Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • قسمت کی ماری (لوک داستان)

    ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پر اس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔

    اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ پیار سے اس کی پرورش ہو رہی تھی۔ چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہوئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔

    بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔ "اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجیے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچّی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچّی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچّی خوش حال اور آسودہ ہو گی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔” ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچّی کے واسطے تھما دیے۔ بچّی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچّی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جب کہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔

    جب بادشاہ سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔ ادھر دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور اپنی بیٹی کو دیکھ کر ملکہ کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چوں کہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالا۔ خوب صورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح نظر آنے لگی۔

    ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھی۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟” وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔” بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔” دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ کیا کروں؟ اس نے کہا "میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نہ ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔” سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔

    سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب پیٹنا شروع کیا۔ سپاہیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔” بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔”

    اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہِ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصّے میں آگیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔”

    شہزادہ کو کسی صورت یہ گوارہ نہ ہوا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا تھا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ "میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔” دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔

    اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کی گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔

    ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔”

    اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔ شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل سے گزر رہا تھا۔ شہزادی کے کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی، اتفاقاً بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔ چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتّوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا، تم جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”

    اس پر شہزادی نے کہا۔” اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو پورے دل و جان سے فریفتہ ہو گیا۔ جھٹ شہزادی سے کہا۔” میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے ہامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزّت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔” وزیر نے آداب بجا کر کہا۔” بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔” بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔

    اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ جلد ہی شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی شادی سے بہت خوش تھے۔

    اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔” اب جب کہ اللہ نے ہم دونوں کو اولادِ نرینہ سے نوازا ہے، تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کسی کی بیٹی ہو؟ اور کس جگہ سے تمہارا تعلق ہے؟”
    شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔ آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ آخر کار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی۔

    بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔” اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔” شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

    بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود سلطنت کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے آ کر ملوں گا۔ سب روانہ ہو گئے۔ شام ہوتے ہوتے انہوں نے پہلے منزل پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کیا۔ تب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کا خیمہ بھی اس کے خیمے کے بالکل قریب کھڑا کیا گیا۔ شہزادی نے وزیر کو بلا کر اس سے پوچھا۔” اے وزیر! تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ تم اپنا خیمہ یہاں سے دور لگوا دو۔” وزیر نے کہا۔” ملکہ صاحبہ! بادشاہ نے ہمیں آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے بچّوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔” وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کھوٹ تھا۔ آدھی رات کو شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی آہٹ پا کر جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کے سامنے کیا کہ تمہیں اس بچّے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ لیکن بد کردار وزیر آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچّے کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔ شہزادی نے وزیر سے کہا۔”میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔”

    وزیر نے کہا۔” جاؤ اور جلدی آ جانا۔” شہزادی بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وزیر کچھ دیر بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی، تب وہ دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہوا۔ بچّے کی لاش کہیں دور لے جاکر دفن کی اور اپنے خیمے میں گھس گیا۔

    صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن خدام وکیل کا خیمہ قریب کھڑا کررہے ہیں۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا تم اپنا خیمہ ہٹوا دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔” وکیل نے کہا۔” اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کیا ہے اور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔” شہزادی چپ ہوگئی۔ مگر وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے رات کو پورے ہوش و حواس میں تھی۔ آدھی رات کو اس نے قدموں کی آہٹ سنی۔ جب دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔ لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ شہزادی نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔” میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔” وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔

    آج بھی شہزادی میں جتنی ہمّت تھی، نکل بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وکیل نے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچّے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سوتا بن گیا۔

    جب صبح پو پھٹی تو شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟

    آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھایا لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچّے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں وضو سے ہوں۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔

    جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچّے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پُر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔

    اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقل مند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔” اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئی بہن نہیں ہے۔ اسے اپنی بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔” باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔

    جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔” ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچّوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔”

    بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کر اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچّوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

    ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کر بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لیے لے کر دربار میں‌ آئیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔

    شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔

    شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔

    شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔ "بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔” بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔

    شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔” ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔”

    بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دیے جو اسے پا کر بہت خوش ہوئے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی کہ کس طرح‌ بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور آگے کیا کچھ ہوا۔

    بادشاہ عمرِ رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔ شہزادی نے داستان جاری رکھی اور بتایا کہ "ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔”
    شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دل چسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی۔ "بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔” اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دیے۔ فقیر بھائیوں کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا۔

    "پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزّت بچا کے بھاگ نکلی۔” وزیر منمنایا۔” مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔” خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟” وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔

    "دوسری منزل پر اسی طرح وکیل نے بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزّت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔” اب وکیل ہکلایا۔” بادشاہ سلامت! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔” بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالیں۔” بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔” وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔

    "تیسری منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کردیا۔ لڑکی بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔” یہ سن کر قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔

    "دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔” اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بندھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ "فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقل مند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔”

    اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔

    "لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔” یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔

    دونوں نے وزیر، وکیل اور قاضی کو پکڑا۔ ان سے کہا کہ بول کیسی سزا چاہیے۔ چار چڑی چابک یا چار بٹور (یہ براہوی زبان میں دو سخت سزاؤں کے نام ہیں) انہوں نے کہا کہ چار بٹور۔ بادشاہ نے بارہ گھوڑے منگوائے۔ ہر ایک کے ہاتھ پیر چار گھوڑوں سے چار اطراف میں باندھ کر انہیں چار مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جن سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ اس طرح ان بد ذاتوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور شہزادی کا باپ اپنی بیٹی اور اس کا شوہر اپنی بیوی کو پا کر بہت خوش ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (براہوی لوک داستان، محقق: سوسن براہوی)

  • شانتا رام: ایک باکمال فلم ساز، بہترین پروڈیوسر کی کتھا

    ہندوستان میں‌ مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر کے طور پر محفوظ ہے۔ وہ تھیٹر کی دنیا سے سنیما کی طرف آئے تھے۔ شانتا رام نے بڑے پردے پر اپنی فنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت بڑا نام اور مقام پایا۔

    اس فلم ساز اور پروڈیوسر نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا۔ بعد کے برسوں میں‌ وہ ایسے فلم ساز کے طور پر پہچان بنانے میں کام یاب ہوئے جس کی فلمیں اکثر ایک خاص انداز سے اور مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر بنائی گئیں۔ 1929ء میں شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے آبائی شہر کولھا پور میں پربھات فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ 1933ء میں اس فلم ساز پہلی رنگین فلم بھی ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولھا پور سے پونے شفٹ کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں اور یہ بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خود ترقی پسند فلمیں بناتے رہے۔

    1937ء میں انھوں نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    وی شانتا رام نے جے شری سے تیسری شادی کی ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی مقبول ہوئیں۔ شکنتلا شانتا رام کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلمیں‌ ناکام بھی رہیں، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام نے ضرور فلم نگری میں اپنے کمالِ فن اور مہارت کو منوایا لیا تھا۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج(جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    وی شانتا رام کا دورِ عروج 1950 کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ انھوں نے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا پسند نہ کیا اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    فلم کے بعد اب وی شانتا رام کی زندگی کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1901ء میں وی شانتا رام نے کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی۔ ان کا انتقال 30 اکتوبر 1990ء کو ہوا۔ شانتا رام نے تین شادیاں کی تھیں۔ وہ بیس برس کے تھے جب رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی پہلی شریکِ حیات کا نام ویملا بائی تھا جس کی عمر شادی کے وقت 12 سال تھی۔ پہلی بیوی کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ وی شانتا رام نے 1941ء میں اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں انھوں نے سندھیا نامی اپنے وقت کی کام یاب اداکارہ سے تیسری شادی کی تھی، لیکن ان سے اولاد نہ تھی۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی کلاسیکی دور کی یادگار ہیں۔

  • ایک شب نورد کا قصّہ جسے لوگ طعنے دینے لگے تھے!

    منیر فاطمی کی موت پر مجھے طفیل ابنِ گل کی قل خوانی یاد آگئی۔

    طفیل کی موت پر میں ملتان میں نہیں تھا۔ اگلے روز ملتان پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کا جنازہ ہو چکا اور تدفین بھی ملتان سے باہر ہوئی ہے۔ ایک ہفتے بعد دوستوں نے قل خوانی کا اہتمام کیا۔ حسن آباد کی ایک مسجد میں قریبی دوستوں سمیت 15 افراد قل خوانی میں شریک تھے اور ان 15 افراد میں منیر فاطمی بھی شامل تھے۔

    دعا کے بعد سب نے ایک دوسرے کو پُرسہ دیا۔ منیر فاطمی خاموش بیٹھے رہے۔ نم آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھا اور پھر سر کو جھکا لیا۔ اس روز ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ چند روز بعد ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو منیر فاطمی نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ شہر کے لوگوں نے طفیل کو اس کی موت کے ایک ہفتے بعد ہی بھلا دیا ہے اور میں انہیں بتا رہا تھا کہ یہ صرف طفیل کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ شہر کے ادیبوں کا عمومی رویہ اب ایسا ہی ہو گیا ہے۔

    تین برس قبل اسلم یوسفی کی قل خوانی کے موقع پر بھی ایسی ہی صورت حال سامنے آئی تھی۔ محلہ کھٹکانہ کی جامع مسجد میں بہت سے لوگ اسلم یوسفی کے ایصالِ ثواب کے لیے جمع ہوئے مگر ان میں ادیب شاعر دو تین ہی تھے۔ لوگ اب موت پر بھی پبلک ریلیشننگ کو مد نظر رکھتے ہیں۔ صرف ایسے جنازوں اور قل خوانیوں میں شریک ہوتے ہیں جہاں اخباری فوٹو گرافرز کی آمد متوقع ہوتی ہے۔ کسی افسر کا عزیز مر جائے تو پُرسہ دینے کے لیے دھکم پیل ہوتی ہے اور اگر کسی ماتحت کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے تو کندھا دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ ہم جب منیر فاطمی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے تو ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ چار پانچ ماہ بعد ہمیں ان کا نوحہ بھی لکھنا پڑے گا۔

    منیر فاطمی سے میرا قلمی تعارف 1977-78ء میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب میں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ منیر فاطمی اس دور میں ہر ہفتے ”امروز“ میں ملتان کی ادبی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اس ہفتہ وار کالم میں جہاں ملتان کی ادبی تقریبات کا تفصیلی تذکرہ ہوتا تھا وہیں مختلف ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی پیرا گراف موجود ہوتا تھا۔ منیر فاطمی کے اسی کالم کی معرفت بہت سے ادیبوں اور شاعروں سے میرا غائبانہ تعارف ہوا۔ 1981ء میں ان کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی۔ شاکر میرے ساتھ تھا۔ شاید ہم انہیں کسی مشاعرے کا دعوت نامہ دینے گئے تھے۔ منیر فاطمی بہت جلد ہمارے ساتھ گھل مل گئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔ اس کے بعد ہم جب بھی کچہری جاتے منیر فاطمی سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔

    منیر فاطمی نئے لکھنے والوں حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مشاعرے میں نوجوانوں کی غزلوں پر داد دینے والوں میں ان کی آواز نمایاں ہوتی تھی۔ وہ ضلع کچہری میں اوتھ کمشنر کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کے چیمبر میں عموماً کوئی نہ کوئی شاعر یا ادیب موجود ہوتا تھا۔ سول لائنز کالج، کچہری کے ساتھ ہی تھا اور ہم کئی بار کالج سے فارغ ہونے کے بعد یا اردو کا پیریڈ چھوڑ کر چائے پینے ان کے پاس چلے جاتے تھے۔

    1981ء میں شاکر کے ساتھ مل کر ہم نے ”مجلسِ فکرِ نو “قائم کی اور اس کے زیرِ اہتمام متعدد مشاعروں اور تقریبات کا اہتمام کیا۔ اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام مسلم ہائی اسکول میں ہاشم خان صاحب کے تعاون سے بیت بازی کا ایک مقابلہ کرایا گیا۔ بیت بازی کے اس مقابلے کی صدارت منیر فاطمی نے کی۔ اس تقریب میں ملتان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ وہ تمام نوجوان جو اس دور میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کر رہے تھے اور بعد ازاں ان میں سے بہت سوں نے اپنی شناخت بنائی اور نام پیدا کیا۔ منیر فاطمی کے ساتھ اس تقریب کے شرکاء کا گروپ فوٹو بہت یادگار ہے۔ اس میں اطہر ناسک، سلیم ناز، اسلام تبسم، اسلم ندیم، عامر شہزاد، مسرور صد یقی، شاہین کہروڑوی، اور بہت سے دوسرے موجود ہیں۔ منیر فاطمی نے اس تقریب میں ہلکے پھلکے انداز میں بہت دل چسپ گفتگو کی۔ ماضی کو یاد کیا اور ہمیں بتایا کہ ہم بھی ایسی ہی تقریبات منعقد کیا کرتے تھے۔ پھر ایک ”شامِ غزل “ ہوئی جس میں شعراء کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے پڑھانے کا اہتمام کیا گیا۔ اسلم یوسفی اور اصغر علی شاہ صاحب نے مشاعرے کے آغاز میں پڑھا اور منیر فاطمی کی باری آخر میں آئی۔ اس مشاعرے میں ہم سے بعض ایسے شعراء ناراض ہو گئے جن کے نام ابتدائی حرو ف سے شروع ہوتے تھے تاہم منیر فاطمی اس تجربے سے بہت محظوظ ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ”فاطمی صا حب اگر آپ کا نام الف سے شروع ہوتا تو کیا پھر بھی آپ اسی خوش دلی کے ساتھ مشاعرے میں شریک ہوتے؟‘‘ کہنے لگے ”آپ کسی عام مشاعرے میں بھی مجھے سب سے پہلے پڑھا سکتے ہیں۔ میرا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اچھا شعر جس مقام پر بھی پڑھا جائے سامعین کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔“

    منیر فاطمی خوب صورت شاعر اور نثر نگار تھے۔ ان کا شمار ہمارے ان سینئرز میں ہوتا تھا جنہوں نے 50ء کی دہائی میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ابتداء غزل سے کی اور جلد ہی اپنی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا۔ غزل میں ان کا ایک منفرد انداز تھا۔ اگرچہ انہوں نے آزاد اور پابند نظمیں بھی کہیں لیکن مجھے ہمیشہ ان کی غزل نے متاثر کیا۔ بہت اچھوتا اور سادہ انداز تھا۔ دل میں اتر جانے والے شعر کہا کرتے تھے۔

    اپنا آپ چھپا کر ہنسنا اوروں پر
    ہنسنے والو اس کو رونا کہتے ہیں

    مری بیاض کے سارے ورق رہے سادہ
    وہ داستاں ہی نہ تھی جو کتاب میں لکھتا

    ایسے ہی بہت سے اشعار ان کے شعری مجموعوں میں جا بجا ملتے ہیں۔ منیر فاطمی کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے، بہت سی تقریبات میں شرکت کی، بہت سی محفلوں میں ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ رات کو دفتر سے واپسی پر وہ کبھی کبھار ہمیں سرِ راہ یا کسی ہوٹل پر مل جایا کرتے تھے۔ رات بھر سڑکوں پر گھومنا ان کا ”پسندیدہ مشغلہ“ تھا جو انہوں نے اپنی موت سے ایک رات پہلے تک بھی جاری رکھا۔ دوستوں نے ان سے ملاقات کرنا ہوتی تو رات کو دولت گیٹ، حسین آگاہی یا اندرونِ شہر کے کسی ہوٹل میں انہیں تلاش کر لیا کرتے تھے۔ 20 مارچ کی شب بھی وہ ڈیڑھ دو بجے تک دوستوں کے ساتھ بیٹھے رہے اور اگلی صبح خبر ملی کہ منیر فاطمی کا انتقال ہوگیا ہے۔ عجیب شخص تھا مرتے دم تک اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔

    منیر فاطمی نے شادی بہت دیر سے کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک ان کا شمار شہر کے سینئر کنواروں میں ہوتا تھا۔ پھر اچانک 1990ء میں خبر ملی کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ ایک روز ملاقات ہوئی تو میں نے خبر کی تصدیق چاہی۔ کہنے لگے ”ہاں بھئی کر ہی لی شادی۔ لوگ طعنے دینے لگے تھے۔“

    ”کس قسم کے طعنے ملتے تھے؟“

    ”بھئی صرف ایک مثال دیتا ہوں۔“ منیر فاطمی نے ہنستے ہوئے کہا، ”اقبال ساغر صدیقی جب بھی ملتے تھے کہتے تھے۔

    سب نے کر لی ہیں شادیاں اپنی
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    اور پھر ایک دن ہمیں بھی شرم آگئی اور ہم نے شادی کر لی۔“

    منیر فاطمی بہت زندہ دل انسان تھے، جس محفل میں جاتے سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے وہ احساسِ محرومی کا شکار تھے۔ انہوں نے خود کبھی اس بات کا اظہار تو نہ کیا تھا لیکن گفتگو سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اس بات کا شدید گلہ ہے کہ انہیں ادب میں وہ مقام نہیں دیا جارہا جس کے وہ حق دار ہیں۔ اور یہ بات بھی درست تھی۔ منیر فاطمی کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود ان سے زیادہ پذیرائی اُن لوگوں کی ہوتی تھی جنہیں ایک مصرعہ بھی کہنا نہیں آتا۔

    منیر فاطمی بھلا ترقی کی منازل کیسے طے کرسکتے تھے، وہ اوّل و آخر شاعر تھے اور شاعر انا پرست ہوتا ہے۔ وہ دن بھر ضلع کچہری میں وکالت کرتے مگر ہم نے انہیں کبھی اپنے بعض ہم عصروں کی طرح کسی کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اے ڈی سی جی کی کاسہ لیسی کرتے نہیں دیکھا۔ اور ہمیں یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی کسی تقریب میں کسی ”ادب نواز“ بیورو کریٹ کی شان میں کوئی قصیدہ نما مضمون پڑھا ہو۔ انہیں زمانہ سازی نہیں آتی تھی۔ پھر بھلا وہ شہرت کی منازل کیسے طے کر سکتے تھے کہ فی زمانہ شہرت کی منازل طے کرنے سے پہلے منافقت اور خوشامد کی بھی بہت سی منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔

    وہ ایک درویش انسان تھے اور درویش یونہی چلتے پھرتے اچانک منہ موڑ جاتے ہیں۔

    (از قلم: رضی الدّین رضی)

  • ندا فاضلی: ‘گھر سے نکلے پاؤں…’

    ہر چھوڑا ہوا شہر تھوڑے عرصے تک جانے والے کا انتظار کرتا ہے، لیکن جانے والا جب لمبی مدّت تک نہیں آتا تو شہر ناراض ہو کر شہری سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا!

    یہ اردو اور ہندی کے مقبولِ عام شاعر ندا فاضلی کی یادوں پر مبنی تحریر کی ابتدائی سطور ہیں۔ انھوں نے ہندی فلموں کے لیے کئی مشہور نغمات بھی لکھے اور ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ اس میدان میں وہ مکالمہ نویس اور صحافی کے طور پر زورِ قلم کو آزماتے رہے تھے۔ ندا فاضلی کے اس مختصر تعارف کے بعد ان کی مکمل تحریر پڑھیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سن پینسٹھ میں گوالیار چھوڑ کر روزی روٹی کی تلاش میں ممبئی گیا۔ وہاں چاروں جانب سمندر اور آسمان چھوتے ناریل کے درختوں سے دوستی کرنے میں کافی وقت لگ گیا۔ جب دوستی ہو گئی تو بمبئی نے مجھے وہ سب کچھ دیا جو آج میری پہچان ہے۔ لیکن ان میں وقت کا ایک بڑا حّصہ گزر گیا۔ گزرے ہو‏‏ئے وقت کے اس درد کو میں نے ایک غزل کے قالب میں ڈھالا ہے اس کے دو شعر یوں ہیں۔

    کہیں چھت تھی، دیوار و در تھے کہیں، ملا مجھ کو گھر کا پتہ دیر سے
    دیا تو بہت زندگی نے مجھے، مگر جو دیا وہ دیا دیر سے

    ہوا نہ کوئی کام معمول سے، گزارے شب و روز کچھ اس طرح
    کبھی چاند چمکا غلط وقت پر، کبھی گھر میں سورج اگا دیر سے

    بمبئی میں جب سر پر چھت آئی اور روٹی پانی سے فراغت پائی تو چھوڑا ہوا وہ نگر یاد آنے لگا جو بچپن سے جوانی تک میرے شب و روز کا ساتھی تھا۔ مگر میری لمبی غیرحاضری سے ناراض ہوکر وہ اب وہاں نہیں تھا جہاں میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔

    گھر کو کھوجیں رات دن، گھر سے نکلے پاؤں
    وہ رستا ہی کھو گیا جس رستے تھا گاؤں

    مجھے بھی میرا گاؤں پھر کبھی نہیں ملا۔ ملتا بھی کیسے؟ جن کے پاس وہ اپنا پتہ ٹھکانا چھوڑ کر گیا تھا ان میں کچھ بزرگ پیڑ تھے، کچھ راستوں کے موڑ تھے، ایک دو منزلہ عمارت کی سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی تھی۔ اب ان میں کوئی بھی اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ مگر وہ گوالیار جو میں نے جیا ہے وہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ یادوں کے روپ میں۔

    ان یادوں کے دو روپ ہیں۔ ایک وہ جو میں نے دیکھا تھا یا جیا تھا، دوسرا روپ وہ تھا جس کے بارے میں میں نے بڑی عمروں کی زبانی سنا تھا یا کتابوں میں پڑھا تھا۔ اس دیکھے ہو‏ئے سنے ہوئے یا پڑھے ہوئے گوالیار کے بے شمار چہرے ہیں۔ ان میں ایک چہرہ ادب کا بھی ہے۔

    گوالیار میں غزل کی شروعات، شاہ مبارک آبرو سے ہوتی ہے جو محمد شاہ کے زمانے کے شاعر تھے۔ وہ صوفی شیخ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے۔ یہ وہ صوفی تھے جو مغل بادشاہ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن تان سین کے بھی گرو تھے۔

    تان سین کا مزار آج بھی غوث صاحب کے مزار کے پاس بھارت کے موسیقاروں کے لیے جائے عقیدت ہے۔ میں جب تک وہاں تھا املی کا ایک گھنا پیڑ اس مزار پر سایہ فگن رہتا تھا۔ موسیقی کے عاشق جب وہاں آ کر عقیدت کے پھول چڑھاتے تو ایک دو پتیاں اس پیڑ سے توڑ کر منھ میں رکھ لیتے تھے۔ ان کا یہ یقین تھا کہ املی کی ان پتیوں کو چبانے سے آواز میں مٹھاس پیدا ہوگی۔

    پتہ نہیں اس عقیدت سے کتنوں کو فا‏ئدہ پہنچا لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ پیڑ جو کہ سیکڑوں کا یقین تھا آج سر سے پاؤں تک بے لباس ہے۔ زیادہ چاہت بھی کبھی دوسروں کی مصیبت بن جاتی ہے، اس درخت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کبھی جو چھتنار پیڑ تھا اب ان کٹے پیڑ کی طرح تھا، کبھی یہاں بگلے اور طوطے منڈلاتے تھے، اب ننگی شاخوں پر بیٹھے کوے کائیں کائیں فرماتے ہیں۔

    ایک بار استاد حافظ علی خاں کے بڑے بیٹے سرود نواز مبارک علی خاں میرے ساتھ تھے۔ میں نے جب اس بابت ان سے بات کی تو انھوں نے کہا، یہ مزار کا ہی کرشمہ ہے کہ کوے جو صدیوں سے بے سرے مانے جاتے ہیں وہ یہاں آکر جو کائیں کائیں کرتے ہیں اس میں بھی لے اور سر جگمگاتا ہے۔

    مبارک علی خاں موجودہ استاد امجد علی خاں کے بڑے بھائی تھے۔ جن دنوں میں گوالیار میں تھا ان دنوں وہ ایک علاقائی موسیقی کالج میں موسیقی کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ جب بھی ملتے تھے موسیقی پر کم ہی بولتے تھے۔ زبان و ادب پر زیادہ بات کرتے تھے۔ وہ اکثر مشاعروں میں جایا کرتے تھے اور اپنی جیب سے خرچ کر کے گوالیار کے اچھے شعراء کو بلاتے بھی تھے۔

    ان دنوں کے شعراء میں ترقی پسندی کا رجحان غالب تھا۔ ان شاعروں میں شیو منگل سنگھ سمن، جاں نثار اختر، مکٹ بہاری سروج اور ویرندر سنگھ کے نام خاص ہیں۔ انہی میں ان شعرائے کرام کے نام آتے تھے جو ادب میں سیاست کے دخل کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں دعا ڈبائیوی، ریاض گوالیاری، انور پرتاپ گڑھی اور دوسرے تھے۔

    نظم لکھی بھی جاتی ہے اور سنی بھی جاتی ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو لکھتے تو اچھا ہیں مگر سنانے کے فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس طرح جو کلام کاغذ پر لبھاتا ہے وہی سامعین کے درمیان آکر تھکا تھکا سا لگتا ہے۔ جاں نثار نرم لہجے کے اچھے رومانی شاعر تھے، ان کے اکثر اشعار اس زمانے میں نوجوانوں کو پسند آتے تھے، کالج کے لڑکے لڑکیاں اپنے محبّت ناموں میں ان کا استعمال بھی کرتے تھے جیسے:

    دور کوئی رات بھر گاتا رہا
    ترا ملنا مجھے یاد آتا رہا

    چھپ گیا بادلوں میں آدھا چاند یا روشنی چھن رہی ہے شاخوں سے
    جیسے کھڑکی کا ایک پٹ کھولے جھانکتا ہے کوئی سلاخوں سے

    لیکن اپنی ممیاتی آواز میں لفظوں کو الاسٹک کی طرح کھینچ کر جب وہ سناتے تو لوگ تالیاں بجانے لگتے تھے۔ جاں نثار اپنی دھن میں آنکھیں موندے پڑھے جاتے تھے اور سامعین اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ اس معاملے میں سمن جی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ صرف سناتے نہیں تھے، آواز کے اتار چڑھاؤ اور آنکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے وہ سماں باندھتے تھے کہ سننے والے ان کی شاعری سے زیادہ ان کے ڈرامائی انداز پر فدا ہوجاتے تھے۔ سمن جی کی اس ڈرامائی پیشکش کے سامنے اگر کوئی اور نام یاد آتا ہے تو وہ ہے کیفی اعظمی کا۔

    کیفی اعظمی کو بھی قدرت نے سمن کی طرح شکل و صورت سے کافی پُرکشش بنایا تھا۔ لمبا قد اور بھاری صاف آواز کے ساتھ ان دونوں کو سننا، ان دنوں کی میری خوب صورت یاد ہیں۔ کیفی اعظمی بڑے بڑے ترنّم باز شاعروں کے ہوتے ہوئے اپنے پڑھنے کے انداز سے مشاعروں پر چھا جاتے تھے۔ ایک بار گوالیار کے میلہ منچ سے کیفی اعظمی اپنی نظم سنا رہے تھے

    تجھ کو پہچان لیا
    دور سے آنے، جال بچھانے والے

    دوسری لائن میں ‘جال بچھانے والے’ پڑھتے ہوئے ان کے ہاتھ کا اشارہ گیٹ پر کھڑے پولیس والے کی طرف تھا۔ وہ بے چارہ سہم گیا۔ اسی وقت گیٹ کریش ہوا اور باہر کھڑی جنتا اندر گھس آئی اور پولیس والا ڈرا ہوا خاموش کھڑا رہا۔

    بھیڑ کے اس ہنگامے کو بھی کیفی کی پاٹ دار آواز نے خراب نہیں ہونے دیا۔ بزرگوں کی زبانی سنا ہوا گوالیار کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ نارائن پرشاد مہر اور مضطر خیرآبادی گوالیار کے دو استاد شاعر تھے۔ مہر صاحب داغ کے شاگرد اور ان کے جانشین تھے۔ مضطر صاحب داغ کے ہم عصر امیر مینائی کے شاگرد تھے۔

    دونوں استادوں میں اپنے استاد کو لے کر چپقلش رہا کرتی تھی۔ دونوں اپنے اپنے شاگردوں کے ساتھ مشاعروں میں آیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی تعریف نہیں کرتے تھے۔ مضطر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شعر اس طرح سناتے تھے کہ شعر تصویر بن جاتا تھا، مضطر نے شعر سنایا:

    زمانہ روٹیوں پر فاتحہ مردوں کی دیتا ہے
    ہمارے واسطے لایا ہے وہ شمشیر کے ٹکڑے

    مضطر نے شعر اس طرح پیش کیا کہ مہر صاحب ساری رنجشیں بھول کر شعر سنتے ہی لوٹ پوٹ ہو گئے اور چیخ چیخ کر داد دینے لگے، مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جب ان کے شاگردوں نے انہیں وہی شعر پھر سنایا تو وہ بولے کہ شعر واقعی برا ہے لیکن وہ کمبخت اس طرح سنارہا تھا کہ اچانک مجھے اپنی بیوی کی یاد آگئی جو گزشتہ کئی دنوں سے علیل تھی۔ نارائن پرشاد نے اس بحر میں جو غزل سنائی تھی اس کا مطلع یوں تھا:

    ملے ہیں مجھ کومیرے خواب کی تعبیر کے ٹکڑے
    مجھے بھیجے ہیں اس نے میری ہی تصویر کے ٹکڑے

    مضطر جاں ثار اختر کے والد اور نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا تھے۔

  • ونسٹن چرچل: لاکھوں ہندوستانیوں کا ‘قاتل’ ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں‌

    سَر ونسٹن چرچل کو دنیا ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں تسلیم کرتی ہے۔ گیارہ برس تک برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہنے والے چرچل عوام کے ہیرو بھی ہیں، لیکن برصغیر میں انھیں سخت متعصب اور لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

    چرچل علم و فنون کے دلدادہ ہی نہیں‌ ایک مصنّف اور مصوّر بھی تھے۔ ان کی زندگی اور تخلیق و فن کے بارے میں‌ جاننے سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم خیرخواہ اور مصلح سر سیّد احمد خان کی وہ تحریر پڑھیے جس میں وہ تعصّب اور قوم پرستی کو بدترین قرار دیتے ہیں اور اسی تعصب نے ہندوستان میں‌ عوام کو بدترین حالات سے دوچار کیا تھا۔ سر سیّد احمد خان لکھتے ہیں:

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوئے۔ کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے چرچل نے 24 جنوری 1965ء کو لندن میں وفات پائی۔

    سیاست میں قدم رکھنے سے قبل چرچل نے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقہ میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنے اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ اور پھر وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا تھا۔

    چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہے اور عملی سیاست کے ساتھ تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی اپنائے رکھا۔ چرچل متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ انھیں‌ ایک مصوّر کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے کئی فن پارے تخلیق کیے جن میں‌ چرچل کے ہاتھ کا ایک شاہ کار فن پارہ مسجدِ کتبیہ کا تھا جو مراکش کی مشہور جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد 1184ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ پینٹنگ چرچل نے دوسری عالمی جنگ کے دوران سابق امریکی صدر روز ویلٹ کے لیے بنائی تھی۔ یہ فن پارہ امریکی اداکارہ انجیلینا جولی کی ملکیت تھا جو انھوں نے دو سال قبل ایک کروڑ 15 لاکھ ڈالر (ایک ارب 80 کروڑ روپے) میں نیلام کر دیا۔ چرچل کی یہ پینٹنگ ٹاور آف کتبیہ کے نام سے محفوظ ہے۔ اس میں‌ مسجد کے مینار اور ارد گرد کی منظر کشی کی گئی ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ اس مسجد کے ساتھ لگ بھگ دو ڈھائی سو کتابوں کی دکانیں موجود تھیں‌ جس کی وجہ سے اسے مسجدِ کتبیہ پکارا جانے لگا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور میں مراکش کے لوگ بھی علم و فنون کا شوق رکھتے تھے۔

    سر ونسٹن چرچل کو 1953ء میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

  • ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    وطن عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومتِ وقت اور برسرِ اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحتِ قلب اور روحتِ روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا، ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔

    مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔

    شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔“

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • تاج محل ہوٹل والا قسمت بیگ

    بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں مہاراجہ بھاؤ نگر ٹھہرے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ سمندر میں صبح شام طوفان برپا رہتا تھا اور پانی کی آوازوں سے مسافروں کی بات سننی بھی دشوار تھی۔

    تاج محل ہوٹل میں ایک خانساماں ستّر اسّی برس کی عمر کا نوکر تھا، جو اپنے کام میں بہت ہوشیار اور تجربہ کارمانا جاتا تھا۔ ہوٹل والے اپنے بڑھیا مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے اسی خانساماں کو مقرر کرتے تھے۔

    اس خانساماں کا نام قسمت بیگ تھا۔ اس کی دیانت داری بھی شہرہ آفاق تھی۔ جب سے ہوٹل میں نوکر ہوا تھا، بارہا ہوٹل کے منیجر کو اس کی امانت و دیانت کے تجربے ہوئے تھے اور وہ ہوٹل کے سب نوکروں سے زیادہ اس خانساماں پر اعتماد کرتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مہاراجہ بھاؤ نگر نے پلنگ پر لیٹے لیٹے قسمت بیگ سے کہا، ’’میں نے بمبئی کے چند مہمانوں کو لنچ کی دعوت دی ہے۔ منیجر سے کہہ دینا کہ دس مہمانوں کا انتظام کر دے۔‘‘

    سمندر کے پانی کا غل شور، برسات کا زمانہ، مہاراجہ بھاؤ نگر کی دھیمی آواز اور بہرہ خانساماں۔ یہ حکم کیونکر اس کے کانوں تک پہنچتا، مگر قسمت بیگ کی تمیز داری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بہرے پن کو ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت سے مطلب سمجھ لیتا تھا۔ بہرے آدمیوں کی طرح کان جھکا کر بات نہ سنتا تھا۔ آج ایسے اسباب جمع ہوئے کہ قسمت بیگ مہاراجہ کے حکم کو نہ سمجھا اور اس نے ذرا پلنگ کے قریب آکر نہایت تذبذب اور ادب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر سوال کیا کہ’’وہ جو ارشاد ہوا ہے اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی تفصیل اور فرما دی جائے۔‘‘

    مہاراجہ بھاؤ نگر بالکل نہیں سمجھے کہ خانساماں نے ان کی بات نہیں سنی تھی اور انہوں نے خانساماں سے دوبارہ کہا کہ ’’جن دس آدمیوں کو بلایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں۔ لنچ کا اہتمام اعلیٰ قسم کا ہونا چاہیے۔‘‘ قسمت بیگ نے بات سمجھ لی اور ادب سے کہا، ’’جو حکم، فرمان کی پوری تعمیل کی جائے گی۔‘‘ اور یہ کہہ کر بڑی تمیز داری کے ساتھ پچھلے قدم چل کر سامنے سے ہٹ گیا۔

    مہاراجہ بھاؤ نگر دیر تک سوچتے رہے کہ انگریزی ہوٹلوں میں سب خانساماں انگریزی ادب آداب استعمال کرتے ہیں۔ یہ بڈھا کون ہے جو پرانے زمانے کے مشرقی ادب آداب کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا حال معلوم کرنا چاہیے۔ انہوں نے فوراً بٹن دبایا اور کمرے کا خدمت گار حاضر ہوگیا۔ مہاراجہ نے حکم دیا، ’’آج جب ہم لنچ سے فارغ ہوں تو ملاقات کے کمرے میں قسمت بیگ خانساماں کو بلایا جائے۔ ہم اس سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی چاہتے ہیں۔‘‘ خدمت گارنے کہا، ’’حضور وہ بہت بد مزاج آدمی ہے۔ صاحب لوگوں سے ہمیشہ لڑتا رہتا ہے۔ آپ اس سے پر ائیویٹ بات کریں گے تو وہ آپ سے بھی گستاخی سے پیش آئے گا۔ وہ نوکری کے وقت تو بہت اچھا ہے اور صاحب لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ وقت میں وہ بہت بدمزاج ہو جاتا ہے۔‘‘

    مہاراجہ نے کہا، ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ خدمت گار نے جوا ب دیا، ’’حضور وہ کہتا ہے میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں۔‘‘ یہ سن کر مہاراجہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد انہوں نے خدمت گار سے کہا، ’’کچھ پروا نہیں۔ قسمت بیگ سے کہہ دو کہ وہ لنچ کے بعد پرائیویٹ باتوں کے لیے ہمارے پاس آئے۔‘‘ خدمت گار نے انگریزی سلام کیا اور انگریزی طریقے سے باہر چلا گیا۔

    لنچ کے بعد
    مہاراجہ بھاؤ نگر اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’بمبئی کرانیکل‘‘ اور ’’سانجھہ ور تمان‘‘ کے ایڈیٹر اور چند ہندو اور پارسی عمائد بمبئی دوپہر کا کھانا کھا کر باتوں کے کمرے میں آئے تو مہاراج نے قسمت بیگ کو بلایا۔ قسمت بیگ نہایت ادب سے حاضر ہوا اور اس نے ہندوستانی طریقے کے موافق مہاراج کو تین فرشی سلام کیے اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ مہاراج نے کہا، ’’قسمت بیگ! تم کون ہو؟‘‘ قسمت بیگ دانستہ مہاراج کی کرسی کے قریب کھڑا ہوا تھا تاکہ اس کے بہرے پن کا عیب چھپا رہے اور مہاراج کی بات سن سکے۔

    مہاراج کا سوال سن کر قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور گستاخی معاف، اس کا جواب تو آپ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم سب کون ہیں اور کیوں اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہیں۔ ہم کو بھوک، پیاس، نیند، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری کے انقلابات میں کس غرض سے مبتلا کیا گیا ہے۔‘‘ قسمت بیگ کی یہ عجیب تقریر سن کر سب حاضر ین مبہوت ہوگئے اور حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک خانساماں یہ کیسی فلسفیانہ باتیں کر رہا ہے۔

    مہاراج نے مسکرا کر کہا، ’’بے شک ہم کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زندگی کی ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ تم نے ایک سانس میں سب بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کر دیا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ تم میرے سوال کا جواب دے سکتے ہو۔‘‘

    قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور میں ایک آدمی ہوں۔ نسل کے لحاظ سے تیموری مغل ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے تاج محل ہوٹل کا خانساماں ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بڈھا ہوں۔ طبیعت کے اعتبار سے کبھی بچہ ہوتا ہوں اور کبھی جوان۔ اخلاقی حیثیت میری ایک کامل انسان کی ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔ چوری نہیں کرتا۔ ظلم اور بے رحمی سے بچتا ہوں۔ خدمتِ خلق کو اپنا مقصدِ زندگی مانتا ہوں۔ اگرچہ گدا ہوں لیکن دل کے تخت پر شہنشاہ ہوں۔ کچھ ارشاد ہو تو اس کا بھی جواب دوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مؤثر اور برجستہ تقریر کا ایک دوسرا اثر پیدا ہوا اور مہاراج اپنے مہمانوں سمیت پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بے اختیار مہاراج کی زبان سے نکلا، ’’کیا تم تیموری شہزادے ہو؟‘‘ قسمت بیگ کو جوش آگیا اور اس نے کہا، ’’شاہ زادہ نہیں ہوں آہ زادہ ہوں۔ دنیا کی مصیبتوں کی سب زدیں میں نے اٹھائی ہیں۔ تیموری خاندان تو اب مٹ چکا ہے، جس نے باوجود انسان ہونے کے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی کوشش کی تھی اور غلام بنا لیا تھا۔ آپ نہیں تو آپ کے باپ دادا بھی اس کے غلام تھے۔ یہ سوال فضول ہے اور آپ کے لیے تکلیف دہ ہے اور میں اس سوال کی کشمکش میں پڑنا اپنے دل کے لیے ایک آری سمجھتا ہوں جو میرے دل کو چیر رہی ہے۔‘‘

    یہ فقرہ سن کر مہاراج نے سر جھکا لیا اور سب لوگ خاموش ہو کر زمین کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کچھ دیر کے بعد خود قسمت بیگ نے کہا، ’’انسان کو اپنی موجودہ حیثیت دیکھنی چاہیے۔ آج چونکہ میں ایک خانساماں ہوں، اس لیے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ حضور میری زندگی کی تفصیل معلوم کرنی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں نہیں ہوں جو ماضی پر فخر کریں یا افسوس کریں اور میں ان لوگوں میں بھی نہیں ہوں جو مستقبل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضور میں ماضی کا مالک ہوں۔ حال کا مالک ہوں اور مستقبل کا بھی مالک ہوں۔ یہ آسمان بھی میرا ہے۔ یہ زمین بھی میری ہے۔ یہ سمندر بھی میرا ہے اور آپ سب لوگ جو کرسیوں پر میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ بھی میرے ہیں اور میں خود جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، محسوس کرتا ہوں کہ یہ وجود بھی میرا ہے۔

    دنیا کی کوئی چیز بھی میرے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ دوسرا کوئی موجود نہیں ہے۔ میں ہی ہوں، میں ہی تھا۔ میں ہی آخر تک رہوں گا۔ یہ سمندر ابل رہا ہے۔ بل کھا رہا ہے۔ جوش میں آرہا ہے۔ برسات ختم ہوگی، سردی آئے گی، ٹھنڈا ہو جائے گا۔ تالاب بن جائے گا۔ اس کے اندر طوفان بھی میں ہی ہوں اور اس کی ٹھنڈک بھی میں ہی ہوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مجذوبانہ تقریر سنتے سنتے مہاراج کو ہنسی آگئی، مگر انہوں نے ہنسی کوضبط کیا اور کہا، ’’شہزادہ صاحب! کیا آپ میرا حکم مانیں گے اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کی تکلیف گوارا کریں گے۔‘‘ قسمت بیگ نے کہا، ’’ہرگز نہیں، کالج میں استاد کھڑا رہتا ہے اور شاگرد بیٹھے رہتے ہیں۔ تم شاگرد ہو اور میں استاد ہوں۔ تم سب انجان ہو اور میں دانا ہوں۔ تم سب بے خبر ہو اور میں خبردار ہوں۔ تم سب غافل ہو اور میں ہوشیار ہوں۔ تم سب ادنیٰ ہو اور میں اعلیٰ ہوں۔ تم سب بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں۔ تم سب امیر ہو اور میں غریب ہوں۔ تم سب فانی ہو اور میں باقی ہوں۔ تم سب بلبلا ہو اور میں پانی ہوں۔ تم سب خاک ہو اور میں ہوا ہوں۔ تم سب ایندھن ہو اور میں آگ ہوں۔ تم سب تاریکی ہو اور میں روشنی ہوں۔‘‘

    یہ کہتے کہتے قسمت بیگ نے اپنی دونوں مونچھوں کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے پکڑا اور ان کو مروڑا اور اچھلنا شروع کیا۔ اچھلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، ’’میں ہوں میں۔ تم نہیں ہو۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ جو کچھ ہے، جو کچھ تھا، جو کچھ ہو۔ کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ پھر سنو پھر کہوں۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔‘‘

    مہاراج اور حاضرین کے جسموں پر رعشہ پڑ گیا اور ان سب پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ قسمت بیگ کی دیوانہ وار باتوں اور اچھل کود سے غیر معمولی اثر ہوا۔ کچھ دیر کے بعد قسمت بیگ، مہاراج کے قریب خاموش ہوکر کھڑا ہو گیا اور اس نے نہایت ناتواں آواز میں کہا، ’’حضور سواری چلی گئی۔ میں ایک مرکب تھا اور سوار میرا اور تھا۔ میں ایک ہوٹل تھا اور مہمان کوئی اور تھا۔ میں ایک بوتل تھا اور شراب کوئی اور تھی۔ اب سنیے مجھ بیمارلاچار خانساماں کی کہانی، سنیے،

    بہادر شاہ بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ میری ماں لونڈی تھی اور بادشاہ کی معتوب تھی۔ جب غدر 1857ء کا انقلاب ہوا تو میری عمر دس سال کی تھی۔ بادشاہ نے گھبراہٹ کے وقت اپنے بیوی بچوں کا انتظام بہت ادھورا کیا تھا اور اس وقت میرا اور میری ماں کا شاید ان کو خیال بھی نہ آیا ہو گا کیونکہ میری ماں لال قلعہ کے باہر خاص بازار میں ایک مکان میں رہتی تھیں۔ مکان شاہی تھا۔ پہرے دار اور نوکر بھی بادشاہ کی طرف سے تھے۔ خرچ بھی ملتا تھا، مگر بادشا ہ میری پیدائش سے پہلے میری اماں سے خفا ہوگئے تھے اور انہوں نے کبھی میری صورت نہیں دیکھی، نہ میری اماں کو قلعہ میں بلایا۔

    جب دہلی کے سب باشندے بھاگے اور ولسن صاحب کمانڈر کشمیری دروازہ کے راستے شہر میں داخل ہوئے تو میری ماں نے مجھ کو اپنے ساتھ لیا اور پیدل گھر سے روانہ ہوئیں۔ نوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ سواری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میری والدہ نے سو اشرفیاں اپنے ساتھ لیں اور کوئی سامان نہ لیا۔ دہلی سے نکل کر ہم دونوں قدم شریف کی درگاہ میں گئے جو دہلی کی فصیل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ مگر یہ راستہ بھی ہم کو کئی کوس کا معلوم ہوا، کیونکہ نہ مجھے پیدل چلنے کی عادت تھی نہ میری ماں کو۔ مجھے یاد ہے دہلی کے باشندے ایسی گھبراہٹ میں جا رہے تھے، گویا قیامت قائم ہے اور سب نفسی نفسی کہتے ہوئے خدا کے پاس جا رہے ہیں۔ عورتیں کپڑوں کی بقچیاں سروں پر رکھے ہوئے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پکڑے جا رہی تھیں۔ بچے رو رہے تھے۔ وہ ان کو کھینچتی تھیں اور بچے چل نہ سکتے تھے۔ مردوں کا بھی یہی حال تھا۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔ سب اپنی مصیبت میں مبتلا تھے۔

    قدم شریف میں جاکر ہم ایک ٹوٹے مکان میں بیٹھ گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ رات ہوئی۔ مجھے بھوک لگی مگر وہاں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ میری ماں نے اپنی گود میں بٹھا لیا اور تسلی دلاسے کی باتیں کرنے لگیں۔ شہر سے بندوقوں کی آوازیں اور شہر والوں کا غل شور سن سن کر میں گھبرایا جاتا تھا اور میری والدہ بھی سہمی بیٹھی تھیں، یہاں تک کہ اسی بھوک کی حالت میں سو گیا۔

    صبح ہندوستانی فوج کے سپاہی قدم شریف میں آئے اور انہوں نے لوگوں کو پکڑنا شرو ع کیا۔ میری ماں کو بھی گرفتار کر لیا اور ایک پوربیہ ہندو ان کو اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گیا جو قدم شریف سے کئی میل دور تھی اورہم دونوں جب پہاڑی پر پہنچے تو ہمارے پاؤں خونم خون ہوگئے تھے۔ شام کو ہمیں انگریز افسر کے سامنے پیش کیا گیا اور اس نے میری ماں سے کچھ سوالات کیے۔ مجھے یاد نہیں انگریز نے کیا کہا اور میری ماں نے کیا جواب دیا۔ اتنا یاد ہے کہ انگریز کو میری ماں نے بتا دیا کہ وہ بادشاہ کی لونڈی ہے اور بچہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور انگریز نے حکم دیا کہ ان دونوں کو آرام سے رکھا جائے۔ آرام یہ تھا کہ ہم کو ایک چھوٹا سا خیمہ دے دیا گیا جس میں ہم رات دن پڑے رہتے تھے اور دو وقت کھانا ہم کو مل جاتا تھا۔

    جب دہلی میں انگریزی انتظام ہوگیا تو ہم دونوں کو چاندنی محل میں، جو جامع مسجد کے قریب ایک محلہ تھا، بھجوا دیا گیا، جہاں ہمارے خاندان کے اور لوگ بھی آباد ہوگئے تھے۔ میری والدہ کے نام دس روپے ماہوار گزارے کے مقرر کر دیے گئے اور میں نے اپنی والدہ کے ساتھ بچپن سے جوانی تک جیسی جیسی مصیبتیں اٹھائیں، بس میرا ہی دل جانتا ہے۔ چاند نی محل کے قریب ایک خانقاہ تھی اور میں وہاں اکثر جایا کرتا تھا۔ خانقاہ میں ایک درویش رہتے تھے۔ ان کی باتیں سنتا تھا اور ان کا مجھ پر بہت اثر ہوتا تھا۔ انہی کی باتوں سے مجھے اپنی اور کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا علم ہوا اور اس وقت جو کچھ میں عرض کر رہا تھا، یہ بھی انہیں کی صحبت کا اثر ہے۔

    والدہ نے خاندان ہی کے اندر میری شادی بھی کر دی۔ اولاد بھی ہوئی مگر وہ زندہ نہیں رہی۔ میں نے دہلی میں ایک خانساماں کی شاگردی اختیار کی اور یہ کام سیکھا جواب کر رہا ہوں اور جب میری والدہ اور بیوی کا انتقال ہو گیا تو میں دہلی سے بمبئی چلا آیا اور یہاں مختلف لوگوں کی نوکریا ں کیں۔ ہوٹلوں میں بھی رہا اور اب مدت سے تاج محل ہوٹل میں ہوں۔ بچپن سے میرے کان میں کچھ خرابی ہوگئی جو آج تک باقی ہے، مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی میرے بہرے پن کو سمجھ نہ سکے کیونکہ مجھے اس عیب سے بہت شرم آتی ہے۔

    خانساماں کی یہ بات سن کر مہاراج نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا، ’’قسمت بیگ نام کس نے رکھا؟‘‘ خانساماں نے کہا، ’’میری قسمت نے۔ ورنہ میری ماں نے تو میرا نام تیمور شاہ رکھا تھا، مگر جب میں دہلی سے بمبئی آیا تو ہر شخص کو میں نے اپنا نام قسمت بیگ بتایا۔‘‘ مہاراج نے کہا چلو میں تم کو بھاؤ نگر لے چلوں۔ جو تنخواہ یہاں ملتی ہے اس سے دگنی تنخواہ دوں گا اور تمہاری باتیں سنا کروں گا۔ کوئی کام نہیں لوں گا۔‘‘

    یہ بات سن کر قسمت بیگ نے جھک کر تین فرشی سلام مہاراج کو کیے۔ پھر کہا، ’’یہ عین بندہ نوازی ہے، لیکن جس نے اس دنیا کے انقلاب کو سمجھ لیا وہ قناعت کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک دروازے کو پکڑ اور مضبوط پکڑ، دربدر بھٹکتا نہ پھر۔ اس ہوٹل میں میری عزت بھی ہے اور میری مزاج داری بھی ہے۔ صاحب لوگ بھی میری بد مزاجیوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ ضرورت کے موافق ہر چیز موجود ہے۔ آپ ہی فرمایئے میں آپ کے ارشاد کی تعمیل کیوں کروں اور ایک جگہ کو چھوڑ کر جہاں کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ کے ہاں کیوں آؤں۔‘‘

    مہاراج نے آفریں کہی اور ایک ہزار روپے کا چیک لکھ کر دیا۔ کہا کہ اس کو اپنے خرچ میں لانا، آئندہ بھی ہر سال ہوٹل کے منیجر کی معرفت ہزار روپے تم کو مل جایا کریں گے۔ قسمت بیگ نے پھر سلام کیا اور چیک لے کر رونے لگا اور پچھلے قدم ہٹ کر باہر چلا آیا۔

    معلوم نہیں اس کو رونا کیوں آیا اور اسے کیا بات یاد آگئی۔

    (یہ تحریر خواجہ حسن نظامی کی غدر اور شاہی خاندان سے متعلق کتاب میں‌ خانساماں شہزادہ کے عنوان سے شامل ہے)

  • دلّی کا ایک بگڑا رئیس اور موتی بھانڈ

    شاہی اور شہر آبادی کا تو ذکر ہی کیا، اب سے چالیس پچاس سال پہلے تک دلّی میں ایک سے ایک منچلا رئیس تھا۔ ریاست تو خیر باپ دادا کے ساتھ 1857ء میں ختم ہو گئی تھی مگر فرنگی سرکار سے جو گزارا انہیں ملتا تھا، اس میں بھی ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے کے لائق تھے۔

    انہیں میں سے ایک بگڑے دل رئیس تھے جو اپنی شاہ خرچیوں کی وجہ سے نواب صاحب کہلانے لگے تھے۔ انہیں نت نئی سوجھتی تھی۔ قمری مہینے کی چودھویں رات کو ان کے ہاں شبِ ماہ منائی جاتی تھیں۔ کبھی بیت بازی ہوتی تھی، کبھی مشاعرہ ہوتا، کبھی تاش، پچیسی اور شطرنج کی بازیاں ہوتیں۔ کبھی میر باقر علی داستان گو طلسم ہوشربا کی داستان سناتے۔ کبھی گانے بجانے کی محفل ہوتی اور کبھی ناچ نرت کی سبھا جمتی۔ رات کو کھانا سب نواب صاحب کے ہاں کھاتے۔

    نواب صاحب کھانے کے شوقین تھے۔ ایک آدھ چیز خود بھی پکاتے تھے اور دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ دیوان خانے میں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کھلی چھت پر سب آگئے۔ دری چاندی کا فرش ہے۔ چاروں طرف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں۔ مہمان ان کے سہارے ہو بیٹھے، حقے اور پیچوان لگ گئے۔ خمیرے کی لپٹیں آنے لگیں۔ گلاب پاش سے گلاب چھڑکا گیا، موتیا کے گجرے کنٹھے گلوں میں ڈالے گئے۔ چنگیروں میں چنبیلی کے پھول اور عطر میں بھیگی ہوئی روئی رکھی ہے۔ چاندی کے خاص دانوں میں لال قند کی صافیوں میں دیسی پان کی گلوریاں رکھی ہیں۔ چوگھڑا الائچیاں، زردہ اور قوام علیحدہ رکھا ہے۔ پان کھائے گئے، حقے کے کش لگائے گئے۔ آپس میں بولیاں ٹھولیاں ہوئیں، آوازے توازے کسے گئے، ضلع جگت اور پھبتی بازی ہوئی۔ اتنے میں چاند نے کھیت کیا، چاند کے چڑھنے تک یونہی خوش گپیاں اور نوک جھونک ہوتی رہی۔

    جب چاندنی خوب پھیل گئی تو نواب صاحب نے میر کلو کی طرف دیکھا۔ یہ میر کلو دیوان خانے کے مختارِ کل تھے۔ تمام انتظامات میر کلو ہی کیا کرتے تھے۔ نواب صاحب نے کہا، ’’کیوں صاحب کیا دیر دار ہے؟‘‘ میر کلو نے کہا، ’’حضور، حکم کا انتظار ہے۔‘‘ وہ بولے، ’’تو شروع کرو۔‘‘

    پہلو کے کمرے سے سبز رنگ کی پشواز پہنے ایک اجلے رنگ کی حسین عورت خراماں خراماں آ کر سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ محفل پر اس نے ایک نظر ڈالی اور پھر نہایت ادب سے مجرا عرض کیا۔ اوہو! یہ تو موتی بھانڈ ہے۔ پیچھے دو سارنگی والے، ایک طبلہ نواز اور ایک مجرے والا، اجلی پوشاکیں پہنے آ کھڑے ہوئے۔ طبلے پر تھاپ پڑی، سارنگیوں پر لہرا شروع ہوا، طبلہ نواز نے پیش کار لگایا، موتی بھانڈ نے گت بھری تو یہ معلوم ہوا کہ اندر کے اکھاڑے کی پری اتر آئی۔ تین سلاموں پر چکر دار گت ختم ہوئی تو سب کے منہ سے ایک زبان ہو کر نکلا، ’’سبحان اللہ!‘‘

    موتی بھانڈ نے تسلیمات عرض کی۔ کوئی ایک گھنٹے تک کتھک ناچ کے مشکل توڑے سنائے، پھر لَے کی تقسیم ایک سے سولہ تک دکھائی، آخر میں تتکار کا کمال دکھایا۔ سب نے دل کھول کر داد دی۔ واقعی میں موتی بھانڈ نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا اور جب اس نے مور کا ناچ دکھایا تو اس کے تھرکنے پر محفل لوٹ گئی۔ نواب صاحب نے ناچ ختم ہونے پر اسے بلایا اور کہا، ’’موتی تم پر یہ فن ختم ہے۔ مور کا ناچ سبھی ناچتے ہیں مگر جس سلسلے سے تم ناچتے ہو یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں۔ بالخصوص ناچتے ناچتے جب مور اپنے پیروں کو دیکھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو جس خوبی اور سچائی سے تم ادا کرتے ہو بس یہ تمہارا ہی حصہ ہے۔‘‘

    نواب صاحب نے یہ کہہ کر ایک اشرفی اور چند روپے انعام دیے۔ موتی بھانڈ نے انعام لے کر مؤدبانہ تین سلام کیے اور ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’حضور کی ذرہ نوازی اور فن کی قدردانی ہے کہ اس غلام کو یوں سراہتے ہیں۔ ورنہ میں کیا میری بساط کیا؟ من آنم کہ من دانم۔‘‘

    یہ شائستگی اور علم مجلسی دلّی کے فن کاروں میں اب سے نصف صدی پہلے تک موجود تھا۔ جب فن کار اور فن کی ناقدری ہونے لگی تو فن کار کا وقار اور فن کا اعزاز جاتا رہا۔ موتی کے بعد دلّی میں نوری اور کلن جیسے بھانڈ رہ گئے تھے جو بھنڈیلوں اور نقالوں کے سہارے زندہ تھے اور کمینوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

    جس زمانے میں گانے بجانے کو عیب نہیں، ہنر سمجھا جاتا تھا، دلّی کے شرفا اسے فن کی حیثیت سے سیکھتے تھے۔ دلّی میں اچھے استادوں کی کمی نہیں تھی۔ کوئی ستارہ سیکھتا، کوئی طبلہ، کسی کو گانے کا شوق ہوتا تو راگ راگنیاں سیکھتا اور کسب و ریاض سے اس علم و فن میں اتنی مہارت حاصل کر لیتا کہ پیشہ ور بھی اس کا لوہا ماننے لگتے۔

    (بھانڈ اور طوائفیں سے انتخاب، از قلم شاہد احمد دہلوی)

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فنِ‌ مصوّری میں انھوں نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کی زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے پیش کیاکہ مصوّرِ مشرق کہلائے۔ چغتائی صاحب کی تصاویر دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    آج اس عظیم مصوّر کی برسی ہے۔ وہ 17 جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    پاکستان کے عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”