Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی کے زمانہ میں ایک شریف زادے پر کڑا وقت آ پڑا اور وہ دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ اسی عسرت کی حالت میں اس کے گھر میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی۔ بیوی پہلے ہی فاقوں سے لاغر ہو رہی تھی اور زچگی کے بعد تو جیسے وہ نیم جاں‌ ہو گئی۔

    مزید حکایات اور سبق آموز واقعات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    دایہ نے کہا کہ اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا اور مقوی غذا نہیں دی تو بچنا محال ہے۔ یہ سن کر وہ غریب اور ناچار شخص اسی وقت روزی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ ہنر اس کو کوئی آتا نہ تھا، مگر پہلے وہ ایک بڑے تاجر کے گھر کے کام سنبھالتا رہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ماہ کے دوران کسی نے اسے ایسی کوئی نوکری نہیں دی۔ اس روز وہ دکانوں‌ پر گیا کہ کوئی کام مل جائے، اور لوگوں سے مزدوری مانگتا پھرا جو کسی کام کے عوض چند دینار دے دیتے تو کھانے کے لیے کچھ لے کر گھر چلا جاتا۔ یہ نہ ہوا تو ایک دو لوگ جن سے جان پہچان تھی، ان کو اپنی بپتا سنائی اور کچھ بطور قرض طلب کیا۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

    اسی پریشانی کے عالم میں وہ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں ایک ملاح اپنی کشتی لئے بغداد کے مختلف محلّوں کے نام لے رہا تھا کہ کسی کو وہاں جانا ہو تو کشتی میں سوار ہو جائے۔ شریف زادے نے خودی کے عالم میں ملاح کو پکارا تو ملاح نے اپنی کشتی کنارے کے ساتھ لگا دی اور اس سے دریافت کیا کہ کس محلّہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ وہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بس ایک ٹُک ملاح کا منہ دیکھنے لگا۔ ملاح نے جھلّا کر کہا عجیب آدمی ہو، مجھے بلایا ہے تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ ملاح کی بات سن کر اس غریب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور اس نے اپنی داستان مصیبت بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ ملاح کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے شریف زادے کو کشتی پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں تم کو ایک محلّہ میں پہنچائے دیتا ہوں، وہاں کی ایک مسجد میں شیخ معروف کرخی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہونا، امید ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔

    شریف زادہ ملّاح کی بتائی ہوئی مسجد میں پہنچا اور وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حسبِ توقع شیخ معروف کرخی وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس مصیبت زدہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ روتا جاتا اور خود پر بیتنے والے حالات بتاتے جاتا۔ حضرت معروف کرخی اسے نہایت توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو آپ پھر نماز میں مشغول ہو گئے۔

    اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ وہ غریب بڑا پریشان ہوا کہ بیوی کو ایڑیاں رگڑتے چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں آکر بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور حضرت صاحب دوبارہ نوافل میں‌ مشغول ہوچکے ہیں۔ اب اس تاریک رات اور موسلادھار بارش میں خالی ہاتھ گھر کیسے جاؤں…. وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک سواری آکر رکی اور ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے شیخ معروف کرخی کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو پانچ سو دینار نذر کروں تو وہ اسے اپنی قدر افزائی خیال کرے گا۔ حضرت معروف کرخی نے اس شخص سے کہا کہ میں یہ دینار قبول کرتا ہوں، اور اس غریب آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تھیلی میرے اس دوست کو دے دو۔ اس شخص نے جو دینار لے کر آیا تھا، حضرت کے کہنے پر دیناروں کی تھیلی اس شریف زادے کے ہاتھ میں دے دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

    اس کے مسجد سے چلے جانے کے بعد حضرت معروف کرخی نے پریشاں حال شخص سے فرمایا کہ بھائی اس تھیلی کو اپنے کام میں لا۔ اللہ نے تیری مدد کی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترسا ہوا وہ شخص حضرت کرخی کے سامنے تعظیم سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ان کی اجازت ملتے ہی اس نے تھیلی کمر سے باندھی اور معروف کرخی کے لیے عزّت اور صحت کی دعائیں کرتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا۔ اس نے بغداد کے بازار سے ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور کشتی میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا۔ بیوی اس کے انتظار میں تھی اور جب خاوند کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دیکھا تو اس کی آنکھوں‌ میں آنسو آگئے۔ خاوند نے چولھے کو بھڑکایا اور پکانے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پورا ماجرا بیان کیا تو وہ بھی معروف کرخی کو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز اس شریف زادے نے ان دیناروں سے کچھ مال خریدا اور بازار میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے محنت اور دل جمعی سے کام کیا اور اللہ نے ایسی برکت دی کہ کچھ عرصہ بعد شہر کے مرکزی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ وہ نہایت فارغ البالی سے گزر اوقات کرنے لگا۔ ایک روز اس شخص کو وہ ملاّح یاد آیا جس نے اسے بغداد پہنچایا تھا۔ وہ دریا پر پہنچا اور اسے تلاش کرکے اس کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔

    دونوں میاں بیوی کو جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، وہ بے اختیار حضرت معروف کرخی کو دعائیں دینے لگتے۔

    (یہ حکایت اولیا اللہ اور صوفیائے کرام سے منسوب اخلاقی اور نصیحت آمیز واقعات پر مشتمل ایک کتاب حکایاتِ صوفیا سے لی گئی ہے)

  • معروف انسٹاگرام انفلوئنسر منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار

    معروف انسٹاگرام انفلوئنسر منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار

    (14 اگست 2025): بھارت کی معروف انسٹاگرام انفلوئنسر سندیپا وِرک کو 40 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق انسٹاگرام پر 12 لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی بھارتی انفلوئنسر سندیپا وِرک کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے 40 کروڑ روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کر لیا۔

    انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکار نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ بھارتی انفلوئنسر سندیپا وِرک جو کہ بیوٹی پروڈکٹ کمپنی کی مالک بھی ہیں، کو جھوٹے بہانے سے پیسے مانگ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق انفلوئنسر کے خلاف کیس بھارتی پنجاب کے موہالی میں درج ہے جس میں سندیپا پر الزام تھا کہ انہوں نے جعلی دعوؤں اور غلط بیانی سے لوگوں سے رقم بٹوری ہے۔

    بھارتی محکمے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے مطابق  سندیپا وِرک نے خود کو ایک ویب سائٹ کی مالک کے طور پر پیش کیا جو ایف ڈی اے سے منظور شدہ بیوٹی پروڈکٹس بیچنے کا دعویٰ کرتی تھی۔

    تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعات حقیقت میں موجود ہی نہیں تھیں جبکہ ویب سائٹ پر صارفین کی رجسٹریشن کا بھی کوئی نظام نہیں تھا، اس ویب سائٹ کی سوشل میڈیا پر موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی اور رابطہ نمبر بھی غیر فعال تھا۔

    تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سندیپا کا تعلق ریلائنس کیپٹل لمیٹڈ کے سابق ڈائریکٹر انگارائی نٹراجن سیتھرامَن سے بھی رہا ہے، جن پر کمپنی کے فنڈز ذاتی استعمال کے لیے ہڑپ کرنے کا الزام ہے۔

    انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے دعویٰ کیا کہ کروڑوں روپے کے قرضے اور رقوم غیر قانونی طریقے سے جاری کیے گئے اور ان میں سے بڑی رقم واپس نہیں کی گئی۔

    بھارتی محکمے کا کہنا ہے کہ چھاپوں کے دوران اہم دستاویزات اور بیانات ریکارڈ کیے گئے، سندیپا وِرک کو 12 اگست کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں ای ڈی کی تحویل میں بھیج دیا گیا۔

  • حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    دنیا میں عقل و دانائی، حکمت و نصیحت پر مبنی واقعات پر مشتمل کتب میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ یہ حکایت انہی سے منسوب ہے اور اپنے وقت کے ایک مشہور دولت مند حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کا وہ قصّہ ہے جس میں مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے۔

    سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    حکایت کچھ اس طرح ہے کہ حاتم طائی کے پاس ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت قد آور، تیز رفتار اور اصیل تھا کہ جو اس کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ فی الحقیقت اس برق رفتار جانور کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اس گھوڑے کا شہرہ دور دور تک تھا۔

    ایک دفعہ شاہِ روم کے دربار میں بھی حاتم کی بے مثل سخاوت اور اس کے بے نظیر گھوڑے کا ذکر نکل آیا۔ بادشاہ کا وزیر حاتم طائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی شخصیت سے بہت مرعوب نظر آرہا تھا۔ بادشاہ کا موڈ اچھا تھا اور دربار کا ماحول خوشگوار تھا۔ بادشاہ اپنے وزیر کی زبانی حاتم طائی کی تعریفیں سنتا رہا مگر جب گھوڑے کا ذکر ہوا تو اچانک اپنے وزیر سے کہا کہ بغیر دلیل و ثبوت کے ڈینگیں مارنا رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں حاتم سے یہ گھوڑا مانگوں گا۔ اگر اس نے دے دیا تو جانوں گا کہ واقعی وہ بڑا سخی اور ایثار کرنے والا آدمی ہے۔ اگر اس نے دینے سے انکار کیا تو سمجھوں گا کہ اس کی شہرت محض خالی ڈھول کی آواز ہے۔ چنانچہ اس نے ایک عقل مند قاصد آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا کہ وہ حاتم سے اس کا وہ بہترین اور پیارا گھوڑا مانگ لائیں۔ قاصد اور اگر کے ساتھی منزلوں پر منزلیں مارتے حاتم کے قبیلہ میں پہنچے اور رات کو حاتم کے ہاں قیام کیا۔

    اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ہر ذی نفس اپنے گھروں میں محصور تھا۔ گھر سے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ حاتم کے مویشیوں کا گلہ گھر سے کافی فاصلے پر چراگاہ میں تھا اور اتنے مہمانوں کے طعام کے لیے اس وقت گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وہ مشہورِ زمانہ گھوڑا جس کا ذکر شاہِ روم کے دربار میں اس کے وزیر نے کیا تھا، اس کی قیام گاہ کے مخصوص احاطے میں موجود تھا۔ حاتم کو یہ گھوڑا بہت عزیز تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اسے اپنے کسی دوسرے اصطبل یا چراگاہ میں نہیں چھوڑتا تھا۔ یہ بات حاتم کی سخاوت اور مہمان نوازی سے بعید تھی کہ اس کے گھر آئے ہوئے لوگ بھوکے رہیں یا وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑے۔ حاتم طائی نے وہی گھوڑا ذبح کردیا اور مہمانوں کے سامنے خوان سجا کر پیش کر دیا۔ سب نے پیٹ بھر کر لذیذ کھانا کھایا اور رات گزاری۔

    صبح ہوئی تو شاہِ روم کے قاصد نے حاتم سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ بادشاہ کی خواہش معلوم ہوئی تو حاتم پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور بہت نادم نظر آیا۔

    حاتم نے قاصد سے کہا، اے نیک بخت! تُو پہلے حرفِ مدعا زبان پر کیوں نہ لایا ؟ وہ گھوڑا تو میں نے گزشتہ شب تمہاری ضیافت کے لیے ذبح کر دیا، رات کو اسی کے کباب تم نے کھائے ہیں۔ افسوس کہ اس کے سوا کل رات میرے گھر کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ اور مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ مہمان بھوکے رہیں۔

    یہ سن کر قاصد جذباتی ہوگیا اور بے اختیار حاتم کے ہاتھ چوم لیے۔ حاتم طائی نے ان کو کہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی معذرت پہنچائیں اور پھر ان کو بہت سے گھوڑے دے کر رخصت کیا۔

    شاہِ روم کے قاصد کئی منزلیں طے کر کے دربار میں پہنچے اور وہاں یہ سارا قصّہ سنایا تو ہر ایک کی زبان پر حاتم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات تھے۔ شاہِ روم نے وزیر کے سامنے تسلیم کیا سعادت اور سخاوت حاتم طائی پر ختم ہے۔

  • آج بھی وہ آزادی حاصل نہیں جو بھائی کے پاس ہے، حبا علی خان

    آج بھی وہ آزادی حاصل نہیں جو بھائی کے پاس ہے، حبا علی خان

    اداکارہ حبا علی خان کا کہنا ہے کہ انہیں وہ آزادی حاصل نہیں جو ان کے بھائی کے پاس ہے۔

    اے آر وائی پوڈ کاسٹ میں حال ہی میں اداکارہ حبا علی خان نے شرکت کی اور اس دوران مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ بچیوں کو دل بہلانے کے لیے کہانی سنائی جاتی ہے کہ تم پر شک نہیں کررہے تم پر تو بھروسہ ہے زمانہ بہت خراب ہے، اس کا اب ہم کیا علاج لائیں، لڑکیاں کہتی ہیں کہ صحیح کہہ رہے ہیں۔

    حبا علی خان نے کہا کہ میں انڈسٹری میں کام کرتی ہوں، گاڑی چلاتی ہوں، جو دل میں آتا ہے پہنتی ہوں لیکن بہت سی آزادی آج میرے پاس نہیں ہے جو بھائی کے پاس 12 سال کی عمر سے ہوں۔

    یہ پڑھیں: کزن مجھ پر فدا تھے، حبا علی خان

    اداکارہ نے کہا کہ اگر میں کہوں کہ میرا دوست کہہ رہا تھا تو خاندان والے پلٹ جاتے ہیں کہ ’کہہ رہا تھا۔‘ یا تم ہمیں اتنا کمزور سمجھا ہوا ہے، اگر عورتیں ہیں تو لڑکا دوست نہیں ہوسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکے بہت غلط ہیں کہ لڑکیوں کو دوست نہیں سمجھتے۔

    حبا علی خان نے کہا کہ عورتوں کو دیکھ کر زیادہ پریشان عورتیں ہی ہیں اور وہ اپنا غصہ مرد پر نکالتی ہیں، میرے پاس کپڑے، گاڑی نہیں ہے۔

  • مداح میسج کرتے ہیں ’بے بی آپ نے کھانا کھالیا‘؟ مومنہ اقبال

    مداح میسج کرتے ہیں ’بے بی آپ نے کھانا کھالیا‘؟ مومنہ اقبال

    اداکارہ مومنہ اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں مداح میسج کرکے پوچھتے ہیں کہ ’بے بی آپ نے کھانا کھا لیا؟۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’دستک‘ میں ’فریال‘ کا کردار نبھانے والی اداکارہ مومنہ اقبال نے حالیہ انٹرویو میں مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

    سوشل میڈیا پر سب سے عجیب کون سا میسیج ملا کے جواب میں مومنہ اقبال نے بتایا کہ انہیں بہت سارے مرد عجیب عجیب پیغامات ہی بھیجتے ہیں۔

    ان کے مطابق بعض لڑکے ان سے خیریت دریافت کرتے ہیں جب کہ کچھ ان کی تعریفیں کرتے ہیں، اسی طرح کئی لوگ انہیں طعنے بھی دیتے ہیں۔

    یہ پڑھیں: مومنہ اقبال نے اپنے پسندیدہ اداکار کا نام بتا دیا

    اداکارہ نے بتایا کہ بعض لڑکے میسیجز میں ان سے کھانے تک کا پوچھ لیتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں کہ ’بے بی آپ نے کھانا کھا لیا‘۔

    مومنہ اقبال کا کہنا تھا کہ بعض لوگ سخت میسیج بھی بھیجتے ہیں، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جہنم میں اداکارہ کا ایک الگ ہی مقام اور لیول ہوگا۔

    اداکارہ نے کہا کہ میری خواہش ہے ہر کوئی یہ کہے کہ میں پاکستان کی سب سے بڑی سپر اسٹار ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ دوران شوٹنگ اکثر منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے جس پر سوچتی ہوں کہ سب کے سامنے کیوں کہہ دیا الگ جاکر کہہ دیتی۔

    مومنہ اقبال  نے بتایا کہ ایمرجنسی یا کسی مصیبت کی صورت میں وہ سب سے پہلے اپنی والدہ کو ہی فون کالز کرتی ہیں۔

  • فاتحِ عالم سکندر اور دیوجانس کا قصّہ

    فاتحِ عالم سکندر اور دیوجانس کا قصّہ

    سکندر کو دنیا عظیم فاتح کے طور پر یاد کرتی ہے اور پلوٹارک کو قبلِ مسیح کے ایک یونانی فلسفی اور مؤرخ کے طور پر پہچانتی ہے۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب فن اور فلسفہ کی یہ سرزمین اپنی عظمت و رفعت کھو چکی تھی اور یونان کا اقتدار روم کے ہاتھوں‌ میں آ چکا تھا۔ پلوٹارک نے اسی دور کے یونان اور رومی مشاہیر میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً اس نے عظیم فاتح سکندر اور سیزر کی سوانح کو ایک ہی جلد میں شامل کیا اور ان کا بعد کے زمانوں‌ میں کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یورپ میں یہ کتابیں ہر زمانے میں مقبول رہی ہیں۔

    یہاں ہم پلوٹارک کی تصنیف کردہ سوانح سے سکندراعظم سے متعلق ایک اقتباس پیش کررہے ہیں‌ جو ناول کی طرز پر مکالماتی انداز کا ہے۔ اس میں سکندر اور اس دور کے مشہور فلسفی دیوجانس کے درمیان شہرۂ آفاق مکالمہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ دیو جانس کے افکار نے آنے والے زمانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس اقتباس میں سکندر کے آہنی عزم و ارادے کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ پلوٹارک لکھتا ہے:

    کارنتھ کے مقام پر یونانی ریاستوں کی مجلس منعقد ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یونان کی تمام سپاہ فارس پر حملے میں سکندر کا ساتھ دیں اور سکندر کو ان سپاہ کا کمان دارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

    یونان کے کئی مشہور سیاستدان اور فلسفی اسے مبارکباد دینے آئے۔ سائنوپ کا مشہور فلسفی دیوجانس بھی ان دنوں کارنتھ میں موجود تھا اور سکندر کو امید تھی کہ وہ بھی اس کے پاس آئے گا لیکن جب اس نے سکندر کی طرف کوئی توجہ نہ دی تو سکندر خود اس کے پاس پہنچ گیا۔

    دیوجانس (یونانی فلسفی) کارنتھ کے نواح میں کرانیون نامی جگہ پر پڑا تھا۔ سکندر اس کے پاس گیا تو وہ زمین پر لیٹا دھوپ سینک رہا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر دیوجانس نے کہنی کا سہارا لیتے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور سکندر پر نگاہیں جما دیں۔ سکندر نے پوچھا۔

    ’’میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘

    ’’ہاں ،‘‘ فلسفی نے جواب دیا۔ ’’ذرا ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو جاؤ تاکہ دھوپ نہ رکے!‘‘

    سکندر اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور اس شخص کے لیے اس کی قدر بڑھ گئی جو اتنے آزاد ذہن کا مالک تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست دیوجانس کا مذاق اڑا رہے ہیں تو اس نے ان سے کہا۔

    ’’تم لوگ جو بھی کہو لیکن اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیوجانس ہوتا!‘‘

    اس کے بعد اس نے ڈیلفی کے مندر کا رخ کیا تاکہ فارس پر حملے کی مہم کے بارے میں شگون حاصل کر سکے۔ اتفاق سے وہ ان دنوں میں وہاں پہنچا جب شگون نکالنا منع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے کاہنہ سے جواب طلب کیا۔ کاہنہ نے انکار کیا اور بتایا کہ ان دنوں معجزے سے جواب طلب نہیں کیا جا سکتا۔ سکندر خود اس کے پاس گیا اور اسے زبردستی مندر کی طرف لے جانے لگا۔ آخر سکندر کے اصرار پر مجبور ہو کر اس نے کہا۔

    ’’میرے بچے تمہیں روکا نہیں جا سکتا!‘‘

    یہ سن کر سکندر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ اب کسی اور شگون کی ضرورت نہیں۔

    بعض اور حیرت انگیز اتفاقات بھی اس موقعے پر رونما ہوئے جب سکندر فارس پر حملے کے لیے روانہ ہونے والا تھا، مثلاً اورفئس کا مجسمہ جو جزیرہ قبرص سے درآمد شدہ لکڑی کا بنا ہوا تھا پسینے میں نہا گیا۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے لیکن کاہن ارسٹانڈر نے کہا۔

    ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سکندر اپنی اس مہم کے دوران ایسے شاندار کارنامے انجام دے گا جو ادب، شاعری اور نغموں کی صورت میں زندہ رہیں گے لیکن شاعروں اور موسیقاروں کو انہیں لکھنے کے لیے بہت عرق ریزی کرنا پڑے گی۔‘‘

  • یوٹیوبر ارمان ملک اور ان کی دو بیویاں بڑی مشکل میں پھنس گئے

    یوٹیوبر ارمان ملک اور ان کی دو بیویاں بڑی مشکل میں پھنس گئے

    بگ باس سے مقبول ہونے والے یوٹیوبر ارمان ملک اور ان کی دو بیویوں پائل اور کریتکا بڑی مشکل میں پھنس گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق یوٹیوبر ارمان ملک کو دو بیویوں سمیت پٹیالہ کی عدالت نے ایک سے زائد شادیوں کے خلاف شکایت درج ہونے کے بعد ستمبر میں طلب کیا ہے۔

    یوٹیوبر ارمان ملک نے دو خواتین پائل اور کریتکا سے شادی کی ہے تاہم ان کی چوتھی شادی کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔

    دیویندر راجپوت نامی شخص نے ان تینوں کے خلاف ہندوؤں کے جذبات مجروح کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

    لائیو ہندوستان کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے ارمان ملک پر چار بار شادی کرنے کا الزام لگایا جب کہ ہندو مذہب صرف ایک شادی کی اجازت دیتا ہے۔ درخواست گزار نے پائل ملک پر اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے دیوی کالی کا لباس پہن کر ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام بھی لگایا۔

    یہ پڑھیں: ارب پتی یوٹیوبر مسٹر بیسٹ شادی کےلیے رقم ادھار لینے پر مجبور

    درخواست میں ان کے خلاف بھارتی قوانین کے تحت سخت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

    عدالت نے تینوں کو 2 ستمبر 2025 کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا ہے، تاہم اس پر ان میں سے کسی کی جانب سے کوئی سرکاری تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

    پائل ملک اس ویڈیو کی وجہ سے خود کو کافی تنازعات میں گھری ہوئی تھیں جہاں انہوں نے دیوی کالی کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی ارمان کے ساتھ معافی مانگنے کے لیے بہت سے مندروں کا دورہ کیا۔ پائل نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی پوسٹ کیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ اپنے کیے پر معذرت خواہ ہیں۔

  • شیطانی مسکراہٹ والی ‘لابوبو گڑیا’ چوری کرنے والوں بچوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟

    شیطانی مسکراہٹ والی ‘لابوبو گڑیا’ چوری کرنے والوں بچوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟

    دنیا بھر میں اپنی شیطانی مسکراہٹ کےلیے مشہور لابوبو گڑیا چوری کرنے والے بچوں کو پولیس نے وقت پر پہنچ کر حراست میں لےلیا۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کی پولیس نے 30 ہزار ڈالرز مالیت کی لابوبو گڑیا بچوں سے برآمد کی ہے، جنوبی کیلیفورنیا کے گودام سے گڑیا چوری کرنے والے 2 کم عمر افراد کو اس وقت پولیس نے حراست میں لیا جب وہ اسے بیچنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

    سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں چینو پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران متعدد بار لابوبو گڑیا کی چوری کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور کئی لوگوں نے شکایت درج کروائی ہیں۔

    امریکی پولیس نے بتایا کہ جنوبی کیلیفورنیا کے گودام سے لابوبو گڑیا چرانے والے اسی گودام کے 2 کارکن ہیں، دونوں کم عمر افراد قیمتی ہونے کی وجہ سے لابوبو کو دوبارہ فروخت کرنا چاہتے تھے۔

    آج کل مشہور ’لابوبو ڈول‘ دنیا بھر میں اپنی بدصورتی کے سبب خاصی شہرت رکھتی ہے اور لوگ اس سے منسلک کئی طرح کے واقعات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے امریکا میں لابوبو گڑیا کی چوری کا سلسلہ جاری ہے، حالیہ چوری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    اس سے قبل امریکی ریاست لاس اینجلس کی ایک دکان سے بھی لابوبو گڑیا چوری کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جہاں چوروں نے تقریباً 30 ہزار ڈالرز مالیت کی گڑیا چرائی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/labubu-doll-conquered-the-world/

  • نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    پاکستان میں گلوکاری کے شعبہ میں اپنے فن اور انداز کی بدولت شہرت اور بطور پاپ سنگر مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ نازیہ حسن کو گلوکاری کے میدان کی ایک ساحرہ کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں میوزک کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

    نازیہ حسن 3 اپریل 1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے والدین یاسر حسن اور منیزہ حسن کی پہلی اولاد تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی زوہیب حسن اور ایک بہن زہرہ تھیں۔ بعد ازاں یہ خاندان انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں ملازمت کی۔ وہ انتہائی قابل اور ذہین تھیں اور تعلیمی میدان سے لے کر عملی زندگی تک ان کا سفر کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھنے والی نازیہ حسن نے پاکستان بھر میں نہ صرف دلوں پر راج کیا بلکہ ان کی شہرت اور فن کو بھارت اور دنیا بھر میں چاہنے والوں نے سراہا۔

    وہ لاکھوں پاکستانیوں کی محبوب گلوکارہ تھیں جنھوں نے شوقیہ گلوکاری کا آغاز کیا تھا مگر جلد ہی اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ اسے کریئر کے طور پر اپنا لیا۔ ان کے خوب صورت اور دل موہ لینے والے گیتوں کے ساتھ مشرقی انداز اور مغربی سازوں کے امتزاج سے جو گیت سماعتوں تک پہنچے، انھوں نے دلوں کو مسخر کرلیا۔ یہ 1980ء کی بات ہے جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بھارتی اداکار فیروز خان سے ہوئی اور ان کی فلم ’’قربانی‘‘ کا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ نازیہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ حسن شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس پر نازیہ کو 1981 ء میں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین گلوکارہ تھیں۔

    زوہیب حسن کے ساتھ انھوں نے پاپ گائیکی کو نئی جہت دی اور 1981ء میں پہلا البم ریلیز ہوا جس کا نام ’’ڈسکو دیوانے‘‘ تھا۔ یہ البم اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشیائی پاپ البم قرار پایا۔ اس کے بعد 1982ء میں ’’بوم بوم‘‘، 1984ء میں ’’ینگ ترنگ‘‘ اور 1987ء میں ’’ہاٹ لائن‘‘ جیسے کامیاب البموں نے ان کے مداحوں کو ان کی آواز اور نئے طرز گائیکی کا دیوانہ بنا دیا۔

    نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1988 میں وہ معروف موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ پروگرام ’’سارے دوست ہمارے‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں بعد از مرگ نازیہ حسن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی تھی۔ نازیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں اور لندن میں دو سال اس بیماری سے لڑنے کے بعد 13 اگست 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بوقت مرگ ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • حج و عمرہ یا کربلا زیارت کرنے جاؤ تو طعنے ملتے ہیں، صنم ماروی

    حج و عمرہ یا کربلا زیارت کرنے جاؤ تو طعنے ملتے ہیں، صنم ماروی

    (13 اگست 2025): پاکستان کی صوفی گلوکارہ صنم ماروی نے انکشاف کیا ہے حج و عمرہ یا کربلا زیارت کرنے جاؤ تو لوگوں کی جانب سے طعنے ملتے ہیں۔

    پاکستان کی معروف لوک اور صوفی گلوکارہ صنم ماروی نے حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں شرکت کی جہاں انہوں نے بطور گلوگارہ اسلامی سفر کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا کا انکشاف کیا۔

    مذہبی عبادات پر ٹرولنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صنم ماروی نے کہا کہ ہاں یہ ایک شوبز شخصیت ہونے کا منفی پہلو ہے، ہر کوئی آپ پر تبصرے کرتا ہے، چاہے آپ کی اپنی زندگی کتنی ہی پرائیوٹ کیوں نہ ہو اور آپ کتنی ہی مشکلات سے کیوں نہ گزر رہے ہوں۔

    صنم ماروی نے تیسری شادی کی تصدیق کر دی

    انہوں نے کہا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جب میں عمرہ کرنے یا زیارات پر جاؤں تو لوگ تبصرے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اچھا اب آپ بھی عمرہ کریں گی اور پھر جب واپس آ کر اپنا گلوکاری کا کام کرو تو کہتے ہیں آپ تو ابھی زیارات یا عمرہ کر کے آئی ہیں تو یہ کام ہیں کر رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ ہم عام لوگوں کہ طرح عبادت کریں۔ گانا گانا میرا پروفیشن ہے اس سے میرا گھر چلتا ہے، نہ میں وہ چھوڑ سکتی ہوں نہ میں یہ چھوڑ سکتی ہوں۔

    صنم ماروی کا مزید کہنا تھا کہ لوگ ٹرول کرتے ہیں کہ سارا سال گانے گاتی ہیں اور اب یہ حاجن بننے کے لیے چلی گئی ہے یا زیارات کے لیے چلی گئی ہے۔