Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • سوشل میڈیا پرپی آئی اے کی خاتون پائلٹ کے چرچے

    سوشل میڈیا پرپی آئی اے کی خاتون پائلٹ کے چرچے

    کراچی: پاکستان کی قومی ایئر لائن کی خوبرو خاتون پائلٹ کی تصاویر نے سوشل میڈیا پرہلچل مچادی ہے‘ لوگ ایک جانب ان کی خوبصورتی کی تعریف کررہے ہیں وہیں جہاز میں تصاویر لینے کے عمل کوتنقید کا نشانہ بھی بنارہے ہیں۔

    سوشل میڈیا ابلاغ کا انتہائی تیز ترین ذریعہ ہے اور یہاں کوئی بھی شخص راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ دنوں سوشل میڈیا سے شہرت اور کامیابی کی بلندیاں حاصل کرنے والے ارشد خان المعروف چائے والا ہیں‘ جو کہ کچھ ہی دنوں میں اسلام آباد کے ایک ڈھابے سے اٹھ کر گلیمر کی دنیا میں پہنچ گئے۔

    flying-officer-post-1

    اب پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین ایک اورخاتون کی تصویر پر اپنے تاثرات کا اظہار کررہے ہیں جن کا نام ہما لیاقت ہے اور وہ پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے میں فرسٹ آفیسریعنی اسسٹنٹ پائلٹ کے فرائض انجام دیتی ہیں۔

    چائے والا کے بعد رکشہ والا بھی میدان میں

    flying-officer-post-4

    سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر وائرل ہوگئی ہیں اور جہاں ایک جانب لوگ ان کی خوبصورتی اور باوقار شخصیت کو سراہ رہے ہیں وہیں کچھ لوگ جہاز میں تصاویر لینے پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔

    flying-officer-post-3

    ہما پی آئی اے کی ایئربس 320 پر فرسٹ آفیسر کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ا ن کے شوہر امریکہ میں مقیم ہیں جبکہ وہ خود اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے سبب کراچی کے پالپا ہاؤس میں مقیم ہیں۔ ان کے کولیگز کے مطابق خوبصوررت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذہین خاتون بھی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جس فلائٹ میں تصاویر لی گئی ہیں اس وقت جہاز گراؤنڈ پر موجود تھا اور اس قسم کی تصاویر لینے میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ مذکورہ اسسٹنٹ پائلٹ کی پہلی پرواز تھی۔


  • مسلم طالبہ نے امریکہ میں دھوم مچادی

    مسلم طالبہ نے امریکہ میں دھوم مچادی

    نیویارک: مسلم طالبہ نے مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات پرمذمت کے حوالے سے لسٹ مرتب کی ہے ، جس پر دنیا بھر سے ان کو مثبت پیغامات موصول ہورہے ہیں‌.

    تفصیلات کے مطابق حرا ہاشمی سے ان کی ہم جماعت نے سوال کیا کہ پرتشدد واقعات پر مسلمان کیوں مذمت کا اظہارنہیں کرتے ہیں ، اس سوال کا دلیل سے جواب دینے کے لئے امریکہ میں مقیم انیس سالہ انڈین مسلمان طالبہ حرا ہاشمی نے تین ہفتوں کی مختصر مدت میں انتہائی عرق ریزی کے بعد 5684 ایسے واقعات جمع کیے جس میں مسلمانوں نے پرزورالفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کی اور اسے اسلام کے منافی قرار دیا.

      حرا ہاشمی نے اپنی تحیقق سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹرپرشیئر کی ہے جہاں انہیں اس کام پر بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے۔

     ان کی پوسٹ تاحال 25,000 لائکس حاصل کرچکی ہے جبکہ پسندیدگی کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ، اس کے علاوہ حرا ہاشمی کی  اس محنت کو مختلف لوگوں نے اپنے پاس’ ری ٹویٹ ’ بھی کیا ہے.

     اس باہمت 19 سالہ انڈین مسلمان کو خراج تحسین کے پیغامات بھی موصول ہورہے ہیں ، اپنی کامیابی پرحرا ہاشمی کا کہنا ہے کہ میں سب کے مثبت ردعمل پربہت خوش ہوں ، انہوں نے کہا کہ میں عوام میں مسلمانوں کے مثبت چہرے کو اجاگرکرکے بہت خوش ہوں ، میرا خیال ہے کہ میری مرتب کردہ لسٹ مکمل اور جامع ہے۔

    یاد رہے کہ  حرا ہاشمی انڈین مسلم ہیں‌ اور وہ امریکہ کی کولاڈا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں.

  • خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    کراچی: دنیا بھر میں خواتین کی 49 فیصد سے بھی زائد آبادی اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں بھی وہ تمام سہولیات و مواقع دیے جائیں جو ان کی صنف مخالف کو حاصل ہیں۔

    جن معاشروں نے خواتین کی اہمیت کو مانتے ہوئے انہیں یکساں مواقع فراہم کیے، ان معاشروں نے اس کا دگنا منافع حاصل کیا۔ انسان کی اس زمین پر آمد سے لے کر جدید دور تک انہی معاشروں نے ترقی کی جن کی خواتین نے وقت کے حساب سے گھروں کے اندر رہتے ہوئے یا باہر نکل کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔

    پاکستان بھی اب ان ممالک میں شامل ہے جہاں کی خواتین کو کسی حد تک اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی صرف بڑے شہروں، اور ان شہروں کے بھی ترقی یافتہ علاقوں کو حاصل ہے۔

    پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں، شہروں اور دیہاتوں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔

    یہاں خواتین کو وہ ماحول و آزادی میسر نہیں جو بڑے شہروں اور ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین کو حاصل ہے۔ ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین تعلیم بھی حاصل کرتی ہیں، عملی زندگی میں بھی آگے بڑھتی ہیں، اور انہیں تفریح کے بھی تمام مواقع و سہولیات حاصل ہیں۔ لیکن اسی شہر کے پسماندہ علاقوں کی خواتین ان تمام سہولیات سے محروم ہیں۔

    خواتین کی اسی محرومی کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے نہایت ہی پسماندہ اور تمام سہولیات سے عاری علاقے ماڑی پور میں ایک ایسا ڈھابہ قائم کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خواتین کے لیے ہے۔

    پاکستان میں ڈھابوں پر خواتین کی موجودگی کا تصور کچھ عرصہ قبل سامنے آیا جب پوش علاقوں کی خواتین نے ڈھابوں پر بیٹھ کر اس جگہ سے صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونے کا لیبل ہٹا دیا۔ سوشل میڈیا پر شروع کی جانے ’گرلز ایٹ ڈھابہ‘ نامی یہ تحریک خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک قدم تھا۔

    لیکن جس ڈھابے کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ ان خواتین کے لیے ہے جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، کجا کہ وہ خود مختاری کا مطالبہ کریں۔

    کراچی میں ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے قائم کیا گیا یہ ڈھابہ ماڑی پور میں ان خواتین کا مرکز بن چکا ہے جنہیں یا تو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی، یا گھر سے باہر نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی مرد کی موجودگی لازم ہے، یا پھر وہ خواتین جنہیں کچھ آزادی تو میسر ہے، لیکن ان کے لیے پورے علاقے میں کوئی تفریحی مرکز نہیں۔

    دراصل اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی کہ گھروں میں رہنے والی خواتین کو بھی ذہنی سکون و تفریح کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

    ڈھابے پر آنے والی ایک خاتون بختیار کہتی ہیں، ’یہ ڈھابہ ہمیں تفریح کا موقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن اس ڈھابے سے اپنائیت کا احساس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف ہمارے لیے قائم کیا گیا ہے۔ کسی نے تو ہمیں بھی کچھ سمجھا، اور ہمارے بارے میں سوچا۔ کسی کو تو خیال آیا کہ عورتوں کو بھی تفریح کی ضرورت ہے‘۔

    ڈھابے پر آنے والی بختیار

    ویمن ڈھابے یا خواتین ڈھابے پر چائے اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ لوڈو اور کیرم بھی رکھا گیا ہے جسے کھیل کر خواتین اپنے فرصت کے لمحات کو گزارتی ہیں۔

    اپنی نوعیت کا یہ منفرد ڈھابہ نہ صرف ان خواتین کو صحت مند تفریح فراہم کر رہا ہے، بلکہ یہاں خواتین کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

    مذکورہ خاتون بختیار بھی سلائی کڑھائی میں ماہر ہیں، اور ڈھابے پر بیٹھ کر وہ وہاں موجود کئی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کے پیچ و خم بھی سکھاتی ہیں۔

    ان خواتین کی انفرادی کوششوں کے علاوہ ڈھابے کی انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسی صحت مند سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں جن سے ان خواتین کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی ہوجاتا ہے، جیسے دستاویزی فلمیں دکھانا، کسی کتاب کا مطالعہ، یا انہیں ہنر مند بنانے والی کسی سرگرمی کی کلاسیں وغیرہ۔

    ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن کی صدر صبیحہ شاہ نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس ڈھابے کو قائم کرنے کا مقصد ان خواتین کو سکون کے چند لمحات فراہم کرنا ہیں جو کوئی تفریحی سرگرمی نہ ہونے کے باعث ایک گھٹن زدہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ’گھروں میں کام کاج اور اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھنے کے بعد ان خواتین کو بھی ضرورت تھی کہ ان کی تفریح طبع یا ذہنی سکون کے لیے کوئی مقام ہو جہاں وہ جا سکیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ماڑی پور میں بھی حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ’اب لڑکیاں اسکول بھی جاتی ہیں، اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اگر چاہیں تو چھوٹی موٹی ملازمت بھی کر سکتی ہیں، جس کا تصور بھی صرف چند سال پہلے تک ناممکن تھا‘۔

    ڈھابے کی روح رواں صبیحہ شاہ

    صبیحہ اور ان کی ٹیم نے ڈھابے کے ساتھ ریڈنگ کارنر بھی قائم کیا ہے جہاں اسکول کے بچے اور بچیاں نہ صرف مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ وہاں موجود کمپیوٹر اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت سے وہ ترقی یافتہ دنیا سے بھی جڑ سکتے ہیں۔

    علاقے کے افراد کیا اپنی خواتین کو وہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبیحہ نے بتایا کہ اس مختصر عرصے میں انہوں نے علاقے کے لوگوں پر اپنا اعتماد قائم کیا ہے۔ ’اس ڈھابے پر آنے کے بعد خواتین کو ذہنی طور پر سکون حاصل ہوا جس کے بعد ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ یہی نہیں بلکہ خواتین نے سلائی کڑھائی سمیت کئی مثبت سرگرمیاں شروع کیں جس سے ان کے گھروں کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا‘۔

    ان کے مطابق جب مردوں نے یہ مثبت تبدیلیاں دیکھیں تو وہ جان گئے کہ یہ ڈھابہ واقعتاً خواتین کی بہبود کے لیے نیک نیتی سے قائم کیا گیا ہے لہٰذا وہ بخوشی اپنی عورتوں کو یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔

    ڈھابے پر آنے والی خواتین کا ماننا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اس ڈھابے کی صورت میں انہیں ایک تفریحی سرگرمی میسر آگئی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ شہر کے دیگر پسماندہ علاقوں میں بھی ایسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ کم تعلیم یافتہ خواتین کو بھی تفریح کا حق حاصل ہوسکے۔

  • میں نے ایوان میں خواتین سے بدسلوکی کاراستہ بند کردیا‘ نصرت سحر

    میں نے ایوان میں خواتین سے بدسلوکی کاراستہ بند کردیا‘ نصرت سحر

    رکن سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ اگروہ معافی قبول نہ کرتیں تو آئندہ سندھ کا کوئی بھائی اپنی بہن کے سرپر چادر نہیں رکھ پاتا‘ امید ہے آئندہ ایوان میں اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئےگا۔

     سندھ کے ایوان میں ان کی شعلہ بیانیوں خاصی شہرت کی حامل ہیں، گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی میڈیا  میں خبروں کی زینت بنی رہیں اور مذکورہ بالا بات انہوں نے اے آروائی نیوز کو دیے خصوصی انٹرویو میں کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک میرے اسٹینڈ لینے سے سندھ اسمبلی کی دیگرخواتین مستقبل میں ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہوگئی ہیں اور اگر آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو ایوان میں اوربھی نصرت عباسی موجود ہیں۔

    نصرت سحر عباسی کا تعلق خیر پور سے ہے، وہ مسلم لیگ فنکشنل کی اہم رکن ہونے کے ساتھ سندھ اسمبلی کی رکن بھی ہیں‌، علاوہ ازیں وہ سندھ اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم، صعنت، کامرس، مائنز ، منرل ، قانون، امور دستور ساز اسمبلی ، ہیومن رائٹس، پبلک ہیلتھ ، انجیئرنگ اور فنانس کی اہم ممبر بھی ہیں‌۔


    اے آروائی نیوز: کیا امداد پتافی کی سوچ سندھ کے حکمران طبقے کی عکاس ہے ؟

    نصرت سحر عباسی: بالکل اس میں‌تو کوئی دو رائے ہی نہیں ہے، انہوں نے یہ سوچا تھا کہ یہ خاتون ہیں‌‘ یہ کیا کرلیں گی۔ لیکن ان کی سوچ کو شکست ہوئی، میں‌سمجھتی ہوں‌ 23 جنوری کا واقعہ سندھ اسمبلی کے تاریخی واقعات میں‌شمارہوگا ہے ، میرا یہ قدم اسمبلی میں موجوددیگرخواتین کو محفوظ کرگیا ہے۔

    اے آروائی نیوز: آپ کے خیال میں خاتون ہونے کے ناطے حالیہ واقعے پرشہلا رضا کو کیا ایکشن لینا چاہیئے تھا؟

    نصرت سحر عباسی: بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہلا رضا اپنی جماعت کے ساتھ نرم رویہ برتتی ہیں جبکہ جس عہدے پروہ فائز ہیں اس کے تحت یہ عمل انہیں زیب نہیں دیتا ہے، جس روز صو بائی وزیرامداد پتافی نے میرے ساتھ گستاخانہ عمل کیا، اس وقت نہ صرف پیپلزپارٹی کے اراکین ہنس رہے تھے بلکہ شہلا رضا بھی ہنس رہی تھیں۔ میری شدید دل آ زاری ہوئی۔

    شہلا رضا کو ڈپٹی اسپیکرہونے کے ناطے اس صورتحال کا فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے بھی یہ ان کی اخلا قی ذمے داری تھی، ان کو اسی وقت امداد پتافی کو روکنا چا ہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ڈپٹی اسپیکرکو سب کو یکساں لے کرچلنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے.

    اے آروائی نیوز: بلاول بھٹو نے اس پر فوری ایکشن لیا مگر آپ پھر بھی ایوان میں پیٹرول کی بوتل ساتھ لے کرگئیں‘ کیا بلا ول بھٹو کے بیان اوران کی مذمت پراعتبار نہیں تھا؟

    نصرت سحر عباسی: ایک عورت جب خود سوزی کی بات کرتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی وجہ پوشیدہ ہوتی ہے، میرے حوالے سے جس قسم کی زبان استعمال کی گی وہ قابل اعتراض تھی، جمعے کے  اس غیراخلاقی واقعے کے بعد سے میرے پاس کالزکا تانتا بندھ گیا۔ملک میں اوربیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مجھے کال کرکے اظہار یکجہتی کیا۔ سوشل میڈیا بہت محتر ک ہوگیا، ہرایک کا کہنا تھا کہ معاف نہیں کرنا ہے، مجھ پربہت دباؤ تھا، لہذا میں اسمبلی میں پیٹرول کی بوتل لیکر گی، پھر اسی ایوان میں جہاں میرے لئے نازیبا زبان استعمال کی گی تھی اسی جگہ مجھ سے معافی مانگی گئی‘ مجھے چا دراڑھا ئی گئی اورمجھے بہن کا درجہ دیا گیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگراس وقت میں معاف نہ کرتی تو یہ میری جا نب سے زیادتی ہوتی، مجھے لگا کہ اگر میں نے معاف نہیں کیا تو شاید پھرکوئی بھائی بہن کوچا درنہیں پیش کرے گا۔

    ہاں یہ سچ ہے کہ بلاول بھٹو ، بختا ور بھٹو اورآ صفہ بھٹو نے فوری رد عمل کے ذریعےامداد پتا فی کے اقدام کی مذ مت کی ، جس پر میں‌ ان کی شکر گزار ہوں ، مگر ایو ان میں برا جما ن بااثرشخصیات کی خاموشی کے خلاف مجھے یہ سب کر نا پڑا تھا۔

    اے آروائی نیوز: میں نے ایک خاتون رکن اسمبلی سے ایک انٹرویو لیا تھا ان کا کہنا تھا کہ خواتین اراکین اسمبلی کو کسی بل کی منظوری یا پروجیکٹ کے نافذ کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان سے کہا جا تا ہے کہ آپ لوگ ریزروسیٹ پرآئیں ہیں، آپ کو پروجیکٹ پرپیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت‘ آپ کوالیکشن تھوڑی لڑنا ہے ، نصرت صاحبہ کیا آپ کو اس قسم کے جملے سننے کو ملتے ہیں ؟

    نصرت سحر عباسی: بالکل ایسا ہے!بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہی ہے، نہ صرف صوبائی بلکہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی خواتین رکن کو بھی اس قسم کے حالات اورجملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اسمبلیوں میں بزنس سے متعلق تجاویزسب سے زیادہ یہ ریزرو سیٹس والی خواتین ہی لاتی ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے ، وجہ یہی ہے کہ جناب آپ تو ریزرو سیٹ کی ہیں ، آپ نے علاقے میں‌ کام کرواکرکیا کرنا ہے، آپ نے الیکشن تھوڑی لڑنا ہے جو آپ علاقے میں کام کے لئے فنڈز کی طلب گار ہیں۔

    آپ یقین کریں میرے لوگ روزانہ مجھ سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں، انہیں‌ بینادی مسائل کے حل کے لئے میرا تعاون درکار ہے، تاہم فنڈزنہ ملنے کی بدولت میں‌اپنے لوگوں کے کام آنے سے قاصر ہوں ، میں فنڈز کے حصول کی خاطراپنے سارے کاٍغذات جمع کراچکی ہوں‌ مگر کوئی شنوائی نہیں ، سمجھ میں نہیں‌آتا ہے کہ ایسا کیوں ہے.

    اے آروائی نیوز: اگر ایسا ہے تو کیا ہماری قانون ساز اسمبلیاں بھی Men Dominate Society کی تصویر ہیں ؟

    نصرت سحر عباسی: دیکھیں، یہ Men dominate Society کی عکاسی نہیں ہے تو اور کیا ہے ، ایک شخص ایک خاتون کے خلاف کیا کیا شرمناک باتیں کرتا رہا اوراس ایوان میں‌سے کسی نے اُٹھ کراس کو شٹ اپ کا ل نہیں دی، اس کے علاوہ جب بھی کوئی خاتون اپنا موقف بیان کرتی ہے تو کوئی نہ کوئی مرد رکن کوئی نہ کوئی comment ضرور پاس کرتا ہے، آپ یقین کریں یہ سلسلہ معمولات میں شامل ہو گیا ہے، جب بھی کوئی خاتون تقریر کے لئے اُٹھتی ہے، ایک دم آواز آتی ہے کہ ’’چلو جی! خواتین کا رونا شروع ہو گیا‘‘ ، توآپ کا یہ سوال بالکل درست ہے، ہمیں‌ ہرجگہ Men Dominate Society کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

    اے آروائی نیوز: کیا مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش آنے کا امکان ہے؟۔

    نصرت سحر عباسی: دیکھیں اس ایشو پرتو اتنا شور اُٹھ گیا ہے، ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں نے اس عمل کی سخت الفاظ میں‌ مذمت کی، جس پر میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں ،اس کے علاوہ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اورمختلف ویب سائیٹس نے اس ایشو کو بہت ہائی لائٹ کیا، جس پرصحافی برداری کی شکر گزارہوں، خاص طور پراے آر وائی نیوز کا میں بہت زیادہ شکریہ ادا کرتی ہوں۔

    اب میرا نہیں‌ خیال کہ اس قسم کی یا اس سے ملتی جلتی بھی کوئی صورتحال دیکھنے کو ملے گی، اس واقعے کے بعد سے ہی کتنوں کی زبانیں‌ تو کھلنے سے پہلے ہی بند ہوگئی ہیں‌، اب تو بہن ، بیٹی کہتے کہتے زبان نہیں‌ تھک رہی ہے ، تو میرا خیا ل ہے کہ اب ایسا ممکن نہیں‌ ہے، کیونکہ ہمارے ایوانیوں میں‌اوربھی نصرت سحرعباسی موجود ہیں، اوراگر ایسا ہوا تو اب معافی پرجان نہیں‌ چھوٹے گی، اب رکینت خارج ہوگی.

    اے آروائی نیوز: سب سے پہلے تھر کی صورتحال سے سندھ کے ایوان کو آپ نے باخبر کیا تھا ، تھر میں تاحال خواتین اور بچوں کی بھوک اور بیماریوں کا سلسلہ جاری ہے ، حکومت کی جانب سے مثبت پیش رفت کیوں‌ سامنے نہیں آرہی ہے، آخر کیا قباحت ہے ؟

    نصرت سحر عباسی: تھر کی حالت تاحال ابتر ہے ، وہاں کوئی مثبت پیش رفت نہیں‌ہوئی ہے، ہمارے تھر کے برابرمیں ہی ہندوستان کا صحرائی علاقہ ہے جوکہ ہم سے کہیں‌ زیادہ سہولیات سے مزین ہیں، یہ ہماری حکومت کی کوتاہی ہے، بیماریوں کی وجہ سے معصوم بچوں کا مرجانا ، ماؤں کی گودیاں خالی ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں‌ ہے، تھری عوام نے ہاتھ اٹھ اٹھ کر حکومت کو بد دعائیں‌ دی ہیں، یہ بات صوبائی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے، انہوں نے بڑے بڑے اعلان کیے کہ جی ہم نے تھر کے عوام کو گندم فراہم کی، اشیا خوردونوش فراہم کی، یقین کریں، ایسا نہیں‌ہے، وہ گندم اوراشیا خوردونوش گوداموں میں خراب ہوگئیں مگرضرورت مندوں‌ تک اس کی رسائی ممکن نہیں‌ ہوئی ، امداد کا سامان تک سڑا دیا گیا ، ضرورت مندوں کو نہیں دیا گیا ، اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا، اس قسم کی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیوں‌ ہوا؟ یقینا یہ حکومت کی کھلی نا اہلی ہے.

    اے آروائی نیوز: مگر حکومت تو تھر کے مستقبل سے بہت پرامید ہے، دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تھرکول پروجیکٹ شروع کردیا گیا ہے جس سے نہ صرف تھربلکہ پاکستان کی تقدیربدل جائیگی ، کیا واقعی ایسا ہے ؟

    نصرت سحر عباسی: ہاں یہ کام تو ہوریا ہے مگر وہاں مقامی لوگوں سے کام نہیں لیا جارہا ہے. چونکہ یہ پروجیکٹ چین کے  اشتراک سے شروع کیا گیا ہے تو چین کی کمپنی نے اپنے ہی لوگوں کو شامل کیا ہے، وہ اپنے لوگوں کو پاکستان لے کرآئے ہیں اورکول پروجیکٹ پرکام کر رہے ہیں‌ جبکہ تھری عوام کواس پروجیکٹ کا حصہ نہیں بنایا جارہا ہے۔

    اے آروائی نیوز: پی ایم ایل ف کا 23 جنوری کو اسمبلی سیشن کے دوران رونما ہونے والے معاملے پر کیا موقف ہے ؟ پیر صاحب پگارا کیوں اس معاملے پر سامنے نہیں آئے ؟

    نصرت سحر عباسی: میری پارٹی میرے ساتھ ہے‘ پیر صاحب پگارا کو بھی بہت غصہ تھا بلکہ ابھی بھی ہے لیکن میرے منع کرنے پر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔

    پیر صاحب پگارا ان دنوں روحانی دورے پر ہیں‌ مگر جب ان کے علم میں‌ یہ سارا واقعہ آیا تو انہوں نے سخت موقف اپنا تے ہوئے امداد پتافی کے رویہ کی سخت الفاظ میں‌ مذمت کی، یہ ان ہی کی تعلیمات ہیں کہ بدلہ لینے سے بہترہے کہ معاف کردو لہذا میں نے اپنے بزرگ رہنما کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا ، جسے انہوں نے سراہا۔

  • پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے نئی تاریخ رقم کردی

    پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے نئی تاریخ رقم کردی

    گلگت بلتستان کے دشوار گذار وادی شمشال سے تعلق رکھنے والی ثمینہ بیگ یوں تو روزانہ ہی اپنے علاقائی پہاڑوں اور گھاٹیوں کو عبور کیا کرتی تھیں تاہم انہوں نے بلند ترین ماؤنٹ ایورسٹ چوٹی کو سر کر کے شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے یہ معرکہ سر کرنے والی پہلی مسلمان خاتون بننے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔

    بہادر کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ شمشال میں کوہ پیماؤں کی تربیت کے لیے اسکول کا قیام بھی عمل میں لائیں تو دوسری جانب آٹھ شمشالی خواتین کو کوہ پیمائی کی تربیت دینے کے بعد موسم سرما کی مہم برائے منگلخ سرائے ترتیب دیا جو 6065 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور جہاں تک پہنچنے کے لیے دشوار گذار و خطرناک راستوں کو ہی عبور نہیں کرنا تھا بلکہ جان لیوا موسم کو بھی شکست دینا تھی۔

    آٹھ بہادر شمشالی خواتین در بیگ، فرزانہ فیصل، تخت بی بی، شکیلہ ، میرا جبیں، گوہر نگار، حفیظہ بانو اور حمیدہ بی بی نے یہ معرکہ سر کرنے کی ٹھانی جس کے لیے اپر ہنزہ میں 4100 میٹر کی بلندی پر ایک گلیشیئر پر واقع کوہ پیماؤں کی تربیت گاہ میں ان خواتین کو ثمینہ بیگ اور قدرت علی نے خصوصی تربیت دی جس کی تکمیل کے بعد اس مہم کا باقاعدہ آغاز 29 دسمبر کو ہوا۔

    samina-baig-post-3

    ابتدائی طور پر ثمینہ بیگ اور ان کے ساتھیوں کی منزل 60650 میٹر کی بلندی پر واقع چوٹی منگلخ تھی تا ہم سفری سہولیات اور سامان رسد پہنچانے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے منگلخ کے بجائے ایک انجان اور اب تک سر نہ ہونے والی چوٹی بوئیزم کو سر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو منگلخ چوٹی سے بھی مزید 1750 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

    samina-baig-post-4

    samina-baig-post-6

     

    مہم جوئی کے آغاز سے ہی موسم سرد اور طوفانی ہوتا چلا گیا لیکن با ہمت کوہ پیما خواتین نے اپنے عزم اور حوصلے کو جواں رکھتے ہوئے سفر جاری رکھا یہاں تک کہ مہم کے آخری دن صرف چوبیس گھنٹے میں منگلخ سے مزید 1750 میٹرز کی بلندی، 45 کلو میٹر فی گھنٹہ کے حساب سے چلنے والے طوفان اور منفی 38 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے باوجود کامیابی سے طے کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔

    samina-baig-post-7

     

    یہی نہیں بلکہ ان آٹھ بہادر خواتین میں شامل 16 سالہ حفیظہ بانو نے یہ چوٹی سر کر کے ” کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما” ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔

    samina-baig-post-5

     

    samina-baig-post-1

    ممتاز کوہ پیما ثمینہ بیگ نے کامیاب مہم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر خواتین کے اہل خانہ نے برف باری اور سرد ترین موسم ہونے کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تا ہم مشترکہ میٹنگ میں گفت و شنید اور انسٹرکٹرز و کچھ خواتین کی ہمت اور حوصلہ افزائی کرنے پر خواتین نے اس تاریخی معرکے کو سر کرنے کی ٹھانی۔

    samina-baig-post-2

  • خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    ڈیوس: اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہوگئی۔

    اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کے ایسے آرکسٹرا نے اپنی پرفارمنس پیش کی جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔

    زہرا ۔ تاریخ کا منفرد آرکسٹرا

    زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    6

    9

    یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا جمعے کے روز بھی اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔

    یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔

    3

    ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔

    سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔

    5

    اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

    آرکسٹرا کی اراکین ۔ حوصلے کی داستان

    آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔

    نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔

    8

    لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔

    اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔

    وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘

    وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    نگین کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وہ وطن واپس آکر قومی سطح پر قائم کردہ کسی آرکسٹرا کی سربراہی کرنا چاہتی ہے۔

    آرکسٹرا میں شامل 18 سالہ وائلن نواز ظریفہ ادیبہ اس سے قبل نیویارک میں بھی پرفارم کر چکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’افغان ہونا اور افغانستان میں رہنا خطرناک ترین عمل ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اگلا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، کیا پتہ وہ وہیں ہو جہاں پر آپ موجود ہیں‘۔

    2

    ظریفہ کی والدہ، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن وہ وقت اور نئی نسل کے بدلتے رجحانات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

    انہوں نے اپنی بیٹی کو بخوشی اس کے شوق کے تکمیل کی اجازت دے دی۔ ’اب یہ میری نسل پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلی لانے کے لیے بہت عرصہ درکار ہے۔ کم از کم یہ پوری ایک نسل‘۔

    ظریفہ کی پسندیدہ شخصیت امریکی خاتون اول مشل اوباما ہیں۔ ’میں جب انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

    ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں یہ آرکسٹرا ایک منفرد تاریخ رقم کرنے جارہا ہے۔ آرکسٹرا میں وائلن، پیانو اور افغانستان کے روایتی آلات موسیقی بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سرمست کا ماننا ہے کہ، ’افغانستان کی پہچان کلاشنکوف، راکٹ اور خودکش حملے نہیں، بلکہ یہ لڑکیاں اور ان کا فن ہے‘۔

  • ‘مجھے تم پر بے حد فخر ہے’

    ‘مجھے تم پر بے حد فخر ہے’

    واشنگٹن: امریکی صدر بارک اوباما اپنے الوداعی خطاب میں خاتون اول مشل اوباما کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے مشل اوباما کو قوم کے نوجوانوں کے لیے بہترین مثال قرار دیا۔

    شکاگو میں امریکی صدر بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس سے رخصتی سے قبل اپنا الوداعی خطاب کیا۔ خطاب میں وہ اپنی اہلیہ مشل اوباما اور بیٹیوں کو بہترین خراج تحسین پیش نہ کرنا بھولے۔

    خطاب کے دوران جیسے ہی انہوں نے اپنی اہلیہ کا نام لیا، ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس دوران صدر اوباما آبدیدہ ہوگئے اور انہیں اپنے جذبات پر قابو پانے میں کافی وقت لگ گیا۔

    obama-5

    انہوں نے مشل اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مشل گزشتہ 25 سالوں سے نہ صرف میری اہلیہ اور بچوں کی ماں بلکہ میری بہترین دوست ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے کہا، ’تم نے خود سے وہ ذمہ داری اٹھائی جو کسی نے تم پر عائد نہیں کی۔ تم نے خود اس کردار کا تعین کیا اور باوقار طریقے سے اسے نبھایا‘۔

    obama-4

    صدر اوباما نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’تم نے وائٹ ہاؤس کو ایسی جگہ بنا دیا جو سب کے لیے تھی۔ تم نے خاتون اول کے عہدے کے لیے ایک اعلیٰ معیار قائم کردیا اور تم اس کی بہترین مثال بن گئیں‘۔

    امریکی صدر نے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پورے امریکا کو تم پر فخر ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ 8 سال سے مشل اوباما اپنے سادہ و باوقار انداز کی وجہ سے امریکیوں کی پسندیدہ ترین شخصیت بن چکی تھیں۔ صدر اوباما کے دور صدارت کے دوران وہ خود بھی خاصی سرگرم رہیں۔

    امریکی خاتون اول نے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’لیٹ گرلز لرن‘ نامی منصوبے کا آغاز کیا۔

    اس منصوبے کے تحت پاکستان، افغانستان، اردن اور کئی افریقی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعمیر اور دیگر تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان منصوبوں کے لیے امریکی بجٹ کی ایک خطیر رقم مختص کی گئی۔

    مشل اوباما نے ہالی ووڈ اداکارہ میرل اسٹریپ اور بالی ووڈ اداکارہ فریدہ پنٹو کے ہمراہ لائبیریا اور مراکش میں بھی تعلیمی منصوبوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور و آگاہی کی مہم چلائی۔

    michelle-2

    مشل اوباما کی سربراہی میں چلنے والا ایک اور منصوبہ ’مائی برادرز کیپر‘ ہے۔ اس کے تحت امریکا میں آباد سیاہ فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی استعداد میں اضافہ کے لیے کام کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی اور امریکی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    مشل اوباما اپنی ہر تقریر میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے، انہیں محنت کرنے، آگے بڑھنے اور وقت ضائع کرنے والے فیشن ٹرینڈز کے پیچھے نہ بھاگنے کی تلقین کرتی رہیں۔

    ایک بار ایک تقریب میں وہ امریکی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی کر چکی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا، ’اس عمر میں کوئی لڑکا اس قابل نہیں جو آپ کو آپ کی تعلیم سے بھٹکا دے۔ اگر آپ کی عمر میں، میں اس بارے میں سوچتی تو میری شادی امریکی صدر سے نہ ہوئی ہوتی‘۔

  • معاشرتی تفریق کوشکست دینے والی باہمت خاتون

    معاشرتی تفریق کوشکست دینے والی باہمت خاتون

    پاکستان کی خواتین بالخصوص دیہات سے تعلق رکھنے والی عورتیں تعلیم اور حقوق سے قطعی بے بہرہ ہیں تاہم ان میں سے کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنی الگ ہی دنیا رقم کی ہے۔ ان میں سے خواتین کی تعلیم اور معاشی خوشحالی کے لیے کوشاں غلام صغرا سولنگی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے دکھوں کا مداوا دوسروں کے درد بانٹ کرکیا۔

    وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ پر آمنا صدقنا کہنے والے شاید اس بات سے ناواقف ہیں کہ قدرت نے اس جہاں میں خواتین کو بھی جینے کا حق دیا ہے اور وہ بھی اچھی صحت ‘ تعلیم اور بہتر معاشی مواقع کی ویسی ہی مستحق ہیں جیسا کہ مرد حضرات ہیں۔

    معاشرے کو یہی بات سمجھانے کے لیے صغرا گزشتہ کئی برسوں سے کوشاں ہیں۔ اپنے گاؤں کی دیگر کئی لڑکیوں کی طرح ان کی شادی بھی محض 12 سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور محض یہی نہیں بلکہ چھ سال بعد ان کے بیرونِ ملک مقیم شوہر نے انہیں طلاق دے دی اوروہ اپنے دوبچے لیے واپس اپنے والدین کے گھر آگئیں تھیں۔ صغرا کے مطابق ان کے شوہر کا موقف تھا کہ ’’وہ خوبصورت اور تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور اسے ان سے بہتر بیوی مل سکتی ہے ‘‘۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں عالمی ترقی کے لیے خطرہ

    صغرا نے گھر آکر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور اس راہ میں بھی بے پناہ مشکلات اٹھائیں۔ گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا‘ انہوں نے اسکول جانے والے لڑکوں سے سیکھنا شروع کیا اور اسی طرح جدوجہد کرتے پرائیویٹ میٹرک کا امتحان دے دیا جس میں انہیں کامیابی ملی۔


    صغرا بتاتی ہیں کہ اس عرصے میں وہ ایک بار اس قدر دلبرداشتہ ہوگئی تھیں کہ اپنے بچوں کو لے کر

    خودکشی کے لیے نہر کنارے جا پہنچیں تاہم ان کے بیٹے کے آنسوؤں نے انہیں روک لیا


    حکومت نے اعلان کیا کہ اگر گاؤں میں کوئی پڑھی لکھی لڑکی بچیوں کو تعلیم دینے کے لیے تیار ہے تو وہاں اسکول بنے گا‘ انہوں نے انٹرویو دیا اورانہیں لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے ٹیچر کی نوکری مل گئی‘ لیکن اگلا مرحلہ شاید تعلیم حاصل کرنے سے بھی زیادہ دشوار تھا۔

    مزید پڑھیں: بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    جب لڑکیوں کی ماؤں سے کہا گیا کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول بھیجیں تو انہوں نے انکار کردیا۔ وجہ سماجی سے زیادہ معاشی تھی کہ خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور لڑکیاں گھر سنبھالتی ہیں ‘ چھوٹے بچوں کو سنبھالتی ہیں الغرض ماں کی غیر موجودگی میں چھوٹی ماں کا کردار ادا کرتی ہیں۔

    صغرا نے خواتین کو معمولی رقم سے مختصر پیمانے پر کاروبار کرانے کا تجربہ کیا جو کہ کامیاب رہا جس کے سبب ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور ان کے گھریلو حالات بہتر ہوئے تو گنجائش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے اسکول بھیج سکیں۔ گویا اس طرح خواتین کی معاشی مدد اور لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جو اب سندھ کے بارہ اضلاع میں ماروی رورل ڈیلوپمنٹ آرگنائزیشن کی شکل میں پھیلا ہوا ہے ‘ اس کی روح رواں غلام صغرا ہیں اور یہ تنظیم انسانی حقوق‘ صحت تعلیم اور سماجی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    صغرا کو 2011 میں خواتین کے لیے امریکہ کا بہادر خواتین کے لیے مختص عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے یہ ایوارڈ مشعل اوباما اور ہیلری کلنٹن سے وصول کیا۔ اس حوالے سے صغرا کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے اور میرے ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

    اس سے قبل پاکستان میں یہ ایوارڈ 2008 میں قبائلی علاقہ جات میں خواتین کو بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں بیگم جان کو دیا گیا تھا جو کہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔

  • گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    پشاور: ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر اور اس کے خلاف مسلح افواج کی جنگ نے جہاں ایک طرف تو ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی وہیں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوگئے تھے۔ گو کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، لیکن اب ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہاں کی خصوصاً خواتین، جو کبھی آئی ڈی پیز تھیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2009 میں شروع کیے جانے والے سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ اس وقت اندرونی طور پر ہجرت کرنے والے افراد (انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسن) کی سب سے بڑی تعداد تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    یہ لوگ برسوں کا جما جمایا گھر چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں آ بسے اور یہاں سے ان کی زندگی کا ایک تلخ دور شروع ہوا۔

    اپنے علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والے افراد ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی قطاروں کی خواری اٹھانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنی پڑی، اور بچے تعلیم، کھیل اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔

    یہ وہ حالات تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    سنہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن شمالی وزیرستان، اور فاٹا کے علاقوں میں شروع کیا گیا اور اس بار یہاں کے لوگوں کو دربدری اور ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

    آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں 20 لاکھ کے قریب افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ دربدری، بے بسی اور بے چارگی کا ایک اور دور تھا تاہم اس بار انتظامات کچھ بہتر تھے۔

    ایک سال کے اندر ہی متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ تمام متاثرین کی حتمی واپسی کے لیے دسمبر 2016 کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی بھی آپریشن سے متاثر ہونے والے قبائلین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

    کیا واپس جانے والوں کے لیے زندگی پہلے جیسی ہے؟

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس جانے والوں نے حکومتی امدادی رقم سے اپنے گھر بار تعمیر کر کے نئی زندگی کا آغاز کردیا ہے۔ اکثر کی زندگی آپریشن سے پہلے جتنی خوشحال تو نہیں، تاہم وہ ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

    لیکن درحقیقت سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔

    مینگورہ کی 29 سالہ خدیجہ بی بی آپریشن سے قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجائے کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر کو انہیں چھوڑنا پڑے گا، اور چھوڑنا بھی ایسا جو ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گا۔

    جب آپریشن شروع ہوا تو خدیجہ بی بی اپنا اور اپنے خاندان کا ضروری سامان اٹھائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپ میں آ بسیں، لیکن رکیے، وہ بسنا نہیں تھا، وہ تو خدیجہ بی بی کے لیے مجبوری کی حالت میں سر چھپانے کا ایک عارضی ٹھکانہ تھا جو ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔

    ساری عمر بڑی سی چادر میں خود کو چھپائے خدیجہ بی بی نے بہت کم گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔ اگر وہ گھر سے باہر گئی بھی تھیں تو باعزت طریقے سے، اپنے شوہر کے ساتھ باہر گئی تھیں۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں لد کر آنے، اور ایک خیمے میں پڑاؤ ڈال لینے کا تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

    فوج کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور دیگر اشیا کے لیے قطاروں میں لگنا، چھینا جھپٹی، خوراک کے لیے ہاتھا پائی اور تکرار، اور رہنے کے لیے کپڑے سے بنا ہوا ایک خیمہ جہاں رہ کر صرف انہیں یہ اطمینان تھا کہ کوئی غیر مرد اندر جھانک نہیں سکے گا۔

    ان تمام حالات نے خدیجہ بی بی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بالکل تبدیل کردیا۔ پچھلی زندگی کا سکون، اطمینان اور خوشی خواب و خیال بن گئی۔ بالآخر برا وقت ختم ہوا، ان کے علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا اور خدیجہ بی بی کے خاندان اور ان جیسے کئی خاندانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی، لیکن یہ خوف، بے سکونی اور نفسیاتی الجھنیں اب ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن چکی تھیں۔

    اور ایک خدیجہ بی بی پر ہی کیا موقوف، ٹوٹے پھوٹے تباہ حال گھروں کو واپس آنے والا ہر شخص کم و بیش انہی مسائل کا شکار تھا، اور خواتین اور بچے زیادہ ابتر صورتحال میں تھے۔

    واپسی کے بعد بھی زندگی آسان نہیں

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم و صحت کے لیے سرگرم ادارے اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹنے والے آئی ڈی پیز کو صحت کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے صدمہ وہ جو انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے سہنا پڑا۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن 2009 میں شروع ہوا جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی میں ابھی تک برقرار ہیں، وہاں کے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوچکے ہیں اور اس میں مرد و خواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ کسی ناقابل یقین حادثے یا سانحے کے ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحے کی تلخ یادیں، ان کی وجہ سے مزاج، صحت اور نیند میں تبدیلیاں اور مختلف امراض جیسے سر درد، ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہونا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ایک جما جمایا گھر چھوڑ کر، جہاں آپ نے ایک طویل عرصے تک پرسکون زندگی گزاری ہو، کسی انجان مقام پر جا رہنا آسان بات نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز نے بھی ان امن پسند لوگوں کو دربدر کردیا جس کے باعث یہ گھر واپسی کے بعد بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

    فطری حاجت کے مسائل

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں رہائش کے دوران قبائلی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کا کبھی اس سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک آئی ڈی پی کیمپ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ خواتین کو فطری حاجت سے متعلق بے شمار مسائل ہیں۔ خواتین نے شکایت کی کہ ان کے لیے بنائے گئے واش رومز یا پانی بھرنے کی جگہیں ان کے کیمپوں سے بہت دور تھیں، وہاں پر اندھیرا ہوتا تھا اور بعض اوقات باتھ روم کے دروازوں کی کنڈیاں درست نہیں تھیں۔

    گلالئی کے مطابق ان پردہ دار خواتین کے لیے ایسے غیر محفوظ بیت الخلا کا استعمال مشکل ترین امر تھا، نتیجتاً بے شمار خواتین گردوں کے امراض میں مبتلا ہوگئیں، ہر روز جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی تھی وہ الگ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان غیر محفوظ باتھ رومز کی وجہ سے جنسی ہراسمنٹ کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے۔

    گھریلو تشدد میں اضافہ

    ایک اور مسئلہ جو ان خواتین نے اس دربدری کی زندگی میں سہا، وہ تشدد تھا جو ان کے مردوں نے ان پر کیا۔

    گلالئی کے مطابق انہیں خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں مہاجروں جیسی زندگی گزارنے لگے تو ان کی زندگی سے سکون اور اطمینان کا خاتمہ ہوگیا جس کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ ان کے مردوں نے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    خواتین نے بتایا کہ جب مرد کیمپ سے باہر نامساعد حالات سہہ کر آتے تو ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن اپنے عروج پر ہوتی جو انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے نکالنی شروع کردی۔

    بیشتر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے گھروں میں ایک پرسکون زندگی گزارتے تھے تو اس وقت کبھی ان کے مردوں نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

    دماغی و نفسیاتی امراض میں اضافہ

    خیبر پختونخواہ میں معمولی پیمانے پر دماغی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان کے مطابق مہاجر کیمپوں سے لوٹ کر آنے والے شدید دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق لوگ ہر وقت ایک نامعلوم خوف اور بے چینی کے حصار میں رہنے لگے۔ ان کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ڈر کر اٹھ جایا کرتے تھے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ فطری سخت جانی کے سبب مردوں نے تو ان مسائل پر کسی حد تک قابو پالیا، تاہم خواتین اور بچے مستقل مریض بن گئے۔

    اس حوالے سے گلالئی نے بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے بچوں سے ان کی تعلیم کے حوالے سے بات کی، تو بچوں نے انہیں بتایا کہ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پڑھنے کے دوران ان کے سر میں مستقل درد ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، جبکہ رات کو سونے کے دوران بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔

    اور صرف بچے ہی نہیں خواتین بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی نے ان کی نفسیات و مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ ہنسنا بھی بھول گئی ہیں۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن کے بعد اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ جنگ کے نقصانات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ادارے (ری ہیبلی ٹیشن سینٹر) قائم کیے جاتے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں، اس طرح کے اداروں کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔

    پھر سنہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوگیا اور اس بار مختلف قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی کو دربدری اور اس کے بعد کم و بیش سوات آپریشن کے متاثرین جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری پرانی عادت ہے ہم ماضی کے تجربات سے کبھی سبق نہیں سیکھتے‘۔ گلالئی نے کہا۔

    جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، اور بہت جلد یہ پھر سے خوشحال اور آباد علاقے بن جائیں گے جہاں شاید پہلے سے جدید سہولیات موجود ہوں، لیکن اس جنگ میں معصوم لوگوں نے جو اپنے پیاروں سے محرومی کے ساتھ ساتھ، اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خراج ادا کیا، اس کے اثرات تا عمر باقی رہیں گے۔

  • خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    لاہور: خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے ازالے کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایسی موبائل ایپ بنا لی ہے جو ایسے واقعات کے خلاف اقدامات کرنے میں مدد دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے اشتراک سے پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایک موبائل ایپ بنائی ہے جس کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو فوری رپورٹ کر سکیں گی۔

    اس ایپ کے تحت اسے استعمال کرنے والی خاتون جیسے ہی وارننگ سگنل پریس کریں گی، فوراً ہی ڈولفن فورس کے قریبی دستے کو واقعہ اور جائے وقوع کی اطلاع موصول ہوجائے گی اور وہ حرکت میں آجائے گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈولفن فورس کے علاوہ قریبی پولیس اسٹیشن میں اسی کام کے لیے متعین اہلکار اور پولیس رسپانس یونٹ کے اہلکار بھی ان شکایات پر ایکشن لینے کے ذمے دار ہوں گے۔

    اینڈرائیڈ فون کے لیے بنائی جانے والی اس ایپ میں موصول ہونے والی شکایت کے ازالے کے لیے اسے سیف سٹی پراجیکٹ کے ساتھ اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔

    پنجاب سیف سٹی انتظامیہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر خان کا کہنا ہے کہ یہ ایپ نہ صرف 24 گھنٹے فعال رہے گی بلکہ اسے انٹرنیٹ کا کنکشن نہ ہونے کی صورت میں بھی بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی ۔ مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار کے مطابق اس ایپ کے ذریعہ خواتین صوبے میں اپنے (خواتین کے) متعلق قوانین سے بھی آگاہی و معلومات حاصل کرسکتی ہیں۔

    اس منصوبے کا پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر آج افتتاح کردیا جائے گا۔