Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • امریکی مسلمان باکسر کو حجاب کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

    امریکی مسلمان باکسر کو حجاب کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

    واشنگٹن: حجاب کے ساتھ باکسنگ میں حصہ لینے کی ممانعت کے خلاف امریکی نوعمر مسلمان باکسر عمایہ ظفر کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی، اور امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن نے اسے باحجاب ہو کر کھیل میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔

    امریکی ریاست منیسوٹا کی 16 سالہ عمایہ کے لیے یہ جدوجہد اتنی آسان نہیں تھی۔ وہ اپنے حریف کے ساتھ ساتھ ان قوانین سے بھی متصادم تھی، جو اسے حجاب کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔

    عمایہ اپنی مذہبی اقدار اور اپنے جنون کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی تھی۔

    لیکن اس کی راہ میں اس کے پسندیدہ کھیل باکسنگ کے وہ قوانین حائل تھے جن کی رو سے وہ مکمل ڈھکا ہوا لباس اور سر پر حجاب پہن کر اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔

    ہوش سنبھالنے کے بعد سے اس کھیل کی پریکٹس کرنے والی عمایہ گزشتہ برس ایک باکسنگ میچ میں حصہ لینے کے لیے فلوریڈا گئی۔

    لیکن وہاں اسے بتایا گیا کہ حجاب، مکمل بازوؤں والی جرسی اور لیگنگ کے ساتھ اسے مقابلہ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

    عمایہ دل برداشتہ لوٹ آئی، لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا۔ وہ کہتی تھی، ’میں اپنے شوق کے لیے مذہب، اور مذہب کے لیے شوق کو کیوں قربان کروں‘؟

    ایک نئے حوصلے سے عمایہ نے پھر سے باکسنگ کی پریکٹس شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ عمایہ اور اس کے خاندان نے کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے مدد کی درخواست کی۔

    کونسل نے امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن سے کھیل کے قوانین میں مذہبی چھوٹ کے حوالے سے شق شامل کرنے کے معاملے پر گفت و شنید شروع کردی۔

    بالآخر کونسل کی کوششیں، اور عمایہ کی سچی لگن رنگ لے آئی اور چند روز قبل باکسنگ ایسوسی ایشن نے عمایہ کو اجازت دے دی کہ وہ اپنے اسلامی اقدار کے مطابق لباس پہن کر کھیل میں حصہ لے سکتی ہے۔

    فیصلے کے بعد ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا کہ گو کہ ایک مسلمان کی وجہ سے انہیں اپنے قوانین میں ترامیم کرنی پڑی۔ لیکن انہیں خوشی ہے کہ ان ترامیم کی وجہ سے یہ کھیل مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ۔ خالدہ پوپل

    عمایہ کی وجہ سے اب نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کی لڑکیاں بھی مکمل لباس کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں۔

    اس کے والد محمد ظفر بھی بیٹی کی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ مستقبل میں عمایہ ایک مسلمان کی حیثیت سے امریکا کے لیے روشن مثال ثابت ہوگی۔

    عمایہ کو اپنے پہلے میچ میں تو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس نے اپنے حقوق کے لیے جو جنگ لڑی، اس میں وہ فاتح ٹہری۔

    عمایہ اب 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس کا عزم پہاڑوں سے بھی بلند ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ خود کو امریکا کی بہترین پہچان بنانے میں کامیاب رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی خاتون بلیک باکس پروگرام کے لیے منتخب

    پاکستانی خاتون بلیک باکس پروگرام کے لیے منتخب

    لندن : پاکستانی خاتون ثنا فاروق کو گوگل کے اشتراک سے شروع ہونے والے بلیک باکس انٹر پرینیورشپ پروگرام کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے جہاں وہ اپنے ادارے کے مختلف کورسز کو متعارف کرائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق گوگل کے اشتراک سے شروع ہونے والے بلیک باکس انٹر پرینیورشپ پروگرام کے لیے پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ثنا فاروق کو منتخب کرلیا گیا ہے۔

    ثنا فاروق آن لائن کورسز کروانے والے ادارے ای-لرننگ نیٹ ورک کی بانی اور سی ای او بھی ہیں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزازحاصل ہوا جب کہ اس پروگرام کے لیے دنیا بھر سے 15 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔

    ثنا فاروق دنیا بھر سے منتخب کردہ 15 خواتین میں واحد پاکستانی خاتون ہیں جو گوگل کے اشتراک سے بلیک باکس کنیکٹ پروگرام کے لیے سیلیکون ویلی جائیں گی جہاں وہ اپنے ادارے میں ہونے والے مختلف کورسز سے آگاہ کریں گی۔

    واضح رہے بلیک باکس کنیکٹ دو ہفتے پر مشتمل پروگرام ہے جس کے لیے شرکاء اپنے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنی خدمات اور پروڈکٹس کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے اور اپنے اپنے پروگرامز کی ترویج کرپائیں گے جس کی ابتدا کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔

    اس پروگرام کا آغاز 15 مئی سے ہوگا اور 26 تک جاری رہے گا جس میں ثنا فاروق اپنے ادراے  ای ایل این میں ہونے والے مختلف کورسز کو متعارف کروائیں گی ۔

  • مشہور ڈرامہ الفا براوو چارلی  کی اداکارہ کی نئی تصاویر نے مداحوں کو حیران کردیا

    مشہور ڈرامہ الفا براوو چارلی کی اداکارہ کی نئی تصاویر نے مداحوں کو حیران کردیا

    کراچی : 80 کے دور کا مشہور زمانہ ڈرامہ ’الفا براوو چارلی‘  جسے بھلائے نہیں بھلایا جا سکتا، اس میں بہت سے معروف کرداروں میں سے ایک کردار شہناز کا تھا، جنہوں نے ناصرف اداکاری بلکہ اپنے حسن سے بھی مداحوں کو گرویدہ کرلیا تھا لیکن اب اس اداکارہ کی نئی تصاویر دیکھ کر مداح ہکا بکا رہ گئے ۔

    پاکستان کے شہرہ آفاق ڈرامہ سیریل ’’الفا براوو چارلی‘‘میں مرکزی کردار کرنے والی لڑکی شہناز خواجہ کی معصومیت پر اس وقت کئی لوگ اپنا دل ہار بیٹھے تھے لیکن شہناز کی نئی تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی ، جیسے دیکھ کر مداح حیران رہ گئے، جس میں شہناز کو پہچاننا کسی صورت آسان نہیں ہے۔

     

    شہناز خواجہ نئی تصاویر میں بڑھتی عمر کے باوجود نوجوان دکھائی دے رہی ہیں، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ متعدد بار چہرے کی سرجری کے عمل سے گزر چکی ہیں۔

     

     

    پاک فوج کے جوانوں کی زندگی پر مبنی ڈرامہ

    خیال رہے کہ یہ ڈرامہ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی پروڈکشن میں بنا تھا اور اس کی ڈائریکشن شعیب منصور نے دی تھی۔ ڈرامہ 1998 میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا، جس نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی تھی۔

    ڈرامہ 4 مرکزی کرداروں فراز، کاشف، گل شیر اور شہناز کے گرد گھومتا تھا۔

  • اپنے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں: ملالہ

    اپنے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں: ملالہ

    لندن: مردان کی یونیورسٹی میں ہجوم کے ہاتھوں نوجوان مشعال خان کے قتل پر پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے امن کے فروغ پر زور دیا۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر ملالہ کے والد ضیا الدین یوسفزئی کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں ملالہ نے امن کا پیغام دیا۔

    ملالہ کا کہنا تھا کہ مشعال خان کے قتل کا واقعہ نہایت وحشت ناک اور دہشت ناک ہے۔ ملالہ نے کہا کہ انہوں نے مشعال کے والد سے فون پر بھی بات کی اور مشعال کے والد کے ’امن اور صبر‘ کے پیغام کو وہ سیلیوٹ پیش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مردان میں طالب علم قتل

    ان کا کہنا تھا، ’یہ مشعال خان کا نہیں، ہمارے دین اسلام کے پیغام کا جنازہ تھا جو امن اور صبر کا درس دیتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    ملالہ نے کہا کہ ہم شکایت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا پھیلا رہا ہے، ہمارے دین کو بدنام کیا جارہا ہے، لیکن حقیقت میں ہم خود ہی اپنے مذہب اور ملک کو بدنام کرنے کے لیے کافی ہیں۔

    ویڈیو پیغام میں ملالہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مذہب کی صحیح تصویر پیش نہیں کر رہے۔ ہم اپنے مذہب کے پیغام، اپنی اقدار اور اپنی ثقافت کو بھول گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    آخر میں ملالہ یوسفزئی نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے استدعا کی کہ وہ امن اور انصاف کے لیے کھڑے ہوں، اور مشعال خان کے خاندان کو انصاف دلائیں۔

    یاد رہے کہ نوبیل انعام پانے والی ملالہ یوسفزئی آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں اور انہیں چند روز قبل ہی کینیڈا کی اعزازی شہریت سے بھی نوازا گیا ہے۔

  • پاکستان کی پہلی اوپرا سنگر

    پاکستان کی پہلی اوپرا سنگر

    اطالوی طرز موسیقی اوپرا، موسیقی کی ایک مخصوص صنف ہے جس کے لیے بے حد محنت، ریاضت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے تاہم پاکستان کی سائرہ پیٹر اس مشکل صنف میں نہایت خوبصورتی سے گانے کا اعزاز رکھتی ہیں۔

    پاکستان کی پہلی اوپرا گلوکارہ ہونے کا منفرد اعزاز رکھنے والی سائرہ پیٹر فی الحال لندن میں مقیم ہیں اور وہ صوفی کلام کو اوپرا طرز میں گا کر پوری دنیا میں پاکستان کی مثبت تصویر اجاگر کر رہی ہیں۔

    انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو اوپرا کی طرز پر انگریزی میں گایا ہے۔

    اوپرا کی صنف مشرق کے لیے خاصی اجنبی ہے اور یہاں اسے جاننے، سننے اور گانے کے شوقین افراد کی تعداد بے حد کم ہے، سائرہ انہی نایاب افراد میں سے ایک ہیں۔

    سائرہ نے اوپرا طرز میں گانے کے لیے صوفی کلام کو ہی کیوں چنا؟ اس بارے میں سائرہ کہتی ہیں کہ درگاہوں اور مزاروں پر پڑھے جانے والے صوفی کلام کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرقہ۔ یہ ہر انسان کے لیے ہے اور اس کا مقصد صرف امن کو فروغ دینا ہے۔

    خوبصورت آواز کی مالک سائرہ پیٹر نے اوپرا کی تعلیم لندن سے حاصل کی ہے اور انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ صرف اطالوی ہی نہیں بلکہ فرانسیسی، جرمن، لاطینی، انگریزی اور اردو زبانوں میں بھی اوپرا گاتی ہیں۔

    سائرہ دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں اور بہت جلد ان کا البم بھی ریلیز ہونے والا ہے۔

  • ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    نیویارک: سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے گزشتہ برس ان کی انتخابی مہم کو ناکام بنانے میں اس رویے کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس میں خواتین کو نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    سنہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد پہلی بار دیے جانے والے انٹرویو میں ہیلری کلنٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی ابھی تک ایک خاتون کو بطور صدر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    انہوں نے کہا، ’پہلی خاتون صدر کا تصور بہت سے افراد کے لیے ایک پرجوش اور خوش کن تصور ہوگا، لیکن زیادہ تر افراد اس سے خوفزدہ تھے‘۔

    hilary-2

    نیویارک میں جاری وومین ان دا ورلڈ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’امریکی صدارتی انتخاب میں خواتین سے نفرت کے رویے نے اہم کردار ادا کیا، اور ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا‘۔

    ہیلری کا کہنا تھا کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کس طرح ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے جو ہزاروں لوگوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں خصوصاً دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے خطرہ ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’خواتین کو تعصب اور نفرت کا نشانہ بنانے کا رجحان جو آج کل جاری ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کسی کے سیاسی ایجنڈے میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ یہ صرف ذاتی عمل ہے۔ ہم جتنا خواتین کی حمایت کریں گے اتنا ہی جمہوریت مضبوط ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق

    سابق خاتون اول کا کہنا تھا کہ ان کا مزید کسی انتخاب لینے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم وہ ایک کتاب لکھنے جارہی ہیں جس میں وہ ان محرکات پر روشنی ڈالیں گی جن کے باعث وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے سے رہ گئیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’یہ کتاب ان 6 کروڑ سے زائد افراد کے لیے لکھی جارہی ہے جنہوں نے مجھے ووٹ دیا‘۔

    ہیلری کلنٹن امریکی خاتون اول رہنے کے ساتھ اوباما انتظامیہ میں سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی بارک اوباما کے مدمقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی تھیں تاہم اس وقت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اوباما کو اپنا امیدوار منتخب کیا۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اول

    گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ہیلری کلنٹن ایک بار پھر ٹرمپ سے شکست کھا گئیں اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے۔

  • آمنہ ضمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون جج بن گئیں

    آمنہ ضمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون جج بن گئیں

     

    تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کے وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی آمنہ ضمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون سول جج بن گئیں، انہوں نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری مکمل کرنے بعد دس سال پریکٹس کی اور یونیورسٹی آف لیسٹر برطانیہ سے اسکالر شپ پر ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔

    amna-post

    آمنہ ضمیر نے دوہزار سولہ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیااور بطور سول جج گلگت بلتستان تعینات ہوئیں، ان کی شاندار کارکردگی پر برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے انہیں المنائی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، وہ خواتین کیلئے مشعل راہ ہیں۔


    مزید پڑھیں : اشرف جہاں پاکستان میں پہلی بار شریعت کورٹ میں خاتون جج تعینات


    یاد رہے 2013 میں پاکستان کی وفاقی شریعت کورٹ میں عدالت کی 33 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج اشرف جہاں کو تعینات کیا گیا تھا ۔

  • عزم و حوصلے کی مثال: معذور لڑکی مکینک بن گئی

    عزم و حوصلے کی مثال: معذور لڑکی مکینک بن گئی

    بدین: دونوں پیروں سے معذور باہمت لڑکی چھوٹے بہن بھائیوں اور والدہ کی کفالت کے لیے موٹر سائیکل مکینک بن گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ہمت اور حوصلہ ہو تو کوئی بھی معذوری مقصد کی تکمیل میں آڑے نہیں آسکتی، عزم کے آگے پہاڑ بھی رائے کے دانے کے برابر ہوجاتے ہیں۔

    یہ الفاظ بدین کی معذور لڑکی لالی پر صادق آتے ہیں جس نے اپنی معذوری کو محتاجی کا سبب بنانے کے بجائے نئے عزم کے ساتھ زندگی سے لڑ کر اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    women-post-1

    ہمت و حوصلہ جیتے الفاظ لالی کی موجودہ مثالی زندگی کے لیے ناکافی ہیں جو تین چھوٹی بہنوں، دو چھوٹے بھائیوں اور والدہ کی واحد کفیل ہے، لالی نے مکینک بننے سے قبل لوگوں کے آگے ہاتھ بھی پھیلایا، گداگری بھی کی لیکن بالآخر اسے چھوڑ دیا۔

    اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے لالی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ معذور ہے اس کے باعث لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی تھی تب بھی اس کا اور گھر والوں کا گزارا نہیں ہوتا تھا، بالآخر اس نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا۔

    پاؤں نہیں تو کیا ،اللہ نے ہاتھ، آنکھیں اور دماغ تو دیا ہے، لالی

    لالی کا کہنا تھا کہ اس نے سوچا کہ میرے پاس پاؤں نہیں تو کیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے ہاتھ ، آنکھیں اور دماغ تو دیا ہے، میں محنت مزدوری کیو ں نہ کروں؟

    women-post-2

    لالی نے اپنے عزم پر عمل کرنا شروع کیا جو اسے موٹر سائیکل مکینک ریاض کی دکان تک لے آیا، جس نے لالی بہن اور شاگرد بنایا اور اسے ہنر سکھایا۔

    موٹر مکینک ریاض نے اے آر وائی نیوز کو بتایاکہ لالی گداگری کرتی تھی، بہت غریب ہے اس نے مجھ سے موٹر مکینک کا کام سیکھنے کی درخواست کی، میں نے اسے گداگری ترک کرنے کا کہا اور وہ کام سیکھنے آنے لگی۔


    باہمت اورمثالی لڑکی لالی کی جانب سے گداگری کا پیشہ ترک کرکے روزگار حاصل کرنے کا باعزت پیشہ حاصل کرنے کا عمل معاشرے کے عضو معطل اور معذور افراد کے لیے ایک سبق ہے۔

  • بغداد کی سڑکوں پر سائیکل چلاتی لڑکیاں

    بغداد کی سڑکوں پر سائیکل چلاتی لڑکیاں

    بغداد: جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس، کھلے بالوں کو ہوا میں لہراتی اس لڑکی کا نام مرینہ جابر ہے، مگر بغداد کے لوگ اسے سائیکل سوار لڑکی کے نام سے جانتے ہیں۔

    ایک آرٹ پروجیکٹ کے تحت مرینہ کا سڑکوں پر سائیکل سواری کرنا پہلے سوشل میڈیا پر موضوع بحث اور تنقید و تضحیک کا نشانہ بنا، بعد ازاں یہ ایک سماجی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔

    iraq-3

    اب بغداد میں ہر صبح بے شمار لڑکیاں سائیکلوں کے ساتھ جمع ہوتی ہیں، اور سائیکل پر پورے شہر میں گشت کرتی ہیں۔

    لڑکیوں کا سائیکل چلانا معیوب

    عراق کے کسی حد تک قدامت پسند معاشرے میں دارالحکومت بغداد میں بھی لڑکیوں کا سائیکل چلانا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ سائیکل پر سفر کرنے والی خواتین آس پاس کے تمام افراد کی مرکز نگاہ بن جاتی ہیں جو انہیں کسی عجوبے کی طرح دیکھتے ہیں۔

    مرینہ کہتی ہے، ’یہ صرف ایک سائیکل ہے، اور کچھ نہیں۔ اسے ہوا بنانے کے بجائے عام چیزوں کی طرح دیکھنا چاہیئے‘۔

    iraq-2

    وہ اپنے ہم وطنوں سے پوچھتی ہے، ’کیا معاشرے نے کچھ مخصوص کاموں کو کرنے کا حق ہم (خواتین) سے چھین لیا ہے؟ یا انہوں نے اسے اس لیے رد کردیا ہے کیونکہ ہم نے ایک طویل عرصے سے انہیں کرنا چھوڑ دیا ہے‘؟

    مرینہ بتاتی ہے کہ کئی عشروں قبل ان کی دادی اور والدہ نے ان سڑکوں پر سائیکل چلائی ہے۔ ’جب اس وقت اسے معیوب خیال نہیں کیا گیا، پھر اب کیوں‘؟

    خواتین کی خود مختاری کا استعارہ

    جلد مرینہ ملک بھر میں خواتین کے لیے ایک مثال بن گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں ملک بھر سے لاتعداد پیغامات موصول ہوئے جو زیادہ تر لڑکیوں اور خواتین کے تھے۔ یہ خواتین اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینا چاہتی تھیں مگر معاشرے کے خود ساختہ مروجہ اصولوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں۔

    مرینہ کی سرخ سائیکل اب ایک استعارہ بن چکی ہے جسے آرٹ کی متعدد نمائشوں میں بھی رکھا جا چکا ہے۔

    وہ کہتی ہے، ’عراق میں سائیکل چلانا کوئی جرم نہیں ہے۔ دراصل ہم جنگ کی وجہ سے بہت سی چیزوں کو بھول گئے ہیں۔ ہمیں اگر کچھ یاد ہے تو صرف موت‘۔

    داعش کے خلاف کھلی للکار

    دارالحکومت بغداد سے 400 کلومیٹر دور داعش کے زیر قبضہ علاقہ موصل میں مرینہ کی ہم آواز جمانا ممتاز تھیں جو پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں۔

    انہوں نے مرینہ کے اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنی سائیکل چلاتی ہوئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔

    iraq-4

    جمانا کے شہر موصل کے ایک تہائی سے زائد علاقے پر شدت پسند تنظیم داعش کا قبض ہے۔ بقول ان کے انہوں نے موصل میں سائیکل چلا کر داعش کے شدت پسند نظریات اور خیالات کو اعلانیہ للکارا ہے اور یہ ان کی شدت پسندی کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’صرف داعش ہی نہیں عراق کے بے شمار عام افراد بھی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو اپنی مرضی کا کوئی قدم اٹھانے کا حق نہیں ہے‘۔

    مزید پڑھیں: اسلام آباد سے خنجراب تک کا سفر سائیکل پر

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں اور مرینہ کو بے شمار ایسے الفاظ سننے پڑتے ہیں جن میں ناگواری، ناپسندیدگی اور ان کے لیے نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔

    لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو انہیں سائیکل چلاتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ معمر افراد بھی ہیں جو انہیں دیکھ کر کہتے ہیں، ’آہ! یہ وہ بغداد ہے جسے ہم کبھی دیکھتے تھے‘۔

    iraq-5

    مرینہ کا کہنا ہے کہ کئی افراد نے انہیں پیشکش کی کہ وہ ان کے ساتھ شامل لڑکیوں کو سائیکلیں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

    جمانا اور مرینہ کا عزم ہے، ’ہم چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اب خوفزدہ نہ ہوں۔ ہم مل اس حقیقت کو تبدیل کردیں گے جہاں صرف جنگ، موت اور تعصب ہے‘۔

  • فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    یوں تو فطری ماحول، درختوں، پہاڑوں یا سبزے کے درمیان رہنا دماغی و جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ وہ حاملہ مائیں جو اپنا زیادہ وقت فطرت کے قریب گزارتی ہیں، وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ حاملہ خواتین جو اپنے حمل کا زیادہ تر وقت پرسکون و سر سبز مقامات پر گزارتی ہیں، ان کا بلڈ پریشر معمول کے مطابق رہتا ہے اور وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں میں بڑے ہونے کے بعد بھی مختلف دماغی امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فطرت کے قریب رہنا آپ کو موٹاپے اور ڈپریشن سے بھی بچاتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے درمیانی عمر کے ان افراد کا تجزیہ کیا گیا جو سبزے سے گھرے ہوئے مقامات پر رہائش پذیر تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ ان میں مختلف بیماریوں کے باعث موت کا امکان پرہجوم شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت 16 فیصد کم تھا۔

    woman-2

    ماہرین نے بتایا کہ ان کے ارد گرد کا فطری ماحول انہیں فعال ہونے کی طرف راغب کرتا ہے، جبکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت دواؤں پر انحصار کم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سرسبز مقامات پر زندگی گزارنے کے علاوہ، اگر لوگ پر ہجوم شہروں میں رہتے ہیں تب بھی انہیں سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر وقت ضرور گزارنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ان کے مطابق روزمرہ کی زندگی میں ہمارا دماغ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اسے اس کا مطلوبہ آرام نہیں مل پاتا۔ دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے سب سے بہترین علاج کسی جنگل میں، درختوں کے درمیان، پہاڑی مقام پر یا کسی سمندر کے قریب وقت گزارنا ہے۔

    اس سے دماغ پرسکون ہو کر تازہ دم ہوگا اور ہم نئے سرے سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔