خالد علیگ کے قلم کا امتیازی وصف حق گوئی اور جرأتِ اظہار رہا ہے جس کے ذریعے انھوں نے عوام اور ملک کے پسے ہوئے طبقات کی ترجمانی کی اور ہر دور میں ناانصافی اور جبر کے خلاف میدانِ عمل میں نظر آئے۔
بائیں بازو کی تحریک کے فعال رکن، سینئر صحافی اور شاعر خالد علیگ کی آج برسی ہے۔ پاکستان کی مزدور تنظیموں، صحافی برادری، روشن خیال اور دانش ور طبقے میں نہایت عزّت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خالد علیگ 15 اگست 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔
خالد علیگ 1925ء میں فرخ آباد کے ایک قصبہ قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خالد احمد شاہ تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ شعر وسخن کا آغاز دوران تعلیم ہوگیا تھا۔ علی گڑھ کے شعری و ادبی ماحول نے ان کے ذوقِ سخن کو مزید جلا بخشی۔ جب بنگال میں قحط پڑا تو اس دور کے تمام ترقی پسند اور انسان دوست شاعروں نے اسے اپنا موضوع بنایا۔ خالد علیگ نے بھی ایک نظم اس سانحے پر کہی تھی۔ خالد علیگ کو صحافت سے بھی ہمشیہ دل چسپی رہی تھی۔ وہ علی گڑھ کے زمانے میں چودھری خلیق الزماں کے اخبار روزنامہ "تنویر” لکھنؤ کو خبریں بھیجتے تھے اور لکھنؤ ہی کے ایک مشہور اخبار "ہمدم” سے بھی وابستہ رہے تھے۔ انھیں مطالعہ کا شوق تو شروع ہی سے تھا اور اردو ہی نہیں انگریزی زبان کے مضامین اور ادب بھی پڑھا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزی اخبار نیشنل ہیرالڈ میں بھی ان کی خبریں شامل ہوتی تھیں۔
1947ء میں خالد علیگ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ پہلے اوکاڑا اور پھر لاہور میں قیام رہا مگر پھر سندھ میں سکھر اور میرپور خاص میں سکونت اختیار کرلی۔ خالد علیگ بنیادی طور پر سول انجینئر تھے اور گیارہ برس محکمۂ انہار میں نوکری بھی کی۔ سکھر کے قیام کے دوران خالد علیگ کا رابطہ حسن حمیدی مرحوم، فتح اللہ عثمانی ایڈووکیٹ (ضلع سکھر کی نیشنل عوامی پارٹی کے روح رواں) اور آفاق صدیقی سے ہوا۔
قد آور نظریاتی شخصیت اور ترقی پسند خیالات کے مالک صحافی خالد علیگ نے ان اصحاب کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کو خوب نکھارا اور پھر وہ کراچی آگئے۔ یہاں آنے کے بعد خالد علیگ فخر ماتری کے اخبار حریت سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں روزنامہ "مساوات” کراچی سے وابستہ ہوئے اور اخبار کی بندش تک جڑے رہے۔ وہ مساوات کے آخری مدیر تھے۔ شاعر ہونے کے ساتھ خالد علیگ ایک بے باک صحافی بھی تھے۔ وہ بچپن ہی سے ایک روایت شکن اور سیاسی شعور رکھنے والے طالب علم تھے طلبہ و مزدور تحریکوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ انھیں اپنے افکار اور نظریات پر ڈٹے رہنے کی پاداش میں متعدد بار گرفتاریاں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
خالد علیگ ایک نہایت سادہ، منکسر مزاج اور درویش صف انسان تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی بھر کراچی میں لانڈھی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہے اور مال و متاع اکٹھی نہ کرسکے۔ ان کے قد و قامت کا کوئی دوسرا شاعر ہوتا تو اس کے کئی شعری مجموعے شائع ہو سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے کلام کو چھپوانے میں بھی دل چسپی نہیں لی اور یہ کام ان کے رفقاء نے بعد میں انجام دیا۔
ممتاز صحافی راہ نما، شاعر، اور مصنّف احفاظ الرحمن نے خالد علیگ پر اپنے مضمون میں لکھا تھا، خالد بھائی کی زندگی کے سارے زاویے اسی غیر متزلزل، توانا اور سچے کمٹمنٹ سے عبارت ہیں اور اس وصف کو ان کی شاعری میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا سارا کلام کھنگال ڈالیے۔ ان کے اشعار میں غم جاناں کا تذکرہ کم کم ہی نظر آئے گا۔ انھوں نے تو ساری کائنات کے غم کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے، جس کے سامنے ہر رنگ کے ذاتی مسائل انھیں ہیچ نظر آتے ہیں۔ یہ غم ان کی رگ رگ میں سرسراتا ہے، کسی آزار یا آسیب کی طرح ان کی روح کو جکڑ لیتا ہے اور ان کی سانسوں میں اتر جاتا ہے۔ بغاوت اور احتجاج کی آرزو سنسناتی ہوئی ان کے لہو میں تیرتی ہے اور جب وہ اسے اشعار کی زبان میں ڈھالتے ہیں تو ان کا ایک ایک لفظ دمکتا ہوا، سلگتا ہوا، درد کی لہر اچھالتا ہوا، اپنے دل کش جمالیاتی اسلوب کے ساتھ ہمارے سینوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔
احفاظ الرحمٰن مزید لکھتے ہیں، دراصل خالد بھائی کی نظمیں اور غزلیں ایک ایسے فکری نظام کے زیر اثر تشکیل پاتی ہیں جو دانش ور کو داخلیت کے مریضانہ حصار سے نکال کر اسے آفاق کی وسعتوں میں علّت و معلول کے درمیان سچائی تلاش کرنے اور زمانی اور مکانی حقیقتوں کے درمیان زندگی کے لیے ایک درست تہذیبی راہِ عمل متعین کرنے کا درس دیتا ہے۔
خالد علیگ نے ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تحریکوں کے علاوہ اس زمانے میں مختلف فلسفہ ہائے حیات اور نظریات کو پروان چڑھتے دیکھا اور نوجوانی میں کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوگئے۔ انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے ‘منشور’ سے وابستگی کے دوران اپنے افکار کا صحافتی تحریروں میں اظہار کیا۔
پاکستان میں مساوات کی بندش اور سیاسی آمریت کے دور میں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی آزمائش شروع ہوئی تو خالد علیگ بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایوب خان کے دور میں بھی اپنی آواز جمہوریت اور عوام کے حق میں بلند کی تھی اور ضیا کے دور میں جب صحافیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تو خالد علیگ اس کے خلاف تحریک کے سرکردہ راہ نما تھے۔ مساوات کو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار کہا جاتا تھا جس سے وابستہ رہنے کے باوجود خالد علیگ نے کبھی پیپلز پارٹی یا سرکاری امداد قبول نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اپنے دورِ حکومت میں ان کو مالی امداد کے لیے چیک بھجوایا، مگر خالد علیگ نے قبول نہیں کیا۔ ایک مرتبہ جب وہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو صوبائی حکومت نے سرکاری خرچ پر علاج کرانے کا اعلان کیا تھا جس کی اطلاع پاکر خالد علیگ اسپتال سے گھر منتقل ہوگئے تھے۔
خالد علیگ نے اپنی شاعری کو جبر اور استحصال کے خلاف مزاحمتی آواز بنا کر پیش کیا اور مجموعہ ’غزالِ دشت سگاں‘ یادگار چھوڑا۔ اپنے معاصرین اور جونیئرز میں خالد بھائی کہلانے والے خالد علیگ نے تمام عمر اپنے قول و فعل سے خود داری، راست گوئی اور حق و صداقت کا ثبوت دیا۔
خالد علیگ کی ایک خوب صورت غزل ملاحظہ کیجیے۔
میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں
نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں
ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں
وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں
میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں، مجھے اب تو اس سے اتار لو
کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں، مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں
مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں