اس کے علاوہ ملک بھر میں بنائے گئے تمام کیڈٹ کالج کو ایجوکیشن ہیں جہاں مرد و خواتین دونوں کو تربیت دی جاتی ہے۔
اس کالج میں تربیت دیے جانے والے پہلے بیج کے لیے ملک بھر کے کیڈٹ کالجز سے 80 ہونہار اور ذہین خواتین کیڈٹس کا انتخاب کیا گیا ہے جو اب یہاں پر مزید تربیت حاصل کریں گی۔
یہ خواتین کیڈٹس آگے چل کر پاک فوج سمیت دیگر عسکری شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دیں گی اور ملک کی حفاظت میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کریں گی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
تھرپار کر : تھری خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا سنہری موقع مل گیا، تاریخ میں پہلی بار کوئلے کی ترسیل کیلئے محنت کش تھری خواتین نے ڈمپر چلانے کی تربیت حاصل کرلی اور ٹرک چلانا شروع کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق صحرائے تھر میں تاریخی تبدیلی آگئی ، پاکستان میں ٹرک ڈرائیور کا کام عموماً مردوں کو ہی ملتاہے، اسلام کوٹ میں کچھ خواتین بھی ثقافتی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ٹرک ڈرائیور بن چکی ہیں۔ تھرپار کر میں خواتین نے غربت سے چھٹکارا پانے کے لئے ٹرک چلانا شروع کردیا ہے اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔
روایتی تھری لباس میں پرجوش گلابن کوتھرکی پہلی ڈمپر ڈرائیور بننے کا اعزاز مل گیا۔
چاربچوں کی ماں گلابن تھر کول پاورپراجیکٹ کے ذریعے غربت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے جبکہ شوہر نے بھی روایتی زنجیریں توڑنے میں مدد کی۔
صحرا کی کڑی دھوپ پیلے ڈمپر چلانے والی گلابن سمیت تیس خواتین کو ڈمپر چلانے کی تربیت دی جارہی ہے، ، کڑی دھوپ میں ہیوی ڈمپرچلانے والی سخت جاں خواتین کے حوصلے بلند ہیں۔
ٹریننگ کے اختتام پر یہ خواتین روزانہ آٹھ گھنٹے ڈمپر چلائیں گی، تیس خواتین کا انتخاب تھر میں کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔
انسٹرکٹرمہوش کا کہنا ہے کہ تھری خواتین کو ڈرائیونگ سکھانا میرا خواب تھا۔
تھرکول پراجیکٹ کے ترجمان محسن بابر کا کہنا ہے کہ تھر میں سماجی تبدیلی کے دورکا آغاز ہوگیا، صحرائے تھر کی سخت جان خواتین اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے ساتھ پورے ملک میں روشنی پھیلائیں گی۔
یاد رہے رواں سال جولائی میں اس سلسلے اینگرو کول مائننگ کمپنی تھر کو فیلڈ کی جانب سے 125 خواتین کی درخواستیں وصول ہوئیں جن میں سے ساٹھ خواتین کے انٹرویو کیے گئے جبکہ تیس خواتین کو ڈمپر کی ڈرائیونگ کے لیے سلیکٹ کیا گیا۔
ان خواتین کو پہلے مرحلے میں کار چلانے کی تربیت دی گئی جبکہ آخری مرحلے میں ساٹھ ٹن وزن اٹھانے والے ڈمپر کی ڈرائیونگ کی تربیت دی گئی۔
خیال رہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے 16 بڑے ذخائر میں ہوتا ہے، نو ہزار کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے مالامال ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
ماسکو: روسی ایئر لائن ایرو فلوٹ نے طیارے پر متعین عملے کے فربہ افراد کی تنخواہیں کاٹنے کا فیصلہ کیا، اور اس وقت ایئر لائن انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے آگئے جب مسافروں کی دیکھ بھال پر معمور خاتون اسٹیورڈ عدالت جا پہنچی۔
روس کی قومی ایئر لائن ایرو فلوٹ اپنے فضائی میزبانوں کو نہایت دیدہ زیب اور متاثر کن انداز میں پیش کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے نئے اور خوبصورت لباس بنوانے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم اس وقت یہ فیصلہ تنازعے کا شکار ہوگیا جب انتظامیہ نے فربہ اور موٹے لوگوں کی تنخواہیں اس بات سے مشروط کردیں کہ وہ اپنا وزن کم کریں بصورت دیگر ان کے ڈھیلے لباسوں کی وجہ سے ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی جائے گی۔
اس سے قبل ایئر لائن انتظامیہ کیبن کریو کے لیے بہت زیادہ ڈھیلے لباس تیار کرنے پر ویسے ہی پابندی عائد کرچکی تھی۔
بعد ازاں روسی زبان میں ایسے فضائی اسٹاف کو ایس ٹی ایس کے نام سے بھی جانا جانے لگا جس کا مطلب تھا، ’بوڑھے، موٹے اور بدصورت‘۔
تاہم مذکورہ خاتون اسٹیورڈ ایونجینا نے انتظامیہ کی اس پالیسی کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔
ایونجنا کا کہنا تھا، ’ایرو فلوٹ کی جانب سے نوٹس جاری کیا گیا کہ خاتون اسٹیورڈ کی ترقی کا دارو مدار اس کی جسامت پر ہوگا۔ یہ فیصلہ بہت ہی احمقانہ اور صدمہ پہنچانے والا تھا‘۔
ایونجنا کا کہنا تھا کہ اسٹیورڈ کا کام ہوتا ہے کسی ہنگامی صورتحال میں مسافروں کی جان بچانا۔ اس کام کو آپ کسی کی خوبصورت یا اس کے کپڑوں کے سائز سے کیسے منسلک کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ڈاکٹر کو اپنی بیماری کا علاج کرنے کے لیے اس لیے منتخب کریں کہ وہ خوبصورت ہے، یا کسی جج کی قابلیت کی جانچ اس کے لباس کے سائز سے کی جائے۔ یہ ایک بہت ہی احمقانہ بات ہے‘۔
عدالت میں کیس دائر ہونے کے بعد ایرو فلوٹ کے وکیل نے اس فیصلے کے خلاف دلیل پیش کی کہ بھاری جسامت اور فربہ عملے کے افراد کی وجہ سے اتنظامہ اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ طیارے میں اضافی ایندھن بھروائے‘۔
تاہم وکیل صفائی کی یہ دلیل کسی کام نہ آئی، عدالت نے فیصلے کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا اور ایئر لائن انتظامیہ کو ملازمین کو ان کی جائز تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ریاض: سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔
سعودی میڈیا کے مطابق شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد خواتین پر سے گاڑی چلانے کی پابندی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔
سعودی فرماں رواں نے حکام کو پابند کیا ہے کہ وہ خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا شروع کردیں اور اس ضمن میں انتظامات بھی مکمل کرلیں تاکہ اطلاق ہونے پر کسی قسم کی پریشانی سے بچا جاسکے۔
قبل ازیں سعودی قوانین کے تحت خواتین کو گاڑی کی ڈرائیونگ پر نہ صرف سخت پابندی عائد تھی بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔
سعودی میڈیا کے مطابق وزیر ٹرانسپورٹ کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت سے متعلق درخواست شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو ارسال کی گئی تھی جس کی انہوں نے فیصلے کی توثیق کی۔ سعودی فرماں رواں کی منظوری کے بعد یہ قانون جون 2018 سے نافذ العمل ہوگا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
لاہور : تحریک پاکستان کی نامور خاتون کارکن فاطمہ صغریٰ اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث لاہور میں انتقال کر گئیں، انکی عمر چوراسی برس تھی۔
تفصیلات کے مطابق تحریک پاکستان کے دوران فاطمہ صغریٰ کا کردار ناقابل فراموش ہے، فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کی اُن نامور کارکنوں میں شامل تھیں، جنہوں نے زمانہ کمسنی ہی میں اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا ایک مقام پیدا کیا۔
جب تحریک پاکستان کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی، آپ اس وقت دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں، محترمہ فاطمہ صغراء نے انیس سو چھیالیس میں تحریک کے دوران سول سیکرٹریٹ سے برطانیہ کا جھنڈا اُتار کر دوپٹے سے بنا ہوا مسلم لیگ کا پرچم لہرایا تھا۔
اس کارنامے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں قومی اعزاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
فاطمہ صغریٰ کی نمازجنازہ بعد نماز ظہر لاہور جوہرٹاؤن میں اداکی جائےگی اور تدفین میانی صاحب میں ہوگی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کی بھارتی اداکار رنبیر کپور کے ساتھ متنازعہ تصاویر آج کل سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن چکی ہیں اور اس بارے میں ماہرہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا، تاہم رنبیر کپور نے ناقدین کی ٹھیک ٹھاک کلاس لے ڈالی۔
ایک بھارتی اخبار کی جانب سے اس معاملے پر پوچھے گئے سوال پر رنبیر کپور نے اس معاملے پر مضبوط مؤقف اپنایا اور لوگوں کو دوسروں کی زندگیوں میں دخل دینے سے پرہیز کی ہدایت کی۔
اپنے بیان میں رنبیر کا کہنا تھا، ’میں گزشتہ کچھ ماہ سے ماہرہ خان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ ایک ایسی خاتون ہیں جن کا میں مداح ہوں اور ان کی عزت کرتا ہوں، نہ صرف ان کی کامیابیوں کی وجہ سے بلکہ ان کی ذاتی شخصیت کی وجہ سے بھی‘۔
انہوں نے کہ جس طرح سے ماہرہ خان کے کردار کے بارے میں باتیں کی جارہی ہیں وہ نہایت ہی غلط ہے۔ ’اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ صنفی امتیاز پر مبنی اس کردار کشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ کیونکہ ماہرہ ایک عورت ہے‘۔
رنبیر کا مزید کہنا تھا کہ میری لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ نفرت انگیز گفتگو کرنا بند کریں اور اپنی اس زندگی، سکون اور محبت کی طرف توجہ کریں جو خدا نے انہیں تحفتاً دی ہے۔
آخر میں رنبیر نے کہا، ’سگریٹ نوشی اور نفرت دونوں ہی صحت کے لیے مضر ہیں‘۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل سامنے آنے والی تصاویر میں ماہرہ خان نہایت مختصر لباس میں ملبوس تھیں جبکہ وہ رنبیر کپور کے ساتھ سگریٹ نوشی کرتی بھی دکھائی دے رہی تھیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
بھارت کی ریاست تلنگنانہ میں مبینہ طور پر باپ نے نو عمر بیٹی کو قتل کرکے لاش کو آگ لگادی‘ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے قتل کا راز کھول دیا۔
تفصیلات کے مطابق‘ بھارتی ریاست تلنگانہ میں باپ نے اپنی 13 سالہ بیٹی کو اسکول میں ایک لڑکے سے بات کرنے پرقتل کردیا ۔
ابتدائی طور پر ظاہر کیا گیا کہ یہ خودکشی کی واردات ہے‘ لڑکی کے باپ نے خود ہی تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ لڑکی نے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کرلی۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے لڑکی کے باپ کے جھوٹ کا پول کھول دیا‘ جس میں بتایا گیا کہ لڑکی کی موت دم گھٹنے سے واقع ہوئی ہے بعد ازاں اس کی لاش کو جلایا گیا ہے‘ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا کہ لڑکی کی زبان باہر امڈ آئی تھی جو گلاگھونٹے جانے کی تصدیق کرتی ہے۔
مقامی تھانے کے انسپکٹر کے مطابق والد لڑکی کے والد نےمبینہ طور پر پہلے بھی کئی بار مذکورہ لڑکے سے بات کرنے سے منع کیا تھا‘ تازہ واقعے میں جب مقتولہ سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ ایک معمول کی گفتگو تھی۔
لڑکی کے جواب سے والد غصے میں آگیا اور نوعمر دوشیزہ کو گلہ گھونٹ کر مارڈالا‘ جب اسے احساس ہوا کہ بیٹی مر چکی ہے اور وہ گرفتار ہوسکتا ہے‘ تو اس نے لاش پر مٹی کا تیل چھڑک کرا ٓگ لگادی۔
مزید تفتیش سے پولیس کو معلوم ہوا کہ والدین ہمیشہ اپنی بیٹی کومعاشرتی حدود میں رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے اور اسے ٹی وی پر موسیقی کے پروگرام سننے کی بھی اجازت نہیں تھی‘ جس کا سبب لڑکی کا گلوکارہ بننے کاشوق تھا۔پولیس نے لڑکی کے ماں باپ کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرلیا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
پیرس : فرانسیسی بزنس وومین اور دنیا کی امیر ترین خاتون لیلیئن بیٹن کورٹ انتقال کر گئیں۔
تفصیلات کے مطابق معروف کاسمیٹکس کمپنی ’’لوریال پیرس‘‘ کی مالکن اور دنیا کی امیر ترین خاتون لیلیئن بیٹنکورٹ 94 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
لیلیئن بیٹنکورٹ امریکی میگزین فوربز میں دنیا کی 20 امیر ترین افراد میں سر فہرست ہے، ایک صدی قبل انکے والد یوجین شوئلر نے ہیئر ڈائی بنانے سے کمپنی کا آغاز کیا تھا، جو بعد میں دنیا کی بہت بڑی کاسمیٹکس کمپنی بن گئی۔
پیرس سے پیدا ہونے والے بیٹن کورٹ نے 15 سال کی عمر میں اپنے والد کی کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔
لیلیئن بیٹنکورٹ کی موت، فرانس کی چوتھی سب سے بڑی لسٹنگ کمپنی لوریال کے لئے ایک نیا مرحلے کا آغاز ہے، جس میں نیسل، سوئس فوڈ کمپنی شیئر اسٹاک ہولڈر ہے۔
بیٹنکورٹ اور انکا خاندان کمپنی کے 33 فیصد شیئر کا مالک ہیں ، ان کی بیٹی بیٹنکورٹ میئرز جو اپنے بیٹے کے ساتھ لورل کمپنی بورڈ کا حصہ ہے انکا کہنا ہے کہ ہمارا خاندان کمپنی اور انتظامیہ کو بہتر بنانے کیلئے پرعزم ہے۔
بیٹنکورٹ میئرز نے کہا کہ میری والدہ خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گئیں، پیرس میں واقع اپنے گھر میں بدھ کی رات انتقال ہوا۔
انھوں نے مزید کہا کہ میں اپنے خاندان کی جانب سے پوری وفاداری سے لورل کمپنی کے ساتھ ہوں اور دنیا بھر میں اپنے صدر جین پال اگون اور ان کی ٹیم پر اعتماد ہے۔
لیلیئن بیٹنکورٹ 2012 میں بھولنے کی بیماری کی وجہ سے کمپنی سے مستعفیٰ ہو گئی تھیں۔
فوربس میگزین کی جانب سے لیلیان بیٹن کورٹ 2017 کی امیر ترین خاتون قرار پائی تھا اور ان کے اثاثوں کی مالیت 39.5 ارب ڈالر تھی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
دنیا بھر میں مختلف جان لیوا امراض کے پھیلاؤ اور قدرتی آفات کے باوجود ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی عمر کی سینچری مکمل کرچکے ہوں۔ اب ایسی ہی ایک اور 109 سالہ خاتون منظر عام پر آئی ہیں اور انہوں نے اپنی طویل عمر کا راز بتا کر سب کو حیران کردیا۔
اسکاٹ لینڈ کی 109 سالہ جیسی گیلن جیسے ہی منظر عام پر آئیں تو میڈیا ان کی لمبی عمر کا راز جاننے کے لیے ان کی طرف دوڑ پڑا، اور ان کے جواب نے سب کو حیران کردیا۔
ان کے مطابق ان کی طویل عمر کے 2 بنیادی راز ہیں۔ ایک ہر صبح گرم دلیے کا پیالہ، اور دوسرا مردوں سے مکمل دوری۔
جیسی کا کہنا تھا کہ مرد جس قدر اہمیت رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ساری عمر مردوں سے دور رہیں۔
جیسی نے 13 سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک گاؤں کی رہائشی جیسی نے اپنی نوجوانی کا زیادہ تر حصہ گائیوں کا دودھ دوہتے ہوئے گزارا۔
وہ محنت پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’میں اس عمر میں بھی محنت کرتی ہوں اور بہت کم چھٹیاں لینا پسند کرتی ہوں‘۔
جیسی اب بھی باقاعدگی سے ورزش کرتی ہیں اور چرچ جا کر عبادت بھی کرتی ہیں۔
مردوں کے بارے میں ان کے مزید خیالات ہیں، ’میں نے کبھی شادی نہیں کی، کبھی کسی مرد پر بھروسہ نہیں کیا، صرف اپنے آپ پر بھروسہ کیا اور یہی میری طویل عمر کا راز ہے‘۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل اٹلی سے تعلق رکھنے والی 116 سالہ ایما مورنو نے بھی ایک انٹرویو میں اپنی طویل العمری کا راز کچھ اسی نوعیت کا بتایا تھا۔
ایما کے مطابق اپنی نوجوانی میں انہوں نے ایک شادی کی تھی لیکن وہ اس شادی سے خوش نہ رہ سکیں۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے بعد سے تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی طویل زندگی کی وجوہات صبح جلدی اٹھنا اور تجرد کی زندگی گزارنا بھی ہے۔
جیسی کے آس پاس رہنے والے لوگ ان کے ہمت و حوصلے، اور اس طویل العمری میں بھی ان کی فعال زندگی پر انہیں حیران کن خاتون قرار دیتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
جیسے جیسے زمانہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے پرانے ادوار کے خیالات و عقائد اور تصورات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔ اب خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ایسا ہی کچھ حال سیاست کا بھی ہے۔
اگر آپ پرانے ادوار میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کی تصاویر دیکھیں تو ان میں خال ہی کوئی خاتون نظر آئے گی، تاہم خواتین اب سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور فی الحال دنیا کے کئی ممالک کی سربراہی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہی ہے۔
سیاست میں خواتین کے اسی کردار کی جانچ کے لیے عالمی اقتصادی فورم نے ایک فہرست مرتب کی جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی کتنی تعداد موجود ہے۔
فہرست میں حیرت انگیز طور پر امریکا، برطانیہ یا کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں افریقی ممالک کے ایوانوں میں خواتین نمائندگان کی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی۔
اس فہرست میں افریقی ملک روانڈا سرفہرست رہا جس کی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کی شرح 63.8 فیصد ہے۔
بدقسمتی سے عالمی اقتصادی فورم کی مذکورہ فہرست میں صف اول کے 10 ممالک میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں۔
اس بارے میں دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونینکی ویب سائٹ کا جائزہ لیا گیا تو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے موجود فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر نظر آیا۔
مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود ہیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
اس معاملے میں افغانستان جیسا قدامت پسند ملک بھی ہم سے آگے ہے جو 27.7 فیصد خواتین اراکین پارلیمان کے ساتھ 53 ویں نمبر پر موجود ہے۔
افغان پارلیمان
فہرست میں پڑوسی ملک بھارت 147 ویں نمبر پر موجود ہے جس کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا میں صرف 64 خواتین موجود ہیں۔
صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔
کسی ملک میں خواتین کو کیا مسائل درپیش ہیں، اور ان سے کیسے نمٹنا ہے، یہ ایک ایسی خاتون سے بہتر کون جانتا ہوگا جو نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان خواتین سے جا کر ملی ہو اور ان کے مسائل سنے ہوں، بلکہ خود بھی اسی معاشرے کی پروردہ اور انہی مسائل کا شکار ہو۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔