Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کاعالمی دن آٹھ مارچ کو منایاجاتاہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اوران کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے‘ پاکستان میں 2016 اس معاملے پر قانون سازی کے حوالے سے ایک بہتر سال رہا۔

    خواتین نے دنیا کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرکے ثابت کیا ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیرکوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہوسکتا۔ خواتین کی معاشرے میں اسی اہمیت کواجاگرکرنے کےلیے دنیا بھرمیں ان کاعالمی دن منایا جاتاہے۔

    خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد ان بہادرخواتین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑی، اس دن پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پھیلی تنظیمیں خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کیلئے کوششوں کو اجاگر کرنے کے لئے واکس اورتقاریب کا اہتمام کریں گی۔

    women-post-7

    خواتین کے عالمی دن پرملک بھرمیں تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں حوا کی بیٹیاں آج بھی ظلم کی شکارہیں، ہرسال پاکستان میں خواتین پرتشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اورجو رپورٹ نہیں ہوپاتے ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    خواتین کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟


    آج سے تقریباً سو سال قبل نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کرسڑکوں پرگھسیٹا گیا تاہم اس بد ترین تشدد کے بعد بھی خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی۔

    women-post-2

    خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی۔

    اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 1656 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا فیصلہ کیا۔

    پہلی عالمی کانفرنس کے 107 سال بعد


    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھرمیں، ترقی یافتہ اورغیر ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی سے قطع نظر ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے ذہنی، جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہے اوریہی خواتین کے بے شمار طبی و نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم بشمول تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوچکا ہے۔

    پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2004 سے 2016 تک 7 ہزار 7 سو 34 خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس عرصے میں غیرت کے نام پر15 ہزار 222 قتل (جو منظر عام پر آسکے، بشمول مرد و خواتین) کیے گئے۔

    women-psot-8
    ان 12 سالوں میں 5 ہزار 508 خواتین کو اغوا کیا گیا، 15 سو 35 خواتین کو آگ سے جلایا گیا جبکہ ملک کے طول وعرض میں 1843 گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ یا شکایت درج کی گئی۔

    وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2012 سے ستمبر 2015 کے عرصے کے دوران 344 اجتماعی یا انفرادی واقعات پیش آئے۔ 860 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، 72 خواتین کو جلایا گیا، 90 تیزاب گردی کے واقعات پیش آئے، گھروں سے باہرمختلف اداروں اوردفاتر میں جنسی طورپرہراساں کرنے کے 268 واقعات کی رپورٹ کی گئی اور 535 خواتین پرگھریلو تشدد کے واقعات پیش آئے۔

    یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو میڈیا کی بدولت منظر عام پر آسکے یا ان کی شکایت درج کروائی گئی۔ زیادتی کے واقعات‘ ہراسمنٹ اور تشدد کے ہزاروں کیسز ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطردبادیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    women-post-4

    اقوام متحدہ اس نامعلوم شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیتی ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    سنہ 2014 میں 2013 کی نسبت زیادتی کے واقعات میں 49 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اور عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹس میں یہ لرزہ خیز انکشاف ہوا کہ  2014 میں ہرروزچار پاکستانی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    کم عمری میں شادی


    بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی جانب سے جاری کردہ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 21 فیصد شادیوں میں دولہا یا دولہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کا اصرار ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہے۔

    پاکستان میں بچپن میں کی گئی شادی سے متعلق حتمی اعداد و شمار اکٹھا کرنا مشکل ہے، کیونکہ پاکستان میں اکثر پیدائش کے ریکارڈ میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ یوں یہ جاننا مشکل ہے کہ شادی کے وقت دولہا یا دولہن کی اصل عمر کیا ہے۔

    women-post-3

    خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہی ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ مذہبی حلقوں کی مخالفت بتایا جاتا ہے‘ سن انیس سو تہتر کے آئین میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر جنسی تشدد کو روکنے کی پہلی کوشش 43 سال بعد کامیاب ہوسکی۔

    غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگا

    پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے 2014 میں غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایک بل پیش کیا تھا جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اتفاق کیا تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے کیے جانےوالے اعتراضات کے سبب تین سال تک یہ معاملہ التوا کا شکاررہا یہاں تک کہ اکتوبر 2016 میں اسے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔

    women-post-5

    واضح رہے کہ بل پیش کیے جانے سے منظور کیے جانے تک کے درمیانی عرصے سے کم و بیش 2300 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا‘ اعدادوشمار کے مطابق بل پیش ہونے کے بعد اس نوعیت کے واقعات ریکارڈ ہونے میں حیرت انگیز طورپر اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    سندھ اسمبلی میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل

    سندھ اسمبلی نے اپریل 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے ایک بل منظور کیا تھاجس کے تحت کم عمری میں شادی قانونی طورپرجرم قرارپائی۔

    کم عمری میں شادی کی روک تھام کا بل 2013 میں شرمیلا فاروقی اورروبینہ سعادت قائم خانی نے پیش کیا تھا۔ اس بل کے تحت کم عمری کی شادی کے جرم میں شریک ملزمان کو تین سال تک کی قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ سنائی جاسکتی ہیں۔

    یاد رہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت ملک کی پہلی اسمبلی تھی جس نے خواتین کے تحفظ کے لیے اس نوعیت کا بل پاس کیا۔

    بلوچستان میں ہراسمنٹ‘ گھریلو تشدد کے خلاف بل


    بلوچستان اسمبلی نے گزشتہ سال جنوری 2016 میں ایک بل متفقہ طور پر پاس کیا جس کے تحت خواتین کو کام کے مقام پر ہراسمنٹ کا نشانہ بنانے پر کارروائی کی جاسکے گی۔

    women-post-6

    یہ بل صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے 2015 میں پیش کیا تھا‘ اس سے قبل سنہ 2014 میں بلوچستان اسمبلی گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے بھی ایک بل پاس کرچکی ہے اور خواتین کے ساتھ زیادتیی اور تیزاب گردی کے حوالے سے ایک بل تاحال زیرِ غور ہے۔

    پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل منظور


    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں فروری 2016 خواتین کو گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشدد، بدکلامی اورسائبرکرائمز سے تحفظ دینے کا بل منظور کیا۔

    پنجاب میں منظور ہونے والے بل کے تحت خواتین کو جسمانی ‘ جنسی ذہنی یا معاشی استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کے لیے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں متعین کی گئی ہیں یہاں تک کہ پروٹیکشن آفیسر کو اس کے کام سے روکنے کی صورت میں بھی چھ ماہ کی قید ہوسکتی ہے۔

    women-post-1

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی تحقیق بتاتی ہے کہ عام تاثر کے برعکس دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس جرم کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔

    اسی طرح آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ عورت کے خلاف اس جرم میں بھی سب سے آگے ہے۔

    عورت فاؤنڈیشن کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگرصوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

    پنجاب کے صنعتی شہرفیصل آباد میں پورے ملک میں سب سے زیادہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔

    خیبرپختونخواہ ابھی تک سوچ رہا ہے


    خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک بل ڈرافٹ کراسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا جس نے پنجاب کے ویمن پروٹیکشن بل کی طرح اسے بھی مسترد کردیا۔ تاہم خیبر پختونخواہ حکومت تاحال اس پرغور کررہی ہے۔

    وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے مشیر برائے انفارمیشن مشتاق غنی نے اس حوالےسے کہا تھا کہ حکومت اس بل کو ری ڈرافٹ کرکے اسے اسلامی قوانین کے مطابق بنارہی ہے، تاحال یہ بل دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوسکاہے۔

    women-post-9

    واضح رہے کہ دوہزارتیرہ میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے جتنی بھی قانون سازی کی ان میں سے یہ واحد بل ہے جسے اسلامینظریاتی کونسل میں بھیجا تھا۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے پنجاب میں پیش کیے جانے والے ویمن پروٹیکشن بل کی بھی مخالفت کی تھی۔

    گھریلو تشدد صلاحیتوں کو متاثرکرتا ہے


    اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی ایوارڈ یافتہ پاکستانی ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت پرانتہائی مضراثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سے ان کی سماعت متاثر ہوسکتی ہے ‘ اسقاطِ حمل‘ جوڑوں اور ہڈیوں کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق اس سب سے بڑھ کر انہیں شدید ڈپریشن کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے جس کے سبب کسی بھی خاتون کی اپنے بچوں کی نگہداشت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو کہ آئندہ نسلوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    women-post-10

    قانون سازی توہورہی ہے اورانسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز اٹھارہی ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اورخواتین
    کے حقوق سے جڑے تمام افراد یہ طے کریں کہ خواتین کے حقوق سلب نہ کیے جائیں ‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے‘ مردوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ ہمارے معاشرے میں موجود خواتین ہمارے برابرکی انسان ہیں اور اتنے ہی حقوق رکھتی ہیں جتنے ہم رکھتے ہیں۔

    یاد رکھیے کہ ایک آزاد‘ خود مختار اور مستحکم ماں ہی ایک آزاد‘ خود مختار اورمستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے اور آج عورتوں سے ان کے حقوق چھیننے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔

  • کم عمریوں کی شادی کے خلاف متحرک حدیقہ بشیر عالمی اعزاز کے لیے نامزد

    کم عمریوں کی شادی کے خلاف متحرک حدیقہ بشیر عالمی اعزاز کے لیے نامزد

    نیویارک : کم عمری کی شادی کیخلاف آواز اٹھانے والی 15 سالہ پاکستانی لڑکی حدیقہ بشیر کو کامن ویلتھ یوتھ ایوارڈ کے لئے نامزد کرلیا گیا ہے۔

    حدیقہ بشیر نے قبائلی علاقوں میں کم عمری میں شادی کے خلاف مہم چلائی، کامن ویلتھ سیکرٹریٹ کے مطابق حدیقہ بشیر 13 ممالک سے نامزد 17 لڑکیوں میں شامل ہے، ایوارڈز کی تقریب دو ہفتے بعد ہوگی، جس میں حدیقہ بشیر شرکت کریں گی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سال سوات سے تعلق رکھنے والی اور لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کے خلاف مہم کی سربراہ حدیقہ بشیر کو ایشیائی لڑکیوں کے حقوق کی سفیر کا ایوارڈ دیا گیا تھا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں۔

    hadqa1

    اس سے قبل حدیقہ بشیر کو پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں اور زبردستی کی جانے والی شادیوں کے خلاف جدوجہد کرنے پر امریکہ میں ‘محمد علی ہیومنیٹیرین ایوارڈ’ سے نوازا گیا تھا۔

    haqiqa

    حدیقہ بشیر کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے ہے جو کم عمری کی شادی جیسے ضرر رساں روایت کے خاتمے اور لڑکیوں کو ان کی صلاحیتوں سے بھر پور مستفید ہونے کا موقع دینے کے لیے جدو جہد کررہی ہیں۔

    خیال رہے کہ کامن ویلتھ یوتھ ایوارڈز ایشیا، بحرالکاہل، بلقان، امریکہ، افریقہ اور یورپ کے سے 29سال عمر کے لڑکے لڑکیوں کو غربت کے خاتمے اور امن کے قیام سے لے کر ترقی کے مختلف شعبوں میںان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں دیاجاتاہے۔

  • گلوبل ٹیچرایوارڈ کے لیے پاکستانی ٹیچرسب سے مضبوط امیدوار

    گلوبل ٹیچرایوارڈ کے لیے پاکستانی ٹیچرسب سے مضبوط امیدوار

    گلگت سٹی: پاکستان کے علاقے گگلت بلتستان سے تعلق رکھنے والی استاد سلیمہ بیگم کو گلوبل ٹیچر ایوارڈ کے لیے دنیا کے 179 ممالک کے 20 ہزار اساتذہ میں سے شارٹ لسٹ کرلیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ٹیچر ایوارڈ کے لئے شارٹ لسٹ 10امیدواروں میں سے کسی ایک کو 2017ء کا یہ ایوارڈ دیا جائے گا جبکہ دیگر خواتین کا تعلق جمیکا، سپین، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، برازیل، آسٹریلیا، کینیا اور چین سے ہے۔

    sssff

    پاکستان سے واحد شارٹ لسٹ ٹیچر سلیمہ بیگم کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں اوشکھنداس سے ہیں اور وہ اس وقت بطور انسٹرکٹر ایلمینٹری کالج برائے خواتین گلگت میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

    عالمی ٹیچرپرائز2016 کی حتمی فہرست، پاکستانی ٹیچربھی شامل

    عالمی گلوبل ایوارڈ کے لئے ٹاپ 10امیدواروں میں شامل سلیمہ بیگم کی شارٹ لسٹنگ پیشہ وارانہ فرائض میں شواہد کی بنیاد پر کارکردگی سامنے آنے کے بعد کی گئی ہے۔

    گلوبل ٹیچر ایوارڈ کی دوڑ میں شامل امیدواروں میں سے سال 2017ء کا ایوارڈ جس کے سر بھی سجے گا اس کو ایوارڈ کے ساتھ ایک ملین امریکی ڈالر کیش انعام بھی ملے گا۔

    سلیمہ بیگم 1992ء سے محکمہ تعلیم گلگت میں بحیثیت مدرس پیشہ وارانہ زمہ داریاں سرانجام دینے کے ساتھ آج کل ٹیچر ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں‘ اس سے قبل انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ایم ایس لندن سے کیا ہے۔

    گلوبل ٹیچرزپرائز 2016 کے للئے جن اساتذہ کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوشاں ’عقیلہ آصفی‘ بھی شامل ہیں۔

    علی ظفر گلوبل ٹیچر پرائز کی ججنگ اکیڈمی میں شامل

      گزشتہ سال دنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کرنے والے گلوکارعلی ظفر کو اس ایک ملین ڈالر کے گلوبل ٹیچر پرائزکی ججنگ اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

  • گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن قائم کردی گئی۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    یہ ہیلپ لائن 9212026-091 اسمبلی کے خواتین پارلیمانی کاکس (ڈبلیو پی سی) نے یو ایس ایڈ کے اشتراک سے قائم کی ہے اور یہ ڈبلیو پی سی کے دفتر سے ہی آپریٹ کی جائے گی۔ خیبر پختونخواہ کی خواتین صبح 9 سے شام 5 بجے تک ٹیلی فون کے ذریعہ یہاں اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈبلیو پی سی کی ایک مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

    منصوبے میں شامل پختونخواہ کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے نہ صرف خواتین اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف شکایات درج کروا سکیں گی، بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کو مشورے اور تجاویز بھی دے سکیں گی کہ خواتین کی فلاح کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    اس ہیلپ لائن کے ذریعہ قانونی مدد کی طلبگار خواتین کو وکلا کی خدمات بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کو گھر سے باہر جنسی ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچانے کے لیے علیحدہ بس سروس کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس شروع کی جائے گی۔ صوبائی شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کے مطابق یہ منصوبہ صوبے میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔

  • کراچی کی ایک ایسی باہمت خاتون جو مزیدار عربی کھانے متعارف کرارہی ہیں

    کراچی کی ایک ایسی باہمت خاتون جو مزیدار عربی کھانے متعارف کرارہی ہیں

    کراچی : سوچ جذبہ اور عمل انسان کو بلندیوں کی جانب لے جاتا ہے ، کراچی کی ایک ایسی ہی باہمت خاتون نے چھوٹے سرمایہ سے فوڈ اسٹریٹ پرکاروبار شروع کردیا ہے جہاں وہ شہریوں کو عرب ممالک کی مزے دار زائقے متعارف کرارہی ہیں۔

    johar-post-2

    یہ شہر کراچی کی اسٹریٹ پر قائم دبئی فلافل ہاؤس ہے، جہاں باہمت خاتون فاطمہ شہزاد بیگ شہریوں کو عربی ٹیسٹ متعارف کرارہی ہیں اور ان خواتین کو پیغام بھی دے رہی ہے کہ اگر جذبہ موجود ہو تو کوئی کاروبار خواتین کے لئے نا ممکن نہیں۔

    johar-post-1

    گلستان جوہر منور چورنگی کی فوڈ اسٹریٹ پرقائم دبئی فلافل ہاؤس میں ان دنوں خوب رش رہتا ہے اور شہری یہاں عربی زائقے کے مزے لینے اتے ہیں۔

    johar-post-3

    باہمت خاتون کی سوچ تھی کہ ایسی چیز مارکیٹ میں لائے جو اس سے پہلے کوئی نہ لایا ہو۔

    فاطمہ کا کہنا ہے کہ عورت گھر کیلئے نہیں ہوتی اگر باہر نکلے تو سب کچھ کر سکتی ہے، ضروری نہیں عورت بینک میں ہو یا آفس میں، وہ ہر جگہ کھڑی ہوکر کما سکتی ہے ۔

    ہمارے معاشرے میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ کم سرمائے سے کاروباری کامیابی ممکن نہیں، اسی سوچ کو خاتون نے رد کر دیکھایا ہے۔

  • وہیل چیئر پر بیٹھی ماڈل نے دنیا کو دنگ کردیا

    وہیل چیئر پر بیٹھی ماڈل نے دنیا کو دنگ کردیا

    دنیا بھر میں ماڈلنگ کے رجحانات بدلتے رہتے ہیں، کبھی جسامت اور کبھی رنگت کا تنوع ماڈلنگ کا معیار ہوتا ہے۔ لیکن ماڈلنگ کے لیے ماڈل کو جسمانی طور پر مکمل اور صحت مند ہونا ضروری ہے، البتہ یوکرین کی معذور ماڈل نے اس تصور کو بھی اپنی وہیل چیئر کے پہیوں تلے کچل دیا۔

    یوکرین کے دارالحکومت کیو میں منعقدہ ایک فیشن شو میں الیگزینڈرا کیوٹس نامی اس معذور ماڈل کی کیٹ واک نہ صرف اس کے خواب کی تکمیل ہے، بلکہ دنیا بھر میں معذور افراد کے لیے امید کی ایک روشن کرن بھی ہے۔

    model-4

    model-8

    اس فیشن شو میں الیگزینڈرا کو بانس کے ایک تخت پر رکھ کر لایا گیا جسے 4 افراد نے تھاما ہوا تھا۔ الیگزینڈرا اب دنیا کی وہ پہلی ماڈل بن گئی ہے جس نے جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود ایک بڑے فیشن شو میں کیٹ واک کی۔

    تئیس سالہ الیگزینڈرا پیدائشی طور پر معذور تھی تاہم جب سے اس پر ماڈلنگ کے شعبہ کو اپنانے کی دھن سوار ہوئی، اسے امید تھی کہ اس کا خواب ضرور پورا ہوگا اور وہ کیٹ واک کرنے میں کامیاب ہوگی۔

    model-3

    البتہ خواب سے تکمیل تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ الیگزینڈرا نے لاتعداد ماڈلنگ ایجنسیوں کو خطوط روانہ کر کے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے الیگزینڈرا کے حسن کی تعریف تو کی، تاہم وہ اسے بطور ماڈل پیش کرنے کا رسک لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔

    الیگزینڈرا یوکرین کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جہاں اس کے اہل خانہ اسے خصوصی سہولیات دینے سے قاصر تھے۔ اس نے ایک عام اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں اس کے والد یا دادا اسے کاندھوں پر اٹھا کر اس کی کلاس تک چھوڑ کر آتے تھے۔

    model-7

    اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہاں وہ سب بے حد مشکل تھا، مگر وہ اس لیے مشکل تھا کیونکہ مجھے وہ خصوصی مراعات میسر نہیں تھیں جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں معذوروں کو دی جاتی ہیں‘۔

    بہت عرصہ قبل الیگزینڈرا کی ملاقات اتفاقاً ایک فوٹو گرافر سے ہوئی تھی جو اس کی کچھ تصاویر بنانا چاہتا تھا۔ جب تصاویر بن کر آئیں تو اپنی معذوری سے قطع نظر الیگزینڈرا بالکل ایک خوبصورت ماڈل کی طرح سامنے آئی۔ وہیں سے الیگزینڈرا کو ماڈل بننے کا خیال آیا۔

    model-6

    اس نے فیشن کی دنیا پر نظر دوڑائی کہ شاید کہیں کوئی مرد یا خاتون ماڈل نظر آئے جس نے معذوری کو شکست دے کر ریمپ پر واک کی ہو۔ تب اس کی نظر سے سنہ 1999 میں ہونے والا ایک فیشن شو گزرا جس میں ایمی مولنز نامی ایک پیرالمپک ایتھلیٹ نے ریمپ پر واک کی تھی اور وہ اپنی مصنوعی ٹانگوں کی نمائش کرنے میں ذرا بھی نہ شرمائی۔

    وہ الیگزینڈرا کے لیے امید کی ایک کرن تھی۔ ’مجھے خیال آیا کہ جب آج سے کئی برس پہلے یہ ہوچکا ہے، تو آج کی ترقی یافتہ دنیا وہیل چیئر پر بیٹھی ایک ماڈل کو کیوں نہیں قبول کر سکتی‘۔

    اس کے بعد جب ایک اطالوی کمپنی نے معذوری کا شکار افراد کا فیشن شو منعقد کروانے کا سوچا تو الیگزینڈرا سمجھ گئی کہ اس کی منزل قریب آگئی ہے۔

    model-2

    model-5

    الیگزینڈرا اب نہ صرف ایک ابھرتی ہوئی ماڈل ہے، بلکہ وہ اپنے شہر کے میئر کی مشیر بھی بن چکی ہے جو شہر میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے۔

    دنیا کے لیے اس کا پیغام ہے، ’کچھ کر دکھانا، آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہمیشہ، ہر کسی کے لیے ممکن ہے۔ اہم چیز ان لوگوں کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہے جن کے اندر خداد صلاحتیں چھپی ہوئی ہیں‘۔

  • پاکستانی نژاد خاتون ناسا میں‌راکٹ انجینئر بن گئیں

    پاکستانی نژاد خاتون ناسا میں‌راکٹ انجینئر بن گئیں

    پاکستان سے تعلق رکھنے والیحبہ رحمانی اپنے خوابوں کی تعبیر کے حصول کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا تک پہنچ گئیں جہاں وہ راکٹ انجینئر کے فرائض انجام دیتی ہیں۔

    جی ہاں! یہ کہانی ایک پاکستانی نژاد خاتون کی ہے، جنھوں خلیجی ممالک کی جنگ میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی بسر کی‘ ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا اور آج وہ ’ناسا‘ کا حصہ ہیں.

    حبہ رحمانی ایک راکٹ انجینئر ہیں، وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کے لئے ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں، انہوں نے ان تما م باتوں کو غلط ثابت کیا جوعورت کو کمزور ظاہر کرتی ہیں ، انہوں نے اپنی ہمت سے ان باتوں کو فرسودہ اور دقیانوس قراردیا.

    خاندانی پس منظر

    حبہ رحمانی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ، جب وہ ایک ماہ کی تھیں تو ان کا خاندان کویت شفٹ ہوگیا ، انہوں نے وہاں جب تک اچھا بچپن بسر کیا جب تک خلیجی جنگ کا آغاز نہیں ہوا.

    انہوں نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرا سب سے یادگار وہ لمحات ہیں جو میں نےاہلِ خانہ کے ہمراہ صحرا میں پناہ گزین کی صورت میں بسر کیے ، یہ خلیجی ممالک کی جنگ کا دور تھا ، ہم صحرا میں خیمہ زن تھے ، میں صحرائی راتوں میں آسمان کی وسعتوں میں کھوئی رہتی تھی ، خیالوں کی دنیا میں اُس منظر کی عکس بندی کرتی رہتی تھی جب نیل آرم اسٹرنگ نے چاند پر قدم رکھا تھا.

    انہوں نے کہا یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنا پہلا سائنسی مشاہدہ کیا ، شاید یہ ہی مشاہدات میرے شوق کے حصول کا سبب بنے، یہ ایک مشکل وقت تھا ، کویت اور عراق آپس میں نبرد آزما تھے اور ہم کھلے صحرا میں، مگردیگر مشکل وقتوں کی طرح وہ وقت بھی گزر گیا تاہم میرے ذہن میں سدا زندہ رہے گا.

    انہوں نے کہا مجھے یاد ہے جب میں نے اپنی ماں اور بہن کے ساتھ زندگی بچانے کے پاکستان آنے کا سفر کیا تھا، میرے والد ان دنوں امریکہ میں تھے۔

    تعلیمی پس منظر

    جنگ بندی کے بعد حبہ رحمانی اپنی فمیلی کے ساتھ ایک بار پھرکویت منتقل ہوگئیں ، واپس جاکر انہوں نے راکٹ انجینئر کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

    کویت میں ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد، وہ 1997 میں امریکہ منتقل ہو گئیں، اور فلوریڈا کی یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں گریجویشن مکمل کیا.

    بعد ازاں حبہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئایسایس) سے منسلک ہو گئیں، انہوں نے 2005میں جارجیا ٹیک سے الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹرز مکمل کیا۔

    ناسا سے منسلک

    2008 میں ناسا کی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوگئیں، جہاں انہوں نے خلائی انجینئرنگ کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز کیا.

    حبہ رحمانی نے کہا کہ میرا شوق مجھے یہاں تک لے کرآیا،میں نے اپنے شوق کے جنون کے تحت بڑے بڑے مشن پورے کیے۔

    حبہ رحمانی کا پیغام

    ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم اپنی پسند کے ٹیم ورکر کے ساتھ من پسند کام کریں ،انہوں نے کہا کہ یہ میری زندگی کا تجربہ ہے کہ بڑے خواب دیکھو اور کبھی ان کو ترک نہ کرو، اپنے خوابوں کے حصول کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہو۔

    انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو خصوصی پیغام دیا کہ لوگوں کی پرواہ کیے بنا بڑے خواب دیکھیں اور ان کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں ۔

  • خواتین آفیسرز پیرا ٹروپرز کی پاسنگ آؤٹ پریڈ

    خواتین آفیسرز پیرا ٹروپرز کی پاسنگ آؤٹ پریڈ

    پشاور: پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں تینوں مسلح افواج کی خواتین آفیسرز پیرا ٹروپرز کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی۔ چھبیسویں بیسک ایئر بون کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں پہلی بار 22 خواتین کیڈٹس نے تربیت حاصل کی۔

    پی اے ایف رسالپور اکیڈمی میں چھبیسویں بیسک ایئر بون کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی۔ تربیت حاصل کرنے والے کیڈٹس نے آسمان پر رنگ بکھیر دیے۔

    تقریب میں تینوں مسلح افواج کے پاس آؤٹ ہونے والے 33 افسر اور 28 ایئرمین کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    پاکستانی تاریخ میں پہلی بار 22 خواتین پیرا ٹروپرز نے بھی تربیت حاصل کی جن میں سے 17 پاک آرمی، 3 پاک نیوی اور 2 پاک فضائیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ خواتین پیرا ٹروپرز نے شاندار عملی مظاہرہ کر کے دنگ کردیا۔

    تقریب کے مہمان خصوصی وائس چیف آف ایئر اسٹاف اسد عبدالرحمٰن لودھی نے خواتین پیرا ٹروپرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ تربیت حاصل کرنے والی خواتین عزم و ہمت کی علامت ہیں۔

    پاسنگ آؤٹ پریڈ کی شاندار تقریب میں خواتین سمیت 13 پیرا ٹروپرز نے 10 ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا کر شاندار مظاہرہ کیا۔

  • برطانیہ میں پہلی خاتون پولیس کمشنر تعینات

    برطانیہ میں پہلی خاتون پولیس کمشنر تعینات

    لندن : برطانیہ میں جرائم پر قابو پانے کے لئے میٹرو پولیٹن پولیس کی سربراہ کے عہدے پر خاتون کو تعینات کردیا گیا ہے جو برطانیہ میں ایک سو اٹھاسی سال بعد بہ طور خاتون چیف پولیس کمشنر تعینات ہونے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ایک سو اتحاسی سال کے بعد کسی خاتون کو پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور یہ اعزاز کریسٹا ڈک نامی خاتون کے حصے میں آیا جنہیں آج کمشنر میٹرو پولیٹن پولیس کا عہدہ سونپا گیا ہے۔

    انسداد دہشت گردی کی تجربہ کار افسر کریسٹا ڈک اس سے پہلے بھی پولیس محکمے کے لیے مختلف عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیتی رہی ہیں اور میٹرو پولیٹن پولیس کی سربراہی ملنے کے بعد مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری اور مہارت سے نبھاؤں گی۔

    metro

    اسی سے متعلق : پاکستانی نژاد صادق خان لندن کے پہلے مسلمان میئرمنتخب

    نوجوان میئر لندن صادق خان جو عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نہایت متحرک نظر آرہے ہیں اور اپنے نظریات اور انفرادی سوچ کے تحت نئے تجربات کر رہے ہیں اور میٹرو پولیٹن پولیس کے کمشنر کے لیے خاتون کا انتخاب بھی میئر صادق خان نے ہی کیا ہے۔

    میئر لندن کی سفارش پر ملکہ برطانیہ نے کریسٹا ڈک کیی بہ طور کمشنر میٹرو پولیٹن پولیس تعیناتی کی سمری پر دستخط کر دیے ہیں جب کہ موجودہ مکمشنر پولیس کو اگلے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے۔

  • پاکستان کے موجودہ حالات لکھنے کی اجازت نہیں دیتے: حسینہ معین

    پاکستان کے موجودہ حالات لکھنے کی اجازت نہیں دیتے: حسینہ معین

    تعارف: حسینہ معین ، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز مصنف، مکالمہ نگار اورڈراما نویس ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان اوربیرون ملک ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے  بہت سے ڈرامے لکھے اوراُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے۔

    معروف قلم کار حسینہ معین 20 نومبر، 1941ء کو بھارت کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں ۔ حسینہ معین نے ابتدائی تعلیم کانپور سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئیں۔ وہ کافی سالوں تک راولپنڈی میں مقیم رہیں، پھر وہاں سے لاہورچلی گئیں۔ 1950ء  آپ کراچی تشریف لے آئیں‘ یہاں اُنہوں نے جامعہ کراچی سے 1963ء میں تاریخ میں ایم اے کیا۔

    اُنہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے یادگار ڈرامے لکھےجن میں شہزوری، زیرزبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے،دھند، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش اورآئینہ جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں۔

    اُنہوں نے فلم کے لیے بھی کام کیا ہے۔ راج کپور کی درخواست پرہندی فلم ’حنا‘ کے مکالمات تحریر کیے۔ پھراُنہوں نے ایک پاکستانی فلم ’کہیں پیارنہ ہوجائے‘ لکھی تھی۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی فلم ’نزدیکیاں‘ اور وحید مراد کی فلم ’یہاں سے وہاں تک‘ کے مکالمے بھی قلم بند کرچکی ہیں۔

    haseena-post-1

    اے آروائی نیوز: آپ نے پاکستان کے مختلف ادوار دیکھیں ہیں، کیا آپ وطن عزیز کے آنے والے کل سے مطمئن ہیں ؟

    حسینہ معین: نہیں! بد قسمتی سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ ہمارا دور بہت مخلص اور اپنائیت بھرا تھا، جب نہ لسانیت کا شور تھا، نہ نام نہاد مذہب کی باتیں… ملک کے معر ضی حالات کے ساتھ معاشرتی صورت حال بھی بہتر تھی، میعار تعلیم بھی اچھا تھا، اب تو ہر جگہ ناقابل بیان صورت حال ہے، زمانے میں بہت سادہ لوگ تھے جو بہت اعلیٰ ظرف رکھتے تھے، رفتہ رفتہ دیکھا کہ ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب جا رہے ہیں، جو بہت افسوس کی بات ہے

    اے آروائی نیوز: اس ساری صورت حال میں قلم کار کیسے بہتر کرداد ادا کر سکتا ہے ؟

    حسینہ معین: قلم کارکی بڑی ذمے داری ہوتی ہے، یا تو پورا سچ لکھے یا بالکل بھی نہ لکھے۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظرقلم کار میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے، قلم کار اپنے لکھے ایک ایک لفظ کا جواب دہ ہوتا ہے.

    haseena-post-2

    اے آروائی نیوز: آپ نے بے شمار ڈرامے لکھے، کبھی کسی تحریرمیں آپ نے اپنی جھلک اپنے چاہنے والوں کو دکھائی ؟

    حسنیہ معین: انسان کی تحریراس کی سوچ کا عکاس ہوتی ہے، اس کی سوچ اس اخلاقیات کو اجاگر کرتی ہے، مصنف کی شناخت ہے کہ ان کی دولائنز پڑھ کر قارئین کو سمجھ آجائے کہ یہ کون ہے، یقینا میری شخصیت بھی کسی نہ کسی تحریرمیں عکاسی کا سبب بنی ہوگی، میں نے پاکستانی کلچر کے تحت گھریلو نوعیت کے ڈرامے لکھے ، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنے ملک سے والہانہ محبت ہے، جوکہ ہونی بھی چاہیئے ، میری خواہش ہے یہ جذبہ ہر قلم کارمیں ہو اوربے شمارقلم کارمٹی کی محبت کی خوشبو کو اپنے لفظوں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔

    اے آروائی نیوز: لکھنے کے سفر کا آغاز کیسے ہوا؟۔

    حسنیہ معین: میں کالج کے زمانے میں ایک میگزین میں لکھا کرتی تھی، ایک روزمیری پرنسپل نے مجھے بلاکر کہا کہ مختلف کالجز کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے، تمھیں اس سلسلے میں ڈرامہ لکھنا ہے، میں نے کہا میڈیم مجھے ڈرامہ لکھنا نہیں آتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ لکھو گی نہیں تو آئے گا کیسے، انہوں نے اصرار کیا کہ بس! تمھیں لکھنا ہوگا، میں ڈرامہ رائٹرزمیں تھمارا نام لکھ چکی ہوں۔ اب سر پر پڑی تھی لہذا کچھ تو کرنا تھا، بہت سوچ و بچار کے بعد لکھ  ڈالا  اورایسا لکھا کہ ایوارڈ یافتہ ہو گیا، پھراندازہ ہوا کہ میں ڈرامہ بھی لکھ سکتی ہوں۔

    اے آروائی نیوز: میڈیم آپ کو پہلا ایواڈر کب ملا تھا ؟

    حسنیہ معین :1972 میں جب میں نے ’ہیپی عید مبارک ‘ نامی ڈرامہ لکھا تھا وہ آن ائیر گیا ، لوگوں میں مقبول ہوا ، ہمارے ڈایکرٹر نے ہمیں 200 روپے بطور انعام دیئے ، جب 200 روپوں کی بہت اہمیت تھی ،اور وہ میرا پہلا ڈرامہ تھا اس ایواڈر کی خوشی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔

    ۔اے آروائی نیوز: آپ نے اتنے سارے ڈرامے لکھے ، فلم کے ڈائیلاگ لکھے‘ کبھی اداکاری کی جانب کیوں نہیں آئیں؟

    حسنیہ معین: مجھے اپنے لئے اداکاری پسند نہیں ہے ، زمانہ طالب علمی میں ایک بار ایک اسٹیج شو میں زبردستی پرفارم کرنا پڑگیا تھا، ہوا یوں تھا کہ ہمارے کالج کے پرنسپل بختاری صاحب نے کہا کہ تمھاری اردو اچھی ہے تم لڑکیوں کو’انارکلی‘ ڈرامے کی ریہرسل کرادو، لہذا میں یہ فرائض سر انجام دینے لگی۔ اچانک انہوں حکم دیا کہ تم نے ’انارکلی‘ کا کردارادا کرنا ہے ، میں تو سٹپٹا گئی کہ یہ کیا میرے گھروالے کہا ں اجازت دیں گے مگر پرنسپل صاحب کی حکم عدولی بھی ممکن نہ تھی ، کرنا پڑا ، امی سخت خفا ہوئیں مگر ۔امی کو کہا کہ ایک ڈرامے کی بات ہے اجازت دے دیں ،بہت مشکل سے اجازت ملی ڈارمہ کیا اور ایوارڈ جیتا.

    اے آروائی نیوز: آپ آج کل کے حالات پر کیوں نہیں لکھ رہی ہیں؟

    حسنیہ معین: دیکھو آج کل تو افراتفری کا عالم ہے،کیا لکھوں پاکستان کے حلات پرکیا لکھوں یہ کہ جب بھی آرمی آتی ہے تو عوام کو ریلیف ملتا ہے جبکہ نام نہاد جمہوری دورمیں تو عوام پریشانی سے دو چار ہوتے ہیں ، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، یہاں آرمی کی حکومت کے دور میں جمہوری کام ہوتے ہیں ، آپ خود دیکھیں بہترین بلدیاتی نظام آرمی کے دورمیں، ڈیمز کا قیام آرمی کے دورمیں ہوا، ساری دنیا میں افواج سرحدوں پرہوتی ہیں، ہمارے یہاں حکمرانوں سے نظام سنبھلتا ہی نہیں ہے ، اسی ۔لئے خود فوج سے مدد طلب کرتے ہیں تو اس صورت حال میں کیا لکھوں؟۔

    اے آروائی نیوز: پاکستان میں کتنا ’ادب‘ ہے ؟

    حسنیہ معین: پاکستان میں بہت لکھا گیا ہے اور بہت لکھا جارہا ہے ، اس سرزمین نے بہت اچھے ادیب اور شاعر دیے ہیں۔ وقت کے تقاضے کے تحت بہت سی نامور شخصیات ہم سے بچھڑ گئی ہیں ، جو کہ ایک قدرتی عمل ہے ، ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان کی جگہ پُر ہو جاتی تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا، اس کی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے ، حالات کے تناؤ کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہین میں فکر معاش ہے اس لئے وہ دامن ادب کی آغوش میں زیادہ تعداد میں نہیں آرہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ بالکل بھی نہیں آرہے مگر تعدا د تسلی بخش نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ہمارے ملک کے فنون لطیفہ کا پوری دنیا میں چرچا تھا ، اب صورتِ حال پہلے جیسی نہیں ہے ، اب تو آپ لوگوں کے ہاتھ میں بال ہے ، آپ لوگ کے ہی ہاتھ میں اوورز ہیں، وکٹیں بھی آپ کی ہیں، پچ بھی آپ کی ہے۔

    haseena-post-3

    اے آروائی نیوز: کیا آپ ہماری نسل سے مطمئن ہیں ؟

    حسنیہ معین : دیکھو! میرے بڑوں نے مجھ پراعتماد کیا تو آج میں اس مقام پرہوں لہذا میرا آپ لوگوں پراعتماد کرنا ضروری ہے۔ یہ چراغ سے چراغ بھرپوراعتماد کے ساتھ ہی روشن رہ سکتے ہیں، آپ لوگ بھی اچھا کا م کررہے ہیں۔