Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • اداکار انور علی نے اپنی فنکارانہ زندگی کیسے گزاری؟

    اداکار انور علی نے اپنی فنکارانہ زندگی کیسے گزاری؟

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف سینیئر اداکار انور علی اس دار فانی سے کُوچ کرگئے، ان کی فنی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

    اداکار انور علی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں اور شاندار مزاح کے ذریعے ہمیشہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے، یہ ہی ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو تھا۔

    انور علی کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی ان کی فطری صلاحیت تھی۔ ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری، چہرے کے تاثرات مزاحیہ انداز اور ٹائمنگ بےمثال تھی۔

    hospital

    انور علی ایک عام متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کی زندگی کا آغاز ایک فنکارانہ ماحول میں ہوا، جہاں موسیقی، ادب اور تھیٹر کی محافل کا انعقاد ترغیب کیلیے ہوا کرتا تھا۔

    ان کو اسکول کے زمانے سے ہی اداکاری اور طنز و مزاح کا شوق تھا اور وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے تھے۔ ان کی سادہ طبیعت اور لوگوں سے جڑنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دلعزیز بنایا۔

    انور علی نے اپنے کیریئر کی شروعات 1980 کی دہائی میں لاہور کے مشہور تھیٹر سے کی، جہاں ان کے طنزیہ اور مزاحیہ کرداروں نے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا، ان کا مخصوص انداز، جس میں وہ سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے لہجے میں پیش کرتے تھے، ان کی پہچان بن گیا۔

    انہوں نے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل اور دیگر تھیٹر گروپس کے ساتھ کام کیا، جہاں ان کے ڈراموں نے نہ صرف چہروں پر خوشیاں بکھیریں بلکہ معاشرتی تناظر میں گہری سوچ بھی دی۔

    1980کی دہائی کے آخر میں انور علی نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا، جہاں ان کے کرداروں نے گھر گھر شہرت حاصل کی۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں ’اندھیرا اجالا‘، ’ابابیل‘، ’ہوم سویٹ ہوم‘، اور ’بیکری‘ شامل ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں پر تنقید کرتے اور ناظرین کو ایک آئینہ دکھاتے رہے ہیں۔

    اس کے علاوہ فلموں میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کیا، جیسے کہ ’چوروں کی بارات‘ اور ’مولا جٹ‘ جیسی فلموں میں ان کے سپورٹنگ رولز نے کہانیوں کو چار چاند لگائے۔

    اداکار انور علی نے اپنی شہرت کے عروج پر ایک غیر معمولی فیصلہ کیا، سال2000 کی دہائی کے وسط میں انہوں نے مذہبی رجحان کے باعث شوبز کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی۔

    مزید پڑھیں : ماضی کے نامور اداکار انور علی انتقال کرگئے

    بعد ازاں ایک انٹرویو میں ان کاکہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں اللہ کا خوف رکھا اور اسی لیے فیصلہ کیا کہ اب اپنی باقی زندگی عبادت اور سادگی میں گزاروں گا۔

  • ’آپ کو اپنی زندگی کہنے پر خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں‘

    ’آپ کو اپنی زندگی کہنے پر خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں‘

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سائرہ یوسف اور اداکار عدیل حسین کے افیئر کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

    سائرہ یوسف اور عدیل حسین نے 2011 میں نجی ٹی وی ڈرامہ سیریل سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا، دونوں کو حقیقی زندگی میں بھی اکثر مختلف مواقعوں پر ساتھ دیکھا گیا۔

    آخری بار عدیل حسین کو سائرہ یوسف کے کپڑے کے برانڈ کی لانچنگ اور ایک شادی میں دیکھا گیا تھا۔

    یہ پڑھیں: کیا سائرہ یوسف دوسری شادی کر رہی ہیں؟

    تاہم اب سائرہ یوسف اور عدیل حسین کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس سے ان کے تعلقات کے بارے میں بحث چھڑ رہی ہے۔

    عدیل حسین نے حال ہی میں اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں ان کی بھانجی اور سائرہ یوسف ایک ساتھ مسکرا رہے ہیں۔

    اداکار نے پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر لکھا کہ ’آپ کو اپنی زندگی کہنے پر خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔‘

    سوشل میڈیا صارفین انہیں ایک ساتھ دیکھ کر کافی پرجوش ہیں اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عدیل حسین کا کیپشن سائرہ یوسف کے لیے ہے۔

    سابق پاکستانی اداکارہ سدرہ بتول نے لکھا کہ اگر یہ سچ ہے تو میں ان دونوں کے لیے خوش ہوں۔ ایک اور نے تبصرہ کیا، "واہ، میرا نصیب کے بعد سے میں ان سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں، اگر وہ ایک ساتھ ہیں یا شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ بہت اچھی خبر ہے۔

    Are Syra Yousaf & Adeel Hussain In a Relationship

    سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ سائرہ یوسف کو زندگی میں آگے بڑھنے اور خوش رہنے کا حق ہے، میں اس کے لیے خوش ہوں، وہ اس کی مستحق ہے۔

    دوسری جانب ایک مداح نے کہا کہ کیپشن عدیل کی بھانجی کے لیے تھا۔

  • رمشا خان کی ’بریانی‘ کے سیٹ سے تصاویر وائرل

    رمشا خان کی ’بریانی‘ کے سیٹ سے تصاویر وائرل

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ رمشا خان کی ’بریانی‘ کے سیٹ سے تصاویر وائرل ہوگئیں۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ رمشا خان نے تصاویر شیئر کیں جس میں انہیں ’بریانی‘ کے ساتھی اداکار خوشحال خان کے ساتھ خوشوار موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں اداکارہ ہیئر اسٹائلسٹ سے بال بنوا رہی ہیں اور ایک تصویر میں سیلفی لے رہی ہیں۔

    رمشا خان نے تصاویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ’اسٹار ملے گا۔‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Ramsha Khan (@ramshakhanofficial)

    انہوں نے چند گھنٹوں قبل یہ تصاویر شیئر کیں جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں اور اس پر تعریفی کمنٹس بھی کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ رمشا خان اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ میں مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جس میں ان کے ساتھ خوشحال لیڈ رول میں موجود ہیں۔

    اداکارہ رمشا خان نے کہا ہے کہ جو عزت نہ دے انہیں میں زندگی سے نکال دیتی ہوں۔

    اس سے قبل انٹرویو میں اداکارہ کا کہنا تھا کہ والدہ نے میری تنہا پرورش کی، جس کی وجہ سے میری والدہ مجھے کوئی نہ کوئی کام کرنے کا کہتی رہتی تھیں لیکن میں گھر میں سارا دن فون پر آن لائن گیمز کھیلتی رہتی تھی۔

    اداکارہ نے کہ ہر وقت گیم کھیلنے سے تنگ آکر میری والدہ نے مجھے کوئی نہ کوئی کام کرنے کا کہا، جس پر امیں نے ایک ٹیلنٹ ایجنسی میں جاکر آڈیشن دیا، جہاں مجھے اشتہارات کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

    رمشا خان نے اس انٹر ویو میں تعلقات اور دوستی سے متعلق سوال کے جواب میں اپنے واضح اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں لوگوں کو دوسری بار موقع ضرور دیتی ہوں، خاص طور پر اگر اُن سے کوئی غلطی ہو جائے، لیکن اگر کوئی شخص میری بے عزتی کرے، تو میں اُسے اپنی زندگی سے مکمل طور پر نکال دیتی ہوں۔

  • ٹک ٹاکر سامعہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والا ملزم حسن زاہد گرفتار

    ٹک ٹاکر سامعہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والا ملزم حسن زاہد گرفتار

    اسلام آباد: نوجوان ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والے ملزم حسن زاہد کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    حال ہی میں اسلام آباد میں ٹک ٹاکر خاتون کو ہراساں کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کا واقعہ پیش آیا ہے، پولیس نے معاملے کا نوٹس لیکر ملزم حسن زاہد کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔

    خاتون نے ملزم کےخلاف تھانہ شالیمار میں درخوست دے رکھی تھی، متاثرہ خاتون سامعہ حجاب نے ملزم کےخلاف سوشل میڈیا پر بیان بھی جاری کیا تھا۔

    ٹک ٹاکر ثنا یوسف کی دوست سامعہ حجاب کو شادی سے انکار کرنے پر مبینہ طور پر اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو ناکام ہوگئی تھی۔

    ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے اسلام آباد پولیس سے تحفظ طلب کرتے ہوئے ویڈیو میں بتایا تھا لاہور کے رہائشی کی جانب سے شادی کی تجویز مسترد کرنے پر ہراساں اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

    ویڈیو پیغام میں انھوں نے حسن زاہد نامی شہری پر الزام لگایا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے اس کا پیچھا کررہا ہے اور حال ہی میں اسلام آباد میں رہائشگاہ پر بھی پہنچ گیا۔

    ٹک ٹاکر کے مطابق اس نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور جب انکار کیا تو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کار میں دھکیل دیا۔

    سامعہ حجاب کا کہنا تھا کہ بیمار والدہ گھر پر تھیں جبکہ بھائی گھر سے باہر تھا، اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا یا مارا گیا تو اس کا ذمہ دار حسن زاہد ہی ہوگا۔

    https://urdu.arynews.tv/samiya-hijab-alleges-kidnap-attempt/

  • بھارتی اداکارہ کینسر کے باعث چل بسیں

    بھارتی اداکارہ کینسر کے باعث چل بسیں

    بھارتی ڈرامہ سیریل ’پویتر رشتہ‘ میں منفی کردار سے مشہور ہونے والی اداکارہ پریا مراٹھے کینسر کے باعث 38 سال کی عمر میں چل بسیں۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اداکارہ پریا مراٹھے کئی سپر ہٹ سیریلز میں اداکاری کی ہے جن میں ‘کسام سے’، ‘پویتر رشتہ’، ‘اترن’ اور ‘ساتھ نبھانا ساتھیا’ شامل ہیں، اتوار 31 اگست کی صبح تقریباً 4 بجے ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئیں۔

    ان کے خاندان کے مطابق مراٹھے دو سال سے زیادہ عرصے سے کینسر سے لڑ رہی تھیں اور دوران علاج بھی اداکاری کرتی رہیں۔

    پریا کے کزن بھائی اداکار سبودھ بھاوے نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں اس افسوسناک خبر کی تصدیق کی اور دلی خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا کینسر پچھلے سال دوبارہ پھیل گیا تھا جب انہوں نے اس کے آخری پروجیکٹ، مراٹھی سیریل ’تو بھیتاشی نویانے‘ کی شوٹنگ کی تھی۔

    سبودھ بھاوے نے لکھا کہ کینسر نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ میری بہن ایک لڑاکا تھی لیکن آخر کار اس کی طاقت کم پڑ گئی۔

    واضح رہے کہ پریا مراٹھے کے پسماندگان میں ان کے شوہر شانتنو موگھے ہیں جو مراٹھی سنیما کے تجربہ کار اداکار شری کانت موگھے کے بیٹے ہیں جن سے انہوں نے اپریل 2012 میں شادی کی تھی۔

  • حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں

    حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’رسم وفا‘ میں اداکارہ حنا چوہدری ’نور‘ کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جس میں ان کے ساتھ ارسلان خان ’اسامہ‘ کے کردار میں موجود ہیں۔

    اداکارہ نے ننھی بیٹی اوجا کے پہلے دن اسکول جانے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے طویل پیغام بھی شیئر کیا ہے۔

    حنا نے لکھا کہ میری بیٹی نے آج اسکول جانا شروع کیا یقین نہیں آتا کہ وہ کتنی تیزی سے بڑی ہورہی ہے، ایک ماں کے طور پر یہ خوشی، فخر کی بات ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ والد اور والدہ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔

    حنا چوہدری نے لکھا کہ جب آپ بڑی ہوں گی اور ان تصویروں کو واپس دیکھیں گی، مجھے امید ہے کہ آپ یہ جان کر فخر محسوس کریں گی کہ آپ کے والدین نے آپ کے ہر سنگ میل کو پیار سے منایا۔

    اس سے قبل انٹرویو میں اداکارہ نے بتایا تھا کہ شوہر علی فاروق سے پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں بھی ون آن ون کبھی بات نہیں ہوئی کیونکہ یہ فیکلٹی میں تھے زیادہ کام کے حوالے سے بات ہوتی تھی، اس کے بعد علی یونیورسٹی چھوڑ گئے اور کوئی کمپنی جوائن کرلی تھی، میرا یونیورسٹی میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا تو میں اپنے مسائل ان سے شیئر کرتی تھی۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ مجھے اکنامکس شروع سے برا سبجیکٹ لگتا تھا اور علی اس میں گولڈ میڈلسٹ تھے تو مجھے یہ تھا کہ کوئی بندہ مجھے پڑھا دے تو پاس ہوجاؤں، امی نے مشورہ دیا تھا کہ علی سے کہو کہ وہ تمہیں پڑھا دے پھر انہوں نے مجھے پڑھایا تھا۔

    حنا چوہدری کا کہنا تھا کہ میری امی اور بہن کو علی بہت اچھے لگتے ہیں، یہ بہت ذمہ دار ہیں ابو لاہور میں نہیں تھے اور بھائی بھی نہیں تھا تو ہمیں جس بھی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو یہ کام آتے تھے۔

  • مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ فائن آرٹ کے شعبہ کے چند نام ور فن کاروں میں احمد سعید ناگی کا نام بھی شامل ہے۔ احمد ناگی کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ انھوں نے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ بنایا جب کہ اس آرٹسٹ کے میورلز بھی ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    احمد سعید ناگی یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عام طور پر احمد سعید ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرت سر میں احمد سعید نے آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مُوقلم سے اپنا تعلق جوڑا اور عملی میدان میں اترے۔ وہ شروع ہی سے فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ یہاں انھوں نے مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کیا۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    معروف صحافی، آرٹ نقاد اور مصنّف شفیع عقیل ان سے اپنی ملاقات کا احوال اپنی ایک کتاب میں یوں لکھتے ہیں:

    ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی کا ہنر شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ مصوری بالخصوص پورٹریٹ بنانے پر توجہ دی۔ ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ پیرس سے کراچی لوٹنے کے بعد احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔ احمد سعید ناگی نے خاص طور پر ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو اپنے فن کی زینت بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت میں ان کی گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر انھیں ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام سونپا گیا اور انھوں نے بخوبی اپنا کام انجام دیا۔ سعید ناگی نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے بھی مجسمہ سازی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    مصور و مجسمہ ساز احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ ان کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں۔ شائقین کی ستائش کے ساتھ ناگی صاحب نے ناقدینِ فن سے بھی اپنے کام پر داد پائی۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے ہیں۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • ثنا یوسف کی دوست سامعہ حجاب کو شادی سے انکار پر اغوا کرنے کی کوشش

    ثنا یوسف کی دوست سامعہ حجاب کو شادی سے انکار پر اغوا کرنے کی کوشش

    ٹک ٹاکر ثنا یوسف کی دوست سامعہ حجاب کو شادی سے انکار پر مبینہ طور پر اغوا کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔

    ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے اسلام آباد پولیس سے تحفظ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور کے رہائشی کی جانب سے شادی کی تجویز مسترد کرنے پر ہراساں اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

    ایکس پر جاری کردہ ویڈیو پیغام میں انہوں نے حسن زاہد نامی شہری پر الزام لگایا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے اس کا پیچھا کررہا ہے اور حال ہی میں اسلام آباد میں رہائشگاہ پر پہنچا، دروازے کی گھنٹی بجائی اور فرار ہونے سے پہلے موبائل فون چھین لیا۔

    ٹک ٹاکر کے مطابق اس نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور جب انکار کیا تو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کار میں دھکیل دیا۔

    سامعہ حجاب کا کہنا ہے کہ بیمار والدہ گھر پر تھیں جبکہ بھائی گھر سے باہر تھا، اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا یا مارا گیا تو اس کا ذمہ دار حسن زاہد ہی ہوگا۔

    انہوں  نے کہا کہ ’وہ دوسری ثناء یوسف نہیں بننا چاہتیں۔‘ واضح رہے کہ نوجوان ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو اسلام آباد کے علاقے جی 13 میں شادی سے انکار پر گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

    اسلام آباد پولیس نے ان کی شکایت کا جواب دیا اور رہائش گاہ پر پہنچ کر انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرائی جبکہ ٹک ٹاکر نے آئی جی سے مزید سیکورٹی کی اپیل کی ہے۔

    واضح رہے کہ سامعہ حجاب کو حالیہ مہینوں میں مبینہ نازیبا ویڈیوز آن لائن گردش کرنے کے بعد سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ کلپس جعلی ہیں اور اسے سابق بوائے فرینڈ نے لیک کیا ہے۔

  • سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام  نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد کو اگر ادبی مفکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی نکتہ بینی، تجزیاتی بصیرت اور قوّتِ مشاہدہ سے کام لے کر جن موضوعات پر خیال آرائی کی، وہ انھیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار کے طور پر ادبی دنیا میں نام و مقام پایا اور بالخصوص تنقید کے میدان میں ان کا کام ان کی پہچان بنا۔ مگر ساتھ ہی ان کا ادب کی دنیا میں کئی شخصیات سے زبردست اختلاف بھی رہا اور یہ سب ادبی تاریخ کا‌ حصّہ ہے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے دور میں تنقید لکھتے ہوئے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا اور اس پر انھیں اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی تھی جس پر ان کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • ماضی کے نامور اداکار انور علی انتقال کرگئے

    ماضی کے نامور اداکار انور علی انتقال کرگئے

    لاہور: ماضی کے نامور اداکار انور علی دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اداکار انور علی گردوں اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے انہیں کل طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ اداکار انور علی کی نماز جنازہ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

    انور علی کو پاکستان کی فلم اور تھیٹر کی تاریخ کے بہترین مزاح نگاروں اور اداکاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے منفرد انداز اور بے مثال طنز و مزاح سے انہوں نے لاکھوں لوگوں کے دل جیتے۔

    مداحوں اور شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی ساتھی شخصیات کی جانب سے انور علی کے انتقال پر دُکھ کا اظہار کیا جارہا ہے۔