Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • حسن کا تعلق پاکستان یا بھارت سے نہیں: مس ورلڈ

    حسن کا تعلق پاکستان یا بھارت سے نہیں: مس ورلڈ

    نئی دہلی: عالمی مقابلہ حسن 2017 میں بھارتی حسینہ مانوشی چھلر نے مس ورلڈ کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ اعزاز جیتنے کے بعد جب وہ واپس وطن پہنچیں تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا تاہم ایک صحافی کی جانب سے پاکستان اور بھارت میں حسن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مانوشی کے جواب نے سب کو خاموش کروا دیا۔

    مانوشی چھلر مس ورلڈ کا اعزاز جیتنے کے بعد وطن واپس پہنچیں تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں کئی تقریبات اور پریس کانفرنسز میں بھی مدعو کیا گیا۔

    ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں مانوشی سے ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے مس ورلڈ بننے کے بعد پاکستان میں بحث شروع ہوگئی ہے کہ بھارت سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں پاکستان میں پائی جاتی ہیں، ’لیکن برقعے میں۔ اس کا آپ کیا جواب دیں گی‘؟

    جواباً مانوشی نے جو کہا وہ مذکورہ صحافی سمیت تمام افراد کو چپ کروا دینے کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے کہا، ’میرا خیال ہے کہ یہ صرف ظاہری خوبصورتی کی بات نہیں ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ مقابلہ حسن میں حصہ لینے والی تمام لڑکیاں نہایت حسین تھیں جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ ’یہ مقابلہ خوبصورت چہرے کا نہیں تھا، خوبصورت دل کا تھا کہ اس کے ذریعے آپ کیسے دوسروں کے کام آسکتے ہیں‘۔

    مانوشی نے کہا کہ دراصل یہ صرف ایک خوبصورت چہرہ ہوتا ہے جو اس خوبصورتی کے ذریعے اچھائی کو فروغ دیتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔

    یاد رہے کہ مانوشی چھلر کلاسیکی رقاصہ اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ یہ اعزاز جیتنے والی چھٹی بھارتی خاتون ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی خاتون کے لیے جاپان کا ثقافتی اعزاز

    پاکستانی خاتون کے لیے جاپان کا ثقافتی اعزاز

    اسلام آباد: دو پاکستانی شہریوں بشمول خاتون کو جاپان کے سال 2017 کے ثقافتی آٹم ڈیکوریشن ایوارڈ سے نوازا گیا جنہوں نے ثقافتوں کے ملاپ کے ذریعے پاکستان اور جاپان کے درمیان تعلقات کی بہتری میں اضافہ کیا۔

    لاہور میں تعینات جاپان کے اعزازی قونصل جنرل نے عامر حسین شیرازی اور روئیدہ کبیر کو اس اعزاز سے نوازا۔

    روئیدہ کبیر پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن کی صدر ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی روابط بہتر کرنے کے لیے کافی عرصے سے کام کر رہی ہیں۔

    اعزاز دینے کی تقریب جاپانی سفارت خانے میں منعقد ہوئی۔

    اس موقع پر جاپانی سفیر تاکاشی کورائی کا کہنا تھا کہ ان دونوں کی معاونت کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی روابط کو فروغ دینا ناممکن تھا۔

    روئیدہ کبیر کو ’دا آرڈر آف دی رائزنگ سن‘ کا بیج جبکہ عامر حسین کو میڈل پہنایا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد خواتین اور دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 خاتون زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہوکر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    تشدد کا شکار خواتین کی حالت زار

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے تحت آج کے روز سے 16 روزہ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کیا جائے گا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    تشدد واقعی ایک معمولی مسئلہ؟

    تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے نصف سے زائد دنیا میں اسے واقعی عام مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید یہ کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

    تشدد سے کیسے بچا جائے؟

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔

    تشدد ہونے سے پہلے اسے روکا جائے۔

    ایک بار تشدد ہونے کے بعد اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

    قوانین، پالیسیوں، دیکھ بھال اور مدد کے ذریعے خواتین کو اس مسئلے سے تحفظ دلایا جائے۔

  • پاک فضائیہ کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار کی دوسری برسی

    پاک فضائیہ کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار کی دوسری برسی

    کراچی : پاک فضائیہ کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار کو جام شہادت نوش کئے دوبرس بیت گئے۔

    پاکستان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار کی دوسری برسی آج منائی جارہی ہے، ، مریم مختیار آج بھی اہل وطن کےدلوں میں زندہ ہیں۔

    مریم مختیار 18مئی 1992ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی، مریم کے والد کرنل (ر) مختیار احمد شیخ پاک فوج میں شامل تھے، ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ملک و قوم کیلئے کچھ کر دکھانے کی امنگ ان میں بچپن سے ہی موجزن تھی۔

    پہلی خاتون فائٹر پائلٹ نے 6 مئی 2011 میں پاکستان ایئر فورس کو جوائن کیا اور 24 ستمبر 2014 کو ایئر فورس سے گریجوایشن مکمل کی، مریم مختیار 132 ویں جی ڈی پائلٹ کورس میں شریک تھیں۔

    مریم مختیار نے پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں فائٹر جیٹ پائلٹ کی تربیت حاصل کی۔

    مریم افواج پاکستان کے نظم و ضبط سے بہت متاثر تھی، مریم کہتی تھی کہ مجھے فوج کی وردی بہت متاثر کرتی تھی، اس لیے میں نے پاکستان ایئر فورس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا، میں کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی، جو معمول کے کاموں سے کچھ ہٹ کر ہو۔

    فلائنگ آفیسر مریم مختیار چوبیس نومبر 2015 کو اپنے انسٹرکٹر، ثاقب عباسی کے ساتھ معمول کی تربیتی پرواز پر تھیں، جب میانوالی کے قریب ان کا طیارہ تیکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوگیا تھا اور مریم مختیار حادثے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جہان فانی سے کوچ کر گئیں تھیں اور پاکستان کی پہلی شہید خاتون پائلٹ کا اعزاز ملا۔

    فائٹر پائلٹ مریم مختار کا شمار لڑاکا طیارے کی ان پانچ خواتین پائلٹس میں ہوتا تھا، جنہیں محاذ جنگ تک جانے کی اجازت تھی۔

    مریم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ دوران ڈیوٹی شہید ہونے والی پاک فضائیہ کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں، انکو تمغۂ بسالت سے بھی نوازا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فیشن کے اصول کوکو شنیل سے سیکھیں

    فیشن کے اصول کوکو شنیل سے سیکھیں

    ہم میں سے اکثر افراد بین الاقوامی برانڈ شنیل کی کاسمیٹکس، پرفیومز، ہینڈ بیگز اور زیورات وغیرہ استعمال کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ اس کی بانی کے بارے میں جانتے ہیں؟

    اگست سنہ 1883 میں پیدا ہونے والی فرانسیسی لڑکی کوکو شنیل اس دور کی عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ ایک عام گھرانے سےتعلق رکھنے والی کوکو نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس دور میں خواتین کے لیے مروجہ فیشن کے قواعد و ضوابط بدل کر اس میں نئی جدت لانے کا سوچا۔

    جنگ عظیم دوئم کے بعد جب اس نے شنیل کی بنیاد ڈالی تو اس نے اپنی پروڈکٹس میں خواتین کے لیے وقار، سادگی، خوبصورتی اور جدید فیشن کا امتزاج متعارف کروایا۔

    اس کا خیال تھا کہ فیشن اور خواتین اس وقت اچھی لگتی ہیں جب ان میں وقار اور نفاست ہو۔ اس کے ڈیزائن کردہ ملبوسات اس کی سوچ کی عکاسی کرتے تھے۔ بہت جلد وہ فرانس کے اعلیٰ طبقے میں مشہور ہوگئی اور لوگ شوق سے اس کا برانڈ استعمال کرنے لگے۔

    کوکو اپنی عام زندگی میں بھی وسیع النظر، ذہین اور تخلیقی ذہنیت کی حامل تھی۔ اپنے برانڈ کے مداحوں کے علاوہ اس کے دوستوں کا ایک بڑا حلقہ احباب تھا جو اسے پسند کرتا تھا۔ وہ اپنے اصولوں کے مطابق جینا پسند کرتی تھی لیکن اس نے کبھی اخلاقی حدود کو پار نہیں کیا۔

    ٹائم میگزین نے اسے 20 ویں صدی کی 100 با اثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔

    آج ہم آپ کو کوکو شنیل کے کچھ اقوال بتانے جارہے ہیں جن میں وہ خواتین کو مضبوط اور باوقار بننے کا مشورہ دیتی ہیں۔ یقیناً یہ اقوال خواتین کی زندگی کو بدلنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

    دنیا کا سب سے بہترین رنگ وہ ہے، جو آپ پر جچتا ہے۔

    فیشن بدل جاتا ہے، مگر اسٹائل ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔

    نفیس اور باوقار لگنے کے لیے ضروری نہیں کہ نیا لباس زیب تن کیا جائے۔

    میری زندگی نے مجھے خوش نہیں کیا، لہٰذا میں نے اپنی پسند کی زندگی تخلیق کر ڈالی۔

    خوبصورتی اور نفاست کی بنیاد سادگی ہے۔

    آپ کے اندر خوبصورتی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ کسی دوسرے کی نقل کیے بغیر اپنا آپ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    فیشن صرف وہ نہیں جو لباس میں ہے، فیشن ہر جگہ موجود ہے، آسمان میں، سڑکوں پر۔ فیشن دراصل نئے آئیڈیاز سوچنے کا نام ہے، آپ اپنے زندگی کیسے گزارتے ہیں، یہ بھی فیشن کی ایک قسم ہے۔

    ایک خاتون جو خوشبویات کا استعمال نہیں کرتی، اس کا کوئی مستقبل نہیں۔

    آپ 30 سال کی عمر میں حسین ہوسکتی ہیں، 40 سال کی عمر میں دلکش ہوسکتی ہیں، اور اپنی بقیہ تمام زندگی کے لیے پرکشش ہوسکتی ہیں۔

    میں فیشن نہیں کرتی، میں خود فیشن ہوں، جو پہنتی ہوں وہ فیشن بن جاتا ہے۔

    کامیابی عموماً ان لوگوں کو ملتی ہے جو نہیں جانتے کہ ناکامی ناگزیر ہے۔

  • اسکاٹ لینڈ یارڈ میں پہلی پاکستانی نژاد خاتون اہلکار

    اسکاٹ لینڈ یارڈ میں پہلی پاکستانی نژاد خاتون اہلکار

    لندن: ایک پاکستانی نژاد خاتون شبنم چوہدری کو برطانوی تفتیشی ایجنسی اسکاٹ لینڈ یارڈ میں تفتیشی سپرنینڈنٹ مقرر کردیا گیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں۔

    شبنم چوہدری 2 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی سے برطانیہ منتقل ہوگئیں تھی۔ انہوں نے سنہ 1989 میں لندن پولیس میں شمولیت اختیار کی۔

    وہ بتاتی ہیں، ’میرے والدین چاہتے تھے کہ میں جلد شادی کرلوں اور سیٹل ہوجاؤں۔ لیکن مجھے اس پر اعتراض تھا چنانچہ میں نے پولیس میں شمولیت اختیار کی، اس وقت بہت کم مسلمان اور ایشیائی لڑکیاں اس شعبے کی طرف جاتی تھیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں کہ جب میرے والدین نے مجھے دیکھا کہ میں جرائم کے خلاف لڑ رہی ہوں اور لوگوں کی مدد کر رہی ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ پر فخر کرنے لگے۔

    شبنم اپنے 28 سالہ پولیس کیریئر میں بہت سے مشکل ٹاسک اور آپریشنز سر انجام دے چکی ہیں جن کے اعتراف میں انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔

    شبنم گزشتہ 6 برسوں سے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے منسلک ہیں اور اب تفتیشی سپرنینڈنٹ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد وہ بے حد خوش ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی خاتون کے لیے کینیڈا کی بہترین ماہر تعلیم کا اعزاز

    وہ کہتی ہیں، ’اپنی نوکری کے دوران مجرموں سے لڑائی کرتے ہوئے میں نے دھکے، لاتیں اور چوٹیں بھی کھائیں، کئی مجرموں نے میرا پیچھا کر کے مجھ پر حملہ بھی کیا۔ لیکن میں نے کبھی اس شعبے کو چھوڑنے کا نہیں سوچا‘۔

    شبنم چاہتی ہیں کہ بیرون ملک رہائش پذیر ایشیائی اور مسلمان لڑکیاں اس شعبے میں بھی آئیں تاکہ مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلے ہوئے نظریات کو تبدیل کیا جا سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لاہور: کباڑیے کی پندرہ سالہ بیٹی کے پینسل اسکیچز نے سب کو حیران کردیا

    لاہور: کباڑیے کی پندرہ سالہ بیٹی کے پینسل اسکیچز نے سب کو حیران کردیا

    لاہور : کباڑ کے کام سے منسلک غریب مزدور کی پندرہ سالہ بیٹی کی مہارت نے سب کوحیران کر دیا۔ انعم چھوٹی سی عمر میں ایسی خوبصورت پینسل اسکیچنگ کرتی ہے کہ سب ہی دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندہ حسن حفیظ کے مطابق لاہور کی 15 سالہ انعم آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے، چھوٹی سی عمر میں انعم پینسل اسکیچ بنانے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہے اور ہر طرح کی تصویر کو انتہائی مہارت سے اسکیچ میں ڈھال دیتی ہے۔

    اے آر وائی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انعم کا کہنا تھا کہ مجھے شروع سے ہی پینسل اسکیچ بنانے کا بے حد شوق ہے، میری خواہش ہے کہ میں اس فن کے ذریعے اپنے والدین کا نام روشن کروں اور اپنے کام میں مزید بہتری لاؤں۔

    اس چھوٹی سی مصورہ کے والد سائیکل پر کباڑ کا کام کرتے ہیں اور دن بھر محلے کا چکر لگا کر اسی روزگار سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

    انعم کے والد کا کہنا تھا کہ میری خواہش اور دعا ہے کہ میری بیٹی اور اچھی تصویریں بنا کر خوب ترقی کرے، اس حوالے سے انعم کے اسکول کی پرنسپل نے اے آر وائی کو بتایا کہ انعم کے والد غربت کے باعث اپنی بچی کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں کرپاتے۔

    اسکول پرنسپل نے انعم کے فن سے متاثر ہوکر اس کے بنائے ہوئے پینسل اسکیچ اسکول کی دیواروں پر چسپاں کیے ہوئے ہیں۔

    ایک کمرے کے گھر میں کرائے پر رہنے والی یہ بچی بغیر کسی سہولیات کے کچی پینسل کے ذریعے اسکیچ بناتی رہتی ہے، خدادا صلاحیتوں سے مالا مال انعم کباڑ کا کام کرنے والے اپنے والد کیلئے واقعی کسی انعام سے کم نہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

     

  • صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    بارش، ساون، برکھا رت، برسات، آنسو، اردو ادب کا جزو لازم ہیں، لیکن یہ آب یعنی پانی صرف اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی جزو لازم ہے کہ جہاں پانی ہے وہاں حیات ہے۔

    خدا کی اس وسیع و عریض کائنات میں زمین اب تک کا وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے، اور پانی ہی کی وجہ سے حیات بھی موجود ہے۔ اب تک سائنس دانوں نے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ان میں اب تک حیات نہ دیکھی جاسکی، ہاں البتہ جہاں پانی کے آثار ملے وہاں صرف ایک امکان ظاہر کیا گیا کہ یہاں حیات موجود ہوسکتی ہے۔

    گویا ہماری زندگی دولت، شہرت، ملازمت اور کامیابی سے بھی زیادہ پانی کی مرہون منت ہے اور حضرت انسان کی عقل دیکھیں کہ پانی کو اس قدر بے دردی سے لٹا رہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، گویا انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا رہا ہے۔

    روز بروز نئی نئی سامنے آتی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جو سنہ 1990 کے بعد سے آبی قلت کا شکار ہونا شروع ہوا ہے تو بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب پاکستان خشک سالی کا شکار ہوجائے گا، اور یہ وقت زیادہ دور بھی نہیں، صرف 8 برس بعد یعنی سنہ 2025 میں۔

    گویا اب ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ پانی کا مستقبل کیا ہے؟ اور چونکہ ہماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں تو ہمارا اور ہماری زندگیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟؟

    یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس مقام پر لانے کی وجہ عرصہ دراز سے حکومتی غفلت ہے جو اگر چاہتیں تو ابتدا سے ہی ڈیمز یا دیگر ذخائر کی صورت میں پانی کو ذخیرہ کر کے رکھ سکتی تھیں۔ پاکستان کوئی بارش یا مون سون کی کمی کا شکار ملک نہیں۔ یہاں بے شمار آبی ذخائر بھی موجود ہیں (جو بدقسمتی سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں) جبکہ ہر سال ہونے والی بارشیں سیلاب بن کر ہمارے نصف انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرجاتی ہیں۔

    لہٰذا آج ہم آپ کو ایک ایسے مقام پر لیے جارہے ہیں جہاں بظاہر حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، اور جب وہاں حکومت نہیں تو حکومتی غفلت بھی نہیں۔ چنانچہ چند مخیر حضرات اور سماجی اداروں کی بدولت اس مقام پر قلت آب کا مسئلہ خاصی حد تک نہ صرف حل ہوچکا ہے، بلکہ ترقی یافتہ شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ جب دلوں میں احساس اور انسانیت سے محبت زندہ ہو تو کس طرح آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

    سندھ کا پیاسا کوہستان

    کوہستان کا نام سنتے ہی ذہن میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع کوہستان در آتا ہے جو آبی ذخائر، قدرتی وسائل، اور خوبصورت فطری نظاروں سے بھرپور ایک حسین مقام ہے۔ جہاں جانے کے بعد خیال آتا ہے، ’گر فردوس بریں بہ روئے زمیں است، ہمیں است ہمیں و ہمیں است‘۔

    لیکن جس کوہستان کی ہم بات کر رہے ہیں وہ صوبہ سندھ کا ایک پیاسا اور بنیادی ضروریات سے محروم گاؤں ہے جہاں وقت ابھی بھی 19 ویں صدی میں ٹہرا ہوا ہے۔

    صوبائی حلقہ بندی میں پی ایس 85 ٹھٹہ 2 کے درمیان کہیں موجود یہ گاؤں پیپلز پارٹی کی رہنما سسی پلیجو کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے مگر گمان یہی ہے کہ سندھ سے پہلی بار انتخابات سے براہ راست فاتح بن کر اسمبلی پہنچنے والی پہلی خاتون سسی پلیجو نے شاید اس گاؤں میں قدم بھی نہ رکھا ہو۔

    ٹھٹہ کی طرف جاتے ہوئے ایک کچا راستہ آپ کو اس صحرا نما گاؤں کی طرف لے جاتا ہے جس کا نام کوہستان ہے۔ جابجا اڑتی خاک سے اٹا ہوا یہ کوہستان اس کوہستان سے بالکل مختلف ہے جہاں کوہ (پہاڑ) ہیں، پانی ہے، ہریالی ہے اور خوشی ہے۔ اس کوہستان میں چہار سو ریت ہے، ویرانی ہے، غربت ہے اور شاید ناامیدی بھی۔

    گو کہ اب یہاں حالات پہلے سے نسبتاً بہتر ہیں، لیکن ہم آپ کو اس زندگی کی ایک جھلک ضرور دکھائیں گے جو یہاں پانی کی ’آمد‘ سے پہلے تھی۔

    صنف نازک کے نازک کاندھوں پر بھاری بوجھ

    جس طرح خالق کائنات نے زندگی کو جنم دینے کی ذمہ داری ہر صورت عورت کو دے رکھی ہے اور چاہے کچھ بھی ہوجائے مرد اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا تو دور اس کا حصہ بھی نہیں بن سکتا، اسی طرح خواتین پر ایک اور خود ساختہ ذمہ داری عائد ہے جو زمین کے خداؤں نے اس پر لازمی قرار دے رکھی ہے۔ اور وہ ذمہ داری ہے پانی بھر کر لانا، چاہے اس کے لیے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔

    اندرون سندھ میں رہنے اور وہاں کے حالات سے واقفیت رکھنے والوں کو یقیناً علم ہوگا کہ سندھ کے گاؤں دیہات میں پانی بھر کر لانا عورتوں کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہے جس سے فرار کسی صورت ممکن نہیں۔ چاہے کوئی بیمار ہو، کمزور ہو یا حاملہ ہو، اسے ہر صورت پانی بھرنے جانا ہے۔

    حتیٰ کہ بعض حاملہ عورتیں پانی بھرنے کے اس سفر کے دوران بچوں کو جنم دیتی ہیں اور تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد پھر سے ہمت باندھ کر اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور اب جب وہ پانی کے مٹکے لے کر گھر پہنچتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک نومولود بچہ بھی ہوتا ہے۔ آخر کو دونوں ’ذمہ داریاں‘ عورت کی ہی ہیں اور ہر صورت اسی کو نبھانی ہیں۔

    مرد اس ذمہ داری سے تو آزاد ہیں ہی، ساتھ ہی خواتین کو یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ مرد بھی کبھی اس مشقت میں ان کا ہاتھ بٹا لیا کریں۔ یعنی وہی بات کہ جب ازل سے لکھا گیا کہ بچہ پیدا کرنا عورت کا کام ہے تو یہ کام کسی مرد سے کیسے کہا جاسکتا ہے، تو یہ ذمہ داری بھی ازل سے عورت پر عائد ہے کہ پانی بھر کر لانا ہے تو اسی نے لانا ہے، ورنہ مرد گھر میں فارغ بھی ہوں گے تو بھی اس کام کے لیے نہیں جائیں گے۔

    یہ سفر دن میں ایک بار نہیں ہوتا۔ اسے کم از کم دن میں 3 بار انجام دینا پڑتا ہے تاکہ اہل خانہ کی پانی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جب چھوٹی بچیاں کچھ وزن اٹھانے کے قابل ہوجاتی ہیں تو انہیں بھی ایک چھوٹا سا برتن پکڑا کر ہم سفر بنا لیا جاتا ہے کہ چلو کم از کم اپنے حصے کا پانی ہی بھر کر لے آئیں گی۔

    سروں پر پانی کے وزنی مٹکے اور ڈرم بھر کر لانے سے خواتین کی جو حالت ہے وہ تو جسمانی ساخت سے عیاں ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی انہیں کئی سنگین طبی مسائل لاحق ہوجاتے ہیں جیسے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا اپنی جگہ سے کھسک جانا، ہڈیوں جوڑوں اور پٹھوں کا درد، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں کمی۔

    ایسے گاؤں دیہاتوں میں خال ہی کوئی عورت خوبصورت بالوں کی مالکہ نظر آئے گی کیونکہ روز اول سے لکھی اس مشقت نے ان کے بالوں کی قربانی لے لی ہے اور بہت کم عمری میں ان کے بال جھڑنا شروع جاتے ہیں۔

    یہ صورتحال کم و بیش سندھ کے ہر اس گاؤں میں نظر آئے گی جہاں آبی ذخائر کی کمی ہے۔

    ضلع ٹھٹھہ کا علاقہ کوہستان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی عورتوں کو چند مٹکے پانی بھرنے کے لیے 3 سے 5 کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور دور دور واقع عارضی ندی نالوں سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ یہ کام دن میں کم از کم 3 بار انجام دیا جاتا ہے۔

    جب وہاں موجود بچیوں کی ڈھیر ساری تعداد کو دیکھ کر سوال کیا گیا کہ کیا یہ بچیاں اسکول نہیں پڑھنے جاتیں؟ تو ان کے والدین کا جواب تھا، ’وقت نہیں ہے جی۔ پڑھنے جائیں گی تو پانی کون بھر کر لائے گا‘۔

    والدین خاص طور پر مردوں کی اکثریت اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی ہے لیکن وہ ایک سماجی ذمہ داری جو ان کی لڑکیوں اور عورتوں پر عائد کردی گئی ہے وہ خود بھی اس کے آگے مجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے نانا، دادا کے خاندان میں کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ جا کر پانی بھرتے نہیں دیکھا، چنانچہ وہ اس خیال کو بھی معیوب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں۔

    اپنی خاندانی روایت کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی نسل کو بھی یہ نہیں سکھایا کہ وہ اپنی ماؤں بہنوں اور بیویوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں، البتہ ان کے خیالات میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے، ’وقت بدل رہا ہے، ہمارے لڑکوں کو اگر خود ہی احساس ہوجائے اور وہ اس مشقت میں اپنی ماں بہنوں کا ہاتھ بٹانے لگیں تو ہم بھلا کیوں روکیں گے‘۔

    اپنے نہ جانے کی وہ ایک تاویل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم پانی بھرنے جائیں تو کام دھندے پر کون جائے گا۔ تاہم ان کی یہ تاویل قابل قبول نہیں تھی کیونکہ اکثر گھروں میں مرد بے روزگار فراغت سے بیٹھے ہوئے تھے یا جابجا سجی ہوئی مردوں کی محفلیں بتارہی تھیں کہ انہیں غم روزگار سے کوئی واسطہ نہیں۔

    تبدیلی کیسے آئی؟

    کہتے ہیں جس کا زمین پر کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔ یہاں حکومتی غفلت بھی ان لوگوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی کہ اگر یہاں حکومتی افراد آ بھی جاتے تو بھی وعدے اور تسلیاں دلاسے دے کر چلے جاتے، کام کبھی نہیں ہونا تھا۔ اس کی مثال گاؤں میں 8 برس قبل لگایا گیا وہ آر او پلانٹ ہے جو تاحال فعال نہ ہوسکا۔

    خیر خدا نے ان پیاسوں پر نظر کرم کی اور ایک سماجی تنظیم کو ان کی مدد کا وسیلہ بنایا جو کسی طرح یہاں آ پہنچی۔

    انڈس ارتھ ٹرسٹ نامی اس تنظیم نے بین الاقوامی مشروب ساز کمپنی کے تعاون سے ’واٹر فار وومین‘ یعنی ’پانی ۔ خواتین کے لیے‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا۔

    جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو خود وہاں کے لوگوں اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے سوال کیا گیا کہ صرف خواتین کے لیے ہی پانی کیوں؟ کیا مردوں کو پانی کی ضرورت نہیں؟ اور ادارے کا جواب تھا، کہ جب پانی بھر کر لانا صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے تو پھر پانی تک رسائی کے لیے کیا جانے والا کام بھی خواتین ہی کے لیے ہوگا۔

    کوہستان میں پانی کا ذریعہ وہ دور دراز واقع تالاب تھے جو بارشوں کے موقع پر بھر جاتے۔ تاہم گرمیوں کی تیز چلچلاتی دھوپ ان تالابوں کو بہت جلد خشک کردیتی۔

    مذکورہ تنظیم نے کوہستان کے 34 گاؤں میں پانی کی فراہمی کا کام کرنے کی ٹھانی۔

    منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کے پانی کو طویل المدتی بنیادوں پر ذخیرہ کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے کوہستان میں موجود 18 بڑے تالابوں کو گہرا کیا گیا تاکہ ان میں زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ ہوسکے۔

    بعد ازاں پانی جمع ہوجانے والے راستوں پر مزید 10 ریزروائرز یا ذخیرہ گاہ بنائے گئے۔ ان ذخیرہ گاہوں کو 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے۔

    اس کے بعد جب مون سون کا موسم آیا اور بارشیں شروع ہوئیں تو کوہستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کی پہاڑیوں سے پانی بہہ کر ان ذخیرہ گاہوں میں جمع ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ تمام ذخائر پانی سے لبا لب بھر گئے۔

    بعد ازاں ان ذخائر کے کناروں پر ہینڈ پمپس بھی لگا دیے گئے تاکہ جب پانی کی سطح نیچی ہوجائے تو خواتین کو پانی بھرنے میں مشکل کا سامنا نہ ہو۔

    انڈس ارتھ اب دیہاتوں کے قریب 20 کے قریب کنویں تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خواتین کو پانی کے حصول کے لیے میلوں کا سفر نہ طے کرنا پڑے۔

    اس تمام عمل سے اب کوہستان پانی کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا ہے جہاں سارا سال پانی دستیاب رہے گا۔ اس پانی سے مستفید ہونے والے 34 دیہاتوں کے 15 ہزار افراد پانی کی فراوانی سے نہایت خوش ہیں اور اب اپنے علاقے میں شجر کاری اور زراعت کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس صحرائی علاقے کے بنجر پن اور خشکی کو کم کیا جاسکے۔

    خواتین کے لیے ایک اور سہولت

    جب انڈس ارتھ ٹرسٹ نے یہاں کام کرنا شروع کیا تو دیگر مخیر افراد کی نظروں میں بھی یہ گاؤں بالآخر آ ہی گیا۔ ایسے ہی ایک مخیر شخص کے تعاون سے یہاں خواتین کی سہولت کے لیے ایک اور شے متعارف کروادی گئی۔

    یہ واٹر وہیلز تھے یعنی پانی کے گیلن جو باآسانی کھینچ کر لائے جاسکتے تھے۔ گاؤں والوں کو بڑی تعداد میں ان کی فراہمی کے بعد اب خواتین کا سروں پر پانی بھر کر لانے کا مسئلہ بھی خاصا حل ہوچکا ہے۔

    عام مٹکوں یا ڈرموں میں ایک سے 2 لیٹر پانی کے برعکس اس واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے جو ایک گھر کی پورے دن کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ گویا خواتین کو دن میں کئی بار سفر کرنے کی اذیت سے بھی نجات مل گئی ہے۔


    یہ سفر جو ایک اداسی اور نا امیدی کا سفر تھا اپنے اختتام پر امید کی بھرپور روشن کرن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گاؤں والوں کے چمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ ان کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب یقیناً وہ اپنی بچیوں کو پڑھنے بھی بھیج سکتے ہیں، اور اپنا وقت بچا کر دیگر صحت مند سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

    گو کہ ان گاؤں والوں کی مدد کے لیے اللہ نے کسی اور کو سیلہ بنا کر بھیجا، لیکن ہم تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک مثال بھی سمجھ سکتے ہیں جس کے بعد کوئی امکان نہیں رہے گا کہ ہماری بارشوں کا پانی سیلاب بنے، ضائع ہو، اور پھر ہم خشک سالی کا شکار ہوجائیں۔

  • دنیاکی سب سے پرکشش خاتون کا اعزاز شام کی ملالہ کے نام

    دنیاکی سب سے پرکشش خاتون کا اعزاز شام کی ملالہ کے نام

    نیویارک : دنیا کی سب سے پرکشش خاتون کا اعزازحاصل کرنا ساری لڑکیوں کا خواب ہوتا ہے لیکن ایک شامی لڑکی کو گلیمرس وومن آف دی ایئر کے ایوارڈ کے اعزازسے نوازا گیا۔

    نیویارک کی سرد شام اور حسیناؤں کے جلوے، نیویارک میں وومن آف دی ایئر ایوارڈز کی تقریب ہوئی، ہالی ووڈ ہو یا تعلیم و صحت سب ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اس دوڑ میں شامل ہوئیں۔

    اتنی حیسناؤں کےجلوؤں میں ایک شامی مسلم لڑکی بھی شامل ہوئی۔

    یہ اٹھارہ سالہ شامی پناہ گزین مزون الملیحان ہیں، جسے شام کی ملالہ کہا جاتا ہے، مزون الملیحان کی شامی بچیوں کےلئے تعلیمی جدوجہد نے شام کا روشن چہرہ دکھایا۔

    مزون کو سال 2017 کی گلیمرس وومن آف دی ایئر کا ایوارڈ ملا۔

    خیال رہے کہ مزون الملیحان یونیسیف کی سب سے کم عمر خیرسگالی سفیر بھی ہے۔

    دوسری جانب اداکارہ نکول کڈمین ، سپر ماڈل جی جی ہدید، فلم ونڈر وومن کی ڈائریکٹر پیٹی جینکنز،آسٹروناٹ پیگی ونسٹن ، ٹاک شو ہوسٹ سمانتھا بی کو بھی گلیمرس وومن ایوارڈ سے نوازا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ اسمبلی میں خواتین سائنسدانوں کی خدمات کے اعتراف میں قرار داد

    سندھ اسمبلی میں خواتین سائنسدانوں کی خدمات کے اعتراف میں قرار داد

    کراچی: سندھ اسمبلی نے ورلڈ سائنس کمیونٹی اور بالخصوص خواتین سائنسدانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صوبے بھر میں سائنس میوزیم قائم کرنے کے لیے قرارداد منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق آج سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی ارم خالد نے قائم مقام اسپیکر شہلا رضا کے سامنے سائنسدانوں کی خدمات کے اعتراف کی قرار داد پیش کی ۔

    قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان ورلڈ سائنس سوسائٹی اور بالخصوص خواتین سائنسدانوں کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے اورصوبے کی فلاح بہبود بالخصوص بچوں کے لیے کیے گئے ان کے کام پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔

    سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبے کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں اسٹیٹ آف دی آرٹ سائنس سنٹرز اورمیوزیم کے قیام کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ۔

    دنیا بدل دینے والی 5 مسلم ایجادات*

    اس ضمن میں منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استدعا کی گئی کہ میوزیم اور سائنس سنٹرز کے قیام کے لیے سائنس سے وابستہ برادری تک رسائی حاصل کرے اور ان سے مدد حاصل کرے۔

    یاد رہے کہ سائنس کے میدان میں انتہائی پیچھے ہونے کے باوجود پاکستان کے کئی سائنسدان دنیا بھر میں اپنی قابلیت کے دم پر شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ بالخصوص خواتین جن میں نرگس ماول والا‘ تسنیم زہرہ اورا بن مارکر کبراجی جیسے نام شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔