Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • دلّی والے اور برسات

    دلّی والے اور برسات

    اب ہم نشیں میں روؤں کیا اگلی صبحوں کو
    بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئی ہیں

    جن وقتوں کا یہ ذکر ہے، ان کو بیتے 50 سال سے اوپر ہوئے، ہر چند کہ ’غدر‘ کے بعد دلّی والوں کی قسمت میں زوال آگیا تھا اور مصائب و آلام نے ان کو گھروں سے بے گھر کر دیا تھا، مگر اَمی جَمی ہو جانے پر ان کی فطری زندہ دلی پھر کے سے ابھر آئی۔

    بے شک وقت اور حالات نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، لیکن ان کے طور طریق، ان کا رکھ رکھاؤ، ان کی قدیم روایات، ان کا ہنسنا بولنا اور ان کی وضع داریاں ان کے سینوں سے لگی رہیں، مگر یہ سب باتیں بھی انھی لوگوں کے دم قدم سے تھیں۔ جب نئی تعلیم اور نئی تہذیب نے نئی نئی صورتوں کے جلو میں اپنی جوت دکھائی تو ’شاہ جہاں آباد‘ کے وہ سدا بہار پھول کملانے لگے۔ ان وقتوں میں دلّی والے اپنی زندگی ہنس بول کر گزارتے تھے۔ سال کا ہر موسم اور مہینے کا ہر روز ان کے لیے خوشی کا ایک نیا پیغام لاتا تھا۔ آندھی جائے، مینہ جائے ان کو خوش رہنے اور خوش رکھنے سے کام۔

    یادش بخیر، مینہ کا ذکر آیا، تو برسات کے وہ سہانے سمے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ آج کی دہلی دیکھیے تو زمین آسمان کا فرق…! اب کی باتیں تو خیر جانے دیجیے کہ اس زمانے میں خوش وقتی کا جو ہدڑا بنا ہے وہ ہر بھلے مانس کو معلوم ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ ان مبارک دنوں میں دلّی والے برسات کو کس طرح مناتے تھے۔

    جیٹھ بیساکھ کی قیامت خیز گرمیاں رخصت ہوئیں، اب برسات کی آمد آمد ہے۔ بہنوں کو سسرال آئے ہوئے مہینوں گزر گئے اور ان کی آنکھیں میکے کے کاجل کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ نیم میں نبولیاں پکتی دیکھ کر ان کو میکہ یاد آ رہا ہے اور وہ چپکے چپکے گنگناتی ہیں۔

    نیم کی نمبولی پکی، ساون بھی اب آوے گا
    جیوے میری ماں کا جایا، ڈولی بھیج بلاوے گا

    لیجیے یہ وقت بھی آگیا، ساون کی اندھیری جھکی ہوئی ہے۔ لال کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خاک اور ہوا کا وہ زور کہ الامان الحفیظ! آخر مینہ برسنا شروع ہوا، خاک دب گئی ہے اور پچھلے مہینوں گرمی نے جو آفت ڈھائی تھی، اس سے خدا خدا کر کے چھٹکارا ملا۔ بارش کے دو چار ہی چھینٹوں نے ہر شے میں نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔ لوؤں کے تھپیڑوں سے جھلسے ہوئے درخت اور پودے جو سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے، اب پھر ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ اونچے اونچے پیڑوں کی ٹہنیاں خوشی سے جھوم رہی ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، مخملی فرش بچھا ہوا ہے۔ دلّی والے، سیلانی پنچھی، گھڑی گھڑی آسمان کو دیکھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہیں۔

    کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں برسے
    ایسا برسے میرے اللہ کہ چھاجوں برسے

    (اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ڈراما نویس اور مترجم صادق الخیری کے مضمون سے اقتباسات جو 1939ء میں لکھا گیا تھا)

  • سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آ رہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔

    اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔ اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کر دیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔

    میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی، وہ ہیرو کا رول ادا کر رہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہو گی۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

    (فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ سے اقتباس)

  • آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آغا صاحب کے بعض ہم عصر ادیبوں نے ان سے اپنی ملاقاتوں اور گفتگو کا احوال بھی لکھا ہے۔

    مردم دیدہ چراغ حسن حسرت کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے آغا حشر کی شخصیت پر بھی مضمون شامل کیا ہے۔ اس سے ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:

    یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ سنہ 1921ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ان کی نظموں’ موجِ زمزم‘اور ’شکریہ یورپ‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور لوگ انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص، دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، آغا نے کر دکھایا۔

    میں سنہ 1925 میں کلکتہ گیا۔ وہاں ان کے ہزاروں مدّاح موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار اور پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد میں نے ا ن کے ایک مداح سے کہا کہ آغا صاحب سے کب ملوائے گا۔ وہ کہنے لگے’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ابھی چلو‘۔ ہم بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی،چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ، صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے کھرّی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا۔

    آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے، سب پر چھا جاتے۔ جب شام کو صحبت گرم ہوتی، تین تین چار چار آدمی مل کر آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا اسے اِس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتا تھا۔ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے گالی کو شعر و ادب سے ترکیب دے کر خوش نما چیز بنا دیا تھا۔

  • ادب میں فارمولا بازی

    ادب میں فارمولا بازی

    شعر و ادب کے حسن و قبح کو پرکھنے کی کسوٹی کسی زمانے میں محض زبان و بیان اور قواعد عروض کے چند بندھے ٹکے اصول تھے۔ مشاعروں، نجی صحبتوں اور ادبی معرکہ آرائیوں سے لے کر درس گاہوں تک انہیں اصولوں کی حکمرانی تھی۔

    پھر ایک ایسا دور آیا جب شعری ادبی تحقیقات کو اس تنگنائے سے باہر نکلنے کا موقع ملا اور موضوع و معنی کی قدر و قیمت سے بحث ہونے لگی۔ اردو میں نقد و انتقاد کو صحیح معنوں میں اسی وقت سے پروان چڑھنے کے لیے ایک سازگار فضا میسر آئی مگر یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری ادبی تنقید نے روز اوّل سے ہی اخلاقی اور افادی اقدار پر اس قدر توجہ کی کہ شعری اور ادبی تصانیف کے فنی حسن اور تخلیقی و جمالیاتی تقاضوں کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ ادب کی تخلیق نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ بسا اوقات ایک ایسا شعر یا نثر پارہ جو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت مفید، معقول اور صالح سماجی یا اخلاقی اقدار کا حامل ہو، بے کیف اور بے اثر معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف داغ اور جرأت کا کوئی فاسقانہ شعر سن کر منھ سے بے اختیار واہ نکل جاتی ہے۔

    آخر وہ کون سا جادو ہے جو ایک معمولی اور مبتذل خیال یا تجربے کو حسین بنا دیتا ہے اور وہ کون سا عنصر ہے جس کی غیرموجودگی ایک اعلیٰ و ارفع معنی کو تاثیر اور لذت سے محروم کر دیتی ہے۔ اردو تنقید حالی کی افادی و اخلاقی تنقید سے لے کر موجودہ دور کے ادبی دبستانوں تک نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکی ہے مگر ادبی تخلیق کے اس راز کو دریافت کرنے میں عموماً ناکام رہی ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر شعر و ادب سے لطف اٹھانے اور اس سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو یا ہماری جمالیاتی اور تخلیقی حس بالکل کند ہو گئی ہو۔ عام طور پر ہمارا رویہ اس سلسلے میں نارمل ہوتا ہے، خاص طور پر اس شخص کا جو محض ادب کا ایک قاری یا سامع ہو اور شعر یا ادبی تحریر اس کی ذہنی تسکین کے لیے غذا کا کام کرتی ہو مگر ہمارے یہاں گزشتہ تیس برس میں جس طور پر اردو کے ادیبوں اور نقادوں کے ادبی مزاج کی تشکیل ہوئی ہے، اس نے ادبی لطف اندوزی کی راہ میں طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ نظریہ، فلسفہ، عقیدہ، سماجی افادیت، صحت مندی، رجائیت، اجتماعی شعور اور نہ جانے کتنی اصطلاحات جن کو ہم نے ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔

    ہماری ادبی تاریخ کا یہ دور تحریکوں کا دور رہا ہے۔ ادبی تحریکوں سے ادب کے ارتقا میں یقیناً مدد ملتی ہے مگر تحریک زدگی، کبھی کبھی ہم کو اصل ادب سے دور بھی کر دیتی ہے۔ کوئی تحریک اگر چند فارمولوں اور فیشنوں یا چند تنقیدی مفروضات کو ہی ادب کی اساس سمجھنے لگے تو اس تحریک کے سائے میں پروان چڑھنے والا ادیب اور شاعر اپنے شخصی تجربات اور باطنی کیفیات پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے حقیقی جذبات اور دلی وارادت کی نفی کر کے ان خیالات پر اپنی تحریروں کی بنیاد رکھنے لگتا ہے جو دراصل اس کی تخلیقی شخصیت سے فطری مناسبت نہیں رکھتے۔

    ترقی پسند ادب کی تحریک کے عروج و زوال سے آج کے ادیبوں کی نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس تحریک کے سائے میں جس تنقید کو فروغ ہوا وہ شعر یا افسانہ پڑھنے سے پہلے یہ معلوم کرتی تھی کہ یہ ادیب یا شاعر کون ہے؟ اس پر ترقی پسندی کا لیبل لگا ہوا ہے یا نہیں؟ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا رکن ہے یا نہیں؟ اگر رکن ہے تو سیاسی جماعت سے کس حد تک وابستہ ہے جس کے نظریے یا فلسفے کو ترقی پسندی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو وہ چاہے جس طرح کی چیز لکھے، اس کا ذکر نمایاں طور پر ہوتا تھا۔ اس کی جماعتی وابستگی یا وفاداری اس کے تمام ادبی گناہوں اور فنی کوتاہیوں کا بدل بن جاتی تھی۔

    رفتہ رفتہ یہ لے اتنی بڑھی کہ بعض اوقات کسی ادیب کی تحریر کے لیے یہی سند کافی تھی کہ وہ کسی ترقی پسند رسالے میں چھپی ہے۔ بعض رسالے تحریک کے سرکاری آرگن کی حیثیت رکھتے تھے اور اس میں چھپنے والا تمام مواد نقادوں اور ادیبوں کے لیے قابل قبول سمجھا جاتا تھا۔ تحریک پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب بعض رسالوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ گویا ان رسالوں میں لکھنے والا خواہ، اس کی تحریر ترقی پسندہی کیوں نہ ہو، اس کی ترقی پسندی مشکوک سمجھی جائے گی۔ منٹو اور عسکری نے ’’اردو ادب‘‘ کے نام سے رسالہ نکالا تھا یا وہ رسالے جن سے میرا جی اوران کے حلقے کے لوگ وابستہ تھے، اسی ذیل میں آتے تھے۔

    ادب میں جدیدیت کا میلان دراصل اسی غیر ادبی مسلک سے انحراف اور رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صحیح معنوں میں جدید ادیب وہ ہے جو زندگی اور اس کے مظاہر کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں آزادانہ طور پر دیکھنے اور برتنے کی کوشش کرتا ہے اور تخلیقی عمل کو غیر فطری فارمولوں اور مفروضوں سے الگ رکھ کر فطری نشوونما کا موقع دیتا ہے۔ ایسا ادیب چاہے وہ کسی درجے کا ہو اور اس کے موضوعات کا دائرہ خواہ وسیع ہو یا محدود، سب سے پہلے ادب کے تخلیقی اور جمالیاتی تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کے یہاں اپنے دور کی آگہی اور ہوش مندی ہے اور اس نے زندگی کو رسمی اور روایتی زاویوں سے دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقتوں کا از سر نو انکشاف کیا ہے تو اس کی تحریر میں تازگی اور ندرت ضرور ہوگی۔

    مگر ہمارے یہاں تحریکوں نے ادبی مزاج پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہے کہ بہت سے وہ ادیب بھی جو اپنے آپ کو جدیدیت کا نمائندہ کہتے ہیں، جدیدیت کو ترقی پسندی کی طرح ایک فارمولا یا فیشن سمجھتے ہیں اور ادبی تخلیق میں اسی منصوبہ بندی سے کام لے رہے ہیں جو ترقی پسندوں کی خصوصیت تھی۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ بھی سوچنے لگے ہیں کہ فلاں شخص جدید ہے یا نہیں یعنی اس نے اپنے جدید ہونے کا اعلان کیا ہے یا نہیں؟ فلاں ادیب کس رسالے میں اپنی چیزیں چھپواتا ہے؟ اگر ایک ادیب یا شاعر مسلسل ’’شب خون‘‘ یا کسی ایسے ہی رسالے میں چھپتا رہا ہو لیکن اتفاق سے ’’گفتگو‘‘، ’’حیات‘‘ یا اسی قبیل کے کسی اور پرچے میں اس کی تحریر چھپ جائے تو اس کی ’’جدیدیت‘‘ مشکوک سمجھی جاتی ہے۔

    میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے جدید ادیبوں اور گزشتہ دور کے تحریکی ادیبوں کے ادبی مزاج میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ادب کی ایک مصنوعی فضا میں سانس لے رہے ہیں جو ان کے لیے آئندہ چل کر مہلک ثابت ہوگی۔ جدیدیت کا صحیح راستہ تویہ ہوگا کہ کسی پر لیبل نہ لگایا جائے، نہ کسی رسالے کو جدیدیت کا سرکاری ترجمان سمجھا جائے۔ کوئی تحریر اپنے طرز احساس، رویے اور اسلوب اظہار کی بنا پر ہی جدید کہلانے کی مستحق ہوگی۔ اگر ایسی تحریر ہمیں مخدوم، سردار جعفری، کرشن چندر کے قلم سے بھی نظر آئے تو اسے جدید کہنا ہوگا۔ کسی ادیب یا شاعر کو ہم ایسی اکائی نہیں فرضی کرسکتے جو محض ایک خصوصیت کا حامل ہو اور دوسری خصوصیت کبھی اس میں پیدا ہی نہ ہو۔

    زندگی کی طرح خود انسان بھی متحرک اور تغیرپذیر ہے۔ ایک ہی ادیب ایک تخلیق میں قدامت کا حامل ہو سکتا ہے تو دوسری تخلیق میں جدیدیت کا۔ اسی طرح اس کی کوئی تحریر ناکام ہوسکتی ہے تو دوسری کامیاب۔ ادب اور ادبی تنقید کو جمالیاتی معیاروں کے علاوہ دوسرے تمام مفروضات سے بالاتر ہونا ہوگا۔ جدید نسل کو اسی ادبی مزاج اور تخلیقی رویے کو آگے بڑھانا ہے ورنہ جدیدیت بھی کچھ دنوں میں ایک تحریک بن کر رہ جائے گی اور اس کے خلاف بھی وہی رد عمل ہوگا جو گزشتہ تحریکوں کے خلاف ہوا۔

    (شاعر اور جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں سے ایک خلیل الرحمٰن اعظمی کی تحریر)

  • پنجاب کے مشہور ڈاکو جگا کی کہانی لکھنے والا بُلونت سنگھ

    پنجاب کے مشہور ڈاکو جگا کی کہانی لکھنے والا بُلونت سنگھ

    بلونت سنگھ بیسویں صدی کے اردو اور ہندی کے مشہور و معروف ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھے۔ مئی 1986 میں‌ بلونت سنگھ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے فکشن کی سب سے بڑی خوبی پنجاب کے دیہات اور ماحول کا گہرا مشاہدہ اور سنسنی خیز کرداروں کی بازیافت ہے۔ انسانی زندگی کو مختلف کرداروں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے وہ مجموعی طور پر کچھ طنزیہ اور کچھ رومانوی انداز اپناتے ہیں۔

    معروف پاکستانی افسانہ نگار، ناول نویس، مترجم اور نقاد خالد فتح محمد کے بلونت سنگھ سے متعلق ایک تحریر سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

    میں ایف اے میں کمپارٹمنٹ (جسے آج کل “سپلی” کہا جاتا ہے) آنے کے بعد پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر مستقلاً گاؤں چلا گیا تھا۔ تب تک میرا ادب کے ساتھ رشتہ قائم ہو چکا تھا؛ شاید ایف اے میں ناکامی کی وجہ بھی یہی تھی۔

    گوجراں والا سے ادبی رسائل منگواتا رہتا اور غالباً فنون کے کسی شمارے میں بلونت سنگھ کے ناول “رات، چور اور چاند” کا ایک باب پڑھا جو وہاں لگایا گیا تھا۔ اس باب میں ماحول، کرداروں کی باہمی سمجھ بوجھ (دو ہی کردار تھے) اور قصِہ گوئی کے انداز نے مجھے کئی دن اپنے سحر میں رکھا۔

    میں اس چھوٹے سے صحن کا حصہ بن گیا جو اس باب کا لوکیل تھا۔ پھر مجھے غالباً مکتبۂِ جدید کے سستے ایڈیشن میں جگا خریدنے کا اتفاق ہوا۔

    بُلونت سنگھ کے ناول کا باب میں ابھی بھول نہیں پایا تھا کہ جگا پڑھ لیا۔ جگا مجموعے کا پہلا افسانہ تھا اور میں نے پہلی بار اینٹی ہیرو اردو میں دیکھا اور پھر جگا مجھے بلونت سنگھ کے چند ناولوں میں نظر آیا۔

    کچھ تخلیق کار فوری طور پر ہی شناخت کر لیے جاتے ہیں۔ جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ان کا ذاتی تشہیر پر انحصار بھی شامل ہے۔ بلونت سنگھ کسی بھی طرح اس طرح نہیں جانے جا سکے جیسے ان کے چند ہم عصر ادیب تھے۔ یہاں موازنہ مقصود نہیں ہے، لیکن اپنی تحریروں میں وہ کسی سے بھی کم نہیں تھے۔

    اگر کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کو مولانا صلاح الدین احمد نے متعارف کرایا تو بُلونت سنگھ بھی انھی کے متعارف کرائے ہوئے تھے۔

    بُلونت سنگھ شاید اپنے کام میں یقین رکھتے تھے۔ ادبی معرکے جہاں ادب میں اپنی سوچ اور نظریے کی ترویج کے لیے ہوتے ہیں، وہاں ذاتی تشہیر بھی مقصود ہوتی ہے۔ بلونت سنگھ کسی ایسی ادبی جنگ کا حصہ نہیں رہے جو کرشن چندر، منٹو اور بیدی اکثر لڑتے رہتے تھے۔ بعض اوقات یہ اختلاف ضروری بھی ہوتا ہے، لیکن بلونت سنگھ ہمیشہ وہ ایسے بَیک بَنچر کے طور پر رہے جنھیں اپنا سبق تو آتا تھا لیکن استاد کے سامنے بیٹھنا پسند نہیں تھا۔ ان کی تخلیقات کی تعداد یا مِعیار کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔

    ان کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ دیہہ نگار ہی تھے، مگر ایسا نہیں ہے۔ ان کے شہری ماحول کے افسانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے کیوں کہ ان پر دیہات کی چھاپ لگ چکی تھی۔ ان کے شہری ماحول کے افسانوں میں ایک ایسی گہرائی ہے جو شاید دیہات کے ماحول میں نہیں ہے۔ وہ دیہاتی ماحول تخلیق کرتے ہوئے جزئیات کو اہمیت دیتے ہیں جو قاری کو ایک سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ اس سحر کی بہترین مثال راستہ چلتی عورت ہے۔

    بُلونت سنگھ کے شہری افسانوں میں شہری زندگی کی پیچیدگیاں اور نفسیات ہمیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں۔ وہ ایسے تخلیق کار ہیں جس نے اپنی شہرت کے بہ جائے تخلیقی اہلیت پر انحصار کرتے ہوئے نسبتاً پس منظر میں رہنے کو ترجیح دی۔ اب وقت ہے کہ بلونت سنگھ کو “ری وزٹ” کیا جائے اور جگا کے نفسیاتی اور جنسی پہلوؤں کو شناخت کیا جائے………. وہ ایک فراموش شدہ فکشن نگار ہیں۔

  • نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات، روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔ اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاستِ عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔

    ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ) Agreement Still (Stand کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا…!

    ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم، موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پَر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضا کار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔ ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدرآباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا…. حیدر آباد کالونی۔

    (ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے لیا گیا)

  • سید فخرالدین بلّے: برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا!

    سید فخرالدین بلّے: برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا!

    سَید فخرالدین بلّے میرے دوست بھی تھے اور رفیق کار بھی۔ ہماری رفاقت نصف صدی کا قصہ ہے۔

    وہ کوئٹہ، قلات اور خضدار گئے، تو وہاں بھی ادبی ہنگامہ خیزیاں جاری رکھیں۔ سرگودھا، ملتان اور بہاول پورمیں بھی ان کے جنوں نے انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا۔لاہوراورراولپنڈی میں بھی ادبی اور ثقافتی ہلچل مچائے رکھی۔ وہ ماحول کواپنے رنگ میں رنگنا جانتے تھے۔ اب دنیا میں نہیں رہے، لیکن اپنے احباب کے دلوں میں تابندہ ہیں۔ ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کم کم ہی ہوتی ہیں۔

    تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اس شخصیت میں دستِ قدرت نے بہت سی شخصیات کو یک جا کر دیا تھا۔ ادیب، شاعر، دانش وَر، مقرر اور ماہر تعلقات عامہ ہی نہیں، وہ بہت کچھ تھے۔ وسیع العلمی اور قادرالکلامی ان کا طرّۂ امتیاز۔ جس رستے پر چلے، اپنی ذہانت اور علمیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ انسانیت ان کے انگ انگ میں تھی۔ مٹی کا قرض چکانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

    سیّد فخرالدین بلّے کے ہاں مزاحمت کا رنگ بھی ہے اور تصوف کا رنگ بھی۔ دراصل ان کی شاعری کے کئی ادوار ہیں، ہر دور میں سوچنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی۔ اسی لیے ہمیں ان کی شاعری میں بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے آپ ارتقائی سفر کانام بھی دے سکتے ہیں۔

    وہ قادرُ الکلام شاعر تھے۔ نظم اور غزل دونوں میں کمالات دکھائے۔ خود نمائی سے بچتے رہے۔ اخبارات و جرائد میں بھی ان کی نگارشات ان کے نام سے بہت کم چھپیں۔ البتہ اکابرینِ ادب کی نظر میں وہ ایک دراز قامت علمی شخصیت تھے، اسی لیے وہ ان کی تخلیقی اور فکری توانائیوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے سید فخر الدین بلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ ان کے زیرِ سایہ بہت سے پودے پروان چڑھے اور ہم نے انہیں تن آور پیڑ بنتے دیکھا۔ ساری زندگی سر اٹھا کر جینے کی کوشش کی اور سر اٹھا کے ہمیشہ جیے بھی۔ ان کا اپنا ایک شعر اس حوالے سے میرے تاثرات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

    سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
    سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

    چند حکم رانوں کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات رہے، لیکن انہوں نے اس کا کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے نوازنے کی پیش کش بھی کی تو انہوں نے اسے قبول نہ کیا، کیوں کہ یہ تو سر اٹھا کر جینے والوں میں سے تھے۔ ذاتی منفعت اٹھاتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ وہ ذوالفقار بھٹو کے وزارت خارجہ کے دور میں وفد کے ساتھ نئی دہلی گئے تھے، وہاں ان کی ’پی آر‘ دیکھ کر بھٹو صاحب نے ’ایکسیلنٹ‘ کہا۔

    اشفاق احمد زندگی میں آسانیاں بانٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ یہی چلن ساری زندگی سید فخر الدین بلے کا رہا۔ وہ اپنے رفقائے کار کی غلطیوں کو اپنے سر لے کر انہیں بچا لیا کرتے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا۔ دوسروں کے کام آ کر دلی خوشی محسوس کرتے۔ اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر بہت سے قلم کاروں کو پلاٹ بھی دلوائے، مگر اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی۔ اسی لیے وہ بڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے۔ انکساری کے ساتھ خود داری بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ عزت سے پیش آتے اور اہلِ علم و ادب ہی نہیں بیوروکریٹس بھی انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنے حلقۂ یاراں میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔

    انہوں نے صدور، وزرائے اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ سمیت مقتدر شخصیات کے لیے ہزاروں تقریریں لکھیں، بیسیوں بروشرز، سووینئیرز، کتابیں اور کتابچے شایع کرائے۔ لاہور میں ادبی تنظیم قافلہ بنائی، جس کے تحت بڑی خوب صورت محفلیں سجایا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان کے قافلے کی بہت سی محفلوں میں پڑاؤ ڈالنے کا اعزاز ملا۔ ان محفلوں کی رپورٹوں کو یکجا کر دیا جائے، تو لاہور کی ادبی تاریخ کے بہت سے اوراق ہم محفوظ کر سکتے ہیں۔

    اسلام اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی انہوں نے قرآن و احادیث کی روشنی میں بڑا تحقیقی کام کیا، اس کا مسودہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ واقعی قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔ سَید فخرالدین بلّے کو اپنی زندگی میں جو میدان ملا، وہ اس سے باہر نکل کر بھی بڑی کام یابی کے ساتھ کھیلتے نظر آئے۔

    یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے سرکاری دورے پر ساہیوال آئے تو وارث شاہ کی یادگار ملکہ ہانس کی خستہ حالی دیکھ کر سیدھے میرے دفتر پہنچ گئے۔ میں ان دنوں ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ کہنے لگے آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے ضلع میں یہ سب ہو رہا ہے، یقین نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگے بات بتانے کی نہیں، دکھانے کی ہے۔ وہ مجھے ملکہ ہانس لے آئے، اس کی خستہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ انہی کی تحریک پر ملکہ ہانس کی تزئینِ نو کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر ایک خوب صورت بروشر بھی شایع کیا تھا۔ ان کا اپنا شعر اس کے سرورق کی زینت تھا۔

    لوگ ساری زندگی دولت سمیٹتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، لیکن سَید فخر الدین بلّے نے صرف عزت اور نیک نامی کمائی اور دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔

    (جاوید احمد قریشی کی تحریر سے اقتباسات)

  • گاندھی جی کی مہاتمیت

    گاندھی جی کی مہاتمیت

    آہنگِ بازگشت مولوی محمد سعید کی خود نوشت ہے جس میں مصنف نے ایک طویل اور ہنگامہ خیز عہد کے مختلف واقعات کو سمیٹا ہے۔ اسے ہم بیسویں صدی کی تاریخی اور عہد ساز شخصیات کی داستان، ادب و صحافت کے میدان کی کہانیاں کہہ سکتے ہیں جب کہ اس آپ بیتی میں برصغیر کی ناقابلِ فراموش سیاسی تحریک اور اس سے جڑی شخصیات کو بھی منظر کیا گیا ہے۔

    یہاں ہم ادیب اور صحافی مولوی سعید کی اسی کتاب سے گاندھی کے قتل کے بعد ان کے تذکرے پر مبنی ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں۔ مولوی سعید لکھتے ہیں:

    30 جنوری 1948ء کی شام تھی۔ میں ہمشیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا کہ میرا منجھلا بھانجا بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا ”مہاتما گاندھی کو گولی لگ گئی ہے۔ لوگوں نے ریڈیو پر سنا ہے۔

    “ یہ سن کر بڑا قلق ہوا۔ ذہن میں بے شمار خدشات ابھرنے لگے کہ اگر کسی مسلمان نے انھیں قتل کیا ہے، تو اسی آڑ میں اب تک بیسیوں مسلمان بستیاں تہ تیغ ہوچکی ہوں گی، لیکن جب تفصیلات آنا شروع ہوئیں اور خود پٹیل کی زبانی سنا کہ قاتل ایک ہندو نتھورام گوڈسے ہے تو کم ازکم یہ خدشہ رفع ہوگیا۔

    دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات نئی دہلی پہنچنا شروع ہو گئے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں ان کی موت نے انسانوں کو مغموم نہ کیا ہو۔ پاکستان میں بازار اور سینما فوراً بند ہو گئے۔ ریڈیو پر سے گاندھی جی کے بارے میں اتنا جامع پروگرام پیش کیا گیا کہ خود ہندوستانیوں نے اپنے ریڈیو کی کم مائیگی پر شکوہ اخباروں میں کیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ میں فیض صاحب نے بڑا پُر سوز مقالہ لکھا جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ فیض کی شاعرانہ افتاد طبع بھی بڑی آب و تاب سے جھلک رہی تھی۔

    قائد اعظم کا پیغام حسب معمول ہر شاعری سے مبرا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو اس پس منظر سے جدا نہ کیا، جس میں ربع صدی سے دونوں ایک دوسرے کے رفیق و حریف رہ چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی عظیم ہندو راہ نما تھے۔ عام لوگ اس ماحول میں اس پیغام سے قدرے مایوس ہوئے لیکن قائد نے ہنگامی طور پر بھی اپنے طویل سیاسی تجربے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا۔ وہ شخصیات کو ان کے کردار اور ماحول سے جدا کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک ہر فعال شخصیت کی طرح گاندھی جی کسی لمحے بھی تنقید سے بالا نہیں تھے۔ گاندھی جی نے ہر بڑے آدمی کی طرح اپنے مداح بھی چھوڑے اور ناقد بھی۔ خود انگریزوں کے اندر بعض اہل قلم ان کی مہاتمیت سے مرعوب تھے اور بعض انتہائی نکتہ چیں۔ چناں چہ لارڈ ویول نے ان کی شخصیت کا جو تجزیہ کیا ہے ان کے تلخ تجربے کا غماز ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ گاندھی جی 70 فیصد نہایت زیرک سیاست دان تھے۔ 15 فیصد مہاتما تھے اور باقی 15 فیصد محض ڈھونگ، لیکن دنیا کے اکثر صحافی ان کے اس قدر مداح تھے کہ انھوں نے ان کا نام دنیا کے ہر گوشے میں اچھال رکھا تھا۔ ہمارے جاننے والی لیگ کی ایک مقتدرہ خاتون جب یورپ گئیں تو واپسی پر کہنے لگیں کہ یوگوسلاویہ کے دیہات میں سے گزر رہی تھی کہ لوگوں نے پہچان کر کہ ہندوستان سے آئی ہوں، گاندھی جی کے بارے میں استفسارات کیے۔ گاندھی جی کے سیاسی اسلحہ خانے میں ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ کسی سیاسی چال میں کام یاب ہو جاتے، تو سیاست دان ہوتے۔ ناکام رہتے تو مہاتما۔ پھر کبھی اعتراف گناہ، کبھی سچائیت کا برت ورنہ اکثر چپ۔

    ویسے وہ عملی تحریکوں کا ڈول ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے تقریباً ہر 10 برس کے بعد ایک تحریک میدان میں اتاری اور جتنا قدم آگے بڑھا اسے اگلی تحریک تک مستحکم کرتے رہے۔ جنوبی افریقا سے آنے کے بعد پہلی تحریک میں جو خلافت ایجیٹیشن کے ایام میں چلی وہ دوسروں کے سہارے آگے بڑھی لیکن وہ اس سے جلدی دست بردار ہو گئے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی قوم پرستی کی تحریک مسلمانوں کی بین الاقوامیت میں گم ہوتی دکھائی دی۔ بعد کی دو تحریکیں (1931 اور 1943 کی) انھیں کی پروردہ تھیں۔ ان تحریکوں سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنے عدم تشدد کو اپنے پیروکاروں کے تشدد کے سہارے آگے بڑھانا جانتے تھے۔ بہرکیف اس نیم براعظم کے اندر سیاسی بیداری پیدا کرنے میں ان کا بڑا گراں قدر حصہ ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ زندگی کے کاروبار میں وہ اتنے ہی کشادہ قلب تھے، جتنا کہ ایک ذات پات کا معترف ہندو ہو سکتا ہے۔

    خود انھوں نے بارہا کہا کہ میری سوچ سراسر ہندوانہ ہے۔ جہاں تک ان کی مہاتمیت کا تعلق ہے وہ اپنے پرستاروں کے نزدیک مہاتما بدھ کے بعد سب سے بڑے انسان تھے۔ اس لیے یہ امر باعث تعجب نہیں کہ ان کی زندگی میں ان کی مورتی کی پوجا شروع ہو چکی تھی۔

  • اخباری مراسلے پر کارروائی اور کلرک کی معطلی کا قصہ

    اخباری مراسلے پر کارروائی اور کلرک کی معطلی کا قصہ

    میں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تھا، جب صدر پاکستان نے میرے تین خطوں کے جواب دیے تھے۔

    یہ صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے۔ اس عمر میں حکم ران اور وزرا ہی اہم شخصیات لگتے ہیں۔ کالج کے پہلے سال ہی یہ خیال ذہن سے نکل گیا اور ادیبوں شاعروں سے خط کتابت کرنے لگا۔

    مجھے اس زمانے کی کوئی ایسی شخصیت یاد نہیں آتی، جسے خط لکھا ہو اور اس نے جواب نہ دیا ہو۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحمید چوہدری کا خط مجھے اکثر یاد آتا ہے… جو انہوں نے اردو میں لکھا اور مجھے لگا کہ اردو لکھنے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔

    ان دنوں سرکاری محکمے اخبارات میں چھپنے والے مراسلات پر بھی توجہ دیتے تھے۔ 4 مارچ 1964 کو میرا ایک مراسلہ لاہور کے روزنامہ مشرق میں شائع ہوا (تاریخ یوں یاد رہی کہ اسی دن میں پورے 13 سال کا ہوا تھا) بات یہ تھی سکّوں کا اعشاری نظام آنے کے بعد بہت عرصہ نئے اور پرانے سکوں کے تبادلے میں بہت گڑبڑ رہی۔ بہاول پور سے کلانچ والا ٹرین کا کرایہ 53 پیسے یعنی پرانے ساڑھے آٹھ آنے تھا۔ بکنگ کلرک نو آنے یعنی 56 پیسے وصول کر رہے تھے۔ انہی دنوں گاؤں گئے تھے، واپس آتے ہی اخبار کو خط لکھا۔ چھپنے کے اگلے دن والد صاحب نے کہا تمہاری شکایت پر بکنگ کلرک کو معطل کر دیا گیا ہے۔

    وہاں کے ملازمین آئے تھے، کہہ رہے تھے بچے سے کہیں معاف کر دے۔ لکھ دے کہ غلط فہمی ہوئی، جو دور ہو گئی۔ مزید یاد نہیں کہ والد صاحب نے کیا کیا۔ وہ خود یونین لیڈر تھے۔ کسی کو بے روزگار کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہاں ریلوے والوں نے بچہ اس لیے کہا کہ میرے نام کے ساتھ جماعت ہفتم بھی چھپا تھا۔ اس دوران مجھے ریلوے ہیڈ کوارٹر سے خط بھی آگیا کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کر رہے ہیں۔

    کوئی دو سال پہلے، یعنی 50 سال بعد پھر کسی سرکاری شخصیت کو خط لکھا… یہ تھے چئیر مین سینیٹ… ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا، انہیں ہی موزوں سمجھا، یہ بھی خیال تھا کہ قائد اعظم کے اے ڈی سی کے بیٹے ہیں، خط کا جواب دینے جیسے اصول اور عادات ضرور ان تک ضرور پہنچی ہوں گی، لیکن جواب تو کیا ان کے عملے کی طرف سے خط ملنے کی رسید/ اطلاع تک نہ ملی۔ یہ 40 سال کے قریب صحافت میں گزار چکے ایک ’بزرگ شہری‘ کا خط تھا، کوئی فضول Fan Mail تو نہیں ہوگی۔

    (اسلم ملک کی تحریر سے اقتباس)

  • جب ’الہلال‘ کو ’مالی عطیہ‘ کی پیشکش پر آزاد نے اداریہ لکھا!

    جب ’الہلال‘ کو ’مالی عطیہ‘ کی پیشکش پر آزاد نے اداریہ لکھا!

    برصغیر کی یگانہ و بے مثل شخصیات میں ابوالکلام آزاد کا نام ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ انیسویں صدی عیسوی میں آزاد اپنے سیاسی اور دینی افکار کے ساتھ اپنی علمی و ادبی حیثیت میں ممتاز ہوئے۔ اردو ادب ہی نہیں آزاد نے صحافت کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں اور بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا تھا جس کے مضامین آزاد کی انقلابی فکر اور اداریے ان کے بے لاگ انداز کے سبب ہندوستان بھر میں زیر بحث رہے اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر الہلال پر بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ آزاد کے جہاں بہت سے مداح اور حامی اس دور میں ان کے ساتھ تھے، وہیں ان کو ہندو ہی نہیں مسلمانوں کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا تھا۔ اسی دور کا ایک اداریہ جو آزاد نے تحریر کیا تھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے ایک کڑے وقت میں بھی اپنے قلم کا سودا نہیں کیا اور اپنے ضمیر پر آنچ تک نہ آنے دی۔ الہلال پر اس کی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل جرمانے کیے جارہے تھے اور اس وقت آزاد کو مالی عطیہ کے نام پر اپنا محتاج بنانے کی کوشش کی گئی جسے انھوں نے یکسر ٹھکرا دیا۔ 1912ء ہی میں تحریر کردہ اس اداریہ سے یہ سطور لائقِ مطالعہ ہیں۔ آزاد لکھتے ہیں:

    ہمارے کاموں کے لیے سرمائے کی ضرورت اور اس کے انتظام کی فکر سے پریشان نہ ہوں اور ہم فقیروں کو ہماری حالت پر چھوڑ دیں۔ ان کی فیاضی کے ”الہلال“ سے بہتر اور مصارف موجود ہیں۔

    ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں، بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں، صلہ و تحسین کے نہیں، بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں، عیش کے پھول نہیں، بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈتے ہیں، ایسوں کی اعانت کر کے آپ کا جی کیا خوش ہوگا؟ پھر ایسے عقل فرشوں کو آپ کی اعانت فرمائیاں کیا نفع پہنچا سکیں گی؟

    پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کا یہ عطیہ کس مقصد سے ہے؟ اگر آپ مجھ کو خریدنا چاہتے ہیں، تو یہ رقم تو ایک گراں قدر قیمت ہے، میں تو اپنی قیمت میں گھاس کی ایک ٹوکری کو بھی زیادہ سمجھتا ہوں‘ شاید چاندی اور سونے میں پلے ہوئے امیروں کو خریدنے کے لیے اتنا روپیہ مطلوب ہو، ورنہ ہم جیسے خاک نشیں درویشوں کی تو پوری جماعت اتنے میں مل جائے، لیکن ہاں اگر اس سے میری رائے اور میرا ضمیر خریدنا مقصود ہو تو با ادب عرض ہے کہ کوہِ نور اور تخت طاؤس کی دولت بھی جمع کر لیجیے جب بھی وہ مع آپ کی پوری ریاست کے اس کی قیمت کے آگے کم ہے۔ یقین کیجیے کہ اس کو تو سوائے شہنشاہِ حقیقی کے اور کوئی نہیں خرید سکتا اور وہ ایک بار خرید چکا ہے۔

    ہمارے عقیدے میں تو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں، بلکہ اس فن کے لیے ایک دھبہ ہے۔ ہم اخبار نویسی کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور ’امر بالمعروف و نھی عن المنکر‘ کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ ”اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو خیر کی طرف بلایا کرے اور نیک کام کرنے کا کہا کرے اور برے کاموں سے روکا کرے اور ایسے ہی لوگ کام یاب ہوں گے۔“ (القرآن) پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی سونے کا تو سایہ بھی اس کے لیے سمِ قاتل ہے جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی اعانت‘ قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کر لیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور ایمان کو بیچیں بہتر ہے کہ بھکاریوں کی جھولی گلی میں ڈال کر اور قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر ان امیروں کے در پر گشت لگائیں اور گلی کوچہ ”کام ایڈیٹر کا“ کی صدا لگا کر خود کو فروخت کرتے رہیں۔“