Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • شامی فوج میں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا تقرر

    شامی فوج میں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا تقرر

    دمشق: شامی فوج میں پہلی بار بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فوج کے اس اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔

    نبل مدحت بدر نامی یہ فوجی افسر شام کے شہر تارتوس سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سے قبل شامی فوج میں خواتین کی شمولیت اور مختلف عہدوں پر ان کی ترقی کوئی نئی بات نہیں تاہم اس عہدے تک پہنچنے والی مدحت پہلی خاتون ہیں۔

    شام کی فوج میں اس وقت کئی خواتین ہیں جو ملک میں جاری جنگ میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں اور داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

    صرف ایک شام ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے عفریت سے لڑنے کے لیے صرف مرد ہی نہیں بلکہ بچے اور خواتین بھی میدان میں آچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے خلاف برسر پیکار برقع پوش افغان خواتین

    ان میں سے کچھ خواتین نے باقاعدہ فوج میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ زیادہ تر گھریلو عام خواتین ہیں جو تربیت حاصل کرنے کے بعد اب اپنے علاقے اور اہل خانہ کی حفاظت پر کمر بستہ ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب کے لیے الیکشن کمیشن کی آگاہی مہم

    خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب کے لیے الیکشن کمیشن کی آگاہی مہم

    اسلام آباد: ملک میں اگلے برس عام انتخابات منعقد کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے خواتین میں ان کے ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں مختلف جامعات اور کالج کے طلبا کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو رضا کارانہ خدمات انجام دیں گے۔

    خواتین میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سیمینارز، مباحثوں، اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کروایا جائے گا جن کے ذریعے خواتین کو ترغیب دی جائے گی کہ وہ بطور ووٹر اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں اور انتخابی مہم میں حصہ لیں۔

    الیکشن کمیشن کی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نگہت داد نے جامع پنجاب کے جینڈر اسٹڈیز کے شعبے کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے شعبہ کی چیئر پرسن ڈاکٹر رعنا ملک سے اس سلسلے میں گفت و شنید کی۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی

    یاد رہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 70 لاکھ ہے جن میں سے خواتین کی تعداد 4 کروڑ 24 لاکھ ہے۔

    سب سے زیادہ خواتین ووٹرز صوبہ پنجاب سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ سب سے کم تعداد فاٹا میں ہے جہاں 17 لاکھ 51 ہزار خواتین بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔

    فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا ممنوع ہے اور عمائدین علاقہ اس سلسلے میں متفقہ طور پر خواتین کو ان کے بنیادی آئینی حق سے محروم کرچکے ہیں۔

    دو سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لاہور کی سڑکوں پر خواتین ٹریفک وارڈنز

    لاہور کی سڑکوں پر خواتین ٹریفک وارڈنز

    صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں عید کے موقع پر پہلی بار سڑکوں پر خواتین وارڈنز مصروف عمل دکھائی دیں۔

    لاہور میں پہلی بار تعینات کی گئی خواتین ٹریفک وارڈنز نے عید کے دن سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کیا جنہیں دیکھ کر شہری خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔

    ان خواتین کو لاہور کے مال روڈ، جیل روڈ، گلبرگ اور فیروز پور روڈ پر تعینات کیا گیا۔

    خواتین وارڈنز کا کہنا تھا کہ عید کے موقع پر ان کا زیادہ تر واسطہ ون وہیلنگ کرتے نوجوانوں سے پڑ رہا ہے۔

    یہ وارڈنز شہر بھر میں پیٹرولنگ بھی کرتی دکھائی دیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    طویل خانہ جنگیوں کے شکار ممالک کو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی، یا یوں کہہ لیجیئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

    اس دور میں ملک کے ہر شخص کو، چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو، کسی بھی شعبہ، کسی بھی ذریعہ روزگار سے تعلق رکھتا ہو، صنف اور عمر کی تفریق کے بغیر فعال کردار ادا کرنے کی ضورت ہوتی ہے تاکہ ملک کو جنگ کی تباہی سے نکالا جاسکے۔

    براعظم افریقہ اس لحاظ سے ایک بدقسمت خطہ ہے کہ وہاں کے زیادہ تر ممالک طویل عرصے سے خونی تنازعوں اور خانہ جنگیوں میں الجھے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں اور ہر طرف بھوک، غربت اور خوف کے سائے ہیں۔

    مغربی افریقہ کا ملک لائبیریا بھی ایسا ہی ملک ہے جو سنہ 1989 سے 1997 تک ایک طویل خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس جنگ میں 6 لاکھ افراد مارے گئے۔

    ابھی ملک اس جنگ کی تباہ کاریوں سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ سنہ 1999 میں ایک اور خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا جو بظاہر تو لائبیریا میں جمہوریت کے لیے لڑی جارہی تھی، تاہم اس جنگ نے بچی کچھی زراعت، معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھی تباہ کردیا۔

    ان خانہ جنگیوں نے لوگوں سے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی چھین لی۔ دور دور تک غربت، بے روزگاری اور جہالت کا اندھیرا ہے۔

    دو طویل خانہ جنگیوں نے اس ملک کو بجلی کی نعمت سے بھی محروم کردیا ہے۔ آج اس تباہ حال ملک کی صرف 10 فیصد آبادی ایسی ہے جسے جدید دور کی یہ بنیادی سہولت یعنی بجلی میسر ہے۔

    لائبیریا کا گاؤں ٹوٹوا بھی ایسا ہی گاؤں ہے جہاں کبھی پاور گرڈز موجود تھے مگر خانہ جنگی کے دوران یہ تباہ کردیے گئے جس کے بعد سے گاؤں والے بیٹری سے چلنے والے لالٹینوں سے اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    یہاں کچھ قریبی آبادیاں جو ذرا خوشحال ہیں، اپنے گھروں کو جنریٹرز سے روشن رکھتی ہیں۔

    توانائی کے اس ذریعہ کا مرکز قریب واقع ایک جزیرہ ہے جسے مقامی زبان میں ’540‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دراصل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد لائبیرین فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کے عوض 540 ڈالر ادا کیے گئے تھے، اور اس جزیرے سے بجلی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر یہی فوجی ہیں جو ان ڈالرز کی بدولت اپنے ہم وطنوں کی نسبت کچھ خوشحال ہیں۔

    یہ گاؤں یوں ہی اندھیروں میں ڈوبا رہتا، اگر اقوام متحدہ ان کی مدد کو آگے نہ بڑھتا۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے ان دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی کے ذرائع کا سوچا۔

    تاہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر یہاں شمسی پینل نصب کردیے جائیں تو ان کی دیکھ بھال اور مرمت کون کرے گا؟ تب یو این وومین نے اس مقصد کے لیے یہاں کی خواتین کو چنا۔

    پروجیکٹ کے آغاز کے بعد لائبیریا کے علاوہ یوگنڈا، جنوبی سوڈان اور تنزانیہ کے متعدد دیہاتوں سے کچھ خواتین منتخب کی گئیں جنہیں سولر پینلز کی دیکھ بھال کی تربیت دی گئی۔ اب یہ خواتین سولر انجینئرز کہلائی جاتی ہیں۔

    شمسی توانائی کی آمد سے قبل گاؤں والے اپنے گھروں کو مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹینوں سے روشن رکھتے تھے جو ان کی صحت اور ماحول دونوں کے لیے خطرناک تھے۔

    تاہم اب گاؤں میں خواتین سولر انجینئر کی موجودگی کے باعث گاؤں کا بڑا حصہ روشنی کی نعمت سے مالا مال ہوگیا ہے۔

    یہ خواتین گاؤں کے مختلف گھروں میں ان پینلز کی تنصیب کا کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں جن گھروں میں یہ پینلز نصب ہیں، کسی خرابی کی صورت میں یہ وہاں جا کر مرمت بھی کرتی ہیں۔

    امن کی جھونپڑیاں

    لائبیریا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد گاؤں کی ان خواتین نے امن کی جھونپڑیاں یا پیس ہٹس بنانے بھی شروع کردیے جن کا رجحان ملک بھر میں پھیل گیا۔ یہ جھونپڑیاں جنگ سے نفرت اور امن کے فروغ کا اظہار تھیں۔

    ان جھونپڑیوں کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے برصغیر میں چوپال کی، بس فرق یہ ہے کہ افریقہ کی یہ چوپال خواتین کے لیے ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    اب جبکہ کئی دیہات شمسی توانائی کی بدولت روشن ہوچکے ہیں تو ان جھونپڑیوں میں رات کے وقت محفلیں جمتی ہیں جہاں خواتین مطالعہ کرتی ہیں، ایک دوسرے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور کچھ پل فرصت کے گزارتی ہیں۔

    ان خواتین کا عزم ہے کہ سولر انجینئرز کی تربیت لینے کے بعد یہ ملک کے دیگر پسماندہ حصوں کی خواتین کی بھی تربیت کریں تاکہ پورے ملک سے اندھیرے دور ہوں اور لائبیریا پھر سے ایک روشن ملک بن جائے۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: یو این وومین


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصری ملکہ قلوپطرہ کے حسن کا راز

    مصری ملکہ قلوپطرہ کے حسن کا راز

    قدیم مصر کی ملکہ قلوپطرہ مصر کی تاریخ کی خوبصورت ترین عورت تسلیم کی جاتی ہے۔ صرف 17 سال کی عمر میں عظیم مصری سلطنت کی حکمران بننے والی قلوپطرہ ذہانت میں بھی بے مثال تھی اور اس وقت کے ذہین و فطین امرا اس کی ذہانت کا اعتراف کرتے تھے۔

    قلوپطرہ نے اپنے وقت کے 2 طاقتور ترین جرنیلوں جولیس سیزر اور مارک انطونی کو اپنی فہم و ادراک کی صلاحیت، دانشمندی اور حسن و جمال سے مسحور کر رکھا تھا۔

    آج ہم آپ کو دنیا کی حسین ترین خواتین میں سے ایک قلوپطرہ کے حسن کے کچھ راز بتانے جارہے ہیں، جنہیں اپنا کر وہ خود کو رہتی دنیا تک جاوداں کر گئی۔

    دودھ اور شہد

    تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ دودھ اور شہد کا غسل قلو پطرہ کا پسندیدہ ترین عمل تھا۔ دودھ اور شہد جلد کو نرم و ملائم بنا کر تازگی کا احساس دلاتے ہیں۔

    آج کے دور کے لحاظ سے اگر غسل کے پانی میں 2 کپ دودھ اور آدھا کپ شہد شامل کرلیا جائے، تو قلو پطرہ جیسا حسن حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔

    سمندری نمک سے مساج

    قلوپطرہ اپنی جلد کو نرم اور شفاف رکھنے کے لیے روز اپنی کنیزوں سے مساج کروایا کرتی تھی جو سمندری نمک اور دودھ کی ملائی سے تیار کیا جاتا تھا۔

    یہ اسکرب مساج کرنے کے بعد 5 منٹ تک جلد پر لگا رہنے دیا جائے اس کے بعد دھو دیا جائے، نتائج دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

    چہرے کی حفاظت

    چہرے کے لیے قلو پطرہ 2 طرح کے ماسک استعمال کرتی تھی۔ ایک ملائی اور شہد، اور دوسرا انگوروں کو پیس کر ان میں شہد کی آمیزش کر کے۔ اس ماسک کو چہرے پر 15 منٹ تک لگا رہے دیا جائے۔

    یہ ماسک چہرے کی جلد کو شاداب اور خوبصورت بنادے گا۔

    سیب کا سرکہ

    سیب کی آمیزش سے تیار کیا جانے والا سرکہ ایک جادو اثر محلول ہے۔ قلوپطرہ اس سرکہ میں بیسن اور گرم پانی کی آمیزش کر کے اسے چہرے پر استعمال کیا کرتی تھی۔

    عرق گلاب

    حسن و جمال میں اضافے کے لیے عرق گلاب کا استعمال ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے۔ عرق گلاب جلد کو نمی فراہم کرتا ہے۔

    یہ دن اور رات کے کسی بھی حصے میں بلا جھجھک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عرق گلاب جلد کو جوان اور تروتازہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    قلوپطرہ بھی اس راز سے واقف تھی لہٰذا عرق گلاب اس کے حسن کی حفاظت کے اجزائے ترکیبی کا لازمی جز تھا۔

    ملکہ حسن قلوپطرہ کی خوبصورتی کے ان رازوں میں سے آپ کون سا اپنانے جارہے ہیں؟

    نوٹ: مضمون میں شامل تصاویر ان اداکاراؤں کی ہیں جنہوں نے مختلف وقت کی فلموں میں قلوپطرہ کا کردار ادا کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • داعش کے خلاف برسر پیکار برقع پوش افغان خواتین

    داعش کے خلاف برسر پیکار برقع پوش افغان خواتین

    مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں اپنے پنجے گاڑتی شدت پسند تنظیم داعش ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ کسی محاذ پر اسے شکست کا سامنا ہے، اور کہیں تمام کوششوں کے باوجود اسے پچھاڑا نہیں جاسکا۔

    افغانستان میں افغان فورسز اور اتحادی افواج کی کارروائیوں کے باوجود داعش کے مظالم جاری ہیں اور اب گھریلو افغان خواتین نے بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

    شٹل کاک برقع میں ملبوس یہ خواتین گھریلو تو ہیں، تاہم ہتھیار اور گولیوں، بموں کی گھن گرج ان کے لیے اجنبی نہیں۔

    اب جبکہ انہیں لگتا ہے کہ بعض نواحی علاقوں میں افغان فورسز داعش کی گردن تک نہیں پہنچ سکتی، تو یہ خود ہی مسلح ہو کر داعش کے خلاف میدان میں اتر آئی ہیں۔

    افغان صوبے جوزجان میں، جو افغانستان اور ترکمانستان کی سرحد پر واقع ہے، کے درزاب اور شیبرغان ضلع میں سینکڑوں خواتین نہ صرف داعش بلکہ طالبان کے خلاف بھی برسر جنگ ہیں۔

    انہی میں سے ایک سارہ خولہ نامی خاتون بھی شامل ہیں جن کا بیٹا داعش کے حملے میں مارا گیا اور اپنے پیچھے اپنے بچوں کو یتیم کرگیا۔

    اب سارہ سراپا انتقام بن کر غم و غصہ کی حالت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’داعش اور طالبان جہاں بھی ہیں میں ان سے انتقام لوں گی‘۔

    فورسز میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ

    شمالی افغانستان میں ان خواتین کی تربیت خواتین پولیس اہلکار کرر ہی ہیں۔ یہاں ہر ہفتے ملک کے مختلف حصوں سے 40 سے 50 خواتین آتی ہیں جو ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’اگر آج ہم داعش اور طالبان سے ڈر گئے، تو کل ہمارا مستقبل تباہ ہوجائے گا‘۔

    یہ سلسہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ افغان فوج اور پولیس میں خواتین کی تعددا میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

    جوزجان کے پولیس چیف جنرل رحمت کہتے ہیں، ’خواتین کا کام لڑنا بھڑنا نہیں ہے لیکن یہ اب حالات کا تقاضہ ہے‘۔

    افغانستان کے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار جاوید کوہستانی کا کہنا ہے کہ یہ خواتین اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کو ترغیب دینے کا سبب ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کا دفاع کیا جائے۔

    برقع میں ملبوس یہ خواتین اپنے پیاروں اور اپنے ملک کو ان شدت پسند عناصر کے شکنجے سے بچانے کے لیے اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    آپ کے خیال میں کراچی کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہوگی؟ ٹول پلازہ؟ نیشنل ہائی وے؟ یا پھر حب ریور روڈ پر کراچی اختتام کو پہنچ جاتا ہوگا؟ اگر آپ واقعی ایسا سوچتے ہیں تو چلیں آج آپ کو کراچی کی ایک ایسی حد پر لے چلتے ہیں جس کا آج سے قبل آپ نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

    اس کے لیے آپ کو کراچی سے باہر نکلنے کے راستے پر سفر کرتے رہنا ہوگا، آپ کے سفر میں سنسان راستے ہوں گے، جہاں آپ کے علاوہ کوئی ذی روح نہ دکھائی دیتا ہوگا، بنجر زمین ہوگی، صحرا ہوگا، پتھریلے اور مٹی کے پہاڑ بھی دکھائی دیں گے، اور ہاں راستے میں آپ کو 1 فٹ لمبی چھپکلیاں بھی ملیں گی جنہیں مقامی زبان میں ’نوریڑو‘ کہا جاتا ہے۔

    اس سفر میں آپ کو لگ بھگ 3 گھنٹے گزر جائیں گے، اور بالاآخر آپ جس جگہ پہنچیں گے، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ وہ بھی کراچی کا ہی حصہ ہوگا۔

    یہ ایک خاصا ’عجیب و غریب‘ سفر ثابت ہوسکتا ہے، اور اس وقت مزید عجیب ہوجائے گا جب آپ کو علم ہوگا کہ کراچی سے بہت دور آنے کے بعد ایسا صحرا، جہاں کوئی انجان شخص بھٹک جائے تو ساری زندگی بھٹکتا رہے، ایک جیسے پتھریلے راستوں سے کبھی صحیح سمت کا اندازہ نہ لگا سکے، ضلع ملیر کا حصہ ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اس مقام کا علم کراچی کے میئر اور ملیر کے بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کو بھی نہ ہوگا۔ جب کسی شے کا اکثریت کو علم نہ ہو، تو وہ گمنام ہوجاتی ہے، اور جدید دنیا سے اس کا تعلق کٹ جاتا ہے۔

    کراچی سے کئی میل دور ۔ ایک اور کراچی

    کراچی کے مرکز سے شروع ہونے والا یہ سفر جب اختتام پذیر ہوتا ہے تو اس سفر کو لگ بھگ 4 گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ راستے کی ویرانی، بنجر پن، صحرا، اور صحرا میں جا بجا بکھرے ببول کے پودوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید ہم راستہ بھٹک چکے ہیں۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر واقعی صحیح راستے پر جارہے ہیں، تو وہ کون لوگ ہیں جو دوسری طرف رہتے ہیں اور جنہیں شہر کی سہولیات تک پہنچنے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہوں گے۔

    یہ سفر کراچی (کے مرکز) سے تقریباً 170 کلومیٹر دور احسان رضا گوٹھ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، اور یہاں سے دکھوں، غربت، بے بسی اور لاچاری کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔

    گاؤں کا سربراہ احسان رضا برفت نامی شخص ہے جو پہلی بات کرتے ہی ایک نہایت مہذب، باشعور اور ذہین شخص معلوم ہوتا ہے۔

    چار خانوں والا رومال آدھا کندھے اور آدھا سر پر ڈالے، اور سندھی ٹوپی پہنے یہ شخص نہ صرف اپنے بلکہ آس پاس موجود دیگر گاؤں کی فلاح کے لیے بھی نہایت متحرک اور سرگرم عمل ہے۔

    جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت گاؤں والے سخت دھوپ میں اپنی جھونپڑیوں سے باہر کھلی دھوپ میں راشن تقسیم کیے جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے جو چند مخیر حضرات کی مہربانی سے انہیں میسر آیا تھا۔

    راشن کے منتظر ان افراد میں بزرگ خواتین و مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ کچھ لوگ ایک اور قریب موجود گاؤں سے بھی آئے تھے۔

    تقسیم کے اس عمل کے دوران میں نے وہاں موجود جھونپڑیوں کا جائزہ لیا۔ ایک ہی دائرے میں پھیلے 20 سے 25 گھروں میں ایک ہی خاندان کے افراد آباد تھے۔

    گاؤں کے سربراہ احسان رضا کے بقول اس گاؤں سمیت دیگر کئی گاؤں میں آبادی اسی طرح خاندانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ جھونپڑیوں کے اندر نہایت ہی ضعیف خواتین موجود تھیں جو ناتوانی کے باعث راشن کی لائن میں نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔

    جھونپڑیوں کا جائزہ لینے کے دوران ایک خاتون میرے ہمراہ ہوگئیں۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ وہاں موجود افراد شہر سے کم تعلق کے باعث نہایت ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہ خاتون نہایت صاف اردو میں بات کر رہی تھیں۔

    گفتگو شروع ہوئی تو میں نے وہاں پر بنیادی ضرورتوں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے بارے میں دریافت کیا، لیکن بانو نامی اس خاتون کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا، نفی میں ہلتا ہوا سر اور ’کچھ بھی نہیں‘۔

    پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاؤں والے چھوٹی موٹی بیماریوں کا تو خود ہی علاج کر لیتے تھے، البتہ کسی شدید تکلیف دہ صورتحال یا خواتین کی زچگی کے موقع پر ’شہر‘ سے مدد بلوائی جاتی تھی۔

    معروف مصنف مشتاق احمد یوسفی اپنی ایک کتاب میں رقم طراز ہیں، ’پرانے زمانوں میں ڈاکٹر کو اسی وقت بلوایا جاتا تھا جب یقین ہوجاتا تھا کہ اب مریض کے انتقال کو بس تھوڑی ہی دیر باقی ہے‘۔

    یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب مریض درد سے تڑپتا موت کی سرحد پر پہنچ جاتا، تو اپنی یا شاید مریض کی تسلی کے لیے شہر سے ڈاکٹر یا ایمبولینس بلوائی جاتی لیکن عموماً مریض مسیحا کی مسیحائی سے پہلے ہی موت سے شکست کھا جاتا تھا۔

    شہر سے مدد بلوانے کے لیے پی ٹی سی ایل کا ایک عدد ٹیلی فون وہاں نصب تھا۔ اس ٹیلی فون سے شہر میں ایمبولینس کو کال کی جاتی جس کے بعد شہر سے ایمبولینس روانہ ہوتی اور صحرا کے پتھریلے راستوں پر ڈولتی، ہچکولے کھاتی، یہاں تک پہنچتی، اس وقت تک اگر مریض میں جان ہوتی تو اسے لے کر دوبارہ اسی جھٹکے کھاتی 3 گھنٹے کے طویل سفر پر روانہ ہوجاتی۔

    اگر کوئی مریض سفر کی طوالت اور اذیت ناک جھٹکوں کے باوجود شہر کے اسپتال پہنچنے تک زندہ رہتا (اور ایسا بہت کم ہوتا تھا) تو سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تک پہنچنے کا انتظار اسے ماردیتا، گویا ہر صورت موت ہی اسے نصیب تھی۔

    یہ اذیت ناک کرب اور انتظار کی تکلیف مختلف مریضوں کے علاوہ ہر اس زچہ خاتون کو بھی اٹھانی پڑتی جن کا دائی کے ہاتھوں کیس بگڑ جاتا اور وہ یا ان کا بچہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ موت اور درد سے لڑتی ایک عورت کا ان جان لیوا راستوں پر سفر اور ایسے وقت میں جب ایک لمحہ بھی ایک عمر بن کر گزرتا محسوس ہوتا ہے، 3 سے 4 گھنٹوں کے طویل عبرت ناک انتظار کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    لیکن ان عورتوں میں سے بمشکل ہی کوئی ڈاکٹر تک پہنچ پاتی ہے۔ عام حالت میں بھی انسانی برداشت کی حد سے گزرنے والا تخلیق کا درد جب اپنے عروج پر پہنچتا ہوگا تو ایسے میں اس تکلیف کو سہنے سے زیادہ آسان ملک الموت کا آنا ہی ہوتا ہوگا اور قدرت بھی یہ بات جانتی ہے لہٰذا ایسی عورتیں نصف راستے میں ہی دم توڑ کر ابدی نجات پالیتی ہیں۔

    بانو کے بقول گاؤں میں عموماً گھروں میں ہی زچگی کا عمل انجام پاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے اور جب گاؤں میں کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ اور اس کے گھر والے دعا مانگتے ہیں کہ شہر سے مدد بلوانے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔

    وہ جانتے ہیں کہ شہر سے ایمبولینس آنے کے بعد جو اس ایمبولینس میں لیٹ کر ان راستوں کی طرف جاتا ہے، وہ شاذ ہی واپس آتا ہے۔ شہر کی طرف جانے والے یہ راستے ان کی لیے گویا موت کی وادی میں جانے کے راستے تھے۔

    گاؤں کے بیچوں بیچ ’پبلک‘ باتھ روم

    اس سے قبل میں نے جتنے بھی گاؤں دیہاتوں کے دورے کیے تھے وہاں کا ایک اہم مسئلہ بیت الخلا کی عدم موجودگی بھی ہوتا تھا، لیکن شاید وہ میرے لیے اہم تھا، وہاں رہنے والوں کے لیے نہیں، کیونکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گاؤں والوں کو بیت الخلا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔

    البتہ خواتین کے لیے باتھ روم کا استعمال ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں باتھ روم نہیں ہوتے وہاں خواتین کو علیٰ الصبح اور شام ڈھلنے کے بعد کھیتوں میں جانا پڑتا تھا، یا جہاں ٹوٹے پھوٹے باتھ روم موجود ہوتے تھے، وہ شام ڈھلتے ہی سانپوں اور مختلف کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن جاتے تھے لہٰذا خواتین شام ہونے کے بعد واش رومز استعمال کرنے سے احتیاط ہی برتتی تھیں۔

    احسان رضا گوٹھ میں البتہ مجھے چند باتھ روم ضرور دکھائی دیے۔ گاؤں میں مصروف عمل ایک فلاحی تنظیم کاریتاس کی معاونت سے بنائے گئے یہ باتھ روم تعداد میں 2 سے 3 تھے اور ہر باتھ روم چند گھروں کے زیر استعمال تھا۔

    کچے گھروں سے دور صحرا کے وسط میں کھڑے یہ باتھ روم بہت عجیب دکھائی دیتے تھے لیکن گاؤں والوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ اس کی بدولت مرد و خواتین دونوں کو کھیتوں میں جانے کی زحمت سے چھٹکارہ حاصل تھا۔

    خواتین اور بچے معاشی عمل کا حصہ؟

    گاؤں میں اسکول کے بارے میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں کوئی اسکول یا استاد نہیں تھا جو بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا۔

    دراصل گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی تھا۔ یہاں پر پانی کا ذریعہ اس علاقے میں ہونے والی بارشیں تھیں جو گزشتہ 2 سال سے نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم یہ مسئلہ اب خاصی حد تک حل ہوچکا تھا۔

    کاریتاس کی کوششوں کے سبب چند ایک ارکان صوبائی اسمبلیوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور ان کی ذاتی دلچسپی کے سبب اب یہاں پانی کی موٹر نصب کردی گئی تھی جو زمین سے پانی نکال کر گاؤں والوں کی ضروریات کو پورا کر رہی تھی۔ کچھ ضرورت ہینڈ پمپس سے بھی پوری ہورہی تھی۔

    اس اہم مسئلے کے حل کے بعد اب گاؤں والوں کی زندگی خاصی مطمئن گزر رہی تھی اور انہیں اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    میں نے خواتین سے دریافت کیا کہ کیا وہ معاشی عمل کا حصہ ہیں اور کوئی کام کرتی ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا۔

    بانو نے بتایا کہ خواتین سندھ کی روایتی کڑھائی سے آراستہ ملبوسات اور رلیاں (جو مختلف رنگین ٹکڑوں کو جوڑ کر بستر پر بچھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) بناتی تو ہیں مگر وہ خود ہی استعمال کرتی ہیں، انہیں شہر لے جا کر فروخت نہیں کیا جاتا۔

    گفتگو کے دوران ایک اور خاتون نے شامل ہوتے ہوئے کہا، ‘ کڑھائی کرنا مشکل کام ہے یہ ہاتھ سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ہمیں سلائی مشینیں لا دیں تو ہم انہیں بنا کر شہر میں بیچیں گے’۔

    خاتون کے مطابق بہت پہلے گاؤں کے کسی ایک گھر میں سلائی مشین ہوا کرتی تھی جس پر تمام خواتین سلائی سیکھا کرتیں اور اپنے لیے خوبصورت ملبوسات تیار کرتیں، تاہم اب وہ واحد سلائی مشین خستہ حال اور ناکارہ ہوچکی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر ایک اور دنیا

    احسان رضا گوٹھ کے بالکل سامنے ایک پہاڑ نظر آرہا تھا جس کے دوسری طرف صوبہ بلوچستان کا مول نامی قصبہ واقع ہے۔

    ہمیں پتہ چلا کہ اس پہاڑ کے اوپر بھی چند گاؤں واقع ہیں۔ ’اوپر والے ضروریات زندگی کے لیے نیچے کیسے آتے ہیں؟‘ یہ پہلا سوال تھا جو ہمارے ذہنوں میں آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پہاڑ کے اوپر ایک کچا راستہ تعمیر کیا گیا ہے جس کے بعد گاؤں والوں کی زندگی اب نسبتاً آسان ہوگئی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر کو لے جانے والے راستے کی تعمیر بھی بذات خود ایک کہانی ہے۔ اس کچے راستے کی تعمیر سے قبل گاؤں والے پیدل پہاڑ سے اترا کرتے تھے۔ احسان رضا گوٹھ میں چند ایک افراد کے پاس موٹر سائیکل تھی جو اس موقع پر کام آتی۔

    اس پہاڑ کے اوپر رہنے والے بیماروں اور میتوں کی تدفین کے لیے پلنگ اور رسی کا استعمال کرتے تھے اور مریضوں اور مردہ شخص کو پلنگ سے باندھ کر نیچے لایا جاتا جس کے بعد اسے اسپتال یا قبرستان لے جایا جاتا۔

    مذکورہ پہاڑ سے نیچے اتر کر 1 سے 2 گھنٹے میں احسان رضا گوٹھ تک پہنچنا، اس کے بعد مزید 3 گھنٹوں کا سفر کر کے شہر تک پہنچنا، درمیان میں راستے کی اونچ نیچ، پتھر، صحرا یہ سب جاں بہ لب مریض کے دنیا سے منہ موڑنے کے لیے کافی تھے۔ ہاں جو مرجاتے وہ نسبتاً سکون میں تھے کیونکہ ان کے لیے گاؤں والوں نے ذرا دور ایک قبرستان بنا رکھا تھا۔

    تاہم یہ مشکل کچھ آسان اس طرح ہوئی کہ کاریتاس کی وساطت سے سابق رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ نے یہاں کا دورہ کیا اور ان کے احکامات کے بعد پہاڑ سے نیچے اترنے کے لیے ایک کچا راستہ تعمیر ہوسکا۔

    اس ساری داستان کو جاننے کے بعد اب ہمارا سفر پہاڑ کے اوپر کی طرف تھا۔ ہم گاڑی میں سوار ہچکولے کھاتے، رکتے، چلتے اور صحرا کے حیرت انگیز نظارے دیکھتے اوپر پہنچے۔ یہ راستہ 5 سے 6 کلومیٹر کی طوالت پر مشتمل ہے۔

    پہاڑ کے اوپر سب سے پہلا گاؤں مٹھو (سندھی زبان میں میٹھا) گوٹھ تھا۔ مٹھو گوٹھ سمیت یہاں کوئی 5 سے 6 گاؤں موجود تھے جن میں مجموعی طور پر 200 کے قریب گھر آباد تھے۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی دور تک غربت، بیماری اور مسائل کا راج تھا۔ جگہ جگہ زمین پر مختلف بانس گاڑ کر ان سے گائے بیلوں اور بکریوں کو باندھا جاتا تھا۔ یہ مویشی گاؤں والوں کے لیے صرف اتنے مددگار تھے کہ انہیں بیچ کر کچھ عرصے کا راشن خریدا جاسکتا۔

    مٹھو گوٹھ میں 2 کمروں پر مشتمل اسکول کی ایک عمارت بھی کھڑی تھی جو اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ کیونکہ اول تو حکومت کا مقرر کردہ کوئی استاد یہاں آتا ہی نہیں تھا، اور اگر کوئی آ بھی جاتا تو گاؤں کے مردوں کو اس سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہوجاتی یوں وہ چند دن بعد وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا۔

    محرومیوں کا شکار لیکن مطمئن لوگ

    گاؤں کی خواتین نے مجھے اپنے ہاتھ سے کڑھی ہوئی چادریں، ملبوسات اور رلیاں وغیرہ دکھائیں۔

    میں نے دریافت کیا کہ وہ ان اشیا کو شہر میں فروخت کر کے اپنی معاشی حالت میں بہتری کیوں نہیں لاتیں؟ آخر راشن لانے اور جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے بھی تو ان کے مرد شہر کی طرف جاتے ہی ہیں، تب ان خواتین کا جواب ٹالنے والا سا تھا۔ صائمہ نامی ایک خاتون نے کہا، ’ہمارے مرد نہیں لے کر جاتے‘۔

    صائمہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ خود تو گردوں کے مرض کا شکار ہے اور بیمار رہتی ہے، لہٰذا وہ زیادہ کام نہیں کر سکتی البتہ جو دیگر عورتیں ہیں وہ بس اپنے لیے ہی سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ ‘ہم بس نہیں بیچتے۔ ہم بنا کر خود ہی استعمال کرتے ہیں’۔

    اس کے پاس اس بات کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، شاید وہ سب اپنی غربت اور مسائل سے گھری زندگی میں مگن اور خوش تھے۔

    واپسی میں پھر وہی کئی گھنٹوں کا سفر تھا، صحرا تھا، ویرانی تھی، اور اونچے نیچے راستے تھے۔ ان سب کو پاٹ کر جب ہم ’شہر‘ میں داخل ہوئے تھے تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کا سفر نہیں تھا، بلکہ دو زمانوں کا سفر تھا۔

    ایک جدید دور کا تمام سہولیات سے آراستہ زمانہ، اور دوسرا کئی صدیوں قبل کا جب سائنس عام افراد کی پہنچ سے بہت دور تھی اور ہر طرف دکھ تھے، مسائل تھے، جہالت تھی، تکلیفیں تھیں، اور شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہوا کرتا تھا۔

  • شوہر کے ہاتھوں نابینا ہوجانے والی خاتون وکیل بن گئیں

    شوہر کے ہاتھوں نابینا ہوجانے والی خاتون وکیل بن گئیں

    اوٹاوا: خاوند کی جانب سے بدترین ظلم کے بعد نابینا ہوجانے والی بنگلہ دیشی خاتون نے کینیڈا سے وکالت کی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی۔

    رومانہ منظور نامی یہ 38 سال بنگلہ دیشی خاتون نہایت تشدد پسند شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھیں جس نے 5 سال قبل درندگی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جھگڑے میں رومانہ کی آنکھیں نوچ ڈالیں۔

    اس کی اس حرکت کی وجہ سے رومانہ زندگی بھر کے لیے نابینا ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کا اشتہار وائرل

    رومانہ کو اس وحشت و بربریت کے مظاہرے کے بعد سنبھلنے اور پھر سے زندگی کی طرف لوٹنے میں 2 سال لگے۔

    اس کے بعد رومانہ اپنی 11 سالہ بیٹی کے ساتھ کینیڈا چلی آئیں اور دوستوں اور اہل خانہ کے ہمت دلانے کے بعد انہوں نے پھر سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔

    انتھک محنت کے بعد بالآخر وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور جس دن انہیں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی جانب سے ڈگری سے نوازا گیا وہ دن ان کی زندگی کا یادگار ترین دن تھا۔

    اپنے کلاس فیلوز کی مدد سے اسٹیج پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کہا، ’اس تمام سفر میں، میں یونیورسٹی انتظامیہ کی بہت شکر گزار ہوں جو اب میرے لے اہل خانہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں‘۔

    رومانہ کے مطابق اس تمام عرصے میں یونیورسٹی کے تمام اساتذہ، طلبا اور ایک ایک شخص نے ان کی مدد کی اور انہی کے خلوص کی مدد سے وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    وہ کہتی ہیں، ’میرا نابینا ہوجانا میری زندگی کا بھیانک ترین واقعہ ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ تاہم زندگی آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے‘۔

    رومانہ اب اپنے اس تلخ دور کی یادوں سے خاصی حد تک باہر نکل آئی ہیں اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی خاتون کے لیے کینیڈا کی بہترین ماہر تعلیم کا اعزاز

    پاکستانی خاتون کے لیے کینیڈا کی بہترین ماہر تعلیم کا اعزاز

    اوٹاوا: پاکستانی نژاد کینیڈین خاتون سبرینہ رحمٰن کو کینیڈا کے بہترین ماہر تعلیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انہیں ایوارڈ دیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔

    سبرینہ کو 2017 پرائم منسٹرز ایوارڈ فار ایکسلینس ان ایجوکیشن سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ سبرینہ سمیت 5 افراد کو دیا گیا جو تعلیم کے شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

    تقریب میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور گورنر جنرل ڈیوڈ جانسٹن نے بھی شرکت کی۔

    سبرینہ رحمٰن اوٹاوا میں لٹل اسکول مونٹیسوری کی سربراہ ہیں۔ وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرچکی ہیں۔

    انہوں نے بچوں کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کو نئے اور منفرد انداز سے پیش کیا جس سے وہ بچوں کے لیے نہایت دلچسپ بن گیا۔

    سبرینہ نے بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کئی پروگرامز بھی متعارف کروائے جن میں حصہ لے کر بچوں کی ذہنی استعداد، کارکردگی اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

    سبرینہ اپنے اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے خاندانوں اور کمیونٹیز کو بھی ان کے تدریسی عمل سے منسلک کرتی ہیں تاکہ بچے کی تربیت بہترین خطوط پر کی جاسکے اور اس میں والدین، خاندان اور اساتذہ اپنا کردارا دا کریں۔

    مزید پڑھیں: کینیڈا کی ملالہ یوسف زئی کو اعزازی شہریت

    ان کے بنائے ہوئے اسکول سسٹم میں بچوں کو اشاروں کی زبان بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ اس زبان سے آشنا ہوجائیں اور معاشرے میں موجود معذور افراد کی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکیں۔

    ایوارڈ ملنے کے بعد سبرینہ نے اسے اپنی اور بچوں کے والدین کی محنت کا نتیجہ قرار دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حاملہ خواتین کی طبی حفاظت کے لیے اسمارٹ کنگن تیار

    حاملہ خواتین کی طبی حفاظت کے لیے اسمارٹ کنگن تیار

    بنگلہ دیش میں ایک ایسا ہائی ٹیک کنگن تیار کرلیا گیا جو حاملہ خواتین کو مضر صحت دھوئیں سے خبردار کرے گا اور انہیں ان کی صحت سے متعلق تجاویز بھی دے گا۔

    ایک بنگلہ دیشی ٹیک کمپنی کی جانب سے تیار کیا جانے والا یہ کنگن جنوبی ایشیا میں حاملہ خواتین، زچاؤں اور نومولود بچوں کی صحت کے اقدامات کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

    کوئل نامی کنگن کے اس منصوبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ایجاد دیہی خواتین کو مدنظر رکھتے ہوئے کی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں موبائل فون باآسانی کام نہیں کر تے لہٰذا بہت کم خواتین کسی ہنگامی صورتحال میں ڈاکٹر یا ایمبولینس تک رسائی پاسکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    علاوہ ازیں موبائل فون ہر خاتون کو دستیاب بھی نہیں ہوتا اور گھر میں موجود موبائل فون زیادہ تر گھر کے مردوں کے پاس ہوتا ہے۔

    مضبوط پلاسٹک سے تیار کیے جانے والے اس کنگن میں طویل مدت تک کام کرنے والی بیٹری نصب کی گئی ہے جو حمل کے 9 ماہ تک آرام سے چل سکے گی۔ اس کنگن کو کام کرنے کے لیے نہ تو چارجنگ کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی انٹرنیٹ کنکشن کی۔

    ایک بار بیٹری ختم ہوجانے کے بعد اسے چارج کر کے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    یہ کنگن استعمال میں بھی آرام دہ ہے اور جنوبی ایشیا جہاں شادی شدہ خواتین میں ہاتھوں کو چوڑیوں اور کنگنوں سے سجائے رکھنے کا رواج ہے، وہاں انہیں پہننے میں بھی کوئی الجھن نہیں ہوگی۔

    کنگن میں نصب کیا گیا سسٹم خواتین کو مقامی زبان میں ان کی صحت سے متعلق آگاہی دیتا رہے گا۔ ساتھ ہی وہ یہ تجاویز بھی دے گا کہ حاملہ خاتون کو کیا کھانا چاہیئے اور کب ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے۔

    یہ کنگن اس وقت ایک الارم بھی بجائے گا جب اسے پہننے والی خاتون کے گرد کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا زہریلا دھواں بڑی مقدار میں پھیل جائے گا۔ یہ دھواں عموماً اس وقت خارج ہوتا ہے جب دیہی علاقوں میں لکڑی، گوبر یا کوئلے کے چولہے جلائے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کوریا کی بسوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 830 خواتین زچگی یا حمل کے دوران مختلف پیچیدگیوں کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ ان اموات میں سے ایک تہائی اموات جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں۔

    دوسری جانب بنگلہ دیش میں 70 فیصد بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوتی ہے۔ طبی سہولیات کی عدم موجودگی، صفائی کے فقدان اور مختلف پیچیدگیوں کے باعث ہر سال 77 ہزار نومولود بچے جبکہ 5 ہزار مائیں زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

    کوئل نامی اس کنگن کو بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی ریاست اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔