Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

    نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

    آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

    بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

    کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • زہرہ بائی آگرے والی

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے لیے ممتاز گھرانوں سے وابستہ شخصیات کے علاوہ ہندوستان میں پیشہ وَر گلوکارائیں اور رقاص بھی اپنے فن و کمال کے سبب مشہور ہوئیں۔ انھیں طوائف اور مغنیہ بھی کہا جاتا تھا جو ہندوستان کی فن و ثقافت کا ایک اٹوٹ حصّہ رہی ہیں۔ انہی میں زہرہ بائی آگرہ والی بھی شامل ہیں جن کی آواز اس وقت کی مشہور گرامو فون کمپنی کے ریکارڈ میں‌ بھی محفوظ ہوئی۔

    ایک زمانہ تھا جب یہ گانے بجانے والیاں اپنے اردو اور فارسی زبان و ادب کے عمدہ ذوق کی وجہ سے امرائے وقت اور شرفا کے نزدیک بھی قابلِ احترام تھیں۔ ناچ گانے کو اپنا پیشہ بتانے والی یہ عورتیں انگریزوں کے دور میں ’ڈانس گرل‘ کہلائیں، اور پھر 19 ویں‌ صدی کے آواخر میں‌ گلوکاری اور رقص کے لیے مشہور ان عورتوں کے کوٹھے عیّاشی اور جسم فروشی کے لیے بدنام ہونے لگے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان گانے والیوں نے اپنے زمانے میں کتھک، دادرا، غزل اور ٹھمری کو عروج دیا اور ہندوستان میں کلاسیکی موسیقی کو بڑی دھج سے زندہ رکھا۔

    زہرہ بائی کا تعلق آگرہ کے موسیقار گھرانے سے تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1868ء ہے۔ وہ 1913ء میں وفات پاگئی تھیں‌۔ زہرہ بائی کی زندگی کا بیشتر عرصۂ حیات آگرہ میں بسر ہوا۔ وہ ان گلوکاراؤں میں سے ایک تھیں جنھوں نے 1900ء تک طوائف کی حیثیت سے کلاسیکی موسیقی کے فن کو زندہ رکھنے میں اپنا حصّہ ڈالا تھا۔ زہرہ بائی اپنے زمانے کی مشہور مغنیہ تھیں۔

    آگرے سے تعلق رکھنے والی زہرہ بائی نے موسیقی کی تعلیم استاد شیر خان اور استاد کلن خان سے حاصل کی تھی۔ وہ اپنے شہر کی نسبت آگرے والی مشہور ہوئیں۔ انھوں نے امراء اور نوابوں کے دولت خانوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور انھیں پٹنہ کے زمین داروں کے یہاں بھی گانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ زہرہ بائی نے غزل اور ٹھمری کی تعلیم ڈھاکا کے استاد احمد خان سے حاصل کی تھی۔

    ہندوستان کی اس مشہور مغنیہ کی خاصیت ان کا مردانہ آواز میں گانا بھی تھا۔ اس زمانے میں‌ ہندوستان میں گرامو فون کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو زہرہ بائی آگرے والی کی آواز بھی ریکارڈ کی اور اس ایجاد کی بدولت زہرہ بائی کی آواز اور ان کے فنِ گائیکی کا ہندوستان بھر میں شہرہ ہوا۔ زہرہ بائی آگرے والی نے 1908ء میں ایک گرامو فون کمپنی سے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت انھوں نے 2500 روپے میں 25 گیت ریکارڈ کروائے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور 1908ء سے 1911ء تک زہرہ بائی آگرے والی نے 60 گیت ریکارڈ کروائے۔ 1994ء میں زہرہ بائی کے ریکارڈ دوبارہ ترتیب دیے گئے اور ان کے فنِ موسیقی اور انداز کو بہت سراہا گیا۔

    زہرہ بائی آگرے والی نے زندگی کی 45 بہاریں دیکھیں اور اپنے آبائی وطن آگرہ میں انتقال کیا۔

  • غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں

    دورِ جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیلُ القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیرا جیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما جیت ورما، عبدالحی نگاہؔ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب داخل ہوتے ہیں۔

    ان کی شکل و صورت بعینہ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ’’دیوانِ غالب‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔

    غالبؔ: ’’حضرات! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اور اس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورِ جدید کے شعرا سے شرفِ نیاز حاصل کروں۔

    ایک شاعر: یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
    کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘

    غالب: رہنے بھی دیجیے اس بے جا تعریف کو، ’’من آنم کہ من دانم‘‘

    دوسرا شاعر: تشریف رکھیے گا۔ کہیے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن…‘‘

    غالب: (مسکرا کر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں، ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔

    دوسرا شاعر: تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد، اور اس پر یہ فکر کوسوں دور کہ

    آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
    آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

    باوجود اس کے آپ کچھ لکھ… تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر) ’’سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے؟‘‘

    غالب: وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث۔

    مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

    پہلا شاعر: میرے خیال میں وقت کافی ہو گیا ہے۔ اب مجلس کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

    دوسرا شاعر: میں کرسیٔ صدارت کے لیے جناب م۔ ن۔ ارشد کا نام تجویز کرتا ہوں۔

    (ارشد صاحب کرسئ صدارت پر بیٹھنے سے پہلے حاضرینِ مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: میرے خیال میں ابتدا مرزا غالب کے کلام سے ہونی چاہیے۔ میں نہایت ادب سے مرزا موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    غالب: بھئی جب ہمارے سامنے شمع لائی جائے گی تو ہم بھی کچھ پڑھ کر سنا دیں گے۔

    م۔ ن۔ ارشد: معاف کیجیے گا مرزا، اس مجلس میں شمع وغیرہ کسی کے سامنے نہیں جائے گی۔ شمع کی بجائے یہاں پچاس کینڈل پاور کا لیمپ ہے، اس کی روشنی میں ہر ایک شاعر اپنا کلام پڑھے گا۔

    غالب: بہت اچھا صاحب تو غزل سنیے گا۔

    باقی شعرا: ارشاد۔

    غالب: عرض کیا ہے
    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    (باقی شعرا ہنستے ہیں۔ مرزا حیران ہو کر ان کی جانب دیکھتے ہیں۔)

    غالب: جی صاحب یہ کیا حرکت ہے۔ نہ داد نہ تحسین، اس بے موقع خندہ زنی کا مطلب؟

    ایک شاعر: معاف کیجیے مرزا، ہمیں یہ شعر کچھ بے معنی سا معلوم ہوتا ہے۔

    غالب: بے معنی؟

    ہیرا جی: دیکھیے نا مرزا، آپ فرماتے ہیں ’’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘‘ اگر مطلب کچھ نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام کے ہی عاشق ہیں تو تین پیسے کا خط برباد کرنا ہی کیا ضرور، سادہ کا غذ پر اس کا نام لکھ لیجیے۔

    ڈاکٹر قربان حسین خالص، میرے خیال میں اگر یہ شعر اس طرح لکھا جائے تو زیادہ موزوں ہے،

    خط لکھیں گے کیوں کہ چھٹی ہے ہمیں دفتر سے آج
    اور چاہے بھیجنا ہم کو پڑے بیرنگ ہی
    پھر بھی تم کو خط لکھیں گے ہم ضرور
    چاہے مطلب کچھ نہ ہو

    جس طرح سے میری اک اک نظم کا کچھ بھی تو مطلب نہیں

    خط لکھیں گے کیوں کہ الفت ہے ہمیں
    میرا مطلب ہے محبت ہے ہمیں
    یعنی عاشق ہیں تمہارے نام کے

    غالب: یہ تو اس طرح معلوم ہوتا ہے، جیسے آپ میرے اس شعر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

    ہیرا جی: جنوں، جنوں کے متعلق مرزا میں نے کچھ عرض کیا ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔

    غالب: ہاں، ہاں بڑے شوق سے۔

    ہیرا جی: جنوں ہوا جنوں ہوا
    مگر کہاں جنوں ہوا
    کہاں ہوا وہ کب ہوا
    ابھی ہوا یا اب ہوا
    نہیں ہوں میں یہ جانتا
    مگر جدید شاعری
    میں کہنے کا جو شوق ہے
    تو بس یہی ہے وجہ کہ
    دماغ میرا چل گیا
    یہی سبب ہے جو مجھے
    جنوں ہوا جنوں ہوا

    غالب: (ہنسی کو روکتے ہوئے) سبحان اللہ کیا برجستہ اشعار ہیں۔

    م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔

    غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا، کہا ہے۔

    عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
    ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

    عبدالحی نگاہ: گستاخی معاف مرزا، اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہو جاتی۔

    غالب: کس طرح؟

    عبدالحی نگاہ:
    عشق نے، ہاں ہاں تمہارے عشق نے
    عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا
    اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں
    اور چل تو سکتا ہی نہیں
    جانے کیا بکتا ہوں میں
    یعنی نکما کر دیا
    اتنا تمہارے عشق نے
    گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
    اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں
    یعنی تمہارے عشق نے
    اتنا نکما کردیا

    غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔

    غیظ احمد غیظؔ: اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جاسکتا تھا۔

    جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
    تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
    سب کام کر سکتا تھا میں
    اور دل میں میرے جوش تھا
    اس وقت تھا میں آدمی
    اور آدمی تھا کام کا
    لیکن تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا

    غالب: واللہ۔ کمال ہی تو کردیا، بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔

    م۔ ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، جو جدید شاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔

    ڈاکٹر خالصؔ: اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں، اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل اس لیے آپ اپنا کلام پہلے پڑھیے۔

    م۔ ن۔ ارشد: توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ‘‘ عرض کیا ہے۔

    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
    جس طرح دور کسی دشت کی پہنائی میں
    رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
    کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
    ایسی تشبیہہ کی لذت سے مگر دور ہے تو
    تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
    رقص کرنے کے سوا اور نہیں کچھ آتا
    اپنے بے کار خدا کے مانند
    دوپہر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
    خودکشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
    میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی ہے کیا جینا
    اور چپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    تاکہ میں چوم ہی لوں عارض گلفام ترا
    اور ارباب وطن کو یہ اشارہ کردوں
    اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
    اور شب عیش گزر جانے پر
    بہر جمع درم و دام نکل جاتا ہے
    ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
    چھوڑ کر بستر سنجاف و سمور

    (نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیرا جی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔)

    (حاضرین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔)

    غالب: ارشد صاحب معاف کیجیے۔ آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔

    غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے، مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔

    م۔ ن۔ ارشد: مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجیے۔

    پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
    پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

    اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟

    غالب: (شعر کو دہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں، مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔

    م۔ن۔ ارشد: اجی چھوڑیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    ڈاکٹر خالصؔ: میری نظم کا عنوان ہے ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے۔

    عشق کیا ہے؟
    میں نے اک عاشق سے پوچھا
    اس نے یوں رو کر کہا
    عشق اک طوفان ہے
    عشق اک سیلاب ہے
    عشق ہے اک زلزلہ
    شعلہ جوالہ عشق
    عشق ہے پیغام موت

    غالب: بھئی یہ کیا مذاق ہے، نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟

    ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم، اور فرمایا تھا آپ نے،

    ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘

    غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے نہ ترنم، نہ قافیہ، نہ ردیف۔

    ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کیے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگیٔ افکار اور ندرتِ فکر سے ہے۔

    غالب: رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے، میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا…

    ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

    غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

    رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جدوجہد ہے۔

    ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لیے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی، جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

    ن۔ م۔ ارشد: اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔

    پروفیسر غیظ: میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔

    ہیرا جی: تو پھر وہی نظم سنا دیجیے جو پچھلے دنوں ریڈیو والوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔

    پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی، تو وہی سن لیجیے۔ عنوان ہے ’’لگائی۔‘‘

    فون پھر آیا دل زار! نہیں فون نہیں
    سائیکل ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
    ڈھل چکی رات اترنے لگا کھمبوں کا بخار
    کمپنی باغ میں لنگڑانے لگے سرد چراغ
    تھک گیا رات کو چلا کے ہر اک چوکیدار
    گل کرو دامن افسردہ کے بوسیدہ داغ
    یاد آتا ہے مجھے سرمۂ دنبالہ دار
    اپنے بے خواب گھروندے ہی کو واپس لوٹو
    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

    (نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب مبہوت ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: اب جناب بکرما جیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔

    بکرما جیت ورما: میں نے حسبِ معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔

    غالب: (حیران ہو کر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جارہی ہے۔

    بکرما جیت ورما: مرزا، آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیے گئے تھے، دورِ جدید کے شعرا نے انھیں ایک قابل عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔

    غالب: جی ہاں، ہمارے زمانے میں عورتیں، بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے لوگ گیت لکھا کرتے تھے۔

    بکرما جیت: پہلا گیت ہے’’برہن کا سندیس‘‘، عرض کیا ہے،
    اڑجا دیس بدیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس
    سن کر تیری کائیں کائیں

    غالب: خوب، سن کر تیری کائیں کائیں

    بکرما جیت ورما: عرض کیا ہے،
    سن کر تیری کائیں کائیں
    آنکھوں میں آنسو بھر آئیں
    بول یہ تیرے من کو بھائیں
    مت جانا پردیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس

    م۔ ن ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر پر بھی لکھا تھا، وہ بھی مرزا کو سنا دیجیے۔

    بکرما جیت، سنیے پہلا بند ہے۔

    بول کبوتر بول
    دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے
    من میں میرے ہوک اٹھی ہے
    کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے
    بول غٹرغوں بول کبوتر
    بول کبوتر بول

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبرا ہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔)

    بکرما جیت ورما: اب دوسرا بند سنیے،

    بول کبوتر بول
    کیا میرا ساجن کہتا ہے
    کیوں مجھ سے روٹھا رہتا ہے
    کیوں میرے طعنے سہتا ہے
    بھید یہ سارے کھول کبوتر
    بول کبوتر بول!

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس شور و غل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔)

    (طنز و مزاح از قلم کنہیا لال کپور )

  • دیدۂ بینا

    ادب کیا ہے اس کی ابتداء کب سے ہے، انسانی زندگی کا سے اس کا کیا تعلق ہے۔ سماج میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اربابِ فکر و ادب نے اسے کن نگاہوں سے دیکھا ہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔

    بلکہ اربابِ ادب نے کی بھی ہے۔ یہاں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف اس تعلق سے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں کہ آخرتاریخ کا ادب سے کیا رشتہ ہے اور کیا جس طرح تاریخ، انسانی ذہن، افسانی فکر اور سماج پر اثرات مرتب کرتی ہے، اسی طرح ادب بھی انہی عوامل و اثرات سے کام لیتا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے جچی تلی اور پختہ بات مجنوں گورکھپوری نے کہی کہ:

    "ادیب کوئی راہب یا جوگی نہیں ہوتا، اور ادب ترک یا تپسیا کی پیدوار نہیں ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہیئتِ اجتماعی، ایک خاص نظامِ تمدن کا پروردہ ہوتا ہے۔ جس طرح کہ کوئی دوسرا فرد اور ادب بھی براہِ راست ہماری معاشی اور سماجی زندگی سے اُسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات وسکنات۔ ادیب کو خلاق کہا گیا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادرِ مطلق کی طرح صرف ایک ‘کُن’ سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ شاعر جو کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اُپچ سے مجبور ہو کر کہتا ہے جو بظاہر انفرادی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اُپچ اُن تمام خارجی حالات و اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طورپر تمدن یا ہیئتِ اجتماعی کہتے ہیں۔ شاعر کی زبان الہامی زبان مانی گئی ہے۔ مگر یہ الہامی زبان درپردہ زمانہ اور ماحول کی زبان ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخِ ادب کی اصطلاح کے کوئی معنی نہ ہوتے۔”

    "جرمنی کے مشہور فلسفی ہیگل نے فلسفے کو تاریخ مانا ہے۔ یعنی فلسفہ نام ہے انسان کے خیالات و افکار کے آگے بڑھتے رہتے اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہنے کا۔ اسی طرح ادب بھی تاریخ ہے جس میں کسی ملک یا کسی قوم کے دور بہ دور بدلتے ہوئے تمدن کی مسلسل تصویریں نظر آتی ہیں۔ البتہ اس کے لیے دیدۂ بینا درکار ہے۔ فنونِ لطیفہ بالخصوص ادیبات کسی نہ کسی حد تک قوموں کے عروج و زوال کا آئینہ ضرور ہوتے ہیں۔”

    (ڈاکٹر مرزا صبا عالم بیگ کے مضمون تاریخ و ادب کا باہمی رشتہ سے اقتباس)

  • کانپور: ہاں یہی شہر نوا ہے!

    "سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں جب اودھ اور اس کے اطراف میں علم و حکمت کے دریا موجزن تھے۔ شہرِ ادب کانپور کی صورتِ حال کیا تھی کچھ پتا نہیں چلتا۔ البتہ میر غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی مشہور کتاب "سرورِ آزاد” مطبوعہ 1144ھ میں دیوان سید رحمت اللہ بلگرامی اور پنڈت چنتامن کی شعری خدمات کا تذکرہ ضرور کیا ہے جو عہد عالمگیری میں جاجمؤ میں قیام پذیر تھے۔”

    یہ سطور ضیا فاروقی کے قلم سے نکلی ہیں‌ جو کانپور (بھارت) کی معروف ادبی شخصیت ہیں۔ ضیا فاروقی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک اہم کام "مثنوی کانپور نامہ” ہے جو شہر کانپور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے اس شہر کی لسانی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان کی کتاب "کانپور نامہ” 2005ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی جس میں ضیا فاروقی کا ایک نہایت اہم و مفصّل مقالہ بھی شامل تھا جس سے یہ چند پارے قارئین کی معلومات اور حسنِ مطالعہ کی غرض سے نقل کیے جارہے ہیں۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، "جن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک اہم کام "مثنوی کانپور نامہ” ہے جو کانپور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے کانپور کی لسانی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب "کانپور نامہ” 2005ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ اس کتاب میں ضیا فاروقی کا ایک نہایت اہم و مفصّل مقالہ بھی شامل تھا جس سے کانپور کے علمی و ادبی ماحول اور شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔”

    "حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو جاجمؤ جو مخدوم شاہ اعلی کے قدموں کی برکت سے ساتویں صدی ہجری میں ہی برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک حصہ بن چکا تھا، اس وقت تک اودھ کے حکمرانوں کی جاگیر کا صدر مقام اور ایک فوجی مستقر کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کے اطراف میں پھیلے جنگلات میں وہ قریے اور مزارع بھی تھے جن کا باہر کی متمدن دنیا سے بظاہر کوئی رابطہ نہیں تھا۔”

    "گمان غالب ہے کہ ماضی بعید میں کانپور بھی ایسی ہی ایک مختصر سی آبادی کا نام تھا۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس کے خد و خال اس وقت نمایاں ہوتے ہیں جب اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر اپنا تسلط قائم کیا۔
    کمپنی کا فوجی اور صنعتی مستقر ہونے کے سبب جہاں تجارت پیشہ افراد یہاں آئے وہیں تلاش معاش کے سلسلے میں بھی لوگوں نے ادھر کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ارض کم شناخت ایک ایسے وسیع و عریض شہر میں تبدیل ہو گئی جس میں نہ جانے کتنے دیہات اپنا وجود کھو بیٹھے۔ باہر سے آنے والے حضرات میں یقیناً اہلِ علم بھی تھے اور علم دوست بھی۔”

    "بعد میں چند صاحبان علم و ادب اور اہلِ جاہ و حشمت بھی لکھنؤ سے سیاسی مصلحتوں اور درباری ریشہ دوانیوں کے سبب یہاں آئے اور اس شہر کی ادبی شناخت کے ضامن ہوئے۔ مثلاً رجب علی بیگ سرور نے بعہد نواب غازی حیدر اپنی جلاوطنی کے تین سال یعنی 1824ء سے 1827ء تک اس شہر میں گزارے اور اس دوران بقول شخصے اپنی بیکاری اور غریب الوطنی سے تنگ آ کر جب انہوں نے بحرِ ادب میں غوطہ لگایا تو تہ سے "فسانۂ عجائب” جیسی تخلیق نکال کر لائے جو آج بھی اردو کے کلاسیکی ادب میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح نواب آغا میر کو بھی بوجوہ چند نواب نصیرالدّین حیدر کے زمانے میں لکھنؤ جیسے گلشنِ آباد کو خیرباد کہہ کر کانپور کو دارالسُرور بنانا پڑا۔ نواب آغا میر کے ساتھ ان کے قرابت داروں اور بہی خواہوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں پناہ گزیں ہوئی جن کے دم سے اس شہر میں شعر و سخن کا بازار گرم ہوا۔”

    "برصغیر میں 1857ء کے جہادِ عظیم سے خصوصاً مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اس نے انہیں خود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ علم کی اہمیت اور مدرسوں کی افادیت کے پیش نظر علمائے وقت نے کانپور کو بھی ایک مرکز بنایا اور مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولوی لطف اللہ علی گڑھی، مولانا احمد حسن کانپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا یحییٰ ہزاروی اور مولانا محد علی کانپوری ثم منگیری جیسے علمائے کرام اور مولوی عبد الرحمن شاکر، منشی رحمت اللہ رعد، سید اساعیل منیر ،مولوی عبدالرزاق اور مولوی محمد یعقوب جیسے اکابرینِ وقت کے طفیل مدرسہ فیضِ عام، مدرسہ احسن المدارس، مدرسہ جامع العلوم اور مدرسہ الٰہیات جیسے علمی ادارے یکے بعد دیگرے نہ صرف علومِ مشرقیہ کے امانت دار بنے بلکہ ان کے وجود سے شعر و ادب کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ یہاں کچھ خدا رسیدہ بزرگوں نے بھی رشد و ہدایت کی شمعیں جلا رکھی تھیں جہاں خود آگاہی اور خدا مستی کے لیے شعر و سخن کو ایک حربے کے بطور استعمال کیا جاتا تھا۔”

    "ان سب کے علاو ہ انیسویں صدی عیسوی کے وسط اور اس کے بعد یہاں قائم ہونے والے مطابع اور ان کے تحت شائع ہونے والے اخبارات و کتب کی بدولت بھی اردو زبان و ادب کی بہت ترقی ہوئی۔ ویسے تو یہاں پہلا سنگی چھاپا خانہ 1830ء میں ایک انگریز مسٹر آرچر نے قائم کیا تھا مگر بعد میں مولوی عبد الرّحمٰن نے 1847ء میں مطبع نظامی کی بنیاد ڈالی جس میں نہ صرف یہ کہ برصغیر کے معروف اہلِ قلم کی تصانیف شائع ہوئیں بلکہ ہفت روزہ ‘نور الانوار’ اور ‘نور الآفاق’ کا اجراء بھی ہوا۔ کہتے ہیں کہ نورُ الانوار سر سیّد احمد خاں کی مخالفت اور ‘تہذیب الاخلاق’ کے جواب میں نکلا تھا۔ اسی دور میں منشی رحمت اللہ رعد نے جو سرسید کے پرجوش حامی اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے مطبعِ نامی قائم کیا جس کے تحت منجملہ دوسری علمی ادبی کتابوں کے، مولوی عبدالرزاق کی "ابرامکہ” (جو وزرائے عباسیہ کی مستند تاریخ ہے) اور مولانا شبلی نعمانی کی "الکلام” جیسی اہم کتابیں بھی شائع کیں۔”

    "یہیں سے برصغیر کا پہلا باتصویر اردو اخبار "تصویر عالم” بھی عالم وجود میں آیا۔ مطابع کے تذکرے میں جمنا پرشاد کا مطبع ‘شعلہ طور’ بھی قائم ہوا اور اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی نکلتا تھا۔ حاجی محمد سعید کا مطبع مجیدی، حاجی محمد یعقوب کا مطبع قیومی بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔ ان مطابع کے علاوہ مطبع نول کشور، مطبع احمدی، مطبع عزیزی، مطبع آصفی، رئیس المطابع اور مطبعِ مصطفائی کے ذریعہ بھی معیاری کتب و رسائل کی اشاعت ہو رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب بھی کانپور کے چھاپا خانوں کے قتیل تھے۔ انہی مطابع کے بدولت کانپور میں شعر و ادب کا ماحول تو بنا ہی، یہ شہر کتب و رسائل کے کاروبار کا ایک بڑا مرکز بھی بن گیا۔”

    "انیسویں صدی کے نصف آخر میں کانپور سے اردو کے کئی اہم اخبارات و رسائل نکلے۔ نورُ الانوار، نورُ الآفاق، تصویرِ عالم اور شعلۂ طور کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ان کے علاوہ ہفت روزہ ‘دریائے لطافت’ سنہ اشاعت 1865ء، ہفت روزہ مطلع نور سنہ اشاعت 1809ء، منشی گوکل پرشاد کا ماہنامہ مال تہذیب 1868ء، بابو راج بہادر زخمی کا ‘مخبر حقیقی’ جو اردو اور ہندی دونوں میں نکلتا تھا اور نالۂ زخمی 1886ء، مشی گنگا پرشاد کا ماہنامہ رونقِ ہند 1883ء، حافظ عبدُالحق حقیقی کا گل دستہ چمنستانِ سخن، عنایت حسین کا ماہنامہ بہارِ سخن، شیخ علی احمد علی کا تہذیبِ سخن، بابو ہرنام سنگھ کا کانپور گزٹ، حاجی محمد سعید کا تحفۂ محمدیہ، اور مولانا آزاد سبحانی کا سیاحُ الاسلام جیسے اخبارات و رسائل کے سبب یہاں شعر و سخن کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب و روایات کو بھی بہت فروغ حاصل ہوا۔”

    "مطبعِ عزیزی سے شائع ہونے والے شعری گل دستے پیامِ عاشق مطبوعہ 1884ء کے جو نسخے راقم کی نظر سے گزرے ہیں ان میں ہندوستان کے معروف شعراء کے ساتھ ساتھ کانپور کی اربابِ نشاط کا کلام بھی موجود ہے۔”

    "چنانچہ ہائے دل اور جلائے دل کے قافیہ اور ردیف میں بی امراؤ جان دلبرا نامی شاعرہ کہتی ہیں:

    اس شمع رو کی بزم سے اٹھتا نہیں رقیب
    پروانے کی طرح کوئی کب تک جلائے دل

    یہیں بی ممولا جان نازنین کا یہ شعر بھی نذرِ قارئین ہے:

    اترا ہوا جو ہار گلے کا ترے ملے
    پہلو میں مثلِ گل کے نہ پھولا سمائے دل

    اردو زبان و ادب کی ترقی میں کانپور کی اس دور کی ادبی انجمنوں اور تنظیموں کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک ادبی انجمن ‘اخوانُ الصّفا’ جس کے بانی منشی رحمت اللہ رعد تھے 1885ء میں یہاں قائم ہوئی۔ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے منشی رحمت اللہ رعد سر سید احمد خاں کے بہت بڑے مداح اور علی گڑھ تحریک کے زبردست حامی تھے۔ چنانچہ اخوان الصّفا کے اراکین جن میں مولوی محمد حسین اسٹنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر، حافظ الہیٰ بخش شائق میونسپل کمشنر، سید جعفر حسین ڈپٹی مجسٹریٹ، میر علی حسین سپرنٹنڈنٹ زراعت، بابو عبدالعزیز، حاجی مولا بخش، منشی نظیر علی اور حاجی فخرالدّین جیسے اکابرین موجود تھے۔ شعر و فن کے ساتھ ساتھ سرسیّد کے نظریات کی وکالت اور علی گڑھ کالج کے استحکام کے سلسلے میں بھی پیش پیش تھے۔”

    "شعر و ادب کے حوالے سے انیسویں صدی کے وسط میں قائم ہونے والی انجمن "حلقۂ ادب” جس کے روح رواں عروج کانپوری تھے بہت ممتاز تھی۔ اس انجمن کے ایک اہم رکن طاہر فرخ آبادی کا یہ شعر آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا کل تھا:

    مكتب عشق کا دیکھا یہ نرالا دستور
    اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

    یہاں ابوالعلا حکیم ناطق کی "جامع ادبیہ” کے حوالے سے کی گئی ان کوششوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے جن کے طفیل غزل حکایت بہ یار گفتن کی قید سے رہا ہو کر زندگی کے دوسرے مسائل سے روشناس ہو سکی۔ اس اصلاحی تحریک کو پر اثر بنانے میں جو لوگ سامنے آئے ان میں صفی لکھنوی، محشر لکھنوی، نوبت رائے نظر، ننّھے آغا بابر، مرزا شرر اور عزیز لکھنوی سبعہ سیارہ کے لقب سے ملقب بھی ہوئے۔”

    "یہی وہ عوامل تھے جن کے سبب علمی طور پر گمنام یہ شہر انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں علم و ادب کا ایک ایسا دریائے سبک و شیریں بن گیا جس نے مغرب سے مشرق تک کے تشنگان علم کو سیراب کیا اور جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے عشق پیشہ اور جنوں آشنا یہاں رقص بداماں نظر آئے۔”

    "سیّد اسماعیل منیر، سعید عظیم آبادی، اکبر حسین سیف، احمد حسین سالک، تاج الدین تمیز اور محمد ابراہیم اثیم وغیرہ اس موسمِ بہار کے گلِ سر سبد تھے۔”

    "اس منظر نے بعد میں آنے والوں پر بھی ایسا سحر کیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے اوائل میں جو اہم نام ہمارے سامنے آتا ہے وہ منشی دیا نرائن نگم کا ہے جو 1903ء میں ماہنامہ "زمانہ” کا کاروبار الہ آباد سے کانپور لائے اور اپنے حلقے میں منشی پریم چند، درگا سہائے سرور جہان آبادی، پیارے لال شاکر، نوبت رائے نظر، مولانا احسن سمبھی اور یعقوب کلام جیسے نکتہ دان اور نکتہ رس حضرات کو بھی اسیر کر لیا۔ اسی طرح مولانا حسرت موہانی نے بھی اس شہر کو نہ صرف یہ کہ اپنا جائے عمل اور سکونت بنایا بلکہ استقلال اور اردوئے معلّی کے ذریعہ کانپور کا نام بھی روشن کیا۔”

    "آزادی سے پہلے یہاں سے جو معتبر اخبارات و رسائل نکلے ان میں حکیم ناطق لکھنوی کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ "العلم”، حامد حسن قادری کا بچوں کا "اخبار سعید”، روحی الہ آبادی کا ‘شگوفہ’، افق کانپوری کا ‘چمنستان’، ثاقب کانپوری کا ماہنامہ ‘نظارہ’، پروفیسر موہن سنگھ دیوانہ کا ‘ستارہ’، دور ہاشمی کا طنز و مزاح پر مبنی رسالہ ‘چونچ’ اور خواتین کا رسالہ ‘مستورات’ جس کو حبیبہ بلقیس بیگم نکالتی تھیں۔ مولانا اسماعیل ذبیح کا ‘قومی اخبار’ وغیرہ ایسے اخبار و رسائل تھے جو یہاں کی ادبی فضا کو گلنار بنا رہے تھے۔”

    "اس فہرست میں ایسے بہت سے حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے نصف اوّل میں قوم و ملّت کی خدمت کے ساتھ ساتھ صحت مند ادب کے لیے بھی خود کو وقف کر رکھا تھا۔ مولانا نثار احمد کانپوری، مولانا وصی علی ملیح آبادی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا اسماعیل ذبیح، پنڈت گیا پرشاد شکل ترشول، بابو گنگا دھر فرحت، کرشن سہائے وحشی ہستکاری جیسے حضرات کا شمار انہی باکمالوں میں ہوتا ہے۔”

    "اس تذکرے میں حافظ حلیم کی علم دوستی کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے حلیم کالج اور جبلِ نسواں اسکول جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ مولانا شبیر احمد سمبھی کو، جنہوں نے مولانا محمد علی میموریل اسکول کی بنیاد ڈالی یقیناً یہاں کے ادبی منظر میں بھی بہت نمایاں تھے۔”

    "اردو زبان و ادب کی ترقی میں مندرجہ بالا تعلیمی اداروں کے علاوہ اس زمانے میں کرائسٹ چرچ کالج، پی۔ پی۔ این۔ کالج، گورنمنٹ ہائی اسکول اور کانیہ کیج کالج کے اردو شعبوں اور ان سے متعلق حضرات کی خدمات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ کچھ نوجوان بھی یہاں کی ادبی محفلوں کو سجانے، شعر و سخن کو سنوارنے میں پیش پیش رہتے تھے جیسے کہ اشتیاق اظہر، حنیف فوق، سید ابوالخیر کشفی اور حسنین کاظمی وغیرہ۔”

    "سیاسی اعتبار سے بیسویں صدی کا نصف اوّل پورے ملک کے لیے اہم تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد عالمی سطح پر جہاں سماجی اور تہذیبی قدروں میں فرق آ رہا تھا وہیں اہلِ قلم کا اندازِ فکر بھی بدل رہا تھا۔ کانپور میں یوں تو شروع سے ہی مختلف تہذیبی، لسانی اور کسی حد تک فکری عناصر کے خلط ملط ہونے سے ایسا ادبی مزاج تعمیر ہوا تھا جس پر نہ تو حکومتِ وقت کا ہی سایہ رہا اور نہ ہی یہ اہلِ زر کی مدح خوانی کے طفیل تھا بلکہ دیکھا جائے تو یہاں کے ادبی منظر نامے پر زبان و ادب کے کسی روایتی اسکول کا بھی کوئی خاص عکس نظر نہیں آتا اور زیادہ تر شعراء بقول سید حامد حسین قادری: "لکھنوی کی نہ دہلوی کی طرف، ہم زباں میں نہیں کسی کی طرف” کا مضمون پیش کر رہے تھے۔”

    "اس ماحول میں جب ترقی پسند تحریک کا سرخ پرچم بلند ہوا تو اس کے زیرِ سایہ کانپور کے قلم کار بھی آئے۔ منشی پریم چند جن کے یہاں مارکسی نظریات کی بازگشت پہلے سے ہی موجود تھی، اس تحریک کے قائد بنے۔”

    "ہر چند کہ دوسری جگہوں کی طرح کانپور میں بھی ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے جو کسی خاص نظریے یا تحریک سے متاثر ہو کر تخلیقیت کا کرب اٹھاتے ہوں لیکن پھر بھی یہاں حسرت موہانی، ساحر ہوشیار پوری، نند کشور وکرم، نریش کمار شاد، سعید اختر نعمانی اور اسلم ہندی وغیرہ پر مشتمل ایک گروپ ایسا ضرور موجود تھا جو اس تحریک کی نمائندگی کر رہا تھا۔ اس زمانے میں نریش کمار شاد نے "چندن” کے نام سے ایک رسالہ نکالا جو کسی حد تک ترقی پسند تحریک کا ترجمان بھی تھا۔”

    "ملک کی تقسیم کے بعد کانپور کا تہذیبی، معاشرتی ڈھانچہ بھی دوسرے شہروں کی مانند جس طرح مجروح ہوا اس کا اثر زبان و ادب پر پڑنا لازمی تھا۔ فرمان فتح پوری، اسماعیل ذبیح ، ابوالخیر کشفی اور اشتیاق اظہر جیسے شعر و ادب کے آشنا دیارِ غیر کو سدھارے اور یہاں کی فضائیں اس خوشبو سے نامانوس ہونے لگیں جو اس چمن کا خاصہ تھی۔ اس بکھرے شیرازے کو یکجا ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا لیکن صورتِ حال مایوس کن نہیں رہی۔”

    "چنانچہ اب جو نیا منظر سامنے آیا اس میں وہ شعراء بھی جو اب تک محبوب کے لب و رخسار کو ہی شعر و ادب کا ماحصل سمجھتے تھے وہ بھی خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر تاریخِ خونچکاں رقم کرنے لگے۔ یہاں غیرتِ اہلِ چمن کو للکارنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر ترقی پسند تحریک میں پھر ہلچل ہوئی۔ اس بار علی رضا حسینی، اکرام سہیل، بھیشم ساہنی، ابنِ حسن، نامی انصاری، ن۔ پرویز، تسکین زیدی، نجیب انصاری، عارف محمود اور اشہر قدوائی جیسے بالغ نظر سامنے آئے۔ اس تحریک کے لیے اپنے در وا کرنے والوں میں کامریڈ سلطان نیازی، مصطفیٰ حسین نیّر اور لطیف عباس پیش پیش تھے۔”

    "آزادی کے بعد یہاں سے کئی اخبارات و رسائل کا اجراء ہوا۔ ان دستاویزی ثبوتوں کے علاوہ یہاں کی ان ادبی تنظیموں اور اداروں کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے آزادی کے بعد اس شہر میں اردو شعر و ادب کے لیے راہیں ہموار کیں۔”

    اس طویل مضمون میں مصنّف نے تقسیم کے بعد کانپور میں‌ علمی و ادبی سرگرمیوں‌ کے بارے میں مختصراً بتایا ہے اور نمایاں شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور حرفِ‌ آخر کے طور پر پیرا سپردِ‌ قلم کیا ہے جس میں‌ اپنی کاوش سے متعلق چند اعترافات کرتے ہوئے وجہِ تصنیف بتائی ہے:

    "مجھے اعتراف اور احساس ہے کہ اس ادبی منظر نامے میں یقیناً بہت سے ایسے سابق اور حالیہ حضرات کے نام رہ گئے ہوں گے جن کی ادبی اور شعری خدمات کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کی اس فہرست میں تقدیم و تاخیر کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہو سکا ہے۔ دراصل میرے جیسے بے بضاعت اور کوتاہ قلم سے یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ کانپور کی کوئی مکمل ادبی تاریخ یا تذکرہ مرتب کرتا۔ ‘کانپور نامہ’ تو بس ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک کنکر پھینکنے جیسا ہے کہ کچھ ارتعاش ہو، کوئی لہر اٹھے اور شہرِ ادب کانپور کی ڈھائی سو سالہ ادبی تاریخ کے ان اوراق کو منظرِ عام پر لائے جو وقت کی دیمک کی نذر ہو رہے ہیں۔”

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • راتب

    انکم ٹیکس انسپکٹر کو تین ماتحتوں کے ساتھ دیکھ کر اُس نے اپنی حالت درست کی پھر دکان کی گدی سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

    اُس نے عجلت سے ہاتھ جوڑ کر اُنہیں سلام کیا اور اُنہیں بٹھانے کے لیے سامنے پڑی کرسیوں کو اپنی دھوتی کے پلو سے صاف کرنے لگا۔

    آنے والے افسر اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو وہ اُن کے کھانے کے لیے کچھ خشک میوے اور پھلوں کا جوس لے آیا۔

    افسر اعلیٰ نے کھانے پینے کے بعد انگلیوں سے اپنی مونچھوں صاف کیں اور دکان دار سے حساب کتاب کا رجسٹر لے کر اُس کی پڑتال کرنے لگا۔ ایک صفحے پر اُس کی نظر ٹھہر گئی۔ وہ کچھ حیران سا ہوا پھر مسکرایا۔ اُس نے اپنے ماتحتوں کو وہ صفحہ دکھایا اور پڑھ کر سنایا تو وہ تینوں بھی مسکرانے لگے۔

    "کیسے لوگ ہیں۔ انکم ٹیکس بچانے کے لیے کتّے کو ڈالی گئی روٹی کے ٹکڑے تک کی قیمتِ اخراجات میں لکھ دیتے ہیں۔” افسرِ اعلیٰ نے تبصرہ کیا۔

    رجسٹر کے کھلے صفحے پر درج تھا: ” مورخہ بارہ فروری سنہ…. کتّے کا راتب 50 روپے۔”

    دکان دار بھی کھسیانے انداز میں اُن کے ساتھ ہنسنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔
    دکان دار نے وہ رجسٹر دوبارہ کھولا۔ خشک میوے اور پھلوں کے جوس پر آنے والے اخراجات جوڑے اور رجسٹر میں ایک نئی سطر کا اضافہ کر دیا۔

    تاریخ 20 اگست سنہ…. کتّوں کا کھانا 150 روپے۔

    (درشن متوا کی اس ہندی کہانی کے اردو مترجم احمد صغیر صدیقی ہیں)

  • ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن اور سلطانُ‌ العلوم

    ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ رقبہ اور آبادی کی حامل تھی جس کے حکم راں میر عثمان علی خان اپنی ثروت مندی میں ممتاز اور رفاہیتِ‌ عباد کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

    برطانوی راج کے خاتمے پر تمام آزاد ریاستیں پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہو گئی تھیں، لیکن دکن جو مغلوں کے دورِ آخر ہی سے ہندوستان میں‌ خودمختار اور خوش حال ریاست سمجھی جاتی تھی، آخری نظام نے اس کی خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سلطنتِ آصفیہ پر بھارت نے بزورِ طاقت قبضہ کرلیا اور میر عثمان علی خان اپنی ہی ریاست کے راج پرمکھ بنا دیے گئے۔

    دکن کے نظام میر عثمان علی خان اس زمانے میں‌ دنیا کے چند امیر ترین افراد میں‌ شمار ہوتے تھے۔ تقسیم کے بعد نظام نے خطیر رقم پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے دکن سے یہاں منتقل کی تھی۔ اسی ریاست میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور بانیِ پاکستان کے اہم رفیق بہادر یار جنگ نے پرورش پائی اور آگے چل کر شعلہ بیاں مقرر اور زبردست خطیب مشہور ہوئے۔ نواب بہار یار جنگ تحریکِ‌ آزادیٔ ہندوستان کے سپاہی بھی تھے، جن کی ایک تقریر سلطنتِ آصفیہ کی خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اس میں انھوں نے دنیا کے کئی ممالک سے دکن کا موازنہ کیا ہے جو بہت معلومات افزا ہے۔

    یہاں ہم بہادر یار جنگ کی تقریر سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور خاص طور پر تاریخ کے طالبِ علموں کی معلومات میں اضافہ کریں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "کسی سلطنت و مملکت کا جب ہم دوسری سلطنت یا مملکت سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس تقابل میں چند ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ رقبہ مملکت، آبادی، رقبہ آبادی کے لحاظ سے فی مربع میل آبادی کا تناسب، آمدنی، اور اس کے ذرائع و امکانات، تعلیم و شائستگی وغیرہ۔ اور اب بیسویں صدی میں فوجی و جنگی طاقت سب سے زیادہ قابلِ لحاظ چیز بن گئی ہے۔”

    "دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جو ممالک دنیا کی بساط پر سب سے اہم مہروں کا پارٹ ادا کررہے ہیں ان میں بھی اکثروں سے حیدرآباد امتیازاتِ خاص رکھتا ہے۔ جب ہم کسی ملک کی عظمت و بزرگی کا تخیل کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلا اور اہم سوال جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے رقبہ و حکومت کا خیال ہے، آج بھی سلطنتِ برطانیہ کی عظمت سب سے پہلے اس خیال سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس کی حدودِ مملکت سے کہیں آفتاب کی روشنی دور نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ایسے بھی آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن میں سے بعض کا رقبہ حیدرآباد کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ آزادی اور خود مختاری کے ان تمام لوازم سے بہرہ اندوز ہیں جو ایک بڑی سے بڑی آزاد سلطنت رکھتی ہے۔ مثلاً یونان کا رقبہ انچاس ہزار مربع میل ہے۔ بلغاریہ کا چالیس ہزار میل، پرتگال کا پینتیس ہزار پانسو، البانیہ کا بیس ہزار، ڈنمارک کا پندرہ ہزار، ہالینڈ کا بارہ ہزار سات سو، بلجیم گیارہ ہزار مربع میل ہے اور ان سب کے مقابلے میں حیدرآباد کا رقبہ اپنی موجودہ حالت میں بیاسی ہزار چھ سو اٹھانوے مربع میل ہے۔ گویا جن آزاد بادشاہوں اور جمہوریتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے بعض سے دگنا بعض سے چار گنا اور بعض سے چھ بلکہ سات گنا زیادہ ہے۔ لیکن اگر حیدرآباد کے اس موجودہ رقبے میں آپ برار و شمالی سرکار کے رقبے کو بھی شامل کر لیں جو بلاشبہ اور جائز طور پر مملکت حیدرآباد کا ایک جزو ہے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کا رقبہ مملکتِ یورپ کی درجۂ اوّل کی سلطنتوں، انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور ہسپانیہ سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور ہوجائے گا۔”

    دوسری اہم وجہِ امتیاز جو ایک مملکت کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حکومت کے زیرِ سایہ کتنے نفوس انسانی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بعض ایسے ملک بھی دنیا کے نقشے پر ملیں گے جن کا رقبہ اس براعظم کے اس کنارے سے اُس کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آبادی اس میں ویسی ہی ملے گی جیسے ایک صحرائے لق و دق میں سبزہ و گیاہ کا نشان، آبادی کی کمی اور زیادتی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔ اراضی کے بڑے حصے کا بنجر صحرا پہاڑ، اور اسی طرح دوسرے اسباب کی بنا پر ناقابلِ کاشت ہونا۔ مملکتوں کا غلط نظام حکومت اور رعایا کا اس سے مطمئن نہ ہونا، کہیں اقتصادی اور معاشی حالت کی خرابی وغیرہ۔”

    "حیدرآباد کی آبادی گزشتہ مردم شماری کی رو سے بلا شمول صوبہ برار و شمالی سرکار ایک کروڑ چوالیس لاکھ چھتیس ہزار ایک سو پچاس ہے۔ اگر اس کو رقبۂ مملکت پر تقسیم کیا جائے تو فی مربع میل 175 نفوس کا اوسط آتا ہے۔ برخلاف اس کے دنیا میں بہت سے ایسے خود مختار اور آزاد ممالک ملیں گے جن کی آبادی کو حیدرآباد کی آبادی سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس تناسبِ آبادی کی قرارداد میں ہم ان ممالک کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے رقبہ سے متعلق اوپر بحث ہوئی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی رقبہ کے تناسب سے کم ہوگی اور ہے۔ مثلاً یونان جس کی آبادی صرف ستّر لاکھ ہے اور فی مربع میل اس کی آبادی کا اوسط (67) نفوس ہے۔ بلغاریہ جس کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے اور فی مربع میل (137) نفوس ہے۔ البانیہ کی آبادی دس لاکھ اور فی مربع میل (50) نفوس ہے۔ پرتگال کی آبادی چھپن لاکھ اور فی مربع میل (100) نفوس ہے۔”

    "مذکورہ بالا ممالک کی آبادی کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ یورپ کے وہ ممالک ہیں جو کہ زرخیزی کے اعتبار سے مشہور اور ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفوق سے سرفراز ہیں۔ اور ان میں سے اکثروں کی اپنی بندرگاہیں ہیں۔ زراعت، تجارت ، صنعت ، کسبِ معاش کے بیسیوں ذرائع ان کو حاصل ہیں اور ان کا طریقہ حکومت بھی ترقی یافتہ کہاجاسکتا ہے جو باوجود اس کے حیدرآباد کی آبادی اور رقبے کے ساتھ کسی تناسب میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔”

    "اب چند ان ممالک پر بھی نظر ڈالیے جو گورقبہ اراضی حیدرآباد سے دو چند اور بعض صورتوں میں چہار چند رکھتے ہیں لیکن آبادی میں حیدرآباد کے ساتھ ان کو کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی۔ مثلاً شہنشاہیتِ ایران جس کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا آٹھ گنا زیادہ ہے یعنی چھے لاکھ تیس ہزار مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع میل صرف (16) نفوس پر مشتمل ہے۔ حکومتِ نجد و حجاز کا رقبہ گو حیدرآباد سے بارہ گنا زیادہ یعنی دس لاکھ مربع میل ہے لیکن آبادی صرف پندرہ لاکھ اور تناسب (ڈیڑھ) کس فی مربع میل ہے۔ عراق کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا دو گنا زیادہ یعنی ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ لیکن آبادی صرف تیس لاکھ اور تناسب بیس کس فی مربع میل ہے۔ مصر کا رقبہ حیدرآباد سے چار گنا زیادہ یعنی تین لاکھ ترسٹھ ہزار دو سو میل لیکن آبادی تقریباً برابر یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ اور تناسب آبادی (38) ایشائی ترکی کا رقبہ تقریبا پانچ گنا زیادہ یعنی چار لاکھ مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور تناسب صرف (30)۔ افغانستان کا رقبہ بھی تقریباً تین گنا زیادہ یعنی دو لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل ہے۔ لیکن آبادی نصف سے بھی کم یعنی ترسٹھ لاکھ اسی ہزار اور تناسب صرف (26)۔ اب اندازہ کیجیے۔”

    "حیدرآباد اپنی آبادی کے اعتبار سے نہ صرف یورپ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں بلجیم، ہالینڈ، البانیہ، یونان، پرتگال، ڈنمارک، بلغاریہ وغیرہ سے بڑھ کر ہے بلکہ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتوں ایران، ترکیہ، مصر، نجد و حجاز، عراق، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور تمام تقابلِ برار کو شامل کیے بغیر ہے جو مملکتِ آصفیہ کا ایک زرخیز اور آباد صوبہ ہے۔ اگر اس کو شامل کر لیا جائے تو شاید یورپ کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی حیدرآباد کا آبادی کے معاملے میں مقابلہ نہ کرسکیں۔”

    "آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایشیا کے بعض ممالک جو اپنے رقبے میں زیادتی پر ناز کرسکتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان کے رقبۂ مملکت کا بیشتر حصّہ غیر آباد، ویران اور سنسان ہے۔ اگر کوئی شخص ویرانوں، کھنڈروں اور غیر آباد مقاموں میں کھڑا ہو کر رابنسن کروسو کی طرح صدا بلند کرسکتا ہے اور دنیا اس کو ایک باعظمت و جبروت بادشاہ مان سکتی ہے تو پھر غیر آباد ممالک بھی بیشک حیدرآباد کے مقابلے میں اپنا تفوق جتاسکتے ہیں لیکن اگر مملکت کے لیے آبادی شرط ہے اور وہ حیدرآباد کی مناسبت سے ان کے یہاں کچھ بھی نہیں تو ان کو حیدرآباد کے تفوق کو ماننا پڑے گا۔ برخلاف ان ممالک کے جہاں میلوں تک رقبۂ اراضی صحرا یا پہاڑوں کی شکل میں بیکار ہے۔”

    دکن سے متعلق تقریر کے معلومات افزا اقتباسات کے بعد اس ریاست کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بارے میں جان لیں کہ انھوں نے برصغیر کی اسلامی درس گاہوں، جدید تعلیمی اور سماجی اداروں کی ہر طرح سے سرپرستی اور مالی امداد کی۔ اسی سبب انھیں سلطانُ العلوم بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد دکن کے اس درویش اور سخی حکم راں نے دین و ملّت کے لیے بھی اپنے خزانوں کا منہ کھول کر رکھ دیا اور ایک عاشقِ‌ رسول کی حیثیت سے اور اپنی آخرت کا سامان کرنے کے لیے میر عثمان علی خان نے خطیر رقم سے مسجدِ نبوی اور خانۂ کعبہ میں کاموں کے علاوہ وہاں جنریٹر اور بجلی کی فراہمی کے منصوبے کو انجام تک پہنچایا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اور ایک ٹرسٹ بنایا، جس کی آمدنی مکّہ، مدینہ میں‌ کاموں اور حاجیوں کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کی جاتی تھی۔

    میر عثمان علی خان نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے عطیہ دیا تھا، جس سے نئی مملکت کے اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔

  • اردو کا ایک بدنام شاعر یا گنہگار شریف زادہ؟

    اردو کے مشہور شاعر اور مثنوی نگار نواب مرزا شوق کا زمانہ تھا 1773ء سے 1871ء کا اور وہ لکھنؤ کے صاحبِ حیثیت لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

    خاندان میں سبھی طب سے وابستہ تھے اور یہی پیشہ نواب مرزا نے بھی اختیار کیا۔ لکھنؤ میں ہر طرف شعر و سخن کا بول بالا تھا، اور مرزا بھی شاعر ہوئے۔ خواجہ آتش ؔ کو اپنا استاد بنایا۔ شوخی، عیش پسندی اور مزاج میں رنگینی لڑکپن ہی سے تھی۔ ان کا سرمایۂ حیات تین مثنویاں بتائی جاتی ہیں جو بہت مشہور ہیں، لیکن اخلاقی نقطۂ نظر سے قابلِ گرفت اور شرفاء کے لیے ناگوار ہیں۔

    عبدالماجد دریا بادی مرزا شوق کی وفات کے بیس برس بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے وقت کے جیّد عالمِ دین، بے مثل اور صاحبِ اسلوب ادیب ہوئے اور یہ پیشِ نظر مضمون انہی کا ہے جس میں دریا بادی صاحب نے لکھنؤ کے ماحول، ادبی فضا کا نقشہ کھینچا اور اپنے منفرد اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے ساتھ مرزا شوق کا احوالِ زیست، ان کا مذاقِ سخن بیان کرتے ہوئے ان کو اشعار میں ابتذال اور پست باتیں کرنے پر مطعون کیا ہے، لیکن مراز کے فنِ شعر گوئی اور زبان پر ان کے عبور کو بھی سراہا ہے۔

    یہاں ہم عبدالماجد دریا بادی کے اسی مضمون کو مختصر کر کے پیش کر رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

    لکھنؤ ہے اور واجد علی شاہ ’’جانِ عالم‘‘ کا لکھنؤ۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستّر پچھتر سال قبل۔

    ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوشِ تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم، یہاں رہس کا جلسہ، وہاں اندر سبھا کی پریوں کا پرا، ادھر زبان پر ضلع جگت اور پھبتیاں، ادھر گلے سے تانیں اور ہاتھوں سے تالیاں، گلی گلی ’’جنّت نگاہ فردوس گوش‘‘، چپہ چپہ ’’دامانِ باغبان و کفِ گل فروش۔‘‘ بڑے بڑے متین اور ثقہ، گویوں اور سازندوں کی سنگت میں، اچھے اچھے مہذب اور مقطع بھانڈوں اور ڈھاریوں کی صحبت میں سفید پوشوں کے دامن عبیر اور گلال کی پچکاریوں سے لالوں لال، جبّے اور عمامے والے، پیشوازوں کی گردش پر نثار۔ غرض یہ بیسویں صدی کی اصطلاح میں ’’آرٹ‘‘ اور ’’فائن آرٹ‘‘ کا دور دورہ، عشق کا چرچا، حسن کا شہرہ۔

    اس فضا میں ایک صاحب حکیم تصدق حسین نامی آنکھیں کھولتے ہیں۔ کوئی عالمِ دین نہیں، صوفی اور درویش نہیں، واعظ و مصلح نہیں۔ چونچلوں کے آدمی، یار باش، رندِ مشرب، اہلِ بزم کے خوش کرنے کو شعر و شاعری کا ساز لے کے بیٹھے تو انگلیاں انہیں پردوں پر پڑیں جن کے نغمے کانوں میں رچے ہوئے تھے اور منہ سے بول نکلے تو وہی، جن کے نقش دلوں میں جمے ہوئے تھے۔ غزلیں شاید زیادہ نہیں کہیں، کہی ہوں گی بھی تو اس وقت کسی کی زبان پر نہیں، تھوڑا بہت جو کچھ کہا۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو،

    کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
    پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے
    اک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے
    ملتے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے

    حکیم صاحب کی حکمت و طبابت سے یہاں غرض نہیں، شاعری کی دنیا میں حکیم صاحب کا نام نواب مرزا ہے اور تخلص شوقؔ اور ان کے نام کو قائم رکھنے والی ان کی غزلیں نہیں، مثنویاں ہیں۔ تذکروں میں ہے کہ خواجہ آتش کے شاگرد تھے، ہوں گے لیکن یہ مثنویاں یقیناً یا تو استاد کے بعد کی ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے چرا چھپا کر کہی ہیں۔ ورنہ آتش کی نظر پڑنے کے بعد عجب نہیں کہ نذرِ آتش ہو جاتیں۔

    خواجہ آتشؔ کی متانت و ثقاہت کب اس کی روادار ہوتی کہ سعادت مند شاگرد آوارگی اور تماش بینی کی بولی ٹھولی میں وہ نام پیدا کر جائیں کہ تہذیب کی آنکھیں ان کا نام آتے ہی نیچی ہو جائیں، اور عریاں نگاری کے وہ شرارے چھوڑ جائیں کہ ان کی یاد کی چمک دمک قائم رہے بھی تو اسی روشنی میں۔

    بہرحال مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ایک ہیں لیکن لذّتِ عشق کی زبان قطعاً شوق کی زبان نہیں۔ اور فریبِ عشق بھی مشکل ہی سے ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے، نو مشقی کے زمانہ کی کوئی ابتدائی کوشش ہو۔ یقین کے ساتھ جن دو مثنویوں کو ان کی تصنیف تسلیم کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک کا نام بہارِ عشق ہے اور دوسری کا زہرِ عشق۔

    شہرتِ عام زہرِ عشق ہی کے نصیب میں ہوئی۔ دونوں میں نہ کوئی پلاٹ ہے اور نہ کوئی طلسم کشائی، نہ شاعر منبر پر بیٹھ کر اخلاق کا وعظ کہہ رہا ہے، نہ کالج کے لیکچر روم میں تحلیلِ نفسیاتی کر رہا ہے۔ اسے محض اپنی ہوس ناکی کی کہانی سنانی ہے، اوریہی وہ خوب مزہ لے لے کر سنا رہا ہے۔ پھر چوں کہ محض ’’آپ بیتی‘‘ ہی سنانی ہے، اس لیے جگ بیتی سنانے والوں کی طرح کسی دوسرے کو عاشق فرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں پیش آتی ہے۔

    بہارِ عشق میں افسانہ کا انجام، شادی پر ہوتا ہے۔ پیشِ نظر نسخہ کانپور کے مطبع علوی علی بخش خاں کا چھپا ہوا ہے۔ 1277ھ بمطابق 1861 عیسوی کا یہ نسخہ نسبتاً صحیح ہے۔ حال کے مطبوعہ نسخے، علاوہ بہت زائد اغلاطِ مطبعی کے آخر سے ناقص بھی ہیں۔ شادی کا ذکر ان میں غائب ہے۔ کل نظم میں آٹھ سو سے اوپر شعر ہوں گے، اشعار کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو بزرگوں کے سامنے کیا، بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بھی پڑھنے کے قابل نہیں۔ خدا معلوم ان ذات شریف سے لکھے کیوں کر گئے۔ کتاب کے شروع میں حسب دستورِ زمانہ بادشاہ کے مدح ہے اور سننے کے قابل ہے، ارشاد ہوتا ہے،

    نوبتِ مدحِ شاہ آئی ہے
    اے قلم وقتِ جبّہ سائی ہے
    کر رقم اب دعائے شاہِ زماں
    کہ ہے وہ ملکِ ہند کا سلطان
    آفتاب سپہر جاہ و حشم
    شاہ واجد علی شہِ عالم

    شاعر جس ماحول میں تھا اس میں اخلاق کی پستی، جذبات کی فرومائیگی، رکاکت، بے حیائی و عریاں نگاری کی کمی کچھ نہ تھی، حمام میں سب ہی ننگے تھے۔ آخر دربارِ اودھ کے شعرائے با کمال اور سخن گویانِ شیریں مقال میں کون اس میدان کا مرد نہ تھا؟ بایں ہمہ ان کاملوں کی سرداری کا تاج شوقؔ ہی کے سر پر رکھا گیا، اس بزم کی صدر نشینی نواب مرزا کے حصہ میں آئی، لیکن اس صدارت و سرداری کا نتیجہ جو کچھ ہوا، وہ بھی سب پر عیاں ہے۔

    آج اردو شاعری کی تاریخ میں کہیں اس غریب کے لیے کوئی جگہ ہے؟ اردو مشاہیر شعراء کی فہرست میں کسی نمبر پر ان کا نام آتا ہے؟ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کا یا ان کی مثنویوں کا ذکر تک بھی کیا ہے؟ شاعروں کا کوئی طبقہ آج تلمذ یا کسی دوسری حیثیت سے اپنا انتساب ان کی جانب پسند کرتا ہے، یا اس کے برعکس ان کا نام آتے ہی کچھ جھنیپ سا جاتا ہے اور بے اختیار اپنی تبری کرنے لگتا ہے؟ نقادانِ شعر کے حلقوں میں، سخن سنجوں کی صحبتوں میں، پڑھے لکھے اور شریف گھرانوں میں نواب مرزا شوقؔ اور ان کی مثنویوں کی کچھ بھی وقعت اور پرسش ہے؟

    جس طرح فرد ایک مخصوص طبیعت اور خاص مزاج رکھتا ہے، ہر قوم کا بھی ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، ہر تمدن کی بھی ایک مخصوص سرشت ہوتی ہے۔ قومی زندگی کی جو کارروائیاں اس عام مزاج و سرشت کے مخالف ہوتی ہیں، وہ کبھی قوم کے قوام میں نہیں داخل ہونے پاتیں، قومی تمدن کا مستقل نظام انہیں اپنے میں جذب کرنے، قبول کرنے اور اپنا جزو بنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ نظامِ تمدن کا ایک بڑا مظہر ہر قوم کا شعر و ادب ہوتا ہے۔ شوقؔ کی کھلی ہوئی عریاں نگاری، مشرق کے ذوقِ سلیم کے مخالف تھی، بگڑی اور اجڑی ہوئی تہذیبِ اسلامی کے بھی منافی تھی، اس لیے اسلامی مشرق نے شوقؔ کی تمام دوسری شاعرانہ خوبیوں کے باوجود ان کے لیے اپنی فہرستِ مشاہیر میں کوئی جگہ نہ رکھی۔ اور نام کو بالکل ’’گم نام‘‘ ہونے سے بچا کر کھا بھی تو ’’بد نام‘‘ کر کے زندہ رکھا۔

    نواب مرزا کا شاہ کار بہارِ عشق نہیں زہرِ عشق ہے، اس کے نام کو بری یا بھلی جو کچھ بھی شہرت حاصل ہے، اسی زہرِ عشق کے طفیل ہے۔ یہ مثنوی بہار عشق سے چھوٹی ہے۔ کوئی پانچ سو شعر ہوں گے۔ بحر وہی، زبان وہی، طرزِ بیان وہی، لیکن درد و اثر کے اعتبار سے اس سے بڑھ چڑھ کر۔

    بہارِ عشق کا خاتمہ وصل کی شادمانی پر ہوا تھا۔ زہرِ عشق کا انجام ہیروئن کی خودکشی اور عاشق کے اقدامِ خودکشی پر ہوتا ہے۔

    مشرق کے بد نام سخن گو، اردو کے بدنام شاعر، رخصت! تو درد بھرا دل رکھتا تھا، تیری یاد بھی درد والوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ تونے موت کو یاد رکھا، تیرے نام پر بھی موت نہ آنے پائے گی۔ تو نے غفلتوں اور سرمستیوں کی داستان کو خوب پھیلایا، شاید کسی کی رحمت بے حساب پر تکیہ کر کے لیکن انہی غافلوں اور سر مستوں کو موت و انجام کی یاد دلا دلا کر بھی خوب رلایا، کسی کی عظمتِ بے پایاں کا خوف کر کے۔ عجب کیا کہ خدائے آموزگار، اس عالَم کا ستّار اور اس عالَم کا غفار، تیری خطاؤں اور لغزشوں کو اپنے دامنِ عفو و مغفرت کے سایہ میں لے لے، اور تیرے کلام کے درد و عبرت، تیرے بیان کے سوز و گداز کا اثر بھی تجھے عطا کرے، اپنی ہی رحمت کی مناسبت سے، اپنے ہی کرم کے حساب سے!