Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • موت کی افواہیں، رضا مراد نے بڑا قدم اُٹھا لیا

    موت کی افواہیں، رضا مراد نے بڑا قدم اُٹھا لیا

    بھارتی فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار رضا مراد ان دنوں اپنی موت کی جھوٹی خبروں کے باعث شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، اداکار کی وفات سے متعلق ایک فیک پوسٹ تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق فیک پوسٹ کے باعث نہ صرف رضا مراد اور ان کے اہلِ خانہ بلکہ ان کے چاہنے والے بھی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔

    سینئر اداکار اس واقعہ سے ناراض ہو کر ممبئی کے امبولی پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف باضابطہ شکایت درج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

    رضا مراد نے ایک ویڈیو اور بیان کے ذریعے واضح کیا کہ وہ مکمل طور پر صحت مند اور زندہ ہیں، بار بار یہ بتاتے بتاتے میرا گلا، زبان اور ہونٹ خشک ہوگئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر سے ان کے پاس فون کالز اور پیغامات آ رہے ہیں۔ مداح اور دوست ان کی موت کی جھوٹی خبروں کے باعث ان کی خیریت دریافت کر رہے ہیں۔

    اداکار نے ایسی افواہیں پھیلانے والوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک حرکت ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنی زندگی میں کچھ نہیں کر پاتے اور سستی شہرت کے لیے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔

    انہوں نے پولیس سے اپیل کی کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی اور شخص اس طرح کی حرکت نہ کرے۔

    بھارتی اداکار رضا مراد اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ لاہور پہنچ گئے

    ان کی شکایت پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سائبر سیل کی مدد حاصل کر لی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس فیک پوسٹ کو شیئر کرنے والے افراد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

  • ماؤں پر مضبوط ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا بند کرنا چاہیے، علیزا سلطان

    ماؤں پر مضبوط ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا بند کرنا چاہیے، علیزا سلطان

    اداکار فیروز خان کی سابق اہلیہ علیزا سلطان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ماؤں پر مضبوط ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا بند کرنے کی ضرورت ہے۔

    علیزا سلطان اداکار فیروز خان کی سابق اہلیہ ہیں اور ان کے دو بچے فاطمہ اور سلطان ہیں، طلاق کے بعد علیزا بچوں کی دیکھ بھال کررہی ہیں اور فیروز خان بھی بچوں کے اخراجات اٹھا رہے ہیں۔

    انہوں نے انسٹاگرام پر سوال و جواب کے سیشن میں زندگی میں اپنی جدوجہد سے متعلق بتایا ہے۔

    یہ پڑھیں: شادی کرنے سے قبل 100 سال تک سوچیں ورنہ فیصلے پر پچھتائیں گے، علیزا سلطان

    انہوں نے کہا کہ مایوسی ایک عام جذبات ہے اور اسے دبانا نہیں چاہیے۔ روئیں اور اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو اسے نکال دیں۔

     انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشرے کو ماؤں پر مضبوط ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا بند کرنے کی ضرورت ہے۔ باپ کو بھی ہر چیز کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار ہونا چاہیے اور ہمیں سب کچھ صرف ماؤں پر ڈالنا بند کرنا چاہیے۔

  • کپل شرما شو میں دو اداکار لڑ پڑے، ویڈیو وائرل

    کپل شرما شو میں دو اداکار لڑ پڑے، ویڈیو وائرل

    بھارت کے کامیڈی شو ’دی گریٹ انڈین کپل شو‘ کے سیٹ پر دو اداکار لڑ پڑے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    دی گریٹ انڈین کپل شو کے سیٹ پر کرشنا ابھیشیک اور ککو شاردہ کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بن گئی۔

    ویڈیو میں کرشنا اور ککو کے درمیان کسی معاملے پر تلخ کلامی دیکھی جاسکتی ہے جسے دیکھ کرمداح بھی حیران رہ گئے۔

    بھارتی میڈیا نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے ان دونوں اداکاروں کے درمیان مسائل کی افواہیں گردش کر رہی تھیں اور یہ ویڈیو ان قیاس آرائیوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔

    ویڈیو میں کِکو شاردہ کرشنا سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں پہلے اپنی بات مکمل کرنی چاہیے، جبکہ کرشنا تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنازع سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنی آواز اونچی نہیں کرنا چاہتے۔

    تاہم کِکو شاردہ کا کہنا ہے کہ کرشنا ان کی بات کو غلط انداز میں لے رہے ہیں۔

    ویڈیو میں شو کے میزبان کپل شرما موجود نہیں ہیں لیکن سیٹ پر موجود دیگر عملہ دونوں کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کررہا ہے۔

    شو کی انتظامیہ کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

  • ہانیہ عامر کا دوست کو بوائے فرینڈ کہنے والے مداح کو دلچسپ جواب

    ہانیہ عامر کا دوست کو بوائے فرینڈ کہنے والے مداح کو دلچسپ جواب

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہانیہ عامر نے دوست کو بوائے فرینڈ کہنے والے مداح کو دلچسپ جواب دے دیا۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’کبھی میں کبھی تم‘ میں ’شرجینا‘ کا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ ہانیہ عامر کی حالیہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

    اداکارہ نے دوست کے ساتھ چند تصاویر شیئر کیں تو ایک مداح نے اسے ان کا نیا بوائے فرینڈ قرار دیا جس پر ہانیہ نے دلچسپ ردعمل دیا ہے۔

    ہانیہ عامر کی تصاویر پر صارفین نے عاصم اظہر سے متعلق بھی کمنٹس کیے۔

    ایک مداح خاتون نے ہانیہ عامر کی دوست کے ساتھ والی تصویر پر سوالیہ کمنٹ کیا کہ کیا یہ اداکارہ کا نیا بوائے فرینڈ ہے؟

    خاتون مداح کے جواب پر ہانیہ عامر نے دلچسپ جواب دیا اور لکھا کہ ‘ہاں میرا اور کوئی کام نہیں ہے’۔

  • ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی کو اردو زبان کا صاحبِ طرز کہا جاتا ہے اور وہ ادبی صحافت میں بھی ممتاز تھے۔ کہتے ہیں کہ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملّا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ادب اور صحافت کی دنیا کے اس نام ور نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ ملا واحدی کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 17 مئی 1888ء کو پیدا ہوئے اور دہلی شہر میں تعلیم مکمل کی۔ انھیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا۔ 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    واحدی صاحب کی زندگی بڑی منظم تھی۔ وہ بہت سویرے جب پو پھٹتی ہے بیدار ہوتے، نماز فجر سے فارغ ہوکر دو تین میل کی ہوا خوری کو نکل جاتے۔ پھر واپس آکر ناشتہ کرتے اور دفتر میں کام شروع کردیتے۔ وہ بہت ہی محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    واحدی صاحب کے بارے میں ان کے ہم عصروں کی رائے اور واقعات پر مبنی مضامین بھی قابلِ مطالعہ ہیں۔ ایک ایسے ہی مضمون میں جلیل قدوائی لکھتے ہیں، ”میری ان کی سولہ برس سے زائد ہمسائیگی و ہم نشینی رہی۔ وہ خدا ترس، خداشناس، پاک دامن، پاک نہاد، نیک سرشت، نیک نفس، نرم خو، نرم گفتار تھے۔ کسی نے ان کی زبان یا قلم سے دکھ نہیں پایا۔ وہ قول کے کھرے فرشتہ صفت انسان تھے۔ جھوٹ اور ریاکاری سے انھیں چڑ تھی”۔

    رازق الخیری صاحب کے مطابق واحدی رسالوں کی ایڈیٹری ہی نہیں کرتے تھے، دفتر کی منیجری بھی کرتے تھے۔ وہ بہت سی مقبول کتابوں کے ناشر بھی تھے۔ ان میں غیر معمولی انتظامی قابلیت تھی اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”واحدی صاحب کے والد انجینئر تھے، اپنے بعد انھوں نے بہت سی جائیداد چھوڑی جو سب کی سب واحدی صاحب نے اپنے صحافتی اور ادبی ذوق کی نذر کر دی۔

    مختار مسعود جیسے انشا پرداز نے ملا واحدی کے بارے میں لکھا، ان کے تین امتیازات ہیں۔ عبارت، ادارت اور رفاقت۔ ان کی عبادت میں ستّر برس کی مشق اور مہارت شامل ہے، ادارت کا یہ حال ہے کہ ایک وقت میں اکٹھے نو رسائل کے مدیر اور مہتمم تھے، جہاں تک رفاقت کا تعلق ہے تو وہ شہروں میں دلّی کی اور انسانوں میں خواجہ حسن نظامی سے۔ واحدی صاحب کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ہے، جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں، لکھتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے صاحبِ اسلوب اور بلند پایہ نثر نگار ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلھے شاہ کا تذکرہ جن کی جیون کہانی قصے کہانیوں میں گم ہے

    بلھے شاہ کا تذکرہ جن کی جیون کہانی قصے کہانیوں میں گم ہے

    حضرت بابا بلھے کو ہندوستان میں صوفی شاعر ہی نہیں صاحبِ کرامت شخصیت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے جن کا پیغام آفاقی جذبہ سے معمور اور بُلھے شاہ کا دربار بھی آفاقی فکر کا علم بردار ہے۔ ان کے عرس کے موقع پر ہر مذہب کو ماننے والے جمع ہوتے ہیں۔ بھانت بھانت کے عقائد اور فکر و خیال کے یہ لوگ یہاں روحانی سکون کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں اور اسے روحانی سکون کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

    بلھے شاہ 22 اگست 1757ء کو اس دارِ بقا کی جانب لوٹ گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز پاکستانی شاعر، فکشن نگار، نقّاد اور تذکرہ و تحقیق پر مبنی کتب کے مصنّف انیس ناگی کا یہ مضمون بابا بلھے شاہ کی حیات اور ان کی شاعری پر معلوماتی اور نہایت مفید ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں مصدقہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ ابھی تک جو باتیں اس کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق زبانی روایت سے ہے۔ ان زبانی معلومات کا تعلق بھی حضرت بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی اور کرامات سے ہے شاعری سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات جیسی کیسی بھی ہیں ان سے حضرت بلھے شاہ کی شخصیت کا ایک نقش قائم کیا جا سکتا ہے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کی جیون کہانی میں تسلسل نہیں ہے، اس کمی کو قیاسات اور کہیں کہیں ان کی شاعری کے حوالے سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینہ الاصفیا، نافع السالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے۔

    روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنا دیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں مع خاندان کے منتقل ہوگئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورژن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہونا چاہئے۔

    اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سال پیدائش کے بارے میں بھی ہے۔ کسی نے تاریخ کا حتمی تعین نہیں کیا…. خزینہ الاصفیا 1858 میں شائع ہوئی تھی، اس کے مصنف مفتی غلام سرور لاہوری نے حضرت بلھے شاہ کے حالات کے بیانات میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے لیکن 1750 ان کا سن وفات بتایا ہے۔ سب سے پہلے ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680 اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ کلیات بلھے شاہ کے مرتب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں ” بلھے شاہ تے پمفلٹ دے منصف مسٹر آسبورن نیں اوہدی تاریخ پیدائش 1680 تے تاریخ وفات 1785 لخی اے ایس حساب نال اوہدی عمر اک سوپنج ورہے بن دی اے پر آسبورن صاحب کول ایس دعوے دا کوئی ثبوت نہیں“۔

    فقیر احمد فقیر نے اوسبورن کا اصل انگریزی متن نہیں دیکھا کیونکہ اصل متن میں حضرت بلھے شاہ کا سن وفات 1753 لکھا ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی عمر 78 سال بنتی ہے۔

    جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورژن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں۔

    پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کے حضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔

    حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے۔ پانڈو کے میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہیں۔ اس سے ملحقہ پانڈو خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے جو اب بھی جاری ہے۔

    حضرت بلھے شاہ پانڈو کے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈو کے میں سے گزر رہا تھا کہ اہل دیہہ نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاﺅں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ پر پتھراﺅ شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاﺅں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاﺅں واپس آجائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

    حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔

    مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی، دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔

    حضرت بلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ شاہ تھا لیکن عرف عام میں وہ بلھے شاہ کے nick name سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرف بنانا ایک عام سی بات ہے، بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لئے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر حضرت بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طور پر استعمال کیا۔اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا nick name اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔

    یہ معلوم نہیں کہ حضرت بلھے شاہ کتنا عرصہ قصور میں زیر تعلیم رہے اور وہ کب واپس اپنے گاﺅں گئے اور وہاں ان کی مصروفیات کیا تھیں۔ حضرت بلھے شاہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور دن بھر وہ مویشی چراتے رہتے۔ حضرت بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا یہ حقائق پوشیدہ ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی شاعری میں بھی ان کی شخصی زندگی کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ اس صورتحال میں حضرت بلھے شاہ کی سوانح کو چند ایک حقائق اور بہت سے مفروضات اور قیاسات کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے بارے میں قصے کہانیوں میں بھی ان کی کرامتوں اور غیر معمولی روحانی طاقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے شارحین نے بھی ان کی شاعری کی وضاحت اسی نقطۂ نظرسے کی ہے۔

    بلھے شاہ کی زندگی کے چند ایک واقعات کا بیان بھی ضروری ہے جن سے کم سے کم ان کی افتاد طبع کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک حد تک erratic بھی تھے۔ وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔ وہ نہ صرف پانڈو کی سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔

    حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہوتا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجد کے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہو کر گاﺅں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں کے لوگوں کیلئے odd man out تھے۔ حضرت بلھے شاہ کے وقائع نگار اس کی زندگی کے ہر پہلو کو معجزہ یا کرامت ثابت کرنے کیلئے اسے انسانی خصائص سے محروم کر دیتے ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں بہت قلیل مواد کے باوجود ان کے بعض رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔

    وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔ اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی۔ وہاں حضرت بلھے شاہ کس کام میں مصروف رہے اس کے بارے میں ان کی سوانح حیات خاموش ہے….

    حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو واقعات ہم تک پہنچتے ہیں ان کے مطابق اس میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد، طبیعت میں درویشی کے رجحانات نمایاں تھے۔ اسی ناطے ان کی ابتدائی کرامتوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔

  • ویمی: فلم اسٹار جس کی لاش کو ٹھیلے پر شمشان گھاٹ لے جانا پڑا

    ویمی: فلم اسٹار جس کی لاش کو ٹھیلے پر شمشان گھاٹ لے جانا پڑا

    فلم نگری اور شوبز کی دنیا کے کئی چہرے ایسے ہیں جنھیں بلاشبہ لازوال شہرت اور مقبولیت ملی اور انھوں نے لاکھوں دلوں پر راج کیا مگر پھر زندگی کے نشیب و فراز اور بعض کوتاہیوں کی وجہ سے انھوں نے بدترین حالات دیکھے اور ایک دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ بظاہر آسودہ و مطمئن زندگی گزارنے والے ان فن کاروں پر وہ وقت آیا کہ ان کا جینے میں جینا نہ تھا اور جب موت آئی تو کوئی اپنا کیا پرایا بھی ان کے سرہانے موجود نہ تھا۔ ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ اداکارہ ویمی انہی میں سے ایک تھیں جن کا نام دوسروں کے نشانِ عبرت بن گیا تھا۔

    مشہور ہندوستانی اداکار سنیل دت کی فلم ہمراز سے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی ویمی نے ابتدائی فلموں کی کام یابی کے بعد راتوں رات شہرت بھی حاصل کر لی۔ انھیں انڈسٹری میں اسٹار کا درجہ مل گیا اور شہرت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی ان پر مہربان ہوگئی۔ مگر بولی وڈ کی یہ اداکارہ کام یابیوں کے اس سفر میں اپنی گھریلو زندگی کو نہ سنبھال سکی۔ ازدواجی زندگی تلخیوں کا ویمی کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔ وہ مقروض بھی ہوتی چلی گئی اور جگر کے مرض میں مبتلا ہوکر ممبئی میں 22 اگست 1977 کو چل بسی۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اپنے وقت کی ایک فلم اسٹار مانی جانے والی اداکارہ کی لاش کو ٹھیلے پر رکھ کر‌ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لے جانا پڑا تھا۔ ایک وقت تھا جب دولت ویمی کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھی۔ فلم ساز اسے پیشگی ادائی کر دیتے تھے اور اس رقم سے وہ ایک پرآسائش طرزِ‌ زندگی اپنائے ہوئے تھی۔ مگر جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو ایک تماشا بن گئی۔

    مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا یہ فلمی گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو۔

    تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
    میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں

    اس کے علاوہ اپنے وقت کا ایک مقبول گیت یہ بھی تھا۔

    کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
    پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

    1967ء میں‌ فلم ہمراز ریلیز ہوئی تھی اور یہ گیت اسی فلم میں شامل تھے جو بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔ اداکارہ ویمی نے اسی فلم میں‌ مرکزی کردار نبھایا تھا اور یہ دو مقبول ترین فلمی گیت بھی اسی اداکارہ پر فلمائے گئے تھے۔

    ویمی کا سنہ پیدائش 1943ء اور وہ سکھ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے گلوکاری کا شوق اور فنِ اداکاری میں بھی دل چسپی تھی۔ اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ممبئی میں منعقدہ میوزک شوز اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت کے لیے جایا کرتی تھیں۔ وہاں ان کی ملاقات میوزک ڈائریکٹر روی سے ہوئی اور انھوں نے ویمی کو بی آر چوپڑا کے بینر تلے بننے والی فلم میں‌ کام دلوا دیا۔ یوں‌ بڑے پردے پر ویمی کا سفر شروع ہوا۔

    فلم ہمراز نے ویمی کو راتوں رات اسٹار بنا دیا جس کے بعد وہ فلم آبرو میں‌ نظر آئیں اور شائقین نے انھیں اس فلم میں بھی پسند کیا۔ ویمی کا ہیئر اسٹائل بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی تصاویر ہر مقبول فلمی رسالے کی زینت بننے لگی تھیں۔ اس شہرت کے ساتھ انھوں نے اپنے وقت کے کام یاب بزنس مین شیو اگروال سے شادی کرلی، لیکن یہ ان کی زندگی کا بدترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    شادی کے کچھ عرصہ بعد ویمی کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے شوہر انھیں جسمانی تشدد اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے یہ تعلق ختم کر لیا۔ علیحدگی کے بعد ویمی نے کلکتہ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں‌ بری طرح ناکام رہیں۔ وہ فلمی دنیا سے بھی دور ہوچکی تھیں‌ اور وہ شہرت اور دولت جو انھوں نے اپنے مختصر کیریئر کے دوران حاصل کی تھی، اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور علیحدگی کے ساتھ کاروبار میں ناکامی اور مالی نقصانات نے ویمی کو شراب نوشی پر آمادہ کر لیا۔ ان کے پاس جو رقم تھی وہ ان کے معمول کے اخراجات کے ساتھ شراب خریدنے پر لگ گئی اور جب رقم ختم ہو گئی تو وہ جسم فروشی کرنے لگیں۔

    اداکارہ ویمی کے اچھے دنوں کے ساتھی اور فلم کے لوگ اُن سے دور ہو چکے تھے۔ فلم نگری کی اس اسٹار نے جس اسپتال کے جنرل وارڈ میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں‌ لیں وہاں انھیں ایک غریب اور بدحال عورت کے طور پر لایا گیا تھا۔ کثرتِ مے نوشی سے ان کا جگر خراب ہو چکا تھا اور جو لڑکی کل تک فلم، فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں پہچان رکھتی تھی، اس کی زندگی کا انجام بدترین اور عبرت ناک تھا۔

  • سنیتا آہوجا کا گووندا سے طلاق کیلیے عدالت سے رجوع

    سنیتا آہوجا کا گووندا سے طلاق کیلیے عدالت سے رجوع

    ممبئی (22 اگست 2025): معروف بالی وڈ اداکار گووندا کی اہلیہ سنیتا آہوجا نے شوہر سے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا۔

    انڈین میڈیا کے مطابق سنیتا آہوجا نے باندرہ فیملی کورٹ میں طلاق کیلیے درخواست دائر کر دی جس میں غیر ازدواجی تعلق، حق تلفی اور بے وفائی کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا۔

    سنیتا آہوجا نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کی مختلف دفعات کے تحت طلاق کی درخواست دائر کی۔

    واضح رہے کہ عدالت نے گووندا کو 25 مئی کو طلب کیا تھا اور جون سے دونوں کے درمیان معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اداکار کی اہلیہ وقت کی پابند اور عدالت میں پیش ہوتی رہیں لیکن وہ مسلسل غیر حاضر رہے۔

    یہ بھی پڑھیں: گووندا کے انٹرویو نے بالی وڈ میں ہلچل مچا دی

    حالیہ وی لاگ میں سنیتا آہوجا کو شادی اور طلاق پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وی لاگ میں وہ ایک مندر میں گئین اور بتایا کہ وہ بچپن سے یہاں آ رہی ہیں۔

    اداکار کی اہلیہ مزید کہتی ہیں کہ جب میں گووندا سے ملی تو میں نے دیوی سے دعا کی کہ میری ان سے شادی ہو جائے اور اچھی زندگی گزاروں، دیوی نے میری دعا قبول کی اس نے مجھے دو بچوں کا تحفہ بھی دیا لیکن زندگی میں ہر سچائی آسان نہیں ہوتی ہمیشہ اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک اچھے آدمی اور اچھی عورت کو تکلیف پہنچانا درست نہیں، میں دیوی کے تینوں روپوں سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہوں، حالات جیسے بھی ہوں جو بھی میرے خاندان کو توڑنے کی کوشش کرے گا دیوی انہیں معاف نہیں کرے گی۔

    واضح رہے کہ رواں سال فروری میں متعدد میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ گووندا اور سنیتا آہوجا نے مستقل اختلاف اور مختلف طرز زندگی کی وجہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

    میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ گووندا کی 30 سالہ مراٹھی اداکارہ سے بڑھتی قربت مبینہ طور پر ان کی علیحدگی کا ایک بڑا عنصر ہے۔

    بعد میں ان کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ جوڑے نے چھ ماہ قبل طلاق کیلیے درخواست دائر کی تھی لیکن وہ دوبارہ اکٹھے ہو رہے تھے۔

  • بھارت کے معروف پنجابی اداکار چل بسے

    بھارت کے معروف پنجابی اداکار چل بسے

    بھارتی پنجابی فلموں کے مقبول ترین اداکار و کامیڈین جسوندر سنگھ بھلا 65 برس کی عمر میں چل بسے، ان کے اہلخانہ نے موت کی تصدیق کردی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق تجربہ کار اداکار اور کامیڈین جسوندر سنگھ بھلا جمعہ کی صبح موہالی کے فورٹس اسپتال میں انتقال کر گئے، ان کے قریبی دوست شرما بالمک نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحیہ اداکار کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ انہیں برین اسٹروک کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جسوندر سنگھ بھلا کی آخری رسومات 23 اگست بروز ہفتہ دوپہر 12 بجے موہالی میں ادا کی جائیں گی، جس میں پنجابی فلم انڈسٹری سے وابستہ شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔

    اداکار کے انتقال کی خبر نے فلم انڈسٹری کو گہرے صدمے میں ڈال دیا ہے۔ ان کے انتقال سے پنجابی فلم انڈسٹری ایک بڑے فنکار سے محروم ہو گئی ہے جنہوں نے اپنے منفرد انداز سے کامیڈی کو ایک نئی پہچان دی۔

    واضح رہے کہ جسوندر سنگھ بھلا نے اپنے کیریئر کا آغاز 1988 میں کامیڈی البم ’چھنکاتا 88‘ سے کیا، انہوں نے درجنوں سپرہٹ پنجابی فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی یادگار فلموں میں کیری آن جٹا، بھاجی ان پرابلم، منجھے بسسراں دے، سجن سنگھ رنگروٹ اور جٹ اینڈ جولیٹ جیسی فلمیں شامل ہیں۔

     انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین

  • ’بڑے باپ کی بیٹی‘ زویا اختر کو  اداکارہ کا آڈیشن دینے سے انکار

    ’بڑے باپ کی بیٹی‘ زویا اختر کو  اداکارہ کا آڈیشن دینے سے انکار

    بالی ووڈ کی ہدایت کار زویا اختر کی 2019 کی ریلیز ’گلی بوائے‘ ایوارڈ نامزدگیوں سمیت باکس آفس پر بھی ہٹ ثابت ہوئی۔

    گلی بوائے میں میں رنویر سنگھ، عالیہ بھٹ، وجے راز اور سدھانت چترویدی کو بھی شاندار اداکاری کی وجہ سے سراہا جاتا ہے، وہیں ایک تجربہ کار اداکارہ تھیں جس نے فلم کو مسترد کردیا تھا جب انہیں فلم کے لیے آڈیشن دینے کا کہا گیا تھا۔

    مراٹھی اداکارہ اوشا ناڈکرنی نے متعدد فلموں اور سیریز جیسے پاویترا رشتہ، واستو، رستم اور بہت سی فلموں میں کام کیا، حال ہی میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے زویا اختر کی گلی بوائے کو مسترد کیا۔

    اوشا نے کہا کہ پروڈکشن ہاؤس کا فون آیا جس میں انہیں کردار کے لیے آڈیشن دینے کے لیے کہا گیا۔

    یہ پڑھیں: آپ بتانے والے کون ہیں مجھے میرے پیسوں کا کیا کرنا ہے؟ زویا اختر برہم

    مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کردار ادا کرنا چاہتی ہیں پھر ہمارے دفتر آئیں اور آڈیشن دیں، میں نے سالوں میں کیا کیا ہے کہ آپ مجھے آکر آڈیشن دینے کو کہہ رہے ہیں۔

    اوشا نے بتایا کہ ایک لڑکے کی کال آئی، اس نے کہا آڈیشن دینے آجاؤ، میں نے کہا بیٹے تیری عمر کیا ہے؟ اس نے کہا کہ 25 سال ہے، میں نے کہا جب تیری ماں کی شادی نہیں ہوئی تھی اس وقت سے کام کرہی ہوں، آڈیشن دینے کے لیے یہ سب فالتو کام نہیں کرتی۔

    اداکارہ کے مطابق میں نے پوچھا ہدایت کار کون ہے انہوں نے بتایا کہ زویا اختر ہے، میں نے کہا وہ تو بڑے باپ کی بیٹی ہے ناں، کمپیوٹر پر میرا نام لکھ کر کام دیکھ لیں۔

    اگرچہ کے اس کردار سے متعلق ظاہر نہیں کیا گیا لیکن یہ ممکنہ طور پر رنویر سنگھ کی ماں کا ہوسکتا تھا جس کا کردار بعد میں امرتا سبھاش نے ادا کیا۔