Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ‘سانپ سیڑھی کا کھیل’ اور یونس دہلوی

    ‘سانپ سیڑھی کا کھیل’ اور یونس دہلوی

    یونس دہلوی نے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں معمّوں کی ابتدا کر کے ایک ماہرِ نفسیات کی طرح مالی بحران اور اقتصادی شکنجوں میں جکڑے ہوئے اردو داں طبقے پر ایک حربہ آزمایا اور معمے بھر کر آسانی کے ساتھ دولت حاصل کرنے کی عام انسانی خواہش کو جگا دیا۔

    یہ بھارت میں اردو رسائل کے سب سے بڑے سلسلہ کے ناشر و مدیر یونس دہلوی کے بارے میں عظیم اختر کے مضمون کا ابتدائیہ ہے۔ اس اشاعتی کاروبار کی بنیاد تقسیمِ ہند سے قبل یوسف دہلوی نے رکھی تھی، جسے بعد میں‌ ان کے بیٹے یونس دہلوی نے نہایت کام یابی سے آگے بڑھایا۔ ان کے زیرِ انتظام شمع پبلشنگ ہاؤس کے تحت مقبولِ عام فلمی رسالہ شمع ہی نہیں کھلونا، بانو، شبستان جیسے رسائل کی اشاعت ہوتی رہی۔ یہ رسائل بھارت کے علاوہ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بھی خریداروں تک پہنچتے تھے اور پڑھے جاتے تھے۔ رسالہ شمع لاکھوں کی تعداد میں‌ شایع ہوتا تھا اور ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھا۔ بالی وڈ کی مشہور شخصیات جن میں دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کمار، آشا پاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج اور فلمی دنیا کے کئی چہرے یونس دہلوی کے احباب میں‌ شامل تھے اور ان کے گھر بھی آنا جانا تھا۔

    آج یونس دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2019ء میں اس دارِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ یونس دہلوی کا کاروبار 1994ء تک نہایت کام یابی سے چلتا رہا، لیکن پھر خاندان میں اختلافات نے جنم لیا اور سب کچھ اس کی نذر ہوگیا۔ یونس دہلوی کو کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا اور وہ بھارت اور اردو دنیا کی ایک مشہور ہستی تھے۔ عظیم اختر نے اپنی تحریر میں‌ یونس دہلوی کا تذکرہ کرتے ہوئے رسالہ شمع کی مقبولیت کا ایک راز بھی بتایا ہے، جو قارئین کی دل چسپی کا سبب بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں خطیر رقموں کے انعامات کی پرکشش اور ترغیب دلانے والی پیش کش نے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور شمع کا سرکولیشن چند ہی سالوں میں ایک لاکھ سے تجاوز کر گیا۔ یہ ماہنامہ "شمع” کے شباب کا دور تھا۔ شمع کے اسی دورِ شباب میں یونس دہلوی نے ماہنامہ "ساقی” کے مدیر جناب شاہد احمد دہلوی کی سنتوں کو تازہ کرتے ہوئے نہ صرف "شمع” میں شائع ہونے والی غزلوں، نظموں اور کہانیوں کے تخلیق کاروں کو بلکہ ‘شمع بک ڈپو’ کی طرف سے شائع ہونے والے ناولوں کے ناول نگاروں کو باقاعدہ رائلٹی دینے کا بھی سلسلہ شروع کیا جس کا اس زمانے میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔

    ماہ نامہ شمع کی اس پذیرائی نے اس دور کے ہر چھوٹے بڑے اور معروف و غیر معروف شاعر اور افسانہ نگار کو شمع کے صفحات میں جگہ پانے کا خواہش مند بنا دیا تھا۔

    تخلیقی کاوشوں پر رائلٹی اور کثیر الاشاعت رسالے میں چھپنے کی للک نے معمے بازی کی دعوت عام دینے والے ماہ نامہ شمع کو فلمی اور نیم ادبی پرچے کا روپ دے دیا تھا۔ معمے چوں کہ خالص یونس دہلوی کے ذہن کی اختراع تھے، اس لیے معمے کی شکل میں لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو مرتب کرنے کے علاوہ شمع میں چھپنے والی کہانیوں کا انتخاب بھی وہ بذاتِ خود کیا کرتے تھے۔ صرف شعری حصّے کی ترتیب کے لیے وہ ایک عرصہ تک ابّا جی مرحوم حضرت مولانا سلیم اختر مظفر نگری کی مدد لیتے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد شعری حصّے کے انتخاب کے لیے ان کی نگاہِ انتخاب جناب بسمل سعیدی ٹونکی جیسے استاد اور کہنہ مشق شاعر پر پڑی۔ یونس دہلوی بذاتِ خود ایک قلم کار اور ادیب نہیں تھے لیکن وہ فلمی ستاروں کی رومانی کہانیاں اور باہمی تعلقات کے لذّت آمیز قصے پڑھنے والوں اور معموں کے شوقین پروانوں کو ذہنی آسودگی پہنچانے والی کہانیوں کے ایک اچھے پارکھ تھے۔

    معمے کی اختراع نے شمع کو چند ہی سالوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا لیکن جب لوگوں کو دولت مند بنانے کی اس سہل سے نسخے پر "جوا ایکٹ” (Gamble Act) کی پرچھائیاں پڑیں تو قانونی مجبوریوں کے تحت معمہ بند کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سرکولیشن بری طرح متاثر ہوئی۔ مالکان کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ شمع کی تمام تر مقبولیت اور بڑھتی ہوئی سرکولیشن صرف معموں کی وجہ سے تھی اور معموں کے بغیر شمع اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ معموں کے شائقین کو معمے بازی کی ڈور میں پرونے کے لیے ادبی معمّوں کا ڈول ڈالا گیا لیکن یہ ادبی معمّے شمع کے ان معمّوں کا بدل ثابت نہ ہو سکے جس کی وجہ سے شمع شہرت و مقبولیت کی تمام حدوں کو پھلانگ گیا تھا۔

    ان ادبی معمّوں کو جاری رکھنا مالكانِ ‘شمع’ کی کاروباری اور تجارتی مجبوری تھی۔ ہر ماہ غیر معمولی تعداد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے قصۂ پارینہ بن جانے کی وجہ سے اخراجات میں کٹوتیوں کا دور شروع ہوا اور مسلسل نقصان کے نام پر آخر ایک دن اردو دنیا میں اپنے انمٹ اور خوب صورت چھاپ چھوڑ کر خاموشی سے "شمع” بند ہو گیا۔

    ہندوستان، پاکستان کے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ پونے دو لاکھ کی تعداد میں چھینے اور غیر معمولی شہرت و عوامی مقبولیت کے حامل "شمع” کو فلمی اساس کی وجہ سے صرف پاپولر میگزین کے زمرے میں رکھ کر اس کے شعری و نثری حصے سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی گئی۔ حالانکہ یونس دہلوی نے اپنی تمام تر مدیرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمیشہ اچھی خوب صورت شعری و نثری کاوشوں کو شمع کے صفحات میں جگہ دی۔

    شمع میں چھپنے والی بہت سی کہانیاں آج اردو ادب کی بہترین اور نمائندہ کہانیوں میں شامل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح یونس دہلوی کی زیرِ ادارت شائع ہونے والا ہفت روزہ "آئینہ” اردو دنیا میں اپنی طرز کا پہلا ہفت روزہ تھا جو دیدہ زیب گیٹ اپ اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے اردو میں حرفِ اوّل اور حرفِ آخر ثابت ہوا۔

    یونس دہلوی نے اپنی نفاست پسندی اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے شمع کے ادارے سے نکلنے والے دوسرے ماہ ناموں کو بھی خوب صورت بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن بنیادی طور پر چونکہ ایک تجارتی اور کاروباری ذہن رکھتے تھے، اس لیے معموں کے بند ہونے اور آمدنی کے ذرائع سکڑنے کی وجہ سے اس کاروبار کو خیر باد کہہ کر کاروبار کی ایک نئی دنیا آباد کر لی جہاں گم نامی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔

  • شیریں کا حسنِ‌ عالم افروز اور فرہاد کی دیوانگی

    شیریں کا حسنِ‌ عالم افروز اور فرہاد کی دیوانگی

    شیریں فرہاد کی لوک داستان کو قدیم ایران سے جوڑا جاتا ہے اور بعض اس خیال کو درست نہیں‌ سمجھتے۔ سینہ بہ سینہ صدیوں سے منتقل ہوتی اس مشہور لوک داستان کو منظوم بھی کیا گیا اور اسے نثر میں بھی پرویا گیا ہے۔

    عبدالغنی صبرؔ لکھنوی کی کتاب افسانۂ عاشقِ دلگیر شیریں فرہاد کلاسیکی ادب کا حصّہ ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ شیریں فرہاد کا قصہ نظم میں موجود تھا۔ میں نے بعض احباب کے اصرار سے اس کو سلیس اردو میں نثر کیا ہے۔

    کئی ابواب پر مشتمل اس داستان میں اردو کے قدیم الفاظ پڑھنے کو ملیں گے اور طرزِ بیان قصّے کا ہے۔ اس داستانِ عشق پر ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں‌ بھی بنائی جاچکی ہیں، ہم مصنّف کی کتاب سے یہ دو ابواب فرہاد اور شیریں‌ کی پہلی ملاقات اور نہر کھودنے سے متعلق نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    فرہاد کا آنا اور تیرِ عشق کھانا، نہرِ شِیر شیریں کے حکم سے بننا
    شیریں کا نام اس لیے شیریں مشہور تھا کہ اُس کی غذا شِیر تھی۔ اتفاقاً ایک دن شِیر کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی، شیریں ملول اور دل گیر ہوئی۔ کنیزوں سے اس کا تذکرہ کیا، بیانِ ماجرا کیا۔

    خیال تھا کہ کوئی ایسی صورت ہوتی کہ چرا گاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہوتی، ہر وقت شِیر خواری ہوتی۔ اتنے میں شاپور عاقل دستور بھی آیا۔ شیریں کو ملول دیکھ کر بدحواس ہوا، گھبرایا۔ پوچھا: ملکہ! خیر ہے، کیا فکر ہے، کس بات کا خیال ہے، کیوں دل نڈھال ہے؟

    شیریں نے کہا: یہاں ہر طرح کی راحت ہے مگر ایک حیرانی ہے۔ شِیر وقت پر نہیں ملتا، یہی پریشانی ہے۔ یہاں سے چراگاہ دور ہے۔ پہاڑ بیچ میں حائل ہے۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ چرا گاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہو تاکہ شِیر ملنے میں مجھے ہر وقت آسانی ہو۔ مجھے غذا نہ ملنے سے دشواری ہوتی ہے۔ شِیر ہی میری غذا ہے۔ اُس کی تاخیر سے حیرانی ہوتی ہے۔ شاپور بصد ادب گویا ہوا: یہ کوئی مشکل نہیں۔ حضور کے حکم کی دیر تھی، نہر جلد تیار کراتا ہوں۔ میرا ایک پیر بھائی فرہاد نامی ہے، اُس کو بلاتا ہوں۔ وہ فنِ ریاضی میں طاق شہرۂ آفاق ہے۔ رمل، ہندسہ، نجوم خوب جانتا ہے۔ تقدیر یاوری نہیں کرتی اس لیے افلاس میں پھنسا ہے۔ وہ کوہ کو دم بھر میں کاہ کر دے گا۔ دامن گوہرِ مقصود سے بھر دے گا۔

    شیریں نے حکم دیا اُس کو جلد بلا کر حاضر کرو۔ شاپور وہاں سے اُٹھا، چین کے ملک میں جہاں فرہاد رہتا تھا، لوگوں کو بھیجا۔ وہ شاہی طلب کو قسمت کی یاوری سمجھ کر فوراً آیا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ بدقسمتی سے اور آفت میں پھنسوں گا، تمام عمر کا غم مول لوں گا۔

    فرہاد کا آنا اور شیریں پر عاشق ہو کر نہر کھودنا
    جس قدر فرہاد کے آنے میں تاخیر ہوتی، شاپور پریشان ہوتا، فکر دامن گیر ہوتی۔ غرض کچھ عرصہ کے بعد فرہاد آیا۔ شاپور سے ملا۔ شاپور اپنے ساتھ لے کر شیریں کے محل کے دروازے پر آیا۔ عشق نے اپنی صورت دکھائی، نئی رنگت جمائی۔ یہ خانہ خراب اپنی فکر میں لگا، فرہاد پر قبضہ کیا۔ سایہ کی طرح ساتھ ہوا، ہاتھ میں ہاتھ ہوا۔ اسی نے زلیخا کو یوسف پر مائل کیا۔ اپنا مطلب حاصل کیا۔ نل دمن(ایک عاشق اور معشوقہ کا نام) کا قصہ مشہور عالم ہے۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں ہر ایک مبتلائے غم ہے۔ لیلی مجنوں کو کون نہیں جانتا، درد کی طرح دل میں گھر کرتا ہے۔ دکھلائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کو زیر و زبر کرتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا درد ہے جس سے کسی کو ہوتی شفا نہیں۔ وامق و عذرا کی محبت بلبل و گل کی الفت سب پر عیاں ہے۔

    غرض جب شاپور فرہاد کو لے کر در دولت پر حاضر ہوا، عرض بیگی نے ملکہ کو خبر دی۔ خواصوں کو حکم ہوا: جاؤ پس پردہ کرسی پر اُس کو بٹھاؤ۔ اور خود بھی نہایت ناز و ادا سے پردے کے قریب جلوہ فرما ہوئی۔ دہنِ شیریں سے کلام کر کے فرہاد کے عیش کو تلخ کام کیا۔ شیریں کے حسنِ عالم افروز کی جھلک دیکھ کر فرہاد دیوانہ تو ہو ہی چکا تھا۔ کلام سُن کر بے ہوش از خود فراموش ہوا۔ چکر کھا کر زمین پر گرا۔ کوہ کن کے بدن میں رعشہ پڑا۔ خواصوں کو ہوش میں لانے کا حکم ہوا۔ خود بھی اس کی خبر گیر ہوئی۔

    بدقت ہوش آیا۔ شیریں نے اِدھر اُدھر کے فرح آمیز تذکرے چھیڑ کر نہایت انداز سے دلی مقصد کا اظہار کیا۔ فرہاد کو اور زیادہ بے قرار کیا۔ یوں گویا ہوئی: میں نے سُنا ہے کہ تو سنگ تراشی میں استاد ہے۔ اپنا مثل نہیں رکھتا ہے۔ مجھے ایک نہر بنوانا ہے، جس میں پانی کے بدلے شِیر لہریں مارے۔ چراگاہ سے میرے محل تک آوے۔ اگر یہ کام تجھ سے ہو جائے گا، منہ مانگا انعام پائے گا۔ خوش ہو جائے گا۔

    فرہاد نے کہا: جو حکم ہو بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ بہت جلد چراگاہ سے یہاں تک نہر پہنچاؤں گا۔ ایک مہینہ کی مہلت ملے۔ اسی میعاد میں نہر تیار کر کے شِیر بہا دوں گا، اس کام میں جان لڑا دوں گا۔ فرہاد یہ وعدہ کر کے وہاں سے چلا اور چراگاہ کا پتا لگا کر وہاں تک پہنچا۔ ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ آسانی سے نہر کھودنے کی ترکیبیں نکالنے لگا۔ کسی طرف فاصلہ زیادہ تھا، کسی جانب پہاڑ اونچا نظر آتا تھا۔ ریاضی کے اصول پر نظر کر کے پیمائش کی، آخر کار ایک سمت ڈوری ڈالی اور تیشہ ہاتھ میں لے کر الا اللہ کہہ کر کوہ پر مارا۔ عشق میں دیوانہ تھا۔ اس کے تیشہ سے کوہ میں لرزہ پڑا۔ جس سنگ پر پڑتا پارہ پارہ کرتا۔ اسی طرح اپنے وعدہ کے اندر اُس نے پہاڑ کو کاٹ کر نہایت عمدگی سے راہ صاف کی اور شیریں کے محل تک نہر پہنچا دی۔ تمام ملک میں خبر ہوئی۔

    تماشائیوں کا ہر وقت مجمع ہونے لگا۔ جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا۔ شدہ شدہ شیریں بھی آگاہ ہوئی۔ انیسوں جلیسوں کو ساتھ لے کر دیکھنے آئی۔ نہر دیکھ کر بحرِ حیرت میں ڈوبی۔ فرہاد کی تعریف کی۔ بہت کچھ انعام و اکرام دینے کا حکم دیا، مگر وہ الفت کا دیوانہ تھا، کچھ نہ لیا۔

  • دنیا کبھی ‘ایتھنز’ کے سحر سے باہر نہیں‌ نکل سکے گی!

    دنیا کبھی ‘ایتھنز’ کے سحر سے باہر نہیں‌ نکل سکے گی!

    یونان سے دنیا کا عشق کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ جب تک روئے زمین پر زندگی جنم لیتی رہے گی، اس وقت تک۔

    بے شک ہر دور میں بنی نوعِ انسان یونان کی ہزار ہا برس قدیم تاریخ میں دل چسپی لیتا رہے گا۔ یونانی تہذیب، تمدن اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے نظام ہائے سیاست و سماج، عام زندگی اور یونانیوں کے حالات، فکر و نظریات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے وہ انقلابات جن سے یورپ ہی نہیں‌ پوری دنیا متأثر ہوئی، آئندہ بھی انسانوں کے لیے قابلِ رشک اور موضوعِ بحث رہیں‌ گے۔

    براعظم یورپ کی اس تہذیب اور معاشرت سے فکر و دانش کے جو سوتے پھوٹے اس نے جدید دنیا کو جمہوریت کا تحفہ بھی دیا اور فکر و فن کی وہ بلندیاں بھی جس نے کئی شاہ کار تخلیق کیے۔ اس خطّہ میں‌ آباد قوم نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اپنے سب سے عظیم شہر ایتھنز میں افلاطون، ارسطو، سقراط، سکندر اور دیگر نابغۂ روزگار ہستیوں کو دیکھا اور ان کے نظریات کا گہرا اثر قبول کیا۔

    موجودہ یونان کا دارالحکومت ایتھنز، ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور اسی کو جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔ آج لاکھوں نفوس پر مشتمل ایتھنز اقتصادی، تجارتی، صنعتی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ قدیم دور میں‌ اسی شہر کو آتھینا اور ایک طاقت وَر، مستحکم اور پائیدار ریاست کا مرکز کہا جاتا تھا۔ یہاں شہرۂ آفاق شخصیات نے درس گاہوں سے تعلیم مکمل کی اور علم و فنون، ایجاد و اختراع کے لیے آج بھی ان کا نام زندہ ہے۔

    چوتھی اور پانچویں صدی قبلِ مسیح میں یورپ کی ریاستوں پر یونان کے گہرے ثقافتی اور سیاسی اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور اسے سیکڑوں سال تک تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا۔ یہ شہر پارتھینون، ایکرو پولس (بلند شہر)، کیلی کریٹس اور فیڈیاس جیسے مشہورِ زمانہ تعمیراتی شاہ کاروں کے علاوہ فنِ تعمیر کے کئی قدیم نمونوں اور نادر آثار کا حامل ہے۔

    قدیم یونان دراصل ایک تہذیب کا نام ہے، جس کا عرصۂ حیات اور عروج کے ادوار کو ماہرین نے صدیوں‌ کے لحاظ سے تقسیم کیا ہے جس میں کلاسیکی زمانہ اوپر بتایا جاچکا ہے۔ اس کے بعد جدید مغربی ثقافت کا دور شروع ہوا تھا۔

    ماہرین کے مطابق کلاسیکی دور میں یونانی ثقافت نے تہذیبی ارتقاء کے ساتھ تعلیم کو بہت اہمیت دی۔ اسی دور کی تہذیب و ثقافت نے اگلی چند صدیوں میں سائنس، ریاضی، فلسفہ و منطق اور دیگر علوم میں ترقی کی کئی منازل طے کیں۔ فنونِ لطیفہ کی بات کی جائے تو یونان میں اس زمانے میں غیر معمولی ترقی پر دنیا حیران ہے۔ ملک میں اعلیٰ قسم کا سنگِ مرمر بکثرت پایا جاتا تھا جس کے سبب یہاں فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی نے غیر معمولی ترقی کی۔

    دوسری طرف یونان ہی وہ ریاست تھی جہاں جمہوریت کا تصوّر سب سے پہلے دیا گیا اور اسی خطّے سے یہ طرزِ حکومت دنیا میں‌ پھیلا۔ ایتھنز شہر کو یونانی دیو مالا کے کردار کی نسبت ایتھنے یا آتھینا کا نام دیا گیا تھا۔ یونان جنوب مشرقی یورپ میں جزیرہ نما بلقان کے نشیب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں البانیہ، مقدونیہ، بلغاریہ اور مشرق میں ترکی، جب کہ مغرب میں بحیرۂ ایونی اور جنوب میں بحیرۂ ایجین واقع ہیں۔

    قدیم ایتھنز کو ایک طاقت ور ریاست مانا جاتا ہے جس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ماہر تاریخ نویس ہیروڈوٹس اور ساتویں صدی قبلِ مسیح کا عظیم شاعر ہومر بھی سانس لیتا رہا۔ اسی خطّے کے باشندے کئی لحاظ سے پستی اور اخلاقی گراوٹ کا بھی شکار تھے، جس کی نشان دہی کرنے والا عظیم دانش ور سقراط تھا اور وہاں کی اشرافیہ نے اس پر نوجوانوں کو گم راہ کرنے اور مقدّس دیوتاؤں کی توہین کے الزامات لگا کر موت کو گلے لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔

    محققین نے بتایا ہے کہ مشہورِ زمانہ فلسفی افلاطون اسی سقراط کا شاگرد تھا۔ اسی نے ایتھنز میں اوّلین تعلیمی درس گاہ قائم کی تھی جس سے بعد میں‌ ارسطو جیسے دانش ور نے بھی تحصیلِ علم کیا۔ ارسطو کو ایتھنز کا سب سے ذہین انسان اور ایک تخلیق کار مانا جاتا ہے۔

    ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا اپنے انجام تک یونان کی تاریخ میں دل چسپی لیتی رہے گی اور وہ اس لیے بھی کہ یہیں تاریخِ عالم کے عظیم فاتح سکندرِ اعظم نے بھی تقریباً تین سال تک ارسطو سے تعلیم حاصل کی تھی۔ جب ارسطو کو ایتھنز میں سزائے موت سنائی گئی، تب سکندر وہاں سے چلا گیا تھا۔

    محققین اور ماہرینِ‌ آثار قطعی طور پر یہ نہیں بتاسکے کہ اس عجوبۂ عالم شہر اور نادرِ روزگار ہستیوں کے جائے پیدائش یعنی ایتھنز کی بنیاد کب رکھی گئی، لیکن ایک اندازہ یہ ہے کہ پہلے ہزاریہ قبلِ مسیح میں ایتھنز یونانی تہذیب کا ابھرتا ہوا شہر تھا۔ بعد میں یہ دنیا کا ثقافتی و تعلیمی مرکز بنا۔

    قدیم دور میں‌ بھی اس شہر نے جنگیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت ضروری دیکھی تھی لیکن عیسوی زمانے میں اسے 13 ویں اور 15 ویں صدی میں زبردست نقصان پہنچا تھا، جب یونانی بازنطینیوں اور فرانسیسی و اطالوی صلیبیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ 1458ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے شہر کو فتح کر لیا تھا۔ 1821ء سے 1831ء کے دوران یونان نے جنگِ آزادی میں عثمانیوں کو کم زور کیا اور 1834ء میں ایتھنز کو آزاد یونان کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔

    اگلی چند دہائیوں میں جدید بنیادوں پر اس شہر کو تعمیر اور قدیم ورثہ کی حفاظت اور مرمت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ 1896ء میں اس شہر نے پہلے گرمائی اولمپک گیمز کی میزبانی کی۔ شہر میں دوسری بڑی توسیع 1920ء کی دہائی میں اُس وقت ہوئی، جب ایشیائے کوچک کے یونانی مہاجرین کے لیے یہاں آبادیاں قائم کی گئیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی نے ایتھنز پر قبضہ کر لیا تھا۔

    آج کا ایتھنز جدید تعمیراتی ڈھانچے کے ساتھ عالمی معیار کے مطابق بنائی گئی عمارتوں‌ کا شہر ہے جس میں‌ یادگار و قدیم عمارتیں بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

  • ہالی ووڈ کی یادگار رومانٹک فلمیں

    ہالی ووڈ کی یادگار رومانٹک فلمیں

    پاکستان اور بھارت کی طرح دہائیوں پہلے امریکا اور ہالی وڈ کی رومانٹک فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز تھیں‌ اور بڑے پردے پر زبردست کام یابیاں سمیٹنے والی اکثر فلموں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    ہالی ووڈ کی بعض رومانٹک فلموں سے متاثر ہو کر بعد میں ہندوستان اور پاکستان میں بھی فلمیں بنائی گئیں جو کام یاب ثابت ہوئیں۔ محبّت کے جذبے پر بنائی گئی ہالی وڈ کی فلموں میں بھی ہیرو، ہیروئن اور ایک ولن یا ظالم سماج کے ساتھ قربتیں، فاصلے، جذباتی کشمکش اور طربیہ یا المیہ انجام ہی دکھایا جاتا رہا ہے، لیکن وہاں جدید تکنیکی وسائل کے علاوہ پیشکش کا انداز اور کہانی پر توجہ ایسی فلموں کو زیادہ پُراثر اور جان دار بناتی ہیں۔

    امریکا میں بھی ایک نسل جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے، وہ اسے فلموں کا سنہری دور تصوّر کرتی ہے اور اپنے زمانے کی فلموں کو شان دار یادگار قرار دیتی ہے۔ 1939ء کی فلم گون ود دی ونڈ (gone with the wind)، 1942ء میں بنائی گئی کاسا بلانکا (Casablanca)، 1957ء کی شاہ کار فلم افیئر ٹو ریمبر (an affair to remember) اور کئی دوسری فلموں کو شائقینِ سنیما نے زبردست پذیرائی اور سندِ قبولیت بخشی۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی چار رومانٹک فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو اُس دور کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔

    ’’سابرینا‘‘(Sabrina)
    ’’سابرینا‘‘(Sabrina) نے 1954ء میں ریلیز کے ساتھ ہی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار بلی وائلڈر تھے اور وہی اس کے مصنّف بھی۔ یہ ان کے کیریئر کی ایک کام یاب فلم تھی۔ ہدایت کار کے کمالِ فن کے علاوہ اداکاروں کی پرفارمنس کو بھی کسی فلم کی کام یابی اور پذیرائی میں بنیادی دخل ہوتا ہے۔ اس فلم کی ہیروئن ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ آڈرے ہیپ برن تھیں۔

    جذبۂ محبّت پر مبنی اس فلم میں ہیروئن یعنی سابرینا ایک لکھ پتی آدمی کے بیٹے کے پیار میں دیوانی ہوجاتی ہے۔ اس کا نام ڈیوڈ تھا اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوڈ کی منگنی ہوچکی ہے۔ یہ منگنی اس نے اپنے باپ کے اصرار پر ایک اور امیر کبیر آدمی کی بیٹی سے کی تھی۔ یہ ایک قسم کی کاروباری منگنی تھی اور دونوں کے والدین اس رشتے میں‌ اپنا اپنا مالی فائدہ اور کاروباری مفاد دیکھ رہے تھے۔ اس قسم کی فلمیں‌ پاک و ہند میں بھی بہت بنا کرتی تھیں۔ کبھی ایک غریب اور ایک مال دار گھرانا دکھایا جاتا تو کہیں دونوں خاندان نہایت امیر کبیر اور بااثر ہوتے تھے جس میں محبّت ہر رکاوٹ پار کرلیتی اور انجام طربیہ ہوتا اور کہیں نہایت درد ناک انجام دکھایا جاتا۔ فلم سابرینا میں محبّت کو اس وقت مشکل سے دوچار ہونا پڑتا ہے جب ڈیوڈ کے والدین اسی کے چھوٹے بھائی کو سابرینا کی توجہ ڈیوڈ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے اس سے مراسم بڑھانے کو بھیجتے ہیں۔ یہ موضوع اس وقت بھی بہت عام بلکہ پائمال بھی تھا، لیکن اسکرین پلے بہت شان دار طریقے سے لکھا گیا تھا، جب کہ ہدایت کاری اور اداکاروں کی پرفارمنس نے اسے خاص بنا دیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی ایک شان دار رومانوی فلم تھی۔

    ’’لو افیئر‘‘
    1939ء میں فلم ’’لو افیئر‘‘ بڑے پردے پر سجائی گی تھی جو بہت خوب صورت اور ایک پُرتأثر فلم تھی۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک قابلِ‌ ذکر فلم ہے کیوں کہ اس کی کہانی کو کئی بار فلمایا گیا اور نئے انداز سے پیش کر کے شائقین کی توجہ حاصل کی گئی۔ اس رومانٹک فلم کی کہانی نے نئے ٹائٹل کے ساتھ ہر بار شائقین کو متأثر کیا اور یہ ان کے دلوں میں اُتر گئی۔ مون کے نام معروف اداکار و ہدایت کار وارن بیٹی نے اس فلم کو بڑے پردے پر پیش کیا تھا۔ اس میں‌ فرانس کے مشہور اداکار چارلس بوائر اور آئرین ڈو کو انھوں نے بطور ہیرو اور ہیروئن آزمایا تھا۔

    اس فلم کی کہانی دو اجنبیوں کی اتفاقیہ ملاقات سے شروع ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن اس ملاقات سے پہلے وہ دونوں ہی منگنی کر چکے تھے۔ فلم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں‌ بھی لڑکا اور لڑکی کے مابین نسبت ٹھہر جانے یا شادی طے ہوجانے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اور اب یہ منگنی ان کے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔ وہ دونوں ایک بحری جہاز میں سفر کے دوران اس محبّت میں‌ گرفتار ہوئے تھے۔

    لڑکے اور لڑکی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی محبّت کو شادی کے تعلق میں بدلنے کے لیے اپنی نسبت کو ختم کرنے یا قائم رکھنے کا فیصلہ کریں۔ وہ ایک منصوبہ بناتے ہیں‌ اور آپس میں طے کرتے ہیں‌ کہ سفر ختم ہونے کے چھے ماہ بعد نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں ملیں گے۔ اگر اس وقت تک ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبّت اسی طرح قائم رہی تو وہ اپنی اپنی منگنی توڑنے کا اعلان کر دیں گے اور آپس میں‌ شادی کر لیں گے۔ لیکن فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اتفاقات اور حادثات کے سبب ان کا یہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس فلم نے شائقین کو بہت محظوظ کیا اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔

    ’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘
    اسی کہانی کو ’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا جو 1957ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس میں مرکزی کردار کیری گرانٹ اور ڈیبوراکار نے نبھائے تھے۔ اس میں‌ بھی وہی بحری جہاز اور منگنی شدہ مسافر لڑکا لڑکی کو دکھایا گیا ہے جو نیویارک کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں وہ اپنے اپنے منگیتروں سے ملنے جارہے تھے۔ لیکن جہاز میں ہونے والی ان کی یہ ملاقات انھیں ایک دوسرے کی محبّت میں باندھ دیتی ہے اور وہ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایک مقرر وقت کے بعد وہ طے شدہ جگہ ملاقات کریں گے۔ اگر انھیں ایک دوسرے کی محبّت کی شدت محسوس ہوگی تو وہ منگنیاں توڑ کر آپس میں شادی کر لیں گے۔ فلم آگے بڑھتی ہے اور وہ وقت آتا ہے جب ہیرو یعنی کیری گرانٹ طے شدہ وقت پر اس جگہ پہنچ جاتا ہے، لیکن رات گئے تک انتظار کرنے کے باوجود لڑکی وہاں نہیں‌ آتی اور وہ مایوس ہو کر لوٹ جاتا ہے۔

    وہ سمجھتا ہے کہ لڑکی کی محبّت سچّی نہیں تھی۔ اس نے اپنا قول و قرار فراموش کردیا ہے۔ کچھ عرصے بعد اچانک ان دونوں کا ایک جگہ آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر ہیرو سرد مہری دکھاتا ہے اور لڑکی کو بے وفائی کا طعنہ دیتا ہے۔ بعد میں اس پر کُھلتا ہے کہ ہیروئن ایک حادثے کا شکار ہو کر ٹانگوں سے معذور ہوچکی تھی اور اسی لیے مقررہ وقت پر اس کے پاس نہیں‌ آسکی تھی۔ لیکن وہ اس سے اسی طرح‌ محبّت کرتی تھی جس کا اقرار اس نے اوّلین ملاقات کے بعد کیا تھا۔

    ’’لو اسٹوری‘‘
    ستّر کی دہائی میں امریکا میں‌ بننے والی فلم ’’لو اسٹوری‘‘ کی کہانی ایک ناول پر مبنی تھی۔ اس وقت ہدایت کار آرتھر ہلر نے مرکزی کردار کے لیے نئے چہروں کو آزمایا تھا۔ کہانی میں نو عمر لڑکا اور لڑکی کو کالج فیلو دکھایا ہے۔ ہیروئن کا تعلق ایک غریب گھرانے سے جب کہ ہیرو کا باپ انتہائی دولت مند اور ایک مغرور شخص بھی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک غریب لڑکی کو قبول نہیں‌ کرسکتا تھا، تب لڑکا اپنے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کے لیے لڑکی کو لے کر پادری کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اس شادی کی صورت میں اسے باپ کی تمام دولت سے بھی محروم ہونا پڑتا لیکن اسے اس بات کی پروا نہ تھی۔ پادری کے پاس جاتے ہوئے کار کو حادثہ پیش آتا ہے۔ زخمی ہیرو کئی دن تک بے ہوش رہتا ہے جب کہ ہیروئن کا چہرہ جھلس کر مسخ ہو چلا تھا۔

    لڑکا دولت مند باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور حادثے کی اطلاع پاکر باپ کا دل پیسیج جاتا ہے۔ وہ اس کا علاج کروانے کے ساتھ اسپتال والوں کو رقم کا لالچ دے کر جھوٹ بولنے پر مجبور کردیتا ہے، ہوش آنے پر لڑکے کو بتایا جاتا ہے کہ لڑکی حادثے میں ہلاک ہو چکی ہے۔ ہیرو کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف دولت مند باپ اس لڑکی کو دھمکیوں اور لالچ دے کر اپنے بیٹے کی زندگی سے نکل جانے پر آمادہ کر لیتا ہے اور کافی روپیہ خرچ کرکے اس کے چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی کروا دیتا ہے۔ یہ ایک طویل مگر سسپنس سے بھرپور کہانی ہے جس کے آخر میں لڑکا اپنی محبّت کو پا لیتا ہے۔

  • ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں!‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں!‘‘

    اردو میں آپ بیتیوں، سوانح، شخصی خاکوں اور رفقا یا ہم عصر اہلِ قلم کی یادداشتوں پر مبنی کتب میں ہمیں‌ مشاہیرِ ادب اور معروف ہستیوں کی زندگی اور ان کی شخصیت سے متعلق اکثر نہایت پُرلطف اور یادگار واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ شاعرِ‌ مشرق اور ان کا قرب پانے والے سرسیّد احمد خان کے پوتے سر راس مسعود سے متعلق ایسا ہی واقعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ جب منظر عام پر آئی، تو انہوں نے سر راس مسعود کو ایک جلد پیش کی اور کتاب پر اپنے دستخط ثبت فرما دیے۔

    بیگم مسعود اس وقت موجود تھیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں اور کتاب آپ ان کو عنایت فرما رہے ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے اور دونوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں اپنا شعر سناتا ہوں، تم میں سے جو کوئی اس کی زیادہ صحیح اور بہتر تشریح کرے گا وہی اس کتاب کا مستحق قرار پائے گا، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شعر پڑھا؎

    یہ مصرع لکھ دیا، کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
    یہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

    سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں نے اپنے اپنے الفاظ میں اس شعر کا مفہوم بیان کیا، لیکن وقت کی بات کہ بیگم راس مسعود کی شرح و ترجمانی زیادہ بہتر اور شاعر کے مافی الضمیر سے قریب تر نکلی۔

    چناں چہ ڈاکٹر صاحب نے ’’بالِ جبریل‘‘ کے سرورق پر راس مسعود کا لکھا ہوا نام کاٹ کر ’’بیگم راس مسعود‘‘ لکھ دیا اور کتاب ان کو دے دی۔

    (شاعرِ مشرق سے چند ملاقاتوں کی یادداشت)

  • کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے!

    کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے!

    افسانے کا مستقبل تاریک ہے، اس لیے کہ دنیا میں درخت کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آدمیوں کی بھیڑ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں آدمی ہی آدمی ہوں صحافت پیدا ہو سکتی ہے، شعر اور افسانہ پیدا نہیں ہو سکتے۔

    صحافت اور خطابت خالص انسانی دنیا کے ذرائع اظہار ہیں۔ شعر اور افسانہ خالص انسانی ذریعۂ اظہار نہیں۔ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے باہمی میل ملاپ سے جنم لیا ہے۔ افسانے نے اس زمانے میں جنم لیا تھا، جب اس دھرتی پر درخت بہت اور آدمی کم تھے۔ رات پڑتی تو الاؤ کے گرد مٹھی بھر آدمی، آگے اندھیرا ہی اندھیرا اور درخت ہی درخت۔ فطرت کی بنائی ہوئی چیز کا بدل فطرت کی بنائی ہوئی چیز ہی ہو سکتی ہے۔ جنگل نہیں ہے تو صحرا ہوا اور صحرا نہیں ہے تو اونچے پہاڑ ہوں، کسی پر شور سمندر کا ساحل ہو۔ گیان دھیان، تخیّل کی تربیت، تخلیقی عمل برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، صحرا کی وسعتوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتا اور فلک بوس عمارتیں فلک بوس پہاڑوں اور گھنے اونچے درختوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔

    فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں، قطار اندر قطار کوارٹروں اور فلیٹوں سے اب مفر نہیں ہے۔ ارتگا جوزے نے آج سے چالیس برس پہلے انسانی بھیڑ کا جو نقشہ یورپ کے سیاق و سباق میں کھینچا تھا، اب وہ ہماری بستیوں میں بھی صنعتی عہد کی پرچھائیاں پڑنے کے ساتھ اُبھر رہا ہے۔ ٹریفک اتنا ہے کہ درخت کاٹ کاٹ کر سڑکیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بسیں آدمیوں سے بھری ہوتی ہیں، رکشاؤں اور ٹیکسیوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگر سواری کا پھر بھی توڑا ہے۔ رہائش کا مسئلہ بھی اسی قدر سنگین ہے۔ مکان کم ہیں، مکین بہت ہیں۔ نئی آبادیاں بسائی جا رہی ہیں۔ جہاں کل جنگل تھے آج وہاں کوارٹروں اور فلیٹوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے، اس کے باوجود مکان کا حصول ایک مسئلہ ہے۔ خالی مکان ماضی کا افسانہ ہیں، ایسے مکان جو برسوں خالی پڑے رہتے تھے حتیٰ کہ ان میں پڑے ہوئے تالوں پر زنگ جم جاتی تھی، اب کسی شہر میں نظر نہیں آتے۔ ایسے مکان پُر اسرار بن کر تخیل کی نشوو نما کرتے تھے اور قصہ کہانی کو جنم دیتے تھے۔ تخیل کی نشو و نما کچھ خالی پُر اسرار مکانوں کے ذمے تھی، کچھ گھنے پرانے درختوں کے ذمے، کچھ پرندوں اور دوسرے جانوروں کے ذمے تھی، یہ سب معاشرے کے فعال کردار تھے۔

    انسان دوستی برحق مگر تلسی، کبیر اور نظیر کی انسان دوستی خالی خولی انسانی حوالے سے نہیں تھی۔ وہ انسان اور غیرانسان کے اس پراسرار رشتے کے حوالے سے تھی جو ان زمانوں میں پروان چڑھنے والے معاشروں کی بنیاد تھا۔ مگر اب ہم اپنی فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہدِ بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے۔ آدمی کا جنگل سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور آدمی جنگلی بنتا جا رہا ہے۔ اب ’بیتال پچیسی، نہیں لکھی جا سکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیتال نے یہ کہا تھا کہ ”راہ اچھی باتوں کی چرچا میں کٹے تو اچھا ہے۔ سو اے راجا جو میں کتھا کہتا ہوں، اسے سن۔ جو تو رستے میں بولے گا تو میں الٹا پھر جاؤں گا۔“ مگر اب ہم بولنے بہت لگے ہیں۔ تقریریں، اخباری بیانات، مذاکرے، مباحثے اور ہماری راہیں بہت پُرشور ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔

    مسلسل شور کے بیچ ہماری سماعت میں فرق آ گیا ہے۔ کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے۔

    (اردو کے ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کے مضمون سے اقتباس)

  • جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    یہ تذکرہ ہے دو مشہور و معروف شخصیات کے مابین خط کتابت کا جن کا زمانہ تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ ایک تھے سر راس مسعود اور دوسرے جوش ملیح آبادی۔

    قابل، باصلاحیت شخصیات، علمی و ادبی کام کرنے والوں کی قدر اور عزّت افزائی کے ساتھ اس زمانے میں اخلاق و مروّت اور لوگوں‌ میں مدد اور تعاون کا جذبہ بہت تھا۔ اس دور کی یاد تازہ کرتا یہ پارہ مشفق خواجہ کی منتخب تحریروں پر مشتمل کتاب سن تو سہی سے لیا گیا ہے۔

    سَر راس مسعود کو ہندوستان میں ایک ماہر مدرّس اور منتظم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ سرسیّد احمد خان کے پوتے تھے۔ اس زمانے میں علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، ان میں سَر راس مسعود کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ نہایت قابل، فکر و نظریہ اور علم و فن کے رسیا تھے۔ دوسری طرف شاعرِ انقلاب کہلانے والے جوش صاحب تھے۔

    مشفق خواجہ لکھتے ہیں، "یہ قاعدہ تھا کہ ان(سر راس مسعود) کے نام شاعروں ادیبوں کے جو خطوط آتے تھے، وہ انہیں محفوظ رکھتے تھے۔ جواب میں جو کچھ لکھتے تھے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ راس مسعود کے ذاتی کاغذات کا بڑا حصہ جناب جلیل قدوائی کے پاس محفوظ ہے۔ ہماری درخواست پر قدوائی صاحب نے جوش صاحب کے اصل خطوط اور ان کے جوابات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

    اس مراسلت کا پس منظر یہ ہے کہ حیدرآباد دکن سے اخراج کے بعد جوش صاحب کے مالی حالات اچھے نہ رہے۔ سر راس مسعود اس زمانے میں ریاست بھوپال میں تھے، جوش صاحب نے انہیں مالی امداد کے لیے خط لکھا۔ راس مسعود نے اس خط کا حوصلہ افزا جواب دیا۔ جوش صاحب نے "جواب الجواب” 15 اکتوبر 1935ء کو لکھا، جب وہ مختصر قیام کے لیے ریاست دھول پور میں تشریف رکھتے تھے۔ اس خط میں جوش صاحب فرماتے ہیں:

    "آپ کے مکتوبِ گرامی نے میرے دل سے وہی سلوک کیا ہے، جو مرہم زخم سے اور ابرِ برشگال پیاسی زمین سے کرتا ہے۔ نتیجہ خواہ کچھ ہو کہ نہ ہو، آپ میری دست گیری کی سعی میں کام یاب ہوں یا ناکام، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ نے میری بات تو پوچھی، امداد پر آمادگی تو ظاہر ہوئی، مشفقانہ لہجے میں خط کا جواب تو دیا۔ کیا میرے تاحیات احسان مند رہنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟ اپنی حالت کیا عرض کروں، اگر تنہا ہوتا تو بڑی سے بڑی مصیبت کا حقارت آمیز تبسم سے خیر مقدم کرتا اور ہر عظیم سے عظیم بلا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضحکہ اڑاتا، مگر کیا کروں مجبور ہوں اہل و عیال سے۔ باپ نے، جب میں نو برس کا تھا، میرا نکاح کر دیا تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام دولت و ثروت ان کے گھر سے چلی جائے گی۔ مجھے آج تک اپنے سہرے کی لڑیوں کی خوشبو یاد ہے، کتنی دلفریب تھی، مگر آج وہی ذریعہ بنی ہوئی ہے میری پریشاں خاطریوں کا۔

    میرے محترم! مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ آبائی جائیداد تو پہلے ہی تلف ہو چکی تھی، اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، حیدرآباد میں جگہ مل گئی تھی، سو وہ بھی سازشوں کی نذر ہو گئی۔ اب میں ہوں اور بے کسی، میرے مریض اہل و عیال ہیں اور کسمپرسی۔ دھول پور میں اپنے ماموں کے وہاں پڑا ہوا ہوں۔ ماموں سوتیلے نہیں حقیقی ہیں۔ لیکن جس طرح جی رہا ہوں، اس سے موت بہتر ہے۔ واضح رہے کہ ماموں جان کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہوار ہے۔ کیا آ پ کو عبرت نہیں ہوگی؟ میں آپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتا، صرف اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ بھوپال وغیرہ سے میرے رسالے کے واسطے اتنی مدد کرا دیجیے کہ میں فراغت سے زندگی بسر کر سکوں۔ رسالے کے اخراجات پانچ سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہیں۔ سر لیاقت حیات خان وزیر پٹیالہ نے پٹیالے سے ایک مستقل ماہانہ امداد کا وعدہ فرما لیا ہے۔ پنڈت کیلاش نرائن صاحب ہاکسر بھی گوالیار سے امداد دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر بھوپال یا دو تین جگہیں اور ملا کر آپ ڈھائی سو روپے ماہوار کی مستقل ادبی امداد کا بندوبست کر دیں تو میرے مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟

    میں ایک بار اور عرض کروں کہ میرے تمام عمر احسان مند رہنے کے واسطے آپ کی پرسش ہی بہت کافی ہے۔ کیا ایک محبت کی نگاہ، تمام دنیا کے خزانوں پر بھاری نہیں، اور کیا ایک مخلصانہ تبسم، تمام عالم کے زر و گوہر سے زیادہ گراں قیمت نہیں؟ خدا کرے آپ اچھے ہوں، میں اور میرے متعلقین میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔”

    معتوبِ قدرت
    جوش۔

    سر راس مسعود نے 17 اکتوبر 1935ء کو اس خط کا جواب لکھا اور ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا تھا۔

  • ایک چالاک اور مشّاق جیب کترے کا قصّہ

    ایک چالاک اور مشّاق جیب کترے کا قصّہ

    آخری مغل دور میں‌ انتظامی اداروں کی کم زوری اور امن و امان کی خراب صورتِ حال کے ساتھ جہاں ہندوستانی سماج میں انتشار اور ابتری بڑھی، وہیں عوام کو غربت اور بدحالی کا سامنا بھی تھا۔

    ان حالات میں ایک طرف لوٹ مار، چوری چکاری کے عام واقعات میں اضافہ ہوا، اور دوسری طرف بازاروں، عبادت گاہوں اور مختلف پُرہجوم مقامات پر لوگوں کی جیبیں‌ بھی خالی ہونے لگی تھیں۔ انگریزوں نے جب مکمل طور پر شہروں کا انتظام سنبھالا تو اس وقت کئی جیب کترے بھی دہلی اور گرد و نواح میں سرگرم تھے۔ ان میں بعض نہایت چالاک، تیز طرّار اور جرم کی دنیا میں ‘کاری گر’ مشہور ہوئے۔ مسلسل مشق نے انھیں گویا ‘ہنرمند’ بنا دیا تھا۔

    یہاں ہم وہ دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جس سے اس دور کے ایک جیب کترے کی ذہانت، چالاکی اور اس کی مشّاقی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    "دہلی میں ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دو دھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتھر پر گھس گھس کر شیشے کی مانند سخت کر لی تھی۔ بس جہاں ان کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔”

    "ایک صاحب کوئی باہر کے، خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور شکایت کی۔ ’’دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہو گئے ہیں لیکن کسی کو مجال نہیں ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لے۔‘‘….”

    "خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرایا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا۔”

    ’’خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔ چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکّے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وہ بھی گنتی کے چار۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کون جعلی سکّوں پر اپنی نیّت خراب کرے گا۔‘‘

    یہ قصّہ اردو کے ممتاز ادیب، خاکہ نگار اور براڈ کاسٹر اخلاق احمد دہلوی کی مشہور تصنیف ’’پھر وہی بیان اپنا‘‘ میں مندرج ہے۔

  • تاجور نجیب آبادی: "کم بخت! ساری عمر ضد میں ضائع کر دی!”

    اردو زبان و ادب میں جہاں تاجور نجیب آبادی کا نام ایک باکمال شاعر اور ادیب کی حیثیت سے لیا جاتا ہے، وہیں وہ ایک معتبر صحافی بھی تھے۔ ’ہمایوں‘ اور ’مخزن‘ وہ رسائل تھے جن کے ذریعے انھوں نے ادبی صحافت کو معیار کی بلندی اور تازگی بخشی تھی۔ ’ادبی دنیا‘ اور ’شاہکار‘ جیسے رسائل بھی انہی کے جاری کردہ تھے۔ آج تاجور نجیب آبادی کی برسی ہے اور یہاں ہم عبدالمجید سالک کا ایک شخصی خاکہ پیش کر رہے ہیں جو انھوں نے اس نابغۂ روزگار کی وفات کے بعد لکھا تھا۔

    سالک بھی اردو کے مشہور شاعر، ادیب اور صحافی تھے جن کی شخصی خاکوں‌ پر مبنی کتاب یارانِ کہن میں تاجور صاحب کی زندگی اور ان کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:‌ نجیب آباد کے مولوی احسان اللہ خاں تاجور (پیدائش: 2 مئی 1894، وفات: 30 جنوری 1951) نے نو سال دیو بند کے دارالعلوم میں بسر کر کے علومِ دینی میں فراغتِ تحصیل کی سند حاصل کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا علم و فضل حصولِ معاش میں معاون نہ ہوگا۔ کسی مسجد میں پیش امام بننا، ختمِ درود پڑھنا اور جنازے کی نمازیں پڑھانا نہ مولوی تاجور کے ذوق کو گوارا تھا نہ اس سے قوتِ لا یموت باآسانی میسر آسکتی تھی۔ وہ شاعر آدمی تھے، اور شاعری کے جراثیم جس شخص کے ذہن میں پرورش پارہے ہوں اس کا علمائے دین کی صف میں کھڑے ہونا اور اپنی زندگی میں زہد و تقوی کا اہتمام کرنا بے حد دشوار ہے۔ اس احساس کے ماتحت انہوں نے فیصلہ کیا کہ پنجاب جاکر مشرقی امتحانات پاس کیے جائیں اور مدرّسی کا پیشہ اختیار کیا جائے۔ چنانچہ 1915ء میں لاہور پہنچ کر اورینٹیل کالج میں داخل ہوگئے۔

    دیال سنگھ اسکول میں
    مولانا تاجور استاذی رسا رام پوری کے شاگرد تھے، اس لیے میرے ساتھ خواجہ تاشی کے تعلقات رکھتے تھے۔ ہماری خط کتابت جاری تھی، فانوسِ خیال میں ان کا ایک مکتوب بھی شائع ہوچکا تھا۔ جب 1915ء کے اواخر میں مَیں نے لاہور میں مولوی سید ممتاز علی کے ہاں ملازمت اختیار کی تو مولانا تاجور سے پہلی دفعہ نیاز حاصل ہوا۔ وہ اس زمانے میں اورینٹیل کالج کے ہاسٹل میں رہتے تھے، جو شاہی مسجد اور قلعہ کے درمیانی کمروں میں قائم ہوا تھا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کر کے تاجور صاحب دیال سنگھ ہائی اسکول میں اورینٹیل ٹیچر ہوگئے۔ اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر لالا رگھوناتھ سہائے نہایت باوضع، غیر متعصب اور بلند اخلاق آدمی تھے، اور مولانا تاجور ان کی خوبیوں کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہیں فرشتہ کہا کرتے تھے، رگھو ناتھ سہائے جیسے ہندوؤں کے حسنِ سلوک ہی کا نتیجہ تھا کہ مولانا تاجور کے مخلصانہ روابط زندگی بھر ہندوؤں اور سکھوں ہی کے ساتھ رہے۔ مسلمان اکابر میں سے صرف دو تین ہی سے مولانا کی رسم و راہ رہی۔

    مخزن کی ایڈیٹری
    رسالہ "مخزن” سر عبدالقادر کے قبضے سے نکل کر ایک ریٹائرڈ تحصیل دار غلام رسول صاحب کی ملکیت میں منتقل ہوگیا، جن کے انتقال کے بعد ان کے بھائی ظہورالدین اس کو چلاتے رہے۔ مولانا تاجور نے مخزن کی ایڈیٹری قبول کر لی، زمانے کی کیفیت دیکھیے کہ مدیر "مخزن” کی حیثیت سے مولانا تاجور کی تنخواہ پندرہ روپے ماہانہ تھی۔ اور جن دنوں مولانا کھانا بھی ظہور الدین صاحب ہی کے ہاں کھاتے، ان دنوں نقد صرف پانچ روپے ملتے۔ جب مولانا موسم گرما کی تعطیلات میں نجیب آباد چلے جاتے تو "مخزن” کی ایڈیٹری کا پشتارہ میرے کاندھوں پر رکھ جاتے اور میں بلا معاوضہ اس خدمت کو انجام دیتا۔

    ہمایوں میں
    مولانا تاجور زبان کی سوجھ بوجھ خاصی رکھتے تھے اور غزل بہت اچھی کہتے تھے۔ ان ہی دنوں جسٹس شاہ دین مرحوم نے انہیں یاد فرمایا۔ کیونکہ میاں بشیر احمد نے "ہمایوں” جاری کر دیا تھا اور انہیں صرف ایک مدیر معاون ہی کی ضرورت نہ تھی، بلکہ وہ ابتدائی عربی کتابیں بھی پڑھنا چاہتے تھے۔ مولانا تاجور میاں بشیر احمد صاحب کے رفیق کار بن گئے اور "ہمایوں” کو حسنِ ترتیب کے ساتھ بلند معیار پر مرتب کرنا شروع کر دیا۔ تاجور صاحب کی یہ تمام ادبھی مصروفیتیں اپنی مستقل ملازمت کے علاوہ تھیں۔ دیال سنگھ ہائی اسکول کی ٹیچری سے ترقی کر کے وہ دیال سنگھ کالج میں فارسی کے لکچرر مقرر ہوگئے تھے۔ لیکن ادبی رسالوں کا مرتب کرنا اور نوجوانوں کو نثر ونظم میں اصلاح دینا ان کا دائمی مشغلہ رہا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ایک انجمن ارباب علم کی بنیاد رکھی، جس کے پر رونق مشاعرے ایس پی ایس کے ہال میں ہونے لگے۔ مولانا تاجور کے احباب اور ان کے شاگرد اس مشاعرے میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ اور میں بھی اکثر اپنا کلام انہی مشاعروں میں پڑھتا تھا۔

    بزمِ ادب
    کچھ مدت جب جب حفیظ جالندھری لاہور کے ادبی افق پر نمودار ہوئے تو ہم نے ان کا تعارف بھی انجمن اربابانِ علم ہی کے اسٹیج پر کرایا اور حفیظ کی پہلی نظمیں اسی انجمن کے مشاعروں میں پڑھی گئیں۔ لیکن حفیظ کی روز افزوں ہر دلعزیزی سے مولانا کچھ کھٹک سے گئے، ادھر وہ کوتاہی ظرف میں مبتلا ،ادھر یہ زود رنج، نتیجہ یہ ہوا کہ کشمکش شروع ہوگئی اور حفیظ صاحب نے جھٹ ایک ‘بزم ادب پنجاب’ کی بنا ڈالی اور مجھے اس کا صدر مقرر کر کے پہلے مشاعرے کا اعلان کر دیا، اب تاجور صاحب بے حد پریشان ہوئے، انجمن ارباب علم کے مشاعرے بہت دبلے ہوگئے اور سالک و حفیظ کے دوستوں نے بزم ادب کو چار چاند لگا دیے۔ لیکن یہ حفیظ صاحب کا ایک عارضی سا جوش تھا جو چند روز میں ٹھنڈا پڑ گیا اور بزم ادب درہم برہم ہوگئی۔

    کانگریسیوں کا ہنگامہ
    اس سے قبل 1923ء میں مولانا تاجور نے ایک مشاعرہ رائے بہادر دولت رام کالیہ بیرسٹر فیروز پور کی صدارت میں منعقد کیا۔ رائے بہادر حکومت کے نہایت خوشامدی اور کانگریس کے دشمن واقع ہوئے تھے اور قومی تحریک ابھی باقی تھی۔ ہزاروں مجاہدین حریت جیل خانوں میں مقید تھے۔ اس لیے کانگریسیوں اور دوسرے آزادی پسندوں کو ایک ادبی انجمن کی طرف سے ایک ٹوڈی کی اس عزت افزائی پر بہت غصہ آیا، اور کانگریسی رضا کاروں نے مشاعرے میں ابتری پید اکرنی شروع کر دی۔ اتنے میں مَیں ایس پی ایس کے ہال میں پہنچ گیا۔ چونکہ حال ہی میں سیاسی قید سے رہا ہوکر آیا تھا اس لیے پرزور تالیوں سے میرا خیر مقدم کیا گیا۔ مولانا تاجور نے مجھے اسٹیج پر بٹھایا کانگرسیوں کی حرکت کا قصہ سنایا اور کہا کہ آپ ذرا سی کوشش سے اس مشاعرے کو کام یاب بناسکتے ہیں۔ خیر۔ مَیں اٹھا، ایک دو لطیفے سنا کر مجلس کو شگفتہ کردیا۔ پھر اپنا کلام سنایا اور دوسرے شعراء کو پڑھوایا۔ کانگرسیوں نے میرے لحاظ کی وجہ سے اس کے بعد شور نہ مچایا۔

    مولانا تاجور اس داغ کو دھونے اور انجمن ارباب علم کو بدنامی اور غیر ہر دلعزیزی سے بچانے کے لیے بے حد مضطرب تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کے لئے آئندہ اجلاس کی صدارت آپ کر دیجیے۔ مَیں نے قبول کیا اور اخباروں میں اعلان ہوگیا۔ دوسرے ہی دن ڈاکٹر ستیہ پال سکریٹری کانگریس کمیٹی کا ایک خط مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ مولوی تاجور نے رائے عامہ کی توہین کی ہے، اور کانگریس کی دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ جب تک اس توہین کی تلافی نہ ہوجائے آپ مشاعرے کی صدارت نہ کریں۔ میں نے جواب میں لکھ دیا، کہ آپ یقین رکھیے میں کسی حالت میں کانگریس اور رائے عامہ کی توہین کو محض صدارت مشاعرہ کی خاطر برداشت نہ کروں گا اور انتہائی کوشش کروں گا کہ مولانا تاجور معقول رویہ اختیار کریں۔ آپ بھی اپنے کارکنوں اور رضا کاروں کو ہدایت کر دیں کہ بیکار شور و غوغا سے محترز رہیں۔

    مشاعرہ کام یاب ہوا
    مشاعرے سے پہلے میں نے مولانا تاجور کو اس امر پر آمادہ کرلیا کہ وہ انعقادِ مجلس کے آغاز ہی میں اسٹیج پر آکر معقول الفاظ میں معذرت کردیں، اور اعلان کر دیں کہ انجمنِ اربابِ علم اگرچہ سیاست سے بے تعلق ہے لیکن اپنی قومی انجمن کانگرس اور آزادی ہند کے نصب العین کی کسی توہین کو روا نہ رکھے گی۔ مشاعرہ ہوا، اور میں نے دیکھا کہ اس میں بہت سی گاندھی ٹوپیاں موجود ہیں۔ میں الگ بیٹھا رہا۔ جب مولانا تاجور اپنی معذرت پڑھ چکے اور تجویز صدارت ہوگئی، تو میں آکر کرسی صدارت پر بیٹھ گیا۔ اس پر جلسے نے بے حد خوشنودی اور جوش و خروش کا اظہار کیا۔ میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ دیش بندھو چترنجن داس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے بڑے بڑے جرنیلوں میں سے تھے اور اس کے علاوہ بنگلہ زبان کے نہایت شیوا شاعر تھے، خود ڈاکٹر ٹیگور ان کی شاعری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ دیش بندھو داس کے اعزاز میں انجمن اربابِ علم کے اس مشاعرے کے حاضرین سر و قد کھڑے ہو کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں۔ اس کے بعد مشاعرے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ غرض فضا بالکل صاف ہو گئی، گاندھی ٹوپیاں جو اس لیے جمع تھیں کہ ضرورت پڑے تو مولوی تاجور پر پل پڑیں نہایت سکون سے مشاعرہ سنتی رہیں اور انجمنِ اربابِ علم اس آفت سے بچ گئی۔

    فیروز پور کا مشاعرہ
    1926ء میں ڈاکٹر اقبال پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ تو بعض مقامات سے انہیں دعوتیں آنے لگیں کہ تشریف لائے کیونکہ لوگ آپ کی زیارت کے خواہاں ہیں۔ فیروز پور میں میاں تصدق حسین خالد اے سی تھے، وہ ایک دن لاہور آئے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ آپ فلاں تاریخ کو فیروز پور آئیے۔ آپ کا جلوس نکالا جائے گا۔ آپ کی صدارت میں ایک مشاعرہ کیا جائے گا۔ اور شام کو گارڈن پارٹی دی جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جلوس میرے ذوق کے خلاف ہے۔ مشاعرے کی صدارت میری جگہ سالک صاحب کریں گے اور میں پارٹی میں شامل ہو جاؤں گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلوایا اور حکم دیا کہ آپ فلاں تاریخ فیروز پور جاکر مشاعرے کی صدارت کریں۔ میں نے سر تسلیم خم کیا، گھر واپس آکر حفیظ صاحب کو بلایا اور کہا کہ کل صبح چند شعراء کو ساتھ لیجیے۔ اور میرے ساتھ فیروز پور چلیے۔ وہ اٹھ کر پنڈت ہری چند اختر کی طرف چلے گئے، سردار اودے سنگھ شائق وکیل فیروز پور تاجور صاحب کے شاگرد تھے۔ اور اہلِ فیروز پور کی طرف سے شعراء کو لے جانے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے۔ دوسرے دن صبح کو ہم لوگ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ مولانا تاجور بھی پنڈت کیفی دہلوی، میلا رام وفا، منوہر سہائے انور، دین محمد فاخر وغیرہ کو ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ یہ واقعہ اس لیے بیان کررہا ہوں کہ حفیظ صاحب کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے مولانا نے مجھ سے سلسلہ کلام و سلام بند کر دیا تھا اور وہ مجھے اپنا حریف سمجھتے تھے۔ اس قافلہ شعراء کی ترتیب بھی اسی سلسلے میں کی گئی تھی، چونکہ میں پہلی دفعہ بیرون لاہور کسی مشاعرے میں گیا تھا اور پھر علامہ اقبال کا نام زد صدر تھا۔ اس لیے فیروز پور میں میری آؤ بھگت بہت تپاک سے کی گئی اور مولانا تاجور چونکہ روز کے آنے جانے والے تھے، اس لئے ان کی طرف توجہ نسبتاً کم رہی۔ اس لیے مولانا نے سردار اودے سنگھ شائق کی کوٹھی پر جا کر اپنے آدمیوں کی ایک خفیہ کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ مشاعرے کی صدارت پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی کریں۔ کیونکہ وہ سب کے بزرگ ہیں اور سالک صاحب کو بھی ان کے نام سے اختلاف نہ ہوگا۔ لیکن پیشتر اس کے کہ مجھ سے استصواب کیا جاتا، میاں تصدق حسین خالد نے کہہ دیا کہ جس شخص کے اعزاز میں آج کی تقریب ہورہی ہے جب اسی نے مشاعرے کی صدارت کے لیے اپنا قائم مقام نامزد کر رکھا ہے تو پھر ہم کیونکر کسی دوسرے آدمی کا نام لے سکتے ہیں۔ غرض تاجور قافلہ مجبوراً مشاعرے میں شریک ہوا، اور مشاعرے کے اواخر میں مَیں نے حفیظ جالندھری سے پہلے کیفی، تاجور، وفا اور انور کو پڑھوایا۔ جب حفیظ کھڑے ہوئے تو یہ قافلہ چلے جانے کے لیے پر تولنے لگا، جانتے تھے کہ صدر بے ڈھب آدمی واقع ہوا ہے۔ سرِ مشاعرہ دو تین چوٹیں کردے گا اس لیے پنڈت کیفی کو میرے پاس بھیجا کہ صدر جلسہ اجازت دیں تو ہم لوگ چلے جائیں۔ شہر میں کچھ کام ہے۔ پنڈت جی کے ارشاد پر میں کیا عرض کرسکتا تھا۔ بخوشی اجازت دے دی، اور یہ لوگ چلے گئے۔

    مولانا کی ادبی صحافت
    اس میں شک نہیں کہ مولانا تاجور نے اپنی دیو بندی تعلیم سے نہ کوئی فائدہ خود اٹھایا نہ دوسروں کو پہنچایا۔ انہوں نے عمر بھر فارسی پڑھا کر معاش پیدا کی اور اردو ادب و شعر کی خدمت میں مصروف رہے۔ مولانا کی تصانیف صرف چند غزلوں نظموں اور رسالوں تک محدود ہیں۔ ان کے اسکولی اور کالجی شاگردوں کے علاوہ زبان و فن میں بھی ان کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے۔ جن کی اکثریت ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے”مخزن” اور "ہمایوں” کی ادارت کی۔ اس کے بعد "ادبی دنیا” اور شاہکار جاری کیے۔ بچّوں کا رسالہ "پریم” جاری کیا، غرض پوری زندگی ادب، شعرا و صحافت میں صرف کی۔ سر سکندر حیات خان کی وزارت کے زمانے میں راجا نرندر ناتھ اور بعض دوسرے ہندو بزرگوں کی تحریک پر حکومت پنجاب نے مولانا کو شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔ لیکن مولانا کو بڑھاپے میں دو پلے پلائے فرزندوں کے انتقال کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی صحت بالکل سنبھل نہ سکی۔ جسم تو پہلے ہی دہرا تھا لیکن آخری عمر میں بہت بھاری ہوگئے تھے اور پیٹ میں سانس نہ سماتا تھا۔ بعض دوسرے عوارض بھی لاحق ہوگئے تھے، آخر چھیاسٹھ برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

    سلام کلام کی تجدید
    لکھ چکا ہوں کہ مجھ سے سلسلہ کلام منقطع تھا لیکن اس انقطاع کے باوجود ہم دونوں کے قلوب ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف تھے۔ اور تکدر کا کہیں نام بھی نہ تھا، یہ محض ضد اور وضع کا معاملہ تھا۔ جس کی وجہ سے ہم مصالحت نہ کرسکے۔ سچ پوچھیے تو یہ ہم دونوں کی حماقت تھی، انتقال سے چند ماہ پیشتر ایک دن یونیورسٹی کے دفتر کے سامنے کھڑے تھے، سر پر ترکی ٹوپی، بھری سی ترشی ہوئی داڑھی جس میں با قاعدہ خضاب کرتے تھے۔ شیروانی اور آڑا پاجامہ پہنے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی لیے کھڑے تھے۔ مجھے انہیں دیکھ کر کشش ہوئی، اور کیوں نہ ہوتی، مدۃُ العمر کے دوست، ہم ذوق، استاد بھائی اور راہ ادب کے ہمسفر تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر بے تکلف اپنی چھڑی سے ان کی توند پر ٹہوکا دیا اور کہا "کیا حال ہے مولوی!” یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور مجھے بڑے زور سے لپٹا لیا۔ کہنے لگے: "کم بخت! ساری عمر ضد میں ضائع کر دی۔” میں نے کہا۔ میں اور ضد؟ کیا میں کوئی نجیب آبادی روہیلا ہوں کہ ضد پر پوری عمر قربان کردوں۔ یہ سب تمہارا اڑیل پنا تھا، ورنہ میں تو ہر وقت ملنے کے لیے تیار تھا۔ اس کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں اور پرانے دوستوں کی باتوں میں جو خاص لذّت اور خاص اشارات ہوتے ہیں وہ اہلِ ذوق سے پوشیدہ نہیں، اس کے بعد دو تین دفعہ اسی طرح سرِ راہ ملے یہاں تک کہ ایک دن یہ سن کر دل بیٹھ گیا کہ تاجور بھی رخصت ہوئے۔

    پنڈت ہری چند اختر میر کا یہ شعر یوں پڑھا کرتے تھے۔
    اے حبِّ جاہ والو جو آج تاجور ہے
    کل اس کو دیکھنا تم نے تاج ہے نہ وَر ہے

    انہوں نے بھی مولانا تاجور کی موت کی خبر سنی تو پندرہ منٹ تک بالکل مبہوت بیٹھے رہے۔ اور پھر مولانا کی محبّت، ان کی عداوت، ان کے جھگڑوں، ان کے رسالوں، ان کے شعر اور ان کی ایڈیٹری کی باتیں جو چلیں تو گھنٹوں گزر گئے۔

  • ابنِ انشاء سے فیض صاحب کے سوالات

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر اور ادیب ابنِ انشاء کے قلم سے)