Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • امریکی بحریہ میں دشوار ترین مشن کے لیے پہلی بار خاتون اہلکار نامزد

    امریکی بحریہ میں دشوار ترین مشن کے لیے پہلی بار خاتون اہلکار نامزد

    واشنگٹن: امریکی بحریہ میں پہلی بار ایک نہایت دشوار ترین جنگی مشن کی خصوصی فورس میں شمولیت کے لیے ایک خاتون اہلکار کو تربیت دی جا رہی ہے جو اس مشن کی تربیت حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔

    امریکی بحریہ کی یہ فورس ’سیل ۔ ایس ای اے ایل‘ کی اصطلاح سے جانی جاتی ہے۔ یہ بحریہ کی خصوصی آپریشنل فورس ہے جو بوقت ضرورت بری، بحری اور فضائی (سی، ایئر، لینڈ – ایس ای اے ایل) خدمات سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اس بار اس مشن کی تربیت کے لیے 2 خواتین اور ایک مرد نیوی اہلکار کا انتخاب کیا گیا ہے۔

    سیل کی تربیت مکمل کرنے کے بعد انہیں ایک اور خصوصی جنگی تربیت دی جائے گی جسے اسپیشل وار فیئر کمبیٹنٹ ۔ کرافٹ کریو مین پروگرام یا ایس ڈبلیو سی سی کہا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل ان دونوں خصوصی پروگرامز میں خواتین کو شامل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ سنہ 2016 میں ان دونوں پروگرامز میں خواتین کو شامل کرنے کی اجازت دے دی گئی تاہم گزشتہ 18 ماہ کے دوران کوئی خاتون مذکورہ پروگرامز کے لیے منتخب نہ ہوسکی۔

    اب پہلی بار ان پروگرامز کی تربیت کے لیے 2 خواتین کا انتخاب کرلیا گیا ہے جو امریکی بحریہ میں تاریخ رقم کر چکی ہیں تاہم ابھی تربیت مکمل ہونے اور خدمات کا باقاعدہ آغاز کرنے تک ایک لمبا سفر باقی ہے۔

    دونوں خواتین کا نام سیکیورٹی خدشات کے باعث خفیہ رکھا گیا ہے۔

    دشوار ترین تربیت

    امریکی بحریہ کے ان 2 خصوصی جنگی پروگرامز کے لیے دی جانے والی تربیت نہایت سخت اور دشوار ہے۔

    تربیت حاصل کرنے والے امیدواروں کی مہینوں تک سخت تربیت اور اسکریننگ کی جاتی ہے جس کے بعد انہیں آپریشن میں حتمی شمولیت کے لیے انتخابی پینل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

    گاہے بگاہے ہونے والی اسکریننگ کے دوران امیدواروں کی سخت ذہنی وجسمانی پڑتال کی جاتی ہے اور ایک فیصد بھی ناکامی کی صورت میں مذکورہ امیدوار کو تربیتی پروگرام سے خارج کردیا جاتا ہے۔

    ہر سال تربیتی پروگرام کے لیے منتخب ہونے والے 63 فیصد مرد اہلکار حتمی مرحلے میں پہنچنے سے قبل ہی ناکام ہوجاتے ہیں۔

    امریکی بحریہ کی ویب سائٹ کے مطابق ہر سال 1 ہزار امیدواروں کو تربیت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تاہم ان میں سے صرف 2 یا ڈھائی سو اہلکار ہی تربیت مکمل کر پاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارتی خاتون دنیا میں بوئنگ 777 طیارہ اڑانے والی سب سے کم عمر ترین پائلٹ

    بھارتی خاتون دنیا میں بوئنگ 777 طیارہ اڑانے والی سب سے کم عمر ترین پائلٹ

    نئی دہلی : بھارتی خاتون دنیا میں بوئنگ 777 طیارہ اڑانے والی سب سے کم عمرترین پائلٹ بن گئیں۔

    بھارتی خاتون خاتون اینی دیویا نے صرف 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین بوئنگ 777اڑانے والی پائلٹ کا اعزاز اپنے نام کیا، اینی دیویا کا بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں وجایاواڈا نامی شہر سے تعلق ہے اور انکے والد ریٹائرڈ فوجی ہے ۔

    A post shared by Anny Divya (@anny_divya) on

    اینی دیویا کا کہنا تھا کہ بچپن سے ہی پائلٹ بننا چاہتی تھی اور بچے میرا مذاق اڑاتے تھے، اس زمانے میں بچوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ انجینیئر یا ڈاکٹر بنیں لیکن پائلٹ نہ بنیں۔

    A post shared by Anny Divya (@anny_divya) on

    ان کا کہنا ہے کہ مجھے پائلٹ بننے کا خواب پورا کرنے کیلئے بڑے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، خاندان میں ہر شخص ہی مخالفت کرتا تھا لیکن خوش قسمتی سے میرے والدین نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور ساتھ دیا۔

    دیویا نے انکشاف کیا کہ بوئنگ 777 پر کمانڈ حاصل سے قبل انھیں بوئنگ737 کی کپتانی کا موقع ملا تھا لیکن میں نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے کچھ دیر انتظار کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں ہمیشہ سے بوئنگ 777 اڑانا چاہتی تھی۔

    A post shared by Anny Divya (@anny_divya) on

    اینی دیویا نے 17 سال کی عمر میں یوپی کے اندراگاندھی راشٹریہ اڑان اکیڈمی داخلہ لیا اور 19سال کی عمر میں پائلٹ کی ٹریننگ مکمل کرلی، ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد 2006 میں ایئر انڈیا سے منسلک ہوگئی۔

    جس کے بعد ائر انڈیا نے بوئنگ 737 اڑانے کی ٹریننگ کیلئے اسپین بھیجا، اور دیویا نے بوئنگ 737 اڑانا شروع کیا ، 2سال بعد بوئنگ 777اڑانے کی تربیت کیلئے لندن بھیجا گیا۔ جس کے بعد وہ دنیا کا سب سے بڑا ٹوئن جیٹ بوئنگ 777 اڑانے کے قابل ہوئیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    آپ کو سیسم اسٹریٹ نامی امریکی ٹی وی شو تو ضرور یاد ہوگا جس میں پیش کیے جانے والے مختلف پتلے مختلف کرداروں کی صورت میں مزے مزے کی باتیں کرتے تھے۔

    اب ایسا ہی ایک ٹی وی شو افغانستان میں بھی پیش کیا جارہا ہے جس کے ذریعے ملک میں خواتین کی تعلیم اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    افغان سیسم اسٹریٹ میں نارنجی رنگ کا زیرک نامی پتلا اپنی بڑی بہن کا بے حد خیال رکھتا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    گزشتہ سال سے شروع کیے جانے والے اس شو کو نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں بے حد مقبولیت مل رہی ہے۔

    شو میں ایک چھوٹی بچی زری کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اب اس میں اس کے چھوٹے بھائی 4 سال کے زیرک کو بھی شامل کیا گیا ہے اپنی بڑی بہن سے بے حد متاثر ہے اور اس کی طرح تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    دونوں کردار افغانستان کے روایتی پہناووں میں ملبوس ہیں۔

    افغانستان کے ٹولو ٹی وی، جہاں سے یہ پروگرام نشر کیا جاتا ہے، کے سربراہ مسعود سنجر کا کہنا ہے کہ یہ پتلے چھوٹے بچوں کی ذہن سازی کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ وہ اپنی بہنوں سے محبت کریں اور تعلیم حاصل کرنے کو برا نہ سمجھیں۔

    ان کی ٹیم نے پروگرام سے متعلق ایک سروے کیا جس سے پتہ چلا کہ وہ بچے اور والدین جن کے پاس ٹی وی کی سہولت موجود ہے، ان کی 80 فیصد تعداد اس پروگرام کو نہایت شوق سے دیکھتی ہے۔

    سنجر کے مطابق یہ پتلے بچوں کو اس بات کا شعور دیں گے کہ وہ عام افغان روایات کے برعکس خواتین اور ان کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    اس ٹی وی شو کے مرکزی خیال میں اہم مقصد کے ساتھ ساتھ اس کی باریکیوں میں بھی اصلاح کا پہلو رکھا گیا ہے۔

    پروگرام کا مرکزی کردار زیرک جو ایک چھوٹا سا بچہ ہے، چشمے کا استعمال کرتا ہے۔ شو کی پروڈیوسر وجیہہ سیدی کے مطابق اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ افغان معاشرے میں چھوٹے بچوں کا چشمہ پہننا ایک شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    وجیہہ کے مطابق اس شو کے ذریعے وہ اس رویے کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ چشمہ پہننا ایک عام بات ہے۔

    افغان معاشرے میں تبدیلی لانے کا عزم لیے یہ شو صرف ٹی وی پر ہی نہیں بلکہ ریڈیو پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں شو کی ٹیم نے ایک موبائل تھیٹر بھی تشکیل دیا ہے جو افغانستان کے دور دراز دیہاتوں میں جا کر وہاں کے بچوں کو یہ پتلی تماشہ دکھاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ اور ہمت موجود ہو تو ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مصر کی نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا نے اس کی عملی مثال پیش کردی۔

    مختلف آلات موسیقی کو سرور آمیز دھنوں پر بجانا کوئی آسان کام نہیں، اور اس کے لیے شوق، محنت اور طویل ریاضت درکار ہوتی ہے۔ یہ سوچنا محال ہے کہ ان آلات کو بغیر دیکھے اس طرح بجایا جائے کہ سننے والے سحر زدہ رہ جائیں۔

    لیکن مصر کی نابینا خواتین نے یہ ناممکن کام بھی کر دکھایا۔

    مصر کا النور والعمل (روشنی اور امید) نامی یہ آرکسٹرا 44 نابینا خواتین پر مشتمل ہے۔ یہ تمام خواتین فن و موسیقی کی نہایت دلدادہ ہیں تبھی اپنی معذوری کو پچھاڑ کر اپنے شوق کی تکمیل کر رہی ہیں۔

    نابینا خواتین پر مشتمل یہ آرکسٹرا ہر طرح کی دھنیں بجانے پر مہارت رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    یہ موسیقار خواتین بریل سسٹم پر میوزک نوٹس پڑھ کر انہیں یاد کرتی ہیں، پھر انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے آلات موسیقی پر اپنی انگلیوں کا ایسا جادو بکھیرتی ہیں کہ سننے اور دیکھنے والے مبہوت رہ جاتے ہیں۔

    آرکسٹرا میں شامل 5 خواتین جزوی طور پر نابینا ہیں اور صرف سایوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ بقیہ تمام موسیقار خواتین دیکھنے سے بالکل محروم ہیں۔

    دنیا کا منفرد ترین یہ آرکسٹرا اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سفر کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کرچکا ہے جہاں ان کے ہمت و حوصلے کی بے تحاشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

    اس آرکسٹرا کو مصر کا معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر ٹینس کھلاڑی نے صحافی کو ٹوک دیا

    صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر ٹینس کھلاڑی نے صحافی کو ٹوک دیا

    معروف ٹینس کھلاڑی اینڈی مرے نے صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر صحافی کو ٹوک کر اس کی تصحیح کر ڈالی۔

    برطانیہ میں جاری گرینڈ سلیم ایونٹ ومبلڈن 2017 کے کوارٹر فائنل میں ٹینس کے صف اول کے برطانوی کھلاڑی اینڈی مرے کو امریکی کھلاڑی سیم کوئیری سے شکست کھانی پڑی۔

    میچ کے بعد پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ سیم کوئیری پہلے امریکی کھلاڑی ہیں جو کسی گرینڈ سلیم ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچے ہیں، اس بارے میں مرے کا کیا خیال ہے؟

    صحافی کے سوال کے دوران ہی اینڈی مرے نے ان کی بات کاٹ کر تصحیح کی، ’پہلے مرد کھلاڑی‘۔

    ان کے ٹوکنے کے بعد صحافی نے تصحیح کرتے ہوئے دوبارہ اپنے سوال کو دہرایا۔

    یاد رہے کہ امریکی کھلاڑی سرینا ولیمز خواتین ٹینس کھلاڑیوں میں صف اول کی کھلاڑی ہیں اور وہ سنہ 2009 سے اب تک 12 گرینڈ سلیم جیت چکی ہیں لیکن صحافی غالباً ان کی فتوحات کو بھول گیا۔

    اینڈی مرے کے اس جواب کے بعد سرینا ولیمز نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’غالباً اس وقت کوئی بھی خاتون کھلاڑی ایسی نہیں ہونی چاہیئے جو اینڈی مرے کی حمایت نہ کرے‘۔

    انہوں نے کہا کہ اینڈی مرے نے ہمیشہ سے ٹینس میں خواتین کے حقوق کی بات کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم سب ان سے محبت کرتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسکول کے ساتھیوں نے کمسن دلہن کو جبری شادی سے نجات دلا دی

    اسکول کے ساتھیوں نے کمسن دلہن کو جبری شادی سے نجات دلا دی

    نئی دہلی: بھارت میں جبری شادی کا شکار ایک 16 سالہ دلہن کو اس کے اسکول کے ساتھیوں نے ڈھونڈ نکالا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔

    بھارت کے شہر جے پور کے ایک چھوٹے سے قصبے کی رہائشی 16 سالہ لڑکی کو اسکول سے زبردستی اٹھا کر دگنی عمر کے ایک شخص سے بیاہ کر قریبی گاؤں بھیج دیا گیا تھا۔

    جب اس کے اسکول کے ساتھیوں کو اس کی شادی کا علم ہوا تو انہوں نے اس کے گھر والوں سے اس کا پتہ پوچھا، تاہم ان کے انکار پر وہ خود ہی کسی طرح ڈھونڈ کر اس کے گھر پہنچ گئے۔

    وہاں اس لڑکی نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے بعد بچوں کا ہجوم اسے اپنے ساتھ شہر لے گیا۔

    مزید پڑھیں: نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کمسن طالب علموں نے پولیس کو شکایت درج کروانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ان کی بات سننے سے نکار کردیا۔ بعد ازاں ایک تنظیم کی مدد سے یہ بچے فیملی کورٹ جا پہنچے جہاں لڑکی نے اپنی شادی کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کردی۔

    اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی منقطع تعلیم کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کردیا اور اسکول واپسی پر اس کا پرجوش استقبال کیا گیا۔

    یاد رہے کہ بھارت میں قانونی طور پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال ہے تاہم ہر سال لاکھوں لڑکیاں اس عمر سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں کم عمری کی شادیاں لڑکیوں میں بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہے جو تاحیات ان کے ساتھ رہتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون ایس ایچ او تعینات

    خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون ایس ایچ او تعینات

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پشاور سرکل میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تعینات کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور پولیس نے سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پولیس اسٹیشن گلبرگ کی ایس ایچ او تعینات کردیا۔ رضوانہ حمید گزشتہ 3 برسوں سے ویمن پولیس اسٹیشن میں تعینات ہیں۔

    رضوانہ حمید کا کہنا ہے کہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اضافی عہدے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور یہ ذمہ داریاں نئی نہیں ہیں۔

    مزید پڑھیں: بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    خیال رہے کہ سب انسپکٹر رضوانہ حمید نے سنہ 1996 میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس میں شمولیت اختیار کی تھیں اور وہ اس دوران محکمہ پولیس میں مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2014 میں ایڈیشنل آئی جی سندھ کے احکامات پر غزالہ سید کو بطور ایس ایچ او کلفٹن تھانہ تعینات کیا گیا تھا جو کراچی کی تاریخ کی پہلی خاتون ایس ایچ او تھیں۔

    مزید پڑھیں: لاہور میں 19 سال بعد خاتون ایس ایچ اوتعینات

    دو ماہ قبل لاہور میں بھی 17 سال بعد خاتون پولیس فسر غزالہ شریف کو ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین کی پینٹ میں جیبیں چھوٹی کیوں ہوتی ہیں؟

    خواتین کی پینٹ میں جیبیں چھوٹی کیوں ہوتی ہیں؟

    کراچی: عام طور پر مشرقی اور مغربی خواتین کے لباسوں میں فرق دیکھنے میں آتا ہے تاہم پتلون اور شرٹ ایسا لباس ہے جو گزشتہ کچھ برسوں میں اپنی اہمیت کو کافی حد تک بڑھا چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وکٹورین دور میں خواتین کے پینٹ شرٹ کا فیشن اُس وقت سامنے آیا کہ جب برطانوی خواتین بناؤ سنگھار کے لیے بھاری بھرکم لباس استعمال کرتی تھیں۔

    اٹھارویں صدی کے بعد سے خواتین کے فیشن میں بہت سی تبدیلیاں آئیں جن میں پینٹ شرٹ بھی شامل ہے ورنہ اس سے قبل یہ لباس صرف مرد زیب تن کرتے تھے۔

    دنیا کی ترقی اور خواتین کا امور خانہ داری کے علاوہ دفتری کاموں میں رجحان جیسے جیسے بڑھنا شروع ہوا ویسے ویسے پینٹ شرٹ کا فیشن بھی دنیا بھر میں رائج ہوتا گیا۔

    خواتین نے جب گھروں سے باہر نکلنا شروع کیا تو اُن کے ہاتھوں میں قیمتی سامان و دیگر اہم چیزیں ہوتی تھیں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرس (بٹوے) تیار کیے گئے، ابتدائی طور پر بنائے جانے والے پرس چھوٹے ضرور تھے مگر وقت کے ساتھ ان کے سائز میں اضافہ ہوتا رہا۔

    امور خانہ داری چھوڑ کر خواتین نے جب گھروں سے باہر نکلنا شروع کیا تو اُن کے لیے بھاری بھرکم لباس تکلیف دہ ثابت ہوئے اس لیے فی الوقت پینٹ شرٹ کا فیشن سامنے آیا، چونکہ یہ لباس مردوں کا تھا اس لیے خواتین تیار کیے جانے والے پینٹ شرٹ کی جیبیں چھوٹی رکھی گئی۔

    وقت گزرتا رہا اور دنیا میں ترقی کا پیہ گھومتا رہا تو یہ فیشن مغرب سے اٹھ کر مشرق میں بھی آنپہنچا اور اب خواتین کی کثیر تعداد جینس و دیگر پینٹس زیب تن کیے دکھائے دیتی ہیں۔

    خواتین کے لیے تیار کی جانے والی پتلونوں میں یا تو جیبیں (پاکٹ) چھوٹے رکھے جاتے ہیں یا پھر انہیں بغیر جیب کے بنایا جاتا ہے، پینٹ میں جیبیں نہ ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ عموماً خواتین اپنے ہمراہ بیگ لے کر چلتی ہے جس میں وہ پیسے و دیگر اہم اشیاء رکھ سکتی ہے اس کے برعکس مردوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو اُن کی پینٹ میں بڑی جیبیں رکھی جاتی ہیں۔

  • انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جانا مرد و خواتین سب کے لیے ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو میں خواتین امیدواروں کو مردوں سے زیادہ کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    جرنل آف سوشل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جب خواتین ملازمت کے لیے انٹریو دینے جاتی ہیں تو دوران انٹرویو انہیں مردوں کی نسبت بار بار ٹوکا جاتا ہے جبکہ ان سے سوالات بھی اس طرح پوچھے جاتے ہیں جیسے ان سے جرح کی جا رہی ہو۔

    تحقیق کے مطابق یہ رویہ اس وقت زیادہ ہوسکتا ہے جب انٹرویو لینے والا پینل مردوں پر مشتمل ہو۔

    مزید پڑھیں: ملازمت کے لیے دیے جانے والے انٹرویو غیر ضروری؟

    ماہرین عمرانیات کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی بڑے ادارے میں کسی اعلیٰ عہدے کے لیے، لیے جانے والے انٹرویو میں کسی خاتون کو ان کی متاثر کن سی وی اور عملی میدان میں کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شارٹ لسٹ بھی کیا جاتا ہے تب بھی انہی اپنے سے کم صلاحیت کے مرد امیدواروں سے سخت مقابلہ درپیش ہوتا ہے۔

    امریکا کی 2 اہم یونیورسٹیوں میں کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ انٹرویو کے دوران خواتین امیدواروں کے جوابات سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے انہیں بار بار اپنی صلاحیت اور ذہانت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا جس سے وہ انٹرویو کے دوران کنفیوژن کا شکار ہوگئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو کے دوران روا رکھے جانے والا یہی رویہ اس وقت زیادہ تر شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ ہے۔

    مزید پڑھیں: پیشہ ورانہ زندگی میں اپنائے جانے والے آداب

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف انٹرویو کے دوران ہی نظر نہیں آتی۔ عام زندگی میں بھی جب مرد کسی دفتری معاملے پر کسی خاتون سے گفتگو کررہے ہوں تو وہ مردوں سے گفتگو کے مقابلے میں خواتین کی بات زیادہ کاٹتے ہیں اور درمیان میں بول اٹھتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مرد خود آپس میں ایک دوسرے کی بات اسی وقت کاٹتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کی کہی گئی باتوں کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہوں۔

    تحقیق میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ تعلیمی میدان میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھانے کے باوجود خواتین عملی میدان میں مردوں سے پیچھے نظر آتی ہیں جس کی وجہ ان کے لیے مواقعوں میں کمی اور ساتھی مردوں کی جانب سے صنفی امتیاز کا برتا جانا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تھر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین ڈرائیور

    تھر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین ڈرائیور

    تھر : تاریخ میں پہلی بار خواتین بھی ڈرائیونگ کرنے جارہی ہیں، خواتین کی ٹرینر تھری باسیوں کے جذبے پر حیران ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گھر کام کاج ہو سلائی کڑھائی ہو یا ہو کھیتی باڑی کا کام تھر کی عورت حلال رزق کمانے میں اپنی مثال آپ ہے. مگر اب تھر کی خواتین ڈرائیونگ کے شعبے میں بھی اپنا لولہا منوائیں گی اور اب ڈمپر کی سواری کریں گی۔

    اس سلسلے اینگرو کول مائننگ کمپنی تھر کو فیلڈ کی جانب سے 125 خواتین کی درخواستیں وصول ہوئیں جن میں سے ساٹھ خواتین کے انٹرویو کیے گئے جبکہ تیس خواتین کو ڈمپر کی ڈرائیونگ کے لیے سلیکٹ کیا گیا۔

    ان خواتین کو پہلے مرحلے میں کار چلانے کی تربیت دی جائے گی جبکہ آخری مرحلے میں ساٹھ ٹن وزن اٹھانے والے ڈمپر کی ڈرائیونگ کی تربیت دی جائے گی، ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔

    ٹریننگ کے اختتام پر یہ خواتین روزانہ آٹھ گھنٹے ڈمپر چلائیں گی، تیس خواتین کا انتخاب تھر میں کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے، کڑی دھوپ میں ہیوی ڈمپرچلانے والی سخت جاں خواتین کے حوصلے بلند ہیں۔

    خیال رہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے 16 بڑے ذخائر میں ہوتا ہے، نو ہزار کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے مالامال ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔