعتر کیمپ سے خاک و خون میں لتھڑے ہوئی عرب کی فغاں اٹھ رہی ہے اور کوئی سننے اور دست گیری کرنے والا نہیں۔‘‘
    اس ظلم پر ضمیر عالم خاموش کیوں ہے؟ انسان دوستی اور امن پسندی کے علم بردار دانشور مسلمانوں کو انسان کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ اور خود مسلمان ویت نامی حریت پسندوں کا طرزِ عمل کیوں نہیں اپناتے؟ بیچارگی، تنہائی اور بے عملی کے اس صحرا میں ہمارے ادب نے اسلامی تاریخ سے توانائی اخذ کرنے کی ٹھانی:
    رن سے آتے تھے تو با طبلِ ظفر آتے تھے
    ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سَر آتے تھے
    خار زاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش
    آج رحمتِ یزداں کا سزاوار آئے
    وادیٔ گل سے ببولوں کا خریدار آئے
    دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاں دار آئے
    پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے
    ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے
    ہوش والو! کوئی تلقینِ جنوں فرمائے
    (مسجدِ اقصیٰ۔ ادا جعفری)
    ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
    راستہ تکتی ہے پھر مسجدِ اقصیٰ تیرا
    (احمد ندیم قاسمی)
    کشتِ افسوس بونے والے زیاں پرستوں کے نوحہ و ماتم سے الگ، اسلامی تاریخ و تہذیب سے پھوٹنے والے حریت کے اس لحن میں تخلیق کی جانے والی شاعری کا نکتۂ کمال ’’ سرِ وادیٔ سینا‘‘ہے۔ فیض احمد صحرائے سینا میں گرم معرکہ کار زار میں خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اور حریت پسندوں کی سرفروشی اور جاں سپاری کو قرآنی اور صوفیانہ استعاروں میں بیان کرتے ہیں:
    آ پھر برقِ فروزاں ہے سر وادیٔ سینا
    پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت
    پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
    اے دیدۂ بینا
    اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
    اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے!
    گلزارِ قرم پرتوِ صحرائے عدم ہے
    پندارِ جنوں
    حوصلہ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے!
    پھر برق فروزاں ہے سر وادیٔ سینا
    اے دیدۂ بینا
    عرب ترقی پسندی کے باب میں ہماری رومانی تصوریت کو حقیقت آشنا کرنے کا فریضہ تنقید، تراجم اور سفر ناموں نے سر انجام دیا ہے۔ جدید عربی اور ہم عصر فلسطینی ادب کے تنقید و تجزیہ اور ترجمہ و تعارف کا کام محمد کاظم نے جس دِقَّتِ نظر اور جس جرأت فکر کے ساتھ سر انجام دیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محمد کاظم کے زیرِ اثر ادیبوں کا ایک پورا گروہ فلسطینی ادب کے تراجم میں مصروف ہے اور احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، محمود شام، منو بھائی، کشور ناہید اور اظہر سہیل وغیرہ کے تراجم نے اردو میں مزاحمتی ادب کا ایک نیا دبستان کھول دیا ہے۔ اس دبستان کی بدولت نغمۂ حریت کی لے ہمارے دلوں کو گرما رہی ہے اور ہمارے ذہنوں کو فلسطینی طرز فکر و احساس سے آشنا کر رہی ہے۔ یہ طرزِ فکر و احساس جس مخصوص گرد و پیش اور جس خاص نفسیاتی فضا میں تشکیل پا رہا ہے، اس کا جیتا جاگتا احساس فیض کی یاسر عرفات سے ملاقات اور ظہیر محسن کے ماتم کا بیان پڑھ کر ہوتا ہے۔ فلسطینی فدائین کو قدرت نے نانِ جویں کے ساتھ ساتھ کس طرح بازوئے حیدر بھی عطا کر رکھا ہے، شہید لہو کے ہر قطرے سے کیوں کر ایک نیا حریت پسند جنم لے رہا ہے اور شہید کا جنازہ گریہ و زاری کی بجائے کیسے عزم و ہمت کے جشن کا منظر پیش کرتا ہے، یہ صداقتیں ہم پر سفر ناموں کے ذریعے منکشف ہورہی ہیں۔
    اس مقامِ نظر سے دیکھیں تو مسجدِ اقصیٰ کا چھن جانا ایک تاریخی مقام سے محرومی نہیں بلکہ روحانی سیڑھی کا گرجانا ہے جو ہماری زمین کو ہمارے آسمان سے ملاتی تھی۔ جن قوموں کے پاؤں تلے دھڑکتی زمین کا سر پر تنے ہوئے آسمان سے رابطہ کٹ جائے، وہ زوال کرتے کرتے بالآخر ڈھور ڈنگروں کی سطح پر آ گرتی ہیں۔ ذرا سوچیے تو کہیں ہمارے ساتھ بھی یہی واردات تو نہیں گزر گئی؟
  • نوشاد کی نوٹ بک اور وہ عورت!

    نوشاد کی نوٹ بک اور وہ عورت!

    لکھنؤ میں ‘بھوندو اینڈ کمپنی کے مالک کے تو سان گمان میں‌ نہ ہوگا کہ جس بچّے کو اس نے اپنی دکان پر صفائی کے لیے رکھا ہے، وہ ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت بنے گا، مگر خود نوشاد نے بھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ایک اونچے درجے کے کلاکار بنیں گے اور بولی ووڈ میں انھیں ‘موسیقارِ اعظم’ کہا جائے گا۔

    فنِ موسیقی اور سُر سنگیت کی دنیا کے اس عالی مقام کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ 25 دسمبر 1919 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ عمر کا چھٹا سال تھا جب سنگیت سے ایسے قریب ہوئے کہ آخری سانس تک یہ تعلق قائم رہا۔ نوشاد نے کلاسیکی موسیقی اور لوک گیتوں کو خوب صورت انداز میں پیش کیا اور ان کی 67 فلموں کے لیے موسیقی کانوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ موسیقار نوشاد نے 5 مئی 2006ء کو ممبئی میں آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔ انھیں دادا صاحب پھالکے سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    موسیقار نوشاد کی زندگی کے حالات اور فن کی دنیا کے کئی دل چسپ اور انوکھے قصّے آپ ان کی سرگزشت میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم اس کتاب سے دو پُرلطف واقعات نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔”

    نوشاد کی اس سرگزشت کا یہ قصّہ بھی ان کی اپنے فن سے محبّت اور کام کے جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے لکھا:

    "اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگریٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگریٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگریٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیوں کہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔ ”

    اس عظیم موسیقار کا فلمی سفر 48 سال پر محیط رہا۔ ان کی موسیقی میں‌ فلم مغلِ اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان، انمول گھڑی، انوکھی ادا، مدر انڈیا، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام مشہور فلمیں ثابت ہوئیں‌۔

  • زندگی گزارنے کے چینی فلسفے

    زندگی گزارنے کے چینی فلسفے

    چین کے معروف دانش وَر اور ادیب لین یوتانگ کی کتاب ‘جینے کی اہمیت’ کے دنیا کی کئی زبانوں میں‌ تراجم ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ مختلف خطّوں کے باسی زندگی کو کس طرح دیکھنے کے عادی ہیں‌ اور ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ بالخصوص چین کے لوگ دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں۔

    لین یوتانگ کی یہ مشہور کتاب دراصل زندگی گزارنے کے چینی فلسفے پر روشنی ڈالتی ہے۔ مصنف نے ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں تمدن، فطرت عادات اور خصلتوں کے ساتھ ثقافت پر نقطۂ نظر سامنے لایا گیا ہے۔ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس کے مترجم مختار صدیقی ہیں۔

    کنفیوشس نے عالمگیر امن کے سوال کو افراد کی ذاتی زندگی کی تربیت سے وابستہ کیا تھا۔ سونگ خاندان کے وقت سے آج تک کنفیوشس خیالات کے علماء اور استاد بچّوں کو جو پہلا سبق پڑھاتے ہیں، اس میں مندرجہ ذیل فقرے آتے ہیں اور بچّے کو یہ سبق حفظ کرایا جاتا ہے:

    ”قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے، تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ہمیں خود اپنی قومی زندگی کی تنظیم کرنی چاہیے۔ قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے گھریلو زندگی کو باقاعدہ بناتے۔ جو لوگ گھریلو زندگی کو منظّم بنانا چاہتے، وہ سب سے پہلے ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب چاہتے۔ وہ سب سے پہلے اپنے دلوں کو پاک صاف کرتے…. دلوں کو پاک صاف کرنے کی خواہش کرنے والے سب سے پہلے نیتوں کو مضبوط بناتے۔ نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے اور سمجھ، اشیا کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے۔ جب اشیا کا علم حاصل ہو جائے تب سمجھ پیدا ہوتی ہے، اور سمجھ پیدا ہو جائے تو نیت اور ارادہ مخلص ہو جاتا ہے اور جب نیت صاف اور ارادہ مخلص ہو جائے تو دل صاف ہو جاتا ہے۔ جب دل صاف ہو جائے تو ذاتی زندگی کی تہذیب اور تربیت پوری ہو جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب ہو جائے تو گھریلو زندگی منظّم اور باقاعدہ ہو جائے گی۔ اور جب گھریلو زندگی منظم ہو گی تو قومی زندگی بھی منظم ہو جائے گی۔ اور جب قومی زندگی منظم ہو گی تو دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔“

    ”گویا شہنشاہ سے لے کر ایک عام آدمی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کی جائے یہ ممکن ہی نہیں کہ بنیاد باقاعدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت ٹھیک اور باقاعدہ ہو۔ دنیا میں ایسا کوئی درخت موجود نہیں جس کا تنا تو کمزور اور نازک ہو اور اس کی اوپر کی ٹہنیاں بے حد بھاری بھرکم اور مضبوط ہوں۔ اس کائنات کی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علت موجود ہے اور ہر چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق اٹل ہے۔ اسی طرح انسانی معاملوں میں بھی ابتدا اور انتہا دونوں موجود ہیں، لیکن ان درجوں کا جاننا، ان کی تقدیم اور تاخیر کا علم حاصل کرنا یہی دانش مندی کی ابتدا، اس کی دہلیز ہے۔“

  • دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے!

    دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے!

    یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنٰی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا، کام کاج، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔

    ہاتھ پاؤں کی محنت اوقات بسر کرنے اور روٹی کما کر کھانے کے لیے نہایت ضروری ہے اور روٹی پیدا کرنا اور پیٹ بھرنا ایک ایسی چیز ہے کہ بہ مجبوری اس کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں کی کاہلی چھوڑی جاتی ہے اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ اور وہ جو کہ اپنی روزانہ محنت سے اپنی بسر اوقات کا سامان مہیا کرتے ہیں بہت کم کاہل ہوتے ہیں۔ محنت کرنا اور سخت سخت کاموں میں ہر روز لگے رہنا گویا ان کی طبیعتِ ثانی ہو جاتی ہے۔ مگر جن لوگوں کو ان باتوں کی حاجت نہیں ہے وہ اپنے دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ کر بڑے کاہل اور بالکل حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔

    یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزار پڑھے لکھوں میں سے شاید ایک کو ایسا موقع ملتا ہوگا کہ کہ اپنی تعلیم کو اور اپنی عقل کو ضرورتاً کام میں لاوے لیکن اگر انسان ان عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قویٰ کو بے کار ڈال دے تو وہ نہایت سخت کاہل اور وحشی ہو جاتا ہے۔ انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے اور جب کہ اس کے دلی قویٰ کی تحریک سست ہو جاتی ہے اور کام میں نہیں لائی جاتی تو وہ اپنی حیوانی خصلت میں پڑ جاتا ہے۔ پس ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ اپنے اندرونی قویٰ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہے اور ان کو بے کار نہ چھوڑے۔

    ایک ایسے شخص کی حالت کو خیال کرو جس کی آمدنی اس کے اخراجات کو مناسب ہو اور اس کے حاصل کرنے میں اس کو چنداں محنت و مشقت کرنی نہ پڑے جیسے کہ ہمارے ہندوستان میں ملکیوں اور لاخراج دازوں کا حال تھا اور وہ اپنے دلی قویٰ کو بھی بے کار ڈال دے تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہی ہوگا کہ اس کے عام شوق وحشیانہ باتوں کی طرف مائل ہوتے جاویں گے۔ شراب پینا اور مردار کھانا اس کو پسند ہوگا، قمار بازی اور تماش بینی کا عادی ہوگا اور یہی سب باتیں اس کے وحشی بھائیوں میں بھی ہوتی ہیں، البتہ اتنا فرق ہوتا ہے کہ وہ پھوہڑ، بد سلیقہ وحشی ہوتے ہیں اور یہ ایک وضع دار وحشی ہوتا ہے۔ شراب پی کر پلنگ پر پڑے رہنا اور ناریل میں تمباکو کے دھویں اڑانا اس کو پسند ہوتا ہے۔ پس پیچوان اور ناریل اور بچھونے اور ریت کے فرق سے کچھ مشابہت میں جو ان دونوں میں ہے کمی نہیں ہوتی۔

    ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے ایسے کام بہت کم ہیں جن کو ان کو قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع ملے اور بر خلاف اس کے اور ولایتوں میں اور خصوصا انگلستان میں وہاں کے لوگوں کے لیے ایسے مواقع بہت ہیں۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انگریزوں کو بھی کوشش اور محنت کی ضرورت اور اس کا شوق نہ رہے جیسا کہ اب ہے تو وہ بھی بہت جلد وحشت پنے کی حالت کو پہنچ جاویں گے، مگر ہم اپنے ہم وطنوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنے قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع نہیں رہا ہے اس کا بھی سبب یہی ہے کہ ہم نے کاہلی اختیار کی ہے یعنی اپنے دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم کو قوائے قلبی اور قوتِ عقلی کے کام میں لانے کا موقع نہیں ہے تو ہم کو اسی کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ موقع کیونکر حاصل ہو اگر اس کو حاصل کرنے میں ہمارا کچھ قصور ہے تو اس کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ قصور کیونکر رفع ہو۔

    غرض کہ کسی شخص کے دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے۔ کسی نہ کسی بات کی فکر و کوشش میں رہنا لازم ہے تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے کی فکر اور مستعدی رہے اور جب تک ہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چھوٹے گا، اس وقت تک ہم کو اپنی قوم کی بہتری کی توقع کچھ نہیں ہے۔

    ( ہندوستانی مسلمانوں کے خیرخواہ اور مصلح سرسید احمد خان کے مضامین سے انتخاب)

  • ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ‘کچھ خطبے کچھ مقالے’ جدید اردو تنقید کے بانیوں میں شامل آل احمد سرور کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے مولانا حسرت موہانی کے علمی و ادبی مرتبے کے ساتھ ان کے سیاسی نظریات اور صحافتی کارناموں پر بات کی ہے۔

    حسرت موہانی اردو کے اک بلند پایہ شاعر، صحافی، نقّاد اور مجاہدِ آزادی تھے جو کانگریس کے حامی تھے۔ انھوں نے ہندوستان کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ کی وکالت کی، جب کہ مہاتما گاندھی کو سودیشی تحریک کی راہ سجھائی۔ وہ ملک کی آزادی کے حامی اور تقسیم کے مخالف تھے۔ آل احمد سرور نے ان کے رسالے اردوئے معلّٰی کی تعریف میں لکھا:

    "اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلّٰی، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردوئے معلّٰی کئی حیثیتوں سے سرِفہرست ہے۔”

    "یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اور نتیجہ تک نہ نکلا تھا۔”

    "اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد ’درستیٔ مذاق‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں اردو کے سیکڑوں مشہور اور گم نام اساتذہ کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا۔ بہت سے مشہور شعرا کے حالات، قلمی تذکروں اور دوسرے ماخذ سے جمع کر کے شائع کیے گئے۔ یہ محض ادبی رسالہ نہ تھا۔ شروع سے اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین، نظمیں اور غزلیں بھیجیں۔ مگر اس کی بہارِ بیشتر حسرت کے خونِ جگر کی مرہون منت ہے۔”

    "وہ ایک مصروف سیاسی زندگی کے باوجود اسے بہت عرصے تک نکالتے رہے۔ شروع میں یہ اڑتالیس صفحے کا ایک ماہ وار رسالہ تھا مگر جب حسرت کو حکومت کا زبردست مہمان ہونا پڑا تو صفحات بھی کم ہو گئے اور اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی مگر پرچے کی اشاعت بند نہیں ہوئی۔”

    "پہلے پرچے میں علاوہ چند بلند ادبی مقاصد کے مضمون نگاروں کو معاوضہ دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس وعدے کو پورا بھی کیا گیا یا نہیں مگر اس کا ذکر ہی حسرت کی اولوالعزمی اور سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ حسرت نے جب سودیشی تحریک شروع کی تو مولانا شبلیؔ نے لکھا تھا،

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘ علم و علم اور عزم و استقلال کے اس پیکر پر جسے حسرت کہا جاتا ہے یہ بڑی معنٰی خیز تنقید ہے۔”

    "اردوئے معلّٰی کے ادبی کارناموں کا تو اعتراف بھی کیا گیا مگر اس نے سیاست کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی ابھی تک کماحقہ قدر نہیں ہوئی۔ حسرت ایک پکے قوم پرور تھے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں سیاسی مباحث میں شریک ہوتے تھے اور کانگریس کے گرم دل کے دل و جان سے فدائی تھی۔ انھوں نے 1904ء کے بمبئی کے اجلاس کانگریس میں شرکت کے بعد اس کی مفصل روداد اپنے رسالے میں چھاپی اور مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت پر زور دیا۔”

  • نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں

    نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں

    انسان نے ہزاروں سال کے اس طویل سفر میں آخر کیا پایا جس میں وہ نامعلوم تاریخ کے تاریک غاروں سے نکل کر سیاروں کی تاب ناک دنیا تک جا پہنچا ہے۔

    مانا جاتا ہے کہ حجری وحشیت سے جوہری مدنیت تک انسانیت کی پیش رفت زمین کے زمانوں کی سب سے زیادہ عظیمُ الشّان سرگزشت ہے اور ابھی تو انسانی علم کی دود بڑھائی ہوئی ہے، ابھی تو وہ گھٹنوں کے بل چل رہا ہے، ابھی تو اسے اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہونا ہے۔ پھر بھی اس بچّے نے کتنی چیزیں اُلٹ پلٹ کر ڈالی ہیں اور وجود کے صحن میں کیا کچھ لا بکھیرا ہے، کیا کچھ توڑا ہے اور کیا کچھ جوڑا ہے اور اس طرح کیا کچھ پایا ہے اور کیا کچھ بنایا ہے۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ اس نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں اس کرۂ ارض کے سینے پر لکھی گئی ہیں اور یہ کہ یہ سب سے زیادہ ماجرا ناک کرّہ ہے، ایک راست قامت جانور کتنا جوہر دار نکلا ہے جس کے بل پر اس زمین نے آسمان سر پر اٹھایا ہے۔
    یہ سب کچھ ہوا ہے، پر یہ سب کچھ کس لیے ہوا ہے؟ انسان نے ہزاروں سال کے اس سفر میں کیا پایا؟ چاند تمہاری مٹھی میں آگیا ہے اور آیندہ تم سورج کو اپنی بغل میں دبالو گے۔ پر اس سے تمہارا مقصد آخر کیا ہوگا؟ اکتشاد، ایجاد اور تسخیر، دانش کا سب سے بیش قیمت وظیفہ ہیں، مگر کیا انسانوں کا یہ شان دار انہماک اپنے شرم ناک جرائم کو بھلانے کی کوشش تو نہیں؟

    قرن ہا قرن اور ہزارہا ہزار سال کے اس بادیہ نشین نے اپنے گرد پُرہجوم شاہ راہوں اور پُرشکوہ شہروں کی ایک بھیڑ لگا رکھی ہے۔ پر، سوچنا یہ ہے کہ اس بھیڑ میں اس نے کہیں اپنے آپ کو تو نہیں کھو دیا؟

    وہ دانش تاریخ کے یوم القیام میں اپنا کیا جواز پیش کرے گی جس نے اس زمین پر زندگی کو کچھ اور بھی مشکل، کچھ اور بھی ناسازگار بنا دیا ہے۔ اس تہذیب کو تباہ کن اسلحے کے بجائے اپنے وجود کے جواز میں کوئی معقول دلیل پیش کرنا تھی اور یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ وہ دلیل ابھی تک پیش نہیں کی جاسکی۔ کیا اس عہد کا انسان نیزہ بردار وحشیوں کی نسبت سے زیادہ مطمئن اور زیادہ مسرور ہے۔ کاش یہ دعویٰ کیا جاسکتا کہ ہر آنے والی نسل گزشتہ صدی سے زیادہ سعید اور خوش بخت ثابت ہوئی ہے۔

    اس تہذیب کے بطن میں وہ عفونت آخر کس نے انڈیل دی ہے جس نے اس کے سانسوں کو زہر ناک بنا ڈالا ہے؟ یہ حقیقت بہ شدت معرضِ اظہار میں آنا چاہیے کہ تہذیب کے اس بے مہر اور سلح شور ارتقا کی فضا زندگی کے لیے ناسازگار ثابت ہوچکی ہے۔ ارتقا ایک اصطلاح ہے اور انسانی سکون و سعادت کو بہ ہر حال اصطلاحوں سے زیادہ قیمتی قرار پانا چاہیے۔

    (انشائیہ، از جون ایلیا)

  • ”چڑھتا سورج“ اور شکریہ!

    ”چڑھتا سورج“ اور شکریہ!

    پاکستان کے اہم افسانہ نگاروں میں ابوالفضل صدیقی کا نام اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے تقسیمِ ہند کے پس منظر میں کئی کہانیاں تخلیق کیں جو ان کے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ غیر معمولی نوعیت کی تھیں۔ وہ ایک صاحبِ اسلوب قلم کار اور بہترین مترجم تھے جن کی کئی کتابیں‌ یادگار ہیں۔

    یہاں ہم ابوالفضل صدیقی کی ایک دل چسپ تحریر جو ان کی زندگی کی خوش گوار یاد بھی ہے، آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ یہ قصّہ انھوں نے اپنی تصنیف ”عہد ساز لوگ“ میں‌ رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    1957ء میں مشہور امریکی ادارہ، پی، ای، این نے ایک مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی۔

    دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصّے میں پڑے۔ مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔ تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے: ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی، آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔ ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔