Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    اردو ادب میں باقر مہدی کا نام ایک روایت شکن اور ممتاز نقاد اور بحیثیت شاعر ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہ ایک حد دجہ انا پرست اور درشت مزاج انسان بھی مشہور تھے۔ ہمیں خدائے سخن میر تقی میر کی انا اور خود داری کے چند واقعات بھی ادبی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ تحریر بھی میر کی زندگی اور ان کے ایک کڑے وقت سے متعلق ہے۔

    اردو ادب سے متعلق تحریریں اور اہلِ‌ قلم کے مضامین پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    یہاں ہم میر سے متعلق باقر مہدی کی تحریر کردہ چند سطریں‌ نقل کر کے آگے بڑھیں گے مگر یہ واضح کر دیں کہ یہاں باقر مہدی کی انا پرستی اور مزاج کی سختی کا ذکر میر کی شخصیت کی مناسبت سے کیا ہے۔ مقصود، شاعرِ درد و غم میر تقی میر پر اسلم فرخی کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرنا ہے۔

    آغاز باقر مہدی کی تحریر سے کرتے ہیں جنھوں نے میر کی زندگی کو یوں دیکھا:

    غم کے کیا معنی ہیں؟ بھوک، پیاس، در بدری، معاشی جدوجہد کی مسلسل ناکام کوششیں، ہجرت اور پھر موت کی پیہم خواہش۔ اس لیے نجات کی ساری راہیں عذاب الیم سے ہو کر گزرتی ہیں اور اس سفر کا زاد راہ ’’صبر‘‘ ہے۔ میر کی شعری شخصیت کا پہلا پتھر ’’صبر‘‘ تھا۔ کمسنی میں یتیمی، کم عمری میں تلاش معاش، عزیزوں اور رشتہ داروں کی بے رخی، محسنوں کا قتل اور بار بار سر پر مسلسل آلام کی دھوپ، رات آتی بھی ہے تو ایک عذاب اور ساتھ لاتی ہے…. بے خوابی اور بے قراری۔۔۔ ایک کم عمر لڑکا ان بحرانی حالات میں پڑوان چڑھتا ہے تو اکثر اس کی شخصیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے لیکن میر تو اس برگد کی طرح تھے جس کی شاخیں آندھیوں کو بھی جذب کر لیتی ہیں،

    خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
    بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ

    اسلم فرخی نے لکھنؤ میں میر کے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوش گوار واقعے کو اپنی تحریر میں حوالہ و سند کے ساتھ یوں سمویا ہے: میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

  • تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کی بادشاہت اور ساز و آواز کا صدیوں سے راج رہا ہے۔ یہاں‌ بیسویں صدی کے وسط تک کلاسیکی گائیکی کے میدان میں کئی سریلے اور باکمال ہو گزرے ہیں۔ یہ موسیقار اور گویّے سلاطینِ وقت، نوابوں اور امراء کے درباروں‌ سے منسلک رہے اور عوام میں‌ بھی مقبول تھے۔ انہی میں ایک نام تان رَس کا بھی ہے جو ایک مشہور ہندوستانی گویّے تھے۔

    اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تان رس کا اصل نام قطب بخش تھا، اور تان رس ان کا شاہی خطاب۔ مغل دور کے اس گویّے کا یہ واقعہ ان کے فن و انداز سے متعلق نہیں بلکہ شاہزادوں اور شاہی خاندان کی اہم شخصیات کے ہنسی ٹھٹھے اور اپنے وظیفہ خواروں‌ سے چھیڑ چھاڑ کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ دل چسپ واقعہ مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔ بائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں قلعے میں دیوان عام کے پیچھے زنانہ محل واقع تھا، جس کو بیٹھک کہتے تھے اس کے قریب ایک بڑا حوض تھا جس پر سنگِ سرخ کا قد آدم کٹہرا لگا ہوا تھا۔

    حوض کے ایک طرف کوٹھے اور دوسری طرف میرزا بابر فرزند اکبر شاہ ثانی کی خوبصورت کوٹھی بنی ہوئی تھی اور وہاں سے ذرا ہٹ کر حضرت ابو ظفر ولی عہد بہادر کا محل تھا۔ وہاں تان رسؔ خاں بیٹھے گائنوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جب تعلیم ختم کر چکے تو چلنے کا ارادہ کیا۔ دریچے میں سے دیکھا کہ شاہزادۂ آفاق میرزا بابر بہادر حوض پر کھڑے ہیں اور دو بڑے کتّے جو صورت شکل اور قد و قامت میں مثل شیر کے ہیں، ساتھ ہیں۔

    تان رسؔ خاں ان کتوں کے خوف سے بڑی دیر تک باہر نہ نکلے لیکن جب بہت دیر ہوگئی تو مجبوراً محل سے باہر آئے اور اس زمانے کے قاعدے کے مطابق منہ پر کپڑا ڈال کر میرزا بابر بہادر سے چھپ کے نکلے مگر صاحبِ عالم عالمیاں کی نگاہ پڑگئی اور للکار کر کہا، ’’کیوں بے تینو!‘‘

    انہوں نے فوراً عرض کیا، ’’غریب پرور!‘‘

    صاحبِ عالم نے فرمایا، ’’کیوں صاحب! اب تو تم الگ الگ جانے لگے۔‘‘

    انہوں نے عرض کیا، ’’حضور! فدوی کی کیا مجال، خانہ زاد نے دیکھا نہیں تھا۔‘‘

    فرمایا، ’’ہاں… اچھا!‘‘

    یہ کہہ کر ایک کتّے کو چھچکارا اور دوسرے کو بھی للکارا۔ بس کیا تھا گویا کتّوں کے بدن میں بجلی کوند گئی۔ نہایت اضطراب کے ساتھ ادھر اُدھر پھرنے لگے۔ کتّے آدمی کی باؤلی کھائے ہوئے نہ تھے، ورنہ اس دن موت تو آنکھوں میں پھر ہی گئی تھی۔ آخر کار تان رسؔ خاں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جب جا کر کہیں چھٹکارا ملا اور فرمایا، ’’اچھا جاؤ آئندہ خیال رکھنا۔‘‘

  • دنیا کی کہانی اور تہذیب کا اجالا

    دنیا کی کہانی اور تہذیب کا اجالا

    دنیا کی کہانی میں حضرت آدم ؑ کا زمانہ وہ وقت ہے جب آدمی جانور سے انسان ہوا۔

    سائنس کے پجاری حضرت آدم ؑ کو نہیں مانتے۔ لیکن یہی لوگ جب پرانی قوموں کے عقیدوں اور دھرم کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے بزرگ کا نام ملتا ہے جنہوں نے آدم ؑ کی طرح نیکی اور بدی کا پھل چکھ کر، یونانی سورما پرومے تھیئس کی طرح آسمان سے آگ لاکر اور آدمی کو کھیتی باڑی کا فن سکھا کر، یم کی طرح سورگ کا رستہ تلاش کر کے آدمی اور جانور میں ایسا فرق پیدا کر دیا کہ پھر یہ دونوں ایک سے نہ ہو سکیں۔

    پرانی قوموں کی روایتوں، پرانوں یا دیومالا میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آدمی کو دنیا آباد کیے بہت دن نہیں ہوئے تھے جب ایک طوفان آیا، جس میں تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب ڈوب گئے۔ اگلے وقتوں میں عقل کی دھار اتنی تیز نہیں تھی کہ جہاں پر رکھی جائے وہیں کاٹ دے۔ شاید لوگ اس دھار سے کاٹنے کے علاوہ اور کام بھی لینا چاہتے تھے اور اس لیے ہمیں مذہبی عقیدے اور قصے کہانیاں، تاریخ اور خیالی باتیں سب ایک میں گتھی ہوئی ملتی ہیں۔ یا یہ سمجھیے کہ یہ ایک باغ ہے جسے ہم اتنی دور سے دیکھ رہے ہیں کہ چمن میں چمن، رنگ میں رنگ، پھول میں پھول مل جاتا ہے۔ ان قصے کہانیوں میں کانٹ چھانٹ کرنا بے ادبی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تو بس دیکھیے، لطف اٹھائیے اور سبق حاصل کیجیے۔

    طوفان کی لہروں اور گردابوں میں جب دنیا متھی جا چکی تھی تو زندگی کی اکھڑی ہوئی جڑیں پھر جمنے لگیں اور کہیں کہیں پر خاصی مضبوط جمیں۔ دریائے نیل کی وادی میں، جنوبی عراق میں، ہندوستان میں دریائے سندھ کے کناروں پر اور چین میں دریائے ہوانگ ہو اور انگ ٹسی کیانگ کے دہانوں پر۔ لیکن دنیا کی آبادی بس انہیں بستیوں میں نہیں تھی، ایسی بھی بہت سی نسلیں تھیں جنہیں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملا۔ انہیں خانہ بدوش کہتے ہیں، گویا وہ اپنا گھر کاندھوں پر لادے، مویشیوں کو چراتے گھوما کرتی تھیں۔ جب ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی یا وہ پھرتے پھرتے بڑی بستیوں کے پاس پہنچ جاتیں تو ان میں اور بستی والوں میں، جنہیں وہ ظاہر ہے لوٹنا چاہتے تھے خوب لڑائیاں ہوتیں۔ ان میں آخر کار خانہ بدوش ہی جیتتے تھے۔ وہ بستی والوں کو مار ہٹاتے اور خود ان کی جگہ آباد ہو جاتے۔ پھر تین چار سو برس بعد کسی اور قوم کے ہاتھوں یہ نئی بستی بھی اجاڑ کر نئے لوگوں سے بسائی جاتی۔

    تہذیب کے پرانے مرکز گھڑے بھرپانی میں شکر کے دو چار ڈلے تھے۔ پانی ہلا دیا جاتا تو وہ گھل جاتے، پھر جب وہ ٹھہر جاتا تو شکر بیٹھ جاتی۔ لیکن پانی کو ہلانے والے کچھ نہ کچھ مٹھاس بھی اپنے ساتھ لاتے تھے۔ گھلنے کے بعد جو شکر جمع ہوتی وہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہوتی اور گھڑے کا پانی بھی ذرا اور میٹھا ہی ہو جاتا۔ اس طرح تہذیب پھیلتی رہی۔ عراق، مصر، ہندوستان کے علاوہ بحر روم، جسے انگریزی میں (MEDITERRNEAN SEA) کہتے ہیں، کے ساحل پر فلسطین میں، شام میں، کریٹ کے جزیرے میں، اٹلی کے ضلع ایڑوریا میں، شمالی افریقہ میں آج کل کے شہر تونس کے قریب تہذیب کے مرکز قائم ہوئے۔

    ہمارے عالم ابھی یہ نہیں طے کر پائے کہ مصر کی تہذیب سب سے زیادہ پرانی ہے یا جنوبی عراق کی سو میری تہذیب۔ لیکن یہ دونوں بہر حال آٹھ دس ہزار برس پرانی مانی جاتی ہیں۔ اور ہندوستان کے اندر ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں جن بستیوں کے نشان ملے ہیں، ان میں سب سے پرانی ان سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ مصر کے پرانے شہر تھیبز، ممفس اور ہیلی اوپولس، جنوبی عراق میں بابل اور شمال میں نینوا، کریٹ میں شہر کنوسوس تہذیب کے اس دور میں آباد ہوئے اور سیکڑو ں برس آباد رہے۔

    اب سے کوئی ساڑھے چار ہزار برس پہلے ایک نئی نسل نے جس کا ہمیں نام تک معلوم نہیں ہے اور جو اپنے آپ کو آریہ یعنی پاک یا پوتر کہتی تھی خدا جانے کہاں سے نکل پڑی۔ اس نے جنوبی یورپ، عراق، ایران اور ہندوستان پر قبضہ کیا۔ پرانی تہذیب کو کچھ مٹایا، بہت کچھ اختیار کرکے اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ ہندوستانی، ایرانی، یونانی اور رومی آریہ تھے تو سب ایک ہی خاندان کے لوگ، مگر سب نے الگ الگ طبیعت اور مزاج پایا تھا اور سب نے دنیا میں مختلف یادگاریں چھوڑیں۔ آریوں کاسب سے پہلا سامراج ایران میں قائم ہوا اور شام سے لے کر ہمارے دریائے سندھ تک پھیلا۔ پھر اسے یونانی آریوں کے مشہور بادشاہ سکندر نے مٹایا اور اسی کے تھوڑے دن کے بعد ہندوستان میں موریا سامراج کی بنیاد پڑی۔

    یہ ادھر ختم ہوا تھا کہ مغرب میں رومی سلطنت کا ستارہ چمکا۔ اسی زمانے میں نئی خانہ بدوش نسلوں نے منگولیاں کی چراگاہوں سے نکل کر ذرا سی مدت میں ہندوستان، ایران، ترکی اور مشرقی یورپ کو برباد اور پھر آباد کیا۔ یہ ہیں شروع سے حضرت عیسیٰؑ کے زمانے تک کی تاریخ کی موٹی موٹی باتیں۔ اب آئیے اسی زمانے پر دوسرے پہلو سے نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان چھ سات ہزار برس میں انسان نے کتنی ترقی کی۔

    جدید پتھر کا زمانہ ۸۰۰۰ ق م

    پہلے مکان بنے ۷۰۰۰ ق م

    سومیری تہذیب کی ابتدا ۶۰۰۰ ق م

    سومیریوں نے لکھنا شروع کیا۔ مصر کا پہلا شاہی خاندان ۵۰۰۰ ق م

    موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے پہلے شہر بنے۔ فونیقی تہذیب کا آغاز

    پہلے جہاز بنے ۳۰۰۰ ق م

    عراق، مصر، ہندوستان اور بحر روم کے ساحل پر شہری زندگی، فونیقی تجارت کے ساتھ وہ ابجد پھیلی جو انہوں نے عراقی،، مصری طرز تحریر کو ملا کر تیار کی تھی۔

    آریہ زبانیں پھیلیں ۲۰۰۰ ق م

    ایران، ہندوستان اور یونان میں آریہ مذہب اور تہذیب کی بنا۔ فونیقی تہذیب کا خاتمہ۔ ایرانیوں اور یونانیوں کی جنگ ۵۰۰ ق م

    سکندر اعظم ۳۲۰ ق م

    ہم جسے تہذیب کہتے ہیں اس کے معنی ہیں دین ایمان کے، دھرم، قانون اور علم کے سائے میں اپنی زندگی بسر کرنا، اپنی محنت سے اس زندگی کو سرسبز رکھنا، نیک حوصلوں سے اس کو رونق دینا اور صنعت و تجارت کے ذریعہ سے وہ چیزیں حاصل کرنا جن سے آرام پہنچتا ہے یا جن کی خوبصورتی دل کو خوش کرتی ہے۔ ہر قوم اپنی زندگی اپنی طبیعت اور مذاق کے ڈھنگ پر بناتی ہے اور سنوارتی ہے، مگر پھر بھی آدمی تو ہر جگہ رہتا ہے اور اگر نام اور چند خصوصیات کا پردہ ہٹا دیا جائے تو ہمیں ہر جگہ قریب قریب ایک ہی سی زندگی نظر آئے گی۔ مصر، سومیریا، بابل، قدیم ہندوستان اور ایران میں مذہب امید اور خوف کی وہی دورخی تصویر تھی، اس میں ان قوتوں سے لگاؤ بڑھایا جاتا تھا جو زندگی کو قائم رکھتی اور اسے پروان چڑھاتی ہیں۔

    ان قوتوں کو رام کرنے کی فکر کی جاتی تھی، جن سے نقصان اور موت کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن آدمی ان قوتوں کو پوری طرح جانتا پہچانتا نہیں۔ وہ اتنی بڑی ہیں اور اسے ہر طرف سے اس طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ اس کی عقل حیران رہتی ہے۔ وہ انہیں طرح طرح کی شکلوں میں تصور کرتا ہے، طرح طرح کے نام دیتا ہے اور جس بات کو وہ صاف صاف کہہ نہیں سکتا اس لیے کہ وہ صاف صاف سمجھتا نہیں، اسے وہ ایک کہانی بنا دیتا ہے۔ پرانی قوموں کی دیو مالا میں ہزاروں ایسی کہانیاں ہیں اور ایسی ملتی جلتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کی الگ الگ کوششیں ہیں۔

    مذہب کے اس شاعرانہ پہلو کے ساتھ ہمیں ہر جگہ دھرم اور قانون بھی شروع ہی سے ملتے ہیں اور انہیں آپ دیکھیے تو وہ آج کل کے قانون سے بہت مختلف نہیں، بلکہ بعض باتوں میں آج کل سے بہتر بھی ہیں۔ مصر میں اوسی رس اور اس کے بعد کئی بادشاہوں نے، بابل میں شاہ ہموربی نے، یہودیوں کے لیے حضرت موسیؑ نے، کریٹ کے جزیرے میں مینوس نے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی یعنی سماجی قانون بنائے۔

    شاہ ہموربی کا قانون ایک پتھر پر نقش کیا ہوا ملا ہے۔ اس میں بعض جرم جیسے چوری، ایسے ہیں جن کی سزا آج کل بہت سخت معلوم ہوتی ہے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ ہم ترقی کرکے بھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مثلا یہ کہ شہر میں کسی کے یہاں ڈاکہ پڑے تو حکومت کا فرض ہے کہ مجرم کو پکڑ کر مال واپس پہنچائے یا اپنے پاس سے نقصان پورا کرے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو بہت آزادی تھی، ان کے حق مردوں سے کسی طرح کم نہ تھے۔ ان کو جائیداد اور ورثے میں حصہ ملتا تھا۔ وہ کاروبار کر سکتی تھیں اور کرتی تھیں۔ اور مصر کی ملکہ ’’ہتھ سے پت‘‘ اور ملکہ تئی اور بابل کی ملکہ سمیرمس کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں عورتیں راج پاٹ کی اہل مانی جاتی تھیں۔

    مصری قصوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنی عورتوں سے ڈرتے اور دبتے تھے، اور یہ خیال صحیح نہ ہو تب بھی ہم یہ تو جانتے ہیں کہ مصر اور بابل میں عورتیں شادی کے بعد شوہر کی ذات یا اس کے خاندان میں گم نہیں ہو جاتی تھیں، بلکہ ان کا اصل رشتہ اپنے ماں باپ ہی سے رہتا تھا اور وہ آسانی سے طلاق لے سکتی تھیں۔

    قانون کے بعد ہم اس زمانے کی زندگی اور شعبوں کو دیکھیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ مصر اور بابل میں حکومت کی طرف سے آب پاشی کا پورا انتظام تھا۔ دریاؤں سے نہریں کاٹ کاٹ کر دور تک پانی پہنچایا گیا تھا اور سیلاب اور بارش کے پانی کو جمع رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنے تھے۔ جان و مال کی حفاظت کو ہر بستی میں پولس اور شہروں میں فوج تھی۔ اور ہم تک مصر اور بابل کے کئی ایسے قصے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ خود قاعدے اور قانون کا بہت لحاظ کرتے تھے اور سرکاری ملازموں کو ظلم و زیادتی سے روکتے رہتے تھے۔ مقدموں کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالتیں موجود تھیں اور ان کا مرتبہ ایسا تھا کہ وہ اپنا فرض خوبی سے انجام دی سکتی تھیں۔

    قانون اور ملکی انتظام کی طرح اس علم کی، جس پر ہم ناز کرتے ہیں اسی زمانے میں داغ بیل ڈالی گئی۔ مصر اور بابل میں لکھنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ بابل والے مٹی کی تختیاں بناکر جب وہ گیلی ہوتیں اسی وقت ان پر ایک نکیلے اوزار سے گڑو گڑو کر لکھتے تھے، پھر ان تختیوں کو سکھا لیتے۔ جیسا ان کا کاغذ قلم تھا ویسا ہی ان کا خط بھی تھا، اور بابل میں تو خط و کتابت کی رسم بھی جاری تھی اور لوگ انہی تختیوں کو مٹی کے ڈبوں میں بند کر کے ڈاکیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے پاس بھیجتے تھے۔ لکھنے کے اس طریقے میں بڑی طوالت تھی۔

    مصر میں ایک قسم کی نرم تنے کی بانسی ہوتی تھی جسے پپی رس کہتے ہیں، اس کی چھال سے آسانی کے ساتھ ایک طرح کا کاغذ تیار کیا جا سکتا تھا۔ مصری شروع میں تو جس چیز کا ذکر کرنا ہوتا اس کی تصویر بناتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ انہی تصویروں سے ایک ایسا لکھنے کا طریقہ نکالا گیا جس میں آدمی جلدی اور صفائی سے اپنا مطلب ادا کر سکتا تھا۔ بابل اور مصر کی کوششوں سے فائدہ اٹھاکر ایک قوم نے جو فونیقی کہلاتی ہے، پورے پورے لفظوں کی جگہ الگ الگ حرف بنائے جن میں سے ہر ایک کسی خاص آواز کی علامت تھی۔ فونیقی تاجر تھے، انہوں نے تجارت کے ساتھ لکھنے کے اپنے خاص طریقے کو پھیلایا اور چینی اور جاپانی کے سوا دنیا میں جتنی زبانیں ہیں ان سب میں یہی حرف شکلیں بدل کر اور کچھ کمی بیشی کے ساتھ رائج ہوئے۔

    لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور علم بھی تھے جو اس زمانے میں حاصل کیے گئے۔ وقت کو سالوں میں، سال کو مہینے اور ہفتے، دن کو پہروں میں سب سے پہلے بابل والوں نے تقسیم کیا اور دھوپ گھڑی سب سے پہلے انہی نے بنائی۔ ستاروں اور برجوں کے نام انہی نے رکھے اور شبھ گھڑی نکالنے اور ستاروں سے فال دیکھنے کی رسم انہوں نے شروع کی، مصریوں نے جنتری بنائی، اورحساب اور اقلیدس یا (GEOMETRY) میں انہوں نے جو کمال حاصل کیا اس کے ثبوت کے لیے اہرام مصر یعنی PYRAMIDS موجود ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا ہے وہ سیکڑوں من وزنی پتھروں سے بنا ہے جن کی کل تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہوگی۔

    یہ پتھر بغیر چونے مسالے کے ایسی صفائی سے بٹھائے گئے ہیں کہ ان کے جوڑ مشکل سے دکھائی دیتے ہیں اور ہزاروں برس میں اپنی جگہ سے رتی بھر بھی نہیں سرکے ہیں۔ یہ عمارت نیچے ۷۴۸ فٹ مربع ہے اور اونچائی میں ۴۴۰ فٹ یعنی قطب مینار سے کوئی دو سو فٹ زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے ان وزنی پتھروں کو کاٹ کر اور تراش کر اتنی بلندی پر پہنچایا وہ اناڑی نہیں تھے اور ان کی اس یادگار کو دیکھ کر ہمیں اپنے علم پر زیادہ گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ بابل میں بھی ایسی ہی ایک اونچی اور عالیشان عمارت تھی، مگر آسمان نے اس کی بلندی پر رشک کھا کر اسے زمین میں سے ملا دیا۔

    جہاں ایسی عمارتیں بنائی جا سکتی تھیں وہاں سمجھیے خوبصورت شہر اور مکان بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مصر، عراق، کریٹ اور ہمارے ہندوستان کے اندر موہنجوڈارو اور ہڑپہ میں شہر کے شہر زمین سے کھود کر نکالے گئے ہیں۔ ان کے کھنڈروں سے ہم اس رونق کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے جو زندگی اور آبادی کے ساتھ آتی اور جاتی ہے، مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شہر پھیلاؤ میں آج کل کے قصبوں سے کچھ کم نہیں، مکان اینٹ اور چونے کے بنے ہوئے اور تین تین چار چار منزل اونچے ہیں۔ سڑکیں چوڑی ہیں اور گندے پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہے۔

    اب اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ نہایت ہی شائستہ تھے۔ ان کھنڈروں میں ہمیں بہت ہی خوش نما برتن اور زیور ملے ہیں اور جس طرح آج کل ایک ملک کی بنی ہوئی چیزیں دوسرے ملکوں میں پہنچتی ہیں ویسے ہی اس وقت بھی ایک جگہ کی چیزیں دوسری جگہ جاتی تھیں اور ایک جگہ کے فیشن اور رسم کی دوسری جگہ نقل کی جاتی تھی۔ ریل اور ہوائی جہاز نہ ہونے پر بھی اس زمانے کی دنیا تنگ یا چھوٹی نہیں تھی۔
    سب سے زیادہ تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہم مورتوں اور تصویروں میں اس زمانے کے لوگوں کی صورتیں دیکھتے ہیں اور ان کی صحبتوں اور دلچسپیوں کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ عراق، مصر اور کریٹ کے لوگوں نے بس یہی نہیں کیا کہ ایسے قانون اور زندگی کے ایسے اصول بنائے جن سے ان کی تہذیب مدتوں قائم رہی یا علم اور فن کو ایسے درجے پر پہنچایا کہ ان کے کارنامے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیں۔

    زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا انہوں نے ایسا انتظام کر لیا تھا کہ انہیں اپنی معاشرت کو طرح طرح کی نفاستوں سے سنوارنے کا موقع تھا، ان کی صورتوں سے شائستگی ٹپکتی تھی، وہ مہذب میل جول کے آداب سے واقف تھے، ان کی عورتوں نے وہ تمام ترکیبیں معلوم کر لی تھیں جن سے ناک نقشے یا ڈیل ڈول کی کسر پوری کی جاتی ہے اور آرائش کے اس فن کے قدردان بھی کم نہ تھے۔ دریا اور باغوں کی سیر، دعوتیں، محفلیں، یہ سب روزمرہ کی باتیں تھیں۔ اہل فن کی قدر، پردیسیوں کی خاطر مدارات، محتاجوں کی مدد، اس میں ہم آج تک کوئی ایسا ڈھنگ نکال نہیں سکے جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ تہذیب کا اجالا جیسا اب ہے ویسا ہی کچھ تب بھی تھا۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر اور ماہر تعلیم محمد مجیب کا علمی و تحقیقی مضمون)

  • عزیز احمد کی مدیر نقوش سے سودے بازی

    عزیز احمد کی مدیر نقوش سے سودے بازی

    ایک زمانہ تھا جب بغرضِ بیانِ حالِ دل، اور شکوہ و شکایت عام آدمی سے لے کر مشاہیر تک خط یا مکتوب نگاری کا سہارا لیتے تھے۔ ادب اور فنون کی دنیا سے وابستہ شخصیات اور اداروں کے درمیان بھی یہی نامے رابطہ و تعلق برقرار رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔

    سرحد پار یا ملک کے کسی بھی شہر سے تخلیق کار اشاعتی اداروں کے پتے پر خط ارسال کرکے اپنے مدیر یا ناشر سے بات کرتا تھا۔ یہ تحریر اسی دور کے ایک مشہور ادبی رسالہ کے مدیر اور ایک نام ور ادیب کے درمیان کچھ نرم گرم اور بنتے بگڑتے تعلق کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے….

    عزیز احمد اردو ادب کی ایک مشہور و ممتاز شخصیت کا نام ہے۔ یہ جب جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں زیر تعلیم تھے تب ہی سے شعر و ادب سے وابستگی کا ثبوت دینے لگے تھے۔ عزیز احمد صرف فکشن ہی میں ممتاز نہ تھے بلکہ وہ ایک کام یاب منفرد شاعر بھی تھے۔

    عزیز احمد کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ انھوں نے زندگی کے ایک ایک لمحے کی اہمیت محسوس کی۔ جم کر لکھا اور خوب لکھا۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کے خالق کے نشیب و فراز کی داستان ان کے خطوط سے جھانکتی دکھائی دیتی ہے جو انھوں نے مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کے نام لکھے ہیں۔

    ’’نقوش‘‘ کوئی سرکاری رسالہ نہیں تھا اس کے باوجود وہ اپنے لکھنے والوں کو ان کی تحریروں کا معاوضہ بھی پیش کرتا تھا۔ ویسے ’’نقوش‘‘ایسا معیاری رسالہ تھا کہ لکھنے والے اس میں اپنی تخلیقات کے چھپ جانے ہی کو بہت بڑا انعام سمجھتے تھے۔ نقوش کے معیاری ضخیم نمبر تاریخی و دستاویزی حیثیت کے حامل شمار ہوتے ہیں جیسے ادبی معرکے نمبر، رسول نمبر، خطوط نمبر، افسانہ نمبر، ناولٹ نمبر وغیرہ وغیرہ۔ خود محمد طفیل نے ’’جناب‘‘ اور ’’صاحب‘‘ وغیرہ کے عنوان سے اہم شخصیات پر دلچسپ خاکے بھی لکھے ہیں۔

    عزیز احمد نے مدیر ’’نقوش‘‘سے اپنی تحریروں کے معاوضے کے سلسلے میں جو سودے بازی کی ہے وہ چونکاتی ہے۔

    محمد طفیل نے ادارہ ’’نقوش‘‘سے مشہور ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ چھاپا تھا۔ در اصل انھوں نے ’’سلسلۂ روحِ ادب‘‘ کے تحت کلاسیکی ادبی سرمائے کی نشاۃِ ثانیہ کا بیڑہ اٹھایا تھا جو کافی مقبول ہوا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:

    ’’بہرحال آپ نے یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے تو اردو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔ اسے World’s Classic کی طرح جاری رکھیے۔ ایک اور بڑا بے مثل ناول ’’نشتر‘‘ ہے جو امراؤ جان ادا سے بھی پہلے لکھا گیا اور جس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا جا سکتا ہے۔ آپ کہیں تو اسے Edit کر کے مقدمے کے ساتھ آپ کے پاس بھیج دوں، مقدمہ، Editing وغیرہ کا جملہ معاوضہ مجھے دو سو روپے 200/- دینا ہو گا جو ایسا زیادہ نہیں ہے۔ اور بھی اس سلسلے میں کیا پروگرام ہے؟

    اگر میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو حاضر ہوں۔

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۲۶، فروری ۱۹۵۰ء ) تحقیق نامہ جی سی یونیورسٹی‘‘لاہور)

    اس عرصے میں عزیز احمد کا ایک مضمون اور ایک افسانہ ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ مگر محمد طفیل صاحب کی طرف سے ان کا معاوضہ بھیجنے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ چنانچہ کراچی سے عزیز احمد انھیں لکھتے ہیں:

    مکرمی جناب طفیل صاحب

    آپ نے اب تک مضمون وغیرہ کے معاوضے کے 65/- روپیے نہیں بھیجے۔ ’’نشتر‘‘ پر میں نے کافی کام شروع کر دیا ہے۔ دو ہفتے میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۲۴، اپریل ۱۹۵۰ء )

    اس دوران عزیز احمد کا تبادلہ کراچی سے راولپنڈی ہو گیا۔ وہاں سے انھوں نے مدیر ’’نقوش‘‘ کے نام خط لکھا:

    مکرمی طفیل صاحب تسلیمات

    نقوش کا نیا پرچہ دیکھنے کو ملا۔ خود مجھے نہیں ملا۔ شاید اس لیے کہ میں تبادلہ ہو کے راولپنڈی آ گیا ہوں۔ ایک پرچہ روانہ فرمائیں اور نیز معاوضہ چالیس 40/- روپے بھی۔۔۔۔

    ’’نشتر‘‘ مع اصلاح و دیباچہ کب تک مطلوب ہے تحریر فرمائیے

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۱۷، جولائی ۱۹۵۰ء )

    اپنی تحریر کے معاوضے کے لیے وہ اس قدر اتاؤلے ہو رہے تھے کہ پانچ دن بعد اک اور خط لکھا:

    مکرمی جناب طفیل صاحب تسلیمات عرض ہے۔

    گرامی نامہ ملا۔ براہ کرم آپ چالیس 40/- روپیہ مجھے خود براہ راست فوراً بھیج دیجیے۔ آپ کے کراچی کے آفس کو میرا پتہ نہیں معلوم ہے، اس کے علاوہ میں معاوضے میں تاخیر نہیں چاہتا۔ میرا دوسرا افسانہ ’’آخر کار‘‘ آپ بلا معاوضہ قطعاً نہیں شائع کر سکتے۔ میں اتنی رعایت کر سکتا ہوں کہ بجائے چالیس 40/- کے اس کا معاوضہ آپ سے تیس 30/- روپیہ لوں۔ اس سے زیادہ رعایت نہیں ہو سکتی۔ یہ منظور نہ ہو تو افسانہ مجھے فوراً واپس بھیج دیں۔ تقاضہ اور تکرار خوشگوار چیز نہیں۔

    ’’نشتر‘‘ عنقریب تیار ہو جائے گی۔ مگر یہی خیال رہے کہ اس کا معاوضہ فوراً مل جائے۔‘‘

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ۲۱، جولائی ۱۹۵۰ء )

    ادبی دنیا میں ’’نقوش‘‘ کا معیار و مرتبہ مسلمہ تھا۔ محمد طفیل کی اپنی ادبی شناخت بھی مسلمہ تھی۔ انھوں نے عزیز احمد کے افسانے کا معاوضہ ادا کرتے ہوئے ان کا دوسرا افسانہ واپس کر دیا اور ’’نشتر‘‘ شائع کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تب شاید عزیز احمد کو کچھ احساس زیاں ہوا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

    مکرمی جناب طفیل صاحب تسلیمات عرض ہے۔

    چالیں 40/- روپیہ اور ’’آخر کار‘‘کا مسودہ واپس مل گئے۔ بہت بہت شکریہ۔ ’’نشتر‘‘ کی حد تک مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن جو آپ کی مرضی۔ اس کا شائع ہو جانا ہی میرے لیے ایک طرح کا انعام اور معاوضہ ہے۔ اس کا دیباچہ میں لکھ چکا تھا۔ لیکن خیر۔ اور کوئی کام اگر میرے لائق ہو تو پس و پیش نہ کیجیے گا۔ معاوضہ کا معاملہ البتہ بالکل کاروباری قسم کا ہونا چاہیے۔‘‘

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ۱۰، اگسٹ ۱۹۵۰ء )

    اسی زمانے میں جلال الدین احمد تین نئے ناول کے عنوان سے قسط وار ایک ایک ناول کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے۔ جس کی دوسری قسط قرۃ العین حیدر کے ناول ’’میرے بھی ضم خانے‘‘(مطبوعہ مکتبۂ جدید لاہور ۱۹۴۹ء ) پر مشتمل تھی جو ’’نقوش‘‘ کے سالنامہ (دسمبر ۱۹۵۰ء ) میں شائع ہوئی۔ تیسری قسط، اعلان کے مطابق عزیز احمد کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ پر شائع ہونے والی تھی۔ چنانچہ عزیز احمد نے محمد طفیل کو لکھا:

    جناب طفیل صاحب، اسلام علیکم

    نقوش کا سالنامہ ملا۔ بہت پسند آیا۔ آپ کو اور وقار صاحب کو مبارک ہو۔ احمد ندیم قاسمی کی کہانی بہت خوب ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ان کی بہترین کہانی ہے۔ نقوش کا اس طرح ناغہ نہ کیا کیجیے۔ پابندی سے شائع ہو تو رسالہ کا مارکیٹ بندھا ہوا رہتا ہے۔ اور کوئی خدمت میرے لائق ہو تو تحریر فرمائیں۔ ’’نقوش‘‘ کے آئندہ نمبر میں جلال الدین احمد کے مضمون کی تیسری قسط کا انتظار رہے گا جو غالباً میرے ناول پر ہے۔۔۔۔

    فقط عزیز احمد (خط جنوری ۱۹۵۱ء)

    اس سالنامے کے بعد محمد طفیل ’’نقوش‘‘ کا ایک ’’ناولٹ نمبر‘‘ شائع کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے عزیز احمد سے بھی لکھنے کی فرمائش کی۔ جواباً عزیز احمد نے جو شرائط پیش کیں وہ ان کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں:

    مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ تسلیمات عرض۔

    میں ضرور آپ کے ناولٹ نمبر کے لیے ایک طویل مختصر افسانہ لکھنے کو تیار ہوں بشرطے کہ: (۱) اس کی ضخامت ’’نقوش‘‘ کے تیس ۳۰ صفحے کے لگ بھگ ہو گی نہ کہ ساٹھ صفحے۔ نقوش کے ساٹھ صفحے چھوٹی تقطیع (کذا) کے ۱۲۰ صفحوں سے بھی زیادہ ہو جائیں گے جن کا معاوضہ مجھے عام طور پر ہزار روپیہ ملا کرتا ہے۔

    (۲) اس کو آپ نقوش میں تو شائع کر سکیں گے۔ نقوش ہی کے دوسرے ایڈیشن میں بھی اسے شامل کر سکیں گے لیکن اسے کتابی صورت میں نہ شائع کر سکیں گے۔

    (۳) اس کا معاوضہ دو سوروپے 200/- مسودہ ملتے ہی مجھے ارسال فرما دیں گے۔

    اگر یہ منظور ہو تو فروری کے ختم تک انشاء اللہ طویل مختصر افسانہ یا ناولٹ بھیج دوں گا۔۔

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۲۵، جنوری۱۹۵۱ء )

    مدیر ’’نقوش‘‘ نے ناولٹ کے لیے دوسو روپے 200/- ادا کرنے کی ہامی بھر لی تھی مگر نقوش کے تیس صفحات کے بجائے ساٹھ صفحات پر مشتمل ناولٹ پر اصرار کیا تھا۔ چنانچہ عزیز احمد انھیں خط لکھتے ہوئے تیقن دلاتے ہیں:

    ’’ناولچہ میں ضرور لکھ دوں گا اور کوشش کروں گا کہ پچاس ساٹھ صفحے کا ہو مگر اس کا معاوضہ وہی ہو گا جو آپ خود متعین کر چکے ہیں یعنی محض نقوش کے ایک یا ایک سے زیادہ ایڈیشن کے لیے دوسو روپے 200/- اس میں کمی کا امکان نہیں۔ اور کوئی خدمت!

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ۳۰، جنوری۱۹۵۱ء )

    شاید اس دوران مدیر نقوش کی طرف سے یاد دہانی کرائی گئی تھی۔ عزیز احمد نے بڑے دو ٹوک انداز میں محمد طفیل صاحب کو خط لکھا:

    مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ سلام علیکم۔

    گرامی نامہ کا شکریہ۔ آپ کو ناولٹ ’’نقوش‘‘ کے لیے مل جائے گی اور مجھے دوسو روپیہ معاوضہ جو خود آپ کا تجویز کیا ہوا ہے۔ اس لیے بحث ختم۔۔ ناولٹ نمبر ہی میں جلال الدین احمد کے بقیہ مضمون کو بھی شامل فرما دیجیے جو ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘پر ہے۔ اور سب خیریت ہے۔

    فقط عزیز احمد (خط مورخہ۶، فروری ۱۹۵۱ء )

    مگر اپریل ۱۹۵۱ء تک بھی عزیز احمد ناولٹ لکھ نہ سکے۔ حالانکہ ۲۵، جنوری ۱۹۵۱ء کے اپنے خط میں اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے انھوں نے فروری کے ختم تک ناولٹ بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ محمد طفیل کو لکھتے ہیں:

    مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔

    گرامی نامہ کا شکریہ۔ ناولچہ نہ بھیج سکنے کا افسوس ہے لیکن میں نے آپ سے حتمی وعدہ تو نہیں کیا تھا۔ کو شش کرنے کے لیے لکھا تھا۔ باوجود کوشش کے میں اس کی تکمیل نہ کر سکا اور نہ مستقبل قریب میں اس کے مکمل ہو سکنے کی کوئی توقع ہے۔ بتائیے میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے کوشش تو بہت کی کہ آپ کی فرمائش کی تکمیل کروں۔ لیکن کام کی چیز لکھنے کے لیے وقت درکار ہے اور وقت آپ نے ہمیشہ بہت کم دیا۔ اگر آپ نے بجائے فروری کے مجھے آخر اپریل تک شروع ہی میں مہلت دی ہوتی تو بہت اچھا ناولٹ اب تک تیار ہو گیا ہوتا۔ اب آپ کا جی چاہے تو میرا انتظار کیے، بغیر ناولٹ نمبر شائع کر دیں۔ یا مجھے کم از کم ایک ماہ کی مہلت دیں۔

    مخلص۔ عزیز احمد (اس خط پر تاریخ درج نہیں ہے مگر قرائن سے یہ اوائل اپریل۱۹۵۱ء کا لگتا ہے )

    مئی ۱۹۵۱ء میں ’’نقوش‘‘ کا ناولٹ نمبر شائع ہو گیا۔ رقمی معاوضے کے علاوہ اب عزیز احمد اس پر اصرار کرنے لگے کہ ان کے ناول کے بارے میں جلال الدین احمد کا لکھا ہوا مضمون ’’نقوش‘‘میں شائع کیا جائے۔ ان کا ایک خط بڑا حیران کن ہے:

    مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ تسلیمات عرض

    آپ سے ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے۔ جلال الدین احمد کے مضمون تین نئے ناول’’ کے دو حصے تو آپ نے شائع کیے لیکن تیسرا حصہ جو ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کے متعلق تھا آپ نے اب تک شائع نہیں کیا۔ اس ناراضی کا باعث کیا ہے؟ یہ حصہ شائع ہو لے تو پھر میں بھی ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ لکھوں گا اور پہلی چیز جو میں آپ کے لیے لکھوں گا بلا معاوضہ ہو گی لیکن اس کے لیے مجھے جلال الدین کے مضمون کا انتظار رہے گا۔ جنھیں خود شکایت ہے۔

    کم ترین۔ عزیز احمد (خط مورخہ۶، جنوری ۱۹۵۲ء )

    ایک عرصے تک عزیز احمد نے ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ نہیں لکھا۔ ایسا لگتا ہے اندر اندر وہ مدیر ’’نقوش‘‘سے خفا خفا سے تھے۔ ان کی فرمائش کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:

    مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ السلام علیکم۔

    آپ کے دو خط ملے ایک شکایت کا دوسرا میرے خط کے جواب میں۔ میں آپ کو مضمون یا افسانہ ضرور بھیجوں گا۔ اس کا حتمی وعدہ کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ پہلے آپ ’’ایسی بلندی ایسی پستی ’’پر جلال الدین احمد والا مضمون شائع کریں۔ آخر آپ نے مجھ سے یہ امتیاز کیوں برتا؟ اگر مجھ سے ’’نقوش‘‘ کے لیے لکھنے میں تاخیر ہوئی تو احسن فاروقی اور قرۃالعین نے اتنا بھی نہیں لکھا جتنا میں نے لکھا۔ اگر آپ اب تک ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ نہ بھیجنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو عرض ہے کہ وجہ محض یہی تھی کہ آپ نے ایک مضمون کا محض وہ حصہ شائع کرنے سے اجتناب کیا جو مجھ سے متعلق تھا اور یہ تضاد میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو مجھ سے مضمون کا تقاضہ اور اخلاص کا دعویٰ اور دوسرے میرے ہی خلاف ایسا امتیازی سلوک! اس لیے میں آپ کو ایک نہیں کئی مضامین یا افسانے بھیجنے کو تیار ہوں جن میں سے صرف پہلا بلا معاوضہ ہو گا لیکن اگر آپ کو اپنے اخلاص کا دعویٰ سچا نظر آتا ہے تو آپ کو بھی میرے خلاف یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا اور اب یہی صورت ہو سکتی ہے کہ پہلے آپ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ والا مضمون شائع فرمائیں۔ میں اس کو پڑھ لوں۔ اس کے بعد کے شمارے کے لیے افسانہ یا مضمون بھیجنے کا میرا حتمی اور پکا وعدہ ہے۔ مجھے نقوش سے کوئی بیر نہیں۔ ہمدردی ہے کیونکہ آپ اس ناموافق زمانے میں اتنی گراں قدر ادبی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

    مخلص۔ عزیز احمد (خط مورخہ فروری ۱۹۵۲ء )

    عزیز احمد حکومت پاکستان کے Department of Advertising, Films and Publications میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور پھر ڈائریکٹر ہو گئے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں یعنے آج سے ساٹھ برس پہلے کے تیس چالیس روپے آج کے تیس چالیں ہزار روپیوں کے برابر تھے۔ ایک ناولٹ کے لیے عزیز احمد کا دو سو روپے طلب کرنا گویا دو لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا ہے۔ مدیر ’’نقوش‘‘ کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنے لکھنے والوں کو ایسی کثیر رقم بطور معاوضہ دینے پر قادر تھے۔

    عزیز احمد کو روپے پیسے کی کبھی کمی نہیں رہی۔ حیدرآباد میں وہ بادشاہ کی بہو در شہوار کے پرائیوٹ سکریٹری رہے جو بہت با عزت منصب تھا۔ پاکستان میں بھی وہ اہم عہدوں پر اچھے خاصے مشاہرے کے حامل رہے۔ اس کے باوجود وہ اگر مدیر نقوش سے سودے بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دراصل وہ اپنے قلم کی اہمیت جتانا چاہتے تھے۔

    (ماخوذ از مشاہیر…. خطوط کے حوالے سے (تنقیدی مضامین) مصنفہ رؤف خیر)

  • جواب اس کا کون دے؟

    جواب اس کا کون دے؟

    تقسیمِ ہندوستان کا اثر اردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

    ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو دیس نکالا دیا گیا۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری مہاجرہ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں۔ پنجاب میں پنجابی ہے، سندھ میں سندھی ہے، سرحد میں پشتو ہے، بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی۔ اسی لیے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکا اور وہ مجبوراََ سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیے۔۔۔۔۔۔

    ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں۔ بہت پرانی ہے جب سے قلعۂ معلّی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے۔ ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر، حضرت شیفتہ، حضرت انیس، حضرت انشا شاعری فرماتے تھے۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی، جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ اور لوچ عطا کیا جو قیصر باغ میں جوان ہوئی۔۔۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازاروں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میر جیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا۔ ان ترقی پسندوں نے جو کچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف تو پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔

    واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیا ہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے، نہ وہ ضلع جگت۔ نہ وہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے، نہ سعادت علی خان کے ادبی دربار رہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں۔ ہائے ہائے حضور۔ اب تو اہلِ فن اٹھ گئے۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔

    دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ مگر نیرنگیِ زمانہ کی بابت کیا کہیے کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔ اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے۔

    ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا یہ صنفِ نازک ہے۔ صنفِ نازک۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے؟

    جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے (ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے، محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیے تو پھر اس کے خد و خال بگاڑنے شروع کیے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا۔ جھوٹا مسالہ کھوٹا کام۔ اجی قبلہ و کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی، امرا کی زندگی۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟

    اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز، بے سرے، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔

    اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مر گئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ وہی زبان آج لٹی ہاری، نوچی کھسوٹی، ژولیدہ زلفیں لیے یوں چوراہے پر کھڑی ہے۔

    آج میر و غالب، مومن و سودا، انیس و دبیر، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہوں گی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟

    (اردو کے ممتاز ادیب، مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب پبلک سیفٹی ریزر سے ایک تحریر)

  • فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض صاحب کی شخصیت آہستہ آہستہ پاکستانی ادب اور تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان بنتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، اسی لیے ایک شاعر کی حیثیت سے، ایک نثر نگار کی حیثیت سے، ایک صحافی کی حیثیت سے، ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے، ایک ڈاکیومنٹری اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے، ایک استاد کی حیثیت سے، ایک دانشور کی حیثیت سے، ایک ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عہد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

    فیض صاحب کی بہ حیثیت صحافی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے ایک رفیقِ کار اور پاکستان میں انگریزی صحافت کی ایک اہم شخصیت احمد علی خان نے لکھا:

    ’’فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابلِ ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ ڈان، دہلی سے نکلتا تھا جب کہ اسٹار آف انڈیا اور مارننگ نیوز کلکتے سے نکلتے تھے۔ ان دنوں اس علاقے میں جو اب مغربی پاکستان (اور اب صرف پاکستان) کہلاتا ہے انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ٹریبیون اور سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جب کہ سندھ آبزرور اور ڈیلی گزٹ کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہ تھا۔ 1947ء میں جب میاں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو گویا دو کام بیک وقت انجام دیے۔ ایک تو تحریک پاکستان کو جو نہایت نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام ہی پر جھوم اٹھے اور پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار اور اس کے پر وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے۔

    فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس ذمہ داری کے لیے نئے تھے لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور، معاشرے کے مسائل کا علم، ادب پر گہری نظر، اور اچھی نظر لکھنے (انگریزی اور اردو) کا سلیقہ اور اپنی ان تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے اداریے اپنی سلاست، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ ‘‘

    فیض صاحب کاتا اور لے دوڑے کے راستے پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ شاعری ہو نوکری ہو خطابت ہو یا صحافت ہو غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ جلد باز نہیں رہے۔ ایک طرح سے تکمیلیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان کے بیش تر کام ادھورے رہ گئے۔ لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے اس میں سر پر روزانہ ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ آج کا کام آج ہی ہونا چاہیے ورنہ تو اخبار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ان سب ترجیحات کے باوجود یہاں بھی انہوں نے اپنے ہی انداز میں کام نمٹایا۔ ان کے دوست حمید اختر کہتے ہیں: ’’وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہو جاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے۔ جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔‘‘

    سبط حسن نے بھی جو کہ صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ تھے فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے: ’’فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی، اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے لے کر پڑھتے تھے۔ ‘‘

    اس کا ایک سبب ان کی واضح سیاسی سوچ اور مسئلے کو اس کی اصل گہرائی تک جا کر دیکھنے کی صلاحیت تھی۔

    (ماخوذ از مقالہ بعنوان فیض احمد فیض…. شخصیت اور فن، مصنّفہ اشفاق حسین)

  • اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’’تغزل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

    صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47 ہے۔ ان میں سے 10 مصوتے (Vowels) ہیں اور 37 مصمتے (Consonants) ان مصمتوں میں 6 عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں، /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/ کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ (Stop) ہے، باقی تمام آوازیں صفیری (Fricatives) ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’’رگڑ‘‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6 آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہر چند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔

    فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر لگایا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں۔

    اقبال کی ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’’اظہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6 بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں، خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/ کی تکرار 8 بار، /ا/ کی 21 بار، /م/ کی 12 بار، /و/ کی 22 بار، اور /ش/ کی 6 بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے/ی/، /اَی/ اور /اَے / ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7 ’’سرسراتی‘‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/ کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/ اور 9 انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں۔

    مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization) سے مرتب ہوتے ہیں اور 6 صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں۔۔۔ فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

    (مضمون نگار مسعود حسین خان، ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘)

  • ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانۂ ہٰذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔

    ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔

    پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آجائے گا۔ بلّی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اورپٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ ویئر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔

    ۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔

    ۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔

    ۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔

    ۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہرسپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔

    ۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔

    ۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔

    ۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہوسکے۔

    ۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔

    پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردارکی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیرو محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھرہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہردفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔

    آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا… عرب کا…. ایران کا… افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳% رعایت۔

    خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔

    بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،

    شہزادی سبز پری نے کہا،
    ’’پیارے گلفام!‘‘

    پیارے گلفام نے کہا،
    ’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘

    شہزادی سبز پری،
    ’’ایک بات کہوں؟‘‘

    گلفام،
    ’’ہاں ہاں کہو۔‘‘

    شہزادی،
    ’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘

    گلفام،
    ’’سچ!‘‘

    شہزادی صاحبہ،
    ’’ہاں سچ!‘‘

    گلفام،
    ’’تو پھر شکریہ!‘‘

    شہزادی نے کہا،
    ’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘

    ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار، ادیب اور شاعر ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے ایک مزاحیہ تحریر)

  • تان رس: دلّی کا باکمال گویا

    تان رس: دلّی کا باکمال گویا

    ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کا جادو صدیوں سے پھونکا جارہا ہے۔ سریلی آوازیں اور آلاتِ موسیقی لوگوں کی سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر زمانے کے ساتھ ساز اور گائیکی کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔

    صدیوں پہلے ہندوستان کے گویّے جو اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تھے، ان کا نام آج بھی لیا جاتا ہے۔ یہ شاہانِ وقت کے دربار سے بھی منسلک رہے اور فنِ موسیقی میں بے مثال ہوئے۔ اکبر کے عہد میں سوامی ہری داس اور تان سین جیسا درخشاں ستارہ موجود تھا۔ بعد میں کئی اور نام ہو چلے اور پھر بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا۔ ہندوستانی ریاستوں پر سلطان، راجہ اور نوابوں نے حکم رانی کی جو باذوق اور بڑے قدر دان تھے۔ اپنے عہد کے گانے والوں کو عزت اور احترام بھی دیا اور ان پر زر و جواہر بھی نچھاور کیے۔

    یہ ایک ایسے ہی گویّے تان رس کا تذکرہ ہے جو مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری کے قلم سے نکلا ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ان کا مضمون پیشِ خدمت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    اس سے پہلے کہ تان رسؔ خاں کے حالات بیان کروں، بہتر ہے کہ ان واقعات میں جو بیان کیے گئے ہیں، کتنی واقعیت ہے اور اس کے واقعہ ہونے کے ثبوت کیا ہیں، بیان کر دوں۔

    یہ حالات جو بیان کیے گئے ہیں، خاندانی بزرگوں اور ان شہزادوں سے منقول ہیں جو زمانۂ غدر میں بیاہے تیاہے تھے۔ اس لیے ان واقعات کے صحیح ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں۔

    تان رس خاں

    نام قطبؔ بخش تھا اور بادشاہ عالم ثانی کے انتقال کے وقت اس کی عمر پانچ سال کی تھی۔ یہ بہت فریس اور خوش قسمت تھا۔ چند ہی دنوں میں اپنے فنِ آبائی میں معقول ترقی کی۔ قطبؔ بخش ان لوگوں کی نسل سے تھا جو محمد شاہ باد شاہ کے دربار میں بہت بڑھے چڑھے تھے۔ جب قطب بخش کی استادی کی شہرت ہوئی تو بہادر شاہ بادشاہ دہلی کے دربار میں پیش ہوا۔ اس زمانے میں ملازمین شاہی کی تنخواہیں تو بہت کم ہوتی تھیں لیکن انعام و اکرام بہت ملتا تھا۔

    گو اس کی تنخواہ بھی بہت کم تھی لیکن میوے اور یخنی کا خرچ دربار شاہی سے بطور یومیہ عطا ہوتا تھا۔ یخنی نے تان رسؔ خاں کے گلے کو لوچ دار بنانے میں بہت مدد دی۔ کیونکہ گوشت کی یخنی اور طاقت بخش میوے گلے کے پٹھوں کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔

    بہرحال قطبؔ بخش نے گانے میں بہت ترقی حاصل کی اور تان رسؔ خاں کا خطاب حاصل کیا۔

    تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔبائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

    قلعے سے نکالا

    جب تان رسؔ خاں کا رسوخ بڑھ گیا اور بادشاہ میں زیادہ پیش ہونے لگے تو زمانہ گردش کا آیا یعنی ایک گائن سے جس کا نام پیاریؔ تھا، تعلقات ہوگئے۔ آخر کار بھانڈا پھوٹ گیا اور قلعے سے نکالا ملا۔ تان رسؔ خاں بہت پریشان ہوئے کیونکہ قلعہ سے نکالے ہوئے آدمی کو کون منہ لگاتا۔ ہر ایک نے آنکھیں پھیر لیں اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی۔

    قدرِ کمال

    اب تان رسؔ خاں اپنی قسمت پر شاکر رہ کر بیٹھ گئے تھے۔ بہت افسردہ تھے کہ حکم شاہی آیا کہ ’’خطاب، تنخواہ اور معاش بدستور بحال و جاری ہے لیکن آئندہ کے لیے دربار بند اور قلعہ میں آنے کی اجازت نہیں۔‘‘

    یہ بہادر شاہ بادشاہ نے از راہِ قدرِ کمال کیا کہ تنخواہ اور خطاب کو بحال رکھا اور شہر میں رہنے کی اجازت دی۔ ان اٹھارہ گائنوں کو بھی بادشاہ نے نکال دیا اور وہ مختلف شہزادوں کی سرکاروں میں نوکر ہوگئیں۔

    غدر

    جب سلطنت دہلی برباد ہوئی تو تان رسؔ خاں نے ریاست الور، جے پور اور جودھ پور میں ملازمتیں کیں۔ اور ہزاروں روپے کے انعام و اکرام بھی پائے۔ حیدرآباد دکن کی شاہانہ داد و دہش کا شہرہ سن کر حیدرآباد آئے اور اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں مرحوم و مغفور کی ملازمت اختیار کرکے بہت عروج حاصل کیا۔ تان رسؔ خاں کے دو فرزند تھے۔ غلامؔ غوث خاں، امراؤؔ خاں۔

    حاضر جوابی

    ایک دن تان رس خاں نواب میر محبوب علی خاں کے حضور میں حاضر تھے۔ اعلیٰ حضرت ایک پلنگڑی پر لیٹے ہوئے تھے اور تان رسؔ خاں یہ ٹھمری گا رہے تھے،

    ’’رات بالم تم ہم سے لڑے تھے۔۔۔‘‘ راگ پورے جوبن پر تھا اور بڈھے تان رسؔ خاں کی آواز اپنے استادانہ کمالات کے جوہر دکھاتی ہوئی دل میں اتر رہی تھی، در و دیوار سے اسی ٹھمری کی آواز بازگشت سنائی دیتی تھی۔ ایسا سماں بندھا کہ حضور بے تاب ہوگئے اور فرمایا،

    ’’واہ تان رسؔ خاں واہ۔۔۔‘‘ اس فقرے کے سنتے ہی تان رسؔ خاں لپک کر قریب پہنچا اور چٹ چٹ بلائیں لے لیں۔

    یہ حرکت حضور کو بہت بری معلوم ہوئی۔ آپ نے گرم نگاہوں سے تان رسؔ خاں کو بھی دیکھا اور مڑ کر حاضرین کی طرف بھی نگاہ ڈالی۔ سب لوگ سناٹے میں آگئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے۔ بڈھا تان رسؔ خاں گرم و سرد روزگار اور امیروں اور بادشاہوں کے مزاج سے واقف تھا۔ فوراً بھانپ لیا کہ کیا معاملہ ہے اور جب قریب تھا کہ خرابی اور بے عزتی کے ساتھ نکالا جائے، حواس کو جمع کرکے کہا، ’’قربان جاؤں! مدّت سے آرزو تھی کہ کسی مسلمان بادشاہ کی بلائیں ہوں، ان ہاتھوں نے یا تو حضور بہادر شاہ شاہ کی بلائیں لیں یا آج آپ کی۔‘‘

    یہ سن کر میر محبوب علی خاں بہادر مرحوم مسکرا دیے اور بات رفع دفع ہوگئی۔

    انتقال

    تان رسؔ خاں کا انتقال حیدر آباد دکن میں ہوا اور شاہ خاموش صاحب کی درگاہ کے قرب و جوار میں دفن ہوئے ہیں۔ اس طرح دلّی کے بہترین اور مشہور گویے کا انجام ہوا۔ انتقال کے بعد ان کی اولاد نے چاہا کہ لاش کو چند روز کے لیے حیدرآباد سپرد خاک کر کے پھر دلّی لے جائیں لیکن اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں بہادر نے ان کے فرزندوں کو بلوایا اور فرمایا، ’’کیا خدا وہیں ہے یہاں نہیں ہے؟‘‘

    اس تہدید کی بنا پر تان رسؔ خاں ہمیشہ کے لیے حیدر آباد دکن کی سرزمین میں آرام گزیں ہوگئے۔ دلّی (قلب ہندوستان) کا آفتاب حیدرآباد میں غروب ہوگیا۔ لیکن اپنی آتشیں کرنوں کا نشان آسمان کمال پر چھوڑ گیا۔

  • ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    شاہد احمد دہلوی کے قلم سے کتنے ہی واقعات اور تذکرے نکلے اور بطور حوالہ و یادگار آج بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تحریریں متحدہ ہندوستان کی اُس دلّی کی یاد تازہ کرتی ہیں جو مسلم دور کی تہذیب و ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی کے شاہد صاحب بٹوارے کے بعد وہاں گئے تو اسے بہت مختلف پایا۔ مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر دوستیاں اور میل جول ہونے لگا تھا۔ روشن خیال اور بلند فکر لوگ دلّی سے چلے گئے تھے یا پھر تنگ دل اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہندوؤں کے ڈر سے خاموش تھے اور ایک مشترکہ کلچر کو تباہ و برباد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی کو اردو کا صاحب طرز ادیب، مترجم اور ماہرِ موسیقی کہا جاتا ہے جن کی یہ تحریر موجودہ دور کے بھارت کی عکاسی کرتی ہے جو آج اپنی سیکولر شناخت کھو چکا ہے اور مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہاں بالخصوص مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں اپنی املاک اور عبادت گاہوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے اور جھوٹے الزامات کے بعد یا مکان اور مسجد وغیرہ کو غیر قانونی تعمیر کہہ کر مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی کا ایک عمل ہے۔ شاہد احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی کراچی میں ہندوؤں کی جائیداد، ان کا مال و دولت محفوظ رہا بلکہ مسلمان ان کی جائیدادوں‌ پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔ ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے… چھوڑیں تو جائیں کہاں…؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔ دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھر رہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔”

    "اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرنارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دو گے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔“

    (تصنیف ’دلّی کی بپتا‘ سے ماخوذ)