Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر عورت نے اپنی نوجوانی میں اپنی بزرگ خواتین سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا، ’جو عورت سسرال میں جتنا زیادہ اور بھاری بھرکم جہیز لے کر جاتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ عزت سے رہتی ہے‘۔

    پرانے زمانوں کی لڑکیاں جب شادی ہو کر گئیں تو انہیں بذات خود اس بات کا تجربہ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اسی سوچ کو انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا شروع کیا۔

    پھر اکیسویں صدی آئی۔ 90 کی دہائی تک پیدا ہونے والوں نے یہ جملہ اپنے بچپن میں ضرور سنا ہوگا تاہم پھر وقت بدلتا گیا، تعلیم سے واقعتاً لوگوں نے شعور بھی حاصل کرنا شروع کردیا۔

    پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے سنا، کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کے تصور کو بدلنے کا سلسلہ چل نکلا کہ بغیر جہیز کے بھی آپ اپنا بیٹا بیاہ سکتے ہیں، آخر اس کی شادی کر رہے ہیں، اسے بھاری بھرکم جہیز کے عوض فروخت تو نہیں کر رہے۔

    گوکہ صورتحال اب پہلی جیسی بدترین اور بدنما تو نہیں رہی، تاہم کم تعلیم یافتہ علاقوں میں آج اکیسویں صدی میں بھی یہ حال ہے کہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔

    تاہم چند روز قبل پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں ایک دورے کے دوران یہ لعنت ایک لازمی رسم کی طرح رائج دیکھنے میں آئی جس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا چند ہزار روپوں کی بے جان اشیا انسانی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟

    مزید پڑھیں: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر نوری آباد سے قبل واقع ایک علاقہ کوہستان، (جی ہاں ایک کوہستان سندھ میں بھی واقع ہے) دور تک پھیلے صحرا پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جہاں سورج اپنی بھرپور تپش کے ساتھ نہایت ہی نامہرباں معلوم ہوتا ہے جب تک کہ آپ کو سر کے اوپر کوئی سایہ دار جگہ میسر نہیں آجاتی۔

    سندھ کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح اس صحرا میں بھی لوگ آباد ہیں۔ دور دور واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کمیونٹیز کی صورت میں، اور بنیادی سہولیات سے بالکل محروم لوگ، جن کی حالت زار دیکھ کر انسانیت پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

    اس علاقے میں 34 کے قریب گاؤں آباد ہیں جن میں سے ایک گاؤں کا نام حاجی شفیع محمد ہے۔ گاؤں والوں نے مہمانوں کے لیے ایک پکا تعمیر کردہ گھر مختص کر رکھا ہے جو پورے گاؤں کا سب سے اعلیٰ تعمیر کردہ مکان تھا۔ خواتین سے بات چیت ہوئی تو وہی اذیت ناک صورتحال سامنے آئی کہ نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ طبی امداد دینے کے نام پر کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری یا ڈاکٹر۔

    ان خواتین کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے ذخیروں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا تھا۔ 3 سے 5 کلو میٹر تک جانا اور پانی کو بڑے بڑے ڈرموں یا برتنوں میں اٹھا کر پھر واپس لانا، اور یہ کام کم از کم دن میں 3 بار انجام دیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

    اندرون سندھ کے علاقوں کے دورے کرنے والے یا وہاں کی رواج و ثقافت کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہی لازمی ہے جیسے بچے پیدا کرنے کا کام مرد کسی صورت نہیں کرسکتا، صرف عورت کر سکتی ہے تو پانی بھر کر لانا بھی صرف عورت کا ہی کام ہے۔

    مرد گھر میں بے کار بھی بیٹھا ہوگا تو کبھی اس طویل سفر میں عورت کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ اسے صدیوں سے یہی بتایا گیا ہے کہ پانی بھر کر لانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔

    ان علاقوں کی کئی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتی ہیں۔ خود ان کی مائیں حتیٰ کہ باپ اور بھائی بھی ان کی اس خواہش سے واقف ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی مجبوری ہے کہ اگر بچیاں اسکول گئیں تو پانی کون بھر کر لائے گا۔ چھوٹی بچیاں ساتھ جا کر کم از کم اپنے حصے کا پانی تو بھر کر لے ہی آتی ہیں۔

    ابھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ نظر مکان کی دیوار سے ساتھ لگے بڑے سے ڈھیر پر جا ٹکی۔ چادر میں چھپائے گئے اس ڈھیر سے کچھ چمکتی ہوئی اشیا باہر جھانکتی دکھائی رہی تھیں۔

    دریافت کرنے پر خواتین نے اس ڈھیر پر سے چادر ہٹا دی۔ یہ ڈھیر سینکڑوں کی تعداد میں خوبصورت کڑھے ہوئے تکیوں، رلیوں (سندھ کی روایتی اوڑھنے والی چیز)، بالوں کی آرائشی اشیا، دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین شیشوں اور دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے خوش رنگ روایتی کڑھائی سے تیار کی گئی اشیا پر مشتمل تھا۔

    ان عورتوں کے پاس ایسا شاندار ہنر موجود ہے، اگر انہیں شہر تک رسائی دی جائے تو ان کی بنائی یہ اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوسکتی ہیں تاہم جب اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو تمام خواتین نے ٹکا سا جواب دے دیا، ’نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں بنائیں‘۔

    تو پھر اس چمکتے ڈھیر کو بنانے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ بظاہر کوئی گھر ایسا نظر نہیں آرہا تھا جہاں اس قسم کی دیدہ زیب اشیا عام استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہوں۔

    دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ تمام سامان لڑکیوں کے جہیز کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    شاد بی بی نامی ایک خاتون نے کچھ تکیے دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہیں بنانے پر 5 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔ ’یہ پیسہ تو ہم اس وقت سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ جب ہمارے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اسے دے ہی کیا سکتے ہیں زندگی بھر، لیکن کم از کم اس کی شادی میں یہ خوبصورت اور قیمتی سامان پر مشتمل تھوڑا بہت جہیز دینا تو ضروری ہے‘۔

    گویا ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک رخصت ہونے والی بیٹی اپنے جہیز میں یہ قیمتی کڑھے ہوئے تکیے اور آرائشی اشیا وغیرہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر آتی ہے۔ مزید کچھ دینے کی استطاعت نہ تو اس کے گھر والوں میں ہے اور نہ اس کے ہونے والے شوہر کی جھونپڑی میں اتنی جگہ کہ وہ شہری جہیز یعنی ٹی وی، فریج، اے سی وغیرہ کی ڈیمانڈ کرسکے یا انہیں رکھ سکے۔

    یہ جہیز شادی کے بعد بمشکل 1 سے 2 ہفتے تک دلہن کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کی ساس تمام گاؤں والوں کو جمع کر کے انہیں دکھاتی ہے کہ ’ہماری نوہنہ (بہو) یہ جہیز لائی ہے‘۔ نفاست اور خوبصورتی سے کڑھے ان تکیوں اور رلیوں پر کبھی داد و تحسین دی جاتی ہے کبھی اس میں بھی خامیاں نکالی جاتی ہیں۔

    دو ہفتے تک دلہن کو اس کی زندگی میں نئی تبدیلی ہونے کا احساس دلاتی یہ اشیا بالآخر اس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں جب دلہن پہلے کی طرح اپنے سر پر بڑے بڑے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے سفر پر نکلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاتی تھی، اب اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ جاتی ہے۔

    اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کیے جانے والے پیسوں اور ان سے بنائی گئی یہ قیمتی اشیا خراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں جھونپڑی کے ایک کونے میں ایک ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا ہے اور اسے گرد و غبار سے بچانے کے لیے اس پر چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔

    ہمارے شہروں میں دیا جانے والا جہیز کم از کم استعمال تو ہوتا ہے۔ یہ جہیز تو زندگی بھر یوں ہی رکھا رہتا ہے کیونکہ بدنصیب عورتوں کو اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ اسے استعمال کرسکیں۔

    ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دن میں 3 بار پانی بھر کر لانا ہے اور دن کے آخر میں جب وہ رات کو تھک کر بیٹھتی ہیں تو ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی محنت اور ماؤں کی چاہت سے بنائے گئے جہیز کو چادر ہٹا کر ایک نظر دیکھ لیں، اور خوش ہولیں۔

    اور ہاں یہ جہیز نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا، بلکہ ہر نئی بیٹی پیدا ہونے پر اس کے والدین پھر سے پیسہ جوڑنا اور یہ اشیا بنانا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں۔

    نسل در نسل سے بیٹی کو تعلیم دینے کے بجائے اسے بے مقصد اور ناقابل استعمال جہیز دینے والے ان بے بسوں کی زندگی شاید اس وقت بدل جائے جب انہیں پانی بھرنے کے طویل سفر کی مشقت سے چھٹکارہ مل جائے، لیکن وہ وقت کب آئے گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

  • مریم نسیم نے آسٹریلیا میں پاور لفٹنگ مقابلوں میں میڈل جیت لیا

    مریم نسیم نے آسٹریلیا میں پاور لفٹنگ مقابلوں میں میڈل جیت لیا

    پشاور : پاکستانی ایتھلیٹ مریم نسیم نے آسٹریلیا میں پاور لفٹنگ مقابلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیئے، مقابلے میں سلور میڈل کا تمغہ سجا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والی مریم نسیم نے آسٹریلیا میں ہونے والے ستاون کلو گرام کیٹگری مقابلے میں سلور میڈل جیت کر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر دیا۔

    اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میڈل کے حصول کے لیے سخت محنت کی، کامیابی والدین کی دعاؤں سے ممکن ہوئی۔

    مریم نسیم نے مزید کہا کہ دوستوں کے مشورے اور حوصلہ افزائی سے آج اس مقام پر ہوں، یہ میرا پہلا کارنامہ تھا ابھی میرے لیے بہت چیلنجز ہیں،میں مستقبل میں پاکستان کا نام مزید روشن کرنا چاہتی ہوں۔

  • بریسٹ کینسر: تیزی سے فروغ پاتا مرض

    بریسٹ کینسر: تیزی سے فروغ پاتا مرض

    چھاتی کا سرطان یا بریسٹ کینسر خواتین کو اپنا شکار بنانے والا مرض ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق رواں عشرے میں اس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ مرض بڑی عمر کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں تک کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کو بریسٹ کینسر سے آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے جسے بریسٹ کینسر کی علامت گلابی ربن کی نسبت سے پنک ٹوبر کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے لیے فیصل مسجد گلابی رنگوں سے روشن

    حال ہی میں جاری کردہ ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے براعظم ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے اور ہر 9 میں سے 1 خاتون عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اس کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار خواتین اس مرض کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

    لیکن یاد رہے کہ اگر اس مرض کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرلی جائے تو یہ قابل علاج ہے اور اس سے متاثرہ خاتون علاج کے بعد ایک بھرپور زندگی جی سکتی ہے۔

    بریسٹ کینسر کی آگاہی کے حوالے سے اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر ماہرین سے گفتگو کی اور مرض کی وجوہات اور علاج کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

    بریسٹ کینسر کے حوالے سے بنیادی معلومات

    چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کے بارے میں جاننے کے لیے سب سے پہلے ان بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

    اس سرطان کی سب سے بڑی وجہ ہارمونل تبدیلیاں ہیں، لہٰذا ماہانہ ایام میں کسی بھی قسم کی بے قاعدگی اور غیر معمولی کیفیات یا چھاتی کے ارد گرد کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی کینسر کا ابتدائی اشارہ ہوسکتی ہے، لہٰذا انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بریسٹ کینسر کا امکان 45 برس کی عمر کے بعد بڑھ جاتا ہے جب مینو پاز کا دور شروع ہوجاتا ہے یعنی ماہانہ ایام آنے بند ہوجاتے ہیں۔

    چھاتی کے کینسر کے اسپیشلسٹ کو اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ اونکولوجسٹ مرض کی تشخیص، چیک اپ اور علاج بذریعہ دوا کر سکتا ہے۔ کسی بھی سرجری یا آپریشن کی صورت میں اس کینسر کے سرجن الگ ہوتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے کروایا جانے والا ٹیسٹ میمو گرافی کہلاتا ہے۔

    بریسٹ کینسر کی علامات

    چھاتی کے سرطان کی سب سے بڑی علامت تو اوپر بیان کردی گئی ہے یعنی ماہانہ ایام میں بے قاعدگی یا تبدیلی، اور چھاتی کے ارد گرد کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی چھاتی کے کینسر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں اس کی مزید علامات یہ ہیں۔

    ماہانہ ایام کے دنوں میں یا اس سے قبل چھاتی میں درد محسوس ہونا

    ہر وقت تھکاوٹ

    نظام ہضم میں گڑبڑ

    مزاج میں تبدیلی

    مندرجہ بالا کیفیات ہارمونل تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور یہ بریسٹ کینسر سمیت کسی بھی مرض کی علامت جیسے ذیابیطس یا کسی اور کینسر کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔

    خاص طورپر توجہ دینے والی علامات

    بریسٹ کینسر کی طرف واضح اشارہ کرنے والی علامات یہ ہیں۔

    جسم کے مختلف حصوں یا سر میں درد رہنا۔

    وزن کا بڑھنا۔

    چھاتی یا بغل میں گلٹی اور اس میں درد محسوس ہونا۔

    چھاتی کی شکل اور ساخت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی آنا۔

    دونوں چھاتیوں کے درمیان کسی بھی قسم کا فرق۔

    چھاتی کی جلد میں جھریاں یا گڑھے پڑنا۔

    چھاتی کی جلد پر کسی باریک تہہ کا بننا۔

    بغل اور بازوؤں کے اوپری حصے میں درد بھی اس کی علامت ہوسکتا ہے۔

    چھاتی، بغل یا بازوؤں کے اوپری حصوں پر زخم بن جانا اور ان سے مواد بہنا۔

    چھاتی کی پستان سے مواد کا بہنا یا تکلیف ہونا۔

    کیا بریسٹ کینسر جان لیوا ہے؟

    ایک عام خیال پایا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار خواتین یا تو جان کی بازی ہار جاتی ہیں یا پھر کینسر کو ختم کرنے کے لیے ان کی کینسر کا شکار چھاتی کو سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے جس کے بعد ان کا جسم عیب دار ہوجاتا ہے۔

    تاہم اس سلسلے میں جامشورو کے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی (نمرا) کے ڈائریکٹر اور معروف اونکولوجسٹ ڈاکٹر نعیم لغاری اور ضیا الدین اسپتال کی بریسٹ کینسر سرجن ڈاکٹر لبنیٰ مشتاق نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور اس مرض اور اس کے طریقہ علاج کے بارے میں آگاہی دی۔

    میمو گرافی یا الٹرا ساؤنڈ؟

    ڈاکٹر نعیم لغاری کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر کی شرح صرف بڑی عمر کی خواتین میں ہی نہیں بلکہ نوعمر لڑکیوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ کم عمر لڑکیوں کی میمو گرافی نہیں کی جاتی بلکہ ان کا الٹرا ساؤنڈ کیا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق’ سب سے پہلے بریسٹ کینسر کا سبب بن سکنے والی اولین وجہ یعنی گلٹی کا بذریعہ الٹرا ساؤنڈ جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ یہ نہایت بے ضرر ہوتی ہے اور دواؤں سے ختم ہوجاتی ہے، بعض دفعہ اسے معمولی نوعیت کے آپریشن کے ذریعے جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔ ہاں اگر اس گلٹی کے کینسر زدہ گلٹی میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہو تو گلٹی کے ساتھ چھاتی کا کچھ حصہ بھی نکال دیا جاتا ہے تاکہ اس سے متاثر ہونے والے آس پاس کے خلیات اور ٹشوز بھی جسم سے باہر نکل جائیں‘۔

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق کینسر ہوجانے کی صورت میں بھی پوری چھاتی کو نہیں نکالا جاتا بلکہ چھاتی کا صرف اتنا حصہ بذریعہ سرجری نکال دیا جاتا ہے جو کینسر زدہ ہوتا ہے۔

    بریسٹ کینسر کے مختلف اسٹیج

    ضیا الدین اسپتال کی سرجن ڈاکٹر لبنیٰ مشتاق کے مطابق بریسٹ کینسر کے 4 اسٹیجز یا مرحلے ہوتے ہیں جنہیں ٹی این ایم یعنی ٹیومر نوڈز میٹاسس کہا جاتا ہے۔

    پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ چھاتی میں موجود ہر گلٹی کینسر زدہ نہیں ہوتی۔ بعض گلٹیاں معمولی اقسام کی بھی ہوتی ہیں جو دواؤں یا سرجری کے ذریعے جسم سے علیحدہ کردی جاتی ہیں۔

    چھاتی میں موجود وہ گلٹی جو کینسر زدہ ہو طبی زبان میں ٹی 1، ٹی 2، ٹی 3 یا ٹی 4 کہلائی جاتی ہے۔ ٹی ٹیومر کے سائز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2 سینٹی میٹر یا اس سے چھوٹی گلٹی ٹی 1، 2 سے 5 سینٹی میٹر کے درمیان گلٹی ٹی 2، جبکہ 5 سینٹی میٹر سے مزید بڑی گلٹی ٹی 3 کے زمرے میں آتی ہے۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق کینسر زدہ گلٹی ہونے کی صورت میں سرجری اور کیمو تھراپی تمام اقسام کے اسٹیجز میں علاج کا حصہ ہیں۔ پہلے یا دوسرے اسٹیج پر بھی اسے سرجری کے ذریعے نہ صرف نکالا جاتا ہے بلکہ بعد ازاں مریض کی کیمو تھراپی بھی کی جاتی ہے۔

    تیسرے اسٹیج میں کینسر چھاتی کے علاوہ آس پاس کے اعضا کے خلیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق کینسر کا چوتھا اسٹیج وہ ہوتا ہے جس میں کینسر کے خلیات جسم کے اہم اعضا جیسے جگر، پھیپھڑے، ہڈیوں یا دماغ تک پھیل جاتے ہیں۔

    اس میں ڈاکٹرز صرف مرض کو ایک حد تک محدود رہنے، اور مریض کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے دوائیں دے سکتے ہیں تاہم یہ کینسر جڑ سے نہیں نکالا جاسکتا۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کا کہنا تھا کہ چوتھے اسٹیج کے کینسر میں بھی لوگ سالوں تک جی سکتے ہیں تاہم اس کے لیے مضبوط قوت مدافعت اور زندگی جینے کی امنگ ہونا ضروری ہے۔ کمزور قوت مدافعت کے مالک افراد یا زندگی سے مایوس ہوجانے والے عموماً اس اسٹیج پر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر کی عمومی وجوہات

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق بریسٹ کینسر کی سب سے پہلی وجہ تو عورت ہونا ہے کیونکہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح کہیں زیادہ ہے۔

    بریسٹ کینسر کا سبب بننے والی دیگر وجوہات یہ ہیں۔

    دیر سے شادی ہونا۔

    اولاد نہ ہونا یا 30 سال کی عمر کے بعد ہونا۔

    بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا۔

    مینو پاز یا برتھ کنٹرول کے لیے کھائی جانے والی دوائیں بھی بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر رہا ہو تو عموماً یہ مرض آگے کی نسلوں میں بھی منتقل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ جن خواتین کی خاندانی تاریخ میں بریسٹ کینسر ہو انہیں بہت زیادہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کر کے اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکے۔

    بہت زیادہ چکنائی والی غذائیں کھانا۔ ڈاکٹر نعیم کے مطابق غیر صحت مند چکنائی اور جنک فوڈ ہمارے جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھاتا ہے جو جسم کے اندرونی نظام کو درہم برہم کر کے بریسٹ کینسر سمیت متعدد اقسام کے کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    بریسٹ کینسر جان لیوا کیوں بنتا ہے؟

    ایک تحقیق کے مطابق چھاتی کے سرطان کو اگر ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرلیا جائے تو مریض کے صحت یاب ہونے کا امکانات 90 فیصد تک ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر نعیم کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ ’یہ ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے جس پر خواتین بات کرنے سے شرماتی اور گریز کرتی ہیں لہٰذا وہ اپنی تکالیف کو برداشت کرتی رہتی ہیں اور جب حالت خراب ہونے پر انہیں اسپتال لایا جاتا ہے تو ان کا مرض آخری اسٹیج میں داخل ہوچکا ہوتا ہے‘۔

    بعض پسماندہ علاقوں کی خواتین اگر مردوں کو بتا کر ڈاکٹر کے پاس جانے کا مطالبہ کر بھی لیں تو مرد حضرات اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے گریز کرتے ہیں اور خواتین ڈاکٹرز کی تلاش کی جاتی ہے جو نہایت کم ہیں۔

    ان کے مطابق ان کے پاس میمو گرافی ٹیسٹ کے لیے آنے والی خواتین یا تو خود تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خود مختار ہوتی ہیں یا پھر ان کے مرد تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تب ہی وہ اس مرض کی خطرناکی کو سمجھ کر اس کے علاج کے لیے آتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر نفسیاتی مسائل کا بھی سبب

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق بریسٹ کو خواتین کی خوبصورتی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا سرجری کے بعد جب ان کی چھاتی یا اس کا کچھ حصہ جسم سے نکال دیا جاتا ہے تو خواتین اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتی ہیں اور نفسیاتی مسائل خصوصاً احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق بریسٹ کینسر کی سرجری سے گزرنے والی خواتین کی ذہنی کونسلنگ کے لیے ماہر نفسیات بھی مریضہ کا علاج کرنے والی ٹیم کا حصہ ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں کچھ خواتین اس عیب کو چھپانے کے لیے مصنوعی چھاتی کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس صورت میں مصنوعی چھاتی امپلانٹ بھی کی جاتی ہے جو جسم کے لیے کسی بھی صورت مضر نہیں ہوتی۔ سرجریوں سے گھبرائی ہوئی خواتین مزید ایک اور سرجری سے بچنے کے لیے ایسی مصنوعی چھاتی کا استعمال کرتی ہیں جو لباس کے ساتھ استعمال کی جاسکے۔

    مردوں میں بریسٹ کینسر

    شاید آپ کو علم نہ ہو لیکن بریسٹ کینسر کا امکان مردوں میں بھی ہوتا ہے تاہم اس کی شرح بے حد کم ہے۔ بریسٹ کینسر چونکہ ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے نمو پاتا ہے لہٰذا یہ تبدیلیاں مردوں میں بھی ہوسکتی ہیں جو ان میں بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 ہزار مردوں میں سے صرف 1 مرد کو بریسٹ کینسر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

    بریسٹ کینسر سے بچنے کی احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق یوں تو بریسٹ کینسر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے تاہم بعض اوقات احتیاطی تدابیر بھی اس مرض کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کھلے اور ڈھیلے لباس استعمال کریں۔ بہت زیادہ فٹنگ والے لباس چھاتی پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

    گہرے رنگوں خصوصاً سیاہ رنگ کے زیر جامہ کو استعمال نہ کریں۔ گہرا رنگ سورج کی تابکار روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے چھاتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    رات سونے سے قبل زیر جامہ اتار دیں۔ رات میں بھی زیر جامہ کا استعمال چھاتیوں تک آکسیجن نہیں پہنچنے دیتا جبکہ سانس لینے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

    اپنے بچوں کو 2 سال کی عمر تک اپنا دودھ پلانا بریسٹ کینسر سے خاصی حد تک تحفظ دے سکتا ہے۔

    متوازن اور صحت مند غذائیں جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، مچھلی اور انڈے وغیرہ کا استعمال کریں۔ جتنا ممکن ہو جنک فوڈ سے پرہیز کریں۔

    صحت مند طرز زندگی اپنائیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ ایسی ورزش جس سے پورا جسم حرکت میں آئے ہفتے میں 2 سے 3 بار لازمی کریں۔

  • روسی حسینہ کا کیٹ واک کے دوران انتقال

    روسی حسینہ کا کیٹ واک کے دوران انتقال

    بیجنگ: روس سے تعلق رکھنے والی جواں سال ماڈل چین میں کیٹ واک کے دوران انتقال کر گئیں.

    تفصیلات کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ بیجنگ میں منعقد ہونے والے فیش شو کے دوران پیش آیا جب 14 سالہ روسی ماڈل ولادا ڈزیوبا اسٹیج پر کیٹ واک کر رہی تھیں کہ اچانک چکرا کر گر گئی.

    خوبرو ماڈل کو قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دو دن تک کوما میں رہنے کے بعد آج جہان فانی سے کوچ کر گئیں ان کی میت کو ضروری کارروائی کے بعد روس میں واقع اُن کے آبائی گاؤں روانہ کردیا جائے گا.

    اسپتال انتطامیہ کا کہنا ہے کہ کم سن خوبصورت ماڈل حد درجہ کام، ،تناؤ، نیند پوری نہ ہونا اور نامناسب خوراک کے باعث نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھیں اور اسی کشمکش اور نقاہت کے باعث چکر کر اسٹیج پر گر گئیں اور پھر جانبر نہ ہو سکیں.

    خیال رہے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ ماڈل نے مالی بحران پر قابو پانے اور والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے گزشتہ ماہ ہی چین کی ایک ماڈلنگ ایجنسی سے تین مہینے کامعاہدہ کیا تھا اور اسی سلسلے میں وہ بیجنگ میں مقیم تھیں.

    کرکے بیجنگ میں منعقدہ فیشن شو سے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا تھا، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی روسی ماڈل نے مالی بحران کے باعث خاندان کی کفیل بن کر ماڈلنگ کی چکاچوند دنیا میں قدم رکھا تھا.

    ولادا ڈزیوبا کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک ماہ سے ایک ماڈل ایجنسی کے یہاں ملازم تھی جہاں وہ مسلسل دن و رات کام کر رہی تھی اور جب بھی فون کال کرتی تو استطاعت سے بڑھ کر کام لینے اور اپنی خرابی صحت کے باعث پریشان محسوس ہوتی تھی اور دل برداشتہ ہو کر رونے لگتی.

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ماڈل کی موت کے بعد پتہ چلا کہ مذکورہ کمپنی نے نہ تو میڈیکل انشورنس دیا اور نہ علاج کرانے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر کی جب کہ معاہدے کے برخلاف ماڈل سے تین گھنٹے کے بجائے 14 گھنٹے کام لیا جاتا تھا.

    پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرتے ہوئے ابتدائی شواہد کی روشنی میں تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور مذکورہ ایجنسی سے معاہدے کے متعلق پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ماڈل کے والدین کو قانونی چارہ جوئی کے لیے چین آنے کی دعوت بھی دی گئی ہے.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • نسخہ کو مسجد الحرام میں رکھوایا جائے، ہاتھ سے قرآن لکھنے والی عمارہ کی خواہش

    نسخہ کو مسجد الحرام میں رکھوایا جائے، ہاتھ سے قرآن لکھنے والی عمارہ کی خواہش

    راولپنڈی : قرآن کریم کی محبت سے سرشار راولپنڈی کی رہائشی عمارہ نے ہاتھ سے خوبصورت انداز میں کتاب الہٰی لکھ کر اہم کارنامہ انجام دے دیا، ان کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ میرا یہ نسخہ مسجد الحرام میں رکھوایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق دور جدید میں قرآن پاک کی اشاعت کا کام مشینوں سے لیا جاتا ہے مگر راولپنڈی کی رہائشی ایک عاشق قرآن لڑکی ایسی بھی ہے جس کی قرآ ن پاک پڑھ کر عقیدت کی پیاس نہ بجھی تو اسے ہاتھ سے تحریر کرکے اپنے دل کو قرآن پاک کی محبت سے منور کرلیا۔

    مدینے جانے کی تڑپ اور آرزو میں مقدس کلام سے عقیدت کی انتہا کرنے والی عمارہ افشین نے قرآن کی رفعت و عظمت کو ایک سال کی صبر آزما محنت کے بعد اپنے ہاتھوں کی لکھائی سے اس قدر خوبصورت اور دلکش انداز سے تحریرکیا کہ لازوال کلام لاجواب قرآنی نسخہ بن گیا۔

    عمارہ نے ایک سال کے عرصے میں قرآن پاک کا یہ نسخہ تحریر کیا، مقدس کلام پاک سے محبت عمارہ افشین کے دل کے کیف و سرور کا ایسا باعث بنی کہ انہوں نے ہر سپارے کا منفرد رنگ اور ہر سورۃ کا دلکش انداز سے آغاز کیا۔

    قرآنی نسخہ میں عمارہ نے موتیوں کی طرح تحریر اور الفاظ پر اعراب لگانے کا کام بھی انتہائی نفاست اور باریک بینی سے کیا ہے، عمارہ کی خواہش ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرے اور قرآن حکیم کا یہ شاہکار مسجد الحرام میں رکھوایا جائے۔

    یاد رہے کہ عمارہ افشین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں میڈل اور سرٹیفکیٹ سمیت خانہ کعبہ کا غلاف مبارک بھی بطور تحفہ مل چکا ہے۔

  • بھارتی نوجوان کا منیبہ مزاری کو انوکھا خراج تحسین

    بھارتی نوجوان کا منیبہ مزاری کو انوکھا خراج تحسین

    معروف مصورہ اور اقوام متحدہ پاکستان کی خیر سگالی سفیر منیبہ مزاری ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ معذوری کے باوجود بلند اور قد آور شخصیت کی مالک اس خوبصورت فنکارہ نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا وہیں وہ ایک بھارتی لڑکے کی زندگی بھی تبدیل کرنے کا باعث بن گئیں۔

    گو کہ انہیں روز ہی ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں مختلف پریشانیوں کا شکار لوگ انہیں بتاتے ہیں کہ منیبہ کی جدوجہد نے انہیں بہت متاثر کیا اور انہوں نے نئے حوصلے سے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔

    تاہم ایک بھارتی نوجوان نے نہایت انوکھے انداز میں منیبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

    بھارتی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے اپنی اسکوٹی پر منیبہ کی تصویر چپساں کی اور منیبہ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی کہانی سننے اور ویڈیو دیکھنے کے بعد میری زندگی بالکل تبدیل ہوگئی ہے۔

    اس نے اعتراف کیا کہ منیبہ کے حوصلہ افزا الفاظ نے اس کی ہمت بندھائی اور اس نے خود سے محبت شروع کردی۔

    جواب میں منیبہ نے نوجوان کے لیے بے حد خوشی، محبت اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

    یاد رہے کہ منیبہ مزاری مصورہ اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیا کی وہ پہلی خاتون ٹی وی میزبان ہیں جنہوں نے پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے پروگرام کی میزبانی کی۔

    وہ رواں برس برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی 100 متاثر کن خواتین کی فہرست میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہیں جبکہ سنہ 2015 میں اقوام متحدہ پاکستان نے انہیں اپنا خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا۔

    منیبہ ایک قدامت پسند بلوچ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور صرف 18 برس کی عمر ان کی شادی کردی گئی۔ 9 سال قبل ایک ٹریفک حادثے میں وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کا باعث وہیل چیئر تک محدود ہوگئیں اور اسی باعث ان کے شوہر نے بھی ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    تاہم منیبہ نے اپنے عزم اور حوصلے سے نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا اور معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو کاٹے جانے کے خلاف اسلام آباد کے شہری خصوصاً خواتین ریڈ زون میں جمع ہوگئیں اور درختوں کی کٹائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ درختوں کی کٹائی کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’مجھے کیوں کاٹا‘ کا ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو بے دردی سے کاٹ دیا گیا جس کے خلاف خواتین بڑی تعداد میں ریڈ زون میں جمع ہوگئیں۔

    مظاہرین میں سماجی کارکنان، مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام شہری بھی شامل تھے۔

    احتجاج سے قبل تمام مظاہرین اسلام آباد پریس کلب میں جمع ہوئے اور دارالحکومت میں ہونے والی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھرپور احتجاج کا عزم ظاہر کیا۔

    پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور ماہر ماحولیات اور سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم نے بھی شرکت کی۔

    احتجاج کے دوران خواتین نے ٹوٹے درختوں کی جگہ باقی رہ جانی والی جھاڑیوں کو تھام کر افسوس کا ظہار کیا۔

    باقی رہ جانے والے درختوں پر سرخ ربن کے ساتھ مختلف کارڈز بھی منسلک کیے گئے جن پر لکھا تھا، ’انہوں نے اسلام آباد کو گنجا کر ڈالا‘، ’میں تو انسان دوست ہوں مجھے کیوں کاٹا‘۔

    اس احتجاجی مہم کا نام ’ایمبسی روڈ کے درختوں کی فریاد ۔ مجھے کیوں کاٹا‘ رکھا گیا جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بے حد مقبول ہوگیا اور نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے درختوں کی کٹائی کے خلاف برہمی کا اظہار کیا۔

    دارالحکومت کی خواتین کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی درختوں کو بے دردی سے کاٹے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گی، اور انہیں امید ہے کہ مرد حضرات بھی ان کا ساتھ دیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا کے سالانہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار اس بار ایک بنگلہ دیشی نژاد طالبہ کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بہترین ایجاد کی۔

    امریکی پروفیسر رابرٹ ایچ گوڈرڈ کے نام پر قائم ناسا کے پروگرام گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹرز انٹرنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی آر اے ڈی) میں بنگلہ دیشی نژاد انجینئر محمودہ سلطانہ کو سال کے بہترین تخلیق کار کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    سلطانہ نے خلا میں مزید بہتر طریقے سے کام کرنے والے نینو مٹیریلز اور ڈیٹیکرز بنانے کا تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور سلطانہ کو اس اعلیٰ اعزاز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے گوڈرڈ کے چیف ٹیکنالوجسٹ نے سلطانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ ایک بہترین تکنیکی و تخلیقی ذہن کی مالک اور متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ اس کم عمر طالبہ کی کامیابی سے نہایت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سلطانہ مستقبل میں مزید کارنامے سر انجام دے گی۔

    سلطانہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں، ’جب ہم اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے تو سب کے پاس نہایت اچھوتے آئیڈیاز تھے جو باہر کی دنیا کے افراد کے لیے نہایت انوکھے اور ناقابل عمل تھے۔ لیکن سب نے اپنے تخیلات و تصورات پر کام کیا اور سب ہی اس میں کامیاب ہوئے‘۔

    محمودہ سلطانہ اس وقت دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ساتھ بھی طبیعات کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    سلطانہ نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کیلی فورنیا میں مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی سے ہی کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی بھی کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان اور خصوصاً شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم سرگودھا کی 10 سالہ غیر معمولی بچی اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ زیمل عمر نے صرف 6 سال کی عمر میں اپنے ارد گرد موجود گندگی اور کچرے کو دیکھ کر بے زاری اور کراہیت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔

    آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف اس کے علاقے یا شہر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اور تب ہی اس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کچرے کے ڈھیر کی صفائی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر کچرے کی نئی تہہ

    ننھی سی زیمل کو یہ معلومات بھی بہت جلد ہوگئیں کہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھینکا جانے والا کچرا ہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا اور یہی بڑے پیمانے پر کچرا پھیلانے کا سبب بنتا ہیں۔

    وہ کہتی تھی، ’لوگ ان کا بہت بے دردی کے ساتھ استعمال کر کے انہیں پھینک دیتے ہیں اور انہیں دوبارہ استعمال کرنے کا نہیں سوچتے‘۔

    زیمل کے ننھے ذہن نے اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کا حل سوچنا شروع کیا اور تب ہی اس کے ذہن میں پرانے اخبارات کا خیال آیا۔

    آپ جانتے ہوں گے کہ کاغذ درختوں سے حاصل کی جانے والی گوند سے بنتے ہیں اور اخبارات کے لیے استعمال ہونے والے اخبارات ایک سے 2 بار استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زیمل نے انہی اخبارات سے کچرے کے بیگز بنانے کا سوچا۔ ’زی بیگز‘ کے نام سے یہ کاغذی تھیلے بہت جلد لوگوں میں مقبول ہوگئے اور اس کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں خریدنا بھی شروع کردیا۔

    اب جبکہ زیمل اپنی تعلیم کے فقط ابتدائی مراحل میں ہی ہے، وہ ابھی سے لوگوں میں تحفظ ماحول اور آلودگی سے بچنے کا شعور پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

    زیمل بتاتی ہے کہ اسکول کے ساتھ بیگز بنانے کا کام نہایت مشکل ہے چنانچہ یہ کام وہ صرف ویک اینڈ کو انجام دیتی ہے اور اس میں اس کے اہلخانہ اور کزنز بھی اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    اس کم عمر ترین سماجی انٹر پرینیئور کو اب تک پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں 2 ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    زیمل اپنے کام اور آگاہی مہم کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے بے حد پرعزم ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیمل کاغذی تھیلوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو بھی غریب بچوں میں تقسیم کردیتی ہے۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خوبصورتی کا نہایت آسان نسخہ، صرف25روپے میں

    خوبصورتی کا نہایت آسان نسخہ، صرف25روپے میں

     

    خواتین کو اب چہرے کی خوبصورتی بڑھانے کیلئے پریشان ہونے اور زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا آسان سا حل اے آر وائی نے پیش کردیا اور وہ بھی صرف25روپے میں۔

    اس حوالے سے مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کاشف احمد کا کہنا تھا کہ آر آر اسپرے آپ کی اسکن کو فریش اور کلیئر کرے گا۔

    آر آر اسپرے کو بنانے میں صرف25منٹ لگتے ہیں اور اس کو25سیکنڈ کیلئے لگانا ہے اس اسپرے پر لاگت بھی25روپے ہی آتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کی تیاری کیلیے15روپے کا گلاب کے پھولوں کا رس اور دس روپے کے ابلے ہوئے چاولوں کا پانی درکار ہوگا۔


    مزید پڑھیں: سعودی خواتین کی جلدی خوبصورتی کا راز


    ڈاکٹر کاشف احمد نے مزید بتایا کہ گلاب کے پھول کا رس نکالنے کیلئے پھولوں کو ایک رات کیلئے پانی میں بھگو دیں اور صبح اس کو گرینڈ کرلیں، اس اسپرے کو رات سونے سے قبل اپنے چہرے پر لگالیں آپ کی اسکن گلابی ہوجائے گی اور چہرے پر شائننگ بھی آجائے گی۔


    مزید پڑھیں: اورنج جوس جلد کی خوبصورتی کا ضامن


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔