Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔

    اب اگر کسی شخص کو کتّے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتّوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجیے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔

    اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آسکتی چوں کہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بیّن فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبر نہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈوالہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ’’پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،’’فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بدمعاشی سمجھتے ہیں۔‘‘

    اب یہ تنقیح قائم کی جاسکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتا ہے۔ ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور معاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسیّد احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھا کر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،’’الٰہی میری بچّوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘‘

    جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچّے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔

    اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچّے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔

    کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لئے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘

    عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتیا بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹفک کھیل ہے۔ بکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔

    محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لئے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباسات)

  • ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    کرشن چندر اور فیض احمد فیض نمایاں شخصیات تھیں، اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مجھ ناچیز کو ان دونوں سے ملنے کا موقع نصیب ہوا تھا جو میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ لیکن میں ہرگز اپنے بارے میں یا ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتانے والی نہیں ہوں۔

    میں ان دونوں کی آپس میں ملاقات کے بارے میں بتانا چاہوں گی جو میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔

    ایسا مئی سن 1967 میں ماسکو میں ہوا تھا۔ اس وقت ماسکو میں سوویت ادیبوں کی کانگریس ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لیے ہمارے ملک کے کونے کونے سے ادیب اور شاعر تشریف لائے تھے۔

    مختلف ممالک سے مشہور و معروف مصنّفین اور شعرا کو مہمانوں کی حیثیت سے بلایا گيا تھا۔ ہندوستان سے کرشن چندر جی کو مدعو کیا گیا تھا جو اپنی بیگم سلمیٰ صدیقی صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ مجھے ان کی مترجم کے فرائض سونپے گئے تھے۔

    تمام شرکا اور مہمانوں کو ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جو دارُالحکومت کے عین مرکز میں لال چوک کے بالکل قریب واقع ہے۔ آج یہ ہوٹل "فور سیزنز” کے نام سے مشہور ہے۔ ہوٹل کے ریستوراں میں لا محالہ سب کے لیے کھانا کھانے کا انتظام تھا۔ کانگریس کی رسمِ افتتاح سے ایک دن قبل کرشن چندر جی، سلمیٰ صدیقی اور میں اس ہوٹل کے ریستوران میں داخل ہوئے تھے تو اس میں چندر جی اچانک ان کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے تھے اور اس شخص نے بھی وہی کیا تھا۔ ان دونوں نے نہ صرف آپس میں ہاتھ ملائے بلکہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگے اور کچھ لمحوں تک ہم آغوش رہے تھے۔

    مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دوسرا شخص کون تھا لیکن سلمیٰ صدیقی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فیض ہیں۔ میں نے ان کا نام سنا تو تھا، مجھے یہ معلوم تھا کہ فیض اردو زبان کے بڑے شاعر ہیں جنہیں لینن امن انعام عطا کیا گیا تھا۔ پھر معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں بیس سالوں بعد ملے تھے یعنی تقسیمِ ہند کے بعد پہلی بار۔

    یاد رہے کہ سوویت ادیبوں کی کانگریس میں حصہ لینے والے ہر وفد کی ایک الگ میز تھی جس پر ان کے ملک کا چھوٹا سا پرچم رکھا گیا تھا۔ فیض صاحب نے کرشن جی سے کہا تھا کہ ہم لوگ ایک ہی میز کے گرد بیٹھیں گے۔ میں نے شاید حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: "بچّی پریشان مت ہو، میں اپنے ملک کا پرچم اٹھا کر آپ کی میز پر رکھ دوں گا۔ ” انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا، "آج دنیا میں ماسکو شاید واحد جگہ ہے جہاں ہمارے دونوں ملکوں کے جھنڈے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔”

    پھر کرشن چندر اور فیض احمد فیض رات گئے تک باتیں کرتے رہے تھے۔ آپ جان چکے ہیں کہ وہ دونوں بہت سال بعد ماسکو میں ملے تھے جو حسنِ اتفاق تھا۔
    اس کے بعد کانگریس کے دوران کرشن چندر اور فیض احمد فیض ہمیشہ ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ یہ وہ چھوٹا سا واقعہ تھا جس بارے میں، مَیں بتانا چاہتی تھی۔ یہ واقعہ مجھے آج بھی اسی طرح یاد آ رہا ہے جیسے وہ نصف صدی قبل نہیں بلکہ ابھی ابھی ہوا ہے۔

    نوٹ: Irina Maximenko (ارینا ماکسی مینکو) روسی اردو داں، مترجم اور صحافی ہیں جنھوں نے اپنی یادوں کو قلم بند کیا اور یہ واقعہ انہی کے قلم سے نکلا ہے۔ وہ برسوں تک روس میں نشریاتی اور اشاعتی اداروں سے منسلک رہیں اور وہاں شعبۂ اردو کے لیے پروگرامز اور برصغیر کی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں)

  • جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچّوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔

    ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئر کنڈیشن ڈبّے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحائف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزّت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا! ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں۔ ‘میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔’

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھے برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سَر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالبِ علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سَر سیّد کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انّیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر ہو گئے۔

    سَر سیّد کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سیّد کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    ‘کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟’ سر سیّد نے کڑک کر پوچھا۔

    ‘جی ہاں۔’ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سیّد آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔

    عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

    (‘ماں جی’ سے اقتباس، از قلم قدرت اللّہ شہاب)

  • "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزّتی کر دی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔

    قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔

    پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزّتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لیے مجھے جیل بھیج دو۔

    پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علّامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑ گیا۔ گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزّتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔

    اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے، ’’شورش نے میری عزّت بچا لی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

    (سینئر صحافی اور کالم نویس محمد رفیق ڈوگر کی آپ بیتی’’ڈوگر نامہ‘‘ سے انتخاب)

  • کرشن چندر کی خیالی بینچ

    کرشن چندر کی خیالی بینچ

    انسان کے دل میں ایک شہر ہوتا ہے۔ اس کی گلیاں اور بازار ہوتے ہیں، جہاں یادوں اور مُرادوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ اس کی دکانوں میں ہزاروں طرح کی تمنائیں بکتی ہیں، خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔

    اس کے کارخانوں میں محنت سانس لیتی ہے۔ اور اس کے باغوں میں کبھی کبھی چاند چمکتا ہے۔ اور پھول مہکتے ہیں اور آہستہ خرام جوڑے ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خاموش نگاہوں سے محبّت کا پیام دیتے ہیں۔

    دل کا شہر بھی انسان کے شہر کی طرح بستا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کام کرتا ہے۔ ہنستا ہے اور روتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے دن آتے ہیں جب ہر لمحہ عید ہوتا ہے۔ ہر یاد اک نیا جوڑا پہن کر نکلتی ہے۔ ہر تمنّا بنی سنوری ہتھلیوں میں حِنا کی منقش تصویریں سجائے، ہر اُمنگ ننھے ننھّے بچّوں کی طرح خوشی سے ہنستی ہوئی، کلکاریاں مارتی ہوئی ہر آرزو جوان اور بلند مستقبل کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دل کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آتی ہے۔ اور خوشیوں کے میلے میں اور مسرتوں کے ازدحام میں کھو جاتی ہے۔

    مگر آج اس شہر میں کیسا سناٹا ہے؟ آج دل کی پُر پیچ گلیوں اور بازاروں اور سڑکوں پر اندھیرا ہے۔ آج کہیں پر روشنی نہیں ہے۔ آج کوئی مراد نہیں چلتی، کوئی آرزو نہیں بکتی، کوئی اُمنگ نہیں ہنستی۔ آج سارے دریچے بند ہیں اور سارے دروازے مقفّل ہیں اور سارے بازار خالی ہیں۔ صرف کہیں کہیں نکڑ پر چند بوڑھی یادیں گزرے ہوئے ایّام کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہی ہیں۔

    آج سارا شہر خالی ہے۔ آج سڑکوں پر روشنی نہیں۔ باغوں میں چاند نہیں، پیڑوں میں پھول نہیں۔ آج وہ بینچ بھی خالی ہے جہاں ہم یادوں کی محفل سجایا کرتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے بعد یہ بینچ ہمیشہ خالی رہے گا۔

    انسان کا دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ وہ کسی یاد کو تو ایک خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ جو زندگی بھر ایک ہی چوکٹھے میں جڑی، ایک ہی دیوار پر ٹنگی ایک ہی زاویے سے دکھائی دیتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج کے بعد میں اس باغ میں کبھی نہیں جا پاؤں گا۔ جہاں میں اپنے محبوب کے ساتھ خیالوں میں گھومنے جایا کرتا تھا۔ اس خیالی بینچ پر کبھی نہ بیٹھ پاؤں گا جہاں میرے ہاتھ خود بخود محبوب کے ہاتھوں میں آجاتے تھے۔

    نہیں، وہ خیالی بینچ آج کے بعد ہمیشہ خالی رہے گا۔

    (کرشن چندر کے ناول ‘باون پتّے’ سے مقتبس)

  • رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کی فلموں کا ‘ہیرو’ جو امریکا کا صدر بنا

    رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کی فلموں کا ‘ہیرو’ جو امریکا کا صدر بنا

    امریکا کے چالیسویں‌ صدر رونالڈ ریگن ہالی وڈ کے مشہور اداکار بھی تھے جن کا آٹھ سالہ دورِ صدارت امریکا کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بطور اداکار انھیں دوسرے درجے کے فن کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    امریکا میں‌ رونالڈ ریگن کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی بذلہ سنجی بھی تھی۔ وہ خاصے بے تکلف مشہور تھے اور ایک ایسے شخص تھے جس نے اپنی حسّ مزاح کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ ریگن خود اپنا مذاق اڑانے سے بھی نہیں‌ جھجھکے اور کئی مرتبہ انھوں نے اپنی ذات کو اپنی ظرافت کا نشانہ بنایا۔ ریگن نے 1981ء میں امریکا کا منصبِ صدارت سنبھالا تھا۔

    1911ء رونالڈ ریگن کا سنہ پیدائش ہے۔ ان کے والد جوتوں کی ایک دکان پر کام کرتے تھے اور شراب کے رسیا تھے۔ رونالڈ ریگن نے تعلیم مکمل کی اور 26 سال کی عمر میں قسمت نے انھیں وارنر برادرز تک پہنچا دیا۔ اس بینر تلے ریگن نے فلم میں کام کر کے عملی زندگی شروع کی۔ وہ اس سے قبل معمولی اور مختلف نوعیت کی ملازمتیں کررہے تھے۔ انھوں نے لگ بھگ ہالی وڈ کی پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا اور زیادہ تر ہیرو کا کردار نبھایا۔

    1966ء میں ریگن نے سیاست کے میدان میں‌ قسمت آزمائی اور کیلیفورنیا کے گورنر کے عہدے کے لیے انتخابی اکھاڑے میں‌ اترے۔ ان کے اقارب اور دوست احباب ان کے اس اقدام پر حیران بھی تھے اور ان کا خیال تھاکہ ریگن سیاست میں نامراد رہیں گے، لیکن وہ انتخاب جیت گئے اور آٹھ سال تک گورنر رہے۔ بعد میں ریپبلکن پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی عہدے تک پہنچے۔ اس وقت وہ ستّر سال کے ہونے کو تھے۔ امریکا کے صدر بننے کے دو مہینے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں ریگن محفوظ رہے۔

    ریگن کو سویت یونین کا سخت مخالف سمجھا جاتا تھا، لیکن بعد میں سویت راہ نما گوربا چوف سے ان کی مفاہمت اور ایک تاریخی معاہدہ دنیا میں جوہری اسلحہ کی تخفیف کا سبب بنا جسے امریکی صدر کی حیثیت سے ریگن کی بڑی کام یابی کہا جاتا ہے۔

    Dark Victory ، All American اور Kings Row بحیثیت اداکار رونالڈ ریگن کی وہ فلمیں‌ تھیں‌ جو 1943ء میں بہترین فلموں کے زمرے میں‌ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئیں۔

    انھوں نے ہیرو کے روپ میں‌ فلم کے شائقین کی توجہ اور نوجوانوں‌ میں مقبولیت ضرور حاصل کی، لیکن فنِ اداکاری میں انھیں خاص مقام حاصل نہیں‌ ہوسکا۔

    چالیس اور پچاس کی دہائی میں ریگن نے Love Is on the Air ،Accidents Will Happen، The Bad Man، Desperate Journey، The Killers، Hong Kong جیسی فلموں‌ کے علاوہ ٹیلی ویژن کی کئی سیریز میں‌ بھی کام کیا۔

    وہ سنہ 1937میں اسکرین پر پہلی بار نظر آئے تھے اور انھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف آرٹسٹوں اور اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

    ‘ریگن: اے لائف اِن لیٹرز‘ وہ کتاب ہے جس میں‌ سابق صدر نے ذاتی خطوط عوام کے سامنے رکھے ہیں۔ یہ کتاب ایک ہزار خطوط کا مجموعہ ہے جس سے ریگن کی شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ خطوط ان کے افکار و خیالات، ان کی دل چسپی اور توجہ کے معاملات کو جاننے کا موقع دیتے ہیں۔ ریگن کو عمر کے آخری برسوں‌ میں‌ الزائمر کے مرض نے گھیر لیا تھا۔ الزائمر کا شکار ہونے سے پہلے وہ آپ بیتی لکھنے کا آغاز کرچکے تھے۔

    خوش مزاج اور بذلہ سنج ریگن نے لاس اینجلس میں‌ 5 جون 2004ء کو یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کے دور میں امریکا نے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بھی دیکھی۔

  • مغلیہ دور: ہندوستان میں‌ شرفا کا لباس

    مغلیہ دور: ہندوستان میں‌ شرفا کا لباس

    زمانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا رواج اور چلن بھی بدلتا ہے۔ کل تک ہندوستان میں بادشاہت قائم تھی۔ قلعہ معلّیٰ اور شاہی خاندان سے ہر خاص و عام کو عقیدت اور محبّت تھی۔ لوگ مغل بادشاہ کی رعیَّت پر فخر کرتے تھے۔ شاہانِ‌ وقت اور امراء ایک طرف ہندوستانی باشندے بھی تہذیب و تمدّن اور روایات کے خوگر تھے۔ عوام بالخصوص شرفا نہایت مہذب اور شائستہ اطوار تھے۔

    یہاں ہم آپ کو بہادر شاہ ظفر اور اس سے پہلے کے شاہی دور میں‌ عوام کے لباس اور ان کے پہننے اوڑھنے کے ذوق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مرزا نوشہ کا ذکر تو جانے ہی دو، وہ تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے ہیں۔ ان کی ٹوپی دنیا بھر سے جدا تھی، نہ ترکی نہ تاتاری، کھال کو (خواہ سمور ہو یا برہ) اس طرح سی لیا جاتا تھا کہ نیچے کا گھیر اوپر کے چندوے سے ذرا بڑا رہے۔ اس کے بعد چار کنگرے قائم کر کے کھال کو ٹوپی کی آدھی لمبان تک اس طرح کاٹ لیا کہ ٹوپی گڑ گج کی شکل بن گئی۔ بیچ میں چندوے کی جگہ مخمل یا گہرے رنگ کی بانات کنگروں کے کناروں سے ملا کر سی لی، اندر استر دے دیا، چلو مرزا نوشہ کی ٹوپی ہو گئی۔

    شہر میں کلاہ تتری کا بہت استعمال ہے، جس کو عام اصطلاح میں چوگوشیا ٹوپی کہتے ہیں۔ یہ بھی کئی وضع کی ہوتی ہیں اور کئی طرح پہنی جاتی ہیں۔ جو ٹوپی شرفا استعمال کرتے ہیں، اس کا دمہ (گوٹ) ذرا نیچا ہوتا ہے۔ دمے کے اوپر چار پاکھے۔ پاکھے کی وضع بالکل شاہ جہانی محراب کی سی ہوتی ہے۔ چاروں کو اس طرح ملا کر سیتے ہیں کہ چاروں کونے کمرک (کمرخ) کے نمونے ہو جائیں۔ بعض لوگوں نے اس میں ذرا جدّت بھی کی ہے۔ وہ یہ کہ دمے کو اونچا کر کے، پاکھوں کی لمبان کو چوڑان سے کسی قدر بڑھا دیا ہے اور ان کے سِل جانے کے بعد جو پہل پیدا ہوئے ہیں ان کو پھر کاٹ کر کلیاں ڈال دی ہیں۔ اس طرح بجائے چار پہل کے آٹھ پہل ہو گئے ہیں۔ خوب صورتی کے لیے دمے کے کناروں پر پتلی لیس اور گوشوں کے کناروں پر باریک قیطون لگاتے ہیں۔

    بادشاہ سلامت کی ٹوپی ہوتی تو اسی نمونے کی ہے مگر سلمے ستارے کےکام سے لپی ہوئی اور جا بہ جا موتی اور نگینے ٹکے ہوئے۔ اس قسم کی ٹوپی کئی طرح پہنی جاتی تھی۔ قلعے والے تو پاکھوں کو کھڑا رکھتے ہیں۔ باقی لوگ ان کو کسی قدر دبا لیتے ہیں۔ جو ٹوپی آٹھ پہل کی ہوتی ہے اس کے پاکھوں کو تو اتنا دباتے ہیں کہ گوشے، دمے کے باہر پھیل کر کنول کی شکل بن جاتے ہیں۔ اس قسم کی ٹوپی ہمیشہ آڑی پہنی جاتی ہے اور وہ بھی ا س طرح کہ اس کا ایک کونا بائیں بھوں کو دبائے۔ اس ٹوپی کے علاوہ ارخ چین (عرق چین) کی ٹوپی کا بھی رواج ہے۔ اس کا بنانا کچھ مشکل کام نہیں۔ ایک مستطیل کپڑے کےکناروں کو سر کی ناپ کے برابر سی لیا۔ نیچے پتلی سی گوٹ دے دی اور اوپر حصے میں چنٹ دے کر چھوٹا سا گول گتا لگا دیا۔ دہلی کی دو پلڑی ٹوپی اور لکھنؤ کی ٹوپی میں صرف یہ فرق ہے کہ یہاں یہ ٹوپی اتنی بڑی بناتے تھے کہ سر پر منڈھ جائے۔ بر خلاف اس کے لکھنؤ کی ٹوپی صر ف بالوں پر دھری رہتی ہے۔

    ان ٹوپیوں کے علاوہ بعض بعض لوگ پچ گوشیا ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔ اس ٹوپی میں پانچ گوشے ہوتے ہیں لیکن اس کی کاٹ چو گوشیا ٹوپی سے ذرا مختلف ہے۔ گوشوں کے اوپر کے حصے بس ایسے ہوتے ہیں جیسے فصیل کے کنگرے۔ نیچے دمے کی بجائے پتلی سی گوٹ ہوتی ہے۔ یہ ٹوپی قالب چڑھا کر پہنی جاتی ہے۔ قالب چڑھ کر ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ہمایوں کے مقبرے کا گنبد۔ عام لوگوں میں بڑے گول چندوے کی ٹوپی کا بھی بہت استعمال تھا۔ بعض تو بالکل سادی ہوتی ہیں اور بعض سوزنی کے کام یا فیتے کے کام کی ہوتی ہیں۔ اس ٹوپی کو بھی قالب چڑھا کر پہنتے ہیں۔

    لباس میں انگرکھا بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انگرکھے کی چولی اتنی نیچی ہوتی ہے کہ ناف تک آتی ہے۔ چونکہ ہر شخص کو کسرت کا شوق ہے اس لیے جسم کی خوب صورتی دکھانے کے لیے آستینیں بہت چست رکھتے ہیں اور بعض شوقین آستینوں کو آگے سے کاٹ کر الٹ لیتے ہیں۔ انگرکھے کے نیچے کرتا بہت کم لوگ پہنتے ہیں۔ قلعے والوں کے انگرکھے کے اوپر جامے واریا مخمل کی خفتان ہوتی ہے۔ بہت تکلف کیا تو اس کے حاشیوں پر سمور لگا لیا، نہیں تو عموماً پتلی لیس لگاتے ہیں۔ بٹنوں کی بجائے صرف ایک تکمہ اور گھنڈی ہوتی ہے جس کو ’’عاشق معشوق‘‘ یا ’’چشمے‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی آستینیں ہمیشہ آدھی ہوتی ہیں۔ قلعے میں تو اس کو خفتان کہا جاتا ہے مگر شہر والے اس سینہ کھلے نیمہ آستین کو ’’شیروانی‘‘ کہتے ہیں۔ انگرکھے کے اوپر چوکور شالی رومال سموسا کر کے پیٹھ پر ڈال لیتے ہیں۔ اس رومال کو عام اصطلاح میں ’’ارخ چین‘‘ کہتے ہیں۔ کمر میں بھی بتی کر کے رومال لپیٹنے کا رواج ہے مگر بہت کم۔

    پائجامہ ہمیشہ قیمتی کپڑے کا ہوتا ہے۔ اکثر گل بدن، غلطے، مشروع موٹرے، اطلس یا گرنٹ کا ہوتا ہے۔ پرانی وضع کے جو لوگ ہیں وہ اب بھی ایک ہی برہی کا پائجامہ پہنتے ہیں مگر تنگ مہریوں کے پائجامے بھی چل نکلے ہیں۔ سلیم شاہی جوتی کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ پھر بھی دہلی کے شرفا گھیتلی جوتی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید ہی شہر بھر میں کوئی ہوگا جس کے ہاتھ میں بانس کی لکڑی اور گز بھر کا لٹھے کا چوکور رومال نہ ہو۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لمبی پور کا ٹھوس بھاری بانس لیتے، تیل پلاتے، مہندی مل کر باورچی خانے میں لٹکاتے، یہاں تک کہ اس کی رنگت بدلتے بدلتے سیاہ ہو جاتی اور وزن تو ایسا ہو جاتا ہے گویا سیسہ پلا دیا ہے، جو نکلتا ہے، اینٹھتا ہوا نکلتا ہے۔ جس کو دیکھو چوڑا سینہ، پتلی کمر، بنے ہوئے ڈنڈ، شرفا میں تو ڈھونڈے سے شاید ایک بھی نہ نکلے گا جس کو کسرت کا شوق نہ ہو اور بانک، بنوٹ اور لکڑی نہ جانتا ہو۔ بچپن ہی سے ان فنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مقابلے ہوتے ہیں، واہ واہ سے بچوں اور نوجوانوں کا دل بڑھاتے ہیں اور فنونِ سپہ گری کو شرافت کا تمغا سمجھتے ہیں۔

    (ماخذ:‌ مضامینِ فرحت اللہ بیگ)

  • عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے!

    عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے!

    ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’الشعر دیوانُ العرب۔‘‘ یعنی عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے۔

    دفتر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ اس میں عرب کا جغرافیہ، عرب کی تاریخ، عرب کا تمدن، عرب کا طریقہ معاشرت، عرب کے خیالات و توہمات، عرب کی ملکی اور قومی خصوصیات سب کچھ ہے۔ اگر کوئی شخص عرب کی شاعری کا مطالعہ کرے تو کوئی بات عرب اور اہل عرب کے متعلق ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ مل سکے۔

    جغرافی اشارے
    عرب کی شاعری میں قدم قدم پر بہت سے مقامات کے نام آتے ہیں۔ مثلاً: یثرب، دمشق، بصرہ، قنسرین، مکہ، بعلبک، اندرین (شام) نجد، یمامہ، صنعا، طائف، حضر موت وغیرہ۔ سیکڑوں دیہات اور چھوٹی بستیاں ہیں جن کے نام شعرائے عرب کے کلام میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً حزن، لوی، دکاوک، حومل، توضح، جدیس، عسجل، مصامہ، سلسلین، مقراۃ وغیرہ۔

    بہت سے پہاڑوں کے نام بھی ان کے اشعاروں میں آتے ہیں۔ مثلاً اجاء، سلمیٰ۔ کویکب، لہیم، ستار، حایل، مجیمر، یذبل، بتیر، قطن، ثرم وغیرہ۔

    عرب میں دریا نہیں ہیں مگر برساتی نالے اور چشمے بہت سے ہیں۔ ان کے نام بھی عرب کی شاعری میں جگہ جگہ آتے ہیں۔ مثلاً سجل، صفوان، بہیما، دارجلجل وغیرہ۔

    بہت سی وادیوں اور جنگلوں کے نام بھی ہیں جو عربی اشعار میں ملتے ہیں۔ مثلاً غبیط کا جنگل، غمیر کاجنگل، وادی جواء، وادی بطحا وغیرہ۔

    بہت سے رمنوں اور چراگاہوں کے نام بھی لیے گئے ہیں۔ مثلاً: وقبیٰ، مرج، راہط، حضرا وغیرہ۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کی خاص شہرت تھی اور کوئی نہ کوئی بات ان کی طرف منسوب ہوتی تھی۔ مثلاً تمبالہ یمن کا ایک زرخیز شہر ہے۔ اس کی زرخیزی و شادابی مشہور تھی۔ طبی ایک گاؤں کا نام تھا، جہاں خاص قسم کے کیڑے سفید رنگ اور لال سَر کے نہایت نرم و نازک ہوتے تھے۔ ان کیڑوں کو اسروع کہتے تھے۔ اندرین ملک شام کا ایک قصبہ تھا، جہاں کی شراب شہرت رکھتی تھی۔

    عرب کے خاص خاص جنگل تھے، جہاں شیر رہتے تھے۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ خضیہ، شریٰ، خفاف، عفرین۔ خیبر کا قلعہ مشہور تھا۔ عرب کی شاعری میں اس کا ذکر اس سبب سے بھی آیا ہے کہ وہاں ایک قسم کا مہلک بخار پھیلا۔

    عکاظ ایک مقام کا نام ہے۔ جو نخلا اور طائف کے درمیان تھا۔ یکم ذی قعدہ سے بیس دن تک یہاں ایک بازار لگتا تھا۔ عرب کے شعرا ہر سال یہاں آتے اور فخر کا اظہار کرتے تھے۔ ضریہ بصریہ کے قریب ایک گاؤں تھا، جہاں شکاری پرندے کثرت سے تھے۔ جواء ایک موضع ہے، جہاں کی وادی میں زردرنگ کی جنگلی گائیں چرا کرتی تھیں اور وہاں چکاکی نام کا ایک پرندہ بھی کثرت سے پایا جاتا تھا۔ خط یمامہ کا ایک مشہور مقام تھا، جہاں عمدہ نیزے فروخت ہوتے تھے اور وہ خطی نیزے کہلاتے تھے۔

    بصریٰ ملک شام کا ایک شہر تھا، جہاں تلوار خالص فولاد کی بنتی تھی اور چوڑی ہوتی تھی۔ ہجر یمن کا ایک شہر ہے، جہاں کا خرما مشہور تھا۔ وجدہ ایک ایسا مقام تھا جس کا جنگل وحشی نیل گایوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں کے سفید ہرن بھی مشہور تھے۔ وادی سیدیا حمار یمن کی ایک وادی ہے۔ یہ پہلے نہایت سرسبز تھی مگر ایک بار بجلی نے اس کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس وقت سے ہر ویران مقام کو وادیٔ حمار سے تشبیہ دینے لگے۔

    عدولی بحرین کا ایک قریہ تھا، جہاں کشتیاں بنائی جاتی تھیں۔ تنوح ایک گاؤں تھا۔ یہاں کی نیل گائیں بھی مشہور تھیں۔ دومتہ الجندل کا مکھن مشہور تھا۔ ان کے علاوہ یمن کی ریشمی چادریں اور دو دھاری تلواریں اور شام کا کاغذ اور اعلیٰ ریشمی کپڑے شہرت رکھتے تھے۔ مشرقی تلواریں بھی شام سے آتی تھیں۔

    ریگستانوں اور سراؤں کا ذکر عرب کی شاعری میں بار بار آتا ہے۔ موسموں کے ذکر میں سخت گرمی اور تمتماتی دھوپ، کبھی کبھی بارش کی راتوں کا سرد ہونا اور موسم سرما میں قحط کے آثار نمایاں ہونا عرب کے اشعار سے بار بار معلوم ہوتا ہے۔ شمال کی ہوا کو شمال، جنوب کی ہوا کو جنوب کہتے تھے۔ مشرق کی ہوا صبا اور مغرب کی ہوا دبور کہلاتی تھی۔ نکیا، ایک ہوا چلتی تھی جس سے قحط کی علامت محسوس ہوتی تھی۔ بیانوں کے سفر میں غریب ستاروں کو دیکھ کر چلتے تھے۔ بناتُ النّعش شام کی طرف کے ستارے اور سہیل یمن کی طرف کا ستارہ کہلاتا تھا۔ فرقدین اور کہکشاں کا ذکر بھی بار بار آیا ہے۔

    (سیّد وحیدالدّین سلیم کے مضمون سے اقتباس)

  • جب شاعرِ مشرق کو کسی شعر پر داد نہ ملی!

    جب شاعرِ مشرق کو کسی شعر پر داد نہ ملی!

    ایک زمانہ تھا جب کسی ہم عصر کے فن و تخلیق پر تبصرہ کیا جاتا تو تعریف اور سراہنے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا تھا، لیکن اسی طرح اصلاح و بہتری کی غرض سے تنقید بھی کی جاتی تھی۔

    اردو ادب میں نام وَر شخصیات اور مشاہیر نے آپس میں کسی موضوع پر گفتگو کے دوران اختلاف اور بحث کرتے ہوئے بھی شائستگی اور احترام کو ملحوظ رکھا۔ ایسی ہی کسی مجلس میں اکثر احباب میں سے کوئی شوخی اور ظرافت پر آمادہ ہوجاتا تو محفل زعفران زار بھی ہو جاتی تھی۔

    ادبی تذکروں میں مشاہیر سے منسوب ایسے ہی مختلف دل چسپ واقعات اور لطائف ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں‌ ہم شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جو اقبال سے منسوب ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک مرتبہ علامہ اقبال تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اس سفر کے دوران انھیں اردو کے مشہور فکشن رائٹر سیّد سجّاد حیدر یلدرم کے ساتھ تانگے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔

    دونوں حضرات پیارے صاحب رشید لکھنوی کے گھر پہنچے۔ دورانِ گفتگو اقبال نے اپنی ایک مشہور غزل انھیں سنائی۔ اقبال کی اس غزل کو پیارے صاحب رشید بڑی خاموشی سے سنتے رہے اور کسی بھی شعر پر داد نہ دی۔ جب وہ اپنی پوری غزل سنا چکے تو پیارے صاحب نے فرمایا،

    ”اب کوئی غزل اردو میں بھی سنا دیجیے۔ ” اس واقعے کو علّامہ اقبال اپنے دوستوں میں ہنس ہنس کے بیان کرتے تھے۔

  • یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے جو بلیماران دلّی کے کسی نسیم صاحب نے لکھا ہے۔ اپنے خط میں نسیم صاحب مجھ پر بہت برسے ہیں، خوب گالیاں دی ہیں، ایسی گالیاں جنہیں کھا کر میں بہت بدمزہ ہوا اور باتوں کے علاوہ مجھے انہوں نے گرہ کٹ کا بھائی چور کہا ہے۔

    صرف گالیوں پر اکتفا ہوتا تو شاید میں برداشت کر جاتا، لیکن انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میں کبھی ان کے ہتھے چڑھ گیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔

    نسیم صاحب نے اپنے خط میں بڑے بھاری بھرکم الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کچھ اس وزن کے الفاظ جو عبادت بریلوی صاحب اپنے تنقیدی مضامین میں کیا کرتے ہیں۔ ان کے وزن دار الفاظ سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ پہلوان قسم کے آدمی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسے آدمی کے دل میں میرے لئے پرخاش کا خیال رہے، اس لئے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں۔

    میرا خط پڑھنے سے پہلے نسیم صاحب کی ناراضگی کا پس منظر دیکھ لیجئے۔

    کچھ مہینے پہلے مرزا عبدالودود کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ "گٹھلیوں کے دام” شائع ہوا تھا۔ مرزا اپنی کتاب میرے پاس لائے تھے کہ میں اس پر تبصرہ کردوں۔ وہ تبصرہ دلّی کے رسالہ”گھامڑ” میں شائع ہوگیا، نسیم صاحب نے وہ تبصرہ پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "گٹھلیوں کے دام” مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، چنانچہ بیس روپے میں انہوں نے یہ کتاب خریدی اور جب کتاب پڑھی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ٹھگ لئے گئے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ کتاب پڑھ کر انہیں یوں لگا جیسے کسی نے ان کی جیب کاٹ لی ہو، جس میں بیس روپے تھے۔ اور چونکہ انہوں نے یہ کتاب میرے تبصرہ کی بناء پر خریدی تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس جیب کترے کا رشتہ دار ہوں۔

    نسیم صاحب! آپ کے خط کو پڑھنے سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے کی تمیز تو شاید ہے۔ تبصرہ پڑھنے کی ہرگز نہیں ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ مرزا عبدالودود کی کتاب بالکل واہیات چیز ہے۔ لیکن اگر میں اس طرح لکھتا تو مرزا اسی طرح میرے خون کے پیاسے ہوتے جیسے آج آپ ہیں، اور ماشاء اللہ ان کی صحت آپ کی صحت سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔

    آئیے میں آپ کو تبصرہ پڑھنا سکھاؤں۔ میں نے لکھا تھا کہ "مرزا عبدالودود نے بہت ہی قلیل مدت میں مزاح نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی ہے۔”

    آپ سمجھے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مرزا جب مزاح کے میدان میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے موجود مزاح نگاروں نے اپنی اپنی نشست چھوڑ کر ان کی خدمت میں گزارش کی کہ حضور یہ کرسیاں دراصل آپ ہی کے لائق ہیں۔ تشریف رکھئے۔ نسیم صاحب میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میں نے تو تبصرے کی زبان میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ مرزا نے مزاح نگاروں کی صف میں بالکل ایسے جگہ بنائی ہے جیسے ریل کے ایک بہت ہی بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں ایک نیا مسافر اپنی جگہ بناتا ہے یعنی دروازہ بند پاکر پہلے انہوں نے کھڑکی سے بستر اور صندوق پھینکا پھر اسی رستے خود کود پڑے، بستر کسی کے سر پر پڑا، صندوق نے کسی اور کو زخمی کیا۔ ایک دو مسافر ان کے بوجھ کے نیچے دب گئے۔ ایسا بھونچال آنے پر لوگ خود ہی ادھر ادھر سرک گئے اور اس طرح مرزا نے اپنی جگہ بنالی۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مرزا نے ابھی ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے، اس دشت کی سیاحی کے لئے تو عمر پڑی ہے۔”

    آپ سمجھے میں کہہ رہا ہوں کہ ان کا قدم پڑتے ہی اس دشت میں پھول اگ آئے ہیں۔ جب وہ پوری عمر اس دشت میں قدم رکھے رہیں گے تو یہ دشت نشاط باغ بن جائے گا۔ حضور میرا مطلب یہ نہیں تھا، میں تو مرزا صاحب کو بڑے پیار سے مشورہ دے رہا تھا کہ بھیا اس دشت کی سیاحی کے لئے عمر پڑی ہے ابھی سے اس میں کیوں کود رہے ہو ۔ بیس پچیس سال اور صبر کرو ، جب کوئی اردو پڑھنے والا نہیں رہے گا تو آپ شوق سے اس دشت کی سیاحی پر اترنا تاکہ کوئی آپ کی اس بے راہ روی پر اعتراض نہ کرسکے۔

    میں نے لکھا ہے کہ "مرزا کا لکھنے کا انداز ریسی (RACY) ہے۔”

    آپ نے سمجھ لیا کہ ان کے انداز بیان میں وہی روانی ہے جو ریس کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک خوبصورت ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ تیزی سے منزل تک پہنچنے کی آرزو۔ نہیں صاحب! میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔ ریسی (RACY) سے میرا مطلب گھڑ دوڑ سے ضرور تھا لیکن ان گھوڑوں کی دوڑ سے نہیں جو بمبئی کے مہا لکشمی میدان میں دوڑتے ہیں، بلکہ ان گھوڑوں سے تھا جو تانگوں کے آگے جتے ہیں اور جو سڑکوں پر پیدل اور سائیکل سوار لوگوں کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں، اور اگر اڑ جائیں تو ایسے اڑتے ہیں کہ کوچوان کا چابک بھی انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ ’’کتاب کے تمام جملے مصنّف کی محنت کے آئینہ دار ہیں۔”

    آپ سمجھے میرا مطلب یہ ہے کہ مصنف نے ایک ایک جملے پر وہ محنت کی ہے جو ایک ذہین لڑکا اپنے امتحان کی تیاری میں کرتا ہے تاکہ وہ کلاس میں اوّل آسکے۔ نہیں صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میرا اشارہ اس محنت کی طرف تھا جو ایک دھوبی ایک گندے کھیس میں سے میل نکالنے کی کوشش میں کرتا ہے ۔ یعنی پتھر پر مار مار کر اتنے زور سے مارنے کے باوجود کھیس پھٹ جاتا ہے، پر میل نہیں نکلتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔”

    آپ نے سمجھا کہ یہ کتاب یوں بکے گی جیسے متھرا کے پیڑے یا ناگپور کے سنگترے یا بمبئی کی بھیل پوری۔ نسیم صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ پہلی بات تو آپ یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اردو کی کوئی کتاب ان معنوں میں ہاتھوں ہاتھ نہیں لی جاتی۔ یہ ہمیشہ ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہے ۔ یعنی کتاب کو آپ خود شائع کرتے ہیں اور پھر اسے آپ دوسرے ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ بانٹتے ہیں۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ یعنی وہ بھی آپ کو اپنی کتابیں اسی طرح پیش کریں۔

    جہاں تک مرزا کی کتاب "گٹھلیوں کے دام” کا تعلق ہے، میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا!

    جب میں نے لکھا کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی تو میرا مطلب تھا کہ پبلشر سے یہ کتاب سیدھے ردی والے لے جائیں گے، وہاں سے یہ کتاب حلوائی کے ہاتھ پہنچنے گی اور پھر گاہکوں کے پاس جائے گی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پائے۔ خیر بیس روپے خر چ کرنے کے بعد تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

    آپ نے لکھا ہے کہ میں نے تبصرے میں مرزا کے مضامین میں سے کچھ ایسے فقرے نقل کئے ہیں جو بہت خوب صورت اور معنی خیز ہیں۔ ان سے آپ کو دھوکہ ہوا کہ شاید ساری کتاب ہی خوب صورت ہوگی۔

    ایسے کتنے فقرے میں نے نقل کئے تھے؟ کُل چار۔ اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ ان کو کتاب میں سے ڈھونڈنے میں مجھے کتنی ریاضت کرنی پڑی۔ تقریباً پوری رات میں کتاب کو کھنگالتا رہا تب کہیں جاکر یہ فقرے ہاتھ لگے۔ ویسے ایک گزارش کر دوں کہ دو صفحے کی کتاب میں دو چار جملے اچھے نکل آتے ہیں۔ بھائی جان وہ گھڑی جو کئی سال سے بند پڑی ہو وہ بھی دن میں دو بار صحیح وقت بتا سکتی ہے۔

    آپ کی شکایت ہے کہ میں نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ "میں تمام اردو داں حضرات کو اس کتاب کے مطالعے کی پُر زور سفارش کروں گا۔”

    جی میں نے ضرور لکھا ہے لیکن آپ کو یہ تو دیکھنا چاہیے تھا کہ سفارش کرنے والے کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ میں تو دن میں سیکڑوں لوگوں کو سفارشی خط دیتا رہتا ہوں، کبھی وزیر نشر و اشاعت کے نام، کبھی وزیرِ تعلیم کے نام، کبھی شہر کے میئر کے نام کہ اس کو ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر بنا دو۔ اس کو کالج کا پرنسپل بنا دو، اس محلے میں پانی کا نل لگوا دو۔ لیکن آج تک میرے سفارشی خط والے لوگوں کو کسی نے سرکاری دفتر کے قریب نہیں گھسنے دیا۔ میری سفارش پر لگے ہوئے نل سے کسی نے پانی نہیں پیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے میری سفارش کیوں مان لی۔

    تبصرہ کو جلدی ختم کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ "میں مصنّف اور قاری کے درمیان کھڑا نہیں رہنا چاہتا۔”

    نسیم صاحب! آپ اس کا مطلب یہ سمجھے کہ کتاب اتنی دل چسپ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ قاری جلد سے جلد اس کا مطالعہ شروع کر دے اور اس سے لطف اندوز ہو۔ نہیں جناب میرا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو قاری بھی اس کتاب کو پڑھے گا مصنّف کی گردن پر ہاتھ ڈالنا چاہے گا، اس لئے میں جلد از جلد راستے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔

    اب صرف اتنی سی بات رہ گئی کہ تبصرے اس طرح کیوں لکھے جاتے ہیں کہ آپ جیسا سیدھا سادا قاری ان کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تبصرے کا یہی اصول ہے اور یہ اصول میں نے نہیں بنایا۔ ایک عرض اور کر دوں کہ جب مرزا صاحب اپنی کتاب میرے پاس تبصرے کے لئے لائے تھے تو ساتھ ہی برفی کا ایک ڈبہ بھی لائے تھے۔ برفی بڑی عمدہ قسم کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی خوشبو نے کتاب کے بارے میں میری رائے میں مداخلت کی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اچھے جہیز کے ساتھ ایک معمولی لڑکی ایک اچھی دلہن بن جاتی ہے اور ساس سسر کے علاوہ دولھے میاں کو بھی خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ تبصرہ نگاری میں اگر مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے تو محض برفی کی وجہ سے۔

    امید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تبصرہ کس طرح پڑھاجاتا ہے۔ یقین مانیے بیس روپے میں یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو بندہ معافی کا خواستگار ہے۔

    آپ کا خیر اندیش

    (یہ معروف ہندوستانی مزاح نگار دلیپ سنگھ کا مشہور انشائیہ ہے جس پر انھیں‌ کئی نام ور ادیبوں‌ اور اہلِ‌ قلم نے خاص طور پر سراہا تھا۔ دلیپ سنگھ 1994 میں انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے اپنے اس انشائیہ کو "معذرت نامہ” کا عنوان دیا تھا)