Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • لالۂ طور اور نقش فرنگ تک رسائی

    لالۂ طور اور نقش فرنگ تک رسائی

    اقبال کو ان کی زندگی ہی میں وہ احترام اور مقبولیت حاصل ہوگئی تھی جو آج تک ہندوستان میں کسی شاعر کو نصیب نہ ہو سکی۔

    تقسیم سے قبل ہی ان کے پڑھنے والے اور ان کی شخصیت کے دیوانے بہت تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی اقبال کی بادشاہت قائم رہی اور دلوں میں‌ ان کی عظمت اور احترام راسخ ہوگیا۔ اقبال کا فلسفہ، ان کی فکر اور خیالات سے تو سب واقف تھے، مگر کلام کی تفہیم اکثر لوگوں‌ کے لیے آسان نہ تھی۔ نوجوان ان کی نظموں کی وضاحت چاہتے اور کئی مرتبہ ان کے اشعار پڑھنے کے باوجود معانی و مطلب ان پر عیاں نہیں‌ ہوتا۔ یہ اقبال کی مجلس میں‌ شریک ایک صاحب کا ایسا ہی دل چسپ قصّہ ہے۔ اسے پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے اپنی تصنیف ”کلیات شرح اقبال“ میں‌ رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایک دفعہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے علامہ اقبال سے دبی ہوئی زبان سے یہ عرض کیا کہ ’اسرار‘ اور ’پیام‘ دونوں کتابیں سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن ان سے قطع نظر بھی نہیں کر سکتا، دماغ قاصر سہی، لیکن دل ان کی طرف ضرور مائل ہے۔

    یہ سن کر علامہ نے دریافت فرمایا کہ ”اسرارِ خودی کتنی بار پڑھی ہے؟“

    جواب میں کہا ”جناب والا! ساری کتاب تو نہیں پڑھی صرف پہلا باب پڑھا، لیکن وہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے آگے پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اب رہی دوسری کتاب تو اس کی ساری غزلیں تو پڑھ لی ہیں، لیکن نہ لالۂ طور تک رسائی ہوئی نہ نقش فرنگ تک۔“

    یہ سن کر علامہ نے فرمایا کہ ”خوش نویسی یا موسیقی ایک دن میں نہیں آ سکتی تو فلسفیانہ نظمیں ایک دفعہ پڑھنے سے کیسے اور کیوں کر سمجھ میں آ سکتی ہیں؟ الفارابی نے ارسطو کی مابعد الطبیعیات کو کئی سال تک پڑھا تھا۔ تم بھی اس کی تقلید کرو اور ان کتابوں کو بار بار پڑھو!“

  • حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    ریل کی نقل و حمل کا آغاز متحدہ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ 1857ء میں کئی ریلوے کمپنیوں کے انجنیئروں‌ اور بہت سے ہنر مندوں‌ نے یہاں‌ ریلوے ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ یہ ریلوے نظام انگریز راج میں یہاں کے عوام کے لیے گویا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں دور دراز مقامات تک لوگوں‌ کی رسائی آسان بنا دی اور مسافروں کے علاوہ مال گاڑیوں کے ذریعے بھاری ساز و سامان بھی آسانی سے دوسرے علاقوں تک پہنچنے لگا۔

    معروف صحافی، مصنف اور محقق رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے یہ اقتباس اس دور کی ایک تصویر دکھاتا ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔

    ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

    وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

    کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے، اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا۔

  • قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

    قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

    میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

    وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

    ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

    جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

    دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

  • ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    سعادت حسن منٹو افسانہ نگاری کےساتھ فلم کی دنیا میں بطور لکھاری بھی مصروف رہے اور ہندوستان کے بڑے نگار خانوں سے وابستگی کے دوران انھوں نے فلم اور فلم سازی کو جس طرح سمجھا اسے اپنے مضامین کی شکل میں پیش کیا۔ ان کی ایک تحریر ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر کے عنوان شایع ہوئی تھی۔ اسی مضمون سے یہ اقتباس پیش خدمت ہے۔

    تیس برس سے ہالی ووڈ کے اربابِ فکر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلم سازی میں اسٹار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یا خود فلم کو۔

    اس مسئلے پر اس قدر بحث کی جا چکی ہے کہ اب اس کے تصور ہی سے الجھن ہونے لگتی ہے۔ آخر متذکرہ صدر سوال کا فیصلہ کن جواب کیا ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے یہ سوال سن کر یوں کہہ دیا جائے، ’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا؟ اگر اس کا جواب کچھ ہو سکتا ہے تو یقیناً اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ اسٹار زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا خود فلم۔

    فرینک کیپرا کولمبیا
    فلم کمپنی کے ماہرِ فن ڈائریکٹر نے حال ہی میں اس مسئلے پر اپنے افکار انگریزی اخبارات میں شائع کئے ہیں۔ مسٹر کیپرا کہتے ہیں، ’’میں ان لوگوں کا ہم خیال ہوں جو فلم کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ فلم، اسٹار بناتے ہیں اور درخشاں سے درخشاں ستارہ کمزور یا برے فلم کو ناکامی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ تجربے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فلم ستارہ ساز ہے اور ستارے کمزور فلم کو تابانی نہیں بخش سکتے، مگر ہمارے یا مسٹر کیپرا کے خیال سے سب متفق نہیں ہو سکتے۔ ایسے سیکڑوں اصحاب موجود ہوں گے جو اپنے نظریے کے جواز میں اور مسٹر کیپرا کے نظریے کے ابطال میں ٹھوس دلائل و براہین پیش کر سکتے ہیں۔

    اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ستارے کیوں کر بنتے ہیں یا وہ کون سی چیز ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر کیپرا نے اس سوال کا جواب نہایت دلچسپ انداز میں دیا۔ آپ کہتے ہیں، ’’اگر دنیا کے تمام پروڈیوسر اپنا سرمایہ جمع کر کے میرے حوالے کر دیں (جو یقیناً کافی و وافی ہوگا) اور مجھ سے یہ کہیں کہ ہمارے فلمی آسمان کے لئے تین ستارے چن کر لا دو، تو میں یقیناً خالی الذہن ہو جاؤں گا۔ اس لئے کہ مجھے وہ جگہ معلوم ہی نہیں۔ جہاں سے یہ ستارے مل سکتے ہیں۔‘‘

    خاموش فلموں کے زمانے میں ہالی ووڈ کے آسمان فلم کے لئے ستارے عام طور پر ہوٹلوں، کارخانوں اور دفتروں وغیرہ سے آتے تھے، لیکن اب فلموں کی خاموشی تکلم میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس صنعت کو کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ستاروں کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے یہاں صنعت فلم سازی کے آغاز میں قحبہ خانے تھیٹر اور چکلے ستارے مہیا کیا کرتے تھے اور اب کہ ہماری صنعت کو کسی قدر فروغ حاصل ہوا ہے، علمی طبقے نے بھی ہمارے فلمی آسمان کے لئے ستارے پیش کرنے شروع کئے ہیں اور مستقبل بعید یا مستقبل قریب میں ایک ایسا وقت آئے گا، جب ہالی ووڈ کی طرح یہاں بھی ستاروں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ مگر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کون سی شے ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر فرینک کیپرا کی (جن کی ڈائریکشن میں ہالی ووڈ کے بڑے بڑے نامور ستارے کام کر چکے ہیں) رائے ہے کہ کرداروں کی صحیح تقسیم (یعنی موزوں و مناسب کاسٹ) ستارے بناتی ہے۔ ان کے نظریے کے اعتبار سے چینی آدمی کا روپ صرف چینی ہی بطریق احسن دھار سکتا ہے اور لنگڑے یا کبڑے آدمی کا پارٹ صرف لنگڑا یا کبڑا آدمی ہی خوبی سے ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں مسٹر کیپرا کے اس نظریے سے اتفاق ہے۔ اسکرین پر کسی کیریکٹر کی ادائیگی کے لئے اتنا ہی زیادہ انہیں کامیابی کا موقع ملے گا، جس آسانی سے ہم اور آپ اپنے آپ یعنی اپنے اصل کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس آسانی سے ہم کسی اور کی نقل نہیں کر سکتے جہاں تصنع اور بناوٹ کو دخل ہوگا وہاں اصلیت برقرار نہیں رہ سکتی۔

    اس نظریے کے جواز میں مسٹر فرینک کیپرا نے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے ایک گیری کو پر کی ہے۔ آپ کہتے ہیں، گیری کوپر اسکرین پر اپنے آپ کو اصلی رنگوں میں پیش کرتا ہے اور چونکہ وہ ایک خوش ذوق، عالی خیال اور صاحب فہم انسان ہے، اسی لئے وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہتا ہے۔

    ہم یہ کہہ رہے تھے کہ موزوں و مناسب کاسٹ ستارے بناتی ہے، مگر یہ قطعی اور آخری فیصلہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ صرف کاسٹ کا موزوں و مناسب ہونا ہی کسی فلم کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ فلم کی کامیابی کے لئے اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے جن کو آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک مشینری کے سب پرزے اپنی اپنی جگہ پر اچھا کام نہ کریں گے، فلم کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کرداروں اور ٹیکنیشینوں کا باہمی اتحاد پکچر کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس طرح قیمتی سے قیمتی گھڑی ایک ٹک کرنے سے بھی انکار کر دیتی ہے، ا س لئے کہ اس کے کسی پرزے کے ساتھ میل کا ایک ننھا سا ذرہ چمٹا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح قیمتی سے قیمتی فلم، ایک حقیر اور معمولی سی فروگزاشت یا غلطی کے باعث فیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح کاسٹ ستارے بنانے میں دیگر عناصر سے کہیں زیادہ ممد و معاون ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے غورو فکر کے بعد یقیناً ہمارے ہم نوا ہو جائیں گے، چنانچہ فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔

  • اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریاں

    اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریاں

    امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیِ قلب۔

    سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہل امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کمیاب ہے۔ مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

    انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں سرد نہیں ہوئے، ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔

    میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا، میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اٹھاؤں۔ انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔

    (معروف اسکالر، مصنف و شاعر، موسیقار داؤد رہبر کی ایک مختصر تحریر)

  • ”تم دونوں مسلمان ہو!“

    ”تم دونوں مسلمان ہو!“

    پاک و ہند کی تقسیم کے وقت فسادات اور ان گنت خوں آشام واقعات میں ہر مذہب اور قومیت کے ماننے والے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے اور ہزاروں لوگ بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ سرحدی لکیر کے باعث بٹ جانے والی زمین نے انسان کی بے رحمی کا وہ منظر دیکھا کہ خود انسانیت بھی اس پر کانپ اٹھی۔ رام لعل کو بھی فسادیوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ ایک بالغ نظر اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے ہندو تھے جو زمین کے بٹوارے کو تو شاید قبول کرلیتا مگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کا بٹ جانا اسے قبول نہیں‌ تھا، لیکن لاکھوں کی آبادی میں ان جیسے دردمند اور بلاتفریقِ ملّت و مذہب انسانوں سے پیار کرنے والے بہت کم تھے۔

    رام لعل اردو ادب کے بڑے افسانہ نگار اور بلند پایہ ادیب تھے۔ انھوں‌ نے تقسیمِ ہند اور ہجرت کے واقعات اور مختلف انسانی المیوں کی کہانیاں لکھیں اور تذکرہ نویسی کے ساتھ رام لعل نے شخصیات کے قلمی خاکے بھی تحریر کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ ’زرد پتوں کی بہار‘ کے نام سے رام لعل نے پاکستان یاترا کی کہانی بھی رقم کی تھی۔ فسادات کے موقع پر ریل میں انھیں بھی بلوائیوں نے گھیر لیا تھا، اور اس واقعے کو رام لعل نے بعد میں‌ اپنی خود نوشت بعنوان کوچۂ قاتل میں رقم کیا۔ ملاحظہ کیجیے:

    میں تو اپنے ڈبے میں واپس آگیا۔ ملک وزیر چند نے بہت ہی گھبرائے ہوئے لہجے میں کھڑکی میں سے مجھے پکارا:

    ”رام لعل ذرا باہر آنا…!“ باہر جا کر میں نے دیکھا۔ انہیں سکھوں اور ہندوؤں کے ایک گروہ نے گھیر رکھا ہے۔ ملک صاحب نے کہا:

    ”یہ لوگ کہتے ہیں، میں مسلمان ہوں…!“ مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ لیا اور کئی لوگ بہ یک زبان ہو کر بولے:

    ”ہاں ہاں! تم دونوں مسلمان ہو! پاکستان جانے کا راستہ نہیں ملا تو دلّی کی طرف بھاگ رہے ہو!“

    ہم دونوں نے شلوار قمیص پہن رکھی تھیں۔ ملک وزیر چند کے بڑے بڑے گل مچھے تھے۔ ہمارے سروں کے بال عین بیچ میں سے تقسیم ہوتے تھے اور بکھرے ہوئے تھے… ہماری بھوری بھوری آنکھیں ان لوگوں کی آنکھوں کی رنگت سے بالکل جدا تھیں۔ میں سمجھ گیا، وہی کہانی پھر دہرانی پڑے گی۔ ہمارا تعلق مغربی پنجاب سے ہےِ، وہاں کی آب و ہوا اور بود و باش کی وجہ سے ہمارے لہجے مختلف ہیں اور پھر اچانک میری زبان سے یہ بھی نکل گیا ”قرآن ساں (قرآن کی قسم) ہم ہندو ہیں…!“

    ”دیکھا دیکھا! سالے مسلے ہیں، قرآن کی قسم کھاتے ہیں، میں نہ کہتا تھا۔“
    میں نے انہیں سمجھایا:

    ”یہ ہمارا روایہ ہے۔ اسی علاقے کا، ہم وہاں قرآن ہی کی قسم کھاتے تھے، لیکن ہم مسلمان نہیں ہیں ہمارا یقین کرو۔“

    انہیں تب تک یقین نہیں ہوا۔ جب انہوں نے ہماری شلواریں کھلوا کر اطمینان نہیں کر لیا، لیکن یہ واقعی ہم دونوں کے لیے بے حد باعث شرم تھا۔ ملک صاحب مجھ سے عمر میں کافی بڑھے تھے اور لاہور میں ’سرپرست‘ ہونے کے ناتے سے میرے والد کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں انہیں چاچا جی کہہ کر ہی بلاتا تھا، لیکن فسادیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔

  • اردو پروگرام سننے والی جرمن خاتون

    اردو پروگرام سننے والی جرمن خاتون

    مجھے ’بی بی سی‘ کے پروگرام ’سیربین‘ کی بے پناہ مقبولیت کا احساس اس وقت ہوا، جب میں 1994ء میں برلن میں شارلٹن برگ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا۔ میں نے اوپر ایک فلیٹ سے سیربین کی معروف ’ٹیون‘ کی آواز سنی، جو ستیہ جیت رے کی فلم پاتر پنچلی میں روی شنکر کی موسیقی کے ایک ٹکرے سے لی گئی تھی۔

    ’سیربین‘ کی یہ شناختی موسیقی سنتے ہی میں بے ساختہ اوپر گیا اور فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دیکھا تو سامنے ایک نوجوان جرمن خاتون کھڑی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ’بی بی سی‘ کا پروگرام ’سیربین‘ سن رہی تھیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”جی ہاں، ہم ہی سن رہے تھے۔ اور ہم ہر شام کو یہ پروگرام بلا ناغہ سنتے ہیں جناب۔ بہت اچھا ہوتا ہے یہ پروگرام اور دنیا بھر کی خبروں سے ہم باخبر رہتے ہیں۔“

    میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ اتنی اچھی اردو کہاں سیکھی۔ کہنے لگیں۔ ”ہم کئی برس پہلے سیتا پور (اتر پردیش) میں بیاہے تھے اور وہیں ہم نے اردو سیکھی، بہت پیاری زبان ہے۔“

    یہ سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اور میر کا یہ شعر دیر تک میرے ذہن میں گونجتا رہا؎

    گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
    افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا

    (سینئر صحافی، براڈ کاسٹر اور کالم نگار آصف جیلانی کی یادوں سے ایک پارہ)

  • پیٹر ٹاؤن سینڈ: جب برطانوی شہزادی کا ناکام عاشق کوئٹہ آیا

    پیٹر ٹاؤن سینڈ: جب برطانوی شہزادی کا ناکام عاشق کوئٹہ آیا

    پیٹر ٹاؤن سینڈ اور شہزادی مارگریٹ کا رومانس ان واقعات میں سے ایک ہے جنھیں برطانوی عوام کی بھرپور توجہ حاصل ہوئی۔ یہ 1950ء کی دہائی کی بات ہے۔ برطانوی شہزادی اور ایک فوجی افسر کے مابین یہ عشق دنیا سے بھی چھپا نہ رہ سکا۔ اس پر شاہی خاندان کو بڑی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ پیٹر ٹاؤن سینڈ اور شہزادی مارگریٹ کے لیے بھی یہ عشق ایک چلینج ثابت ہوا۔ وہ کبھی شادی نہیں کرسکے اور ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    مارگریٹ روز 1930 میں پیدا ہوئی تھیں۔ ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم شہزادی مارگریٹ کی بڑی بہن تھیں جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشیں ہوئیں۔ شہزادی مارگریٹ 2002 میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی عمر 72 سال تھی۔

    شہزادی مارگریٹ کے عاشق پیٹر ٹاؤن سینڈ کا شمار رائل ایئر فورس کے نمایاں‌ پائلٹوں میں ہوتا تھا۔ انھیں 1944 میں ذمہ داریاں‌ سونپی گئی تھیں جن کے بعد وہ شاہی خاندان کے قریب ہو گئے تھے۔

    پیٹر ٹاؤن سینڈ کی ملاقات اسی زمانے میں نوجوان مارگریٹ سے ہوئی۔ ٹاؤن سینڈ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور پھر شہزادی مارگریٹ اور ان کے درمیان رومانس پروان چڑھا۔ یہی پیٹر ٹاؤن سینڈ ایک زمانے میں پاکستان بھی آئے۔ اس کا تذکرہ کمال الدین احمد نے اپنی کتاب صحافت وادیِ بولان میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "ملکہ الزبتھ کی بہن مارگریٹ کے ناکام عاشق ہوائی فوج کے گروپ کیپٹن پیٹر ٹاؤن سینڈ کوئٹہ آ نکلے۔ وہ چلتن ہوٹل میں مقیم تھے کہ صحافیوں کو پتا چلا۔ دو صحافی 10 بجے وہاں پہنچے اور تعارفی کارڈ اندر بھجوائے۔ مگر ٹاؤن سینڈ نے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ وہ صحافیوں سے نہیں ملنا چاہتے۔ یہ سن کر دونوں صحافی وہیں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، کہ حضرت لنچ کرنے باہر نکلیں گے تو اس وقت قابو آئیں گے۔ چناں چہ ایک بجے کے قریب ٹاؤن سینڈ باہر نکلے اور دونوں صحافی اس کے پاس پہنچے، مگر وہ صحافیوں کے ہر سوال کے جواب میں موسم کی بات کرنے لگتا۔ دھوپ بہت اچھی ہے۔ یہاں کا موسم بڑا خوش گوار ہے وغیرہ۔ باوجود کوشش کے اس نے اپنے معاشقے کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس کے پاس سوالِ معاشقہ کا جواب موسم تھا۔”

    شہزادی مارگریٹ اور پیٹر ٹاؤن سینڈ کے لیے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا اس لیے مشکل تھا کہ اس دور میں ایک طرف تو چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے طلاق یافتہ فرد کو دوبارہ شادی کی اجازت نہیں تھی اور دوسری طرف شہزادی مارگریٹ کو 25 سال کی عمر سے پہلے شادی کرنے کے لیے اس وقت کی ملکہ الزبتھ دوم کی اجازت درکار تھی۔ ملکہ کو نہ صرف اپنے شاہی کردار اور اقدار کا لحاظ رکھنا تھا بلکہ دوسری طرف ان کا خاندان بھی تھا۔ انھوں نے اپنی بہن سے انتظار کرنے کو کہا۔ ادھر مارگریٹ اور ٹاؤن سینڈ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوچکی تھی مگر برطانیہ نے انھیں شادی کی اجازت نہیں دی۔ حکومت نے واضح کر دیا کہ ایسا کرنے کی صورت میں شہزادی مارگریٹ کو اپنے تمام شاہی مراتب اور مراعات و آمدنی سے محروم ہونا پڑے گا۔ مارگریٹ نے پیٹر ٹاؤن سینڈ سے دوری اختیار کرلی اور 31 اکتوبر 1955 کو اس حوالے سے بیان بھی جاری کردیا۔

    شہزادی مارگریٹ اور پیٹر ٹاؤن سینڈ 1990 کی دہائی میں دوبارہ ملے، لیکن ٹاؤن سینڈ نے 1959 میں شادی کرلی تھی جب کہ شہزادی مارگریٹ نے 1960 میں شادی کی تھی لیکن انھیں طلاق ہوگئی تھی۔

    پیٹر ٹاؤن سینڈ 1995 میں انتقال کر گئے تھے۔ ٹاؤن سینڈ نے اپنی کتاب "ٹائم اینڈ چانس” میں شہزادی سے اپنی الفت کے اظہار کا واقعہ رقم کیا ہے۔ اپنی یادداشت میں وہ لکھتے ہیں، "وہ مجھ سے صرف اسی صورت میں شادی کر سکتی تھی اگر وہ سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہوتی- اپنی پوزیشن، اپنا شاہی وقار اور اپنا پرس۔” اس کے ساتھ وہ اعتراف کرتے ہیں‌ کہ "میں اتنا وزن نہیں رکھتا تھا، میں جانتا تھا کہ جو کچھ وہ (مارگریٹ) کھو دیتی، میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔”

    1990ء میں ایک سرکاری تقریب میں اتفاقیہ ملاقات بھی ان کی آخری ملاقات ثابت ہوئی اور اس کے تین برس بعد پیٹر ٹاؤن سینڈ کینسر کے سبب زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

  • کتابوں کی نمائش میں ایک انوکھا اسٹال

    کتابوں کی نمائش میں ایک انوکھا اسٹال

    دہلی میں بڑے پیمانے پر کتابوں کی نمائش لگائی گئی۔ میں بھی اس کو دیکھنے کے لیے گیا۔ مختلف اسٹال دیکھتے ہوئے ایک جگہ پہنچا تو اس کے بورڈ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بورڈ کے الفاظ تھے تھنک انکارپوریٹڈ Think incorported۔

    یہ اس نمائش میں ایک انوکھا اسٹال تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو سوچنے کا آرٹ بتایا جائے، کیوں کہ غلط سوچ آدمی کو ناکامی کی طرف لے جاتی ہے اور صحیح سوچ کام یابی کی طرف۔

    یہاں مسٹر پرمود کمار بترا کی ایک خوب صورت چھپی ہوئی انگریزی کتاب تھی۔ اس کا نام مینجمنٹ تھاٹس Mangement Thoughts تھا۔ اس کے 315 صفحات ہیں اور اس میں 1360 مفید اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قول یہ تھا کہ ہمارا ذہنی رویہ ہماری بلندی کا تعین کرتا ہے۔

    Our attitude detrmines our altitude

    اسی طرح اس اسٹال پر کئی تعمیری کتبے تھے۔ ایک کتبے میں اوپر ماچس کی تیلی دکھائی گئی تھی۔ اس کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ ماچس کی تیلی کا ایک سر ہوتا ہے مگر اس میں دماغ نہیں ہوتا، اس لیے جب بھی کوئی رگڑ ہوتی ہے تو وہ فوراً جل اٹھتی ہے۔ آئیے ہم ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی سے سبق لیں۔ ہم اور آپ سر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ دماغ بھی۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اشتعال پر بھڑک نہ اٹھیں۔

    ایک انسان وہ ہے جو بھڑکنے والی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فوری جذبے کے تحت عمل کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسا آدمی ہمیشہ ناکام رہے گا۔ دوسرا انسان وہ ہے جو بھڑکنے والی بات ہو تب بھی نہیں بھڑکتا۔ وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتا ہے، پھر اپنا عمل کرتا ہے۔ ایسا آدمی ہمیشہ کام یاب رہے گا۔ دوسرا انسان، انسان ہے اور پہلا صرف ماچس کی تیلی۔

    (مولانا وحید الدین خان کی تصنیف ’کتابِ زندگی‘ اقتباس)

  • سر سیّد احمد خان جنھوں نے اکثر بہت کڑوے طریقے سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا

    سر سیّد احمد خان جنھوں نے اکثر بہت کڑوے طریقے سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا

    سر سید احمد خان اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظریات اور تصورات کے سبب ایک متنازع شخصیت بھی تھے اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ترقی کے معمار اور ان کے بڑے خیرخواہ بھی۔ اس راستے میں ان کی کوششیں انقلابی اور دیرپا ثابت ہوئیں۔ لیکن انھیں غیروں کی نہیں اپنوں کی بھی مخالفت سہنا پڑی۔ یہ مخالفت بڑی بڑی شخصیات اور مسلمانوں کے سماجی اور مذہبی پلیٹ فارمز سے کی گئی۔ تاہم ایک بڑا طبقہ ان کا ہم نوا ہی نہیں مددگار بھی تھا اور اس کے نزدیک سر سید ذہن اور ذوق دونوں کے مفکر تھے۔ یہ مسلمان سرسید کی بصیرت اور ذہانت کے قائل رہے اور ان کے علمی و دینی کاموں میں خوب ہاتھ بٹایا۔

    ہم آج انداہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مشن اور مقصد کی تشکیل اور تکمیل کے لیے سر سید کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں اور ان راستوں کو تلاش کیا جو منزل تک جلد جاتے ہوں یا دیر میں سہی مگر منزل تک پہنچا دیں۔ سر سید کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے لیکن وہ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حصول کے سب سے بڑے داعی تھے۔ یہاں ہم مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ بیان کرنے والے اور ایک بڑے محقق شیخ محمد اکرام کے ایک مضمون سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک بلند پایہ مگر متنازع شخصیت کے ایک روشن پہلو کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    اگر سر سید کی ’’اکل کھری‘‘ طبیعت کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے خطوط کا مطالعہ کرنا چاہیے، جن میں نہایت بے تکلفی سے اور بعض اوقات بڑے کڑوے طریقے سے اس ’’نیم چڑھے وہابی‘‘ نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ہے۔

    ایک جگہ نواب وقار الملک کو لکھتے ہیں، ’’آپ کی عادت ہمیشہ بے فائدہ طول نویسی کی ہے۔‘‘ پھر انہیں کو کہتے ہیں، ’’میں اس بات کو ہرگز دل میں نہیں رکھنا چاہتا کہ بے شک آپ نے نہایت نامناسب طریقہ اختیار کیا۔ (چاہے) اس کا کوئی سبب ہو۔‘‘ نواب وقار الملک ہی کو لکھتے ہیں، ’’جن امور کو آپ تصور کرتے ہیں کہ قومی کالج کے لیے مبارک فال نہیں، ہم انہی امور کو قومی کالج کے لیے مبارک فال سمجھتے ہیں۔ پس اس کا کوئی علاج نہیں اور یہ یقین کرنا چاہیے کہ خدا کو جو منظور ہوگا، وہ ہوگا۔‘‘ ایک خط میں نواب محسن الملک کی نسبت لکھا ہے، ’’ان کا ایک خط میرے پاس بھی آیا ہے، جن میں لفظ ہیں مگر ان میں اثر نہیں۔‘‘

    سرسید صرف خطوط ہی میں اپنے مافی الضمیر کا صاف صاف اظہار نہ کرتے بلکہ ان کا کلیہ قاعدہ تھا کہ جس طرف سے انہیں رنج پہنچتا وہ اس کے ساتھ ظاہر داری کا برتاؤ بھی نہ کرتے۔ حالی لکھتے ہیں، ’’جن یورپین افسروں نے ابتدا میں مدرسۃ العلوم کی مخالفت کی تھی یا اس کے لیے سرکاری زمین ملنے میں مزاحم ہوئے تھے، سرسید نے ان سے پرائیویٹ طور پر ملنا ترک کر دیا تھا اور کبھی ان کے ساتھ ظاہر داری کا برتاؤ نہیں کیا۔‘‘ یہی طریق کار ان کا اپنے ہندوستانی دوستوں سے تھا۔ ان کے تین بے تکلف دوستوں نے ٹرسٹی بل کے موقع پر نہ صرف سرسید سے اختلاف کیا بلکہ ایک مخالف پارٹی بنائی، جس کی طرف سے سر سید اور ان کے طریق کار پر ناگوار ذاتی حملے ہوئے۔ ان میں سے ایک کی نسبت سرسید لکھتے ہیں، ’’جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ خاں صاحب! میری عادت کسی سے منافقانہ ملنے کی نہیں۔ آپ رئیس ہیں جب کہیں ملاقات ہوگی میں آپ کی تعظیم کروں گا۔ آپ ممبر کمیٹی کے ہیں۔ جب اجلاس میں آپ تشریف لاویں گے آپ کا ادب کروں گا لیکن آپ سے دوستانہ جو ملاقات تھی، وہ راہ و رسم میں رکھنی نہیں چاہتا۔‘‘

    اسلام اور بانیِ اسلام کی محبت، انتہائی راست بازی اور صاف گوئی کے علاوہ سرسید کی دوسری قابل ذکر خصوصیت مذہبی حمیت ہے۔ ان کے بعض عقائد اور خیالات سے اختلاف کرنا آسان ہے، لیکن انہیں مذہب اسلام اور بانیِ اسلام سے جو محبت تھی اس کا اعتراف نہ کرنا بھی بے انصافی ہے۔ سرسید کی مذہبی تصانیف کا ہم آئندہ اوراق میں ذکر کریں گے۔ عقائد و تفسیر کے کئی مسئلوں میں انہوں نے جس طرح علماء سے اختلاف کیا وہ سب پر روشن ہے، لیکن ارکان اسلام میں سرسید کا جو حال تھا اور افسروں کے ساتھ وہ جس طرح کا برتاؤ چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے ایک خط سے ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں نواب وقار الملک کا کسی ایسے افسر کے ساتھ سابقہ پڑا جو کچہری کے اوقات میں نماز پڑھنے سے تعارض کرتا تھا۔ سر سید کو بھی اس کی اطلاع ملی۔ انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’نماز جو خدا کا فرض ہے اس کو ہم اپنی شامتِ اعمال سے جس طرح خرابی سے ہو ادا کریں یا قضا کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تم نماز نہ پڑھو، اس کا صبر ایک لمحہ کے لیے نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سنی بھی نہیں جا سکتی۔ میری سمجھ میں نماز نہ پڑھنا صرف گناہ ہے جس کے بخشے جانے کی توقع ہے اور کسی شخص کے منع کرنے سے نہ پڑھنا یا سستی میں ڈالنا میری سمجھ میں کفر ہے جو کبھی بخشا نہ جائے گا۔ تم کو یا تو پہلے ہی خود اپنی شامتِ اعمال سے ایسا طریقہ اختیار کرنا تھا جو کبھی اس قسم کی بحث نہ آتی اور جب ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا تھا تو پھر لجلجانا اور گڑگڑانا اور ’’حضور رخصت ہی دیں۔ تنخواہ کاٹ لیں‘‘ کہنا واہیات تھا، تڑاق سے استعفی دے دینا تھا اور صاف کہہ دینا تھا کہ میں اپنے خدائے عظیم الشان قادرِ مطلق کے حکم کی اطاعت کروں گا نہ آپ کی۔ کیا ہوتا؟ نوکری نہ میسر ہوتی۔ فاقے سے مر جاتے۔ نہایت اچھا ہوتا۔ والسلام۔‘‘