Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • چاند نگر کے انشا جی!

    انشاؔ جی ہے نام اِنہی کا چاہو تو اِن سے ملوائیں
    اِن کی روح دہکتا لاوا ہم تو اِن کے پاس نہ جائیں
    یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں
    اِن کے ہاتھ ادب سے چومیں اِن کے آگے سیس نوائیں
    نہ ان کی گدڑی میں تانبا پیسہ نہ منکے مالائیں
    پریم کا کاسہ روپ کی بھکشا، گیت،غزل، دوہے، کویتائیں

    ان اشعار کے خالق فقیرانہ مزاج کے حامل ابنِ انشا ؔہیں جو دوچار برس نہیں تقریباً چار دہائیوں تک اپنی بے نظیر تخلیقی صلاحیتوں، اور ادب کی متنوع اصناف پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ادب کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔

    ابنِ انشاءؔ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے، اس ضمن میں آپ خود تحریر کرتے ہیں کہ ”پیدائش ضلع جالندھر(مشرقی پنجاب) کے ایک دیہاتی کاشت کار گھرانے میں ہوئی۔ اس گھرانے میں تعلیم نہیں تھی۔ فقط والد صاحب نے چوتھی جماعت تک پڑھا تھا۔ پیدائشی نام شیر محمد ہے جو راجپوت ہونے کی نسبت سے شیر محمد خان ہو گیا۔پیدائش کی قطعی تاریخ معلوم نہیں۔ دیسی تاریخوں کا جو حساب معلوم ہوا۔ اس سے اساڑھ مہینے کی پہلی تاریخ کا دن 15جون1927ء معلوم ہوتا ہے۔“

    گویا ابنِ انشا ؔایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جہاں تعلیم عام نہ تھی لیکن فطری ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ابنِ انشانے ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ 1946ء میں گریجویشن کرنے کے بعدامپیریل کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ اور پرسا انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ایک رسالے کی ادارت سے وابستہ ہو گئے۔ بعد ازاں آپ نے آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت مترجم کام کرنے کی درخواست کی، جلد ہی آپ کا تقرر بھی ہو گیا، لیکن تقسیمِ ہند کی وجہ سے آپ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیااس کی بابت یوں رقمطراز ہیں:

    ”ادھر دلی کی فضا بکھرنے لگی۔ ایک روز تو چند سکھ کرپانیں باندھے ہمارے کمرے میں دندناتے چلے آئے،آخر ہم نے دلی سے کنارہ کیااور اپنے گاؤں انبالہ پہنچ کر اگلے ہی دن پاکستان کی راہ لی۔“

    پاکستان میں ابنِ انشاکا مسکن لاہور تھا۔ آپ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1949ء میں ریڈیو پاکستان لاہور خبروں کا یونٹ کراچی منتقل ہونے کے بعدابنِ انشانے بھی رختِ سفر باندھا اور کراچی میں سکونت اختیار کر کے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے،اس دوران آپ نے اردو کالج میں ایم اے کے لیے داخلہ لے لیا۔یہاں کالج کے مجلہ ”برگِ گل“ کے مدیر بنے۔

    اردو کالج کے بانی بابائے اردو سے اپنے تعلق کے حوالے سے ڈاکٹر خلیل الرحمٰن اعظمی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”مولوی صاحب سے میرا تعلق 1952ء سے ہے۔اس سال میں نے اردو کالج سے ایم اے پاس کیا۔امتحانوں سے فارغ ہو کر ڈان اخبار میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔پہلا مضمون قدرتاً مولوی صاحب پر تھا۔یہ مضمون رسمی نہیں تھا کچھ عجب سا مسخرہ پن لیے تھا، بہر حال مولوی صاحب کو وہ بہت پسند آیا۔اور اُنہوں نے مجھے خط لکھا۔میری زبان وبیان کی تعریف کی۔ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں بدقسمت اُن کے پیار سے محروم تھا۔ اُنہوں نے حد سے زیادہ توجہ اورعنایت سے نوازا اور برابر آنے کو کہا۔“

    رفتہ رفتہ بابائے اُردو سے ابنِ انشا کا تعلقِ خاطردوستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ انجمن کے معاملات میں بابائے اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ابنِ انشا کو بہت قلق تھا چونکہ طبعاً آپ حساس اور منصف مزاج تھے اس لیے اس ضمن میں ابنِ انشا کی مساعی جمیلہ لائق صد ستائش اور قابلِ قدر ہے۔ ابنِ انشا کی کاوشیں بار آور ہوئیں اور حق بہ حقدار رسید کے مصداق انجمن بابائے اُردو کے حوالے کر دی گئی، 1950ء میں ریڈیو کی ملازمت ترک کر کے ابنِ انشا پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سیکریٹریٹ میں بحیثیت سینئر مترجم فائز ہو گئے۔ 1952 ء میں آپ محکمہ دیہات سے منسلک ہوئے تو محکمے سے جاری ہونے والے جریدے ”پاک سرزمین“ کی ادارت کی اور رسالے کے معیار پر خصوصی توجہ دی۔ 1960ء میں روزنامہ امروز کے لیے کالم نگاری کی۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی رحلت کے بعد روزنامہ امروز کراچی کے ایڈیشن کی ذمہ داری ابنِ انشاکو سونپ دی گئی۔ 1965ء میں روزنامہ انجام کے لیے کالم لکھے۔ 1966ء میں روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کا آغاز کیا جو تادمِ مرگ جاری رکھا۔ انشا جی کے شگفتہ اور پر مغز کالم عوام و خواص دونوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے تھے۔ 1961ء میں پاکستان کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا تو آپ نے زرعی تحقیقاتی ادارے کی مطبوعات کو جدید طرز کے مطابق استوار کیا۔ اسی دوران بیلجیم میں ہونے والے عالمی مشاعروں کے اجتماع میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کئی یورپی ممالک کا دورہ کیا، یہ سفر آپ کی سفرنامہ نگاری کے لیے سنگِ میل ثابت ہُوا۔ ”دنیا گول ہے“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ”یوں تو ہماری آوارگی 1961ء کے سفرِ یورپ سے شروع ہوتی ہے اور1963 ء میں ہم ایران سے فارسی بولتے ہوئے 1964 ء میں لنکا سے وہاں کی ملاحت مآبوں پر جان چھڑکتے ہوئے لوٹے تھے۔ لیکن1966،1967 اور1968 ہمارے لیے سیاحت کے بھرپور سال تھے۔ یورپ اور پچھم ہماری وحشت کے صحرا تھے۔“

    بلا شبہ ابن انشا کی اس سیاحت کے طفیل پاکستانی ادب میں آوارہ گرد کی ڈائری، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دُنیا گول ہے، نگری نگری پھرا مسافر جیسے خوش طبع سفر ناموں کا اضافہ ہُوا۔ دورانِ سیاحت پیش آنے والے تجربات، واقعات، مشاہدات اور ذاتی احساسات ابنِ انشا نے اپنے سفر ناموں میں جس طرز سے بیان کیے آپ کا وہ اسلوب قارئین کے لیے دلنشین ٹہرا۔ قارئین آپ کے سفر ناموں کا انتظار کرتے اور آپ کے شگفتہ اور چبھتے ہوئے فقروں سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ ”دنیا گول ہے ” کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

    ”ہم اس دھرتی کا گز بنے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاآئے لیکن ہمیں تو ہرچیز چپٹی ہی نظرآئی۔ دنیا سے زیادہ تو ہم خود گول ہیں کہ پیکنگ سے لڑھکے تو پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولمبو میں آکر رکے بلکہ جکارتا پہنچ کر دم لیا۔“

    1961ء میں بیلجیم کا سفر ابنِ انشا کے لیے اس طرح وسیلۂ ظفر ثابت ہُوا کہ سفر سے واپسی پر آپ کو نیشنل بک سینٹر کے مرکزی ڈائریکٹر کا منصب عطا کیا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ابنِ انشا نے پاکستانی کتب کی ترقی اور فروغ کے لیے مثالی خدمات انجام دیں۔اور محض پاکستان ہی میں نہیں بیرونِ ممالک میں بھی خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستانی مطبوعات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیسکو کی جانب سے کتابوں کی ترقی و فروغ کے لیے جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں ابنِ انشا نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ کانفرنس کے تمام شرکاء میں آپ کو خوب پذیرائی ملی۔ 1967 میں انقرہ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک بار پھر ابنِ انشا کو پاکستان کی نمائندگی کا فرض سونپا گیا۔ آپ نے اپنا فرض عمدگی سے نبھایا۔ 1967 ہی میں آپ نے تین ماہ کے تربیتی ورکشاپ کے لیے یورپ اور مشرقی وسطیٰ کا سفر کیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کر کے ابنِ انشا نے پاکستان کے کامیاب نمائندہ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آپ کی ان ہی ادبی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو 1977 میں لندن کے سفارتخانے میں فائز کیا گیا۔ جہاں اردو مخطوطات کو محفوظ کر کے اُن کی مائیکرو فلم حاصل کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی۔ آپ نے اپنا یہ فرض بھی حسبِ سابق نہایت خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے نبھایا گو کہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لیکن آپ کے جذبۂ شوق اور کتاب دوستی کو ہر شے پر سبقت حاصل رہی۔

    بحیثیت مزاح نگار ابنِ انشانے منفرد انداز اختیار کیا۔ انشا جی کی حسِ مزاح آ پ کے سفرناموں، کالموں، مکاتیب، مضامین میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔ اردو کی آخری کتاب، خمار گندم، قصہ ایک کنوارے کا طنز ومزاح پر مبنی آپ کے مضامین کے مجموعے ہیں۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی رقمطراز ہیں، ”بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اردو مزاح کے سنہری دور میں جی رہے ہیں۔ سادگی و پر کاری شگفتگی و بے ساختگی میں وہ اپنا حریف نہیں رکھتے۔ اُن کی تحریر ہماری ادبی زندگی میں ایک سعادت اور نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔“

    بلا شبہ ابنِ انشاکے قلم سے پھوٹنے والے مزاح کے چشموں سے قارئین سیراب بھی ہوتے ہیں اور شاداب و سرشار بھی۔ آ پ کے مضامین کا مجموعہ ”اُردو کی آخری کتاب“ محض 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ چھوٹی سی کتاب جو ضخیم بھی نہیں اپنے اندر اتنی وسعتیں لیے ہوئے ہے کہ اس میں ایک جہاں آباد ہے۔ یہ باتصویر کتاب ایک روزنامچہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضمون کے آخر میں مضمون سے متعلق سوالات پڑھ کر اس پر اسکول ڈائری کا بھی گماں ہوتا ہے۔ انشا جی نے جس ہنرمندی سے یہ منفرد اسلوب برتا ہے یقیناً لائقِ ستائش ہے۔ طنز و مزاح کے پیرائے میں بڑے قرینے سے تاریخی معلومات مہیا کر دیں۔ کتاب کے آغاز میں ابنِ انشا قارئین کو خبردارکر دیتے ہیں کہ ”یہ کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ ذہنی بالغوں کے لیے۔ معمر نابالغوں کے لیے نہیں۔“

    ابنِ انشا بہترین مترجم تھے، ترجمہ نگاری میں آپ کے جوہر خوب کھل کر سامنے آئے۔ آپ نے کئی شعری و نثری تخلیقات کے ترجمے کیے۔ نکولس کے ناول کاترجمہ ”محبوبہ“ کے نام سے شائع ہُوا۔ ایڈگر ایلن پو سے ابنِ انشا بہت متاثر تھے۔ آپ نے پو کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ ادارہ مطبوعات فرنیکلن میں مترجم کے فرائض ادا کرتے ہوئے متعدد کتب کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ چینی نظموں کے انگریزی تراجم آپ کو ایسے بھائے کہ اردو میں نہ صرف ان کا ترجمہ کر ڈالا بلکہ ”ٹھنڈا پربت“ کے نام سے تراجم کا مجموعہ بھی شائع کر دیا۔ ادارۂ مطبوعات پاکستان کے لیے پاکستان کی علاقائی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔

    ابن انشا کے مکتوبات میں بھی بذلہ سنجی، ذاتی زندگی اور نظریہ حیات نمایاں ہیں۔ اپنے قریبی دوست ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی کو لکھتے ہیں: ”آپ کا کرم نامہ ملا،۔آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا میں مستحق تو نہیں، لیکن آپ کے الفاظ سے بوئے وفا آتی ہے، اس لیے قبول کر کے ممنون ہوں۔“

    یوں توابنِ انشا کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری کی صنف آپ کا بہترین انتخاب ہے۔ شاعری آپ کو اپنے دہقان باپ منشی خان سے وراثت میں ملی جو پنجابی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ابنِ دہقان نے شعر و ادب میں ابنِ انشا کے نام سے خوب نام کمایا۔ 1942ء میں لدھیانہ اسکول میں تعلیم کے دوران شعر گوئی کا آغاز کیا۔ مکتوبات میں دوستوں سے شاعری کی زبان میں گفتگو کرتے۔

    اپنی چھوٹی بہن بلقیس بانو کے لیے جو کہ ابھی بچی ہی تھیں آپ شاعری کرتے اور پھر بالآخر ان تمام نظموں پر مبنی ایک شعری مجموعہ ”بلو کا بستہ“ شائع ہو گیا۔ بچوں کا دل موہ لینے والا سہل اور دلچسپ اسلوب۔ ایک شعر نذرِ قارئین ہے:
    اُردو نہ جانو انگلش نہ جانو
    کہتی ہو خود کو بلقیس بانو

    ابنِ انشا کو انشا جی کا نام آپ کے عزیز دوست جمیل الدین عالی ؔنے دیا جو ایسا مقبول ہوا کہ آپ کی عرفیت ہی بن گیا۔

    زمانۂ طالب علمی میں اختیاری مضمون کے طور پر فارسی اور ہندی کا انتخاب ابنِ انشا کے لیے بہت سود مند ثابت ہُوا۔ بالخصوص آپ کی شاعری جس میں بے تحاشہ ہندی الفاظ اور اصطلاحات اور ان سے جنم لینے والی غنائیت اور اور شیرینی پڑھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

    کبھی اس کے ملن کی آشا نے اک جوت جگائی تھی من میں
    اب من کا اُجالا سنولایا پھر شام ہے من کے آنگن میں

    جمالیاتی حس ابن انشا کی شاعری کا خاصہ ہے۔ انسانی جذبات اور نفسیات پر آپ کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ آپ کی نظم اور غزل دونوں ہی اس ہنر سے آراستہ اور تابندہ ہیں۔ ترقی پسند ہونے کے باوجود وہ گھن گھرج جو ترقی پسند شعراء کی شناخت ہے ابنِ انشا نے اس سے الگ اپنی راہ نکالی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر دیگر ترقی پسند شعراء کی بہ نسبت دھیما لہجہ رکھا۔ اپنی موضوعاتی اور انقلابی شاعری کے ضمن میں ابنِ انشا اپنا نظریہ شعری یوں بیان کرتے ہیں کہ ”اپنے موضوعات کے اعتبار سے یہ نظمیں تبلیغی نہیں بلکہ ذاتی ہیں اور محمد حسن عسکری کے الفاظ میں یہ نظمیں میں نے اپنے اعصاب سے پوچھ کر لکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض جگہ ان میں تذبذب یا تشائم راہ پاگئے ہیں۔ میں بڑی آسانی سے ان کے انجامیے لوگوں کے حسبِ د ل خواہ رکھ سکتا تھا لیکن پھر وہ اوروں کی نظمیں ہوتیں، میرے جذبات اور میری کمزوریوں کی ترجمان نہیں رہتیں۔“

    ”چاند“ انشا جی کی شاعری کا استعارہ ہے جس کو انشا جی نے اس حسن و خوبی سے اپنے کلام میں برتا ہے کہ چاند کو چار چاند لگا دیے۔ چاند نگر کا یہ باسی، اس بستی کے ایک کوچے کا مکیں، دلِ وحشی کا ہمسفر، اپنی طرز کا منفرد شاعر ہے۔ ابنِ انشا کی شاعرانہ ہنر مندی اگر آپ کی مختصر نظموں میں اپنا رنگ جماتی ہے تو طویل نظموں میں بھی خود کو منواتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی”انشا جی کی طویل نظمیں اُردو شاعری کا نیا باب ہیں“ بلا شبہ بغداد کی ایک رات، دیوارِ گریہ، یہ بچہ کس کا بچہ ہے، ڈاکٹر کشفی کے قول کی دلیل ہیں۔

    اور جوگی انشا جی بھی تو ایک مسافر تھے۔ راہِ زیست کے مسافر۔ اچھے بھلے ادبی سرگرمیوں میں مصروف تھے معلوم بھی نہ ہُوا کہ کب سرطان جیسا موذی مرض آپ جیسے حلیم الطبع انسان دوست پر حملہ آور ہو گیا۔ آپ کو معلوم ہو گیا لیکن آپ نے اپنی بیماری کو کسی خزانے کی طرح چھپا کر رکھا۔ 1977ء میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے وہاں بھی اپنی بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے آپ وطنِ عزیز کے ادبی سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 29 نومبر1976ء میں ٹوکیو میں قیام کے دوران آپ نے اپنی طویل نظم”عمر کی نقدی“ کہی۔

    گو کہ اس سے قبل ”انشاجی اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا“ کہہ چکے تھے۔ لیکن ”عمر کی نقدی“ الہامی کیفیت میں تخلیق کی جانے والی نظم محسوس ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ابنِ انشا نے بیماری منکشف ہونے کے بعد خود کو زندگی سے دور ہوتا محسوس کیا ہو جب ہی تو آپ نے کہا:

    اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
    اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
    ہے کوئی جو ساہوکار بنے
    ہے کوئی جو دیون ہار بنے

    11 جنوری 1978ء میں محض اکیاون برس کی عمر میں انشاؔ نام کا دیوانہ جب حقیقت میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔

    بے حد روشن اور شرارتی آنکھوں والے انشا جی کی آنکھیں بند ہوئیں تو آپ کے قریبی دوست قتیلؔ شفائی نے اپنے مشترکہ دوستوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:

    تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی ایک بات ہماری بھی مانو
    کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
    نہیں صرف قتیلؔ کی بات یہاں کہیں ساحر ؔہے کہیں عالی ؔہے
    تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاؔ جی

    لیکن جانے والا اپنی عمر کی میعاد پوری کر کے چلا گیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ

    یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
    یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں

    بعد از مرگ انہیں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ ابنِ انشا کا کام اور نام قارئینِ ادب کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہے گا۔

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • روبی میئر: ٹیلیفون آپریٹر جو ‘سپنوں کی رانی‘ مشہور ہوئی!

    تقسیمِ سے قبل ہندوستان میں‌ کئی غیر ملکی خاندان اور یہودی آباد تھے جن کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں‌ اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو اپنایا۔ انہی میں سے بعض نے تھیٹر اور فلم کی دنیا میں قدم رکھا اور نام پیدا کیا۔ روبی میئر بھی ان میں‌ سے ایک تھی۔

    کلکتہ اور بمبئی اس زمانے میں فلم سازی کے بڑے مراکز تھے۔ پنجاب کا شہر لاہور بھی فلم ساز اداروں اور باصلاحیت فن کاروں‌ کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں‌ کا فلموں‌ میں‌ کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان، ہندو اور سکھ گھرانوں کی لڑکیوں کے لیے بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ تھیٹر اور خاموش فلموں کے ابتدائی دور میں تو مرد فن کار ہی عورت کا کردار بھی نبھاتے تھے۔ اس وقت تھیٹر اور فلم ساز اداروں‌ نے غیرمقامی لڑکے اور لڑکیوں کو آزمایا اور اپنی فلموں‌ میں ہیروئن اور ہر قسم کے کردار آفر کیے۔

    روبی میئر بغداد کے ایک یہودی خاندان کی اولاد تھی جس نے پونے میں آنکھ کھولی، جو ان دنوں بمبئی پریزیڈنسی کا حصّہ ہوا کرتا تھا۔ روبی میئر کا سنہ پیدائش 1907ء تھا۔

    اس دور کے معروف فلم ساز ادارے کوہِ نور کے مالک نے نوجوان روبی میئر کو اپنی فلم میں ایک کردار آفر کیا۔ وہ اس یہودی لڑکی کی خوب صورتی سے متأثر ہوگئے تھے۔ اداکارہ بننے سے قبل یہودی نژاد روبی میئر ایک ادارے میں‌ ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر کام کررہی تھی۔ فلم ساز ادارے کے مالک کا نام موہن بھاونانی تھا جنھیں اس لڑکی کو فلم کی آفر کرنے کے بعد انکار سننا پڑا۔ روبی میئر ایک ایسے خاندان کی فرد تھی جو اب ہندوستانی تھا۔ اسے یہاں کے ماحول اور لوگوں کے مزاج کا بخوبی علم تھا اور اسی لیے وہ جھجک رہی تھی۔ لیکن بھاونانی نے اسے سوچنے کی مہلت دی اور اپنی کوشش جاری رکھی۔ ان کا اصرار رنگ لایا اور روبی میئر نے اداکاری کے لیے ہامی بھر لی جب کہ وہ اس فن سے قطعی ناواقف تھی۔ اِسے سلوچنا کے نام سے خاموش فلم میں متعارف کروایا گیا۔ یہ تیس کی دہائی تھی اور بعد کے برسوں‌ میں‌ روبی میئر سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ہندوستانی اداکارہ بنی۔

    1925ء میں‌ فلم ویر بالا کی کام یابی کے ساتھ ہی روبی میئر کی شہرت اور مقبولیت بھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پھر وہ ٹائپسٹ گرل، علی بابا چالیس چور، وائلڈ کیٹ آف بامبے، انار کلی اور متعدد فلموں میں نظر آئی اور بطور اداکارہ یہ دہائی اس کے کیریئر کا بامِ عروج ثابت ہوئی۔ اس زمانے میں ایک فلم بھی اسی اداکارہ کے فلمی نام سلوچنا پر بنائی گئی تھی۔ یہ سب خاموش فلمیں‌ تھیں‌ جو کام یاب ثابت ہوئیں۔

    ان فلموں نے روبی میئر کو ہندوستان بھر میں ‘رومانس کی ملکہ‘ اور ‘سپنوں کی رانی‘ کے نام سے مشہور کردیا۔ اداکارہ نے راتوں رات شہرت ہی نہیں‌ دولت بھی خوب سمیٹی۔ وہ اس دور میں‌ شیورلٹ کار کی مالک تھی اور اپنی کار خود چلایا کرتی تھی۔ قسمت کی دیوی نے اس اداکارہ سے منہ تو نہیں‌ موڑا، لیکن جب بولتی فلموں کا دور آیا تو روبی میئر کی ایک کم زوری اس کے کیریئر کی راہ میں‌ رکاوٹ بن گئی۔ وہ اچھی ہندی اور اردو نہیں بول سکتی تھی۔

    اداکارہ نے ایک برس کے لیے فلمی دنیا سے دوری اختیار کی اور اس عرصہ میں‌ زبان سیکھنے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ فلم نگری کی طرف لوٹی اور 1930ء کے وسط میں روبی پکس کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی شروع کر دیا۔ اس کے تحت روبی میئر نے اپنی خاموش فلموں کو ناطق فلموں کا روپ دیا اور کام یاب رہی۔ اس دور کی کام یاب فلم تھی انار کلی جو تین بار بنائی گئی۔ پہلی بار غیرناطق فلم میں انار کلی کے روپ میں‌ روبی میئر ہی نے شان دار کام کیا تھا اور دوسری مرتبہ یہ بولتی فلم تھی جس میں اس نے پھر انارکلی کا کردار ادا کیا، لیکن آخری مرتبہ اس نے فلم انار کلی میں جودھا کا رول اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اس کی کام یابی کا سلسلہ جاری تھا، لیکن کئی نئے اور باصلاحیت چہرے فلم انڈسٹری میں قدم رکھ چکے تھے اور ان کی وجہ سے روبی میئر کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ اسے ناطق فلموں میں‌ سائیڈ رول آفر ہونے لگے۔

    روبی میئر کے زمانۂ عروج میں‌ چند افیئر بھی منظرِ عام پر آئے اور اداکارہ کی شاہ خرچیوں‌ کا بھی چرچا ہوا۔ معمولی تنخواہ پر ایک ٹیلیفون آپریٹر کی حیثیت سے کام کرنے والی اس یہودی لڑکی نے بھرپور زندگی گزاری اور خوب عیش کیے۔

    بھارتی حکومت نے روبی میئر المعروف سلوچنا کو 1973ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا تھا۔ 1978ء میں‌ اداکارہ نے فلم کھٹّا میٹھا میں‌ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ اس وقت تک سلوچنا ماضی کی ہیروئن بن چکی تھی۔

    10 اکتوبر 1983ء کو ممبئی میں‌ مقیم اس اداکارہ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔

  • ”صرف چھے روپے بھیج دیں!“

    ستمبر 1913 میں ”الہلال“ سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی تھی جو نومبر 1914 میں ضبط کر لی گئی۔

    اس زمانے میں عام طریقہ یہ تھا کہ دو ہزار کی ضمانت ضبط کر لینے کے بعد 10 ہزار کی ضمانت مانگی جاتی تھی، چناں چہ ”الہلال“ سے بھی مانگی گئی۔ یہ ضمانت بھی شاید داخل کر دی جاتی، مگر چوں کہ اس کے بھی ضبط ہو جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے ضمانت داخل کرنے کے بہ جائے ”الہلال“ بند کر کے دوسرا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ نیا اخبار ”البلاغ“ کے نام سے جاری ہوا جس کا پہلا نمبر 12 نومبر 1915 کو شایع ہوا۔

    اس میں‌ مولانا ابوالکلام آزاد کا قارئین کے نام خط بھی شایع ہوا تھا جس کا متن باذوق قارئین کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
    یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کی خدمات کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دیے ہیں اور انہیں مقبول و محبوب بنا دیا ہے۔ اگر ”الہلال“ نے اپنی زندگی کے لیے دستِ سوال پھیلانا جائز سمجھا ہوتا تو 10، 20 ہزار کی فراہمی میں دو چار دن سے زیادہ مدت نہ لگتی، لیکن اس نے اسے پسند نہ کیا اور یہ تمام امر تمام بزرگوں پر روشن ہے۔

    ”الہلال“ کے دوبارہ جاری کرنے کے لیے اب تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور صرف روپے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے، اس لیے صرف اتنی تکلیف خریدارانِ ”الہلال“ کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ چھے ماہ کی قیمت پیشگی مرحمت فرمائیں۔ جو دفتر ”الہلال“ کے ذمے ان کا قرضِ حسنہ ہوگا اور جسے خریداری کے حساب میں مجرا کیا جائے گا۔ ”الہلال“ کی شش ماہی قیمت اصل چھے روپے بارہ آنے ہے، لیکن وہ صرف چھے روپے بھیج دیں۔

    بعض خریداروں کی قیمت ختم ہونے کے قریب ہے، بعضوں کا سال شروع ہوا ہے، لیکن یہ درخواست تمام خریداروں سے ہے۔ انہیں اپنے حساب کا خیال نہ کرنا چاہیے، جس وقت ان کی پچھلی قیمت ختم ہو جائے گی، اس کے بعد ہی اس رقم کو ان کے حساب میں جمع کر لیا جائے گا، قیمت انہیں بہرحال آیندہ دینی ہی ہے۔ ”الہلال“ صرف اتنی ہی اعانت اپنے وسیع حلقۂ معاونین سے چاہتا ہے، اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس موقعے پر دفتر کو روپے کی دقت کا سامنا نہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے مشکلات رہا ہے۔ اگر اس تحریر کو دیکھتے ہی روپیا آپ نے روانہ کر دیا تو ہفتے کے اندر ”الہلال“ شایع ہو جائے گا۔

    دوسری درخواست نئے خریداروں سے پیشگی قیمت بھجوانے کی ہے، جس سے بہتر، جائز طریقہ پریس کی اعانت کا اور کوئی نہیں۔

    فقیرابوالکلام
    14۔ میکلوڈ اسٹریٹ، کلکتہ

    (مکاتیبِ ابوالکلام آزاد، جلد اوّل سے لیا گیا، جو ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی جمع و مرتب کردہ کتاب کا حصّہ ہے)

  • جب کراچی کی دیواریں کسی ”ظِلُّ اللہ“ کو پکارتی نظر آئیں!

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسکندر مرزا کے دور میں ایک سنسنی خیز اور ڈرامائی باب اُس وقت رقم ہوا تھا، جب اپنے سیاسی مستقبل کی خاطر ان کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اسکندر مرزا متحدہ مملکت میں مختلف اعلیٰ عہدوں اور منصب پر فائز رہے اور 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے سیاسی بحران کی آڑ لے ملک کو پہلے مارشل لا کی طرف دھکیلا اور 1958ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردیا۔ اسکندر مرزا کبھی وطن واپس نہ آسکے اور لندن میں عمر تمام کی۔

    کہتے ہیں اپنے دور میں اسکندر مرزا خود کو اس قدر مضبوط کر چکے تھے کہ سیاست داں، نواب اور عمائدین سمیت بڑے لوگ ان کی نظرِ کرم کے خواہاں‌ رہتے، لیکن پھر حالات بدلے اور وہ اپنے ہی جال میں پھنس گئے۔

    یہاں‌ ہم مولوی محمد سعید کی خود نوشت آہنگِ بازگشت سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جس سے اسکندر مرزا کے ہوسِ اقتدار اور اس وقت کے سیاسی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مشرقی بازو کے سیاست دان یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزِ حکومت کے تحت کر دیا جائے۔”

    "الطاف نے ”تصورِ عظیم“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے مؤیَّد جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہو گئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔”

    "چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابلِ داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔ انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔”

    "یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ”ظِلُّ اللہ“ کی منتظر ہے۔”

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • جب عبیداللہ سندھیؒ کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تقاریر، خطبات اور مکتوبات کو مصنّفین اور تذکرہ نویسوں نے مختلف کتابوں میں محفوظ کیا ہے جن میں سے بعض‌ اس زمانے کے سیاسی، سماجی حالات اور مذہبی پس منظر میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مولانا سندھی کی ایک تقریر کو اپنی کتاب (مجموعہ مکاتیب) میں نقل کیا تھا، اس تقریر کے متن میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم 24 برس کی جلاوطنی کے بعد 1939ء میں کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اس سے خطاب کیا تھا۔ ان کی یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا صحیح ترین متن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

    عزیزانِ گرامی!
    1915ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھیے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے افکار وقفِ عام ہیں۔ اب میں چراغِ سحری ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس پیغام کو ہندوستان کے نوجوانوں تک پہنچا دوں۔ اگر یہی حالات رہے تو مجھے خطرہ ہے کہ بنگال تقسیم ہو جائے گا۔ پہلے پہل اس انقلاب کی لپیٹ میں افغانستان آئے گا۔

    میں انقلاب کا پیامبر بن کر ہندوستان لوٹا ہوں۔ وہ دن دور نہیں کہ برطانیہ اور امریکہ والوں کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس انقلاب کو قیامت سے کم نہ سمجھیے۔ میں نے بڑے بڑے علما کو، بڑے بڑے افراد کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا ہے، غیرتوں کو لٹتے دیکھا ہے۔ یہ عالم گیر انقلاب ہے۔ ایک نہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ دیوارِ چین ہو یا سدِ سکندری، یہ سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفانِ نوح سے دوچار ہوا چاہتی ہے۔ بادل گھر چکے ہیں، گھٹائیں برسنے کو ہیں۔ لیکن ہمارے علما ہیں کہ ان کی نظریں کتابوں تک محدود ہیں، وہ باہر کی دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاست دان بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں جو ان کے اغراض و مصالح پر مبنی ہوتی ہیں۔ عوام کو انتہائی نچلے درجے پر رکھ چھوڑا ہے۔

    قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، تورات حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور تورات کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں! اب انقلاب کی گھڑی سر پر آپہنچی ہے۔ سن لو اور سنبھل جاؤ! ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔

    اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کل ایک طبقہ قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ کسان اور مزدور جو کماتے تھے ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا، اور جو طبقہ ان کی کمائی پر رہتا وہ کمانا ذلّت کا نشان سمجھتا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کماؤ طبقے پسماندہ ہوتے چلے گئے اور کھاؤ طبقے اخلاق سے گرتے گئے۔ اگر برکتیں پھیلتیں تو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے محلوں میں۔ ذہنوں کو جلا ہوتی تو ان کے ذہنوں کو ہوتی۔ زمانہ مدتوں اسی طرح چلتا رہا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ آگے چل کر مشینی دور آتا ہے۔ مزدوروں نے مشینوں پر قبضہ کر لیا، جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا۔ آج ان کا نعرہ ہے: ’’مزدور اور کسانو، اٹھو! یہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات تمہاری کمائی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے ہیں۔ ان کے مالک تم ہو۔ اٹھو اور ان پر قبضہ کر لو۔ اور جو آڑے آئے اسے مٹا دو!‘‘

    مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیر خواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔ بخارا کے اندر ایک ایک مدرسہ عربی کی یونیورسٹی تھا۔ ترکی کی جو سیاسی طاقت ہے، آپ کے ملک کی وہ سیاسی طاقت نہیں۔ جس انقلاب کے سامنے بخارا کی مذہبیت نہ ٹھہری، ترکی کی سیاست نہ ٹھہری، اس کے سامنے تم اور تمہاری یہ مسجدیں اور مدرسے کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ جب غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو وہ امیر کے محل کو بھی پیوستِ زمین کر کے جاتا ہے۔ انقلاب آتا ہے تو نہ مسجدیں دیکھتا ہے، نہ خانقاہیں، نہ ایوان و محلات، سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

    اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

  • اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر!

    یہ 1986ء کی بات ہے، جب ہمارے اندر علامہ اقبال کے خودی کے اسرار کچھ کھلنے لگے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”نکلے تیری تلاش میں“ اور مختار مسعود کی کتاب ”سفر نصیب“ پڑھنے کے بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے کسی کی تلاش میں۔

    بفضلِ تعالیٰ سفر نصیب ہوا اور ایک لمبی سیاحت حاصل کی۔ سفر کا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ (جرمنی) تھا۔ میرے میزبان بزلہ سنج اسلم صدیقی تھے، انھیں اقبالیات سے خاص لگاؤ تھا۔ ’پی آئی اے‘ میں کار گزاری نے انھیں ایک عالَم کی سیر کرائی تھی، ایک روز وہ مجھے فرینکفرٹ سے ہیڈلبرگ لے گئے۔ ایک پرسکون علاقے میں انھوں نے گاڑی روکی اور مجھے وہاں لے گئے، جو تمام عاشقانِ اقبال کے لیے ایک یادگاری مقام ہے۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ لبِ ساحل ایک بورڈ آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں Iqbal Ufer لکھا ہوا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں 1907ء میں ہیڈلبرگ کے مقام پر علّامہ اقبال زیرِ تعلیم رہے۔ اس بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر ہماری سوچ کا دھارا علّامہ اقبال کی جانب ہو گیا، اسلم کہنے لگے کہ مغربی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اقبال جرمن مفکر نطشے سے بہت متاثر تھے۔ اس نظریے کے ثبوت میں وہ اقبال کے ’مردِ مومن‘ کا نطشے کے ’سپرمین‘ سے موازنہ کرتے ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ اس تصور نے خاص طور پر اس وقت جنم لیا، جب علّامہ اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ منظرِ عام پر آیا۔ مغربی تنقید نگاروں نے یہ ٹھپّا لگا دیا کہ اقبال نطشے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اس سوچ کی تردید میں علّامہ اقبال نے خود ڈاکٹر نکسن کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کچھ تنقید نگار میری تخلیق کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلط بحث کر کے میرے ’مردِ مومن‘ اور جرمن مفکر نطشے کے ’فوق الانسان‘ کو ایک ہی تصور کر بیٹھے۔ میں نے اس سے پہلے انسانِ کامل کے معترفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے، جب کہ نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ ہی اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ سوچ کی مماثلت کبھی بھی کہیں بھی اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔

    علّامہ اقبال نے فارسی ادب اور ثقافت کا بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کی فارسی شاعری ہے۔ اقبال کی مصر، فلسطین، ہسپانیہ، اطالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی سیاحت جن سے اسلامی عظمتیں وابستہ ہیں۔ ان کی طبیعت حرکتی عنصر کو اجاگر کرنے میں ان ممالک کی تاریخ اور سیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ علّامہ اقبال کے کلام اور خیالات اور فلسفے کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا مردِ مومن کون ہے۔ الحمدللہ ہم صاحبِ ایمان کو اس کامل ہستی کو سمجھنے کے لیے کسی نطشے یا زرتشت کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی کامل ہستی تھا، نہ ہوگا۔ ہیڈلبرگ سے واپسی کے بعد میں گویا اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر اپنی سیاحت کرتا رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:
    آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

    اس شعر نے مجھے اندلس کی فضاؤں میں پہنچا دیا، جہاں آج سے صدیوں پہلے طارق بن زیاد نے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔ جہاں کی وادیاں رشک گزار ہیں، جہاں غرناطہ اور قرطبہ ہیں، جہاں اشبیلیہ ہے۔ جہاں الحمرا اور مدینۃُ الزّہرہ ہیں۔ آہ! میری روح شاید ازل سے یہاں آنے کو بے چین تھی، یہاں ایک عظیم قوم کی عظمت کی داستان ہے اور پھر ناعاقبت اندیشی سے زوال کی شرم ناک کہانی ہے۔ یہاں غرناطہ کے عالی شان محلات ہیں۔ اب ان کے در ودیوار کھڑے درسِ عبرت دے رہے ہیں۔ وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا، جب یہاں پتھر پتھر خوشی کے ترانے سناتا تھا۔ اے الحمرا کہاں ہے تیری وہ رعنائی، کہاں گیا تیرا وہ بانکپن۔

    اندلس کی سرزمین پر کتنی دل فریب داستانیں پوشیدہ ہیں، عبدالحلیم شرر کے ناول ”فلورا فلورنڈا“ کو کون بھول سکتا ہے۔ کون جانے تاریخ پھر اپنے آپ کو دُہرائے اور مستقبل عظمتِ رفتہ کی واپسی کا پیمبر بن کر آئے۔ قرطبہ پہنچ کر کون ہے، جسے علاّمہ اقبال کی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ یاد نہ آئے۔ علّامہ کی نظم مسجدِ قرطبہ کا یہ سلسلۂ روز و شب بہت طویل ہے۔ بس آپ کی خدمت میں پہلا اور آخری شعر پیش خدمت ہے؎

    سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
    سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات

    نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

    (ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

  • عینی آپا کا پرس

    قرۃُ العین حیدر اردو ادب میں اپنے فکشن اور افسانہ نگاری کے سبب ممتاز اور بالخصوص ایک ادیبہ کی حیثیت سے انھیں ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی وجہ سے پاک و ہند میں‌ پذیرائی ملی۔ ان کے تخلیقی جوہر نے تاریخ اور تہذیب کو شاہکار بنا دیا ہے

    یہاں ہم اس نام وَر ادیبہ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM) تھی۔

    ’’بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘(دہلی) کے دفتر میں وہ محوِ گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔

    کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ اسٹک بھی لگائی، تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، اب تصویر کھینچیے۔‘‘

    (رؤف خیر، ماہ نامہ ایوانِ اردو 2008ء)