Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • انگریز دور کے تعلیمی ادارے اور اردو ڈرامہ کی توسیع و اشاعت

    انگریز دور کے تعلیمی ادارے اور اردو ڈرامہ کی توسیع و اشاعت

    فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس
    ہندوستان کی بساط سیاست پر جب انگریزوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے تو انگلستان سے آنے والے جونیر انگریز سول اور فوجی ملازمین کے لئے جنہیں منشی (WRITER) کہا جاتا تھا مقامی زبانوں اور ہندوستانی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لئے جوزف کلکٹ (JOSEPH COLLECT) گورنر مدراس نے 1717ء میں مدراس میں فورٹ سینٹ جارج اسکول کی بنیاد ڈالی جو رائٹرس کالج (WRITERS COLLEGE) بھی کہلاتا تھا اور آگے چل کر یہ فورٹ سینٹ جارج کالج کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں جونیر انگریز ملازمین رائٹرس (WRITERS) کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا۔ کیونکہ انگلستان یا بنگال اور خود کلکتہ میں بھی ان جونیر ملازمین کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔ 1756ء کے قانون کے ذریعہ جونیر ملازمین کا باقاعدہ تقرر ہونے لگا۔ ان کی بھرتی انگلستان میں ہوتی اور اس عہدہ کے لئے عموماً ایسے نوجوانوں کو منتخب کیا جاتا جو ہندوستان میں ملازمت کے خواہش مند ہوتے اور جن کی عمریں پندرہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہوتیں ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ سول (کشوری) اور ملٹری (فوجی) دونوں ذمہ داریاں پوری کریں گے۔

    مدراس کے "اعظم الاخبار” نے اپنے ایک اداریے میں مسلمانوں کو انگریزوں سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ انگریز اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بطور خاص توجہ کرتے ہیں اور کم عمری ہی میں وہ تربیت سے فارغ ہو کر ملازمت کے لئے دوسرے ممالک کو چلے جاتے ہیں۔

    چنانچہ اخبار لکھتا ہے :
    "انگریزوں کی تربیت دیکھو کہ بارہ سال کی عمر والے، پندرہ سال کی عمر والے تربیت سے فارغ ہو کر اپنا شہر چھوڑ کر پرملک (دوسرے ملک یعنی ہندوستان) کو پیدائش (ملازمت) کے لئے آتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم لوگ دیکھے دکھاتے ان کی تربیت کا ڈھب نہیں سیکھتے۔ بیس سال تیس سال کے بعد تربیت پانے کا خیال کرتے ہیں۔ خاک پڑو ایسے خام خیال پر کیا یہی وقت تربیت پانے کا ہے؟” ("اعظم الاخبار مورخہ 4/ دسمبر 1851ء)

    فورٹ ولیم کالج کلکتہ
    فورٹ سینٹ جارج اسکول کے قیام کے تراسی سال بعد گورنر جنرل لارڈ ویلزلی نے 1800ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی داغ بیل ڈالی۔ اس کالج کے قیام کا مقصد بھی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ولایت سے نووارد انگریز سول اور فوجی ملازمین کو ہندوستانی زبانوں بالخصوص اردو کی تعلیم دینا تھا۔ تاکہ جہاں بھی وہ تعینات کئے جائیں وہاں کے باشندوں سے گفت و شنید کے ذریعہ نہ صرف کمپنی کی تجارت کو فروغ دے سکیں بلکہ اس کی حکومت کو مستحکم اور پائیدار بھی بنا سکیں۔

    اردو نثر اور ڈرامہ کے ارتقاء میں فورٹ ولیم کالج اور فورٹ سینٹ جارج کالج کا حصہ
    اردو زبان و ادب خاص طور پر اردو نثر کی ترویج و ترقی کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج کالک مدراس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان اداروں میں نہ صرف بڑی مماثلت اور مشابہت تھی بلکہ دونوں اداروں کے مقاصد بھی یکساں تھے۔ اور انہوں نے ایک جیسے کارنامے انجام دیے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی وجہ سے اردو نثر کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اس کالج کے مصنفوں نے اردو نثر کا ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو بعد کے مصنفوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوا۔

    یہ تحریک ہندوستان کی سب سے پہلی شعوری و اجتماعی ادبی و لسانی تحریک تھی جس نے اردو نثر کی رفتار ترقی کے لئے مہمیز کا کام کیا اور اسے وہ قوت و توانائی عطا کی کہ نصف صدی کی مختصر مدت میں اردو زبان کے اندر مختلف مضامین و مباحث کامیابی کے ساتھ ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنوبی ہند میں اردو کی ترویج و ترقی اور اشاعت میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس نے وہی کردار ادا کیا جو شمال مشرقی ہند میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے ادا کیا۔ اگر ان میں تفریق و تمیز کی کوشش کی جائے تو محض اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں فورٹ ولیم کالج شمال مشرقی ہندوستان میں اردو کی تہذیب و ترقی اور ترویج و اشاعت کی خدمات انجام دے رہا تھا فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس جنوبی ہند میں اس کی قدیم شکل یعنی "دکنی” کے فروغ کی خاطر سرگرم عمل تھا۔ مجموعی طور پر ان دونوں اداروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی و اشاعت میں عہد ساز کارنامے انجام دیے ہیں۔ نہ تو ان کی خدمات سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے اور نہ اردو زبان و ادب کا کوئی مؤرخ ان کے تذکرہ سے دامن کشاں گزر سکتا ہے۔

    فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے ارباب اقتدار بہترین تصانیف پر انعام و اکرام کا اعلان کر کے کالج سے متعلق اور غیر متعلق مصنفین کو تصنیف و تالیف کے کام میں عملی شرکت کی طرف راغب کرتے تھے، جس کے نتیجے میں متعدد مفید کارآمد اور غیر فانی شاہ کار وجود میں آئے۔ ان کالجوں کے علاوہ خود ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس گورنمنٹ کے ایسے ملازم طلبہ کو جو سات مقامی زبانوں میں سے کم از کم دو زبانوں میں مہارت حاصل کر لیتے تھے، انعامات سے نوازا کرتی تھی۔

    مدراس کے گورنر سر ہنری پاٹنجر (SIR HENRY POTTINGER) نے سپریم گورنمنٹ کے حکم پر ایک اعلان "یونائٹیڈ سروس گزٹ” میں شائع کروایا تھا۔ اس اعلان کو مدراس کے مشہور اردو اخبار "اعظم الاخبار” نے بھی شائع کیا تھا۔ جو حسب ذیل ہے:

    "مدراس کے گورنر سر ہنری پاٹنجر صاحب بہادر سپریم گورنمنٹ کے حکم (کے) موافق اس ملک کے تمام شمشیر بند سرداروں (فوجی ملازمین) کو اطلاع دیتے ہیں کہ اگر کوئی سردار ان سات زبانوں میں سے دو زبان یا زیادہ سیکھ کے امتحان دیوے تو اس کو سرکار کی طرف سے یک مشت (ایک) ہزار روپے انعام ملیں گے۔ سوائے اس کے وے (وہ) لوگ معقول خدمتوں پر مامور ہوں گے۔” (اعظم الاخبار مؤرخہ 22 اپریل 1852ء)

    مقامی زبانیں سیکھنے والے عہدیداروں کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ فورٹ سینٹ جارج کالج کے اکثر "سولجر” (سپاہی)، اردو (ہندی) اور فارسی وغیرہ مختلف السنہ سے اچھی طرح واقف ہوگئے تھے اور ان زبانوں میں وہ اس طرح گفتگو کرتے تھے گویا یہ ان کی مادری زبانیں ہوں۔ چنانچہ "اعظم الاخبار” کے ایڈیٹر اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    "قلعہ (فورٹ سینٹ جارج) میں اکثر سولجر(سپاہی) ہندی (اردو) اور فارسی زبان خوب جانتے تھے اور لکھنے پڑھنے کا بھی اچھا سلیقہ رکھتے تھے چنانچہ کئی سولجروں کو ہم دیکھے کہ وے( وہ) فارسی گفتگو اس طور پر کرتے تھے کہ قابلوں کے سوائے دوسروں کو ان کی تقریرسمجھنا دشوار ہوتا تھا۔” (اعظم الاخبار، مؤرخہ 22/ اپریل 1852ء)

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برطانوی سامراج نے دو سو سال کی طویل مدت تک برصغیر ہند و پاک کے وسیع و عریض علاقوں پر حکمرانی کی۔ ایک طرف تو انہوں نے ہندوستان جنت نشاں کی بہت ساری دولت لوٹی اور معاشی حیثیت سے ہندوستان کو پست ماندہ بنا کر چھوڑا۔ لیکن ساتھ ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اس سر زمین کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ اور زندگی کے دیگر شعبوں کے مطالعہ میں گہری دلچسپی لی۔عوامی رابطے کی حیثیت سے انہوں نے اردو زبان کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مدراس میں فورٹ سینٹ جارج کالج، کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج اور انگلستان میں ‘ہیلی بری کالج’ کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے جہاں حکمران جماعت کے افراد کو برصغیر کی مقبول عام زبان میں شد بد پیدا کر کے ملکی معاملات انجام دینے کے قابل بنایا وہیں ان تعلیمی اداروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں جو گراں قدر حصہ لیا ہے اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان میں طباعت اور صحافت کی ابتدا بھی انگریزوں ہی کی دین ہے۔

    اردو میں ڈرامہ کی ابتدا
    اردو لٹریچر، ڈرامہ کے عنصر سے بالکل خالی تھا۔ اردو میں ڈرامہ کا لفظ انگریزی زبان کے اثرات اور انگریزوں کی وجہ سے مستعمل ہوتا ہے۔ انگریزوں ہی کی کوششوں سے چند عمدہ ڈرامے تصنیف اور ترجمہ ہوئے۔ پہلی بار فورٹ ولیم کالج کے منتظم اعلی ڈاکٹر جان گلکرٹ کی فرمائش پر 1801ء میں کاظم علی جواں نے للو لال جی کی مدد سے سنسکرت کے مشہور ناٹک "شکنتلا” کو آسان اردو نثر میں منتقل کیا۔ یہ کتاب 1802ء میں فورٹ ولیم کالج کی جانب سے شائع ہوئی اور مقبول ہوئی۔ اس طرح اس ناٹک کی بدولت اردو میں نوٹنکی، سوانگ، رام لیلا، راس لیلا، اور رہس کی ابتدا ہوئی۔ نواب واجد علی شاہ کے رہس، امانت کی اندر سبھا اور دیگر سبھائیں اسی کا نتیجہ ہیں۔

    (ماخوذ از کتاب: اردو کا پہلا نثری ڈرامہ اور کیپٹن گرین آوے، مصنف مضمون: ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال)

  • ایم۔ اے۔ او۔ کالج: مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا!

    ایم۔ اے۔ او۔ کالج: مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا!

    سر سید کا دوسرا اہم کارنامہ ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج کا قیام ہے۔ سرسید کے خیال میں قوم کو اعلیٰ مرتبہ بخشنے کا واحد علاج صرف تعلیم تھا۔ اسی کے خیال تحت سرسید نے ایک کالج قائم کرنے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنایا۔ سر سید کے بیٹے سید محمود نے باقاعدہ اس کے اصول و ضوابط تیار کیے۔ اور 1875ء میں یہ مدرسہ کی شکل میں علی گڑھ میں قائم کیا گیا، جس کا نام مدرسۃُ العلوم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج رکھا گیا۔

    اس کالج کو کھولنے سے قبل سر سید اپنا معرکہ آرا اخبار "تہذیب الاخلاق” نکالتے تھے۔ لیکن اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد انھوں نے اپنے اس محبوب اخبار کو بند کر دینے کا اعلان کر دیا اور نوکری سے پنشن لے کر مستقل طور پر علی گڑھ میں آ کر بس گئے۔ اگرچہ "تہذیب الاخلاق” نے دم توڑنے کے بعد پھر سانس لینے کی کوشش کی، لیکن سر سید کی دل چسپی اس کالج کی طرف ہو جانے کی وجہ سے اس اخبار کو حیات نہ مل سکی۔ دوسرے کام بھی بے توجہی سے ہونے لگے۔ اس کی وجہ صرف یہ کالج تھی۔ ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں: "غرض اصلاح و تجدید کی جو تحریک سر سید احمد خاں نے بائبل کی تفسیر لکھ کر "سائنٹیفک سوسائٹی” قائم کر کے اور "تہذیب الاخلاق” نکال کر کم و بیش بارہ برس سے شروع کر رکھی تھی اور جس نے مسلمانوں کے ایک سمجھدار طبقے کے ذہن میں ہلچل پیدا کر دی تھی، ان کے پنشن لے کر علی گڑھ میں قیام کرنے کے بعد کچھ ٹھنڈی سی پڑ گئی۔ اس کی وجہ صرف اتنی نہیں تھی کہ اب اس تحریک کو سر سید صاحب کے وقت اور توجہ کا بہت تھوڑا حصہ نصیب ہوتا تھا، بلکہ یہ بھی تھی کہ ان ذی اقتدار مسلمانوں خصوصاً بڑے زمینداروں کی خاطر جن کی مدد سے انھوں نے ایم۔ اے۔ او۔ کالج قائم کیا تھا۔”

    یہی ایم۔ اے۔ او۔ کالج آگے چل کر مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ سرسید نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
    (1) پہلا مدرسہ انگریزی کا ہو گا۔ اس میں بالکل انگریزی پڑھائی جائے گی اور تمام علوم و فنون جن میں تعلیم ہو گی۔ سب انگریزی ہو گی۔
    (2) دوسرا مدرسہ ایسا ہو گا جس میں تمام علوم و فنون بہ زبان اردو پڑھائے جائیں گے۔ اور جو کچھ اس میں تعلیم ہو گی سب اردو میں ہو گی۔
    (3) عربی و فارسی کا مدرسہ جن میں ان انگریزی اور اردو مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو جنھوں نے علوم و فنون پڑھ لینے کے بعد عربی فارسی کے لٹریچر و علوم میں کمال حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو گا تو ان کی پڑھائی فارسی، عربی میں اعلیٰ درجہ تک کی اس مدرسہ میں ہو گی۔

    نتیجہ کے طور پر یہ کالج اپنے انھیں مقاصد کو پورا کرتا ہوا 1920ء میں مسلم یونیورسٹی کے اسٹیج پر پہنچ گیا لیکن ڈاکٹر عابد حسین کے خیال کے مطابق یہ کالج آگے بڑھ کر سر سید کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔ اس وجہ سے کہ سر سید احمد خاں اپنے اس کالج سے چار قسم کے تعلیم یافتہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔
    (الف) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے سرکاری عہدے اور عزتیں پائیں۔
    (ب) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے مغربی علوم کو اردو میں منتقل کریں۔
    (ج) وہ جو اردو تعلیم پا کر لیاقت کامل حاصل کریں۔ جس کا معیار انگلستان کے کالجوں کے برابر ہوتا ان کو ہر وقت اور ہر عمل پر اپنے علم کی ترقی کا موقع ہو۔
    (د) وہ جو عربی فارسی میں کمال حاصل کریں، تاکہ مسلمانوں کے قدیم مذہبی اور تہذیبی سرمایہ کو موجودہ انسانوں تک پہونچا سکیں۔

    لیکن ان میں سے دو نکات، دوسرا (ب) اور چوتھا (د) مقصد سر سید خاص طور پر پورا کرنا چاہتے تھے اور اس میں بھی دوسرا مقصد سب سے اہم تھا۔ لیکن ایک پیچیدگی یہ تھی کہ جن سے معاشی امداد حاصل کر کے اس کالج کو چلا رہے تھے، ان حضرت کو دل چسپی صرف پہلے مقصد سے تھی۔ یعنی تنہا انگریزی تعلیم حاصل کر کے اچھی نوکری اور عزت حاصل کر سکیں۔ نتیجہ کے طور پر ابتدا سے ہی اس مقصد پر زیادہ زور دیا گیا اور کالج ان سے عطیہ لے کر آگے بڑھتا رہا۔ ایک ہی طبقہ زیادہ تر تعلیم حاصل کرنے لگا اور سر سید کے دوسرے مقاصد تقریباً بے تعلق سے ہو گئے، عربی، فارسی اور مذہبی افکار تو اس کالج کے ذریعہ مسلمانوں کے کسی طبقہ میں مقبول نہ ہوسکے۔ لیکن پھر بھی مجموعی اعتبار سے اس کالج نے قوم کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

    سرسید کی اس تحریک نے رفتہ رفتہ زور پکڑ ہی لیا اور اس کے آگے آنے والی تمام دوسری تحریکیں اپنے آپ فنا ہوتی گئیں۔

    ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج اپنی بعض دیگر خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ کالج باہمی تعصبات سے بالکل پاک تھا۔ کالج کے قیام کے بعد سب سے پہلا ایڈریس مہاراجہ سر مہندر سنگھ فرماں روائے پٹیالہ کی خدمات میں تھا۔ جب ان کی خدمات میں سر سید نے اپنے کالج کا ایجنڈا رکھا تو جواب میں مہاراجہ نے کہا: "اس سوسائٹی کا یہ مقصد ہے کہ اہل ہند خواہ کسی ملت و مشرب کے ہوں ان کو فائدہ پہونچے اور مدرسۃ العلوم کی تدبیر میں اس سے بھی عمدہ اصول کو ملحوظ رکھا گیا ہے، جس میں تعلیم اور علوم عقلیہ کی بلا اختلاف ملت و مذہب یکساں ہو۔ میری دانست میں آپ بانیوں کی یہ دانش مندانہ تدبیر بالتخصیص نہایت عمدہ ہے۔”

    اس کے علاوہ دیگر مہاراجوں کی تقاریر وغیرہ میں بھی اس بات کا اعلان ملتا ہے کہ کالج کی بنیاد باہمی رواداری اور ترقی کے اصولوں پر ہے۔ کالج نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ ماحول بھی خوشگوار ملا۔ لوگوں کے دل و دماغ میں اس کے صحیح اور سچے اصول بسنے لگے۔ جناب ہارون خاں شروانی لکھتے ہیں : "یہ وہ زمانہ تھا کہ فرقہ واریت کا ڈنک ہندستان کے جسم میں پیوست نہیں ہوا تھا۔ اور اب جو سید احمد خاں نے علی گڑھ کالج بنایا تو اس کی بنیاد میں بے تعصبی کی سیمنٹ کی پچکاریاں لگا کر ایک ایسی عمارت کھڑی کی جس کا ثانی ہندستان میں ملنا دشوار ہے۔”

    اور یہ حقیقت ہے کہ سر سید نے واقعی اس کالج کو تعصب اور تنگ نظری سے بہت دور رکھا۔ ان کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ آپس کی دوری اور ناسمجھی ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہو جائے۔ ابتدا ہی سے اس کالج کے اصول اور مقاصد اس انداز سے بنائے جس میں ہندستان کے مختلف مذاہب، قومیں بلا جھجھک آسانی سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اتنی آزادی اور کھلے ذہن سے سوچنا سرسید کے علاوہ کسی دوسرے کے یہاں مشکل سے نظر آتا ہے۔ علی گڑھ کالج کے متعلق انھوں نے اپنی پالیسی بے حد ایمان دارانہ اور آزادانہ رکھی۔ ہاں یہ بات اہم اور سچ ہے کہ اصل مقصد مسلمانوں کو ضرورت کے مطابق تعلیم کی طرف موڑنا تھا، لیکن وہ ہندو اور مسلم کو قریب بھی لانا چاہتے تھے۔ اس پالیسی کا ایک جگہ تفصیل سے ذکر کرتے ہیں: "مجھ کوافسوس ہو گا اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ کالج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ خاص سبب جو اس کالج کے قائم کرنے کا ہوا یہ تھا کہ جب میں یقین کرتا ہوں آپ واقف ہیں کہ مسلمان روز بروز زیادہ تر ذلیل اور محتاج ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی تعصبات نے ان کو اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے باز رکھا تھا جو سرکاری کالجوں اور مدرسوں میں مہیا کی گئی تھیں اور اسی وجہ سے یہ امر ضروری خیال کیا گیا کہ ان کے واسطے کوئی خاص انتظام کیا جائے۔ میں اس بات سے خوش ہوں کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں دونوں بھائی ایک ہی سی تعلیم پاتے ہیں۔ بلا کسی قید کے اس شخص سے بھی متعلق ہیں جو اپنے تئیں ہند بیان کرتا ہے۔ کالج سے تمام حقوق جو اس شخص سے متعلق ہیں جو اپنے تئیں مسلمان کہلاتا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ذرا بھی امتیاز نہیں۔”

    غیر مسلم طالب علموں کے لیے ہی اس میں جگہ نہ تھی بلکہ اسٹاف میں بھی ہندو نظر آتے ہیں۔ جادو چند چکرورتی اور پنڈت شیو شنکر کے نام سب سے اہم ہیں۔ چکرورتی صاحب سید صاحب کے خاص دوستوں اور بزرگوں میں سے تھے۔

    اب اس امر پر قدرے غور کرنا ہے کہ حقیقتاً سر سید کا جو مقصد تھا اس کالج کو قائم کرنے کا، اس میں ان کو کہاں تک کامیابی مل سکی۔ اور اس نے مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، مذہبی زندگی کو کس انداز سے متاثر کیا۔ پروفیسر احتشام حسین کا خیال ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سر سید کے ہی آئینہ میں اس تحریک کو دیکھنا زیادہ مفید ہو گا اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے تحریک سے بحث اٹھائی ہے تو پہلے سر سید کے کارناموں پر سرسری نظر ڈالی ہے۔

    پروفیسراحتشام حسین کا تحریک کے بارے میں اس نقطۂ نظر سے سوچنا بڑی حد تک مناسب اور درست ہے۔ ویسے تو سر سید کی پوری زندگی عملی کارناموں سے لبریز ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی سوسائیٹیاں قائم کر چکے تھے۔ مدرسوں کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ چونکہ وہ بدلتی ہوئی فضا کا اندازہ لگانا بخوبی جانتے تھے اس وجہ سے جس کام میں انھیں قوم کی بھلائی کے عناصر زیادہ نظر آنے لگتے تھے ادھر وہ مڑ جاتے تھے اور شاید اسی وجہ سے "تہذیب الاخلاق "جیسے نامور اور کامیاب رسالے کو نظر انداز کر کے اس کالج کی طرف گھوم گئے۔ شاید وقت کا تقاضا ہی کچھ ایسا تھا۔

    نئے علوم کو حاصل کرنے کے لیے، مذہبی تنگ نظری کو دور کرنے کے لیے، مسلمانوں کو مایوسی کے جہنم سے نکالنے کے لیے حقیقتاً اس کالج نے بہت بڑا رول ادا کیا اور عوام کی بیداری کو وسیع کیا۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں: "علی گڑھ کالج محض ایک علامت تھا اس نئی زندگی میں داخل ہونے کی جو اپنا در کھولے ہوئے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس دروازے کے اندر مختلف قسم کے کارواں داخل ہو رہے تھے۔ کچھ یوں ہی آنکھ بند کیے ہوئے۔ کچھ گرد و پیش کا اندازہ لگاتے ہوئے۔ سر سید جس کارواں کو لیے آگے بڑھ رہے تھے اس میں مختلف قسم کے لوگ تھے، لیکن بہم طور پر سبھوں کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وقت نے راہ میں جو رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں انھیں عبور کر کے اپنی مادی اور روحانی زندگی کو بہتر بنایا جائے۔ یہی جستجو اور آگے بڑھنے کی یہی کوشش ہے جسے علی گڑھ تحریک کہا جاتا ہے۔ اس میں فتح مندی کے سنگ میل بھی ہیں اور ناروا سمجھوتے بھی۔”

    اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں اس تحریک کا حاصل مقصد ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں میں تعلیم جدید عام کرنا تھا۔ کیونکہ انگریزی حکومت نے غدر کے بعد اپنی برتری حاصل رکھنے کے لیے دونوں قوموں کے اتحاد میں ٹھیس لگانے کی پیہم مہم جاری رکھی تھی۔ انگریزوں کو یہ خدشہ ہر وقت رہتا تھا کہ ان دونوں میں کہیں اتحاد نہ قائم ہو جائے۔

    1856ء میں گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے جب اپنا عہد ہ سنبھالا تو اس وقت یہ کہا، "میں اپنے عہد حکومت میں امن چاہتا ہوں، لیکن میں اس بات کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتاکہ کہیں ایسا نہ ہو ہندستان کے افق پر جو بظاہر پرسکون اور خاموش نظر آتا ہے بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ابھر آئے۔ شاید یہ ٹکڑا آدمی کی ہتھیلی سے بڑا نہ ہو، لیکن بڑھتا ہی جائے۔ یہاں تک کہ یکایک طوفان کی طرح پھٹ پڑے، اور ہمیں برباد کرنے کی دھمکی دینے لگے۔” اور اسی خیال کے تحت سر سید نے اپنے اس کالج میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کو ایک مقام دیا اور انھیں ایک دلھن کی دو خوبصورت رسیلی آنکھوں سے تشبیہ دی۔

    جیوں جیوں وقت گزرتا رہا حالات کروٹ لیتے رہے۔ قومی تحریک نے جڑ پکڑی۔ انڈین کانگریس کی بنیاد پڑی، وہ بھی انگریزوں کے ذریعہ۔ اور جلد ہی وہ بھی ایک ادارے کی شکل اختیار کر گئی اور دو ہی سال کے اندر اس کے جلسے ہونے لگے۔ پوری کامیابی اور کامرانی کے ساتھ کانگریس کے اس ادارہ کا یہاں تذکرہ محض اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ اس کا اثر براہ راست علی گڑھ تحریک پر پڑتا ہے۔ ابتدا میں سر سید خاموش رہے۔ لیکن رفتہ رفتہ سر سید کے سوچنے کا طریقہ بدلتا گیا اور وہ اس ادارہ سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر میں مخالفت بھی کی اور مسلمانوں کو اس میں حصہ لینے سے روکا بھی۔ دراصل انگریزی تعلیم کو حاصل کرنے میں سر سید اتنی بری طرح سے پیچھے لگ گئے کہ انھوں نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا کہ صرف انگریز ہی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جن اصولوں پر یقین کرتی تھی سر سید اس کے بالکل مخالف انداز سے سوچتے تھے۔ مسلمانوں سے متعلق ان کا ایک الگ تصور تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان آٹا اور دال نہیں بیچ سکتے۔ صرف تعلیم ہی ان کے کام آئے گی۔ اس دو تین سال کے عرصہ میں ایک کش مکش دیکھنے کو ملتی ہے، خصوصاً سرسید کے مزاج میں زیادہ۔ انگریزوں کے پیچھے بعض مرتبہ تو وہ آنکھ بند کر کے بھاگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ تحریک ابتدا میں جن اصولوں کولے کر چلی تھی وہ محدود ہوتے گئے۔ بقول پروفیسراحتشام حسین: "علی گڈھ تحریک اس طرح آہستہ آہستہ تضاد کا شکار ہوتی گئی اور سر سید کے غیر معمولی ذہن نے اپنی کمان سے ترقی کے تیر نکال کر رجعت پسندی کے تیر لگا لیے۔ جس سے خود ان کی تحریک زخمی ہو گئی۔”

    یہ نتیجہ حالات کے تیزی سے کروٹ بدلنے پر برآمد ہوا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک کی عظمت سے انکار قطعی نہیں ہوسکتا۔ اس تحریک نے ایسے حالات میں مسلمانوں کو سہارا دیا ہے، جب وہ بے بسی اور مایوسی کے دوراہے پر کھڑے تھے۔ اس نے ہندستان کے مسلمانوں کا صرف ساتھ ہی نہیں دیا، بلکہ ایسے چنگل سے نکالا ہے جس میں وہ بری طرح سے جکڑے ہوئے تھے۔

    بقول پروفیسر احتشام حسین: "انیسویں صدی کے وسط میں جب مسلمان کئی راستوں کے مقامِ استیصال پر پہونچ کر راستہ ڈھونڈنے کی ہمت کھو چکے تھے۔ نہ پیچھے پلٹ سکتے تھے، نہ آگے بڑھنے کی جرأت تھی۔ اسی وقت علی گڑھ تحریک نے انھیں آگے بڑھنا سکھایا، لیکن پوری طرح یہ نہ بتا سکی کہ کون سا راستہ کدھر جاتا ہے۔”

    (اقتباس ہندستان 1857ء کے بعد از علی احمد فاطمی)

  • فیض صاحب: دل چسپ یادیں

    فیض صاحب: دل چسپ یادیں

    ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا انقلابی شاعر فیض صاحب پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

    اس خودنوشت میں فیض صاحب نے دل چسپ یادیں بھی قلم بند کی ہیں۔ اس تحریر سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے۔ ابا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا۔ ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے، پھر اسکول۔

    رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

    ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب” کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اُردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوشربا، فسانۂ آزاد، عبدالحلیم شرر کے نادل وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام، غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا لیکن ان کا دل پر اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دل چسپی ہونے لگی۔

    ہمارے ابا کے منشی گھر کے ایک طرح کے منیجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ہی ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابا سے شکایت کر ہی دی۔ ابا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔

    کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو، اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے، شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا کرو۔

    ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں، ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوتی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے اگر تمہیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔

  • سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران پاکستان میں آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

    خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ ایک نظریۂ حیات کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد جذبے میں فراوانی اور ایمان میں تازگی تھی اس لیے اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیے ہوئے وطن میں اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

    افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک شوخ نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ”بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ آپ روتے کیوں ہیں؟“ سفید ریش بزرگ نے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ”عزیز من، یہ رنج کے آنسو نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی ستر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔ اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اللہ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں اور خوشی کے آنسو بہا رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ یہ سب کچھ کھونے کے بعد میں اپنی آنکھوں سے یہ روح پَرور منظر دیکھ رہا ہوں۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدللہ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی بہ رضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدللہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔“

    سوال کرنے والا شوخ نوجوان یہ سن کر والہانہ انداز میں اس عمر رسیدہ صاحب ایمان بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے اور جس کسی نے یہ دل کو تڑپا دینے والی گفتگو سنی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اللہ اللہ کیا عجب ایمان افروز اور دل دہلانے والا منظر تھا۔

    (نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ”کاروان حیات“ کا ایک ورق)

  • آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    یہ آغا حشر کاشمیری کا شخصی خاکہ ہے جس میں مصنّف نے ہندوستان میں تھیٹر کے شیکسپیئر کہلانے والے آغا صاحب کے علمی و ادبی شغف اور معمولات کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری ایّام کی تکالیف کو بیان کیا ہے۔

    آغا حشر برطانوی دور کے ممتاز ڈرامہ نویس اور شاعر تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت کو بام‌ِ عروج پر پہنچایا۔ ان کے شخصی خاکے سے یہ سطور پیشِ خدمت ہیں:‌

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں اور رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔

    بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔

    ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب، کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کر دی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سننے والوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

    آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔ وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کر دی۔ یوں دفعتاََ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا۔ مرتے مر گئے، شراب نہ پی۔

    ایک صبح میں ان کے پاس جانے کے لئے کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں کا خیال تھا جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے۔ انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔

    (شاعر و ادیب چراغ حسن حسرت کتاب ’مردمِ دیدہ‘ سے اقتباسات)

  • رپورتاژ: چند ادیب اور اُن کی کتابیں

    رپورتاژ: چند ادیب اور اُن کی کتابیں

    افسانوی انداز کی جذباتیت اور غیر افسانوی طرز کی روداد نگاری کو ہم رپورتاژ کہہ سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی اہلِ قلم چشم دید واقعات پر خیال آرائی کے ساتھ زبان کی چاشنی کا اہتمام کرتا ہے تو وہ دراصل رپورتاژ لکھ رہا ہوتا ہے۔

    لفظ رپورتاژ (Reportage) کو انگریزی زبان کے لفظ رپورٹ (Report)کے ہم معنی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف کو عموماً صحافتی تحریر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مصنف جان کیری (John carry) نے رپورتاژ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رپورتاژ عینی شاہد کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ایسے ٹھوس حقائق ہیں جو حادثے یا واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قلم بند کیے گئے ہوں۔ وقت اور تاریخ کا تعین اور خود مصنف کا عینی شاہد ہونا رپورتاژ کو زیادہ معتبر بنا دیتا ہے۔‘‘

    اُردو کے معروف نقاد محمد حسن عسکری نے رپورتاژ پر یوں اظہار خیال کیا ہے کہ ’’یہ نام ہی اس لیے اختراع کیا گیا تھا کہ بعض تحریروں کو صحافت اور ادب دونوں سے الگ کیا جا سکے۔‘‘ اگر عالمی ادب میں رپورتاژ کی ابتدا کی بات کی جائے تو اس صنف کا وجود ہمیں فرانسیسی، انگریزی، امریکی اور روسی ادب میں انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ملتا ہے۔ تاہم اس صنف نے بیسویں صدی کے شروع میں اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ حقیقت نگاری کی تحریک کے زیر اثر دوسری عالمی جنگ کے دوران انگریزی ادب میں کثرت سے رپورتاژ لکھے گئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب میں رپورتاژ کا سہرا ترقی پسند ادیبوں کے سر ہے، تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

    ابتداً ترقی پسند ادبیوں نے اپنی کانفرنسوں اور جلسوں کی روداد کو قلم بند کرنا شروع کیا اور یوں اردو ادب اور صحافت میں رپورتاژ کی روایت قائم ہوئی۔ حمید اختر اس حوالے سے ترقی پسند ادیب اور ایسے صحافی تھے جنھوں نے کئی رپورتاژ لکھے ہیں جو بہت دل چسپ بھی ہیں اور اہم دستاویز بھی۔ وہ قدوس صہبائی کے ہفتہ وار اخبار’’نظام‘‘ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد لکھتے تھے۔ اسے رپورتاژ کی ابتدائی شکل مانا گیا جس کا تذکرہ معروف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نے اپنی کتاب ’’روشنائی‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’حمید اختر ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جا سکتے ہیں۔ ان کی یہ ہفتہ واری سرگزشت دراصل ایک دل چسپ رپورتاژ تھی۔‘‘

    اگرچہ سجّاد ظہیر نے اردو میں حمید اختر کو اس صنف کا بانی کہا ہے لیکن حقیقتاً سجاد ظہیر خود اس صنف کے باقاعدہ بانیوں میں سے تھے کیونکہ اردو ادب میں قیام پاکستان سے قبل ۱۹۴۰ء میں ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی سجاد ظہیر کی تحریر کو اردو کا پہلا باقاعدہ رپورتاژ قرار دیا گیا ہے۔ سجاد ظہیر نے ایک اور رپورتاژ ’’سینڈھرسٹ روڈ‘‘ کے نام سے بھی لکھا لیکن اسے ’’یادیں‘‘ جیسی مقبولیت حامل نہ ہو سکی۔ اردو میں دوسرا باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر کے رپورتاژ ’’پودے‘‘ کو مانا جا تا ہے جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ یہ رپورتاژ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو اکتوبر ۱۹۴۵ء میں حیدر آباد میں ہوئی، کی روداد ہے جسے کرشن چندر نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں قلم بند کیا تھا۔ کرشن چندر کا ایک اور رپورتاژ ’’صبح ہوتی ہے‘‘ ۱۹۴۹ء میں تریچور میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے دوران پیش آنے والے واقعات پر مبنی تھا۔ تاہم اسے وہ شہرت نہ ملی جو ’’پودے‘‘ کے حصّے میں آئی۔

    ابراہیم جلیس بھی اردو ادب اور صحافت کا وہ نام ہے جن کے رپورتاژ مقبول ہوئے۔ ابراہیم جلیس کا رپورتاژ ’’شہر‘‘ منظر عام پر آیا جس میں ۱۹۴۶ء کے دور پر مبنی ابراہیم جلیس کے قیامِ بمبئی کی مکمل روداد پڑھنے کو ملتی ہے۔ ابراہیم جلیس کے دیگر رپورتاژوں میں ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ، ’’جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ اور ’’سپید اور سرخ ستارے کے درمیان‘‘ شامل ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں دہلی سے لاہور کی طرف ہونے والی ہجرت کو موضوع بنا کر شاہد احمد دہلوی نے ’’ دلّی کی بپتا‘‘ کے نام سے رپورتاژ لکھا جو ہندو مسلم فسادات کی روداد ہے۔ تقسیم ہند کے تناظر میں لکھا گیا ایک اور رپورتاژ فکر تونسوی کا ’’چھٹا دریا‘‘ ہے جو ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔ عصمت چغتائی نے ۱۹۵۲ء میں منعقدہ کل ہند اُردو کانفرنس میں شرکت کے لیے بمبئی سے بھوپال تک کا سفر کیا جسے بعد ازاں انہوں نے ’’بمبئی سے بھوپال تک‘‘ کے نام سے رپورتاژ کی شکل میں شائع کیا۔ عصمت چغتائی کے علاوہ قرۃ العین حیدر اور حجاب امتیاز علی کے علاوہ دیگر خواتین نے بھی رپورتاژ نگاری میں نام کمایا۔

    ممتاز مفتی کے رپورتاژ ’’لبیک‘‘ کے ذکر کے بغیر اُردو رپورتاژ کی تاریخ ادھوری ہے۔ یہ رپورتاژ سفر حج کی روداد ہے جسے ممتاز مفتی نے نہایت عقیدت سے قلم بند کیا۔ اس کے علاوہ محمود ہاشمی، خواجہ احمد عباس، قدرت اللہ شہاب، ڈاکٹر انور سدید وہ دیگر کے رپورتاژ بھی قابلِ ذکر ہیں۔

  • شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    یہ تذکرہ ہے شاد عارفی کا جو اردو کے اہم شاعروں میں سے ایک تھے۔ غزل اور ںظم دونوں ہی اصناف میں شاد نے طبع آزمائی کی اور اپنی پہچان بنائی۔

    ان کا اصل نام احمد علی خان اور شاد ان کا تخلص تھا۔ وہ زندگی بھر معاش کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ زندگی کی تلخیوں نے ان کی زبان پر بھی گویا تلخی گھول دی تھی۔ ہم عصروں پر نکتہ چینی اور ان کے بارے میں شاد کی رائے اکثر اچھی نہ ہوتی۔

    ‘مشاہیر، خطوط کے حوالے سے…’ وہ عنوان ہے جس کے تحت دکن کے معروف ادیب اور نقاد رؤف خیر کے چند تنقیدی مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں جن میں سے ایک مضمون میں انھوں نے شاد عارفی کو ان کے مکاتیب کی اوٹ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رؤف خیر نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے: یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ آگے چل کر رؤف خیر نے شاد عارفی پر بات کی ہے جس سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں:

    شاد عارفی زندگی بھر مسائل سے دوچار رہے۔ ماں کا مکان بیچ کر ماں کی تجہیز و تکفین کی۔ بیوی چند ہی ماہ ساتھ دے کر اسقاطِ حمل کے ساتھ خود بھی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔ اولاد کا سکھ شاد نے نہیں دیکھا۔ رام پور میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گزارہ کرتے تھے۔ کچھ ٹیوشن کر لیا کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں معمولی سے کام پر لگے ہوئے تھے۔ رام پور کی مشہور صولت پبلک لائبر یری میں لائبریرین کی طرح کچھ دن گزارے۔ کبھی کہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ بنے رہے۔ نواب رام پور کی شخصی حکومت کے شاد خلاف تھے۔ گویا وہ رام پور کے مخدوم محی الدین تھے۔ شاد لکھتے ہیں:

    ’’آخر میں جب ریاست (رام پور) مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر آئینی حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس بر سر اقتدار آ کر ان تاجداروں اور ظل الٰہیوں کو ان کی تنخواہوں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو۔ عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔‘‘

    اور مزے کی بات یہ کہ عوامی جمہوریت کے خواہش مند شاعر کو ترقی پسندوں نے کبھی گلے نہیں لگایا اور برسر اقتدار آ کر خود کانگریس نے شاد کو ’’خطرناک‘‘ سمجھ کر دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔

    شاد عارفی اپنی درد ناک زندگی کے بارے میں خود ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت میری عمر ۶۲باسٹھ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے، اس لیے سن کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں۔ مگر اس مدت میں میرا پرونڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمہارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے ہیں اس لیے تمہارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے، اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازی عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکار نے بلا سبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی۔ متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔

    میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی، جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘ (بحوالہ: ایک تھا شاعر)

    اور ان کرائے کے مکانوں کا حال بھی شاد عارفی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔

    باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے
    آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے

    یہ ساری مصیبتیں یہ سارے مسائل اس لیے تھے کہ شاد عارفی اپنے کھرے پن کی وجہ سے کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔

  • جب اقبال کو اپنے الفاظ میں تکبر محسوس ہوا….

    جب اقبال کو اپنے الفاظ میں تکبر محسوس ہوا….

    آغا شورش اور عبدالمجید سالک اردو ادب اور صحافت کی دو ممتاز اور نہایت بلند پایہ شخصیات ہیں جنھیں شاعری، نثر، صحافت اور تقریر و خطابت میں کمال حاصل تھا۔ شورش نے سالک صاحب پر اپنی ایک تحریر میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا ایک واقعہ نقل کیا جو انھیں سالک مرحوم نے سنایا تھا۔

    شورش لکھتے ہیں: ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے، اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔ ہم سفروں میں انھیں مہر جیسا رفیق قلم ملا۔ ہم نشینوں میں چراغ حسن حسرت، مرتضی احمد میکش، احمد شاہ بخاری، محمد دین تاثیر۔ شاگردوں میں احمد ندیم قاسمی اور اولاد میں عبدالسلام خورشید۔ کیا کیا باتیں ان کے سینہ میں نہیں تھیں؟ کتنی ہی باتیں ان کے قلم سے صفحہ و کاغذ پر آگئیں، کتنی ہی لوگوں کے حافظہ میں بے تحریر پڑی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔ اکثر گفتنی و نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔

    شورش لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں اقبال انار کلی میں رہتے تھے، ان دنوں لاہوری دروازہ اور پرانی انار کلی میں بھی کسبیوں کے مکان تھے۔ ایک دن میں علامہ کے ہمراہ انار کلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک وہ ایک ٹکیائی کے دروازہ پر رک گئے۔ ادھیڑ عمر کی کالی کلوٹی عورت، مونڈھے پر بیٹھی حقہ سلگا رہی تھی۔ اندر گئے حقہ کا کش لگایا، اٹھنی یا روپیہ اس کے ہاتھ میں دے کر آگئے۔ میں بھونچکا رہ گیا، ڈاکٹر صاحب یہ کیا حرکت؟

    فرمایا، سالک صاحب، اس عورت پر نگاہ پڑی تو اس کی شکل دیکھ کر لہر سی اٹھی کہ اس کے پاس کون آتا ہوگا؟ پھر مجھے اپنے الفاظ میں تکبر محسوس ہوا۔ میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے پہلو میں بھی دل ہوگا۔ یہی احساس مجھے اس کے پاس لے گیا کہ اپنے نفس کو سزا دے سکوں اور اس کی دل جوئی کروں۔ یہ عورت صرف پیٹ کی مار کے باعث یہاں بیٹھی ہے ورنہ اس میں جسم کے عیش کی ادنیٰ سی علامت بھی نہیں ہے۔‘‘

    سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہرچیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے۔

  • افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    آلڈس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ ادیب بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اس نے بے تامل جواب دیا کہ ایک قلم، ایک دوات اور کچھ کاغذ۔

    ایک رسالے میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ کچھ کاغذ سے کیا مراد ہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا افسانہ لکھنے کو جی چاہا تو میں نے اپنے والد کے حساب کتاب کے رجسٹر کی جلد توڑ دی اور اس میں لکھنا شروع کر دیا، قیاس ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد حساب کتاب نہ رکھا کرتے، جیسا کہ بعض لوگ نہیں رکھتے اور جمیلہ کے ہاتھ نہ پڑتا تو افسانہ نگار نہ بن سکتیں۔ جو حضرات اپنی بہنوں بیٹیوں کو افسانہ نگار بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ فوراً بہی کھاتے خریدیں اور جو اپنی نور نظر کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیں، انھیں لازم ہے کہ اپنے رجسٹروں کو دکان پر تالے کے اندر رکھا کریں۔

    لیکن ہمارا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگار کے طور پر کی تھی اور اس کے لیے نہایت عمدہ چکنے کاغذوں کی ایک کاپی مجلد تیار کرائی تھی۔ ایک روز ہم کاپی کو افسانے کے ایک نازک موڑ پر بستر پر کھلی چھوڑ گئے۔ واپس آکر کھولا تو صورت احوال یوں نظر آئی:

    ’’امجد نے کہا۔ میری رانی بولو تمہیں کیا چاہیے۔ کہو تو آسمان کے تارے توڑ کر تمھارے قدموں میں لا بچھاؤں۔ تمھارا دامن بہار کے رنگین پھولوں اور کلیوں سے بھر دوں۔ بولو بولو کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے کہا،’’امجد مجھے دنیا میں اور کچھ مطلوب نہیں فقط:
    بنولے ڈیڑھ من
    بھوسہ دس من
    نمک ایک ڈلا
    گڑ ڈھائی من
    چارپائی کا بان پانچ گٹھے
    گھی سات سیر

    ہم نے جھنجھلا کر وہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چچا عینک کو ناک کی پھننگ پر جمائے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بولے بیٹا یہاں ایک کاپی میں کچھ حساب لکھا تھا میں نے۔ منڈی جارہا ہوں سودا لانے۔ کہاں گئی وہ کم بخت کاپی؟

    ہمارے نقطۂ نظر سے یہ افسانہ بہترین افسانوں میں سے تھا۔ اس کا کلائمکس یعنی نقطۂ عروج اس کے آخر میں آتا تھا۔ یہ وضاحت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض افسانوں کا کلائمکس بالکل شروع میں آجاتا ہے۔ آخری پیرا لکھتے لکھتے ہمیں ایک ضرورت سے تھوڑی دیر کو باہر جانا ہوا۔ واپس آئے تو افسانہ مکمل تھا۔

    ’’امجد نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ میری غلام فاطمہ۔ اب میں گاؤں واپس آگیا ہوں اور زندگی تمھارے قدموں میں گزاروں گا۔ رانی نے مجھ سے دغا کی۔ اب مجھے سچی محبت کی قدر ہوئی۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ جانو۔ مجھے معاف کردو۔ غلام فاطمہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ امجد۔ اب میری زندگی میں رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند آہیں اور…
    قمیضیں بڑی پانچ عدد
    پاجامے چھوٹے چار عدد
    تکیے کے غلاف دس
    تولیے دو
    جھاڑن دو
    کھیس چارخانہ دو عدد
    کل 25

    ہم نے شور مچایا۔ یہ کیا غضب کر دیا۔ بہن بولیں۔ ارے میاں کچھ نہیں۔ دھوبی کا حساب لکھا ہے۔ اس سے پہلے مرقع چغتائی کے حاشیے پر لکھا کرتی تھی۔ وہاں اب جگہ نہیں رہی۔ یہ کاپی خالی نظر آئی اس میں لکھ دیا۔ ہم نے کہا بہن اب یہ کاپی تم ہی رکھو۔ ہمارے کام کی نہیں رہی، چنانچہ اس روز ہم نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا اور شعر کہنے لگے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعر لکھنے کے لیے کسی کاپی اور رجسٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں دروازے کی چوکھٹ پر لکھا جاسکتا ہے قمیص کے کفوں پر لکھا جاسکتا ہے۔ سکتا کیا معنی، ہم لکھتے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار

    شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار

    ہندوستان میں دلّی، لکھنؤ، دکن اور دیگر ریاستیں جب تک خود مختار اور خوش حال رہیں، وہاں کے نواب اور امراء کی شان و شوکت اور آن بان بھی سلامت رہی۔ ان کے دسترخوان بھی خوب سجائے جاتے تھے۔ شادی بیاہ اور تہوار وغیرہ تو ایک طرف عام دنوں میں بھی ضیافتیں نوابوں کے محل اور کوٹھیوں کی رونق میں اضافہ کرتی تھیں۔

    اس دور میں ماہر طباخ اور رکاب دار ہندوستان میں موجود تھے جو نہایت لذیذ اور عمدہ کھانے تیار کرتے تھے طرح طرح کے نمکین اور میٹھے کھانے لطافت، نفاست اور کمال مہارت کے ساتھ بنائے جانے کے بعد جس طرح چُنے جاتے وہ بھی ایک فن تھا اسی دور کے ایک رکاب دار کا تذکرہ مرزا جعفر حسین نے یوں رقم کیا ہے:

    اسی طرح ایک کلاس رکاب داروں کا حَسن گنج پار میں آباد تھا۔ یہ لوگ جاڑوں میں جوزی حلوا سوہن، پیڑیاں اور مختلف قسم کے حلوے اور گرمیوں میں چٹنیاں، رُب اور مربّے بناتے تھے۔ ہر رکاب دار کسی نہ کسی رئیس کی ڈیوڑھی سے وابستہ تھا۔ ہر زمانے میں دوسرے تیسرے روز سامان تیار کر کے لاتا اور ایک ہی ٹھکانے فروخت کر کے فرصت حاصل کر لیتا تھا۔ اس طبقے پر بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں زوال آگیا تھا۔ لیکن ایک خوش نصیب رکاب دار کا واقعہ دل چسپ ہے۔ اس شخص کا نام اعظم علی یا عظیم اللہ تھا۔ یہ میرے گھرانے سے منسلک تھا۔ اسی سال جب کہ میں وکالت کے پیشے میں داخل ہوا تھا اُس نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اُس کی وکالت شیخ مستنصر اللہ صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس پر کر دوں۔ میں نے فوج داری کی عدالتوں سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر بہت کچھ معذرت چاہی مگر وہ نہ مانا اور مجھے زبردستی اس لیے لے گیا کہ شیخ صاحب مرحوم سے میرے مراسم تھے۔

    یہ مقدمہ قمار بازی کا تھا۔ عدالت نے مجھے دیکھا، پھر مؤکل کو گھورا اور مجھ سے فرمایا کہ یہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ اس کی سزا کم ہو جائے، میں اس پر کئی بار جرمانہ کر چکا ہوں آج پھر جرمانہ کر دوں گا۔ مگر آئندہ پھر چالان ہوا تو ضرور جیل کی سزا دوں گا۔ شیخ صاحب پرانے طرز کے حاکم تھے، اُن کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی یہ ساری کارروائی ان کے یہاں اردو میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہر حال پچاس روپیہ جرمانہ کیا، ملزم نے فوراً جمع کر دیا۔ مگر اسی وقت سے وہ مفرور ہوگیا۔ اس واقعہ کے تخمیناً آٹھ برس کے بعد میں نے حیدرآباد دکن کی ایک عالی شان دکان پر یہ بورڈ لگا دیکھا۔ ”شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار“ میں بے حد اشتیاق کے ساتھ دکان کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ میاں عظیم اللہ ایک تخت پر قالین، گاؤ اور تکیے کے فرش و آرائش سمیت ایک بڑی نفیس سٹک (حقہ کا حصّہ) کے دَم گھسیٹ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا اور میری بہت تواضع کی۔

    حالات دریافت کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ ”جوا چھوٹ نہیں سکتا تھا لہٰذا جیل جانے کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا۔ یہاں آ کر دکان کھولی، حسن اتفاق سے سرکار نظام کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اللہ کی رحمت سے کاروبار میں فروغ ہو گیا اور خدا کے فضل سے بہت آرام ہے۔“