Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • پروفیسر حمید احمد خان اور قرآن کا اسلوب

    پروفیسر حمید احمد خان اور قرآن کا اسلوب

    آج شاذ ہی کوئی پاکستانی ادیب، محقق، ماہرِ تعلیم حمید احمد خاں کے نام اور ان کے علمی و ادبی کاموں سے واقف نکلے۔ ان کا تذکرہ بھی اب نہیں ہوتا کہ وہ اہلِ علم اور قلم کار بھی اٹھ گئے جو ان کے ہم عصر تھے یا حمید احمد خاں سے اپنے دور میں واقف ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف میں‌ اقبال اور غالب پر کتابیں یادگار ہیں جب کہ تہذیب و تاریخ، تعلیم اور مذہب میں پروفیسر صاحب بہت دل چسپی رکھتے تھے اور مختلف مواقع پر ان سے متعلق کئی تقاریر اور مضامین اکٹھے کیے تھے۔

    حمید احمد خاں ایک کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں، میری زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس سے متعلق مشاغل میں گزرا ہے۔ چنانچہ گزشتہ پینتیس برس میں مجھے تحریر و تقریر کے ذریعے سے ان متفرق مسائل پر اظہار خیال کا موقع ملتا رہا جو اس دوران میں ہمارے اساتذہ و طلبہ کے لیے وقتاً فوقتاً مرکزِ توجہ ہے۔

    مارچ 1974ء میں پروفیسر حمید احمد خاں وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے اور تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جب ہندوستان میں تحریکِ خلافت نے زور پکڑا تو وہ اس سے متاثر ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے تھے۔ بی۔اے کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے لی اور ایم۔اے کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے۔ بعد ازاں کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ انھیں اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ ان کی خواہش رہی کہ ان کے مضامین اور دوسرے اہلِ علم و فضل کے مقالات کو جمع و تدوین کے بعد طلبہ تک پہنچایا جائے جس کی تکمیل احمد ندیم قاسمی نے کی۔ اور ایک کتاب مرتب کی جس کے ابتدائیہ کی چند سطور یہ ہیں:

    پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم و مغفور ایک ایسی جامع الحيثيات شخصیت تھے جن کے علمی کارناموں کو زندہ رکھنا ہم سب کا ملّی فرض ہے۔ ان کے انتقال کے کوئی دو ماہ بعد ۱۸ مئی ۱۹۷۳ء کو مجلسِ یادگارِ حمید احمد خان کا قیام عمل میں آیا۔ مجھے (احمد ندیم قاسمی) نذرِ حمید احمد خان مرتب کرنے والی ذیلی کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا۔ میرے پیش نظر ایک ایسی کتاب کی ترتیب تھی جس میں خان صاحب مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر ملک اور بیرون ملک کے معزز اہلِ علم اور اہلِ ادب حضرات کے مقالات شامل ہوں۔ جو لوگ خان صاحب مرحوم سے متعارف ہیں اور ان کے خیالات و نظریات سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مرحوم کو بعض موضوعات سے بطور خاص دلچسپی تھی اور یہی ان کی عمر بھر کی علمی سرگرمیوں کے محور تھے۔

    پروفیسر مرحوم کے جمع کردہ بعض مقالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں قرآن، اس کے اسلوب اور آہنگ سے متعلق قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن جیسے موضوع پر مولانا ابوبکر غزنوی کے مقالے سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

    قرآن مجید کا آہنگ
    قرآن مجید کی صوری رعنائیوں میں سے ایک ابھری ہوئی رعنائی قرآن مجید کا اسلوب ہے، اور اس کے اسلوب کی سب سے ابھری ہوئی خصوصیت اس کا آہنگ ہے، اس کے اسلوب کی موسیقیت ہے۔ قرآن کا آہنگ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ آہنگ کن عناصر سے ترتیب پایا ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب بات ہے اور اس مختصر مقالے میں اس کی گنجائش نہیں:

    فرخنده شبے باید و خش مہتابے
    تا با تو حکایت کنم از ھر بابے

    ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان نے بحور و اوزان کے جتنے سانچے شعر کے لیے تراشے ہیں، قرآن کا اسلوب ان سب سے ہٹا ہوا ہے۔ وہ کسی بحر میں نہیں ہے۔ نہ طويل، نہ بسيط، نہ رجز، نہ رمل۔ شاید آپ کے جی میں یہ خیال آئے کہ نظمِ آزاد کا قالب بھی تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور نظمِ آزاد بھی تو شاعری ہی کی ایک صنف ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے۔ جی میں یہ خیال نظمِ آزاد کی حقیقت سے ناواقفیت ہی کی بنا پر آ سکتا ہے۔ نظمِ آزاد گو ایک بحر میں نہیں ہوتی ہے اور ہر مصرع جدا بحر میں ہو سکتا ہے لیکن ہر ہر مصرع باوزن ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ نظمِ آزاد کا کوئی مصرع سرے سے وزن ہی سے خارج ہو۔

    قرآن مجید میں چند آیتوں کے سوا بسم اللہ سے والنّاس تک تمام آیتیں انسان کے تراشے ہوئے اوزان سے ہٹ کر ہیں۔ پس نظمِ آزاد کا اطلاق بھی قرآن مجید پر نہیں ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید کی چند آیتیں باوزن ہیں، مثلا:

    ھیہات ھیہات لما توعدون (المؤمنون)
    ودانية عليهم ظلالها وذللت قطوفها تذليلا (الدهر)

    لیکن چند آیتوں کے با وزن ہونے کی بنا پر پورے قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی نثر نگار کے قلم سے اور مقرر کی زبان سے بھی بعض فقرے باوزن نکل جاتے ہیں۔ جیسے کہ اعجاز القرآن میں باقلانی نے مثال دی ہے کہ کبھی ایک عامی کی زبان سے بھی نکل جاتا ہے:
    اسقنى الماء يا غلام سريعاً
    (ترجمہ: او لڑکے! پانی جلدی سے پلاؤ)

    یہ قول باوزن ہے لیکن اس عامی کو شاعر کوئی نہیں کہتا۔

    مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے اختتام پر مہانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہا تھا: "یہ بندۂ فقير سراپا سپاس ہے۔ حاضرینِ مجلس میں ایک شاعر بھی تشریف فرما تھے، وہ جھٹ سے بول اٹھے کہ یہ تو مصرع ہو گیا، لیکن چونکہ ساری بات میں نے نثر میں کی تھی، اس ایک جملے کے باوزن ہونے کی بنا پر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں نے شعروں میں گفتگو کی ہے۔

    پس قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے گنتی کی چند آیتوں کے باوزن ہو جانے کی بنا پر قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی ہے:

    وما علمناه الشعر وما ينبغی له
    (ہم نے انھیں شاعری نہیں سکھائی اور ان کی شان کے وه شایاں بھی نہ تھی)

    اگلا سوال ایک طالب علم کے ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ اگر قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے تو کیا وہ نثر کی کتاب ہے؟ نثر کا آہنگ بھی تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔ نثر میں یہ موسیقیت تو نہیں ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے بجا کہا تھا:

    ترجمہ:‌ قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے، قرآن مجید نثر کی کتاب بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم کہیں قرآن، قرآن ہے۔

    اس کا اسلوب منفرد ہے، اس کا آہنگ انوکھا اور اچھوتا ہے جیسے خدا اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا ہے، اس کا اسلوب بھی یکتا ہے۔

  • مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    جدید شاعری میں ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے جو اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ فراز کی ستائش اور پذیرائی کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اور آج بھی فراز کو ایک ایسا شاعر کہا جاتا ہے جس نے ایک عہد کو متأثر کیا۔ فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں ان کا مزاحمتی کلام بھی بہت مشہور ہے اور ایک زمانہ میں فراز کی نظمیں سیاسی و سماجی جبر، بندشوں اور ناانصافی کے خلاف نعرہ بن کر گونجتی رہی ہیں۔ احمد فراز خواص اور عوام دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے پی ٹی وی کواپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،

    "زندگی کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ انسان خواب بھی دیکھتا ہے، تعبیریں کچھ نکلتی ہیں۔ مجھے بھی شروع میں پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس لیے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا پاکستانی پائلٹ کی یونی فارم میں، مجھے بہت اچھا لگا۔ تو میں نے سوچا کہ میں پائلٹ بنوں گا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں پہنچا تو میں نے بھی جی ڈی پائلٹ کے لیے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو ہوا، اس میں سلیکٹ ہوا۔ پھر میڈیکل بھی ہو گیا ٹھیک ٹھاک ۔ پھر مجھے بلاوا آ گیا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی۔ تو میری والدہ کو ایک طرح کی پریشانی ہوئی۔ ایک بیٹا فوج میں چلا گیا، دوسرا بیٹا ایئر فورس میں جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بہت اداس اور غم گین ہو گئیں۔ بل کہ یہاں تک کہ جب بلاوے کا کال آئی تو انھوں نے میرے کاغذات پھاڑ دیے اور بعد میں مجھے بتایا کہ بیٹا تمھیں وہاں نہیں جانا۔ والدین کی سوچ اپنی جگہ ہوتی ہے، خاص طور سے ماؤں کی۔” وہ مزید کہتے ہیں شاید مجھے شاعر بن کر شہرت کمانا تھی تو یہی ہوا۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    فراز کی مشہور غزل کا مطلع جسے مہدی حسن نے گایا تھا

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ

  • بھارت کی معروف اداکارہ چل بسیں

    بھارت کی معروف اداکارہ چل بسیں

    بھارت کی معروف اداکارہ آشا شرما 88 برس کی عمر میں چل بسیں۔

    سنے اینڈ ٹی وی آرٹسٹ ایسوسی ایشن نے ایکس پر اداکارہ آشا شرما کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے۔

    اداکارہ کی موت کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

    آشا شرما فلموں اور ٹیلی ویژن شوز دونوں میں والدہ اور دادی کے کردار ادا کرنے کے لیے مشہور تھیں۔ ان کی پرفارمنس، اکثر ایک پیار کرنے والی ماں یا دادی کے طور پر، سامعین کے ساتھ گونجتی اور اس کی وسیع تعریف حاصل کی۔

    ان کا ایک سب سے قابل ذکر کردار مقبول ٹیلی ویژن سیریز کمکم بھاگیہ میں تھا، جہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والی دادی کی تصویر کشی نے کافی تعریف حاصل کی۔

    ان کی فلموگرافی میں لاتعداد فلمیں شامل ہیں انہوں نے دھرمیندر اور ہیما مالنی جیسے نامور اداکاروں کے ساتھ اسکرین شیئر کی، اور انصاف کون کرے گا، پیار تو ہونا ہی تھا، ہم کو تم سے پیار ہے، ہم تمہارے ہیں صنم، اور مجھے کچھ کہنا ہے میں ان کی پرفارمنس نے انڈسٹری میں اپنی پوزیشن مستحکم کی۔

    آشا شرما کی تازہ ترین ریلیز افسانوی فلم آدی پورش میں تھی، جس میں پربھاس اور کریتی سینن نے اداکاری کی تھی۔

  • فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    آج مختلف شعبہ ہائے حیات میں ہماری تیز رفتار اور حیران کن ترقّی کے ساتھ ایجاد و صنّاعی کا یہ محیّر العقول سفر بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے مرہونِ منت ہے اور یہ تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات نہ صرف انقلاب آفریں ثابت ہوئے بلکہ اسی زمانے کی مشینیں اور دوسری ایجادات آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہورہی ہیں۔ یہ تمہید عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کا تذکرہ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے انگلستان میں 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ فیراڈے کا باپ لوہار تھا، والدین غریب تھے اس لیے وہ کسی اچھے اسکول میں نہیں پڑھ سکا اور واجبی تعلیم پائی۔ اس نے لکھنا پڑھنا اور کچھ حساب کتاب سیکھا، مگر ذہانت نے اس کی دل چسپی کے میدان میں لازوال شہرت اور جاودانی بخشی۔ اس نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ فیراڈے 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان کا انقلاب آفریں خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔ مائیکل فیراڈے نے بہت سی اہم دریافتیں کیں جن میں اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے جب عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان کا مطالعہ شروع کیا اور وہیں سے سائنسی تجربات کی جانب راغب ہوا۔ اس کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔ ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوئی جنھوں نے اسے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ رکھ لیا اور فیراڈے سائنس داں بنا۔

    1823ء میں اس نے مایع کلورین گیس تیّار کرنے والے پہلے سائنس دان کے طور پر کام یابی سمیٹی اور اس کے اگلے برس بینزین دریافت کیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کر لی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    1841ء میں فیراڈے پر فالج کا حملہ ہوا جس سے اس کے اعصاب بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کی یادداشت خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے تجربات اور ان کے نتائج کو بھول جاتا تھا۔ تین سال تک وہ کوئی کام نہیں کر سکا اور اپنی بیوی کے ساتھ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ طبیعت میں بہتر ہونے کے بعد وہ دوبارہ عملی زندگی میں مگن ہوگیا مگر یادداشت وقت کے ساتھ جواب دیتی گئی اور ایک روز مطالعہ و تحقیق کے دوران ہی چل بسا۔

    آج ہم برقی سائنس میں فیراڈے کی تحقیق و ایجاد کے طفیل ہی اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک مثالی شخصیت تھا جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔

  • گووندا اور سنیتا کی بیٹی نے والدین کے طلاق پر خاموشی توڑ دی

    گووندا اور سنیتا کی بیٹی نے والدین کے طلاق پر خاموشی توڑ دی

    بالی ووڈ اسٹار گووندا اور سنیتا آہوجا کی جانب سے طلاق کی درخواست دائر کرنے کی خبروں پر اداکارہ ٹینا آہوجا نے بالآخر خاموشی توڑ دی ہے۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، سنیتا آہوجا، جو 1987 سے گووندا کے ساتھ شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچوں کی ماں ہیں، نے 38 سال کی شادی کے بعد ’ہیرو نمبر 1‘ اداکار سے طلاق کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ تاہم، ان کی بیٹی ٹینا نے ان قیاس آرائیوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ سب افواہیں ہیں۔

    ایک بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹینا آہوجا نے ’میں ان افواہوں پر توجہ نہیں دیتی، انہوں نے مزید کہا ’میں اپنے خوبصورت خاندان کے ساتھ ہونے پر خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں اور میں میڈیا، مداحوں اور پیاروں کی طرف سے ملنے والی تشویش، محبت اور حمایت کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔‘

    انہوں نے مزید بتایا کہ میں اپنے والدین کے معاملات پر زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی، میرے والد تو ابھی ملک سے باہر ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: گووندا کے انٹرویو نے بالی وڈ میں ہلچل مچا دی

    سنیتا آہوجا کا گووندا سے طلاق کیلیے عدالت سے رجوع

    واضح رہے کہ جمعہ کی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ سنیتا آہوجا نے اپنے شوہر پر بےوفائی، ظلم، فریب اور ترکِ تعلق جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں، اور ہندو میرج ایکٹ 1955 کی دفعات 13 (1) (i)، (ia)، (ib) کے تحت طلاق کی درخواست دائر کی ہے۔

    تاہم گووندا اب تک کسی بھی عدالتی کارروائی میں شریک نہیں ہوئے اور حتیٰ کہ عدالت کی جانب سے مقرر کردہ کونسلنگ سیشن میں بھی غیر حاضر رہے۔

  • پرینیتی چوپڑا اور راگھو چڈھا کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع

    پرینیتی چوپڑا اور راگھو چڈھا کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع

    نئی دہلی(25 اگست 2025): بالی ووڈ اداکارہ پرینیتی چوپڑا اور سیاستدان شوہر راگھو چڈھا نے جلد والدین بننے کی تصدیق کردی ہے۔

    بالی ووڈ اداکارہ پرینیتی چوپڑا اور رکن پارلیمنٹ راگھو چڈھا جلد ہی اپنے چھوٹے سے فرشتے کا استقبال کرنے والے ہیں، جوڑے نے پیر کے روز ایک انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے یہ خوشخبری اپنے مداحوں کے ساتھ شیئر کی ہے۔

    پرینیتی نے اپنے انسٹاگرام پر راگھو چڈھا کے ساتھ ایک مشترکہ دو سلائیڈ والی پوسٹ شیئر کی، جس میں ایک کیک کی تصویر تھی جس پر "1+1=3” اور چھوٹے پاؤں کے نشانات بنے تھے، جو ان کے بڑھتے ہوئے فیملی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دوسری سلائیڈ میں ایک مختصر ویڈیو تھی جس میں یہ ہونے والے والدین پارک میں سیر کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by @parineetichopra

    انہوں نے کیپشن میں لکھا "ہمارا چھوٹا سا کائنات۔۔جلد ہی آنے والا ہے، بے حد مبارکباد،” ساتھ ہی سرخ دل اور نظر بد سے بچاؤ کے ایموجیز شامل کیے، اس خوشی کے اعلان پر لاکھوں مداحوں اور شوبز انڈسٹری سے وابستہ شخصیت نے بے پناہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور پوسٹ کے کمنٹس سیکشن میں جوڑے کے لیے دلی مبارکباد کے پیغامات شیئر کیے۔

    واضح رہے کہ بالی ووڈ اداکارہ  پرینیتی چوپڑا نے 2023 میں اڈی پور میں ایک نجی تقریب میں سیاستدان راگھو چڈھا کے ساتھ شادی کی تھی۔

  • ڈکی بھائی کا گرفتاری کے بعد پہلا بیان سامنے آگیا

    ڈکی بھائی کا گرفتاری کے بعد پہلا بیان سامنے آگیا

    لاہور(25 اگست 2025): پاکستان کے معروف یوٹیوبر سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کا گرفتاری کے بعد پہلا بیان سامنے آگیا ہے۔

    ڈکی بھائی پاکستان کے مشہور یوٹیوبر ہیں، انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز روسٹنگ ویڈیوز، گیمز سٹریمنگ سے کیا اور پھر ولاگنگ کی طرف آئے، وہ اپنی متنازعہ لڑائیوں، پیسوں کی نمائش اور دیگر مشہور شخصیات کے بارے میں بیانات دینے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    وہ آج کل ڈکی بھائی قانونی مشکلات سے گزر رہے ہیں کیونکہ ڈکی بھائی کو چند روز قبل ایف آئی اے نے ایک مبینہ متنازع ’ٹریڈنگ/گیمبلنگ ایپ‘ کی پروموشن کے الزام میں لاہور سے گرفتار کیا تھا۔

    ایف آئی اے کے مطابق اس ایپ کے ذریعے شہریوں کو مالی نقصان ہوا، جس پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا، گرفتاری کے بعد انہیں ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا، جہاں گزشتہ روز ان کی دوبارہ پیشی ہوئی جس کے بعد انہوں نے ایک نجی میڈیا سے گفتگو کی۔

    مزید پڑھیں : ڈکی بھائی کیس میں اب تک کیا کچھ ہوا؟

    یوٹیوبر نے عدالت کے باہر میڈیا سے پہلی بار گفتگو کرتے ہوئے ناصرف اعتراف جرم کیا ہے بلکہ اپنے جرم پر معافی بھی مانگی ہے، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ڈکی بھائی نے کہا کہ میں روسٹنگ کے زمانے سے روسٹنگ ویڈیوز بناتا تھا جو کہ ایک غیر اخلاقی کام ہے جس پر میں پوری قوم سے معافی مانگتا ہوں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کچھ ایپس کی تشہیر کی پیشکش کی گئی، جس کی میں نے تصدیق کیے بغیر تشہیر کی، کیونکہ مذکورہ ایپس ٹی وی پر، بالخصوص پی ایس ایل میچز کے دوران بہت عام تھیں اس لیے میں نے ان کی تصدیق نہیں کی گویا یہ قانونی ہیں یا نہیں، اس پر بھی میں معافی چاہتا ہوں۔

    واضح رہے کہ لاہور کی عدالت نے ابتداً این سی سی آئی اے کی استدعا منظور کرتے ہوئے یوٹیوبر سعد الرحمٰن کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، بعد ازاں عدالت میں پیشی کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں 4 روز کی توسیع کی گئی تھی۔

    یوٹیوبر سعد الرحمٰن کو 23 اگست بروز ہفتہ ایف آئی اے نیشنل کرائم ایجنسی نے 4 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دوبارہ پیش کیا، جہاں عدالت نے ان کا مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/youtuber-ducky-bhai-sent-on-additional-five-day-physical-remand/

  • اریبہ حبیب کا شوبز انڈسٹری کے ایوارڈز کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف

    اریبہ حبیب کا شوبز انڈسٹری کے ایوارڈز کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف

    کراچی(25 اگست 2025): پاکستانی اداکارہ و ماڈل اریبہ حبیب نے شوبز انڈسٹری کے ایوارڈز کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے۔

    اریبہ حبیب ایک اداکارہ اور ماڈل ہیں جو اپنی خوش مزاجی کے لیے جانی جاتی ہیں وہ عام طور پر زندگی اور شوبز انڈسٹری سے متعلق اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا پسند کرتی ہیں، حال ہی میں انہوں نے احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ پر بطور مہمان شرکت کی۔

    احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ اریبہ حبیب نے شوبز انڈسٹری میں ایوارڈز سے متعلق  اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا اور بتایا کہ شوبز میں ایوارڈز اکثر خریدے جاتے ہیں۔

    اریبہ حبیب نے کا کہنا تھا کہ جب میں ماڈلنگ میں تھیں تو ایوارڈز میرے لیے اہمیت رکھتے تھے لیکن اداکاری میں آنے کے بعد ان سب چیزوں پر زیادہ توجہ دینا چھوڑ دی ہیں، اداکارہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ ایوارڈز میں کیا رکھا ہے، جب پیسے ہوں گے تو خرید لوں گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کئی مشہور فنکار ایسے ہیں جنہوں نے درجنوں ایوارڈز جیتے مگر مالی مسائل کی وجہ سے انتہا کی زندگی گزاری، اور میرے نزدیک اصل ایوارڈ میرا بینک اکاؤنٹ اور مالی تحفظ ہے، نہ کہ محض ٹرافی یا سرٹیفکیٹ۔‘

    اداکارہ کے اس بیان نے ایوارڈ شوز کی شفافیت پر ایک بار پھر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور یہ انڈسٹری میں رائج روایتی ایوارڈ کلچر پر ایک اہم بحث کو جنم دے سکتا ہے۔

  • اداکارہ اسما عباس کا واٹس ایپ ہیک ہوگیا

    اداکارہ اسما عباس کا واٹس ایپ ہیک ہوگیا

    لاہور : پاکستان کی سینئر اداکارہ اور بشریٰ انصاری کی ہمشیرہ اسما عباس کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہوگیا، ہیکر نے میسجز بھی کیے۔

    بشریٰ انصاری نے اپنی بہن اداکارہ اسماء عباس کے نمبر سے موصول ہونے والے پیغامات کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اسما کا واٹس ایپ ہیک ہوگیا ہے۔

    برائے مہربانی اس قسم کے پیغامات پر بھروسہ نہ کریں، بشریٰ انصاری کی جانب سے شیئر کیے جانے والے اسکرین شاٹ میں ہیکر اسما عباس کا نام  لے کر ابراہیم نامی شخص سے دس لاکھ روپے ادھار کے طور پر مانگ رہا ہے۔

    اسماء عباس نے بھی انسٹاگرام پر ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ میرے نمبر سے بہت سے لوگوں کو پیغامات بھیج کر پیسوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے، لہٰذا اس قسم کے میسجز پر دھیان نہ دیں۔

    سینئر اداکارہ نے کہا کہ میرے عزیزوں، دوستوں کو اس وجہ سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔

  • بگ باس کے گھر میں داخل ہونے والا بھارتی کرکٹر کون؟ جاننا چاہیں گے؟

    بگ باس کے گھر میں داخل ہونے والا بھارتی کرکٹر کون؟ جاننا چاہیں گے؟

    بھارت کا سب سے بڑا ریئلٹی شو بگ باس کا نیا سیزن آن ایئر ہونے کے لیے تیار ہے، جس میں اس بار بہت سی مشہور شخصایات انٹری کررہی ہے۔

    ریئلٹی شو بگ باس 19واں سیزن ناظرین کو تفریح فراہم کرنے کے لیے 24 اگست 2025 سے شروع ہونے جا رہا ہے، سلمان خان کے متنازع شو میں فلمی شخصیات اور سوشل میڈیا انفلوئنسر کے ساتھ ساتھ کرکٹر بھی حصہ لے چکے اور شائقین کو محظوظ کرتے نظرآئے ہیں۔

    حالیہ دنوں میں کرکٹ کے بڑے بڑے نام تو بگ باس میں نظر نہیں آئے تاہم ایک زمانے میں وہ لوگ بھی بگ باس کے اسٹیج پر آئے جنھوں نے بطور کھلاڑی اور کرکٹرز بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔

    پیشہ ورانہ کیریئر کے علاوہ ان کھلاڑیوں اور کرکٹرز نے ٹیلی ویژن پر بھی ناظرین کو متاثر کیا ہے، کچھ کرکٹرز کو شو درمین میں ہی چھوڑنا پڑا جبکہ کچھ کھلاڑی رنرز اپ بھی بن گئے۔

    کیا آپ جانتے ہیں ریئلٹی شو میں شرکت کرنے والے بھارتی کرکٹرز کون ہیں؟

    سلیل انکولہ: بھارتی فاسٹ بولر کی انٹری

    سلیل انکولا نے متنازع شو بگ باس کے پہلے سیزن میں انٹری کی، تاہم انھیں پروڈکشن ایگریمنٹ کی وجہ سے کچھ معاہدے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، سابق بھارتی کرکٹر کو ابتدائی مراحل میں ہی گھر سے نکال دیا گیا۔

    شو سے ان کا اخراج اس وقت بگ باس کے مداحوں میں ایک گرما گرم موضوع بن گیا تھا، فاسٹ بولر سلیل انکولا نے بھارت کے لیے ایک ٹیسٹ اور 20 ون ڈے کھیلے۔

    ونود کامبلی: شو میں جذباتی لمحات گزارنے والے کرکٹر

    متنازعہ کھلاڑی کے طور پر بھارتی کرکٹ میں پہچان بنانے والے ونود کامبلی بگ باس 3 میں وائلڈ کارڈ انٹری دی، اپنی سادہ طبیعت اور جذبات سے انھوں نے سامعین کے دل جیت لیے، ونود کامبلی نے بھارت کے لیے 17 ٹیسٹ اور 104 ون ڈے کھیلے ہیں۔

    ایس سری سانتھ: بھارتی متنازع فاسٹ بولر

    بھارتی ٹیم جس نے 2007 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا تھا اس کا حصہ رہنے والے فاسٹ بولر ایس سری سانتھ نے بگ باس کے 12ویں سیزن میں شرکت کی۔ بہت سے تنازعات، جذبات اور لڑائیوں سے بھرے ان کے سفر نے بالآخر انہیں رنر اپ بنا دیا۔

    انھوں نے بھارت کی طرف سے ایک عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی مگر متنازع رعہے، سری سانتھ نے 27 ٹیسٹ، 53 ون ڈے اور 10 ٹی ٹوئنٹی میچز میں شرکت کی۔

    نوجوت سنگھ سدھو: کرکٹر اور معروف سیاست دان

    سابق بھارتی کرکٹر، سیاست دان اور کپل شرما شو کا حصہ نوجوت سنگھ سدھو نے بگ باس 6 میں لوگوں کو تفریح فراہم کی لیکن انھوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر شو کو درمیان میں ہی چھوڑا۔

    سدھو نے اپنی منفرد شخصیت سے سامعین کو متاثر کیا، شو میں ان کے قیام کے دوران بھی یہ شو تفریح سے بھرپور تھا، نوجوت سنگھ سدھو نے انڈیا کے لیے 51 ٹیسٹ اور 136 ون ڈے کھیلے ہیں۔