سنگاپور : سنگاپور کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون صدر منتخب ہوگئیں، حلیمہ یعقوب اس سے قبل پارلیمنٹ کی اسپیکر بھی رہ چکی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سنگاپور کی مسلم خاتون کو47سال میں پہلی بار صدر منتخب کرلیا گیا۔ باسٹھ سالہ حلیمہ یعقوب واحد امیدوار ہیں جو خود کار طریقے سے انتخابات کے لئے کامیاب قرار پائیں۔
ان کے مد مقابل دو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی الیکشن ڈیپارٹمنٹ نے مسترد کردیئے تھے۔ یہ پہلی ملائشین خاتون ہیں جو اس منصب پر فائز ہوئیں۔
سنگاپور کی آٹھویں صدر منتخب ہونے والی حلیمہ یعقوب پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں اور ہمیشہ حجاب میں رہتی ہیں، اس سے قبل ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ سال2013میں بھی پہلی خاتون اسپیکر پارلیمنٹ کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔
الیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے نو منتخب صدر کی کامیابی کا باقاعدہ اعلان بدھ کے روز کیا جائے گا، حلیمہ یعقوب جمعرات کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گی۔
الیکشن ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ حلیمہ کی اہلیت کیلئے کمیونٹی کمیٹی نے تین سرٹیفکیٹ اور پی ای سی نے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیاہے۔
علاوہ ازیں ان کے مد مقابل دو صدارتی امیدوار فریدخان62سالہ اور صالح67سالہ نے اعتراف کیا کہ ہمارے کاغذات مسترد ہوئے ہیں۔
دوسری جانب الیکشن ڈیپارٹمنٹ نے صدارتی الیکشن میں مسترد ہونے والے امیدواروں سے متعلق تفصیلات بتانے سے انکار کیا ہے تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسترد کردہ کوئی بھی امیدوار انفرادی طور پر اپنی تفصیلات ظاہر کرسکتا ہے۔
یاد رہے کہ سنگاپور میں اکثریت بدھ مت کے پیرو کاروں کی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
واشنگٹن: خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی امریکی خلاباز پیگی وٹسن زمین پر لوٹ آئی ہیں‘ وہ دنیا کی معمر ترین خاتون خلاباز کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 57 سالہ پیگی نے بین الاقوامی خلائی مرکز میں گزشتہ سال نومبر میں مشن کا آغاز کیا اور اس دوران انہوں نے خلا میں196.7 ملین کلومیٹر کی مسافت طے کی اور زمین کے مدار کے 4،623 چکر لگائے۔
پیگی بنیادی طور پر ایک بایو کیمسٹ ہیں ‘ ان کے خلائی شٹل نے وسطی قازقستان میں لینڈ کیا ان کے ہمراہ امریکی خلا باز جیک فشر اور روسی کاسموناٹ فیوڈور یورچیکن بھی تھے۔ وہ اپنے حالیہ مشن سے 288 دن یعنی دس ماہ بعد واپس آئی ہیں اور انہوں نے تین خلائی مشنز میں مجموعی طور پر 665 دن گزارے ہیں ۔
After the 9:21pm ET landing, @AstroPeggy has a total of 665 days in space, the U.S. record and places 8th on all-time space endurance list pic.twitter.com/grVIRo3SmX
ناسا کے مطابق ان کے اس ریکارڈ سے خلا میں طویل ترین عرصے تک قیام کرنے کے روسی خلابازوں کے ریکارڈ کو لگ بھگ ختم کردیا ہے سوائے ان کے ہم سفر روسی خلاباز فیوڈور کے جنہوں نے مجموعی طور پر خلا میں 673 دن گزارے ہیں‘ پیگی اب خلا میں سب سے زیادہ عرصہ گزارنے والی خاتون اور سب سے معمر خلا باز ہیں۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سطحِ زمین سے 400 کلومیٹر کی بلندی پر 28 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر 90 منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی‘ روس‘ کینیڈا‘ جاپان اور امریکاکے اشتراک سے قائم بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا حجم فٹ بال کے گراؤنڈ جتنا ہوچکا ہے اور اور یہ 2024 تک کارآمد رہے گا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے شوہر کی جانب سے بیوی کو بیک وقت 3 طلاقیں دینے کا عمل غیر قانونی قرار دے دیا جس کے بعد بھارتی قانون کے تحت طلاق دینے کا یہ عمل غیر مؤثر قرار پا جائے گا۔
اپنے تاریخی فیصلے میں بھارتی اعلیٰ عدلیہ کا کہنا تھا کہ بیک وقت 3 طلاق دینا عورت کے بنیادی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ خطرناک عمل ایک لمحے میں شادی کا خاتمہ کردیتا ہے۔
یاد رہے کہ بیوی کو بیک وقت 3 طلاقیں دینے کا عمل مسلمانوں میں عام ہے اور بظاہر بنیادی قوانین کے تحت اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، تاہم بعض فقہوں نے طویل غور و حوض کے بعد اس میں تبدیلی کر کے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ میں 5 رکنی بینچ کے 3 ججز نے 3 طلاقوں کو غیر مؤثر قرار دینے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ 2 ججز نے اسے برقرار رکھنے کی اختلافی رائے دی جس کے بعد 2-3 کی اکثریت سے حتمی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
فیصلے میں چیف جسٹس آف انڈیا جے ایس کھیہر نے مسلمانوں کے لیے شادی اور طلاق کے بارے میں 6 ماہ کے اندر مؤثر قانون سازی کا حکم بھی دیا۔
یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں مسلمانوں میں رائج اس عام طرز عمل کے خلاف یہ درخواست ایک 35 سالہ مسلمان خاتون نے دائر کی جن کے شوہر نے انہیں 15 سالہ شادی کے بعد بیک وقت 3 طلاقیں دے کر شادی کا اختتام کردیا۔
مذکورہ خاتون کی درخواست کے ساتھ 4 مزید خواتین کی درخواستیں بھی منسلک کی گئیں جو اسی سے متعلق تھیں۔
درخواست دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے ایک آئینی بینچ بنانے کا حکم دیا تھا جسے مسلمانوں کے عام طرز عمل زبانی 3 طلاقوں کے بارے میں غور و حوض کرنے کی ہدایت کی گئی کہ آیا اسے آئینی طور پر درست تسلیم کیا جائے یا نہیں۔
مئی کی 18 تاریخ کو 6 دن تک لگاتار سماعتوں کے بعد اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔
بینچ نے آل انڈیا مسلم لا بورڈ سے بھی اس بارے میں مشاورت کی جس کے دوران مسلم لا بورڈ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ عمل بدترین ضرور ہے تاہم مذہبی اور شرعی طور پر درست ہے۔
عدالتی ارکان نے سوال اٹھایا کہ ’بظاہر ایک بدترین اور ناپسندیدہ ترین عمل اس قدر عام اور مؤثر کیوں ہے؟‘ جس کا لا بورڈ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
عدالت میں سماعت کے دوران اس عمل کی مخالفت میں یہ دلائل بھی دیے گئے کہ کئی مسلم ممالک نے بیک وقت 3 زبانی طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ عدالت اس بدترین فعل کو نہ صرف غیر قانونی قرار دے بلکہ یہ بھی واضح کرے کہ یہ دین اسلام کا لازمی اور بنیادی حصہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے اس حتمی فیصلے کے بعد بال اب پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہے کہ اسے باقاعدہ آئین اور قانون کا حصہ بنا دیا جائے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل بھارت کے یوم آزادی کے موقع وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے خطاب میں بیک وقت 3 طلاقوں کو عورت کے بنیادی حقوق کی سنگین اور بدترین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے اقدامات کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : امریکی خاتون کوہ پیما وینیسا اوبرائن کا کہنا ہے کہ پاکستانی مہمان نواز ہیں اور میں اپنے قیام کے دوران کوہ پیمائی اور حسین علاقوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوئی۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والی امریکی خاتون کوہ پیما وینیسا اوبرائن پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں انہوں نے کہا کہ 8 ہزار 611 میٹراونچی چوٹی سر کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستانی عوام کو بہت مہمان نواز پایا جس کے باعث میں نے پاکستان کے مختلف رنگ دیکھے اور لوگوں سے ملی اور بہت سا پیار پایا جس پر میں میں بہت انجوائےکیا جس کے لیے پاکستان حکومت کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
امریکی خاتون کوہ پیما نے کہا کہ سیاست اورحکومتی پالیسیاں الگ رکھ کرعوامی رابطے بہت اہم ہیں عام امریکیوں اور دنیا کے دیگر لوگوں کو پاکستان آنا چاہیے کیوں کہ یہ بہت خوبصورت ملہک ہے جہاں کے لوگ مہمان نواز اور میٹھے لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایک واقعہ عوام کے درمیان تعلق ختم نہیں کرسکتا ہے اس لیے عام شہریوں کو کہتی ہوں کہ اپنی اپنی ملکی پالیسیوں کو الگ رکھ کر ایک دوسرے سے روابط رکھیں۔
امریکی کوہ پیما وینیسااوبرائن نے پاک فوج کے تعاون سے کےٹوسرکرنے کا خواب پورا ہوا جس کے لیے پاک فوج کا خصوصی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ناممکن کو ممکن بنانے میں میری مدد کی۔
شمالی افریقی ملک تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور کرلیا گیا جس کی مہم ایک عرصے سے چلائی جارہی تھی۔
تیونس کی 217 رکنی پارلیمنٹ میں اس قانون کی حمایت میں 146 ووٹ ڈالے گئے جس کے بعد اس قانون کو منظور کرلیا گیا۔
قانون کی منظوری کے بعد وزیر برائے صنفی امور نزیہہ لبادی کا کہنا تھا کہ ایک تیونسی خاتون ہونے کی حیثیت سے مجھے فخر ہے کہ اس قانون کو منظور کرلیا گیا ہے۔
مذکورہ قانون میں خواتین پر تشدد کی جدید اور وسیع تر تعریف کو استعمال کیا گیا ہے۔ قانون کے تحت خواتین کے خلاف معاشی، جنسی، سیاسی اور نفسیاتی تشدد کو بھی صنفی تشدد کی قسم قرار دے کر قابل گرفت عمل قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت تشدد کا شکار خواتین کو قانونی، سماجی اور نفسیاتی معاونت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرسکیں۔
نئے قانون کی منظوری کے بعد اس سے قبل رائج کثرت ازدواج کا قانون بھی کالعدم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان فروغ پارہا تھا۔
حالیہ قانون میں شادی کے لیے دونوں فریقین کی رضامندی اور طلاق کے لیے باقاعدہ قانونی طریقہ کار اپنانا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔
تیونس میں مذکورہ قانون کی منظوری کے لیے سول سوسائٹی و دیگر اداروں کی جانب سے ایک عرصے سے مہم چلائی جارہی تھی۔ قانون سازی کے لیے تیونسی پارلیمنٹ نے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے بھی مدد لی جس کے بعد مذکورہ قانون کی منظوری عمل میں لائی گئی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
شادی کا دن زندگی کا یادگار دن ہوتا ہے اور دلہا و دلہن اس دن کے لیے خصوصی تیاریاں کرتے ہیں جس میں شادی کا جوڑا نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔
تاہم ایک خاتون ایسی بھی ہیں جن کی شادی عروسی لباس، زیورات یا میک اپ کے بغیر انجام پائی۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی تسنیم نامی یہ خاتون سماجی کارکن ہیں جنہوں نے اپنی شادی کے لیے کسی خاص تیاری کا اہتمام نہیں کیا۔
اپنی شادی کے دن انہوں نے اپنی دادی کی کاٹن کی ساڑھی زیب تن کی اور بنا میک اپ اور زیورات کے شادی کی رسومات انجام دیں۔
ان کے اس اقدام پر ان کے دوست، احباب اور عزیزوں نے بے حد تنقید کی جس کا انہوں نے ایسا متاثر کن جواب دیا جس پر سب کی زبانیں بند ہوگئیں۔
سوشل میڈیا پر ایک طویل پوسٹ کی صورت میں انہوں نے اپنے اس اقدام کی وجہ پیش کی۔
اپنی پوسٹ میں ان کہنا تھا، ’میں اپنے معاشرے میں رائج دلہن کے اس تصور سے سخت الجھن کا شکار تھی جس میں دلہن کا میک اپ کی دبیز تہوں، منوں زیورات اور بھاری بھرکم لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں میں بہت رقم خرچ ہوتی ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسے کرنے والے خوشحال ہیں جنہوں نے باآسانی رقم کے اس اصراف کو برداشت کرلیا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے‘۔
ان کا کہنا تھا، ’بہت سے لوگ ایسا نہیں کرنا چاہتے، یا اس کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن معاشرے کے خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں‘۔
تسنیم نے لکھا، ’میں نے آج تک ایسی کسی شادی میں شرکت نہیں کی جہاں لوگ یہ سرگوشیاں نہ کرتے ہوں، ’کیا دلہن خوبصورت لگ رہی ہے؟ اس کا لباس کتنی قیمت کا ہے؟ اس نے کتنا سونا پہنا ہوا ہے؟‘ اس قسم کی باتوں کو سنتے ہوئے ایک لڑکی اس دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے کہ اپنی شادی کے دن اسے بے حد خوبصورت لگنا ہے جس کے لیے وہ بے تحاشہ رقم، وقت اور توانائی صرف کرتی ہے، اور یوں لگتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی‘۔
وہ کہتی ہیں، ’معاشرہ ہر لڑکی کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کا اصل چہرہ اور رنگت اس کے دلہن بننے کے لیے کافی نہیں اور لاکھوں کے زیورات اور لباس اس کے لیے ضروری ہیں۔ گویا ہمارے معاشرے نے یہ طے کرلیا ہے کہ اگر خواتین پر کچھ خرچ بھی کیا جائے گا، تو وہ ان کی مرضی کے بغیر ہی کیا جائے گا‘۔
تسنیم نے کہا، ’میں نے بزرگ خواتین سے ہمیشہ سنا ہے کہ ایک دلہن زیورات کے بغیر ادھوری ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دلہن کے زیورات سے اس کے خاندان کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج تک کوئی لڑکی یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کر سکی کہ کہ جو بیش قیمت سونا اسے پہنایا جارہا ہے، کیا وہ اسے مستقبل میں ایک پروقار زندگی بھی دے سکتا ہے یا نہیں‘؟
انہوں نے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ بھاری رقم خرچ کر کے بنایا جانے والا عروسی لباس شادی کی تقریب ختم ہونے کے بعد عموماً ساری زندگی ایسا ہی رکھا رہتا ہے اور دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ’چند گھنٹوں کے لیے لاکھوں خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے‘؟
تسنیم کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ انہیں میک اپ یا زیورات پسند نہیں۔ ناپسندیدہ دراصل وہ سوچ ہے جو ایک لڑکی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر اپنی شادی کے دن اس نے ان مصنوعی اشیا کا سہارا نہ لیا تو اس کی اصل شکل و صورت اس کی شادی کے لیے کافی نہیں۔
بقول تسنیم، اسی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی شادی میں نہایت سادہ روپ اختیار کریں گی۔ ’یہ بظاہر سادگی لگتی ہے۔ لیکن یہی میرے لیے سب سے خاص ہے‘۔
تسنیم نے یہ بھی کہا کہ ان کے اس فیصلے کے بعد ان کے خاندان نے ان کی بے حد مخالفت کی۔ بعض لوگوں نے یہ تک کہا کہ وہ اتنی سادہ دلہن کے ساتھ تصویر نہیں کھنچوائیں گے، لیکن ان کے شوہر نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور معاشرے میں رائج ان بے مقصد روایات و خیالات کے خلاف آواز اٹھانے میں ان کی بھرپور مدد کی۔
ہمارے معاشروں میں قائم وقت اور رقم ضائع کرنے والی ان رسوم و روایات کے خلاف آواز اٹھاتی یہ سادہ سی دلہن ہمیں تو بہت پسند آئی، آپ کو کیسی لگی؟
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
خوبصورت نظر آنا خواتین کا حق ہے اور وہ اس حق کے حصول میں حق بجانب بھی ہیں، خواتین خوبصورت اوردل کش نظرآنے کے لیے مختلف کریموں کا استعمال کرتی ہیں، اگر یہ کریمیں خالص اجزاء سے تیار نہ کی گئیں ہوں تو ان کا استعمال جلد کے ساتھ ساتھ صحت کیلئے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
شہر کی مختلف مارکیٹوں میں رنگ گورا کرنے داغ دھبوں کو دور کرنے والی دانوں اور پھنسیوں سے نجات دلانے والی بہت سی ایسی کریمیں دستیاب ہیں، جنہیں کاسمیٹک پروڈکٹ کی جانب پڑتال کرنے والے ادارے کو چیک نہیں کروایا جاتا۔
ایسی تمام کریمیں جو چھوٹی‘ بڑی کاسمیٹک کی دکانوں اورپارلر میں فروخت ہو رہی ہیں اسکن الرجی کا سبب بنتی ہیں ان کریموں کو فروخت کا لیبل بھی لگادیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کریمیں خرید سکیں۔
معاشرے کی بدلتی سوچ اور گوری رنگت کو ترجیح دینے کے باعث کئی لڑکیاں اور لڑکے ایسی کریم استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ معاملہ ایک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے جس نے وبائی بیماری کی شکل اختیار کرلی ہے، بد قسمتی سے ملک میں ایسی نقصان دہ میک اپ کاسمیٹکس کو بیچنے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس کا کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔
خواتین کو ان کریموں کا استعمال کرنے سے قبل ان کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہونی چاہیئں، ان کریموں کے استعمال سے ویسے نتائج تو ضرور مل جاتے ہیں جو چاہیے، لیکن بہت کم عرصے تک کے لیے، آہستہ آہستہ ان کی جلد کافی حساس بن جاتی ہے اور دانے نکلنا شروع ہوجاتے اور کچھ معاملات میں تو چہرے پر بال آجاتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق کسی ایسی کریم کے استعمال کے بعد جس میں شامل ہونے والے اجزاء کو برداشت کرنے کی طاقت اس خاتون میں نہ ہو تو وہ فوری طورپر الرجی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں پورے جسم پر خارش شروع ہوجاتی ہے اور جسم پر لال دھبے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جلد کو گورا بنانے والی کریموں میں اعلیٰ سطح پر مرکری، لیڈ، آرسینک اور ہائیڈرو کیونون شامل ہوتا ہے، ان مواد پر بین الاقوامی سطح پر میک اپ کے سامان میں پابندی لگائی جاچکی ہے۔
الرجی
خواتین اکثر وبیش تر جھریاں‘جھائیاں اور کیل مہاسوں سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر روز نئی نئی کریمیں بھی آزماتی رہتی ہیں ایسی تمام غیر معیاری کریمیں جلد کی بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہیں ۔ جن میں سے ایک الرجی ہے۔
اس لیے کسی بھی کریم کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے معیارکے بارے میں ضرور معلومات حاصل کریں،اکثر کریموں کی خوشبو بھی الرجی کا سبب ہوتی ہے جس کا اندازہ عموماً خواتین کو نہیں ہوپاتا وہ کریم استعمال کرنے کے بعد مسلسل خارش‘ جلن اوردیگر پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتی ہیں۔
غیر معیاری اورسستی کریمیں استعمال کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے چہرہ جھلس گیا ہو، یہ کریمیں چہرے کی اندرونی جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، کچھ کریمیں تو اس حد تک خطرناک ہوتی ہیں کہ ان سے جلد کے کینسر کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔
خواتین سب سے زیادہ ان کریموں سے متاثر ہوتی ہیں جس میں کم وقت میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ درج ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آج سے چند سال قبل سو میں سے دو یا تین خواتین کاسمیٹک الرجی کا شکار ہوتی تھی لیکن اب کاسمیٹک الرجی کا شکار ہونے والے افراد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
دس پندرہ سال پہلے تک لوگ الرجی نامی کسی بیماری سے واقف نہیں تھے آج ہر دس میں سے ایک فرد کو الرجی کا مرض لاحق ہے، اس لیے الرجی موجودہ دور کاایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین چہرے پر لگانے والی کریموں کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتیں، خریداری سے پہلے لیبل کو اچھی طرح پڑھیں اور یہ تصدیق کریں کہ اس کی تیاری میں کوئی ایسے اجزا شامل تو نہیں کیے گئے جس سے جلد کی بیماریوں کاخطرہ ہو۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ایبٹ آباد: دنیا کے سب سے بڑے فری لانسنگ پلیٹ فارم فائیور میں پاکستان کی پہلی خاتون انعم ذوالفقار نے حال ہی میں سب سے زیادہ کمانے کا ایوارڈ حاصل کرکے ملک کا نام فخر سے بلند کر دیا ہے۔
پاکستان کی سرزمین نے اپنے اپنے شعبوں میں بے شمار ٹیلنٹس کو جنم دیا، جو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی انعم ذولفقار نے عالمی بینک کی جانب سے دنیا کے سب سے بڑے فری لانسنگ پلیٹ فارم فائیور میں پاکستان کی پہلی خاتون ٹاپ ریٹڈ فری لانسر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے پاکستان کا نام فخر سے بلند کر دیا۔
کونیکٹڈ پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر سید فیضان علی نے اس شعبہ کی ترقی میں انعم ذوالفقار کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنی مہارت اور صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ثابت کر دیا کہ پاکستانی بھی دنیا میں کسی سے کم نہیں۔
انعم ذوالفقار اور سید فیضان علی نے ثابت کر دیا کہ حکومتی تعاون نہ ہونے کے باوجود بھی پاکستان کی ترقی میں انفرادی طور پر بھی کام کیا جاسکتا ہے اور پاکستان ہی سے ان کا نام اور پہچان ہے۔
پاکستانی خاتون انعم ایبٹ آباد میں پیدا ہوئیں اور کراچی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلام آباد منتقل ہوگئیں جہاں اُنھوں نے فاطمہ جناح یونیورسٹی سے سافٹ وئیر انجنئیر کی ڈگری حاصل کی ،تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس ایبٹ آباد چلی گئی اور جہاں اُس نے جا کر فری لانسنگ شروع کی اور جلد فائیر پر سب سے کمانے والی بن گئی۔
فائیور انتظامیہ کی جانب سے انعم کو پاکستان میں سب سے زیادہ کمانے والی قرار دیا گیا۔
خیال رہے کہ فائیور دنیا کا سب بڑا فری لانسگ کا پلیٹ فارم ہے، جہاں لوگ اپنی مہارت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
لاہور: وطن سے محبت تو سب ہی کرتے ہیں لیکن جذبہ حب الوطنی سے سرشارلاہور کی رہائشی ایک لڑکی نے پاکستان سے محبت کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کرکے لوگوں کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔
حب الوطنی کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی دھرتی سے اپنی دلی وابستگی وفاداری اور خلوص کا اظہار کرے، پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور اس پاک وطن سے محبت کرنے والے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
اس سال جشن آزادی شایان شان طریقے سے منانے کیلئے بائیس سالہ با ئیکر زینت عرفان نے اپنی موٹر سائیکل پر انوکھے سفر کی ٹھانی۔
وہ جشن آزادی کی خوشی میں موٹر سائیکل پر نانگا پربت اور سیاچن کا دورہ کریں گی جو اگست کے تین ہفتوں پر محیط ہے۔ اس سفر کا مقصد لوگوں میں یہ شعور بھی اجاگر کرنا ہے کہ پاکستانی خواتین کسی بھی شعبہ میں کسی سے کم نہیں۔
اس ٹوور کے دوران زینت عرفان کو پاکستان کی سرسبز و شاداب وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں اور بہتے جھرنوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔
وطن سے محبت اور آزادی جیسی نعمت کو محسوس کرنے کا اس سے بہتر انداز اور کیا ہوگا؟ نمائندہ اے آر وائی نیوز ثانیہ چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے زینت عرفان نے کہا کہ پاکستان کے شمالی علاقے بہت خوبصورت ہیں اور یہی پاکستان کی پہچان ہے۔
واضح رہے کہ زینت عرفان اس سے پہلے بھی لاہور سے کشمیر، خنجراب اور چائینہ بارڈر تک کا سفر اپنی موٹر سائیکل پر طے کر چکی ہیں۔
اسلام آباد:پاکستانی خاتون کوہ پیما کاخواب حقیقت بن گیا، عظمیٰ یوسف اسپانٹک چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما بن گئیں۔
تفصیلات کے مطابق پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیماعظمیٰ یوسف نے اسپانٹک چوٹی سرکرلی اور چوٹی سرکرنےوالی پہلی خاتون کوہ پیما بن گئیں، عظمیٰ یوسف نے سپانٹک چوٹی بدھ کی صبح 9بجکر 16منٹ پر سر کی۔
اسپانٹک چوٹی گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں واقع ہے اور سطح زمین سے7027 میٹر بلند ہے۔
عظمیٰ یوسف کی ٹیم میں واجداللہ نگری،اصغرحسین، یاسین شامل ہیں۔
یا رہے کہ گذشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستانی کوہ پیما عظمیٰ یوسف نے منگلنگ سر اور رش پیک کے بعد سات ہزار بلند چوٹی اسپانٹک سر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسپانٹک چوٹی سر کرنا میرا اور میرے کوچ کا خواب ہے۔
خیال رہے کہ عظمیٰ یوسف نے اس سے قبل اکتوبر 2016 میں منگلنگ چوٹی اور فروری 2017 رش پیک چوٹی سرکرچکی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔