Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • اقوام متحدہ کا امن ایوارڈ پاکستانی خاتون کے نام

    اقوام متحدہ کا امن ایوارڈ پاکستانی خاتون کے نام

    بنکاک: پاکستانی خاتون فرحت آصف کو اقوام متحدہ کے امن اعزاز این پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی فرحت آصف کو اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کے تحت اس اعزاز سے نوازا گیا جس کی تقریب تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں منعقد ہوئی۔

    فرحت آصف ایک ادارے کی بانی ہیں جہاں خواتین کو مختلف شعبہ جات کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ وہ ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی عمل کا حصہ بن سکیں۔

    این پیس ایوارڈ جس کا آغاز سنہ 2010 سے کیا گیا تھا، ان افراد کو دیا جاتا ہے جو نہایت نچلی سطح پر امن عامہ اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔

    رواں برس یہ ایوارڈ فرحت آصف کے ساتھ مزید 11 افراد کو دیا گیا جن کا تعلق افغانستان، میانمار، نیپال، انڈونیشیا، سری لنکا اور فلپائن سے ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی اسٹیڈیم آمد

    سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی اسٹیڈیم آمد

    ریاض : سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بارخواتین کو کھیل کے میدانوں میں میچ دیکھنے کی اجازت ملنے کے بعد خواتین کی بڑی تعداد اسٹیڈیم پہنچیں اورفٹبال میچ سے لطف اندوز ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روزسعودی عرب کے شہرجدہ میں مقامی پروفیشنل لیگ میں الاھلی کلب اور الباطن کلب کے درمیان کھیلے گئے میچ کو دیکھنے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد اسٹیڈیم میں موجود تھی۔

    عرب میڈیا کے مطابق اسٹٰیڈیم میں خواتین کے لیے الگ جگہ مختص کی گئی تھی جہاں خواتین پر مشتمل علمے کی جانب سے وقتاََ فوقتاََ میچ دیکھنے کے لیے آنے والی خواتین کو رہنمائی فراہم کی گئی۔


    سعودی عرب میں سنیما انڈسٹری آئندہ برس بحال ہوگی


    اسٹیڈیم میں موجود خواتین کا غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج ہم بہت خوش ہیں، سعودی عرب میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس موقع پر دیگر خواتین نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔

    خیال رہے کہ وژن 2025 کے تحت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے بڑے اقدامات کیے جارہے جس سے خواتین کو خودمختار بنانے کے ساتھ ملکی معیشت ودیگر سرگرمیوں میں آگےلایا جا رہا ہے۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    یاد رہے سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے گزشتہ سال 27 ستمبر کو خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے اجازت دی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماہرین کا بڑا کارنامہ، ڈیجٹل پلکیں تیار

    ماہرین کا بڑا کارنامہ، ڈیجٹل پلکیں تیار

    ٹوکیو: جاپانی ماہرین نے انسانی حسن اور خوبصورتی کو بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل آئی لیشز ’لائٹوں والی پلکیں‘ متعارف کروادیں۔

    تفصیلات کے مطابق انسان اپنے حسن اور خوبصورتی کو برقرار رکھنے یا پھر اُسے بڑھانے کے لیے مختلف حربے ، ٹوٹکے اور میک اپ کا استعمال کرتا ہے تاہم جدید سائنسی دور کے حساب سے اب جاپانی ماہرین نے ڈیجیٹل پلکیں بھی متعارف کروادیں۔

    جاپان میں منعقد ہونے والی سالانہ کانفرنس کے دوران ہلکے سبز رنگ کی پلکیں پیش کی گئیں جن پر چھوٹے چھوٹے بلب لگائے گئے تھے، یہ آئی لیشز آنکھ کے اوپر باآسانی لگائی جاسکتی ہیں۔

    رتشمے کان یونیورسٹی میں تیار کی جانے والی ڈیجیٹل پلکوں کو ’وائرلس پاؤر فیڈنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لاس ویگاس میں پہلی بار ان پلکوں کو پلاسٹک کی گڑیا کی آنکھوں کے اوپر لگا کردکھایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل ای ڈی لائٹوں کو ترتیب دے کر بنائی جانے والی پلکیں خاص طور پر شوبز شخصیات، ڈانسرزاور گلوکاروں کے لیے تیار کی گئیں ہیں تاکہ وہ نجی پروگراموں میں پہن کر مزید خوبصورت نظر آئیں۔

    ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ  پلکوں کی تیاری کے وقت ڈاکٹرز سے مشورہ لیا گیا تاکہ یہ نقصان دہ نہ ہوں، ڈاکٹر کی تجویز کے عین مطابق ان کی لمبائی ساڑھے تین سینٹی میٹر رکھی گئی ہے جبکہ لائٹوں کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فرق ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ پلکیں آئندہ چند ماہ عام صارفین کو فروخت کے لیے پیش کی جائیں گی۔

    دوسری جانب ماہر امراض چشم نے خبردار کیا ہے کہ ان پلکوں کا زیادہ استعمال کسی بھی بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے لہذا انہیں ہرتھوڑی بعد اتار کر رکھیں تاکہ آنکھ کے اندرونی حصے کو آرام مل سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اہلِ خانہ کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے خاتون لوہار بن گئیں

    اہلِ خانہ کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے خاتون لوہار بن گئیں

    قاہرہ : مصرکی خاتون نے مالی مشکلات سے پریشان ہو کر اپنا آبائی پیشہ لوہار کو اپنا لیا ہے جس کے لیے طاقت اور مضبوط جسم کی ضرورت ہوتی ہے.

    تفصیلات کے مطابق اسماء السید کو سخت مالی مشکلات اور حالات کی ستم ظریفی نے 26 سالہ خاتون کو لوہار کا پیشہ اپنانے پر مجبورکردیا ہے اور مالی بوجھ نہ اُٹھا سکنے والی اسماء اب لوہوں پر بھاری ضربیں لگانے کی مشقت اُٹھا رہی ہیں.

    عرب خبر رساں ایجنسی کے مطابق شمالی مصر کی رہائشی اسماء نے ایک ورک شاپ بنایا ہے جہاں وہ لوہے کے مختلف اوزار ڈھالتی ہیں جس کے لیے انہیں بھاری لوہے کی طاقت ور ضربیں لگانی پڑتی ہیں جو کہ خاتون ہونے کی وجہ سے مشکل ہوجاتا ہے جس کے باعث ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے ہیں اور پٹھوں میں شدید درد رہنے لگا ہے.

    بہادر خاتون کا کہنا تھا کہ آبائی پیشہ ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی اور میرا کام لوگوں کے معیار پر پورا اترا جس سے مجھے حوصلہ ملا اور اب میں اتنا کام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے جس سے اپنے اخراجات اور ضروریات کو احسن طریقے سے نبھا لیتی ہوں جس کے باعث خود کو کافی مطمئن محسوس کرتی ہوں.

    شادی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواہش ضرور ہے لیکن اس کا کوئی ادارہ نہیں ہے کیوں کہ مجھ پر کافی ذمہ داریاں ہیں اور شادی کی وجہ سے میں کام نہیں کرپاؤں گئی اور میرے گاہک بھی ٹوٹ جائیں گے جس سے میرے اہل خانہ دوبارہ مالی مشکلات میں آجائیں گے جو مجھے منظور نہیں.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے مراکش میں گلابی بسیں

    خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے مراکش میں گلابی بسیں

    رباط : مراکش کی حکومت نے دورانِ سفر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے گلابی رنگ کی بسیں سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں افسوسناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی روک تھام کے لیے مختلف تنظیمیوں اور معروف شخصیات نے اپنی آواز بھی بلند کی اور اس گھناؤنے فعل میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

    مراکش حکومت نے ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے گلابی رنگ کی بسوں کو خواتین کےلیے مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دورانِ سفر خواتین بالکل محفوظ طریقے سے سفر کرسکیں۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ پر 17 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات

    وزیرٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ ’گلابی بسوں یا اس سے متعلق دیگر چیزوں کا ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے، جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں بھی رش کے اوقات میں خواتین کو سفر کے لیے مخصوص سیٹیں (بوگیاں) دی جاتی ہیں تاکہ صنفِ نازک کو کوئی ہراساں نہ کرسکے اور وہ ذہنی کوفت و اذیت سے محفوظ رہے‘۔

    مراکش کے میئر محمد صدیقی خواتین کے لیے بسوں کو مختص کرنے کا اعلان پہلے ہی کرچکے ہیں، دو ہفتے قبل انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’خواتین کے خلاف تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں: ہراساں کرنے والے مردوں کو سبق سکھانے والی طالبہ

    حکومتی اعلان کے  بعد مراکش میں دائیں بازو کی جماعتوں نے اس فیصلے کو صنفی امتیاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس اقدام سے معاشرے میں مرد اور عورت کو علیحدہ کرنے کی راہ ہموار ہوگی جس کے مستقبل میں خطرناک نتائج ثابت ہوسکتے ہیں‘۔

    دوسری جانب قدامت پسند اور مذہبی جماعتوں نے حکومت اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس خواتین کے تحفظ کی علامت قرار دیا ہے۔

    منصوبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ گلابی بسوں میں خواتین کے علاوہ کسی کو سفر کی اجازت نہیں ہوگی تاہم 12 سال سے کم عمر بچے اپنی والدہ، بہن یا کسی محرم کے ساتھ سفر کرنے کے مجاز ہوں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہمیشہ خوش رہنے والی خواتین کے کچھ راز

    ہمیشہ خوش رہنے والی خواتین کے کچھ راز

    خواتین کو بہت سے مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اگر وہ ورکنگ وومین ہیں تو انہیں گھر اور باہر دونوں سے نمٹنا ہوگا۔

    زندگی کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو اپنے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو اتنی مصروف زندگی میں بھی اپنا خیال رکھتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔ آئیے آپ بھی ان کے کچھ راز جانیئے کہ وہ کیسے فٹ اور خوش رہتی ہیں۔


    اپنی صبحوں کو خوشگوار بنائیں

    w1

    صبح اٹھ کر ورزش کریں، مراقبہ کریں اور ایک بھرپور ناشتہ کریں۔ اگر آپ کی صبح کا آغاز اچھا ہوگا تو سارا دن اچھا گزرے گا۔


    متوازن غذا کھائیں

    w2

    جنک فوڈ آپ کو بلڈ پریشر سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ جنک فوڈ توانائی میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ جسم کو سست کردیتا ہے۔ ایک بھرپور دن گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پروٹین، سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل غذا اپنائیں۔


    پانی کا استعمال

    w3

    اگر آپ خود کو تھکا ہوا محسوس کر رہی ہیں تو اس کا فوری حل پانی ہے۔ دماغ کی تھکن بعض دفعہ ڈی ہائیڈریشن کا نتیجہ ہوتی ہے لہٰذا کثیر مقدار میں پانی پیئیں۔


    اپنے جسم کی سنیں

    w7

    خوش باش لوگ اپنے جسم کی سنتے ہیں۔ جب ان کا جسم کھانے سے منع کرے تو وہ مزید نہیں کھاتے۔ جب ان کے جسم کو ریلیکس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یوگا کلاس لیتے ہیں۔

    اگر آپ اپنے جسم کی سنیں تو وہ بہت کچھ کہتا ہے جسے سننے کی ضرورت ہے۔


    فٹنس اور صحت پر توجہ دیں

    فیشن اور شاپنگ پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی صحت اور فٹنس پر خرچ کریں۔ یہ آپ کو آخر عمر تک فائدہ دے گی۔


    شکر گزار بنیں

    w6

    زندگی میں موجود نعمتوں کو گنیں اور شکر گزار بنیں۔ اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ ان کے پاس وہ کچھ نہیں جو آپ کے پاس ہے۔ یہ آپ کے اندر شکر گزاری پیدا کرے گی۔


    مسکرائیں


    مسئلے مسائل زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کی وجہ سے مسکرانا مت چھوڑیں۔ ہنسنا مسکرانا دماغ کو سکون پہنچاتا اور زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔

    اسے پڑھنے کے بعد کیا آپ کا شمار بھی ایسی ہی خواتین میں ہوگا جو ہمیشہ خوش رہتی ہیں؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ کا شیمپو کچھ عرصے بعد بالوں کے لیے بے اثر ہوجاتا ہے؟

    کیا آپ کا شیمپو کچھ عرصے بعد بالوں کے لیے بے اثر ہوجاتا ہے؟

    بعض شیمپو بالوں سے ایسی مطابقت رکھتے ہیں کہ انہیں استعمال کرنے کے بعد آپ اپنے بالوں کو شہزادی کے بالوں جیسا محسوس کرنے لگتی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اس شیمپو کی یہ جادوئی خصوصیت کم ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ آپ کے بال پہلے جیسے ہوجاتے ہیں۔

    کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ آپ کے بال اس شیمپو کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر وہ شیمپو پہلے جیسا جادو اثر نہیں رہتا؟

    ایک غیر ملکی ادارے نے مختلف ماہرین سے بات کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ تصور بالکل غلط ہے۔ بال کبھی بھی کسی پروڈکٹ کے ساتھ اس قدر مطابقت نہیں بنا سکتے کہ وہ پروڈکٹ اپنے اثرات کھو دے۔

    ایک غیر ملکی برانڈ کے لیے کام کرنے والی ماڈل سنتھیا الواریز کہتی ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن بہرحال شیمپو اس کی وجہ نہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی شیمپو اپنا اثر کھو دے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ بال اس کے عادی ہوگئے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ بالوں کے لیے حالات ویسے نہ ہوں جیسے پہلی بار استعمال کے وقت تھے۔ یا موسم بدل گیا ہو، یا تو ہوا میں نمی ہوگئی ہو، یا گرمی زیادہ ہو، یا پھر بالکل خشک موسم ہو۔

    ان کا کہنا ہے کہ آپ میں جسمانی طور پر بھی کچھ تبدیلیاں اس کی وجہ ہوسکتی ہیں، خاص طور پر اس دوران اگر آپ نے کسی بیماری کا سامنا کیا ہو۔

    سنتھیا تجویز کرتی ہیں کہ موسم کے مطابق شیمپو کو بھی تبدیل کرنا چاہیئے۔ اگر موسم خشک ہو تو موائسچرائزنگ شیمپو بہتر رہیں گے۔ اسی طرح اگر ہوا میں نمی کا موسم ہو تو ایسے شیمپو ٹھیک رہیں گے جو آپ کے بالوں میں چکناہٹ پیدا ہونے سے روکے۔

    ماہرین کے مطابق شیمپو اور کنڈیشنر کی مقدار کو بھی نظر میں رکھیں۔ کنڈیشنر کا بہت زیادہ استعمال سر کی جلد کی پوروں کو کھول دے گا جس سے بالوں میں چکناہٹ پیدا ہوجائے گی۔

    تو پھر کیا خیال ہے؟ کیا واقعی آپ کا شیمپو اپنا اثر کھو دیتا ہے؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اپنے شہر کی خوشحالی کا اندازہ خواتین کی اونچی ہیل سے لگائیں

    اپنے شہر کی خوشحالی کا اندازہ خواتین کی اونچی ہیل سے لگائیں

    کیا آپ اونچی ایڑھی کے سینڈل استعمال کرتی ہیں؟ اگر ہاں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک امیر شہر میں رہتی ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ایک خوشحال شہر میں رہنے والی خواتین فیشن کے رجحانات کو تیزی سے قبول کرتی ہیں۔ اس کی نسبت جو خواتین کم خوشحال یا پسماندہ شہروں میں رہتی ہیں وہ اپنے پرانے حلیے میں ہی رہنا پسند کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فیشن کے نئے اصول کوکو شنیل سے سیکھیں

    تحقیق میں شامل ایک ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ جتنی زیادہ خواتین کی ہیل اونچی ہوگی اتنا ہی زیادہ وہ شہر خوشحال ہوگا۔ گو کہ کسی شہر کی خوشحالی کو اس پیمانے میں ناپنا عجیب ہے لیکن یہ کلیہ فیشن انڈسٹری کے لیے بالکل درست ہے۔

    تحقیق کے مطابق سماجی رجحانات فیشن کے رجحانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین نے امریکہ کے 180 شہروں میں 5 سال تک اس کا مشاہدہ کیا اور بالآخر نتیجہ نکالا کہ جیسے جیسے خواتین زیادہ خوشحال علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہیں، ویسے ویسے ان کی ہیل کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    اس کے برعکس اپنے آبائی شہر یا علاقے میں وہ آرام دہ جوتے پہننا پسند کرتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کی پہلی سپر ماڈل ۔ رخشندہ خٹک

    پاکستان کی پہلی سپر ماڈل ۔ رخشندہ خٹک

    پاکستان کی پہلی سپر ماڈل مصدقہ طور پر رخشندہ خٹک تھیں۔ 70 کی دہائی میں جب پاکستان میں ایک ڈھکی چھپی فیشن انڈسٹری فروغ پارہی تھی، تب رخشندہ خٹک اپنے بے باک اور منفرد انداز سے سامنے آئیں۔ وہ اس وقت سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل تھیں۔

    رخشندہ برما میں پیدا ہوئیں تھی۔ ان کی والدہ برما سے جبکہ والد پاکستانی تھے۔ انہوں نے 1970 میں حسین جویری سے شادی کی جو پاکستان میں ایک خوشحال تاجر تھے۔ ان کے ماڈلنگ کیریئر کو ان کے شوہر کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔

    sm-1

    رخشندہ کو 5 زبانوں پر عبور حاصل تھا اور وہ پاکستان کی پہلی کراٹے بلیک بیلٹ خاتون تھیں۔ ان کی ماڈلنگ کی تصاویر مختلف انگلش و اردو جرائد میں چھپا کرتی تھیں۔

    انہوں نے 1971 میں ایک فلم ’جین بونڈ 008‘ میں بھی کام کیا جس میں سارے اسٹنٹس انہوں نے خود سرانجام دیے اور دیکھنے والوں کو دنگ کردیا۔

    رخشندہ 1979 میں اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوگئیں اور 2011 میں وہیں ان کا انتقال ہوا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2017: خواتین کے لیے تبدیلی کا سال

    سنہ 2017: خواتین کے لیے تبدیلی کا سال

    سال 2017 میں یوں تو ہر سال کی طرح بے شمار خواتین نے قابل فخر کارنامے انجام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، تاہم اس سال کو خواتین کے لیے تبدیلی کا سال اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پوری دنیا کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسمنٹ کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائی اور پوری دنیا کو اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے پر مجبور کیا۔

    اس سے قبل یہ موضوع ممنوع سمجھا جاتا تھا جس پر بات نہیں کی جاسکتی تھی تاہم جب ہالی ووڈ کی معروف اداکاراؤں نے ہدایتکار ہاروی وائنسٹن پر جنسی ہراسمنٹ کا الزام عائد کیا، اور ان کے ساتھ بے شمار دیگر اداکارؤں نے بھی اپنی آواز بلند کی، تو دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے ’می ٹو‘ نامی مہم کا آغاز ہوگیا جس کے تحت خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات بیان کیے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔

    دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی خواتین

    ہر سال کی طرح اس سال بھی بے شمار پاکستانی خواتین نے مختلف شعبہ جات میں اپنی بہترین قابلیت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منوایا اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام سربلند کیا۔

    آئیے ان خواتین کے بارے میں مختصراً جانتے ہیں۔

    جنوری کی ایک صبح دنیا کی 7 بلند ترین پہاڑی چوٹیاں سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ خیال بیگ کی سربراہی میں 8 حوصلہ مند خواتین نے اب تک سر نہ ہونے والی چوٹی بوئیزم کو سر کیا۔

    شمشال کی در بیگ، فرزانہ فیصل، تخت بی بی، شکیلہ، میرا جبیں، گوہر نگار، حفیظہ بانو اور حمیدہ بی بی نے 17 سو 50 میٹر بلند بوئیزم چوٹی سر کرکے ایک ریکارڈ قائم کردیا۔

    فروری کے ایک روشن دن 16 سالہ انشا افسر دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بن گئی جب اس نے ایک ٹانگ پر برفانی پہاڑوں پر اسکینگ کر کے دنیا کو انگشت بدانداں کردیا۔ انشا سنہ 2005 کے ہولناک زلزلے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھی تھی۔

    پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر ایک روزہ میچز میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کرکٹر بن گئیں۔

    اسی ماہ پاکستانی نژاد حبہ رحمانی نے ناسا میں راکٹ انجینئر کے فرائض انجام دے کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔

    خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شہر قائد میں خواتین کے لیے پہلی بار پیکسی ٹیکسی سروس متعارف کروائی گئی جس میں خاتون ڈرائیورز تھیں اور یہ صرف خواتین مسافروں کے لیے مختص کی گئیں۔

    وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی آمنہ ضمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون سول جج بن گئیں۔

    گوگل کے اشتراک سے شروع ہونے والے بلیک باکس انٹر پرینیور شپ پروگرام کے لیے پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ثنا فاروق کو منتخب کرلیا گیا۔

    پاکستانی نژاد کینیڈین خاتون سبرینہ رحمٰن کو کینیڈا کے بہترین ماہر تعلیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پشاور سرکل میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تعینات کر دیا گیا۔

    خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ یوسف 7 ہزار 27 میٹر بلند اسپانٹک چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما بن گئیں۔

    صحرائے تھر میں جاری کول پاور پلانٹ کے تعمیراتی کام کے لیے تھر کی خواتین کو ہیوی ڈمپرز چلانے کی تربیت دی گئی۔ 2 ماہ کی تربیت کے بعد یہ خواتین میدان عمل میں آئیں اور انہوں نے پہلی بار ہیوی ڈمپرز چلا کر تاریخ قائم کردی۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ کی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ایک اور بین الاقوامی اعزاز آنا پولیتکو فسکایا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    پہلی بار پاکستانی نژاد خاتون شبنم چوہدری کو برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ میں تفتیشی سپریٹنڈنٹ مقرر کردیا گیا۔

    دنیا بھر کی خواتین بھی پیچھے نہ رہیں

    پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے تمام خطوں میں بلند حوصلہ خواتین نے اپنی ہمت اور جدوجہد سے کوئی نہ کوئی کارنامہ سرانجام دے کر اپنی اہمیت منوائی۔

    رواں برس عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں پہلی بار افغانستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے آرکسٹرا زہرا نے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے تمام حاضرین کو مبہوت کردیا۔

    دبئی کی شہزادی موزہ المکتوم شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں۔

    برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس میں 188 سال بعد پہلی بار خاتون چیف پولیس کمشنر کو تعینات کردیا گیا۔

    یوکرین سے تعلق رکھنے والی الیگزینڈرا کیوٹس نامی ایک معذور ماڈل نے پہلی بار ریمپ پر وہیل چیئر کے ساتھ کیٹ واک کر کے ماڈلنگ کے لیے قائم آئیڈیل ماڈل کا تصور اپنی وہیل چیئر کے پہیوں تلے کچل ڈالا۔

    امریکا کی نوعمر مسلمان باکسر عمایہ ظفر کی طویل جدوجہد کے بعد بالآخر اسے امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن نے باحجاب ہو کر کھیل میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔

    شام سے ہجرت کے دوران اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دیگر افراد کی جان بچانے والی 19 سالہ یسریٰ ماردینی کو اقوام متحدہ کا خیر سگالی سفیر مقرر کردیا گیا۔

    افغانستان میں پہلی بار ایک نئے ٹی وی چینل پر کام شروع کیا گیا جس کا زیادہ تر عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ زن (خواتین) ٹی وی افغان معاشرے کی روایتی سوچ کے برعکس صرف خواتین کے لیے قائم کیا جارہا ہے۔

    شامی فوج میں پہلی بار بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فوج کے اس اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔

    مصر کے النور والعمل (روشنی اور امید) نامی 44 نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا نے اپنی معذوری کو پچھاڑ کر جدوجہد کی نئی مثال قائم کی۔

    اینی دیویا نامی بھارتی خاتون صرف 30 سال کی عمر میں بوئنگ 777 طیارہ اڑانے والی دنیا کی کم عمر ترین پائلٹ بن گئیں۔

    شمالی افریقی ملک تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور کرلیا گیا۔ مذکورہ قانون میں خواتین پر تشدد کی جدید اور وسیع تر تعریف کو استعمال کیا گیا جس کے تحت خواتین کے خلاف معاشی، جنسی، سیاسی اور نفسیاتی تشدد کو بھی صنفی تشدد کی قسم قرار دے کر قابل گرفت عمل قرار دیا گیا۔

    تیونس میں اس نئے قانون کی منظوری کے بعد اس سے قبل رائج کثرت ازدواج کا قانون بھی کالعدم ہوگیا جس کی وجہ سے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان فروغ پارہا تھا۔

    امریکی خلاباز پیگی وٹسن نے دنیا کی معمر ترین خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہی نہیں وہ خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز بھی بن گئیں۔

    سنگاپور کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون حلیمہ یعقوب کو صدر منتخب کرلیا گیا۔ حلیمہ اس سے قبل پارلیمنٹ کی اسپیکر بھی رہ چکی ہیں۔

    پولینڈ میں پہلی بار دنیا بھر کی معذور حسیناؤں کا مقابلہ حسن منعقد ہوا جس میں روسی دوشیزہ الیگزینڈرا پہلی مس وہیل چیئر ورلڈ بن گئیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ای کی جانب سے پہلی بارعرب خاتون ریسلر شاہدہ بسیسو کے ساتھ معاہدہ کرلیا گیا۔

    سعودی عرب کے لیے بھی تبدیلی کا سال

    سال 2017 سعودی عرب کے لیے بھی تبدیلی کا سال رہا۔ یہ تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب سعودی شاہی خاندان کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ سعودی عرب کی کمزور ہوتی معیشت کو بچانے کے لیے ہمیں خواتین کو معاشی عمل کا حصہ بنانا ہوگا اور ملک کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

    اس تبدیلی کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب جنوری میں سعودی خواتین گلوکاروں کے ایک گروپ کی میوزک ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے ملک میں رائج ’سرپرستی نظام‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

    فروری میں سعودی عرب کے 2 اہم کاروباری اداروں کے سربراہان کے عہدے پر خواتین کو فائز کیا گیا۔

    ستمبر میں سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے بالآخر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔

    مدینہ منورہ کی بلدیاتی حکومت نے خواتین کی خود مختار شہری کونسل کے قیام کا اعلان کردیا۔

    دسمبر میں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی کے بعد ٹرک اور موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔

    اسی روز پیٹرولنگ اور چیکنگ کے لیے خواتین پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

    چند روز قبل سعودی عرب میں پہلی بار خاتون سفیر کی تعیناتی کی گئی جنہیں بیلجیئم حکومت کی جانب سے منتخب کیا گیا۔

    دنیا کو ہلا دینے والا جنسی اسکینڈل

    رواں سال اکتوبر میں ہالی ووڈ کے معروف ہدایتکار ہاروی وائنسٹن پر 22 معروف اداکاراؤں بشمول انجلینا جولی نے جنسی ہراسمنٹ کا الزام عائد کیا۔ یہ ایسا الزام تھا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ہالی ووڈ میں بھی ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

    ہالی ووڈ اداکاراؤں کے اس الزام کے بعد ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

    ہاروی سے منسلک کئی کمپنیوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا جبکہ اسے آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی جیوری کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

    لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ ہاروی وائنسٹن کے بعد یکے بعد دیگرے کئی افراد بھی اسی الزام کی زد میں آئے اور اداکاراؤں اور عام خواتین نے کئی معروف ناموں پر اپنے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔

    اس ضمن میں ہالی ووڈ ریمبو سلویسٹر اسٹالون کا نام بھی سامنے آیا جن پر ایک مداح نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے کیرئیر کے عروج میں اپنے گارڈ کے ساتھ مل کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    ان تمام افراد کے خلاف تحقیقات اور ان کے نتائج سامنے آنے ابھی باقی ہیں، تاہم اس دوران جنسی ہراسمنٹ کے خلاف مزاحمت کا ایک طوفان پوری دنیا میں کھڑا ہوچکا تھا جس کا آغاز ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ نامی ہیش ٹیگ مہم سے شروع ہوا۔

    اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کے تلخ تجربات بیان کیے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    مندرجہ بالا واقعات کو دیکھتے ہوئے اگر کہا جائے کہ سنہ 2017 خواتین کے لیے تبدیلیوں کا سال ثابت ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں خواتین کے لیے مزید آسانیاں اور سازگار حالات پیدا ہوسکیں گے جس کے بعد وہ بھرپور طور پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں گی۔