Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • وارن ہیسٹنگز: وہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا!

    پروانۂ تجارت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے کروڑوں لوگوں پر راج کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔ کمپنی نے فوج کی مدد سے ایک قوم کو غلام بنا لیا تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی اور بظاہر اقتدار مقامی حکم رانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر آمدن و محصول سے برطانیہ مستفید ہو رہا تھا۔

    ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں ٹیکس وصول کرنے اور انتظامی معاملات چلانے کا معاہدہ کرنے والے انگریزوں نے خود کو ہندوستان کے عوام کا خیر خواہ اور ان کی فلاح و بہبود کا خواہاں‌ ثابت کرنے کے لیے یہاں سڑکیں، پُل، سرائے تعمیر کروائے، درس گاہیں اور مدارس قائم کیے جہاں عربی بھی سکھائی جاتی تھی، اور ہندوستان کو ریل کا ذریعۂ سفر بھی دیا، لیکن اس ملک کی آزادی ختم ہو چکی تھی اور صوبوں کا انتظام انگریز منتظمین چلا رہے تھے۔

    یہاں ہم وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) جو گورنر جنرل بنگال تھا، کے بارے میں‌ مولوی ذکاءُ اللہ کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ اس انگریز صوبہ دار کے سیاسی تدبّر، فہم و فراست اور بحیثیت منتظم اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سنہ 1773ء سے بدعنوانی کے الزام میں اپنے مواخذے کی کارروائی تک یہ انگریز افسرِ اعلیٰ عوام کو اپنے حُسنِ‌ انتظام کا یقین دلاتے ہوئے انگریزوں کو ان کا محسن بتانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ مؤرخین نے اسے ذہین اور چالاک بھی لکھا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ کو مولوی ذکاءُ‌ اللہ نے سلطنتِ انگلیشیہ کے نام سے مضامین کو بہم کیا ہے۔ وہ مؤرخ اور مترجم مشہور تھے جن کے کئی مضامین یادگار ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
    شاید ہی کوئی دوسرا مدبّر و منتظمِ ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادتِ تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔

    اگر نظرِ انصاف سے دیکھیے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا کہ امورِ خطیر اور معاملاتِ عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنتِ بزرگ اور مملکتِ عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔

    اس کے جانشین جو ہوئے ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔

    اس نے انگریزی صوبوں کے حسنِ انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمعِ افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔

    غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچایا اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

    اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہِ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا اہلِ انگلستان نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں، وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔

    یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیتِ عباد اور معموریٔ بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی، دولت افزائی ایسی ایک بلّی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلّی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتّا بھی موجود تھا، جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

    غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلّی اور کتّا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا تو طفلِ مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہلِ علم اور منتظمانِ ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے، ان میں کوئی اس سے زیادہ صاحبِ لیاقت نہ تھا کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا بلکہ اس کو خود استاد بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا راہ نما تھا اور اس کا راہ نما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

  • بڑے کام کرنے والے ایک بڑے آدمی کا تذکرہ

    شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

    میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

    ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

    آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

    وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔

    (سعدیہ راشد کی گفتگو، انٹرویو سے ماخوذ)

  • کفن کا کپڑا اور پرمٹ!

    صاحب زادہ خورشید احمد ‘اے جی’ بلوچستان تھے۔ ان دنوں لٹھے اور کفن کے کپڑے پر کنٹرول تھا اور یہ باقاعدہ پرمٹ سے ملا کرتا تھا۔

    بلوچستان کے بی ایریا میں کفن کا کپڑا شاہی جرگے کے اراکین اور سرداروں کے ذریعے لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ مسلم لیگ سردار اور نوابی سسٹم کے خلاف تھی۔ اس لیے ہفتہ وار ”خورشید“ اور ہفتہ وار ”الاسلام“ کے صفحات اس سسٹم کے خلاف بھرے رہتے تھے۔ ان دنوں فضل احمد غازی ان دونوں اخباروں کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے ایک خبر شایع کی کہ مری کے علاقے میں ستر، اسّی روپے کے عوض ایک کفن کا کپڑا ملتا ہے (حالاں کہ کفن کے لیے کنٹرول ریٹ بہت ہی کم تھا۔) اور وہاں کے لوگ اتنے غریب تھے کہ کفن نہ ملنے کی وجہ سے اپنے مردوں کو چٹائیوں میں لپیٹ کر دفن کر دیتے تھے۔

    اس اخبار کی اشاعت پر سردار دودا خان بہت مشتعل ہوئے اور گھبرا کر کچھ سرداروں سمیت ’اے جی جی‘ کے پاس شکایت لے کر پہنچے۔ اے جی جی نے فضل احمد غازی کو بلایا اور اس خبر کا ذریعۂ اطلاع اور ثبوت مانگا۔ ظاہر ہے کہ فضل احمد غازی اپنے اخبار کے نامہ نگار کا نام کس طرح بتاتے، جب کہ وہ نامہ نگار اسی سردار کے علاقے کا آدمی تھا۔ اس کی موت یقینی تھی، اگر نام بتا دیا جاتا، کیوں کہ سرداروں کو ان دنوں بہت اختیارات حاصل تھے۔

    فضل احمد غازی نے نامہ نگار کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ’اے جی جی‘ سے کہا کہ میرے پاس صرف ایک ثبوت ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو قبر بتاتا ہوں۔ آپ اسے کھدوائیں، اگر اس میں مردہ چٹائی میں لپٹا ہوا نکل آئے، تو آپ سزا کے طور پر سردار صاحب کو دفن کردیں اور اگر مردہ کفن میں ملبوس نکلے، تو سزا کے طور پر مجھے دفن کر دیں۔ جواب معقول تھا۔ ’اے جی جی‘ جو بہت مشتعل تھے، ٹھنڈے پڑ گئے اور بولے ”کیا تم مجھے مروانا چاہتے ہو، جو قبر کھودنے کے لیے کہہ رہے ہو؟“

    اور اس کے فوراً بعد سردار کی طرف رخ کر کے کہا ”کیا یہ چیلنج قبول ہے؟“ سردار کو تو یقین تھا کہ جس قبر کو کھودا گیا، اس میں سے مردہ چٹائی میں نکلے گا، اس لیے اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ قبر کھدوانے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر ’اے جی جی‘ نے کہا کہ ”تم قبر نہیں کھدوا سکتے، تو میں اسے کس بات پر سزا دوں۔ کیوں کہ اس کا ثبوت تو قبر میں ہے۔“

    (کمال الدین احمد، تصنیف ”صحافت وادیٔ بولان میں، سے اقتباس)

  • 2022: علم و ادب سے متعلق سرگرمیوں کا احوال اور اہلِ قلم کا تذکرہ

    اس سال علم و ادب کی دنیا میں جہاں کتابوں کی اشاعت، تقاریب کا سلسلہ جاری رہا وہیں ادبی میلے بھی سجائے گئے، اور اہلِ قلم نے متاثر کن تخلیقات پر ایوارڈ اپنے نام کرکے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔

    آئیے، دنیا بھر میں زبان و ادب کے فروغ کی کاوشوں اور اہلِ قلم کی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ادب کا نوبیل انعام
    شروع کرتے ہیں ادب کے نوبیل انعام سے جس کی فاتح کا نام 6 اکتوبر کو سامنے آیا۔ اس سال نوبیل کی قطار میں کینیا کے نگوگی وا تھیونگو، کینیڈا کی شاعرہ این کارسن، فرانس کے مائیکل ہولی بیک شامل تھے، اس ادیب نے 1998 کے اپنے ناول ‘ایٹمائزڈ’ پر عالمی سطح پر پہچان حاصل کی تھی۔ اسی فہرست میں فرانسیسی مصنفہ اینی ارنو (Annie Ernaux) بھی شامل تھیں۔ وہ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے طفیل نوبیل انعام کی دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔ یہ وہ سوانحی تصنیف ہے جس میں خاتون کی حیثیت سے اینی ارنو نے سماجی عدم مساوات کی جھلک پیش کی ہے۔ اکیڈمی نے انھیں نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا اور ان کی کتاب ’’جرات اور کلینیکل تیز رفتاری‘‘ کو سراہا۔ اس سال کی نوبیل انعام یافتہ اینی ارنو کی عمر 82 برس ہے۔

    سویڈش اکیڈمی نے اس انعام کے لیے مصنفہ کے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارنو مسلسل اور مختلف زاویوں سے ایک ایسی زندگی کا جائزہ لیتی ہیں جس میں صنف، زبان اور طبقے کے حوالے سے سخت تفاوت پایا جاتا ہے۔

    وہ 22 ناولوں کی مصنف ہیں۔ ان کے ناول طبقات سماج اور صنف کے ذاتی تجربے پر مبنی ہیں۔ اینی ارنو ادب کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی فرانسیسی خاتون ہیں جنھوں نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:’’میں بہت حیران ہوں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک مصنفہ کے طور پر اس اعزاز سے نوازا جائے گا۔‘‘

    اینی ارنو کا پہلا ناول’’لیس آرموائرس وائڈز‘‘1974 میں شائع ہواتھا۔ 2008 میں ان کی دنیا بھر میں پہچان جس ناول کے سبب بنی وہ تھا ’’لیس اینیس۔‘‘ 2017 میں اس کا ترجمہ شائع ہوا تھا۔

    ارنو کا ایک ناول سنہ 2000 میں شائع ہوا تھا جس کا نام’ہیپننگ‘ تھا۔ یہ 1960ء کی دہائی میں فرانس میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قراردینے اور اس دوران مصنفہ کے اسقاط حمل کے ایک تجربے پر مبنی ہے۔ اس پر بنائی گئی فلم نے 2021 میں وینس فلمی میلے میں انعام جیتا تھا۔

    شمالی فرانس کے نارمنڈی کے ایک دیہی علاقے میں اینی ارنو نے 1940 میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ایک اسٹور اور کیفے کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں بتایا کہ کس طرح اپنے محنت کش طبقے کے پس منظر کے ساتھ وہ فرانسیسی طبقاتی ںظام کے ضابطوں اور عادات کو اپنانے کے لیے جدوجہد کرتی ہوئی بڑی ہوئیں۔

    فکشن کا بکر پرائز
    فکشن کی دنیا میں ‘بکر پرائز’ ایک معتبر انعام ہے جو رواں برس سری لنکن ادیب کے نام ہوا۔ شیہان کرونا تیلاکا کو ان کے سیاسی طنزیہ ناول بعنوان ’مالی المیدا کے سات چاند‘ پر یہ انعام دیا گیا۔ یہ سری لنکا کی طویل خانہ جنگی کے موضوع پر تصنیف کردہ ہے۔

    17 اکتوبر کی شام لندن میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں بکر پرائز وصول کرتے ہوئے مصنف نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا یہ ناول سری لنکا میں بھی پڑھا جائے گا، ”ایک ایسا ملک جو اپنی کہانیوں سے سیکھتا بھی ہے۔‘‘

    یہ ناول سری لنکا میں 1990ء کی دہائی کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے فوٹو گرافر کے بارے میں ہے، جو ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک صبح جاگتا ہے تو مر چکا ہوتا ہے۔ 47 سالہ شیہان کرونا تیلاکا یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے دوسرے سری لنکن ہیں، اس سے پہلے 1992 میں سری لنکن ادیب مائیکل اونداجے کو ان کی تصنیف ‘دی انگلش پیشنٹ’ پر بکر پرائز دیا گیا تھا۔

    بکر پرائز کی جیوری کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کرونا تیلاکا کا یہ ناول ایک ”مابعد الطبیعیاتی تھرلر ہے، جو بعد از حیات کی تاریکی کا اس طرح احاطہ کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف تخلیقی ادب کی مختلف اقسام کی حدود بلکہ زندگی اور موت، جسم اور روح حتیٰ کہ مشرق و مغرب کے درمیان سرحدیں بھی تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔‘‘

    کرونا تیلاکا کی یہ کتاب برطانیہ کے Sort of Books نامی ایک آزاد اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے۔ شیہان کرونا تیلاکا 1975ء میں جنوب مغربی سری لنکا کے شہر گالے میں پیدا ہوئے۔ دارالحکومت کولمبو میں رہتے ہوئے انھوں نے قلم کار کی حیثیت سے کئی بین الاقوامی جرائد اور رسائل کے لیے لکھا۔ انھیں بین الاقوامی سطح پر 2011ء میں ان کے ناول ‘چائنا مین‘ کی وجہ سے شہرت ملی تھی۔

    2022ء میں بکر پرائز کے لیے جن دیگر ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں برطانیہ کے ایلن گارنر، زمبابوے کی نووائلٹ بولاوائیو اور امریکی مصنف پیرسیوال ایویرٹ بھی شامل تھے۔

    بکر پرائز کا سلسلہ 1968ء میں شروع ہوا تھا اور فکشن کا یہ انعام انگریزی زبان میں اس کتاب پر دیا جاتا ہے جو برطانیہ میں شائع ہوئی ہو۔ انعام یافتہ کتاب کے مصنّف کو 50 ہزار پاؤنڈ کی رقم دی جاتی ہے۔

    عالمی بکر پرائز
    اس برس انٹرنیشنل بکر پرائز کی فاتح بھارتی ادیبہ گیتانجلی شری رہیں۔ انھیں ہندی زبان میں لکھے گئے ناول ‘ریت سمادھی‘ پر یہ انعام دیا گیا ہے۔ اس اعزاز کے لیے گیتانجلی شری سمیت پانچ مصنفین کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور وہ سب کی سب خواتین تھیں۔ انٹرنیشنل بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جن کے انگریزی زبان سمیت بین الاقوامی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہوں۔ ‘ریت سمادھی‘ ہندی زبان کا پہلا ناول ہے جس کا ترجمہ ناول کو اس انعام کی تیار کی گئی فہرست تک لے آیا۔ ڈیزی راک ویل وہ مترجم ہیں جنھوں نے ریت سمادھی کو انگریزی میں ‘ٹومب آف سینڈز‘ کے نام سے منتقل کیا۔

    2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔ اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔

    گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی سات سے آٹھ سال تک کی طویل محنت اور مسلسل لگن کا نتیجہ ہے جو ہندی میں پہلی بار 2018 میں سامنے آیا۔ مصنفہ کی شہرت ادبی ہنگاموں سے نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی خاتون کی ہے اور قبل ازیں ان کا ایک ناول مائی کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    ناول ایک 80 سالہ عورت کی کہانی ہے، جو اپنے خاوند کی موت کے بعد زندگی سے بیزار نظر آتی ہے۔ اپنے انٹرویو میں گیتانجلی شری نے کہا، ”ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ”ایسے کسی انسان کی بیزاری نے میرے اندر تجسس بیدار کیا کہ آیا یہ بیزاری کسی نئی وابستگی کا پیش خیمہ تو نہیں۔‘‘ گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی مقامی ثقافت کے مٹتے نقوش کو صفحات میں قید کرنے کی لازوال کوشش ہے جس کی چمک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔

    بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گیتانجلی شری اب تک پانچ ناول اور کئی افسانے تحریر کر چکی ہیں لیکن ادبی منظر نامے پر ان کی بھرپور انٹری ‘مائی‘ سے ہوئی۔ یہ ناول بھی ہندوستان کے مٹتے ہوئے مقامی رنگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک خاموش طبع اور سر جھکا کر جینے والی ایک گھریلو خاتون ہے۔ مائی کے دو بچے سبودھ اور سونینا نئی نسل کا روپ اور روایتی ہندو گھرانے میں بغاوت کی آواز ہیں، جو مائی میں خاندانی بندشوں کے خلاف کوئی شعلہ بیدار نہیں کر سکتیں۔ بشیر عنوان نے ناول کو مائی کے نام سے اردو کے قالب میں اس وقت ڈھالا تھا جب گیتانجلی کو یہ نام و مقام نہیں ملا تھا۔

    پلٹزر پرائز
    فکشن کے پلٹزر پرائز کے لیے جوشوا کوہن کا نام دس مئی 2022ء کو فاتح کے طور پر سامنے آیا تھا۔ اس ایوارڈ کا آغاز 1911 میں انتقال کرنے والے اخبار پبلشر جوزف پلٹزر کی وصیت پر 1917 میں شروع ہوا تھا۔ جوزف پلٹزر نے کولمبیا یونیورسٹی میں جرنلزم اسکول شروع کرنے اور پلٹزر ایوارڈ کے لیے اپنی زندگی میں ہی رقم مختص کر دی تھی۔

    ویمنز پرائز کا تذکرہ
    اس سال ویمنز پرائز کے لیے اپریل میں ناموں کی مختصر فہرست سامنے آئی تھی اور 15 جون کو فکشن کے لیے امریکی مصنف اور فلم ساز کو اس کا حق دار قرار دیا گیا۔ یہ مصنّف کا چوتھا ناول ہے جسے لندن میں‌ منعقدہ تقریب میں‌ ایوارڈ دیا گیا۔

    فرینکفرٹ کا کتب میلہ
    جرمنی کا مشہور کتب میلہ فرینکفرٹ شہر میں 19 اکتوبر سے 23 اکتوبر تک جاری رہا اور اس سال بھی دنیا بھر سے علم و ادب کی ممتاز شخصیات اور معروف ناشروں کی شرکت کے ساتھ میلے کے آخری روز کتابی صنعت کے امن انعام کا اعلان بھی کیا گیا، یہ انعام یوکرین کے ادیب کو دیا گیا۔

    15 ویں عالمی اردو کانفرنس
    کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں اس سال بھی حسبِ روایت علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ کی مختلف جہتوں پر نشستیں برپا ہوئیں اور مذاکرے کے دوران مختلف موضوعات پر اہل علم و فن نے سیر حاصل گفتگو کی۔

    15 ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کراچی میں یکم دسمبر کو ہوا تھا جو چار روز تک جاری رہی۔ حسبِ روایت صدر آرٹس کونسل آف پاکستان احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس کے بعد افتتاحی اجلاس شروع ہوا۔ ملک بھر سے مایہ ناز اہلِ قلم اور فن کار اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ مہمانِ خصوصی وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ تھے۔

    کانفرنس کے پہلے روز ناصر عباس نیّر، ایلکس بیلم (آغا خان یونیورسٹی، لندن) نے مقالے پیش کیے۔ اقبال اور قوم کے موضوع پر سہیل عمر، نعمان الحق نے گفتگو کی۔

    رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو کے عنوان سے‘‘ اردو کا شاہکار ادب کی پڑھنت ضیاء محی الدّین نے کی۔ دوسرے دن اردو کا نظامِ عروض۔ ضروری غیر ضروری کے موضوع پر آفتاب مضطر، ایاز محمود، تسنیم حسن، رخسانہ صبا نے گفتگو کی۔ اکیسویں صدی میں اردو فکشن (ناول، افسانہ، کہانی) پر بات ہوئی تو صدارت اسد محمد خاں اور زاہدہ حنا کر رہے تھے۔ اصغر ندیم سید نے اکیسویں صدی میں اردو ناول کے موضوعات، فرحت پروین نے داستان سے افسانے تک جب کہ اختر رضا سلیمی نے اردو ناول کے اسلوب اور تیکنیک کے تجربات پر بات کی اور اکیسویں صدی کا اردو افسانہ کے عنوان سے حمید شاہد نے اظہار خیال کیا۔ افسانے کا موضوعاتی تنوع اخلاق احمد اور اردو فکشن کے امتیازات پر محمد حفیظ خان نے بات کی۔

    اکیسویں صدی میں تقدیسی ادب پر مذاکرے کی صدارت افتخار عارف اور عالیہ امام کررہے تھے۔ اس میں اکیسویں صدی کی اردو نعت کا اسلوبی جائزہ عزیز احسن نے پیش کیا۔ اکیسویں صدی کی اردو حمد پر فراست رضوی، نعتیہ مسدس کی نئی جہت (خیال آفاقی کے مجموعے ” یا سیدی” کے تناظر میں) پر محمد طاہر قریشی رضوان حسین نے بات کی۔

    کانفرنس کے تیسرے روز اکیسویں صدی میں اردو شاعری کی مختلف اصناف پر بات ہوئی جب کہ بچوں کا ادب بھی ایک اہم موضوع تھا۔ پاکستان۔ تعلیم کی صورتحال کے موضوع پر شرکائے گفتگو سردار علی شاہ، شہناز وزیر علی، انجم ہالائی و دیگر تھے۔ اکیسویں صدی میں فنون کی صورتحال (ریڈیو،تھیٹر، ٹی وی،فلم، موسیقی) کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔

    ااس کانفرنس میں 14 کتابوں کی تقریب رونمائی میں تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی کی کتاب بڑے گھر کی کہانی بھی شامل تھی، نشست میں حامد میر اور سہیل وڑائچ نے بند کمروں کی سیاست پر بات کی۔ پاکستان آج اور کل کے موضوع پر حامد میر نے ملک کی جڑوں میں پوشیدہ مسائل اُجاگر کیے۔

    عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز ادیب شوکت صدیقی کے سو سال، مشتاق احمد یوسفی کی بے باک مزاح نگاری پر بات ہوئی۔ اس مرتبہ کانفرنس کے لیے انگریزی زبان میں دعوت نامہ علمی اور ادبی حلقوں میں تنقید کا باعث بنا تھا جس پر بعد میں توجہ دی گئی تھی اور اسی بات کو اختتامی سیشن کے دوران گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرارداد میں یہ بات شامل کی جانی چاہیے کہ عالمی اردو کانفرنس کا دعوت نامہ اردو میں ہو۔ اختتامی اجلاس کے مہمانِ خصوصی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری تھے۔

    یادِ رفتگاں کے عنوان کے تحت اس کانفرنس کے دوران شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، امداد حسینی، فاروق قیصر (انکل سرگم) کی شخصیت اور فن پر بات ہوئی۔

    کتابوں‌ کی دنیا اور ادبی میلے
    اس سال ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ کا پنجابی ناول ’میں بھناں دِلّی دے کِنگرے‘ منظرِ عام پر آیا جو برطانوی راج کے مخالف اور انقلابی بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی ہے۔ رواں برس کی انٹرنیشنل بکر پرائز کی فاتح گیتانجلی شری کا انعام یافتہ ناول بھی اسی سال اردو میں‌ ترجمہ ہو کر قارئین تک پہنچ گیا۔ معروف براڈ کاسٹر، ادیب اور مترجم انور سن رائے نے اس ناول کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔

    اس سال مئی کے مہینے میں آرٹس کونسل کراچی میں "Conversations with my father” کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی، یہ فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کی کتاب ہے جو رواں برس سامنے آئی۔

    کراچی میں عالمی کتب میلہ 8 دسمبر سے 12 دسمبر تک جاری رہا۔ یہ 17 واں کتب میلہ تھا جو کراچی کی روشن اور توانا شناخت بن چکا ہے، اس میلے میں ہر سال زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عام افراد کے علاوہ علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور نام ور لوگ شریک ہوتے ہیں اور کتاب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے علم و فنون کے فروغ کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ میلے کا مقصد کتب بینی کو فروغ دینا اور اس پلیٹ فارم پر ملکی و غیر ملکی ناشروں اور تقسیم کاروں اکٹھا کرنا بھی ہے۔

    کراچی لٹریچر فیسٹول رواں برس مارچ میں منعقد ہوا۔ یہ چار تا چھے مارچ جاری رہنے والا 13 واں ادبی میلہ تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت تین روزہ میلے میں فن و ادب سے جڑے موضوعات پر اہم مذاکرے ہوئے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے علاوہ کئی اہم شخصیات کراچی لٹریچر فیسٹیول میں نظر آئیں جب کہ غیرملکی مندوبین کی بڑی تعداد بھی اس میلے میں شریک تھی۔

    اس برس نومبر کے وسط میں‌ دو روزہ میلہ ملتان لٹریری فیسٹیول کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا جس میں اہلِ قلم اور اردو زبان و ادب کے پڑھنے والوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

    اسی طرح فیصل آباد آرٹس کونسل میں بھی نواں لٹریری فیسٹیول منعقد ہوا جب کہ کراچی میں‌ ادبی میلے کا چوتھا سلسلہ 26 سے 27 نومبر تک جاری رہا۔ یہ میلہ فریئر ہال میں سجایا گیا تھا۔

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • رشید احمد صدیقی کا گھر اور کنواں

    ’’رشید احمد صدیقی کا گھر سال کے تین سو پینسٹھ دن کھلے گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کیفیت کا اطلاق گھر کے دونوں حصّوں پر ہوتا تھا۔

    کیا مردانہ اور کیا زنانہ۔ آنا جانا لگا رہتا۔ پیدل، سائیکل، تانگہ، موٹر اور گاہے ٹم ٹم۔ رشتہ دار، شاگرد، مداح، احباب، مشاہیر اور بن بلائے مہمان۔

    اسٹاف کالونی میں دور دُور تک کوئی اور گھرانا اتنا خوش معاشرت اور دوست دارانہ نہ تھا۔ یہ بات سنی سنائی نہیں دیکھی بھالی ہے۔ میں ان کا ہم سایہ تھا لیکن یہ مضمون ہم سائیگی کے مشاہدات اور تجربات کے بارے میں نہیں ہے۔

    رشید احمد صدیقی کا گھر ایک اور اعتبار سے دوسرے تمام گھروں سے مختلف تھا۔ ان کے قطعۂ زمین کے مغربی جانب کنارے پر ایک بڑا سا کنواں تھا۔ رشید صاحب نے مکان کی دیوار میں خم دیا اور کنوئیں کو گھر میں شامل کرنے کی بجائے چار دیواری سے باہر رہنے دیا تاکہ لوگ آزادی سے اس کا پانی استعمال کر سکیں۔ نہ منڈیر پر تختی لگی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، نہ کنویں پر کہیں لکھا تھا کہ آبی ذخیرہ کے جملہ حقوق بحق مصنفِ خنداں محفوظ۔ اس نیک کام کی ہر ایک نے دل کھول کر داد دی۔

    عنایت علی خان نے جن کا پلاٹ حاجی صاحب اور صدیقی صاحب کے گھروں کے درمیان تھا مکان بنانے کے منصوبے کو مؤخر کیا۔ کاشت کاری اور چاہی آب پاشی کا تجربہ شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قطعۂ زمین پالیز میں بدل گیا۔ عنایت علی خان کے کھیت کے خربوزے اور تربوز خوش ذائقہ اور خوش رنگ تھے۔ رشید صاحب کے کنوئیں کے پانی کی تاثیر ہی کچھ ایسی تھی۔

    یہ ایک بڑا سا کنواں تھا۔ چمڑے کا بہت بڑا ڈول ڈالتے جو چرس کہلاتا۔ بیلوں کی جوڑی اس کا موٹا اور مضبوط رسہ کھینچتی ہوئی ڈھلان میں اُتر جاتی۔ بیل کھڈ کے آخری سرے تک پہنچتے اور چرس مینڈھ تک آ جاتا۔ ایک صحت مند آدمی جسے بارا کہتے پہلوانی گرفت سے پانی بھرے چرس کو اپنی طرف کھینچتا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر کنارے کی بلندی سے کنوئیں کی گہرائی میں گرتا۔ چھن چھن چھناک کی آواز بلند ہوتی۔ باقی پانی پختہ اینٹوں کے فرش سے سیلابی ریلے کی طرف بہتا ہوا کھالے میں جا پہنچتا جو اسے رشید احمد صدیقی کے گلابوں اور عنایت علی خان کے خربوزوں تک لے جاتا۔

    ایک رات مَیں کوئی آدھ گھنٹہ تک اس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔ رات ان دنوں مغرب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ روشنیوں سے ہار مان کر آدھی رات سے پہلے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ تاریکی اور خاموشی میں ایک ترنم گونجا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ آواز کی کشش نے مجبور کیا اور میں کشاں کشاں اس کنوئیں پر جا پہنچا۔ آواز دیوار کے اس پار رشید صاحب کے مردانہ صحن سے آرہی تھی۔ جگر مراد آبادی اپنے وجد آور ترنم سے غزل سنا رہے تھے۔

    میں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ شروع گرمیوں کی ٹھنڈی رات۔ گئی بہار کی بچی بچائی خوشبو لیے آہستہ آہستہ چلنے والی پُروا۔ مطلع بالکل صاف۔ نہ بادل کا ٹکڑا، نہ گرد و غبار، نہ چمنی چولھے کا دھواں۔ فضا میں صرف غزل کے مصرعے تیر رہے تھے۔ سوچ کے پَر کھل گئے۔‘‘

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس، رشید احمد صدیقی اردو کے معروف مزاح نگار اور ادیب تھے)

  • دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    ”دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔

    کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد…! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچّہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک ’ڈائن ماں‘ بن گئی تھی وہ ’ڈائن‘ ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔

    اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہو کر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں…

    میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہو گیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرا دیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔

    میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔ یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ”میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتار دو۔“ مگر وہ ہنس کر بولے ”مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔“ تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔

    تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز ’چوڑی والاں‘ میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرا دو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔ اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ”یہ رہا مسلمان“ کہہ کر ان کی طرف جھپٹے۔

    سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔ قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو باؤلی سے لے آؤ۔

    رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہو کر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔ ہمّت کر کے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ”وہ تمھارا کون تھا؟“ انھوں نے بتایا ”بھائی۔“ سکھوں نے کہا ”لاش اندر ہو گی، جا کر اندر پہچان لو۔“ یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔

    بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔ جب رو دھو کر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلّی، دلاسا دیا اور بولا ”میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبراؤ مت سب انتظام ہو جائے گا۔“ اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔

    سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچّوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔

    (’دلّی کی بپتا‘ از شاہد احمد دہلوی سے انتخاب)

  • دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔ اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ”پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی“ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔

    یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بُن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔ ہجومِ کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظرِ ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سو ہو کر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

    مسوّدے پر نظرِ ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہو گیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھانٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”زر گزشت“ سے ماخوذ)

  • زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    1951ء میں راول پنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے، تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955ء تک رہا۔ یہیں سے فیض کی حقیقی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔

    سجاد ظہیر نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ہیں ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوں سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ فیض جب بھی کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر اس خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کے نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے یقیناً پہنچ جاتی تھیں، جنہیں پاکستان و بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔

    جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ان کے اوّلین مجموعۂ کلام ’نقشِ فریادی‘ کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔

    لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا تھا جس کے علاج کے لیے انہیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک لے جایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ کیا جا سکا، تو انہیں تانگے میں سوار کرا کے لے جایا گیا۔ ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔

    اس روز کا قصہ خود فیض کی زبانی سنیے:
    ”ہم لاہور کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ لاہور ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ پھر لوگوں نے ہمیں پہچان لیا۔ بازار میں ہمارا تانگہ کھڑا تھا اور اس کے اردگرد یارانِ وفا کا ہجوم۔ ان میں نان بائیوں سے لے کر معروف صحافیوں تک سبھی شامل تھے۔ بالکل جلوس کی شکل بن گئی۔

    میں نے زندگی میں ایسا دل کش جلوس نہیں دیکھا۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ نظم لکھی؎

    آج بازار میں پا بہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
    خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو، راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

    (رام لعل کی تصنیف ”دریچوں میں رکھے چراغ“ سے‌ انتخاب)

  • فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    چندر گپت موریہ نے ہزار ہا سال پہلے خطّۂ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ محققین نے قبلِ مسیح کے تہذیبی آثار اور مخطوطات کا جائزہ اور عمیق نظری سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے ایک مضبوط نظامِ حکومت کی حامل ترقّی یافتہ سلطنت کہا ہے۔

    اس زمانے میں یونان کا میگستھنیز نامی ایک سفیر وہاں آیا اور اس نے ہندوستانی تہذیب پر اپنی ایک تصنیف انڈیکا کے نام سے چھوڑی ہے۔ اس کے بعد چین کے فاہیان اور ہیون سانگ نامی سیّاحوں کے سفر ناموں سے بھی قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔

    قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا کو چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندرِاعظم کے حملے کی تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں۔

    یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان، ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابنِ بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چندر گپت کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو فاہیان ژوان (Fahein Zuhan) میں درج کیا ہے جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔

    اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بقول فاہیان: ”ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے ہیں اور عمّالِ سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظر نہیں آتا۔قانون نرم اور حصولِ انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (بحوالہ:‌ اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، 1989)

    چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کیا ہے:
    ” گندے لوگوں، کوڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتے ہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
    (بحوالہ: ہمارا قدیم سماج، سیّد سخی حسن نقوی)

    ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہرش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوؤں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی (Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومتِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوب صورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجاؤں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔

    ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھا جو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔

    ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھید بھاؤ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو باآوازِ بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔

    ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیرِ تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومتِ وقت اور دو سو گاؤں مل کر برداشت کرتے تھے۔

    اس نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازع خطّہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کونسل کی تمام کارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی۔

    بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر:
    “آج تک یہ شان دار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پُر نور صحیفہ اور پُراسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محوِ آرام ہے جیسے کسی محرمِ راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلابِ نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدّین)

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو بدھ مت کا پیروکار اور ایک مصلح تھا، اس نے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے ہندوستان کا سفر کیا جو آج کے دور میں‌ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی سرحدوں میں آثار اور کھنڈرات کی صورت موجود ہیں یا ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

    فاہیان کا یہ سفر قدیم دور کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل کسی بھی عالم اور مصنّف کا نشان اور ذکر نہیں‌ ملتا جو چین سے ہندوستان آیا ہو، محققین کا خیال ہے کہ فاہیان 399ء سے 412ء تک ہندوستان میں رہا۔

    (شیخ ظہورعالم کے مضمون سے ماخوذ)