Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • نواب حمید اللہ خان: بھوپال کے فرماں روا کے عہد میں شعر و ادب

    نواب حمید اللہ خان: بھوپال کے فرماں روا کے عہد میں شعر و ادب

    نواب حمید اللہ خاں ریاست بھوپال کے آخری فرماں روا تھے جن کا عہد 1926 سے 1949 تک رہا۔ حمید اللہ خاں روشن خیال حکم راں اور بیدار مغز سیاست دان تھے۔

    ان کے عہد میں بھوپال میں‌ شعر و ادب کی محفلیں سجائی جاتی رہیں اور فن و تخلیق کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ پیشِ‌ نظر تحریر اسی سے متعلق ہے۔

    نواب صاحب، صاحبِ علم اور علم نواز تھے۔ انھوں نے اہلِ دانش و فن کی بہتر طور پر سرپرستی فرمائی۔ علمی و ادبی رجحانات میں جو جدت نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں نظر آتی تھی، نواب صاحب کے عہد میں اس کی رفتار میں مزید تیزی آئی۔

    "ادب برائے زندگی” کا نظریہ کلی طور پر تمام تخلیقات میں نظر آتا ہے۔ شعر و شاعری میں بدستور اصلاحی، مقصدی، اخلاقی اور اجتماعی شعور بیدار ہوتا چلا گیا۔ پامال، فرسودہ اور عامیانہ انداز بیان کا تقریباً اختتام ہو گیا۔ اس دور کی شاعری بھرپور کیف و سرور سے معمور سنجیدہ و متین اور پرتاثیر ہے۔ سچے جذبات کی فراوانی نظر آتی ہے، اسلوب بیان میں ندرت اور تازگی پائی جاتی ہے۔ نئی تشبیہات و نئے استعارات اور نئی تلمیحات وضع کی گئیں۔ ان تمام جدید رجحانات کے ساتھ ادب کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش کی جا رہی تھیں۔

    ہر سال نواب صاحب کے زیرِ اہتمام جشنِ سال گرہ کے سلسلے میں یہاں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ جس میں ملک کے نامور شعراء شرکت کرتے تھے جن میں جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، سیماب اکبرآبادی، حفیظ جالندھری، احسان دانش، نانک لکھنوی، آنند نرائن ملا ، احسن مارہروی ، سراج لکھنوی، شوکت تھانوی، روش صدیقی، ساغر نظامی، آغا حشر کاشمیری، بہزاد لکھنوی، یاس عظیم آبادی خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مشاعرے بھوپال کے مذاقِ شعری پر بڑی حد تک اثر انداز ہوئے۔

    اس دور میں یہاں ترقی پسند ادب کا بھی آغاز ہوا۔ ترقی پسند مصنفین کی باقاعده انجمن بھی قائم ہوئی، اشتراکی نقطۂ نظر اس دور کے نوجوان شعراء و ادباء کی تخلیقات میں داخل ہونا شروع ہوا۔

    نواب حمید اللہ خاں کے عہدِ حکومت میں نظامِ تعلیم میں زبردست تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ الگزینڈر اور جہانگیریہ ہائی اسکول کا الحاق عثمانیہ یونیورسٹی سے کر دیا گیا۔ جس کی بدولت اردو ذریعۂ تعلیم کو فروغ ملا۔ اس کے علاوہ بے شمار علمی و ادبی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ اخبارات اور رسائل کے اجراء کے لئے بھی یہ دور گذشتہ ادوار سے ممتاز ہے۔ جو رسائل اور اخبارات جاری کئے گئے ان میں گوہرِ ادب ، آفتابِ نسواں، افشاں، افکار، ندیم، جاده، معیارِ ادب اور کردار وغیرہ کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ الگزینڈر ہائی اسکول سے "گہوارۂ ادب” نام کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا گیا۔

    نواب صاحب کے ذوق ادب کی بدولت اس عہد میں نشر و اشاعت کا زبردست کام ہوا۔ انھوں نے سلطان جہاں بیگم کی تقاریر کا مجموعہ بھی "خطباتِ سلطانی” کے نام سے طبع کروایا اور اہلِ علم و ہنر کی سرپرستی بھی فرمائی۔ علاّمہ اقبال کو ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں پانچ سو روپے ماہوار کا وظیفہ جاری کیا۔ ریاست کی طرف سے حفیظ جالندھری کو بھی وظیفہ دیا جاتا تھا۔ نواب صاحب کی ان کرم فرمائیوں سے ریاست کا مشاہیر ادب سے گہرا تعلق قائم ہوا۔

    ان کے علاوہ نواب حمید اللہ خاں کے عہد میں ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ قلم کی تھی جنہیں شہرت اور مقبولیت حاصل تھی اور جنہوں نے شعری و ادبی سرمایہ میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔

    (از قلم: ارجمند بانو افشاں)

  • پرندے کے نغمے کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟

    پرندے کے نغمے کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟

    مشہورِ زمانہ ٹائم میگزین نے 1998 میں صدی کی سو بڑی شخصیات کی فہرست میں پابلو پکاسو کو اوّلین جگہ دی اور لکھا: اس سے قبل کوئی آرٹسٹ اس قدر مشہور و معروف نہ ہو سکا جتنا پکاسو ہوا۔

    اس رجحان ساز مصوّر کے افکار و خیالات اور اس سے متعلق چند مضامین کا احمد مشتاق نے اردو میں ترجمہ کیا ہے جس سے ایک اقتباس آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    پکاسو نے کہا تھا: ’’مصور اپنی ذات سے خیالات اور احساسات کا بوجھ اتارنے کے لیے تصویریں بناتا ہے۔ لوگ اپنی عریانی کو چھپانے کے لیے انہیں خرید لیتے ہیں۔ انہیں تو اپنے مطلب کی چیز چاہیے جہاں سے بھی ملے۔‘‘

    ’’ویسے مجھے یقین ہے کہ انجام کار انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ اپنی جہالت کے ناپ کا لباس تیار کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ خدا سے لے کر تصویر تک ہر شے کو اپنی شبیہ پر بناتے ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ وہ کنڈی جس کے ساتھ تصویر لٹکا دی جاتی ہے، بالآخر اس کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ تصویر کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے، کم از کم اپنے خالق کے برابر تو ضرور ہوتی ہے۔ لیکن جونہی تصویر کو خرید کر دیوار پر لٹکا دیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت قطعی طور پر دوسری قسم کی ہو جاتی ہے اور یوں تصویر کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’فن کو ہر کوئی سمجھنا چاہتا ہے۔ پرندے کے نغمے کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ لوگ رات سے، پھولوں سے، ہر اُس شے سے جس سے انہیں مسرت حاصل ہوتی ہے، محبت کرتے ہیں۔ لیکن انہیں ان چیزوں کا مطلب سمجھنے کا خیال کیوں نہیں آتا، لیکن ایک تصویر کو دیکھ کر ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی سمجھ میں بھی آئے۔‘‘

    ’’کاش لوگوں کو صرف یہ احساس ہو جائے کہ فن کار کے لیے تخلیق ایک ضروری عمل ہے اور فن کار محض اس دنیا کا ایک ننھا سا حصّہ ہے اور اسے اتنی ہی اہمیت دی جانی چاہیے جتنی کہ دنیا کی ایسی دوسری چیزوں کو دی جاتی ہے جو اچھی لگتی ہیں، لیکن جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ تصویروں کی تشریح کی کوشش کرتے ہیں، محض وقت ضائع کرتے ہیں۔‘‘

  • فلمی صنعت کا دورِ عروج اور کراچی کے چند فلم اسٹوڈیو

    فلمی صنعت کا دورِ عروج اور کراچی کے چند فلم اسٹوڈیو

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں‌ جب فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی اور فلم سازی کا آغاز ہوا تو نگار خانے بھی قائم کیے گئے جن سے وابستہ آرٹسٹوں اور تکنیکی عملے نے اپنے فن اور ہنر کو خوب آزمایا اور فلم انڈسٹری کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا۔ تیری یاد کو پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل بھی یہاں فلم اسٹوڈیوز موجود تھے، لیکن قیامِ‌ پاکستان کے بعد یہاں جو فلمی اسٹوڈیوز بنائے گئے، وہ ڈیڑھ درجن کے قریب تھے۔ ان میں کراچی شہر میں پانچ اور لاہور میں بارہ فلم اسٹوڈیوز تھے جن میں سے پانچ تقسیم سے پہلے کے تھے۔

    فلم سازی کے لیے ضروری سامان اور تمام لوازمات کے ساتھ ماہر اور تجربہ کار عملہ ہی کسی بھی فلم کو اسٹوڈیو مکمل کرتا ہے۔ یہ فلم اسٹوڈیوز کیمرہ، ساؤنڈ اور لائٹوں کے علاوہ ڈبنگ اور ریکارڈنگ کی سہولت، فلم پروسیسنگ کی لیبارٹری اور انڈور شوٹنگ کے لیے مختلف قسم کے سیٹ لگانے کے فلور سے آراستہ ہوتے ہیں۔

    بعض فلم اسٹوڈیوز میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ کا بندوبست بھی ہوتا تھا اور وسیع احاطے میں‌ کھیت، مصنوعی نہر اور باغ وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے جہاں فلم کی ڈیمانڈ کے مطابق منظر اور گیتوں‌ کی عکس بندی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف کاسٹیوم، ملبوسات کی دست یابی یقینی بنانے کے ساتھ ایکسٹرا اداکاروں‌ سے بھی رابطہ رکھا جاتا تھا۔ انہی اسٹوڈیوز میں فلم سازوں اور تقسیم کاروں کے دفاتر بھی ہوتے تھے۔

    یہاں ہم آپ کی دل چسپی کے لیے کراچی کے چند فلمی اسٹوڈیوز کا تذکرہ کررہے ہیں جو آج فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ کراچی میں فلمی سرگرمیوں کا آغاز 1952ء میں ہوا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے لاہور جیسی ترقی نہ ہو سکی۔ یہاں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان 1955 کی تھی۔ پہلی سندھی، پشتو اور گجراتی فلمیں بھی یہیں بنائی گئیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے دورِ عروج میں کراچی میں پانچ فلم اسٹوڈیوز موجود تھے۔

    قیصر اسٹوڈیو
    کراچی شہر میں‌ پہلا باقاعدہ نگار خانہ ‘قیصر اسٹوڈیو’ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ یہ شہر کے مشہور علاقے ماری پور میں بنایا گیا تھا لیکن صرف دو سال بعد ہی اسے بند کر دیاگیا تھا۔

    کراچی اسٹوڈیو
    پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 1948ء کے فلم ساز اور پہلے فلم اسٹوڈیو ‘پنچولی آرٹ اسٹوڈیو’ کے منیجر دیوان سرداری لال جب ہجرت کے اوّلین دنوں میں‌ فسادات کے بعد لاہور سے لٹ پٹ کر کراچی پہنچے تو یہاں ‘کراچی اسٹوڈیو’ کے نام سے ایک فلمی نگار خانہ بنانے کی کوشش کی۔ 1953ء میں جیل روڈ پر ایک بین الاقوامی نمائش ہوئی تھی جس میں چین کے پویلین کو لے کر فلور بنائے گئے تھے۔ اسی نگار خانے میں 9 اگست 1953ء کو فلم "سدا سہاگن” کی افتتاحی تقریب ہوئی۔ اس طرح دیوان سرداری لال کو لاہور کے بعد کراچی کی پہلی فلم بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں‌ دیا اور انھیں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر بھارت جانا پڑا۔

    ایسٹرن اسٹوڈیوز
    1953ء میں کراچی کے علاقے منگھو پیر میں ہارون فیملی نے ‘ایسٹرن اسٹوڈیوز’ کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم اسٹوڈیو کا ساز و سامان مغربی ممالک کی طرف سے غریب ممالک کی فنی اور اقتصادی امداد کے کولمبو پلان کے تحت ملا تھا۔ اس نگار خانے میں چار شوٹنگ فلور، ریکارڈنگ اور سنیما ہال کے علاوہ ایک لیبارٹری بھی تھی۔

    ماڈرن اسٹوڈیوز
    1967ء میں کراچی میں منگھو پیر سائٹ ایریا ہی میں ‘ماڈرن اسٹوڈیو’ کا افتتاح بھی ہوا۔ اس نگار خانے میں دو شوٹنگ فلور، ایک ریکارڈنگ اور سنیما ہال اور ایک لیبارٹری بھی تھی۔ یہاں پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں (1970)، پہلی پشتو فلم ’یوسف خان شہر بانو (1970)، پہلی پاکستانی انگریزی فلم بنائی گئی۔

    انٹرنیشنل اسٹوڈیوز
    1972ء میں جدید سہولیات سے آراستہ ‘انٹرنیشنل اسٹوڈیو’ کا آغاز ایک اشتہاری کمپنی کے مالک سی اے رؤف نے کیا۔ یہاں دو شوٹنگ فلور، ریکارڈنگ اور سمیما ہال اور ایک لیبارٹری بھی بنائی گئی تھی۔

  • دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    فسادی مزاج لوگوں کے جھگڑے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی رُو بہ رُو، دُو بہ دُو اور تُو تڑاخ کر کے تسکین پاتا ہے تو کوئی غائبانہ فساد ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔

    زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی رونما ہو گئی۔ وہ جو کبھی ”گھر کی بات گھر میں رہے“ کے آرزومند ہُوا کرتے تھے اب دل کی بات بھی دل میں نہیں رکھ پاتے۔ یوں گھر کی بات گھر گھر پھیلتی ہے۔

    آج دنیا بھر میں‌ سماجی رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ واٹس ایپ ہے جس کا اس حوالے سے فعال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے واٹس ایپ پر فیملی گروپ کا رواج پڑا اور بڑھا ہے، انفرادی اور خاندانی جھگڑے یہیں نمٹائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر کے مکینوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہی فیملی گروپ مؤثر اور کارآمد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہم نے اہتمام کیا کہ خیر النساء کے ”برسوں کے تجربات“، اُن کی بڑی بہو تابندہ کے”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“ چھوٹی بہو فراست کے ”آج کی سوغات“ اور خیر النساء کے بھائی نصیر کے”امن کی پُکار“ نامی گروپوں کے اسٹیٹس پر لگائی جانے والی گفتگو آپ کی نذر کریں۔

    ٭تابندہ٭ ”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“: محبت کیجیے، محبت بانٹیے، محبت پائیے۔

    ٭فراست٭ ”آج کی سوغات‘‘: محبت کی تقسیم پر اپنے پرائے سب کا یکساں حق ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: اتفاق میں برکت ہے۔

    لیکن پھر ہُوا یوں کہ تابندہ کے اسٹیٹس ”صبح سویرے دل پہ بیتی باتیں“ کے عنوان سے لگنے لگے۔ اب تابندہ دل کو چُھو لینے والے پیغامات کے بجائے دل پر بیتنے والی باتیں پیغامات کی صورت شیئر کر رہی تھیں، وہ بھی ایسے جو پڑھنے والوں کو چونکا دیتے تو فراست کے دل میں کانٹے بن کر چبھتے۔ کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ یہ پیغامات کس کے لیے ہیں لیکن چپ رہتیں۔ آخر کب تک؟ ایک دن تابندہ کا اسٹیٹس پڑھ کر فراست نے اپنی خاموشی توڑی اور ”نہلے پہ دہلا“ کے عنوان سے اسٹیٹس لگانے شروع کر دیے۔ ان بے لاگ اسٹیٹس کی وجہ سے دیورانی جیٹھانی میں بُری طرح ٹھن گئی۔ تابندہ کے سیر پر سوا سیر کا بٹہ مارنا فراست نے اپنا معمول بنا لیا۔

    ٭تابندہ٭ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    ٭فراست٭ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

    ٭تابندہ٭ سو باتوں کی ایک بات۔ کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا۔

    فراست٭ کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو من بھاتا کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں، مانگا تانگا بھی کھانے سے نہیں ہچکچاتے۔

    ٭تابندہ٭ تجھ کو پڑائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔

    فراست٭ آدھا تیتر، آدھا بٹیر، ہنسی روکوں تو کیسے روکوں۔

    ٭تابندہ٭ ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

    ٭فراست٭ منہ اچھا نہ ہو نہ سہی۔ منہ سے نکلے بھلی بات کوئی

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: درگزر سے کام لو، دل صاف کرو، مل کر رہو، خوش رہو، لوگوں کے لیے مثال بنو۔

    ٭تابندہ٭ بات ہے پتے کی

    ٭فراست٭ عمل کی نوبت آئے تب۔ ورنہ؟

    ٭خیرالنساء٭ وہ نوبت بجے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

    ٭فراست٭ دل میں چھپا ارمان تو یہی ہے لوگوں کے۔

    ٭خیرالنساء٭ کھانا پکائیں، اُبلا سُبلا اُبالا سُبالا، باتیں بگھاریں لذّت بھری۔

    اپنی ساس کے اسٹیٹس کے جواب میں فراست نے ”زندگی عذاب ٹرانسمیشن“ کے عنوان سے ساس کے برہمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا۔

    ٭فراست٭ صبح ناشتہ مع طعنہ۔ ظہرانہ دل جلانا۔ ہائے ہائے اور عصرانہ جاری ہُوا شکایت نامہ سنگ عشائیہ۔

    فراست کے اسٹیٹس نے تابندہ کے دل میں گلاب کھلا دیے۔ دیورانی سے شدید اختلافات کے باوجود فوری دل، ستارے اور پھول بھیج کر بھر پور داد دی، اس بیان کے ساتھ کہ بہو وہی اچھی جو ساس نامی بھڑ کے جتھے کو نہ چھیڑے ورنہ…..؟

    ٭فراست٭ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی کیونکہ اس بھڑ کے جتھے میں ساس کی بد ذاتی کیفیات ذاتی رویوں کے ساتھ آپ کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

    بہوؤں کے کاری واروں نے خیرالنساء کو اسٹیٹس کے نئے عنوان ”ساس کی للکار“ کے ہمراہ آنے پر مجبور کر دیا۔

    ٭خیرالنساء٭ طعنے بہوؤں کے سنوں اور کچھ بھی نہ کہوں
    ائی بہوؤں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    ٭فراست٭ نہ، نہ، نہ خاموش؟ ہر گز نہیں۔ خاموش رہ کر سینے پر مونگ دلنے سے بہتر ہے کہ بول کر بھڑاس نکال لی جائے۔

    ٭تابندہ٭ سکوتِ شہرِ سخن میں وہ آگ سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا نار نار کر دے گا

    ٭خیرالنساء٭ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
    ٭فراست٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    ٭تابندہ٭ دن بھر دل جلاتے رہنے والے تہذیب کے دیے جلاتے بھلے نہیں لگتے۔

    ٭خیرالنساء٭ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

    ٭فراست٭ اور بہو کی ساس بنتے ہی ماں اس تربیت گاہ کے پرخچے اُڑا دیتی ہے اور اولاد کو تتر بتر کر دیتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بڑے جب چھوٹوں سے بڑھ کر چھوٹے بن جائیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے۔

    ٭فراست٭ دریا میں کنکر مارنے والے کریں سمندر کے سکوت کا تذکرہ۔ واہ بھئی

    ٭تابندہ٭ بیٹا اگر محبت سے شریکِ حیات کو تحفہ دے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ آگ بگولہ ہوں۔

    ٭فراست٭ داماد بیٹی کو تحفہ دے تو نگاہوں تک سے بیٹی کی آرتی اُتار لی جاتی ہے اور………

    ٭تابندہ٭ خالی جگہ پُر کریں۔

    ٭فراست٭ بیٹا بہو کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو لفظوں کے تیروں سے بہو کا کلیجہ چھلنی کر دیں۔

    ٭خیرالنساء٭ جلنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتے ہیں۔

    ٭تابندہ٭ لے ساس بھی شائستہ کہ ظالم ہے بہت کام
    آفات کی اس پُڑیا کی تیشہ گری کا

    ٭فراست٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔

    جب اسٹیٹس کی جنگ کے شعلے زیادہ شدت سے بلند ہونے لگے تو خیرالنساء کے ہر دلعزیز اور صلح جُو بھائی نصیر کا اسٹیٹس ”امن کی پکار“کے نام سے آگیا۔

    ٭نصیر٭ نہ وہ بہوؤں میں لحاظ رہا
    نہ شرم ہے ساس کی زبان میں
    اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں اُچھالنے والوں کو اب سنبھل جانا چاہیے۔

    ٭فراست٭ نیک قدم بڑے اُٹھائیں گے تو چھوٹے وہی راہ اختیار کریں گے۔

    ٭تابندہ٭ لیکن جب بڑے بچوں کو بھی مات دے دیں تب یہ ناممکن ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ شعلوں کو ہوا دینے والے کیسے آگ بجھا سکتے ہیں؟

    ٭نصیر٭ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ٭فراست٭ ستائش بیٹیوں کے لیے اور آزمائش بہوؤں کے لیے ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ اور جب چھلکتا ہے تو کیسا ادب؟ کیسی محبت؟

    ٭خیرالنساء٭ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

    ٭نصیر٭ جتنا بات کو بڑھائیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بعض لوگوں پر اپنے نام کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ٭فراست٭ ہو بھی کیسے جب دل میں شر کے شرارے اور دماغ میں بدی کا طوفا ن اُٹھ رہا ہو۔

    ٭خیرالنساء٭ خیر و شر کی جنگ میں فتح ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے۔

    ٭نصیر٭ معافی سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں۔

    ٭خیرالنساء٭ بڑوں ہی کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ جب بڑے آغاز کریں تو چھوٹے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

    ٭فراست٭ اور چھوٹوں کا کام ہی بڑوں کی تقلید ہے۔ جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

    ٭نصیر٭ بقول رابرٹ بینلن ”محبت تب ہوتی ہے جب کسی کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے لازمی شرط ہو۔“

    ٭خیرالنساء٭ محبت میں اخلاص اور دوستی بھی شامل ہو تو محبت کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ اور میں اسی احساس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہوں۔

    ٭تابندہ٭ اگر ایسا ہے تو آج ہی سے ”ساس ہے میری سہیلی۔“

    ٭فراست٭ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا۔

    ٭نصیر٭ محبت کے دیے جلا لو، وفا کے گیت گنگنا لو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔

    ٭خیرالنساء٭ مسکراتا رہے آشیانہ۔

    (کثیرالاشاعت روزناموں میں شائستہ زریں کی مفید اور بامقصد تحریریں، افسانے اور سروے رپورٹیں‌ شایع ہوتی رہتی ہیں، انھوں نے ریڈیو کے لیے سنجیدہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ کئی فیچر اسٹوریز بھی لکھی ہیں)

  • "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے!

    "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے!

    عبد المجید سالک اردو کے نام وَر شاعر، صحافی، افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔ انہوں نے مولانا غلام رسول مہر کے اشتراک سے روزنامہ "انقلاب” جاری کیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ عبد المجید سالک اس میں ایک کالم "افکار و حوادث” کے نام سے لکھا کرتے تھے، یہی کالم ان کی پہچان بنا۔

    ان کے منتخب شدہ کالم اسی عنوان سے ایک کتاب میں 1991ء میں شائع ہوئے تھے۔ اس مجموعے میں ان کا وہ دل چسپ کالم بھی شامل ہے جس میں‌ انہوں نے اپنے دفتر پر موصول ہونے والے ایک خط سے چند سطور نقل کی تھیں۔ یہ غالباً 1930 کی بات ہے۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں۔

    بعض حضرات کی بے تکلفی نہایت دل چسپ ہوتی ہے۔ سہسوان ضلع بدایوں میں ایک صاحب نے عطر تیل کا کارخانہ جاری کیا ہے اور حال ہی میں مہتمم "انقلاب” کے نام ذیل کا مکتوب بھیجا ہے۔

    "مزاج شریف! گزارش یہ ہے کہ ہم نے حال میں عطر تیل کا کام شروع کیا ہے جس کے لیے آپ کی عنایت کی بھی ضرورت ہے، لہٰذا جناب ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت فرمائیے کہ آپ کے خریدارانِ اخبار کے ایک ہزار پتے چاہییں، لہٰذا جو قیمت ہو اس سے مطلع فرمائیے۔ امید ہے کہ مثل اور اخباروں کے آپ بھی مجھ جیسے ناچیز پر اپنا کرم فرمائیں گے۔”

    اس خط سے یہ سطور نقل کرنے کے بعد سالک صاحب اپنے کالم کو آگے بڑھاتے ہوئے رقم طراز ہیں:‌ گویا ان حضرت کے نزدیک ہم اخبار فروش نہیں بلکہ "پتا فروش” ہیں۔ ہمارا پیشہ یہی ہے کہ بہت سے شریف آدمیوں کے پتے کسی نہ کسی طرح حاصل کر لیں اور اس کے بعد ان کو بازار میں بیچنا شروع کر دیں اور ہر طرف صدا لگاتے پھریں: "پتے لے لو پتے! ایک روپے کے دس، دس روپے کے سو، سو روپے کے ہزار، تازہ بہ تازہ ہیں۔ پتے لے لو پتے۔”

    جناب نے یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ "ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک مسلم کے ساتھ یہ عنایت کریں۔” بندہ پرور، جب قیمت اور معاوضے کا سوال درمیان میں آ گیا تو پھر مسلم اور غیر مسلم پر کیا موقوف ہے، جس کی ناک پر ٹکا رکھ دیجیے گا، وہی آپ کا کام کر دے گا، لیکن وہ کوئی احمق اخبار ہوں گے جو اپنے پتے چند روپے کے معاوضے میں آپ کے حوالے کر دیں۔ "انقلاب” والوں سے یہ توقع نہ رکھیے۔

  • امیر تیمور: وہ جنگجو جس کی معذوری فتوحات کا راستہ نہ روک سکی

    امیر تیمور: وہ جنگجو جس کی معذوری فتوحات کا راستہ نہ روک سکی

    مشہور ہے کہ امیر تیمور بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں کی قوّت سے کام لے سکتا تھا۔ اگر وہ ایک ہاتھ میں تلوار اٹھاتا تو دوسرے میں کلہاڑا تھام لیتا تھا۔ نوجوانی میں اس کا اعتقاد اس کہاوت پر پختہ ہوچکا تھا کہ ’جو ہاتھ تلوار اٹھانا جانتا ہے، تخت و تاج کا حق دار بھی ہوتا ہے۔‘ امیر تیمور سلطنت اور فتوحات میں‌ اس کہاوت کی جیتی جاگتی مثال بنا۔

    چودہویں صدی عیسوی میں امیر تیمور کو اس کی سلطنت اور فتوحات کی بنیاد پر عظیم فاتح‌ کہا جاتا ہے جس کی ایک ٹانگ میں‌ نقص تھا۔ اسی وجہ سے بالخصوص مفتوحہ علاقوں میں‌ وہ تیمور لنگ کے نام سے مشہور تھا۔ امیر تیمور نے 1336ء میں سمرقند کے قریب کے ایک قصبے کیش میں آنکھ کھولی۔ ازبکستان اور وسطی ایشیا میں اسے عظیم فاتح کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    تیمور ایک ترک منگول قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ چنگیز خان اور امیر تیمور دونوں کا جدِ امجد تومنہ خان تھا۔ تیمور لنگ کا تعلق اپنے وطن کے ایک معمولی خاندان سے تھا۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ بلخ میں اپنی تخت نشینی کے بعد امیر تیمور نے ان تمام علاقوں اور ریاستوں پر قبضہ کرنا اپنا مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی رہی تھی۔ اسی لیے وہ 37 سال کے عرصہ میں اپنی وفات تک جنگوں اور فتوحات میں‌ مصروف رہا۔ فتوحات اور ریاست کو وسعت دینے کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندرِ اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے بڑے فاتحین میں کیا جاتا ہے۔ لیکن محققین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے دورِ‌ حکم رانی میں کوئی قابلِ ذکر کارنامے انجام نہیں‌ دے سکا، بالخصوص اس کے مقبوضہ جات میں دیرپا، مستحکم اور تعمیری کام نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مفتوحہ ممالک کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصّہ نہیں بناتا تھا بلکہ وہاں امیر مقرر کرکے اس سے اپنی اطاعت کا وعدہ لے کر اگلے محاذ کی تیاری میں جٹ جاتا تھا۔ مگر مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں‌ کہ جس علاقے میں امیر تیمور کی مستقل حکومت قائم ہوئی وہاں قیامِ امن اور عدل و انصاف کے علاوہ خوش حالی اور ترقّی کے لیے قابل قدر کوششیں کی گئیں۔ اس میں‌ شہروں کی تعمیرِ نو اور تجارت کو فروغ دینا شامل تھا۔

    چودھویں صدی عیسوی میں‌ امیر تیمور نے سلطنتِ عثمانیہ اور بغداد یا دمشق کے حکم رانوں سے بھی ٹکر لی۔ وہ ایک ایسا سپاہ سالار اور جنگجو تھا کہ ان طاقتوں‌ کے لیے میدان میں اسے شکست دینا مشکل ثابت ہوا۔

    دمشق کے ایک مشہور مؤرخ احمد بن عربشاہ کو امیر تیمور کا بڑا ناقد کہا جاتا ہے، لیکن انھوں نے بھی اسے ’ایک انتہائی باہمت اور طاقت ور‘ حکم راں تسلیم کیا۔

    تیمور لنگ نے تخت نشینی کے بعد بہت تیزی سے فتوحات کیں اور وسطی ایشیا کے میدانوں سے لے کر کوہستانی دروں سے گزرتے ہوئے اپنی فوج کی طاقت کو منوایا۔ مؤرخین کے مطابق اس کی فوج میں مختلف قومیتوں اور خاندان کے لوگ اہم عہدوں‌ پر فائز تھے اور سپاہی بھی مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔

    کہتے ہیں‌ کہ جوانی میں‌ تیمور شدید زخمی ہوگیا تھا اور پیر سے لنگڑانے لگا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی طاقت کے لیے جنگی صلاحیتیں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں، اس طرح کی معذوری کسی بھی منصب دار مرد کے لیے ایک بڑا دھچکا تھی۔ لیکن یہ معذوری حیرت انگیز طور پر اس کی کم زوری نہیں‌ بنی۔ وہ

    روس کی مہم، ایران پر لشکر کشی، ہندوستان پر حملہ، فتحِ شام، جنگِ انقرہ اور دوسری جنگی مہمات میں اس نے خود کو بہترین سپاہ سالار ثابت کیا اور فوجوں کو بڑی ذہانت سے دشمن کے مقابلے پر اتارا۔

    کئی فتوحات کے بعد تیمور نے اس وقت چین پر حملے کی تیاری شروع کی جب وہ بوڑھا ہوچکا تھا، لیکن چوں کہ وہ اس خطّے پر حکومت کو اپنا حق سمجھتا تھا، اس لیے اس کی نظر میں اس کی عمر، فوج یا وسائل سے متعلق کسی بات اہمیت نہیں‌ رکھتی تھی۔ تاریخی کتب میں درج ہے کہ اس ارادے سے تیمور نے شدید سردی میں سیر دریا کے نام سے وسطی ایشیا کا ایک منجمد دریا پار کیا اور دوسری طرف پہنچا، مگر اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ اسی مقام پر 1405ء میں آج کے دن تیمور لنگ نے وفات پائی۔ امیر تیمور کا مدفن اس کے دارُ السطنت سمر قند میں ہے جہاں مقبرے پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔

    آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ امیر تیمور نے اپنے دارُ السّلطنت سمرقند پر خاص توجہ دی۔ امریکی محقق، مؤرخ‌ اور ادیب ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ سمر قند میں تیمور کے دورِ‌ حکومت کا آغاز ہوا تو وہاں تمدن اور تعمیرات کچھ نہ تھیں مگر بعد میں‌ تیمور کے ہاتھوں میں آکر یہ شہر ایشیا کا روم بن گیا۔ اس نے ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دست کاروں، علما اور اہلِ قلم کو وہاں طلب کیا اور سمرقند کو نہ صرف شان دار عمارتوں کا شہر بنایا بلکہ علم و ادب کا مرکز بھی بنا دیا اور اس کی بدولت وسطی ایشیا میں‌ تیمور کا بڑا چرچا ہوا۔

    تیمور کی ایک آپ بیتی 1783ء میں منظرِعام پر آئی جسے ایک فرانسیسی مصنّف مارسیل بریون نے مرتب کیا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ تیمور کا تحریر کردہ اپنی یادداشتوں کا اصل نسخہ یمن کے بادشاہ جعفر پاشا کے پاس محفوظ تھا جو بعد میں ہندوستان سے ہوتا ہوا برطانیہ پہنچ گیا۔ اس کتاب میں‌ امیر تیمور کے کئی اہم اور تاریخی نوعیت کے واقعات کے علاوہ بہت سے دل چسپ واقعات بھی شامل ہیں۔

  • ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    آبنائے باسفورس کی شاخ جو دور تک چلی گئی، یہ شہر اس کے دو کناروں پر آباد ہے۔ اور اس وجہ سے اس کے دو حصّے بن گئے ہیں۔

    ایک حصّہ استنبول کہلاتا ہے اور تمام بڑی بڑی مسجدیں، کتب خانے، سلاطین کے مقبرے اسی حصّہ میں ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بھی کثرت سے یہیں ہے۔ دوسرا حصہ پیرہ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے انتہائی جانب پر بشک طاس وغیرہ واقع ہیں۔ جہاں سلطان کا ایوانِ شاہی اور قصرِ عدالت ہے۔ پیرہ کی دوسری طرف غلطہ ہے اور چونکہ تمام بڑے بڑے یورپین سوداگر اور سفرائے سلطنت یہیں سکونت رکھتے ہیں۔ اس کو یورپین آبادی کہنا زیادہ مناسب ہے۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں۔ ایک سو اکھتّر حمام۔ تین سو چونیتیس سرائیں۔ ایک سو چونسٹھ مدارس قدیم، پانچ سو مدارس جدید۔ بارہ کالج۔ پینتالیس کتب خانے۔ تین سو پانچ خانقاہیں۔ اڑتالیس چھاپہ خانے ہیں۔

    کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں۔ بارہ دخانی جہاز۔ زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔ غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ کانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشّان ہیں۔ جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریاتِ زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔”ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمیِ صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُر فضا مقامات میں ہونے چاہیئیں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔

    قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مذہب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑکے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔ زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔ اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں۔ دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔

    غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارُالسّلطنت کے دو حصوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلاف حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صَرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔
    یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلے کے محلے جل کر خاک و سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا۔ اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امرا شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!

  • بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں فرق

    بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں فرق

    دنیا بھر میں ادیب، شاعر یا فنونِ‌ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی شخصیت جہاں اپنی تخلیقات اور فن کی بدولت پہچانے جاتی ہے، وہیں اس کی ذاتی زندگی سے منسوب قصّے، واقعات اور وہ لطائف بھی قابل ذکر ہوتے ہیں جس سے اس کی خوش مزاجی اور حاضر جوابی ظاہر ہوتی ہے۔

    مارک ٹوین کو ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے اور جس طرح اردو ادب میں غالب کی ظرافت اور ان کی شوخ مزاجی مشہور ہے، اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

  • جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔

    حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسّے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔

    داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔

    دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انہوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے ورودِ حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟

    یہ بھی پڑھیے:

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔
    (داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 56)

    حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہو گی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا: "حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔”
    (خطوطِ داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)

    حجاب حیدر آباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلٰوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد و وظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھا تھا، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے: "کوئی 40، 45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا، پتلے پتلے لب، میانہ قد، اونچی پیشانی، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی۔ پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔”
    (بحوالہ: نگار، جنوری 1953ء)

    حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ "جب تک نکاح نہیں کر لوں گی، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لیے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔”

    داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرمارہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔” (مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)

    لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جا نماز اور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ”جب تک تمہارے اورادو وظائف نہیں چھوٹیں گے، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہوسکتیں۔”

    حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں۔ ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہو کر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔

    تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ” میں لکھتے ہیں:
    "یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبۂ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کارفرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزّت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔”

    لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔

    حجاب اگست 1904ء میں داغ سے خفا ہو کر کلکتے واپس چلی گئی تھی۔ اس کے جانے کے لگ بھگ سات مہینے بعد 16 فروری 1905ء کو داغ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

    (بلبلِ ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ نے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعۂ معلّیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی، وہ حسن پرست اور رنگین مزاج تھے، یہ اقتباسات اس استاد شاعر سے متعلق مخمور سعیدی کی کتاب کے ایک مضمون سے لیے گئے ہیں)

  • مجروح کی پٹائی

    مجروح کی پٹائی

    اردو کے ممتاز غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری نے کئی فلمی گیت بھی لکھے جو آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی غزل کا یہ شعر زباں زدِ عام ہے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

    اسی طرح مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت اک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    خلیق انجم نے اردو کے اس ممتاز غزل گو شاعر کا جو شخصی خاکہ لکھا تھا، یہاں ہم اس سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مجروح کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چوں کہ مجروح انجمن ترقّی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔

    ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔

    مجروح کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے، اس لیے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔

    ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔

    ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بیکار رہے اور پھر 1933ء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔

    مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔

    ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے:

    "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔