Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • بھارت کی پہلی خواجہ سرا جج

    بھارت کی پہلی خواجہ سرا جج

    نئی دہلی: بھارتی شہر کلکتہ میں پہلی بار ایک خواجہ سرا کو عوامی عدالت کا جج مقرر کردیا گیا جس کے بعد وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خواجہ سرا بن گئیں۔

    مغربی بنگال میں قائم یہ عدالتیں جرگے یا پنچائیت کی طرز پر منعقد کی جاتی ہیں جن میں عموماً مقامی لڑائی جھگڑوں کے معاملات کا حل نکالا جاتا ہے۔ جویتا منڈل اس عدالت کی جج مقرر ہونے والی پہلی خواجہ سرا ہیں۔

    جویتا کو بچپن سے ہی بے انتہا مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اسکول میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، بعد میں ان کا نام اسکول سے خارج کردیا گیا۔

    بعد ازاں انہیں گھر سے بھی نکال دیا گیا جس کے بعد وہ سڑکوں پر بھی سوئیں اور بھیک بھی مانگی۔ اس کے بعد وہ ریاست اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے اسلام پور چلی آئیں اور یہیں رہائش اختیار کرلی۔

    یہاں سے انہوں نے خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے ایک تنظیم ’دیناج پور کی روشنی‘ قائم کی جو اب تک 22 سو کے قریب خواجہ سراؤں کو مختلف اقسام کی ٹریننگز دلوا چکی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔

    دو سال قبل جویتا نے ویلفیئر کمیٹیوں کے ساتھ مل کر ایڈز کا شکار افراد کے لیے ایک علیحدہ رہائش گاہ بھی تیار کروائی اور یہیں سے وہ علاقے میں مشہور ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں کے لیے مفت تعلیم کا آغاز

    بعد ازاں ان کی ذہانت و خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں عوامی عدالت کا جج مقرر کردیا گیا۔

    جویتا کا کہنا ہے کہ عموماً وہ کوشش کرتی ہیں کہ فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر بات چیت سے مسئلے کا حل نکالیں۔ ان کے مطابق وہ مخالف فریقین کو بھی نرمی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں جس کے باعث قصور وار خود ہی اپنے غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔

    گو کہ جویتا کو اس عدالت کا جج ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے مقرر کیا گیا، تاہم اس عہدے پر کسی خواجہ سرا کا مقرر کیا جانا یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کوئٹہ کا خواتین عملے پر مشتمل ریستوران

    کوئٹہ کا خواتین عملے پر مشتمل ریستوران

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اپنی نوعیت کا پہلا ریستوران کھولا گیا ہے جس کا تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔

    یہ ریستوران حمیدہ علی ہزارہ نامی خاتون نے کھولا ہے جن کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے اور وہ حرمت نسواں فاؤنڈیشن کی بانی بھی ہیں۔ حمیدہ کا ریستوران کھولنے کا مقصد کوئٹہ کی خواتین کو معاشی طور مضبوط کرنا ہے۔

    تین ماہ قبل کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ’ہزارہ ریسٹورنٹ‘ کا آغاز کرنے والی حمیدہ بتاتی ہیں کہ اس کاروبار کا آغاز کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ اس کاروبار کے لیے کافی عرصے سے پیسے جمع کر رہی تھیں۔ ’مجھے دھمکیاں بھی دیں گئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کام کے بجائے عورتوں کے لیے چندہ جمع کر لیتی۔ کچھ نے کہا کہ کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بیٹھ جاتی۔ کچھ نے کہا کہ عورت کا کاؤنٹر پر بیٹھنا بے غیرتی ہے‘۔

    تاہم حمیدہ نے ہمت نہ ہاری اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔

    ہزارہ ریسٹورنٹ میں کل 7 خواتین کام کر رہی ہیں، جو کھانا پکاتی بھی ہیں اور گاہکوں کو پیش بھی کرتی ہیں۔ ریستوران سے باہر کے کام کرنے کے لیے 2 مرد ملازمین کو بھی ملازمت دی گئی ہے۔

    یہ خواتین یہاں مختلف اقسام کے کھانے پکاتی ہیں۔ اس ریستوران کی سب سے زیادہ پسند کی جانی والی ڈش ہزارہ کمیونٹی کی روایتی ڈش آعش ہے

    اس کھانے میں آٹے کے نوڈلز کے ساتھ دالیں، لوبیا، پالک اور دہی ڈالا جاتا ہے۔ یہ ہزارہ کی ایک ایسی خاص ڈش ہے، جسے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔

    اس ریستوران کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی ہے۔

    حمیدہ نے بتایا کہ یہاں آنے والے مرد حضرات مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ ان خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی تعریف کرتے ہیں، تاہم کچھ تلخ جملوں سے بھی نوازتے ہیں، ’کچھ لوگوں نے کہا کہ تم عورتوں کے گھر کے مرد بے غیرت ہیں جنہوں نے اپنے گھر کی عورتوں کو باہر کام کرنے بھیجا ہے‘۔

    اسی طرح یہاں آنے والی خواتین بہت خوش ہوتی ہیں۔ بازار میں خریداری کے لیے آنے والی خواتین یا اسکول کالج کی چھٹی کے بعد آنے والی طالبات یہاں دیر تک بیٹھتی ہیں۔

    حمیدہ کا تمام خواتین کے لیے پیغام ہے، ’بطور عورت آپ کے لیے بے شمار مسائل پیدا کیے جائیں گے، لیکن اگر آپ پرعزم رہیں گی تو سب کچھ حاصل کرنا ممکن ہے‘۔

    مضمون بشکریہ: ڈی ڈبلیو

    مزید پڑھیں: خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بالوں کو رنگنے والی خواتین میں بریسٹ کینسر کا شدید خطرہ

    بالوں کو رنگنے والی خواتین میں بریسٹ کینسر کا شدید خطرہ

    فیشن کے مختلف انداز اپناتے ہوئے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگ لینا بھی آج کل بہت مقبول ہوچکا ہے اور خواتین بڑے پیمانے پر اپنے بالوں میں مختلف رنگوں سے ڈائی کروا رہی ہیں۔

    تاہم حال ہی لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ خواتین جو سال میں 6 بار سے زائد اپنے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگتی ہیں ان کو چھاتی یعنی بریسٹ کینسر کے امکان کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل بریسٹ کینسر کے ایک ماہر سرجن کے مطابق وہ خواتین جو اپنے بالوں کو بہت زیادہ رنگواتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا امکان 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    انہوں نے تجویز دی کہ خواتین بالوں کو رنگنے کے لیے مصنوعی رنگ یا کیمیکلز کے بجائے قدرتی اجزا کا استعمال کریں جیسے مہندی یا چقندر وغیرہ۔

    مزید پڑھیں: بالوں کو خراب کرنے والی چند وجوہات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت تو ہے، تاہم یہ بات مصدقہ ہے کہ بالوں کو رنگنے والے کیمیائی اجزا بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق خواتین سال میں صرف 2 سے 6 بار بالوں کو رنگوائیں، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ قدرتی اجزا سے بالوں کو رنگنا بالوں کی صحت کے لیے بھی مفید ہے اور یہ مضر اثرات بھی نہیں پہنچاتا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شاہدہ بسیسو ڈبلیو ڈبلیو ای کی پہلی عرب خاتون ریسلر

    شاہدہ بسیسو ڈبلیو ڈبلیو ای کی پہلی عرب خاتون ریسلر

    نیویارک: عرب دنیا میں جہاں خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں وہیں ایک عرب خاتون ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمٹ کا حصہ بن گئی۔

    عرب میڈیا کے مطابق ریسلنگ انٹرٹینمینٹ انڈسٹری میں ڈبلیو ڈبلیو ای سرفہرست اور بڑا نام سمجھا جاتا ہے، ڈبلیو ڈبلیو ای کی جانب سے پہلی بارعرب خاتون ریسلر کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ، اردن سے تعلق رکھنے والی شاہدہ بسیسو جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

    شاہدہ بسیسو کا انتخاب 40 امیدواروں میں سے کیا گیا، امیدواروں میں مشرق وسطٰی اور بھارت سے تعلق رکھنے والے ایتھلیٹ، پاور لفٹرز، رگبی اور فٹ بال کے کھلاڑی، شوقیہ ریسلر اور مارشل آرٹس کے ماہر بھی شامل تھے۔

    عرب میڈیا کے مطابق شاہدہ تربیت یافتہ جوجٹسو ایتھلیٹ ہیں، وہ امریکی شہر فلوریڈا میں ریسلنگ کی تربیت لے رہی ہیں، شادیہ تربیت مکمل ہونے پر وہ آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، جرمنی ، بھارت، میکسیکو اور برطانیہ سے منتخب کردہ ریسلرز کے ساتھ اپنی مہارت کا مظاہرہ  کریں گی۔

    شاہدہ نے اپنی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں مشرق وسطٰی کی پہلی لڑکی ہوں جس نے یہ اعزاز حاصل کیا ، میری خواہش ہے کہ میں ریسلنگ کی دنیا کی سپر اسٹار بن سکوں۔

    علاوہ ازیں ڈبلیو ڈبلیو ای نے بھارتی ریسلر کویتا دیوی کے ساتھ  بھی باضابطہ معاہدہ کرلیا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ای کے سی او او ٹرپل ایچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیں اعتماد ہے کہ کویتا اور شاہدہ مستقبل قریب میں ڈبلیو ڈبلیو ای کی سپراسٹارز ہوں گی، دونوں ریسلرز کا انتخاب پرستاروں کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • بلوچستان: پہلی بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر خاتون تعینات

    بلوچستان: پہلی بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر خاتون تعینات

    کوئٹہ : بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون وکیل صابرہ اسلام کو بلوچستان کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر خاتون کو تعینات کردیا گیا ، صابرہ اسلام کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ 2009 سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں،کریمنل ‘ سول اور متعدد فیملی کیسز کی پیروی کرچکی ہیں اور اب 6 اکتوبر کو انہیں بلوچستان کی پہلی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، اس تاریخی اعزاز پر صابرہ اسلام نہایت خوش ہیں۔

    صابرہ اسلام ایڈووکیٹ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رکن اور پاکستان وویمن لائرز ایسوسی ایشن بلوچستان کی صوبائی صدرہونے کے ساتھ سیاست میں بھی سرگرم ہیں، صابرہ اسلام کے مطابق وکالت کے دوران انہیں کافی مشکلات درپیش ہوئیں تاہم ان کا گھرانہ وکالت سے وابستہ ہونے کے باعث وہ ان مشکلات کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

    بلوچستان کی پہلی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا ماننا ہے کہ ماضی کی نسبت اب خواتین کے حوالے سے بلوچستان کے قبائلی معاشر ے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔

    موجودہ دور حکومت میں اہم عہدوں پر خواتین کی یہ چوتھی تعیناتی ہیں، راحیلہ حمید خان درانی کو اسی دور میں پہلی اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور پہلی قائمقام خاتون گورنرہونے کا اعزاز حاصل ہوا، اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ اور ڈی ایس پی ٹریفک پولیس کے عہدوں پر بھی خواتین تعینات ہیں۔

    ان خواتین کا اہم عہدوں پر فرائض سرانجام دینا آئندہ والی نسل کیلئے حوصلہ افزا اور بلوچستان میں صنفی مساوات کی جانب اہم پیشرفت ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کی دس بین الاقوامی شہرت یافتہ خواتین

    پاکستان کی دس بین الاقوامی شہرت یافتہ خواتین

    معاشرے میں لوگ آپ پر اپنی رائے زبردستی مسلط اور محدود کریں گے صرف اس لیے کے آپ ایک خاتون ہیں۔وہ آپ کو کپڑے زیب تن کرنا، کیسے رویہ اختیار کرنا، کس سے ملنا اور کہاں جانا سب سکھانے کی کوشش کریں گے۔ دوسروں کے فیصلوں کے سائے میں رہنے کی بجائے اپنی زہانت کی روشنی میں فیصلہ کریں۔

    قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ دنیا میں دو طاقتیں ہیں؛ ایک قلم اور دوسرا تلوار۔ دونوں میں ایک کشمکش اور مقابلہ رہا ہے۔ لیکن تیسری ان سے بھی زیادہ طاقتور قوت عورت ہے۔

    آج ہم پاکستان کی ان خواتین کی کامیابیوں کو تذکرہ کرتے ہیں جوپچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان کے لیے باعثِ فخر ثابت ہوئیں اور دیگر تمام خواتین کے لیے مینارہ ہیں۔

    گلالئی اسمعیٰل اور صبا اسمعٰیل


    دو پاکستانی خواتین کو نوجوانوں اور خواتین کے زریعے غیر تششدد معاشرے کو متعارف کروانے کے لیے پریسٹیجیس چراک پرائس ایوارڈ سے نوازا گیا۔این جی او ” اویر گرلز” کی بانیوں کو یہ ایوارڈ نومبر میں سابق فرانسیسی وزیرِ ثقافت کریسٹین البانیل نے پیرس کی ایک تقریب میں قوائے برنلے میوزیم میں دیا۔

    Women of Pakistan

    فائزہ نقوی


    امن فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن فائزہ نقوی کو پاکستان کے تعلیم اور صحت کے میدان میں واضح کارکردگی پر پہلا ایوارڈ گلوبل انسانیت ایوارڈ برائے صحت دیا گیا۔

    Women of Pakistan

    نگہت داد


    لائر اینڈ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نگہت داد کو نومبر 2016 میں ڈچ حکومت کی جانب سے ہیومن رائٹس ٹیولپ ایوارڈ دیا گیا۔2012 میں 34 سالہ کارکن نے ڈی آر ایف کی بنیاد رکھی یہ ایسا غیر منافع تنظیم ہے جس کا مقصد ڈیجیٹل حقائق کے بارے میں آگاہی اور آن لائن زہنی تشدد سے کیسے سامنا کیا جائے۔اس تنظیم نے ٹیلیفونک سروس کے گاہکوں کی زاتی معلومات کا گورنمنٹ کے اداروں کو مہیا کرنے پر بھی متحرک مہم چلائی۔

    Women of Pakistan

    تبسم عدنان


    پاکستان کی متحرک سماجی کارکن نے 2016 میں نیلسن منڈیلا – گراسا مشیل ایوارڈ اپنے نام کیا۔خویندو جرگہ کی بانی ، تبسم عدنان نے گھریلو تشدد کا نشانہ ہوتے ہوئے انہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور 2015 میں سیکرٹری آف اسٹیٹ خواتین ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔

    Women of Pakistan

    منیبہ مزاری


    منیبہ مزاری پاکستان کی واحد وہیل چئیر تک محدود اینکر ہیں جن کا نام فوربس میگزین ” 30 انڈر 30 لِسٹ میں شامل ہوا۔ان کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ 21 سال کی عمر میں 2007میں پچھلے سات سالوں سے ایک کار ایکسیڈینٹ کے نتیجے میں سپائنل کارڈ زخمی ہونے سے مفلوج ہوگئیں۔
    اقوامِ متحدہ میں خواتین کو با اختیار بنانے اور جنسی برابری کی آواز اٹھائی اورمنتخب ہونے والیں پاکستان کی پہلی سفیر بنیں۔

    Women of Pakistan

    فضا فرحان


    فضا فرحان توانائی کے میدان میں انٹرپرینیئر ہیں جو سبز توانائی کی تشہیر کے لیے کام کرتی ہیں۔وہ بخش فاؤنڈیشن کی سی ای او اور بخش انرجی کی ڈائریکٹر ہیں۔وہ 2015 کے فوربس میگزین کے شمارے میں 30 نامور لوگوں میں شامل ہیں۔انہوں نے خواتین کو معاشی بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کیے اور اقوامِ متحدہ کی ممبر منتخب ہوئیں۔

    Women of Pakistan

    نرگس ماوالوالا


    امریکی نژاد پاکستانی نرگس کو عظیم تارکِ وطن ایوارڈ سے نوازا گیا۔نرگس کا شمار 38 عظیم تارکِ وطنوں میں ہے جنہیں اسی ایوارڈ سی نیویارک میں کارنیجی کارپوریشن کی طرف سے دیا گیا۔گریٹ امیگرینٹ ایوارڈ ان شہریوں کے لیے ہےجو امریکہ کو طاقتور بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔2006 سے اب تک کارنیجی ایسوسی ایشن بہت لوگوں کو یہ ایوارڈ دے چکا ہے۔

    جہاں آرا


    خواتین انٹرپرینیئرز کی جب بات کی جائے تو جہاں آرا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ پاشا ( پاکستان سافٹ ویئر ہاوسز ایسوسی ایشن ) کی عالی دماغ اور متحرک صدر ہیں۔سافٹ وئیر کی مصنوعات اور خدمات پر توجہ مرکوز جہاں آرا کا ہی خیال تھا۔مواصلات اور مارکٹینگ کے شعبے میں پچھلے تین عشرے سےجہاں آرا کا نام کسی تعارف کامحتاج نہیں جو کہ انٹرپرینیئر اور لکھاری بھی ہیں۔

    پروین سعید


    پروین سعید ایک مایہ ناز صحافی جو پچھلے تئیس سال سے کراچی کے غریب طبقے کو مناسب قیمت پر کھانا مہیا کرتی رہی ہیں۔پروین سعید کھانا گھر کی بانی ہیں جو محض تین روپے میں کم آمدنی والوں کو گرم کھانا دیتےہیں۔یہ طریقہ سینکڑوں غریب مرد اور عورتوں کے لیے بچاؤ رسی کا کام کررہا ہے۔

    شرمین عبید چنائے

    پاکستان کی فلم میکر آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنوئے نے 38ا ینویل نیوز اینڈ ڈاکیومینٹری ایوارڈ میں اپنی ایک اور ڈاکیومینٹری ” آ گرل ان دی ریور” کے لیے ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ شرمین عبید اپنی دو ڈاکیومینٹریز ” سیونگ فیس” اور ” آ گرل ان دی ریور” کے لیے دو آسکر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔اس سے پہلے وہ اپنی ایک اور ڈاکیومینٹری ” چلڈرن آف طالبان” کے لیے ایمی ایوارڈز حاصل کر چکیں۔


    ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کا نام اور تذکرہ طوالت کے سبب نہیں کیا گیا تاہم وہ بھی پاکستان کے لیے اتنا ہی قیمتی اثاثہ ہیں جتنی مندرجہ بالا خواتین‘ بلکہ پاکستان اور دنیا بھر کی خواتین جنہوں نے باعثِ فخر کام کیے اور دنیا کی پرامنی کے لیے کوششیں کی اتنی ہی قابلِ عزت ہیں۔

    یہ طویل فہرست اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین ہر قید اور توقعات سے بڑھ کر زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔مندرجہ بالا فہرست محض چند خواتین ہیں جبکہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اسی عزت کی مستحق ہیں۔میری طرف سے ان تمام پاکستانی خواتین کو خراجِ تحسین جو ہمارےلیے فخر کی وجہ بنیں۔


    تحریر و تحقیق: روحیل ورنڈ

  • سرخ لباس سے اپنی شخصیت کو مسحور کن بنائیں

    سرخ لباس سے اپنی شخصیت کو مسحور کن بنائیں

    کیا آپ جانتے ہیں ہر رنگ کا ایک تاثر ہوتا ہے جو دیکھنے والے پر مخصوص اثرات مرتب کرتا ہے۔

    اسی طرح اگر لباس کے رنگوں کی بات کی جائے تو ان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ سفید رنگ کا لباس پہننے والے اور دیکھنے والے کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔

    اسی طرح سیاہ رنگ سوگ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جو افراد سیاہ رنگ کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ دوسرے افراد کی نسبت زیادہ غمگین اور اداس رہتے ہیں۔

    فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگ اپنی خصوصیت کے مطابق اپنے ماحول سے بھی ویسے ہی اثرات جذب اور خارج کرتے ہیں۔ یعنی سیاہ رنگ بہت زیادہ پہننے والے شخص کے ساتھ دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ افسردہ کردینے والے واقعات پیش آتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس کا اثر ان کے مزاج پر بھی پڑتا ہے۔

    اور بات صرف سیاہ تک ہی محدود نہیں، گرے، براؤن یا اس سے ملتے جلتے رنگ بھی مزاج پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اسی طرح گہرے اور شوخ رنگ، شوخی اور خوشی کی علامت ہیں۔ ایسے رنگوں کے لباس پہننے والوں کو آپ ہمیشہ ہنستا مسکراتا اور قہقہے لگاتا ہوا پائیں گے۔

    البتہ سرخ رنگ کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ چونکہ خون کے رنگ کو ظاہر کرتا ہے لہٰذا اسے جنگ یا خطرے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، اور دوسری طرف محبت بھی اسی رنگ سے منسوب ہے۔

    سرخ دراصل جنون، توانائی، پرجوشی، تندی و تیزی اور پہلی نظر میں متاثر کرنے والا گہرا رنگ ہے جو مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    یہی معاملہ سرخ رنگ کے لباس کے ساتھ ہے۔ سرخ رنگ پہننے والا شخص اندر داخل ہوتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سرخ رنگ پہننے والے اپنے آپ کو پراعتماد بھی محسوس کرتے ہیں جبکہ وہ دیگر افراد کے مقابلے میں دوسروں پر بہت گہرا اور مسحور کن تاثر چھوڑتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو دنیا بھر کی چند معروف خواتین کی سرخ لباس میں ملبوس تصاویر دکھا رہے ہیں جو اس رنگ میں نہایت خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔ انہیں دیکھ کر یقیناً آپ کا دل بھی سرخ رنگ پہننے کو چاہے گا۔


    معروف ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی جو خود بھی ایک معروف وکیل ہیں، اکثر و بیشتر سرخ رنگ کے لباس یا کوٹ میں ملبوس نظر آتی ہے۔

    ویسے تو ان کی شخصیت اس قدر مسحور کن ہے کہ وہ جو بھی رنگ پہنیں ان پر اچھا لگتا ہے، تاہم سرخ رنگ سے ان کی دلکشی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔


    دنیا بھر میں اپنے پروقار فیشن کے لیے مشہور برطانوی شہزادی کیٹ مڈلٹن بھی سرخ رنگ میں نہایت حسین دکھائی دیتی ہیں۔


    صحافی سے شاہی خاندان تک کا سفر کرنے والی اسپین کی ملکہ لٹزیا۔


    نیدرلینڈز کی ملکہ میکسیما جو پاکستان کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔


    امریکا کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ گو کہ فیشن کی دنیا میں اپنا کوئی تاثر جمانے میں ناکام رہیں، تاہم سرخ لباس میں وہ بھی بہت باوقار نظر آئیں۔


    سابق امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن جو ہمیشہ سے اپنے فیشن اور لباس کی وجہ سے مقبول رہیں، اب بھی نہایت خوبصورت مگر سادہ لباس زیب تن کرتی ہیں۔


    اسی طرح سابق امریکی خاتون اول مشل اوباما نے بھی سرخ رنگ میں سادگی و وقار کی مثال قائم کی۔


    ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی پہلے شوبز انڈسٹری میں ایک بے باک اداکارہ کے طور پر رہیں، بعد میں اقوام متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے انہوں نے نہایت باوقار انداز اپنا لیا، تاہم دونوں طرح انہوں نے اپنی خوبصورتی اور انداز سے سب کو متاثر کیا۔


    برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سرخ لباس میں ملبوس۔


    اور تو اور یہ رنگ برطانوی ملکہ الزبتھ پر اس عمر میں بھی خوب جچتا ہے۔


    سرخ رنگ ہمیشہ سے خواتین کا پسندیدہ رنگ رہا ہے۔ لہٰذا ماضی میں بھی خواتین اس رنگ کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ سابق برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کی متاثر کن شخصیت سرخ رنگ میں اور بھی دلکش دکھائی دیتی تھی۔


    کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون سربراہ ہونے کا اعزاز رکھنے والی بے نظیر بھٹو نے بھی سرخ رنگ زیب تن کیا۔


    ہم سب کی پسندیدہ ماہرہ خان بھی سرخ لباس میں ہر بار بہت دلکش اور حسین نظر آتی ہیں۔


    اور بالی ووڈ کی حسینائیں بھی سرخ رنگ سے اپنے حسن میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔


    تو کیسا لگا آپ کو سرخ رنگ کا جادو؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے سب سے بڑے تھر کول پروجیکٹ میں ایک خاتون انجینئر بھی شامل ہیں، تاہم اس انجینیئر کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ تھر سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔

    ابھی تھر کول منصوبے میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں خواتین نے ہیوی ڈمپرز چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہی تھا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی بھی منظر عام پر آگئیں جو تھرکول منصوبے کی تعمیراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: تھری خواتین نے ہیوی ڈمپر چلانا شروع کر دیا

    کرن تھر کی پہلی خاتون انجینئر ہیں جنہوں نے مہران یونیورسٹی سے اپنی انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے تھر کول منصوبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں کیونکہ اس کے لیے انہیں بے شمار ٹیسٹوں سے گزرنا تھا۔ تاہم ایک کے بعد ایک وہ مختلف مرحلوں میں کامیاب ہوتی گئیں اور تھر کول ٹیم کا حصہ بن گئیں۔

    فی الوقت وہ اس منصوبے میں کام کرنے والی واحد خاتون ہیں۔

    کرن کا کہنا تھا کہ جب انہیں ملازمت مل گئی تو ان کے والد نے انہیں اس علاقے میں رہائش کی اجازت دینے کے لیے صاف انکار کردیا جو تھر کول کی ٹیم اور کارکنان کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

    انہوں نے اسے کہا کہ اسے روز سفر کر کے ملازمت پر جانا اور شام میں واپس گھر آنا ہوگا۔

    تاہم کرن وہاں رہ کر کان کنی اور دیگر تمام کاموں کو دیکھنا اور سیکھنا چاہتی تھی۔ بعد ازاں کرن کے والد نے اس جگہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں کا محفوظ ماحول دیکھ کر وہ کرن کو وہاں بھیجنے کے لیے رضا مند ہوگئے۔

    کرن کہتی ہے، ’لڑکیاں صرف استاد نہیں بن سکتیں، وہ مشکل شعبوں میں بھی جا سکتی ہیں اور وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں‘۔

    جب تھر میں خواتین ٹرک ڈرائیورز کو منتخب کیا جارہا تھا تب کرن نے مختلف علاقوں میں جا کر کئی خواتین سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے گھر اور علاقے کی خوشحالی کے لیے اس معاشی عمل کا حصہ بنیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    انہوں نے بتایا، ’لیکن بہت سی خواتین پہلے ہی اس کے لیے پرجوش تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جنہیں کوئی معاشی تنگی نہیں تھی، تاہم وہ باہر نکل کر کام کرنا چاہتی تھیں اور خود کو منوانا چاہتی تھیں‘۔

    کرن کو موسیقی سننا اور کتابیں پڑھنا بے حد پسند ہے، اس کے علاوہ وہ ٹیبل ٹینس کھیلنے کی بھی شوقین ہے۔

    کرن سدھوانی مستقبل میں مزید ایسے کام کرنا چاہتی ہے جس سے اس کے علاقے تھر میں خوشحالی آئے اور وہاں کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • وہیل چیئر پر بیٹھی دنیا کی پہلی مس ورلڈ

    وہیل چیئر پر بیٹھی دنیا کی پہلی مس ورلڈ

    پولینڈ : آپ نے ملکہ حسن کے مقابلے تو بہت دیکھے ہونگے لیکن اب وہ حیسنائیں جو معذور ہیں لیکن بے حدخوبصورت ہیں، پولینڈ میں مقابلہ حسن کا منفرد ہوا، جس میں بیلاروس کی حسینہ نے پہلی مس وہیل چیئرورلڈ کا تاج سر پرسجایا۔

    تفصیلات کے مطابق چلنے پھرنے سے معذور مگرحسن کی دولت سے مالامال ہے، پولینڈ میں پہلی بار دنیا بھر کی معذور حسیناؤں کا مقابلہ ہوا، حسینائیں وہیل چیئر پربیٹھنے کے با وجود بھی حسن کے جلوے بکھیرتی رہیں ۔

    اس مقابلے میں انیس ممالک کی چوبیس دوشیزاؤں نے مقابلے میں جلوے بکھیرے، مقابلےمیں شامل ہونے والی لڑکیوں نے روایتی ملبوسات سے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔

    وہیل چیئر پر ریمپ پرآئیں تو دل کھول کر داد پائی۔

    پہلی مس وہیل چیئرورلڈ کا تاج بیلاروس کی حسینہ الیگزینڈرا کے سر پر سجا، تاج پہنتے وقت الیگزینڈراکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    مقابلے میں دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ کی حسینہ اور تیسرے نمبر پر میزبان ملک پولینڈ کی حسینہ رہی۔

    یہ مقابلہ کرانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ معذور انسانوں کی کسی نہ کسی جسمانی معذوری کے باعث ان سے متعلق پائی جانے والی روایتی سوچ کو تبدیل کیا جائے اور یہ کہ ویل چیئر پر بیٹھی لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں۔


    مزید پڑھیں :  وہیل چیئر پر بیٹھی ماڈل نے دنیا کو دنگ کردیا


    پولینڈ میں اونلی ون فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے اس مقابلے کا اہتمام کیا ، اس فاؤنڈیشن کی بنیاد دو معذور خواتین نے رکھی تھی، ماضی میں چار مرتبہ ملکی سطح پر مس وہیل چیئر پولینڈ کے مقابلوں کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ لیکن  مس وہیل چیئر ورلڈ مقابلہ وہ پہلی کاوش تھا،  جب اس مقابلے کا بین الاقوامی سطح پر انعقاد کیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی باہمت خاتون گلالئی اسماعیل کے نام ایک اور ایوارڈ

    خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی باہمت خاتون گلالئی اسماعیل کے نام ایک اور ایوارڈ

    ممبئی : صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے سرگرم عمل سماجی کارکن اور اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسماعیل نے آنا پولیتکوفسکایا ایوارڈ 2017 کا اعزاز حاصل کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق 31 سالہ گلالئی اسماعیل نے موت کے خطرے کی پرواہ کئے بغیر طالبان اور انتہا پسندی کیخلاف بات کی، انتہا پسندی کیخلاف خدمات کے اعتراف میں انھیں آنا پولیتکوفسکایا ایوارڈ 2017 سے نواز گیا۔

    اس سال گلالئی اسماعیل اور بھارتی صحافی گوری لنکیش کو یہ ایوارڈ مشترکہ طور دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گوری لنکیش کو گذشتہ ماہ پانچ ستمبر کو قتل کر دیا گیا تھا۔

    اس سال کے انا پولیتکوفسکایا ایوارڈ کا عنوان ’خاموش ہونے سے انکار‘ رکھا گیا تھا جبکہ ایوارڈ دیے جانے کی باقاعدہ تقریب آئندہ برس مارچ میں لندن اور اپریل میں آسٹریلیا میں منعقد ہوگی۔

    گلالئی اسماعیل کا کہنا تھا کہ مجھے یہ ایوارڈ انتہا پسندی کے خلاف کوششوں پر دیا گیا ہے، میں کافی عرصے سے انتہا پسندی کے خلاف کام کر رہی ہوں۔ میرا اصل مقصد نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانا ہے۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ ایک ہی وقت میں پاکستان اور بھارت کی خواتین کو یہ ایوارڈ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک ہی جیسی انتہا پسندی اور ایک ہی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل انا پولیتکوفسکایا ایوارڈ اس سے قبل ملالہ یوسفزئی کو بھی دیا جا چکا ہے۔

    گلالئی کو اس سے قبل بھی کئی اعزازات مل چکے ہیں جن میں ڈیموکریسی ایوارڈ 2013 بھی شامل ہے۔ انہیں 30 سال سے کم عمر 30 رہنما نوجوانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جبکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے انہیں ’تبدیلی کا استعارہ‘ قرار دیا۔

    خیال رہے کہ ’را ان وار‘ نامی تنظیم کی جانب سے آنا پولیتکوفسکایا ایوارڈ ہر سال دنیا کی اُن خواتین کو دیا جاتا ہے جو انتہا پسندی کے خلاف کام کرتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔