آج شاذ ہی کوئی پاکستانی ادیب، محقق، ماہرِ تعلیم حمید احمد خاں کے نام اور ان کے علمی و ادبی کاموں سے واقف نکلے۔ ان کا تذکرہ بھی اب نہیں ہوتا کہ وہ اہلِ علم اور قلم کار بھی اٹھ گئے جو ان کے ہم عصر تھے یا حمید احمد خاں سے اپنے دور میں واقف ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف میں اقبال اور غالب پر کتابیں یادگار ہیں جب کہ تہذیب و تاریخ، تعلیم اور مذہب میں پروفیسر صاحب بہت دل چسپی رکھتے تھے اور مختلف مواقع پر ان سے متعلق کئی تقاریر اور مضامین اکٹھے کیے تھے۔
حمید احمد خاں ایک کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں، میری زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس سے متعلق مشاغل میں گزرا ہے۔ چنانچہ گزشتہ پینتیس برس میں مجھے تحریر و تقریر کے ذریعے سے ان متفرق مسائل پر اظہار خیال کا موقع ملتا رہا جو اس دوران میں ہمارے اساتذہ و طلبہ کے لیے وقتاً فوقتاً مرکزِ توجہ ہے۔
مارچ 1974ء میں پروفیسر حمید احمد خاں وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے اور تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جب ہندوستان میں تحریکِ خلافت نے زور پکڑا تو وہ اس سے متاثر ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے تھے۔ بی۔اے کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے لی اور ایم۔اے کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے۔ بعد ازاں کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ انھیں اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ ان کی خواہش رہی کہ ان کے مضامین اور دوسرے اہلِ علم و فضل کے مقالات کو جمع و تدوین کے بعد طلبہ تک پہنچایا جائے جس کی تکمیل احمد ندیم قاسمی نے کی۔ اور ایک کتاب مرتب کی جس کے ابتدائیہ کی چند سطور یہ ہیں:
پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم و مغفور ایک ایسی جامع الحيثيات شخصیت تھے جن کے علمی کارناموں کو زندہ رکھنا ہم سب کا ملّی فرض ہے۔ ان کے انتقال کے کوئی دو ماہ بعد ۱۸ مئی ۱۹۷۳ء کو مجلسِ یادگارِ حمید احمد خان کا قیام عمل میں آیا۔ مجھے (احمد ندیم قاسمی) نذرِ حمید احمد خان مرتب کرنے والی ذیلی کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا۔ میرے پیش نظر ایک ایسی کتاب کی ترتیب تھی جس میں خان صاحب مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر ملک اور بیرون ملک کے معزز اہلِ علم اور اہلِ ادب حضرات کے مقالات شامل ہوں۔ جو لوگ خان صاحب مرحوم سے متعارف ہیں اور ان کے خیالات و نظریات سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مرحوم کو بعض موضوعات سے بطور خاص دلچسپی تھی اور یہی ان کی عمر بھر کی علمی سرگرمیوں کے محور تھے۔
پروفیسر مرحوم کے جمع کردہ بعض مقالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں قرآن، اس کے اسلوب اور آہنگ سے متعلق قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن جیسے موضوع پر مولانا ابوبکر غزنوی کے مقالے سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
قرآن مجید کا آہنگ
قرآن مجید کی صوری رعنائیوں میں سے ایک ابھری ہوئی رعنائی قرآن مجید کا اسلوب ہے، اور اس کے اسلوب کی سب سے ابھری ہوئی خصوصیت اس کا آہنگ ہے، اس کے اسلوب کی موسیقیت ہے۔ قرآن کا آہنگ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ آہنگ کن عناصر سے ترتیب پایا ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب بات ہے اور اس مختصر مقالے میں اس کی گنجائش نہیں:
فرخنده شبے باید و خش مہتابے
تا با تو حکایت کنم از ھر بابے
ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان نے بحور و اوزان کے جتنے سانچے شعر کے لیے تراشے ہیں، قرآن کا اسلوب ان سب سے ہٹا ہوا ہے۔ وہ کسی بحر میں نہیں ہے۔ نہ طويل، نہ بسيط، نہ رجز، نہ رمل۔ شاید آپ کے جی میں یہ خیال آئے کہ نظمِ آزاد کا قالب بھی تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور نظمِ آزاد بھی تو شاعری ہی کی ایک صنف ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے۔ جی میں یہ خیال نظمِ آزاد کی حقیقت سے ناواقفیت ہی کی بنا پر آ سکتا ہے۔ نظمِ آزاد گو ایک بحر میں نہیں ہوتی ہے اور ہر مصرع جدا بحر میں ہو سکتا ہے لیکن ہر ہر مصرع باوزن ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ نظمِ آزاد کا کوئی مصرع سرے سے وزن ہی سے خارج ہو۔
قرآن مجید میں چند آیتوں کے سوا بسم اللہ سے والنّاس تک تمام آیتیں انسان کے تراشے ہوئے اوزان سے ہٹ کر ہیں۔ پس نظمِ آزاد کا اطلاق بھی قرآن مجید پر نہیں ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید کی چند آیتیں باوزن ہیں، مثلا:
ھیہات ھیہات لما توعدون (المؤمنون)
ودانية عليهم ظلالها وذللت قطوفها تذليلا (الدهر)
لیکن چند آیتوں کے با وزن ہونے کی بنا پر پورے قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی نثر نگار کے قلم سے اور مقرر کی زبان سے بھی بعض فقرے باوزن نکل جاتے ہیں۔ جیسے کہ اعجاز القرآن میں باقلانی نے مثال دی ہے کہ کبھی ایک عامی کی زبان سے بھی نکل جاتا ہے:
اسقنى الماء يا غلام سريعاً
(ترجمہ: او لڑکے! پانی جلدی سے پلاؤ)
یہ قول باوزن ہے لیکن اس عامی کو شاعر کوئی نہیں کہتا۔
مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے اختتام پر مہانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہا تھا: "یہ بندۂ فقير سراپا سپاس ہے۔ حاضرینِ مجلس میں ایک شاعر بھی تشریف فرما تھے، وہ جھٹ سے بول اٹھے کہ یہ تو مصرع ہو گیا، لیکن چونکہ ساری بات میں نے نثر میں کی تھی، اس ایک جملے کے باوزن ہونے کی بنا پر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں نے شعروں میں گفتگو کی ہے۔
پس قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے گنتی کی چند آیتوں کے باوزن ہو جانے کی بنا پر قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی ہے:
وما علمناه الشعر وما ينبغی له
(ہم نے انھیں شاعری نہیں سکھائی اور ان کی شان کے وه شایاں بھی نہ تھی)
اگلا سوال ایک طالب علم کے ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ اگر قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے تو کیا وہ نثر کی کتاب ہے؟ نثر کا آہنگ بھی تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔ نثر میں یہ موسیقیت تو نہیں ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے بجا کہا تھا:
ترجمہ: قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے، قرآن مجید نثر کی کتاب بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم کہیں قرآن، قرآن ہے۔
اس کا اسلوب منفرد ہے، اس کا آہنگ انوکھا اور اچھوتا ہے جیسے خدا اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا ہے، اس کا اسلوب بھی یکتا ہے۔