Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • کراچی میں بارش کے بعد کی صورتحال، گلوکار طلحہ انجم کا سندھ حکومت پر طنز

    کراچی میں بارش کے بعد کی صورتحال، گلوکار طلحہ انجم کا سندھ حکومت پر طنز

    کراچی میں بارش کے بعد کی ابتر صورت حال پر گلوکار طلحہ انجم نے سندھ حکومت پر طنز کردیا۔

    کراچی میں گزشتہ روز کی بارش کے بعد مختلف حادثات و واقعات میں 15 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ سیلابی صورت حال کے اثرات آج بھی شہر میں سڑکوں پر پڑنے والے گڑھے اور خراب گاڑیوں کی صورت میں نمایاں نظر آئے۔

    ایسے میں گلوکار طلحہٰ انجم بھی خاموش نہ رہ سکے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ردعمل شیئر کیا۔

    انہوں نے سندھ حکومت پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ّکراچی والوں گھبرانا نہیں ہے، اجرک والی نمبر پلیٹ آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل کو ڈوبنے نہیں دے گی۔

    طلحہ انجم کی پوسٹ پر سوشل میڈیا صارفین ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔

    جہاں صارفین نے ان کی پوسٹ کی حمایت کی تو وہیں بڑی تعداد میں پوسٹ پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

  • ببرک شاہ نے بھارتی اداکارہ شیبا بھکری سے شادی نہ کرنے کی وجہ بتادی

    ببرک شاہ نے بھارتی اداکارہ شیبا بھکری سے شادی نہ کرنے کی وجہ بتادی

    پاکستان فلم انڈسٹری کی نامور اداکار ببرک شاہ نے شیبا بھکری کے ساتھ افیئر پر خاموشی توڑ دی۔

    اداکار ببرک شاہ نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے شو شرکت کی جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    ببرک شاہ نے انکشاف کیا کہ جب وہ اداکاری کررہے تھے تو ان کا بھارتی اداکارہ سے افیئر تھا، ان کی شادی نہیں ہوئی اور انہوں نے پاک بھارت مشترکہ پروجیکٹ ترپ میں کام کیا تھا۔

    اداکار کے مطابق فلم کے سیٹ پر ان کی شیبا بھکری سے ملاقات ہوئی اور وہ ان سے پیار کرنے لگیں اور کچھ ماہ تک دونوں ریلیشن شپ میں رہے۔

    یہ پڑھیں: ببرک شاہ نے وینا ملک سے شادی نہ ہو پانے کی اصل وجہ بتا دی

    ببرک شاہ نے بتایا کہ شیبا بھکری تقریبا اسلام قبول کرچکی تھیں اور وہ ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ میں بھارت میں ان کے ساتھ رہوں۔

    اداکار نے بتایا کہ بھارت میں رہنا ایک ایسا کام تھا جو میں نہیں کرسکتا تھا، اس لیے شادی نہیں کی اور پاکستان واپس آگیا۔

    ماضی میں بھی ببرک شاہ مذکورہ معاملے پر بات کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ بھارتی اداکارہ ان سے شادی کی خواہش مند تھیں اور انہوں نے اداکار کو پیش کش بھی کی تھی۔

    ببرک شاہ ماضی میں اپنے تعلقات کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے رہے ہیں، وہ وینا ملک سے تعلقات پر بھی گفتگو کر چکے ہیں۔

  • جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر کو ان کی فلمی شاعری کے علاوہ غزل اور نظم میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں‌ نے اہم سیاسی اور ادبی تحریکوں‌ اور نئے رجحانات کو دیکھا اور کئی بڑے ناموں کے درمیان اپنی شناخت اور پہچان بنائی۔

    18 فروری 1914 کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو بیسویں صدی کا ایک اہم بھارتی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے رکن رہے اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ 19 اگست 1976 کو جانثار اختر ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    جانثار اختر کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد جانثار اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ 1943ء میں ان کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر تھے۔ آزادی کے بعد گوالیار میں فسادات پھوٹ پڑے تو جانثار اختر بھوپال منتقل ہو گئے۔ بھوپال میں انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبے سنبھال لیے۔ بعد میں ان کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ جلد ہی دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے گئے۔

    ممبئی جانثار اختر نے فلمی گیت لکھنا شروع کیا جہاں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور خاص طور پر ان کے وہ خطوط بہت مشہور ہوئے جو انہوں نے اپنی بیوی صفیہ کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط کے مجموعے 1955 میں شائع ہوئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جانثار اختر کے ہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ملتا ہے اور ان کے اشعار میں رومانویت بھی ملتی ہے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’سلاسل‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’پچھلی پہر‘‘، ’’گھر آنگن‘‘ اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔ ’’خاک دل‘‘ وہ مجموعہ ہے جس پر انہیں 1976 میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔

    اس شاعر کو اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے شہرت ملی۔ بعد میں‌ انہوں نے 1967 میں بہو بیگم کے نام سے فلم بنائی اس فلم کا اسکرپٹ بھی خود لکھا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی دوسری فلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے تھے جو بہت کام یاب رہیں۔

  • آیوشمان اور رشمیکا کی ہارر فلم "تھاما” ٹوئی لائٹ کی کاپی قرار

    آیوشمان اور رشمیکا کی ہارر فلم "تھاما” ٹوئی لائٹ کی کاپی قرار

    بالی ووڈ اداکار آیوشمان کھرانا اور رشمیکا مندانا کی ہارر فلم تھاما کو ٹیزر ریلیز پر ہی ٹوئی لائٹ کا چربہ قرار دیا جارہا ہے۔

    فلم میکرز کی جانب سے آج تھاما کا ٹیزر ریلیز کیا گیا ہے جس میں آیوشمان کھرانا اور رشمیکا مندانا مرکزی کردار نبھا رہے ہیں، فلم میں ملائکہ اروڑا کا آئٹم سانگ بھی شامل کیا گیا ہے۔

    سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے ٹیزر پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔

    ایک صارف نے لکھا کہ رشمیکا مندانا کی ہارر ڈیبیو فلم نے ہلچل مچا دی ہے تو دوسرے صارف نے لکھا کہ یہ ہالی ووڈ فلم "ٹوئی لائٹ” کی کاپی ہے۔

    کچھ لوگوں نے فلم کا موازنہ اکشے کمار کی فلم بھوت بنگلا سے کیا اور لکھا کہ تھاما کے پوسٹر میں بھوت بنگلا کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

    آدتیہ سرپوتدار کی فلم کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے ہیں جبکہ نیرین بھٹ، ارون فلارا اور سریش میتھیو نے اسکرین پلے لکھا ہے۔

    فلم میں پریش راول بھی اہم کردار میں نظر آئیں گے اور فلم رواں سال دیوالی پر سنیما گھروں کی زینت بنے گی، کیا "تھاما” باکس آفس پر استری کا ریکارڈ توڑے گی یہ تو ریلیز کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔

    Bollywood Latest News & Top Stories – ARY NEWS

  • یاقوت الحموی: مسلمان جغرافیہ داں

    یاقوت الحموی: مسلمان جغرافیہ داں

    دنیا جب مسلمان مفکروں‌ اور اہلِ‌ علم شخصیات کا نام لیتی ہے اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کرتی ہے تو ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج ہم علم اور عمل کو ترک کر کے جستجو و سعیٔ سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ یاقوتُ الحموی عالمِ اسلام کا ایک نہایت قابل و باصلاحیت نام ہے جنھیں دنیا ایک جیّد و باکمال مؤرخ اور ماہرِ جغرافیہ مانتی ہے۔

    یاقوت الحموی کو ان کی کتاب معجمُ البلدان نے وہ بے مثال شہرت دی جس کی بدولت ان کا نام آج بھی زندہ ہے اور اس کتاب کا بشمول اردو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جغرافیہ داں یاقوتُ الحموی کی علمی و سائنسی موضوعات پر دیگر کتب بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں جن کو اسلامی دنیا سے باہر مغرب اور یورپ کے بڑے بڑے ناموں نے بھی سراہا ہے۔

    اگرچہ اس مسلمان جغرافیہ کے خاندان اور حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں تاہم محققین نے ان کا سنہ وفات 20 اگست 1229ء بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی پیدائش کا سنہ موجود نہیں‌ ہے یا پھر اس میں اختلاف ہے۔ محققین کے مطابق ان کا اصل اور مکمل نام “شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرّومی البغدادی” تھا۔ خیال ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ انھیں ایک تاجر “عسکرُ الحموی” نے خرید لیا اور اسی نسبت سے یاقوتُ الحموی پکارے گئے۔ ان کے مالک نے انھیں اس غرض سے تعلیم دلوائی کہ وہ ان کے مالِ تجارت اور نفع نقصان کا حساب کتاب کرسکیں۔ یاقوت نے اس دور کے نظامِ تعلیم کے مطابق صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے بھی سیکھے اور جب وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارت کی غرض سے کہیں‌ جاتے تو اس علاقہ اور شہر کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے، اس کے جغرافیہ، تاریخ اور تمدن کو سمجھتے اور یہ شوق اور دل چسپی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔

    انھیں ایک روز انھیں اپنے مالک کی جانب سے آزادی کا پروانہ مل گیا جس کے بعد یاقوت نے اپنے ذوق و شوق کے مطابق علمی میدان کو وسیلۂ روزگار بنایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے سابق آقا کے پاس لوٹ آئے اور تجارتی اسفار میں بطور نگران ان کی معاونت کرنے لگے۔ اس دوران یاقوت الحموی نے کئی منفرد جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں، پھر وہ حلب چلے گئے اور وہاں سے خوارزم پہنچے اور وہیں‌ قیام کیا۔ بعد میں دوبارہ حلب آئے اور وہیں وفات پائی۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر انھوں نے خصوصی باب رقم کیے ہیں۔ یاقوت الحموی نے دور دراز کے اسفار کے دوران جن مختلف مقامات پر قیام کیا اور جو شہر اور قصبات دیکھے، وہاں‌ کے لوگوں کی مدد سے ان کی تفصیل لکھی اور اپنی جغرافیہ کی مہارت سے معلومات کو اس کے ساتھ درج کرکے کتابی شکل میں معجمُ البلدان میں محفوظ کر دیا۔ اس مشہور کتاب میں انھوں‌ نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں بھی سائنسی تصورات کو بیان کیا ہے۔

  • یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    فضل حق خیر آبادی ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ فضل حق کا نام آج تاریخ کے صفحات تک محدود ہے جن کی عملی جدوجہد، سیرت و کردار کا اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہو اور اپنے اجداد پر فخر کرسکے۔ وہ ایک فلسفی، شاعر اور مذہبی عالم تھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1797ء میں علامہ فضل امام فاروق خیرآبادی صدر الصدور دہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد فضل امام اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی و حضرت عبد العزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔

    1809ء میں جب آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی اس وقت تک تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تکمیل کر لی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مصروف رہے اور 1815ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ نواب فیض محمد خاں والی جھجھر (ہریانہ) نے بعد میں انھیں‌ اپنے یہاں بلایا اور پانچ سو روپے نذرانہ پیش کرتے رہے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی جھجھر کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس وقت بہادر شاہ ظفر نے اپنا دوشالہ اتار کر آپ کو اوڑھا دیا اور نم آنکھوں سے گویا ہوئے: "چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں، میرے لیے بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کر لوں لیکن خدا جانتا ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔”

    جھجھر کے بعد آپ مہاراجہ الور کی دعوت پر ریاست الور، پھر نواب ٹونک اس کے بعد نواب رام پور میں ملازمت کی، رام پور کے بعد لکھنؤ کے صدرالصدور اور "حضورتحصیل” کے مہتمم بنائے گئے۔ سہارن پور میں بھی دو سال تک کسی بڑے عہدے پر فائز رہے۔ ایک عرصہ تک دہلی کے سر رشتہ دار بھی رہے۔ مرزا غالب سے علامہ کے پرخلوص اور گہرے تعلقات تھے، کیوں کہ دونوں بالکل ہم سن تھے، دونوں 1797ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1857ء میں لکھ چھوڑ کر ریاست الور چلے گئے۔ اس دوران آپ نے انقلاب کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ مہاراجہ الورکو آپ نے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ علامہ، الور سے مئی 1857ء میں دہلی پہنچے۔ اسی وقت میرٹھ اور دوسری فوجی چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو مسلم فوج ناراض ہو گئی۔ چپاتی اور کمبل کی تقسیم کی خاص اسکیم کے تحت گاؤں گاؤں پہلے سے ہو ہی چکی تھی۔

    10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں اچانک فوجیوں نے بغاوت کر دی، باغی فوجیں 11/ مئی 1857ء کو دہلی پہنچ گئیں، بادشاہ دہلی سرگرمیوں کا مرکز بنے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی بھی شریک مشورہ رہے۔ آپ سے جنرل بخت خاں ملاقات کے لیے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے اپنے ترکش سے آخری تیر نکالا۔

    بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی) میں علماکے سامنے تقریر کی۔ استفتاء پیش کیا۔ مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور دہلی ، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی ، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔ اس فتوی کے منظر عام پرآتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ اپنی فوج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی کرو، تو انھوں نے کہا: "افسوس تو اسی بات کا ہے سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جو ان کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں۔” (بحوالہ: غدر کی صبح شام، ص: 220)

    مولانا فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورما ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔

    بغاوت وسط مئی 1857ء میں شروع ہوئی ، جوں ہی اس کی اطلاع ملی علامہ اہلِ خانہ کو الور چھوڑ کر دہلی آ گئے اور سرگرمی سے بغاوت کی رہنمائی کی، ساتھ ہی حکومت کے دستور عمل کی ترتیب شروع کر دی۔ جولائی میں جنرل بخت خاں کے دہلی آنے پرفتوائے جہاد مرتب کر کے علماکے دستخط کرائے۔ اسی دوران راجہ الوربنے سنگھ کی خبر ارتحال پر الور چلے گئے۔ پھر ایک ماہ بعد واپس دہلی آ گئے۔

    15 دن دہلی میں قیام کر کے الور آئے اور اپنے اہل وعیال کو لے کر اوائل ستمبر میں دہلی آگئے۔ وسط ستمبر میں دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے تمام امرا و متعلقین بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر گھروں میں مال و متاع چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کے شہر چھوڑ کر چلے جانے سے شہریوں پر سراسیمگی طاری ہوگئی، وہ بھی مکان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ جب شہر خالی ہو گیا تو انگریز فوجیں ان کے مکانوں میں داخل ہوئیں اور جو بھی مال و متاع تھا لوٹ لیا۔ باغی سپاہی موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس وقت دہلی میں مولوی عبدالحق اور ان کی والدہ وغیرہ موجود تھیں۔ وہ ان سے ملے، کوئی لشکر اور شہری باقی نہ رہا۔ انگریزوں کا پوری طرح شہر پر تسلط قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے غلہ اور پانی پر قبضہ جما لیا تھا۔ پانچ روز تک اسی طرح بھوکے پیاسے گزار کر اپنی عزیز ترین متاع کتابیں، مال و اسباب چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کر کے اہل وعیال کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ علامہ اپنے وطن خیر آباد ، اودھ کی طرف چلے جا رہے تھے، راستہ خوف ناک اور دشوار تھا۔ انگریز اور اس کا لشکر دن رات علامہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ جاٹوں نے سارے ناکے بند کر دیے تھے۔ کسی گھاٹ پر کوئی کشتی نہ چھوڑی تھی۔ الله تعالی نے علامہ اور ان کے متعلقین کو محفوظ رکھ کر پل اور کشتی کی مدد کے بغیر دریاؤں کو عبور کرا دیا۔ اور اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے سائے میں وہ اپنے وطن میں احباب و رشتہ دار تک پہنچ گئے۔

    اودھ میں بیگم حضرت محل فرنگیوں کے خلاف نبرد آزما تھیں۔ ان کے لشکر کے ساتھ بھی علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ میں شریک ہوئے، لیکن قسمت فرنگیوں کے ساتھ تھی، پے در پے انھیں فتح نصیب ہوتی گئی۔ بیگم حضرت محل اس تباہی و بربادی کے بعد بچے ہوئے تھوڑے سے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹیوں کو عبور کر کے نیپال کی سرحد میں داخل ہو گئیں۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی مسافرت، غربت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے گھر، اہل وعیال تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھتے چلے جارہے تھے کہ امن و امان کا وہ پروانہ جسے ملکہ وکٹوریہ نے جاری کیا تھا اور قسموں سے مؤکد کیا گیا تھا، نظر پڑا۔ اس پروانہ پر بھروسہ کر کے وہ اہل وطن میں پہنچ گئے۔ انھیں بالکل خیال نہ رہا کہ بے ایمان کے عہد و پیان پر بھروسہ اور بے دین کے قسم و یمین پر اعتماد کسی حالت میں درست نہیں۔ تھوڑے دن بعد ہی ایک انگریز حاکم علامہ کو مکان سے بلا کر قید کر دیا اور دارالسلطنت لکھنؤ بھیج دیا۔ ان کا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کیا جو مظلوم پر رحم کرنا ہی نہ جانتا تھا اور آپ کی چغلی ایسے دو مرتد افراد نے کھائی جو آپ سے قرآن کی محکم آیت میں مجادلہ کرتے تھے۔

    انگریزوں نے علامہ کو قید کرنے کے بعد ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنا شروع کیا۔ ان کا جوتا اتار لیا، لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ زم اور بہتر بستر چھین کر خراب ، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ نہ پلیٹ، نہ لوٹا اور نہ کوئی برتن ان کو دیا۔ ماش کی دال گرم پانی کے ساتھ کھلایا جاتا۔ اس طرح جزیرہ انڈمان کے کنارے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچا دیا گیا، جہاں کی آب و ہوا ناموافق تھی۔ سورج ہمیشہ سر پر رہتا، پانی زہر ہلاہل۔

    علامہ متعدد سخت امراض میں مبتلا ہو گئے۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا تھا۔ اور 19 اگست 1861ء میں اس عظیم مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔

    علامہ کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) کی ایک بستی میں ہے جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔

    (ماخوذ از: ذرا یاد کرو قربانی)

  • حسن علی آفندی: بانی سندھ مدرستہُ الاسلام

    حسن علی آفندی: بانی سندھ مدرستہُ الاسلام

    حسن علی آفندی کو تاریخ ایک مدبّر اور علم دوست شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جن کا ایک کارنامہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں عظیم الشّان درس گاہ کا قیام تھا جس کے تحت ایک نسل زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئی اور قابل اساتذہ نے ان کی راہ نمائی اور تربیت کی۔

    کراچی کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں کئی قابل و باکمال شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنھوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا اور حسن علی آفندی انہی میں سے ایک ہیں۔ سندھ مدرستہُ الاسلام کے نام سے آج ہم جس تعلیمی ادارے کو شناخت کرتے ہیں، اس کے بانی حسن علی آفندی تھے۔ انھوں نے کراچی میں فلاح و بہبود کے کئی کام کیے اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے خدمات انجام دیں۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وہ 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور غربت اور کئی مشکلات کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ اس دور کے نوجوانوں کو بھی ترقی اور کام یابی کے زینے طے کرنے کے لیے ایک درس گاہ کے ذریعے سہولت فراہم کی۔ اسی مدرسہ سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔

    حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔ وہ ہندوستان کی سیاست سے بھی وابستہ رہے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن کے طور پر کام کیا۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے علاوہ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  • نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیّرہ نور کی آواز آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رَس گھول رہی ہے اور بالخصوص ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات پہلے کی طرح اب بھی مقبول ہیں۔ جہاں ان نغمات کی بدولت 14 اگست کو جشنِ آزادی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے وہیں نیرہ نور کے مداح اگست کی 20 تاریخ کو گلوکارہ کی برسی بھی مناتے ہیں۔ نیّرہ نور 2022ء میں اسی روز انتقال کر گئی تھیں۔

    صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی پانے والی نیّرہ نور کئی برس سے گلوکاری ترک کرنے کے بعد گوشۂ گمنامی میں تھیں۔ وہ میڈیا اور دوسری تقاریب سے اگرچہ دور تھیں‌، لیکن جب بھی پاکستان کی ممتاز گلوکاراؤں‌ کا ذکر ہوتا اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تو نیّرہ نور کا نام لیے بغیر بات نہیں بنتی تھی۔ نیرہ نور کے مشہور گیتوں اور ملّی نغمات کی فہرست میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں‌ چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔

    آسام میں بچپن گزارنے والی نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی تھیں جب ہجرت کر کے ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے والد مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے اور تحریک آزادی میں پیش پیش رہے تھے۔ 1947 میں جب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آسام کا دورہ کیا تو ان کے والد نے قائد کی میزبانی کی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘

    اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور شوقیہ گاتی تھیں۔ ان کا یہ جوہر اساتذہ پر کھلا تو انھوں نے لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں نیرہ نور کو اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع دیا۔ لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو عمدہ گلوکاری پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن انھوں نے کبھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر بطور گلوکارہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گی۔ ریڈیو پاکستان سے بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی غزل’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے‘‘ نیرہ نور کی آواز میں نشر ہوئی اور یہیں سے شہرت کی دیوی گلوکارہ
    پر مہربان ہوگئی۔

    پہلی مرتبہ نیّرہ نور نے ریڈیو کے لیے باقاعدہ غزل ریکارڈ کروائی اور ان آواز سامعین تک پہنچی۔ یہ 1968ء کی بات تھی اور پھر 1971ء میں‌ وہ ٹی وی پر نظر آئیں‌۔ بطور گلوکارہ نیرہ نور کو سامعین نے بہت سراہا اور پھر وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں‌۔ ان کے گائے ہوئے نغمات اور فلمی گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوتے رہے۔ نیرہ نور نے فلموں کے لیے متعدد گیت ریکارڈ کروائے اور عمدہ گلوکاری پر نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    نیّرہ نور کا تلفظ ہی اچھا نہیں تھا بلکہ وہ ایک باذوق اور شستہ مذاق کی حامل فن کارہ تھیں جنھوں نے منتخب کلام گایا ہے۔ ان کی آواز میں فیض‌ صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت مقبولیت ملی۔ فلم فرض اور ممتا کے لیے نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کردہ ملّی نغمے `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں… بہت مقبول ہوا۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر اس کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں‌ نکھار لانے کے لیے انھوں نے بڑے گلوکاروں‌ کو سنا اور ریاض کرتی رہیں۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی اور بیگم اختر سے متأثر تھیں۔

    انھیں بلبلِ پاکستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • سوشل میڈیا نے خواتین کو حد سے زیادہ لبرل بنادیا ہے، حبا علی خان

    سوشل میڈیا نے خواتین کو حد سے زیادہ لبرل بنادیا ہے، حبا علی خان

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حبا علی خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے خواتین کو حد سے زیادہ لبرل بنادیا ہے۔

    اداکارہ حبا علی خان نے حال ہی میں اے آر وائی پوڈ کاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ دوسری خواتین سے مسابقت ایک عام عنصر ہے جو طلاق کا باعث بن سکتا ہے، میری ایک بہت ہی قریبی دوست ہے جس کے شوہر نے مجھے فون کیا اور کہا حبا ہم صرف اس کی مسابقتی طبیعت کی وجہ سے طلاق لیں گے۔

    اداکارہ کے مطابق دوست کے شوہر نے کہا کہ جب بھی وہ دوسروں کے ساتھ مہنگی چیزیں دیکھتی ہے تو وہ میرے پاس آتی ہے اور گاڑی کا مطالبہ کرتی ہے،

    حبا علی خان نے کہا کہ مثال کے طور پر وہ قدامت پسند خاندان کے بارے میں جاننے کے باوجود بغیر آستین کے کپڑے پہننے پر اصرار کرتی ہیں۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا نے بھی خواتین کو بے باک اور حد سے زیادہ لبرل بنا دیا ہے۔

    واضح رہے کہ حبا نے پانچ سال کے وقفے کے بعد سپر ہٹ ڈرامہ سیریز مائی ری سے واپسی کی تھی اور اب ان کے مختلف ڈرامے آن ایئر ہیں۔

  • ماہرہ خان نے بارش اور سیلاب کا خوفناک تجربہ بیان کردیا

    ماہرہ خان نے بارش اور سیلاب کا خوفناک تجربہ بیان کردیا

    عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان  نے سیلاب اور بارش کا خوفناک تجربہ بیان کردیا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام اسٹوری میں اداکارہ ماہرہ خان نے انکشاف کیا کہ ایبٹ آباد کے سیاحتی مقام نتھیا گلی سے واپسی پر وہ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے سے دوچار ہوئیں۔

    اداکارہ کے مطابق ایک روز ہی وہ نتھیا گلی سے واپس آرہی تھیں جب راستے میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے خوف آتا رہا اور انہیں متاثرہ افراد کا خیال بھی آیا۔

    اداکارہ نے لکھا کہ انہیں احساس ہے کہ سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آنے والے افراد کس طرح بے بس ہوتے ہوں گے۔

    اداکارہ نے لکھا کہ انہیں احساس ہے کہ کس طرح لوگ قدرتی آفات کے آگے بے بس ہوتے ہوئے، اپنی زندگیاں، اپنے پیارے اور گھر ڈوبتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

    ماہرہ خان نے ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر خدا سے رحم کی دعا بھی مانگی۔

    واضح رہے کہ خیبرپخٹونخوا میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے تباہی مچادی ہے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق اور متعد بے گھر ہوگئے ہیں۔