Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔

    میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے۔ میرے آئیڈیل، وہ مکمل ایک شخصیت تھے۔

    بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی، حالاں کہ میں شروع سے ان سے بہت ڈرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی، جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا۔ میری امی نے بھی نہیں، لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں، جو ابا جان کے معیار عمل سے گری ہوئی ہو۔ میرے قول و عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں!

    مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ احساس بچپن کے بالکل ابتدائی زمانے سے میرے لاشعور میں جاگزیں تھا اور جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی یہ احساس شعوری طور پر بڑھتا گیا۔

    ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں عمل کر کے دکھایا کرتا ہوں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور تمام قدریں جو انہیں عزیز تھیں اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انہوں نے مجھے سب سکھا دیا۔

    ان کا انداز یہ تھا کہ بس اب ساتھ ہیں تو انسان سیکھتا جائے۔ ہم ساتھ رہتے تھے۔ میرا خیال ہے سونے کے لیے بس چند گھنٹے ہی تھے، جس میں ہم الگ ہوتے تھے، ورنہ مستقل ساتھ ساتھ رہتے، حتیٰ کہ جب کسی پروگرام میں جاتے، تو ساتھ ہوتے کوئی استقبالیہ ہوتا، دفتر جا رہے ہیں، دفتری معاملات ہیں، ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وقت تو وہ اپنا بالکل بھی ضایع نہیں کرتے تھے۔ راستے میں بھی ضروری کاغذات دیکھتے جاتے۔ ہم ان کاغذات کے حوالے سے بھی بات کر لیتے۔

    گورنری کے زمانے میں بھی وہ ہماری تربیت کرتے رہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی غلط احساس ہو۔ ہم کسی ’کمپلیکس‘ میں مبتلا ہوں۔ ہم نے گورنر ہاؤس تو پوری طرح دیکھا بھی نہیں۔ گورنر ہاؤس کی گاڑی تو وہ خود بہت کم استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے اکانومی کلاس میں آگے کی دو سیٹیں جو فرسٹ کلاس کیبن کے فوراً بعد تھیں، ہمیں دی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے جو فرسٹ کلاس میں میزبانی کر رہی تھی، دیکھا کہ گورنر صاحب بیٹھے ہیں، تو اورنج جوس لے کر ہماری طرف آئی اور ابا جان کو پیش کیا، انھوں نے نہیں لیا۔ جب انھوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو میں نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔

    مجھے معلوم تھا کہ ابا جان نے جوس کیوں نہیں لیا ہے اور یہ وہ سمجھ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ایئرہوسٹس چلی گئی، تو انھوں نے مجھ سے کہا، تمہیں پتا ہے، میں نے جوس کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے تھا، کہنے لگے ہاں، ہم اس کے مسافر نہیں ہیں، اس لیے اس پر تو ہمارا حق نہیں تھا۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تھے کہ ہماری تربیت ہو اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ ورنہ کیا تھا جوس وہ بھی پی لیتے اور میں بھی پی لیتی۔

    (از قلم سعدیہ راشد)

  • ’اکثریت‘ کی قیمت!

    ’اکثریت‘ کی قیمت!

    اخباری کانفرنس میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں حصہ حاصل کیے بغیر اقتدار منتقل پر رضا مند نہیں ہوں گے اور یہ کہ حصہ وہ اپنی پارٹی کی حیثیت سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔

    مغربی پاکستان میں اپنی اکثریت کی قیمت جو انھوں نے لگائی تھی، وہ بہت بھاری تھی، ان کو بھی اندازہ تھا، لیکن وہ یہ قیمت زبردستی وصول کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ اپنی جمہوریت نوازی بھی داؤ پر لگانے کو تیار تھے۔ غالباً فوج بھی ان سے یہی کام لینا چاہتی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کو فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک موقعے پر یہ تک کہہ دیا کہ اگر مجیب صاحب اقتدار میں شراکت کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ”اُدھر تم، اِدھر ہم۔“

    نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ ”جو سیاست داں (قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے) مشرقی پاکستان جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔“ یہ وہ باتیں تھیں جو ان جیسے جمہوریت پسندی کے دعوے دار کو زیب نہیں دیتیں، لیکن اقتدار کی ہوَس اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیتی ہے اور وہ وقتی فائدے پر مستقبل کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی اندھے پن سے کام لیا اور بہ جائے اس کے کہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اس موقعے پر جمہوریت کو مضبوط کرتے، اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کا یہ دوسرا اہم موقع تھا، جو ضایع کر دیا گیا۔

    پہلا موقع 1956ء میں آیا تھا، جب ملک کا پہلا آئین منظور ہوا تھا اور اس کے تحت انتخاب کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے پہلے مارشل لا کے نفاذ نے تباہ کر دیا۔ دوسرا موقع یہ تھا جب جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے اور کام یاب ہونے والی پارٹیوں کو عوام نے ان کے منشور سے متاثر ہو کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔

    (علی احمد خاں کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”جیون ایک کہانی“ سے انتخاب)

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔

    وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہر سمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظر آئیں گے۔ آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اور بھوتوں کے خوف ناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ میں ادھر ادھر اڑتی ہوئی بدروحیں اور پچھل پائیاں۔منھ سے آگ اگلنے والے اژدہے اور انہیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔ غرض روایت نے غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔

    1940ء: جب چار لڑکوں نے زمین پر ایک حیرت انگیز مقام دریافت کیا

    وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیو نے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہوگیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی تھی اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرنے کے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

    مگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی 25، 30 لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائشِ نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے، اور اس طرح تسخیر قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔

    یہ غار اس کے اوّلین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پُراسرار تاریکی، وہی پیچ وخم اور امن وعافیت کا وہی احساس۔

    مگر انسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہو گئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباء و اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اوّلین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔

    پھر یوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتّا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلوو اساؤ تولا کتّے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مار سیلوو اساؤ تولا کو آثارِ قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو کھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچّی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ’’تورو، تورو (بیل بیل) ساؤ تولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچا تو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظر نہ آئے تواس نے بچّی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پرایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤتولا نے 1879ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔

    ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنگین بھنسیے اور بیل بنے ہوئے، کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمار کیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی 170 تصویریں تھیں۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثارِ قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ بعضوں نے کہا کہ غریب ساؤتولا نے میڈرڈ کے کسی مصوّر سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اور نہ ماہرینِ فن نے اس غار کو درخورِ اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤتولا خاموش ہو رہا ہو۔

    یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثار قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (ِِSavigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملا تھا۔ اس ٹکڑے پر دو ہرن کندہ تھے۔ کلونی کے عجائب گھر نے 1851ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کر لیا تھا مگر کسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔

    اسی طرح 1833ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ 1852ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہیڈ اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈوارڈ لارتیت کو مسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور 1863ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں اور آلات و اوزار دستیاب ہوئے تھے۔ چنانچہ 1864ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال اس کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔

    یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فن کاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا، مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا سے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے، ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مثلاً 1837ء میں سر جارج گرے نے آسٹریلیا کی سیاحت کے دوران اقلیدسی انداز کی بڑی پراسرار رنگین تصویریں کمبرلے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ 1848ء میں جھیل اورنیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انہی دنوں سٹو (Stowr) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلیدسی انداز کی مصوّری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کر لیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پسماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکتا تھا اور نہ تہذیبِ انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانشوروں کا یہی خیال تھا۔

    ساؤتولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (cheron) نے شیوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انہوں نے کئی سال پیشتر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤتولا کا ہو چکا تھا۔

    انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصوّر غار لاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔

    چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشور ان روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پر بحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔

    مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہو بہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔

    ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فن کار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کر دی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔

    اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصوّر غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں، کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔

    (اقتباس: زندگی کی نقش گری از سید سبط حسن)

  • ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی وہ فلم ہے جس نے بالی وڈ کی تاریخ میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ صرف 1954ء میں‌ اس فلم کے 6 کروڑ سے زائد ٹکٹ خریدے گئے تھے۔ آوارہ کا اسکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا جو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار اور نام ور صحافی تھے۔

    اس فلم کا اپنی اوّلین نمائش کے بعد اس قدر شہرہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں بھی پردے پر سجائی گئی۔ اس کے گانے ہندوستان میں تو مقبول ہوئے ہی جب یہ فلم رومانیہ پہنچی تو وہاں بھی فلم بہت پسند کی گئی اور اس کے گانوں کی دھوم مچ گئی۔ اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

    1951ء اور دہائیوں تک اس فلم کے گانے نوجوانوں کی زبان پر تھے جب کہ رومانیہ میں اس فلم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تیس برس بعد بھی اس کا ایک گیت وہاں کی پاپ سِنگر نے نئے انداز سے گایا۔ اس نے اپنا نام بھی فلم کی اداکارہ نرگس دت سے متاثر ہوکر نرگیتا رکھا تھا۔ اس مغنیہ کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے مدعو کیا اور اس سے یہ گیت سنا۔ انھوں نے نرگیتا کو ایک ساڑھی بھی تحفے میں دی تھی۔ بعد میں 1981 میں اندرا گاندھی نے رومانیہ کا دورہ کیا تو وہاں نرگیتا نے وہی ساڑھی پہن کر حاضرین کے سامنے آوارہ کے گیت پیش کیے تھے۔

    فلم آوارہ کی کہانی میں ایک جج کا بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنی بیوی کو ایک بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اس جج کے بیٹے کو لے کر کسی غریب لوگوں کی بستی میں قیام کرتی ہے، بچّہ وہاں بدمعاش قسم لوگوں اور غنڈوں کے درمیان بڑا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے جج کا بیٹا بھی آوارہ بن جاتا ہے اور ایک روز اپنے باپ کے سامنے آجاتا ہے۔

    یہ فلم پاکستان ہی نہیں ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ آوارہ کی کہانی نے سوویت یونین کے علاوہ عرب ممالک میں بھی ناظرین کو متاثر کیا۔

    اس فلم کے مقبول ترین گیت کے بول تھے؛

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    یا گردش میں ہوں
    آسمان کا تارہ ہوں

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    گھر بار نہیں سنسار نہیں

    مجھ سے کسی کو پیار نہیں…

  • ’’مفرحُ القلوب‘‘ جس کے خریداروں میں کئی والیانِ ریاست اور امراء شامل تھے

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ جس کے خریداروں میں کئی والیانِ ریاست اور امراء شامل تھے

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ فارسی، اردو زبانوں کے علاوہ کئی بڑے شہروں سے بڑی مقامی زبانوں میں بھی اخبار جاری ہوتے تھے جن کا قاری اہم اور مختلف نوعیت کی خبروں کے ساتھ اپنی دل چسپی کے موضوعات پر تحریریں پڑھ سکتا تھا۔

    برطانوی راج میں بالخصوص اخبار کا مطالعہ ایک اہم سرگرمی اور دل چسپ مشغلہ رہا ہے۔ ماقبل اور تقسیمِ ہند کے بعد بھی جب آج کی طرح برقی میڈیا اور ڈیجیٹل ذرایع ابلاغ موجود نہ تھے، تو حال یہ تھا کہ گھروں اور دکانوں‌ پر بزرگ اور ناخواندہ افراد پڑھے لکھے لوگوں سے باقاعدگی سے اخبار سنتے تھے۔

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ فارسی زبان کا ایک ہفت روزہ تھا جو 1855ء میں جاری کیا گیا۔ مغلیہ عہد میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی اور اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بھی اسے پڑھا اور سمجھا جاتا تھا۔

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ سَر بارٹل فریئر کی خواہش پر شروع کیا گیا تھا۔ ویلز کا باسی بارٹل فریئر سول سروسز کے تحت برطانوی راج میں انڈیا آیا تھا۔ وہ اداروں میں ملازمت اور عہدوں‌ پر ترقّی کرتا ہوا سندھ کا چیف کمشنر مقرر ہوا۔ اس نے سندھ کے دوسرے گورنر کی حیثیت سے 1851ء سے 1859ء تک کام کیا اور کمشنر سندھ کے طور پر اپنی محنت، لگن اور جدوجہد سے یہاں کے لوگوں میں نام و مقام بنایا۔ بارٹل فریئر کے عہد میں کراچی نے بہت ترقیّ کی اور اسی کے طفیل کراچی سے پہلا باقاعدہ سرکاری اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔

    مفرحُ القلوب (ہفت روزہ اخبار) برطانوی راج میں سَر بارٹل فریئر کی تجویز پر کراچی میں مقیم ایرانی قونصل شمسُ العلماء مرزا سیّد مخلص علی مشہدی علوی نے جاری کیا تھا۔ مرزا مخلص علی کے بعد اس کی ادارت ان کے فرزند مرزا محمد شفیع نے سنبھالی اور بعد میں‌ مرزا محمد جعفر اور مرزا محمد صادق اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ گو کہ اس ہفت روزہ کی عمر کم تھی اور دس برس بعد 1906ء میں اسے بند کر دیا گیا، لیکن اس کا نام صحافتی تاریخ میں درج ہے۔

    مفرحُ القلوب عرض میں‌ 20 انچ، اور 30 انچ طول کی تقطیع کے ساتھ 16 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس ہفت روزہ کے ہر صفحے پر دو کالم ہوتے تھے۔ فارسی کے اس اخبار کے ہر شمارہ میں خبروں اور مضامین کے علاوہ باذوق قارئین کو غزلیات بھی پڑھنے کو ملتی تھیں۔ فارسی زبان کے اس ہفت روزہ میں کبھی کبھی اردو زبان میں‌ مضامین اور شاعری بھی شایع کی جاتی تھی۔

    اس ہفت روزہ کو امداد دینے والوں کی مدح میں شذرات بھی اس میں شامل کیے جاتے تھے۔ عام اور تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ اس کے خریداروں میں مشہور اور قابلِ ذکر شخصیات میں والیٔ اودھ نواب واجد علی شاہ، شاہِ مسقط، ولی عہدِ ایران، والیٔ اصفہان، خیر پور کی ریاست کے والی میر علی مراد خان تالپر اور ریاست بڑودہ کی جمنا بائی بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کئی امراء فارسی کا یہ ہفت روزہ خریدتے تھے۔

    برصغیر میں صحافت سے متعلق کتب میں لکھا ہے کہ مفرحُ القلوب نے خبروں اور اسلوبِ بیان میں اعتدال اور توازن برقرار رکھا اور ایک طرف تو ہفت روزہ کی برطانوی حکومت سے موافقت اور اطاعت شعاری واضح تھی اور دوسری طرف مقامی امراء اور والیانِ ریاست سے بھی اس کی وفاداری کا اظہار ہوتا تھا۔ اس اخبار کا صدر دفتر کراچی شہر میں‌ تھا۔

  • فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔

    ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔

    کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

    فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔

    فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

    فراقؔ نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
    کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

    یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
    سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

    اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
    جب نام مرا آجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

    پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں
    جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

    مطلع میں فانیؔ کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔

    فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔

    1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔

    (جدید اردو تنقید کے لیے ممتاز آل احمد سرور کے مضمون فانی شخصیت اور شاعری سے اقتباسات، سرور خود بھی شاعر تھے جن کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے)

  • ‘یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا…’ ایک قصّہ گو کی باتیں

    ‘یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا…’ ایک قصّہ گو کی باتیں

    ادب کی دنیا میں کتابوں کا مطالعہ، جیّد اور کہنہ مشق اہلِ قلم سے گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ نئے قلم کار ان کے ادبی نظریات اور فکر سے واقف ہوتے ہوئے ان کے تجربات سے استفادہ کرسکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں‌ کہ خالص اور زندہ رہنے والا ادب کیا ہے، ایک اچھی تحریر کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھنا چاہیے۔

    یہاں‌ ہم نیّر مسعود جیسے اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار کی گفتگو نقل کررہے ہیں جو باذوق افراد اور نوجوان قلم کاروں کی توجہ حاصل کرے گی۔ نیّر مسعود ان ادیبوں میں سے تھے جو ادبی دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ وہ افسانہ، تحقیق، تنقید اور تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ” اب میرے جو پسندیدہ افسانہ نگار اُردو کے ہیں، وہ یوں ہیں کہ سب سے زیادہ تو مجھ کو غلام عباس صاحب پسند ہیں۔ پھر حیات اللہ انصاری ہیں۔ اس کے بعد اپنے زمانے کے، یعنی جو معاصرین ہیں، ان میں بہت لوگ ہیں، انتظار حسین کا سب سے پہلے نام آئے گا۔ لیکن تأثر جن سے میں نے قبول کیا ہے تو وہ میرا خیال ہے کہ غلام عباس کا ہونا چاہیے، اس لیے کہ میں نے اس طرح پڑھا ہے جیسے کسی استاد کی چیز پڑھی جائے اور اس طرح کہ گویا اس سے سیکھنا چاہیے، غلام عباس سے کہ کہانی کس طرح بیان کی جائے۔

    پھر باہر والوں میں کافکا اور پو اور ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی ہیں۔ تو ان میں بھی ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی کے بارے میں تو یہ محسوس ہوا کہ ان کی پیروی نہیں ہوسکتی، کسی بھی طرح سے ان کا اثر قبول نہیں کیا جاسکتا، ان کے ہاں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے کہ دوسرا اس کو اپنا سکے۔

    کافکا اور پو کے ہاں نسبتاً یہ محسوس ہوا کہ گویا بطور درسی کتاب کے پڑھا جا سکتا ہے۔ تو اب جان کر ظاہر ہے کہ میں نے کوشش نہیں کی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا اثر مجھ پر پڑا ہو گا۔ اس لیے کہ ان کو پڑھ کر یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ اس طرح کا لکھا جائے کہ کچھ ان چیزوں کی جھلک آ جائے اس میں۔

    اچھا، خود عظیم بیگ چغتائی اور رفیق حسین، جن پر آپ نے بہت اچھا مضمون لکھ دیا ہے، ان کے ہاں مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ لوگ مدرس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے آدمی سیکھ سکتا ہے کہ افسانہ کس طرح لکھا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ باقاعدہ کوشش کسی کی پیروی یا نقالی کی نہیں کی ہے، لیکن یہ چوں کہ ماڈل اپنے ذہن میں تھے، اس لیے ان کا اثر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہو گا۔ کوشش بہرحال، جیسے سب کرتے ہیں کہ مختلف لکھا جائے، جیسے افسانے عام طور پر لکھے جا رہے ہیں، ویسے نہ لکھیں۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ افسانے اچھے نہیں تھے۔ اس نظر سے بھی بہت افسانے پڑھے ہیں میں نے کہ کیسے نہ لکھا جائے۔ بلکہ زیادہ۔

    حالانکہ ذہن میں زیادہ عیب جوئی نہیں ہے، لیکن افسانے بھی اور شاعری بھی، ان کو پڑھنے میں گویا ان کی خوبیوں سے زیادہ توجہ اس پر رہتی ہے کہ کیا چیز اس میں گڑبڑ ہو گئی جس کی وجہ سے افسانہ خراب ہو گیا، یا کس طرح اور بہتر ہو سکتا تھا۔ تو یہ منفی تعلیم تو خیر بہت سے افسانوں سے حاصل کی ہے، اور ماشاء اللہ آج کل بھی اس قسم کے افسانے لکھے جا رہے ہیں (ہنسی) لیکن مثبت اثر اگر کسی کا ہے تو وہ خاص طور پر ہمارے غلام عباس کا یقیناً ہونا چاہیے۔ یا پھر اپنے اور پرانے لکھنے والوں میں مرزا رسوا ہیں جیسے۔ ان کا بھی مجھ کو یہی محسوس ہوا کہ آدمی اگر ان کو غور سے پڑھے تو پھر وہ اچھا لکھ سکتا ہے۔

    زبان بھی اور واقعات کو بیان کس طرح کیا جائے۔ اصل تو یہی ہے کہ قصہ بیان کرنا ہی اصل فن ہے، جو موضوع ہے اس کے لحاظ سے کون سا اسلوب اختیار کیا جائے۔ اس کی طرف میں نے زیادہ توجہ بھی رکھی۔ اب کچھ چیزیں جو ان لوگوں کی پیروی کا نتیجہ نہیں ہوں گی، کہ مثلاً اب اضافت کا استعمال تقریباً نہیں ملے گا آپ کو میری کہانیوں میں۔ واؤ عطف کا بھی استعمال بہت کم ملے گا۔ لیکن اس کو لازمہ نہیں بننے دیا کہ گویا اپنے اوپر دروازہ بند کر لیا کہ اضافت کسی صورت استعمال نہیں کریں گے۔ تو اضافتیں مل جائیں گی، لیکن بہت کم ملیں گی۔ محاورے سے بھی بہت عمداً گریز کیا ہے، اور میرا خیال ہے کہ کوئی محاورہ نہیں ہے ان کہانیوں میں۔ لیکن ہوں گے ضرور۔ اس کی بہرحال کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا محاورہ نہ ہو۔ ”جیسے آگ برس رہی تھی“، ”موسلا دھار پانی برس رہا تھا، یہ محاورے نہ استعمال کیے جائیں۔ یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا زبان میں تھوڑی سی اجنبیت پیدا کرنے کا۔

    اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ افسانے اصلاً ترجمہ ہیں کہیں اور سے، ”مار گیر“ پر تو باقاعدہ ڈاکٹر محمد عقیل نے خط لکھ کر پوچھا کہ یہ آپ نے خود لکھا ہے یا کہیں سے ترجمہ کیا ہے۔ تو وہ سبب وہی تھا کہ چونکہ اس میں محاورے نہیں تھے تو زبان تھوڑی سے اجنبی معلوم ہونے لگی۔ اور اضافت وغیرہ…. مجھ کو یہ محسوس ہوا کہ فارسی آمیز زبان ہمارے افسانوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ بھی خیال غلط ہے ،اضافت کے ساتھ بھی افسانہ لکھا جاتا ہے۔ لیکن مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ اضافتیں اور باقاعدہ ادبی زبان استعمال کی جائے گی تو افسانہ مجروح ہو جائے گا، کسی طرح۔ یا پھر یہ سمجھ لیجیے کہ میں لکھوں گا تو افسانہ مجروح ہو جائے گا، یوں سمجھ لیجیے کہ افسانے کی کمزوری ہوگی۔

    لیکن یوں اصولی طور پر میں اس کے خلاف نہیں کہ اضافت اور محاورے افسانے میں استعمال ہوں۔ بہت سی صورتوں میں ظاہر ہے کہ محاورے کے بغیر چارہ نہیں ہو گا، خاص طور پر اگر آپ مکالمہ لکھ رہے ہیں، اور وہ مکالمہ وقت کے کسی فریم کے اندر ہے، تب تو محاورہ ضروری ہے۔ لیکن ان موقعوں پر بھی میں نے محاورے سے گریز کیا ہے۔ کچھ شاید یہ سبب بھی ہو جس کی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ گویا کسی مخصوص زمان و مکان میں ان کہانیوں کو فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے سے اس طرح کا کوئی اشارہ مَیں نہیں دینا چاہتا کہ یہ فلاں زمانے کا آدمی بول رہا ہے۔“ (آصف فرخی سے گفتگو)

    لکھنؤ کے باسی نیّر مسعود کئی سال تک فالج کے مرض میں مبتلا رہے۔ وہ 24 جولائی 2017ء کو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے اور لکھنؤ ہی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    بالی وڈ میں مینا کماری نے 32 سال تک بطور اداکارہ کام کیا اور ہندی سنیما کو متعدد کلاسیکی فلمیں‌ دیں۔ وہ چار سال کی تھیں جب فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں۔

    بالی وڈ کی اس اداکارہ کو علم دوست کہا جاتا ہے۔ انھیں مطالعہ کا شوق تھا اور شاعری بھی کرتی تھیں۔ مینا کماری نے فلمی رسائل میں مضامین بھی لکھے جب کہ شاعری میں ان کا تخلص ناز تھا۔

    مینا کماری کو’ٹریجڈی کوئین‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی وجہ اُن کے وہ کردار تھے جو فلمی پردے پر عام ہندوستانی عورت کا دکھ اور اس کی زندگی کے المیوں کو پیش کرتے تھے، جب کہ خود اداکارہ کی زندگی رنج و الم اور محرومیوں‌ کا شکار رہی۔

    "فلمی صحافت” کے عنوان سے وشو ناتھ طاؤس نے اپنی کتاب "ہندوستانی فلموں کے سو سال، کچھ جھلکیاں” میں‌ اس مشہور اداکارہ کو ایک قلم کار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    "ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہ نامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز داں ایم اے کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔”

    راز داں صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔ بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز داں کے حوالے کر دیا۔ مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کے تحت چھپنے والے ممتاز ہفتہ وار فلمی رسالے ’کہکشاں‘ کے مدیر مسٹر دُکھی پریم نگری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ سوالات معمول کے مطابق اچھے ڈھنگ سے کرتے ہیں لیکن ایک بار انھوں نے غیر ارادی طور پر کچھ ایسی باتیں چھاپ دیں جن سے ڈائریکٹروں میں موصوفہ کی پوزیشن خراب ہو گئی مگر بعد میں اداکارہ نے اپنی صفائی میں جو بیان جاری کیا اُس سے فضا بالکل صاف ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد دُکھی پریم نگری پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور وہاں انھوں نے کراچی کے مشہور ہفت روزہ فلمی اخبار ’نگار‘ کی ادارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیے اور اُسے ملک کا سب سے مقبول فلمی پرچہ بنا دیا۔

    ویکلی ’کہکشاں ‘ سے وابستہ ایک اور فلمی صحافی حسن صحرائی کے بارے میں مینا نے بتایا کہ وہ ایسے انداز سے سوال کرتے ہیں جیسے راشن انسپکٹر راشن کارڈ بناتے وقت عام طور پر پوچھا کرتے ہیں ’’آپ کا نام؟ آپ کے باپ کا نام؟ آپ کا ایڈریس؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود مینا کماری کو حسن صحرائی صاحب سے اور کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی اور وہ اُن کا بڑا احترام کرتی تھی۔

    ساٹھ برس قبل راقم دلّی کے مشہور علمی و ادبی رسالے ’رہنمائے تعلیم‘ کا فلم ایڈیٹر تھا۔ 1954ء میں اس کا خصوصی فلم ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان ہوا تو میں نے مینا کماری سے مضمون بھیجنے کی فرمائش کی۔ اُس نے ’شیطان بیچارہ‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھ کر بھیجا جو شاملِ اشاعت کیا گیا۔ اس میں ابلیس اور جبرئیل کے مابین مذاکرات کے علاوہ کچھ شعر بھی درج تھے۔ اُن دنوں مینا کماری کمال امروہوی کی شریکِ حیات تھی اور ان دونوں کے تعلقات خوش گوار تھے۔

    مینا بنگلور سے شائع ہونے والے ماہانہ اردو فلمی جریدے ’عبرت‘ کی سرپرست تھی جسے جناب کامدار اُلدنی ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ دونوں نے مجھے اپنے پرچے کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا اور میں نے مسوری میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں ’عبرت‘ کی نمائندگی کی تھی۔

  • نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    ہندوستان میں‌ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف مطیع اور خودمختار ریاستوں میں انگریزوں‌ کا بڑھتا ہوا عمل دخل اور نوابوں کی بے توقیری تک تاریخ کے اوراق بہت کچھ لکھتے ہیں جن میں بیگماتِ اودھ کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ آخری تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ نامے ہیں‌ جو جلاوطنی کے عالم میں‌ واجد علی شاہ تک پہنچے اور ان کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

    یہاں ہم ایک ایسا ہی خط نقل کر رہے ہیں جو واجد علی شاہ کی طرف سے شیدا بیگم کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے القاب لائقِ توجہ ہیں۔ قدیم اردو میں‌ اس خط کا طرزِ تحریر رواں اور لطف انگیز ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سطور ایک نواب کا اپنے حالات پر نوحہ بھی ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے۔

    بہ نام
    نواب شیدا بیگم صاحبہ

    مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
    بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

    مہرِ سپہر بے وفائی، ماہ سمائے دل ربائی، گوہرِ تاج آشنائی، جوہرِ شمشیرِ یکتائی! ہمیشہ خوش رہو!

    معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
    ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

    معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔

    انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیّار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیّار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدّولہ، ذہانت الدّولہ، سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدّولہ، فتح الدّولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے، زبردستی قید خانہ میں آ گئے۔

    راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدّولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔

    یہ خط کربلائے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

    ؎
    ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا
    کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

    جانِ عالم اختر