Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ”بابا شوکت علی…!“

    ”بابا شوکت علی…!“

    سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے بعد 19 مئی 1928ء کو ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے دوران موتی لعل نہرو کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی کا اعلان کیا۔ کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے لیے مقامی قیادت کے ذریعے ایک متفقہ آئینی ڈھانچا تشکیل دینا تھا جس کو تمام قومیتوں کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو۔

    اس کمیٹی کی آئینی رپورٹ کو تاریخ میں نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اگست 1928ء میں شائع ہوئی جس میں مسلمانوں کے جملہ سیاسی حقوق کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ اس نہرو رپورٹ کی مولانا شوکت علی جیسے خیرخواہ اور بڑے سیاسی لیڈر نے مخالفت کی تو ہندوستان کے اخبار اور رسائل نے ہندو قائدین کے ایما پر مولانا شوکت علی سے تعصب برتتے ہوئے ان کا مضحکہ اڑایا اور کردار کشی شروع کر دی۔ اس وقت کے جیّد صحافی اور ادیب عبدالمجید سالک نے اپنے رسالہ ”افکار و حوادث“ میں‌ 8 دسمبر 1928ء کی اشاعت میں‌ اس پر خوب جواب دیا اور مولانا کی حمایت کی۔ سالک صاحب کی تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    جس دن سے مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ کی مخالفت شروع کی ہے۔ ”پرتاپ“ اور ”ملاپ“ انہیں ”بابا شوکت علی“ لکھ رہے ہیں۔ خدا جانے اس تبدیلیِ لقب کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ غالباً بابا لکھ کر یہ لوگ مولانا شوکت علی کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ دشمن تذلیل کی کوشش کرتا ہے اور مولانا ”بابا“ بن جاتے ہیں۔ یہ لفظ پنجاب میں باپ اور دادا اور علی العوم سن رسیدہ بزرگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً بابا نانک، بابا گوردت سنگھ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندو اخبارات شوکت علی کو ”بابا“ لکھ کر ان کی کہن سالی کا مضحکہ اڑانا چاہتے ہیں یا انہیں اپنا باپ تسلیم کر رہے ہیں؟ اگر یہ کہن سالی کا مضحکہ ہے تو ان اخباروں کے مدیروں کو پہلے اپنے بزرگوں کی صورتیں دیکھ لینی چاہییں۔ آخر وہ بھی تو سن رسیدہ ہی ہوں گے اور اگر وہ مولانا کو باپ کہہ رہے ہیں تو پھر یہ کہاں کی سعادت مندی ہے کہ اپنے باپ کو روزمرہ گالیاں دی جائیں؟ بازی بازی باریش بابا ہم بازی!

  • ”بس“ اور ”کافر“

    ”بس“ اور ”کافر“

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔

    وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں ان کے لباس تبدیل کر دیں۔ ان کی لَے اور رنگ بدل دیں، ان کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنا و اعلا ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    (مومن خاں مومنؔ)

    لفظ ”بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم جوشؔ ملیح آبادی)

  • جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    عبدالحمید متخلص بہ عدمؔ اردو کے قادر الکلام اور زود گو شاعر تھے۔ ایک دور تھا جب وہ بطور رومانوی شاعر بہت مقبول رہے۔ مختصر بحروں میں عدم کا کلام سلاست و روانی کا نمونہ ہے۔

    یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور عدم کی شخصیت، ان کے مزاج سے متعلق ہے۔

    عدم ان دنوں راولپنڈی میں تھے اور ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں افسر تھے۔ صادق نسیم بھی اسی دفتر میں ملازم تھے۔ دونوں کا ٹھکانہ قریب قریب تھا۔ وہ صبح سویرے اکٹھے دفتر کے لیے پاپیادہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔

    صادق نسیم نے لکھا ہے کہ ایک صبح دفتر جاتے ہوئے انہیں ہوا کی تندی کا سامنا کرنا پڑا جو سامنے سے ان پر گویا جھپٹ رہی تھی۔ عدم نے چلتے چلتے سگریٹ نکالا اور دیا سلائی سے اُسے سلگانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ تیز ہوا دیا سلائی کو بجھا دیتی۔ اس پر عدم نے پورا یو ٹرن لے کر اپنی پیٹھ ہوا کی طرف کر کے سگریٹ سلگایا تو وہ سلگ اٹھا۔ اس پر وہ دوبارہ اپنا رخ دفتر کی طرف کرنے کی بجائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ اس پر صادق نسیم نے پکار کے کہا ’’حضور! دفتر اس طرف ہے۔‘‘ عدم کہنے لگے۔ ’’ہوا مخالف ہے۔ مجھ سے دفتر نہیں جایا جاتا۔‘‘

    صادق نسیم تو دفتر کی طرف بڑھ گئے مگر عدم واپس گھر جا پہنچے۔

    فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
    مجھ کو بھی کام ہے ابھی تجھ کو بھی کام ہے

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، اور ہندوستان میں لکھنؤ وہ شہر ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں نمایاں رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کم زور ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں ایک تہذیبی شمع جلتی رہی جس نے شعر و ادب کے پروانوں کو لکھنؤ کا رخ‌ کرنے پر آمادہ کرلیا اور وہاں علم و فن کی قدر دانی، تحسین اور ادبی سرپرستی میں‌ خوش حالی دیکھی۔

    اردو ادب میں سیرت نگاری، تاریخ اور تنقید و تذکرہ نویسی میں اپنی قابلیت اور قلم کے زور پر نمایاں‌ ہونے والوں میں ایک نام سید سلیمان ندوی کا بھی ہے جنھوں نے لکھنؤ کے بارے میں‌ طویل مضمون رقم کیا تھا۔ اسی مضمون سے چند پارے پیشِ خدمت ہیں۔

    سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں، آج ہم جس تاریخی شہر میں جمع ہیں وہ گو ہمارے پورے ملک کی راجدھانی کبھی نہیں بنا لیکن یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ ہمارے علوم و فنون اور شعر و ادب کا مدتوں پایۂ تخت رہا ہے اور اب بھی ہے۔

    شاہ پیر محمد صاحب جن کا ٹیلہ اور ٹیلے پر والی مسجد مشہور ہے، یہاں کے سب سے پہلے عالم ہیں۔ عالمگیر کے عہد میں سہالی سے فرنگی محل کو علم و فنون کا وہ خاندان منتقل ہوا جو صدیوں تک ہمارے علوم و فنون کا محافظ اور شیراز ہند پورب کا دارالعلوم رہا اوراس نئے زمانے میں مسلمانوں کی نئی عربی درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہیں بنیاد پڑی۔ یہاں کا خاندانِ اجتہاد پورے ملک کے طول و عرض پر تنہا حکمراں ہے۔

    دلّی کے باغ میں جب خزاں آئی تو یہاں بہار کا دور آیا۔ اس اجڑے باغ کے کتنے مرغ خوش لحن تھے، جنہوں نے اڑ اڑ کر اس چمن کی شاخوں پر بسیرا لیا۔ ہندوستان کی موجودہ بولی پیدا تو سندھ اور پنجاب میں ہوئی، نشو و نما دکن میں پایا، تعلیم و تربیت دلّی میں حاصل کی، لیکن تہذیب اور سلیقہ لکھنؤ میں سیکھا۔ اودھ کی راجدھانی جب فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہوئی تو اس کو اور چار چاند لگ گئے۔ میرتقی میرؔ، انشاء اللہ خاں انشاءؔ، جرأت اورمصحفیؔ وغیرہ نے اودھ کا رخ کیا۔ میر انیس کا خاندان دلّی سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ان بزرگوں کے دم قدم سے بادشاہوں کے دربار، امراء کی ڈیوڑھیاں اور اہلِ علم کی محفلیں شعر و سخن کے نغموں سے پُر شور بن گئیں۔ ناسخ و آتشؔ، وزیرؔ و صباؔ اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے شعر و ادب کے جواہر ریزوں کے ڈھیر لگا دیے۔

    شعر و سخن کے چرچوں اور شاعروں کے تفریحی جمگھٹوں کو چھوڑ کر نفس زبان کی ترقی، محاورات کی نزاکت، الفاظ کی تراش خراش اور اصول و قواعد کے وضع و تالیف کا جو اہم کام گزشتہ دو صدیوں میں یہاں انجام پایا، اسی کا اثر ہے کہ اس نے بولی سے بڑھ کر زبان کا درجہ پایا۔ ملک سخن کے دو اخیر فرماں روا انیسؔ اور دبیرؔ نے شاعری نہیں کی، بلکہ اپنے نام سے زبان و ادب کے سکے ڈھال ڈھال کر اہل ملک میں تقسیم کرتے رہے۔

    ناسخؔ نے زبان کی نزاکت و لطافت میں وہ کام کیا جو ہر ایک ہوشیار جوہری جواہرات کے نوک پلک نکال کر جلا دینے میں کرتا ہے۔ ان کے شاگرد والا جاہ میراوسط علی رشک نے صحیح و غلط، ثقیل و سبک لفظوں کو اس طرح پرکھ کر الگ کر دیا کہ ان کی پسند فصاحت کا معیار بن گئی۔ سیکڑوں الفاظ جو بول چال میں رائج تھے، مگر شعر و انشاء کی بارگاہ میں ان کو بار حاصل نہ تھا، ان کو خود اپنے شعروں میں نظم کر کے پچھلوں کے لیے سند پیدا کی۔

    لکھنؤ میں غالباً یہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۸۴۸ء میں اردو لغت ترتیب دیا، جس کا نام ’’نفس اللغۃ‘‘ہے۔ سید انشاء اللہ خاں کے دریائے لطافت کا دھارا بھی یہیں بڑھا۔ شیخ امداد علی بحر المتوفی ۱۸۸۲ء کی نسبت بھی مشہور ہے کہ انہوں نے کوئی لغت لکھا تھا، مگر اس کا سراغ نہیں ملتا۔

    حکیم ضامن علی جلال جن کے دیدار کا شرف مجھے بھی حاصل ہے، ان شعراء میں ہیں جنہوں نے زبان کو نہ صرف شاعری بلکہ وضع اصول اور تحقیقات کے لحاظ سے بھی مالا مال کیا ہے۔ سرمایہ زبان اردو، مفید الشعراء، تنقیح اللغات، گلشن فیض اور قواعد المنتخب وغیرہ ان کی وہ کتابیں ہیں جو اردو زبان کا سرمایہ ہیں۔ منشی امیر احمد مینائی کے شاعرانہ خدمات سے قطع نظر، امیر اللغات کے مصنف کی حیثیت سے ہماری زبان پر ان کا بڑا احسان ہے کہ اردو کے اس عظیم الشان لغت کے دو حصّے الف ممدودہ اور الف مقصورہ تک چھپ سکے۔ ان کے جلیل القدر شاگرد نواب فصاحت جنگ جلیل سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ رام پور میں اس لغت کا پورا مسودہ موجود ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہماری زبان کی بڑی بدقسمتی ہو گی کہ ترقی کے اس روز بازار میں بھی مشتاقوں کی آنکھیں اس عروس فن کی دید سے محروم ہیں۔

    لکھنؤ نے شعر و سخن کے ذریعہ سے اس زبان کی جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ ہماری علمی محفلوں کی بار بار کی دہرائی ہوئی کہانیاں ہیں اور جو شہرت کی بنا پر زبان زد خاص و عام ہیں۔ مجھے اس شاہراہ سے ہٹ کر لکھنؤ کی وہ خدمتیں گنانا ہیں جن کو اس دور کے قدر داں بھول گئے ہیں یا ہماری زبان کی تاریخ سے یہ اوراق گر کر کھو گئے ہیں۔

  • جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    ایک انتہائی پریشان کن ملاقات کے چند روز بعد قصرِ گورنر جنرل سے پھر میری طلبی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی غلام محمد صاحب نے کہا، ”میں نے تمھارے لیے ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حیدر آباد میں، میں نے ”شہر بدر“ کی اصطلاح سن رکھی تھی۔ میرے مقدر میں کراچی بدر ہونا تھا۔ ان کے چہرے پر درشتی کے آثار دیکھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”کیا حکومتِ پاکستان نے ’حیدر آباد ایجنسی‘ کو بند کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے اور کیا پاکستان نے حیدرآباد (دکن) پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کر لیا ہے؟“ اس کا جواب بڑے تیز لہجے میں یہ تھا، ”تم سے میں نے ایک بار کہہ دیا کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اب میں کیا کہتا کہ ایک جمہوری نظام میں صدر مملکت کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا۔ اور ایک زیرِ نزاع بین الاقوامی مسئلہ میں یہ اقدام کیسے ممکن ہے، جب متعلقہ وزارت کو اس کا سرے سے علم ہی نہیں۔

    حضور نظام نے چند خطوط جو مجھے 1952ء اور 1953 میں لکھے تھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ دھونس اور ناجائز دباؤ کی اس کیفیت کو دیکھ کر میں نے وہ خطوط پیش کیے۔ ان خطوط میں مجھے واضح طور پر ہدایت تھی کہ میں حیدر آباد کے موقف پر قائم رہوں اور جو کام کرتا رہوں اسے برابر کرتا رہوں۔ ان میں ایجنسی کے بند ہونے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار بھی تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر وہ زیادہ بگڑے اور ان کے اصلی ہونے پر اپنے شبے کا اظہار کیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مجھے کیسے اور کس طرح وصول ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے اصلی ہونے کا تعلق ہے، ان پر شبہ کرنا ایک طرح سے میری دیانت اور ایمان داری پر الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ وہ خود حیدر آباد (دکن) کے وزیر مالیات کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر حضور نظام کی ذاتی پرائیویٹ مہر سے کون واقف ہوگا۔ اس پر وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہتے ہوئے اور غصے میں کانپتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں چلے گئے۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تھا کہ اگر ہمارے مابین گفتگو کے ردعمل سے اس نحیف اور بیمار آدمی کی صحت پر کوئی مضر اثر پڑ جائے، تو میرا کیا حشر ہوگا۔ مروجہ سفارتی آداب میں بھی تو ان حالات میں کوئی رہبری نہیں ملتی! چند لمحات کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں آئے تو کہا ”اگر بالفرض یہ نظام ہی کے خطوط ہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے نظام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔“

    ان کے غصے سے تمتماتے چہرہ کو دیکھ کر پہلے تو میں چند لمحات خاموش رہا، مگر پھر اس خیال سے کہ اگر یہ بات میں نے اس وقت نہ کہی، تو پھر اسے کہنے کا مجھے کبھی موقع نہیں ملے گا۔ میں نے عرض کیا ”جناب یہی وہ نظام ہیں، جنھوں نے پاکستان کے آڑے وقت پر آپ کی درخواست پر فراخ دلی سے مالی مدد کی تھی اور جن کے دیے ہوئے خریط کو حیدرآباد کے المیے کے چار پانچ برس بعد ہی آپ تسلیم کرتے ہیں۔“ انھوں نے جواب دیا ”وہ غدار ہے…!“ یہ کہہ کر نامعلوم، انھوں نے منہ ہی منہ میں کیا کہا۔ چند لمحات کے بعد اپنے غصے پر ذرا قابو پایا تو فرمایا۔ ”میں بہرحال حیدر آباد ایجنسی کو بند کر رہا ہوں۔ تمھارے لیے ریلوے میں ایک ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    زبردستی ملازمت اختیار کرنے اور کراچی میری رخصتی پر اصرار میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ میں ایک مخمصے میں پڑ گیا، مگر اپنے جذبات اور ردعمل کو نظرانداز کر کے میں نے اپنی بات کی طرف رجوع کر کے عرض کیا ”مگر جناب جب تک حیدر آباد کا مقدمہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور زیر تصفیہ ہے، ایجنسی بند کیسے ہو سکتی ہے؟ نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مجھے اس بارے میں آپ کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی تھی۔“ یہ سن کر وہ طیش میں آگئے…. ”میں نہیں جانتا لیاقت علی خاں نے تمھیں کیا یاد دہانی کرائی تھی۔ بہرحال حالات بدل گئے ہیں۔ ہم لیاقت علی خاں کی یقین دہانیوں کے پابند نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حالات ہی نہیں بدلے تھے، اقدار بدل گئی تھیں۔ نظریں بدل گئی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی کوشش کی اور جس میٹنگ میں مجھے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی مصدقہ روداد کا ذکر کیا تو ان کا پارہ اور چڑھ گیا اور انھوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا، ”اگر تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرو گے، تو میں ایجنسی کے اخراجات کی ادائیگی کی ممانعت کر دوں گا۔“ یہ دھمکی سن کر مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر روپے پیسے کے معاملے میں یوں بندش ہوگی تو میں اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے دوں گا اور ایجنسی کیسے چل سکے گی۔ اگر میں تنِ تنہا ڈٹے رہنے کا قصد بھی کر لوں، تو پھر کیا کروں گا اگر حکومتِ پاکستان میرا خریطہ واپس لے لے۔

    میری خاموشی پر انھوں نے کہا۔ ”اس لیے بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ ریلوے کے جس عہدے پر تمھارے تقرر کی تجویز زیر غور ہے، تم اس سے بہت سینئر عہدے پر تھے۔“ پھر بڑی شانِ بے اعتنائی سے فرمایا۔ ”مگر اس سے زیادہ ہم تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔“ میں نے بھرے دل سے جواب دیا۔ ”میں نے نہ تو کسی ملازمت کی آپ سے درخواست کی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست یا بالواسطہ آپ سے اس قسم کی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔“ اس پر انھوں نے سوال کیا ”پھر آخر تم کیا کرو گے؟“

    میں نے جواب دیا۔ ”اللہ رزاق بھی ہے اور مسبب الاسباب بھی۔ وہ انشا اللہ رزق بھی دے گا اور اس کا سبب بھی بنا دے گا۔“ میرا یہ جواب سن کر انھوں نے ایک ایسی بات کہی جسے سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ”تم بات بات میں اللہ کو کیوں بیچ میں لاتے ہو۔“

    اسی سکتے کے عالم میں میرے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ ”اگر مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں اللہ کا نام نہ لیا جائے، تو پھر آخر کہاں لیا جائے۔“

    اس پر انھوں نے غصے میں فرمایا۔ اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ تم میں کج بحثی کی بہت عادت ہے۔ تم جا سکتے ہو۔“

    (مشتاق احمد خان کی خود نوَشت ”کاروانِ حیات“ سے منتخب پارہ)

  • تلنی کا معاوضہ ایک سو پچاس روپے!

    تلنی کا معاوضہ ایک سو پچاس روپے!

    جیمز کاربیٹ اور کینیتھ اینڈرسن وہ دو نام ہیں جنھوں‌ نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران بطور انگریز شکاری اور مہم جو نہ صرف اپنی شناخت بنائی بلکہ ہندوستان کے بعض دیہات میں ان کی شہرت عوام کے ہم درد، ایک خیر خواہ اور مددگار کی سی تھی۔ ان شکاریوں نے ہندوستان کے کئی علاقوں میں آدم خور درندوں کا شکار کر کے وہاں‌ کے باسیوں کے دل جیت لیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کی ہر بات مانتے تھے اور اپنے مسائل کا حل بھی انہی سے طلب کرتے تھے۔

    جیمز کاربیٹ اور اینڈرسن نے شکاریات کے موضوع پر لکھنے کے ساتھ اس دور کے بعض واقعات اور عوامی زندگی کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے ان شکاریوں کو بھی جذباتی کردیا تھا۔ اسے جیمز کاربیٹ نے رقم کیا تھا جس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ایک بار موسمِ سرما میں ترائی میں اینڈرسن اور میں مقیم تھے جو کہ ہمالیہ کے دامن میں پٹی ہے۔ ایک بار جنوری میں صبح صبح ہم بندو کھیڑا سے ناشتہ کر کے نکلے اور بکسر کی جانب لمبا چکر کاٹ کر گئے، جو ہمارے اگلے کیمپ کا مقام تھا۔

    لمبے چکر کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ملازمین کو خیمے اکھاڑنے، منتقل کرنے اور پھر دوبارہ نصب کرنے کا وقت مل جاتا۔ بندو کھیڑا اور بکسر کے درمیان دو دریا تھے جن پر پُل نہیں تھے اور دوسرے دریا کو عبور کرتے ہوئے ہمارے خیموں والا اونٹ پھسل گیا اور سارا سامان پانی میں ڈوب گیا۔ اس کو نکالنے میں کافی تاخیر ہوئی اور جب ہم پورا دن کالے تیتر کا بہترین شکار کر کے پہنچے تو ہمارا سامان تب جا کر اترنے لگا تھا۔ یہ مقام بکسر کے گاؤں سے چند سو گز دور تھا اور اینڈرسن کی آمد معمولی واقعہ نہیں تھا، اس لیے پورے گاؤں کی آبادی ہمیں خوش آمدید کہنے اور خیموں کی تنصیب میں مدد کرنے آ گئی۔

    سر فریڈرک اینڈرسن اس وقت ترائی اور بھابھر کے حکومتی سربراہ تھے اور کئی ہزار مربع میل پر رہنے والے ہر قوم، نسل اور مذہب کے افراد سے ملنے والی محبت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام سے کتنے قریب تھے۔ ان کی مہربان طبعیت کے علاوہ اینڈرسن بہت اچھے منتظم تھے اور ان کی یادداشت کا مقابلہ صرف سر ہنری ریمزے سے کیا جا سکتا ہے جو اینڈرسن سے قبل اٹھائیس سال تک اسی جگہ کے حکمران تھے۔ سر ہنری ریمزے کو کماؤں کا غیر علانیہ بادشاہ مانا جاتا تھا۔ ریمزے اور اینڈرسن سکاٹش تھے اور دونوں کے بارے مشہور تھا کہ انہیں کوئی شکل اور نام نہیں بھولتا۔ ہندوستان کے غریب اور مسکین لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ جب ان لوگوں کو ملاقات پر ان کے نام سے بلایا جائے یا ان سے ملاقات یاد رکھی جائے تو یہ کتنا خوش ہوتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں برطانوی راج کے عروج و زوال پر لکھا جائے گا، برطانوی راج کے زوال کے اسباب میں سرخ فیتے کی اہمیت پر بھی لکھا جائے گا۔ ریمزے اور اینڈرسن نے جب کام کیا تھا تو اس دور میں سرخ فیتہ دور دور تک نہیں تھا۔ بطور منتظم ان کی شہرت اور ان کی کام یابی کی وجہ ہی یہی تھی کہ ان کے ہاتھ سرخ فیتے سے نہیں بندھے تھے۔

    ریمزے کماؤں کے جج، میجسٹریٹ، پولیس، فارسٹ آفیسر اور انجینیر بھی تھے اور ان کی ذمہ داریاں مختلف النوع تھیں اور اکثر ایک کیمپ سے دوسرے کو چلتے ہوئے وہ انہیں سرانجام دیتے جاتے تھے۔ عموماً ان کے ساتھ لوگوں کا ہجوم چلتا تھا اور اسی دوران وہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کا فیصلہ کرتے جاتے تھے۔ پہلے مدعی اور گواہان کو سنا جاتا اور پھر ملزم اور اس کے گواہان کو اور پھر مناسب سوچ بچار کے بعد فیصلہ سنایا جاتا جو قید یا جرمانہ بھی ہو سکتا تھا۔ کبھی ان کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوا اور نہ ہی جس بندے کو انہوں نے قید یا جرمانے کا فیصلہ سنایا ہو، نے فوراً خزانے جا کر جرمانہ نہ بھرا ہو یا عام قید یا بامشقت کی صورت میں بھی جا کر خود کو نزدیکی جیل داخل نہ کرایا ہو۔ ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ ہونے کی وجہ سے انہیں سابق منتظم یعنی سر ریمزے کی نسبت کم ذمہ داریاں ملی ہوئی تھیں مگر ان کے اختیارات زیادہ وسیع تھے۔ شام کو جب بکسر کے کیمپنگ گراؤنڈ میں ہمارے خیمے لگ رہے تھے تو اینڈرسن نے لوگوں کو جمع کر کے سامنے بٹھایا اور کہا کہ وہ ان کی شکایات سننا چاہتے ہیں۔ پہلی شکایت بکسر کے ساتھ والے دیہات کے نمبردار کی تھی۔ اگلی شکایت پیش ہوئی۔

    یہ شکایت چاڈی نے پیش کی کہ کالو نے اس کی بیوی تلنی کو اغوا کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ تین ہفتے قبل کالو نے اس کی بیوی کی طرف پیش قدمی کی اور نتیجتاً اس کی بیوی اس کا گھر چھوڑ کر کالو کے گھر رہنے چلی گئی ہے۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کالو کہاں ہے تو ہمارے سامنے نیم دائرے کے ایک کنارے سے بندہ اٹھ کر بولا کہ وہ کالو ہے۔

    جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ الزام کو تسلیم کرتا ہے تو اس نے بتایا کہ تلنی اس کے گھر رہ رہی ہے مگر اس نے اغوا کی بات سے یکسر انکار کیا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کیا تلنی اپنے شوہر کے پاس واپس بھیج دی جائے تو اس نے بتایا کہ تلنی اپنی مرضی سے آئی ہے، سو وہ اسے واپس جانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اینڈرسن نے پوچھا: ‘تلنی کہاں ہے؟‘ عورتوں سے ایک لڑکی اٹھ کر سامنے آئی اور بولی: ‘میں تلنی ہوں۔ فرمائیے۔‘

    تلنی اٹھارہ برس کی خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کے بال ترائی کی خواتین کی مانند سر پر ایک فٹ اونچے منارے کی شکل میں تھے اور اس نے سفید گوٹے والی کالی ساڑھی پہن رکھی تھی اور سرخ قمیض، خوبصورت رنگوں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ وہ اپنے شوہر کو کیوں چھوڑ آئی ہے تو اس نے چاڈی کی طرف اشارہ کیا اور بولی: ‘اسے دیکھیں۔ یہ کتنا غلیظ ہے اور کنجوس بھی۔ دو سال سے میں اس کی بیوی ہوں اور اس نے ایک بار بھی کپڑے یا زیور نہیں دیے۔ یہ جو کپڑے اور زیورات آپ دیکھ رہے ہیں، مجھے کالو نے دیے ہیں۔‘ اس کا اشارہ چاندی کی چوڑیوں اور شیشے کے موتیوں کے کئی ہاروں کی جانب تھا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ آیا وہ اپنے شوہر چاڈی کے پاس جانا چاہتی ہے تو اس نے صاف انکار کیا اور بولی کہ کسی قیمت پر بھی واپس نہیں جائے گی۔

    یہ مقامی قبیلہ ترائی کے مضرِ صحت مقام پر آباد تھا اور ان کی دو خوبیاں مشہور تھیں۔ ایک ان کی صاف ستھرا رہنے کی عادت اور دوسرا خواتین کا آزاد ہونا۔ ہندوستان کے کسی دوسرے مقام پر لوگ ترائی کی مانند بے داغ کپڑے پہنے نہیں دکھائی دیتے اور نہ ہی کسی اور جگہ کوئی لڑکی اتنی ہمت کرتی کہ مرد و زن کے ہجوم کے سامنے کھڑی ہوتی جس میں دو سفید فام اس کا مقدمہ سن رہے ہوں، اسے اس بات کی اجازت بھی مل پاتی۔ پھر اینڈرسن نے چاڈی سے پوچھا کہ وہ کیا تجویز کرتا ہے تو اس نے جواب دیا: ‘حضور، آپ میرے مائی باپ ہیں۔ میں آپ کے پاس انصاف کے لیے آیا ہوں۔ اگر آپ میری بیوی کو واپس لوٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے تو مجھے اس کا معاوضہ دلائیں۔‘ اینڈرسن نے پوچھا: ‘کیا معاوضہ چاہتے ہو؟‘ چاڈی بولا: ‘مجھے ایک سو پچاس روپے چاہییں۔‘ اس پر مجمعے میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ‘بہت زیادہ ہے۔ ‘اتنا زیادہ معاوضہ؟‘ ‘اس کی یہ قیمت غلط ہے۔‘ جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ تلنی کے لیے ڈیڑھ سو روپے ادا کرنے کو تیار ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ قیمت بہت زیادہ ہے اور بتایا کہ بکسر کے ہر انسان کو علم ہے کہ چاڈی نے تلنی کے ایک سو روپے دیے تھے۔ اس نے دلیل دی کہ ایک سو روپے ‘کنواری‘ کے تھے اور چونکہ اب وہ کنواری نہیں ہے، سو وہ محض پچاس روپے ادا کرے گا۔ اب مجمع دو حصوں میں بٹ گیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ڈیڑھ سو روپے بہت زیادہ ہیں اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ پچاس روپے بہت کم ہیں۔

    آخرکار دونوں اطراف کی باتیں سن کر، جن میں انتہائی باریک اور ذاتی تفاصیل بھی شامل تھیں اور جنہیں تلنی نے انتہائی دلچسپی سے سنا، اینڈرسن نے تلنی کی قیمت 75 روپے مقرر کی، جو کالو نے چاڈی کو دینے تھے۔ کالو نے نیفے سے تھیلی نکال کر اینڈرسن کے سامنے قالین پر خالی کر دی۔ کل رقم چاندی کے باون کلدار روپے بنی۔ پھر کالو کے دو دوست اس کی مدد کو آئے اور تیئس روپے شامل کر دیے اور اینڈرسن نے چاڈی کو رقم لینے کا کہا۔ جب اس نے رقم گن کر تسلی کر لی تو میں نے دیکھا کہ وہ عورت جو بہت کمزور تھی اور انتہائی تکلیف سے چل کر گاؤں سے ہماری جانب آئی تھی اور دیگر لوگوں سے ہٹ کر بیٹھی رہی، بمشکل اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی: ‘اور میرا کیا ہوگا مائی باپ؟‘ اینڈرسن نے پوچھا: ‘تم کون ہو؟‘ اس نے جواب دیا: ‘میں کالو کی بیوی ہوں۔‘

    یہ طویل قامت اور انتہائی کمزور خاتون تھی جس کے تن سے جیسے تمام تر لہو نچوڑ لیا گیا ہو۔ اس کا چہرہ بالکل سفید تھا اور انتہائی بڑھی ہوئی تلی کی وجہ سے اس کا پیٹ نکلا اور پیر سوجے ہوئے تھے جو ملیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ترائی میں ملیریا کی بیماری عام ہے۔ تھکی ہوئی آواز میں اس نے بتایا کہ اب کالو نے دوسری بیوی خرید لی ہے تو وہ بے گھر ہو جائے گی۔ چونکہ اس کے کوئی رشتہ دار اس گاؤں میں نہیں رہتے اور بیماری کی وجہ سے وہ کام کے قابل بھی نہیں رہی تو وہ عدم توجہی اور بھوک سے مر جائے گی۔ پھر اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا اور سسکیاں لینے لگی۔ اس کا پورا بدن لرز رہا تھا اور آنسو نیچے گر رہے تھے۔
    یہ غیر متوقع اور پیچیدہ صورتحال تھی اور اینڈرسن کے لیے اس کا حل نکالنا آسان نہ تھا۔ جتنی دیر کالو کا مقدمہ چلتا رہا، کسی نے اشارتاً بھی کالو کی پہلی بیوی کا نہیں بتایا تھا۔ اس عورت کی تکلیف دہ سسکیوں کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تلنی جو ابھی تک کھڑی تھی، بھاگ کر اس بیچاری عورت کے قریب گئی اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر بولی: ‘بہن، رو مت۔ ایسے مت کہو کہ تم بے گھر ہو، میں کالو کے دیے ہوئے جھونپڑے میں تمہارے ساتھ رہوں گی اور میں خود تمہارا خیال رکھوں گی اور کالو جو بھی مجھے دے گا، اس میں سے آدھا تمہارا ہوگا۔ میری بہن، مت رو۔ آؤ میرے ساتھ میرے جھونپڑے کو چلو۔‘

    جب تلنی اور بیمار خاتون چلی گئیں تو اینڈرسن نے کھڑے ہو کر زور سے اپنا ناک صاف کیا اور کہا کہ پہاڑی ہوا بہت سرد ہے اور آج کی سماعت یہیں تمام ہوتی ہے۔ شاید پہاڑی ہوا نے دیگر افراد پر بھی اینڈرسن کی طرح اثر کیا تھا کیونکہ بہت سارے دیگر لوگ بھی اپنا ناک صاف کر رہے تھے۔ مگر سماعت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چاڈی اینڈرسن کے پاس پہنچ کر بولا کہ وہ اپنا مقدمہ واپس لیتا ہے۔ اس نے اپنی عرضی پھاڑ ڈالی اور اپنے نیفے سے پچہتر روپے نکال کر بولا: ‘کالو اور میں ایک ہی گاؤں سے ہیں اور اب چونکہ اس نے دو پیٹ بھرنے ہیں اور ایک کو زیادہ طاقت والی خوراک درکار ہے، سو اسے یہ رقم درکار ہوگی۔ مائی باپ، آپ کی اجازت سے میں یہ رقم اسے واپس کرتا ہوں۔‘

    سرخ فیتے سے قبل اینڈرسن نے باہمی اتفاق سے سیکڑوں، بلکہ ہزاروں ایسے مقدمات نمٹائے تھے جن میں فریقین کو ایک پائی کی فیس بھی ادا نہیں کرنی پڑی۔ چونکہ اب سرخ فیتہ متعارف ہو چلا ہے، سو ان مقدمات کو عدالت لے جانا پڑتا ہے اور اس دوران فریقین سے بھاری خراج وصول کیا جاتا ہے جہاں سے نفرت اگتی ہے اور نتیجتاً مزید مقدمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو غریب، سادہ اور ایماندار محنت کشوں کو دیوالیہ اور وکلاء کو امیر بناتا جاتا ہے۔

  • برصغیر میں انگریزی زبان نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنی!

    برصغیر میں انگریزی زبان نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنی!

    انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی زبان، برصغیر میں نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔

    بلاشبہ اس میں نئے علوم موجود تھے، اور نئے استعماری بندوبست نے ان کی ضرورت بھی پیدا کر دی تھی۔ اس بندوبست میں معاشی بقا کے لیے ان علوم کا سیکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ جو لوگ اس ضرورت کا احساس نہیں کر سکے تھے، وہ معاشی پس ماندگی اور سماجی طور پر راندہ ہونے کا شکار بہ یک وقت ہوئے۔ تاہم نئے علوم کا سوال اتنا سادہ نہیں تھا، جتنا عام طور پر اسے سمجھا گیا۔ یہ نئے علوم، نسل پرستی پر مبنی نوآبادیاتی نظام کے زمانے اور اس کے تحت ہندوستان پہنچ رہے تھے۔ یورپ کے نئے علم اور یورپی استعماریت میں معاون علم میں فرق کرنے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کم ہی محسوس کیا گیا۔

    ہم انیسویں صدی میں ایسے کئی ادبی متون دیکھتے ہیں، جن میں ایک طرف نئے علم کی وکالت اس پر زور انداز میں کی گئی کہ اس کے استعماری رخ یا منشا کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا، دوسری طرف انگریزی زبان کو نئے علوم کے ساتھ یورپی تمدن کا مظہر سمجھ کر اس کی حمایت کی گئی۔ اور ترقی کے لیے صرف علوم نہیں، یورپی تمدن کو پورے کا پورا قبول کرنا لازم ٹھہرایا گیا۔ یعنی اگر آپ انگریزی پڑھتے ہیں تو صرف جدید علوم ہی کا دروازہ نہیں کھلتا، ان سب اقدار کو بھی آپ حاصل کر لیتے ہیں، جو سفید فام نسل پرستی نے اپنے لیے مخصوص کیا: خیالات میں آزادی، استقلال، حوصلہ مندی، علو ہمتی، فیاضی، ہمدردی، سچائی، راست بازی۔ بغیر انگریزی پڑھے، ان سے آپ گویا محروم رہتے ہیں۔

    دیسی زبانیں، دیسی نسلوں کی مانند ان سب شائستہ اوصاف سے محروم ہیں۔ نذیر احمد کے ابن الوقت کا یہ حصہ دیکھیے: انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو علومِ جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے۔ یعنی عموماً انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علوم جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائی، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدونِ انگریزی جاننے کے نہیں ہو سکتا۔ ریفارم جس کی ضرورت ہندوستان کی ترقی کے لیے ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے۔ خوراک میں پوشاک میں، زبان میں، عادات میں، طرز تمدن میں، خیالات میں ہر اک چیز میں۔

    (ناصر عباس نیر کے علمی و تحقیقی مضمون سے اقتباس)

  • غزل بالکل غیر فطری چیز ہے…

    غزل بالکل غیر فطری چیز ہے…

    نام ور ادیب اور صحافی حمید اختر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخِ بمبئی کے 1946-47ء کے اجلاسوں کی کارروائی بہ شکلِ روداد اور بحیثیت سیکرٹری رقم کی تھی جس کے مئی کے مہینے کے ایک اجلاس میں جوش ملیح آبادی بھی شریک تھے اور غزل جیسی صنف کی مخالفت میں خوب بولے۔

    اس کارروائی کو قلم بند کرتے ہوئے حمید اختر جوش کی گفتگو ضبطِ‌ تحریر میں لاتے ہیں جس سے کچھ اقتباسات اہل ادب اور باذوق قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    اس جلسہ میں غزل پر مباحثہ ہونے والا تھا اور اس میں غزل کے مخالف اور حامی شعرا اور ادیبوں میں سے جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، ڈائریکٹر بخاری، علی سردار جعفری، سجاد ظہیر، ظ۔ انصاری، مجروح سلطانپوری وغیرہ نے اس بحث میں نمایاں حصہ لیا۔ غزل کے حامیوں میں ڈائریکٹر بخاری، مجروح سلطانپوری اور ظ۔ انصاری نے اپنے خیالات ظاہر کیے۔ مخالفت میں جوش ملیح آبادی اورسردار جعفری بولے…

    حمید اختر لکھتے ہیں مجروح سلطان پوری کے بعد جوش ملیح آبادی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا، اب تک نفس غزل پر روشنی ڈالی گئی۔ اردو کی اور باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ غزل کی تعریف ہے ” گفتگو کردن بازناں‘‘ یعنی عورتوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا غزل کہلاتا ہے۔ غزل میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک سے دوسرا شعر مختلف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مسلسل غزل کا ذکر کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ اس لیے کہ فن نے ایسی غزلوں پر قطعہ کی مہر لگائی ہے۔ غزل تو وہی ہے جس کا ہر شعر دوسرے سے مختلف ہو۔ یعنی مطلع میں انتظارِ معشوق رہا ہے۔ حسن مطلع میں وصل کے مزے لوٹے جا رہے ہیں۔ جوش صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں کہا، غزل ایک قسم کی خوردہ اندیشی اور خوردہ گوئی ہے جیسے ہار مونیم پر انگلیاں رکھ کر مختلف آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح غزل بھی ہارمونیم بازی ہے۔ انہوں نے کہا، نطق خیال کا داعی ہوتا ہے۔ بے ضرورت بولنے والوں کو لوگ بکواس کہتے ہیں۔ اسی طرح شعر بھی اس وقت ہونا چاہیے جب دل میں کوئی جذبہ کوئی خیال ذہن میں ہو لیکن غزل گو یونہی شعر کہتے رہتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ غزل گو عاشق، عاشق بالکل نہیں ہوتے۔ ان کا عشق مصنوعی ہوتا ہے بلکہ ان کا معشوق اب تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ جس معشوق پر ان کا ولی دکنی مرا تھا، یہ بھی اب تک اس پر مرے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر جذبے کی ایک عمر ہوتی ہے مگر مشاق شاعر ایک وقت میں بیس یا تیس شعر کہہ لیتے ہیں جو مختلف خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ
    ایک وقت میں انسان پر مرکب جذبات کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ غزل گو شاعر واقعات کو اسٹور میں رکھتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر قافیے کی ٹارچ لے کر اسٹور میں گھس جاتے ہیں اور وہاں سے جس چیز کی ضرورت ہو نکال لیتے ہیں مگر ” بیمار کر دیا‘‘ وغیرہ جھوٹی نگینہ سازی ہے۔ قافیے اور ردیف کو ٹکرانے سے کبھی خوشبو پیدا نہیں ہوتی، اکثر بدبو پیدا ہوتی ہے۔

    انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب ذرا غزل گوؤں کے معشوق کو بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ ان کو آج تک ایک بھی باوفا معشوق نہیں ملا حالانکہ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھے، برے، باوفا، مگر یا تو ہمارے غزل گو دوست چھانٹ کر ایسے شجرۂ نسب والے معشوق تلاش کرتے ہیں جن کے خاندان میں وفاداری کا رواج نہیں ہوتا، یا خود اتنے بدصورت ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی عورت عاشق نہیں ہوتی۔ پھر بیچاروں کو رقیب رو سیاہ ہمیشہ پیٹتا رہتا ہے۔ کبھی سننے میں آیا کہ کسی عاشق نے رقیب کو مارا ہو؟

    انہوں نے کہا کہ فانی جو بہت بڑے غزل گو سمجھے جاتے ہیں، ان سے غزل پر ایک روز گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا بڑی مصیبت ہے جوتے میں کیل نکل آیا ہے اور بھئی آٹا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ بے موسم بارش ہورہی ہے۔ کس قدر گرمی پڑرہی ہے… فانی حیران ہو کر بولے، کیا ہوا تمہیں؟ میں نے کہا غزل فرما رہا ہوں۔ بس یہی غیر مربوط خیالات غزل کہلاتے ہیں۔

    آخر میں جوش صاحب نے کہا، میرؔ صاحب کو دیکھ لیجیے۔ ان کا دیوان ایک ریگستان ہے۔ چلتے چلتے راستے میں کیچڑ ملے گا۔ غلاظتیں آئیں گی، کھائیاں اور کھڈ ملیں گے۔ اسی طرح دس ہزار میل کی مسافت طے کر لیجیے، تب کہیں جاکر ایک پھول ملے گا۔ تقریر ختم کرتے ہوئے کہا، غزل بالکل غیر فطری چیز ہے اور یہ خوردہ گوئی اور خوردہ اندیشی فوراً ختم ہونی چاہیے۔

  • عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر عبدالحمید عدمؔ کو قادر الکلام اور زود گو شاعر کہا جاتا ہے۔ عدم نے غزل جیسی مقبول صنف کو مختصر بحروں کے انتخاب‌ کے ساتھ خوب برتا۔ ان کا انداز سادہ مگر دل نشیں ہے اور سلاست و روانی ان کے کلام کی وہ خوبی ہے جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں انفرادیت بخشی۔

    عبدالحمید عدم کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو عدم کی شخصیت اور ان کی مقبولیت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ عدم بھی اکثر شعرا کی طرح مے نوش تھے اور اسی باعث ان کی عراقی نژاد بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

    ایک شام میں نے عدم صاحب سے کہا، ’’عدم صاحب! یہاں ہیرا منڈی میں ایک گانے والی آپ کی غزلیں بڑے شوق سے گاتی ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ اُسے کبھی آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے۔‘‘

    کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو اس گانے والی کے کوٹھے پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو اس کی گائیکی پسند آ گئی اور آپ کو وہ محفل اچھی لگی تو میں بتا دوں گا کہ آپ سید عبدالحمید عدم ہیں ورنہ آپ کا تعارف کرائے بغیر وہاں سے اٹھ آئیں گے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد عدم صاحب راضی ہو گئے۔ ہم کوٹھے پر جا پہنچے۔ جونہی میرے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے جھومتے جھامتے عدم صاحب تشریف لائے، اُن لوگوں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ ساز و آواز یک لخت خاموش ہوگئے۔ گانے والی پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر حیرت سے عدم صاحب کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اٹھ کر ان کے پاس آکر جھکی، ان کے پاؤں کو چھوا، اور ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔

    میں نے عدم صاحب کو بیٹھنے کو کہا۔ ایک بڑی بی نے عدم صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ’’شاہ جی! تشریف رکھیں۔ یہ آپ نے بڑا کرم کیا جو ہم غریبوں کے گھر آئے ہیں۔‘‘

    گانے والی کا چہرہ تو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بازار میں بیٹھی ہوئی ایک گانے والی عدم صاحب سے شرما رہی ہے۔ عدم صاحب بالکل خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر بالکل سکوت طاری رہا۔ پھر میں نے اس گانے والی سے کہا، ’’تمہیں بڑا شوق تھا کہ عدم صاحب کو ان کی غزلیں سناؤ۔ اب اپنا شوق پورا کر لو۔‘‘ پان اور کوک وغیرہ سے خاطر تواضع ہونے لگی۔ میں نے عدم صاحب پر نظر ڈالی۔ وہ بالکل گم صم بیٹھے تھے۔ جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔

    بڑی بی نے کہا ’’شاہ جی فرمائیں۔ آپ کیسے ہیں۔‘‘ اس پر عدم تو بدستور خاموش رہے۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب نے کیا فرمانا ہے۔ ہم تو سننے آئے ہیں۔ آپ عدم صاحب کو ان کی کوئی غزل سنوائیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد طبلے پر اچانک تھاپ پڑی اور ساز و آواز گونج اٹھے۔ اُس حسینہ نے سب سے پہلے عدم کی یہ مشہور غزل چھیڑی۔

    یہ باتیں تری، یہ فسانے ترے
    شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

    یہ محفل دیر تک جمی رہی۔ عدم صاحب مبہوت بیٹھے رہے۔ زبان سے کچھ نہ بولے۔