Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    پشاور: خیبر پختونخوا کی پولیس فورس میں شامل خاتون اہلکار رافعہ قسیم بیگ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بن گئیں۔ وہ اس یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی اور ایشیائی خاتون ہیں۔

    پشاور سے تعلق رکھنے والی رافعہ نے 7 سال قبل محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تسلسل سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے بھی ان کے عزم کو متزلزل نہیں کیا اور وہ اپنے شعبہ میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔

    مزید پڑھیں: قطر میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے سرگرم راحت منظور

    بی ڈی یو کا حصہ بننے سے قبل رافعہ کو مرد اہلکاروں کے ہمراہ نوشہرہ کے اسکول آف ایکسپلوسو ہینڈلنگ میں بموں کی اقسام، شناخت اور ناکارہ بنانے کی تربیت دی گئی۔

    bdu-2

    رافعہ کی پروفیشنل ٹریننگ ابھی جاری ہے اور وہ 15 روز بعد بم ڈسپوزل کا کام باقاعدہ شروع کریں گی۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رافعہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایشیا کی تاریخ تبدیل کردیں گی۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان ان کا گھر ہے اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے وہ اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے سے بھی گریز نہیں کریں گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    رافعہ کا عزم ہے کہ وہ ملک بھر کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کریں کہ خواتین کمزور نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس قدر باہمت ہوتی ہیں کہ بم اور بارود بھی ان کے سامنے کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ اپنی شاندار کارکردگی سے وہ دنیا بھر میں اپنے ملک اور محکمہ پولیس کا مثبت تاثر اجاگر کریں۔

  • بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    نئی دہلی: بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک کے دیہاتوں میں خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی یہ عورتیں مردوں ہی کی طرح سرد و گرم برادشت کرتی اور ان ہی کے جیسی یکساں محنت کرتی ہیں۔

    لیکن ان خواتین کاشتکاروں کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے کوئی نہیں جانتا، یا جانتا بھی ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

    بھارت میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے اہلخانہ کو پالنے کے لیے نہ صرف ان کھیتوں کو جسمانی مشقت اور اپنا خون پسینہ دیتی ہیں، بلکہ زمینداروں کو اپنی قیمتی متاع حیات یعنی عزت بھی دینے پر مجبور ہیں۔

    india-4

    اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی میں خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں ان خواتین کاشتکاروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچیں۔

    کھیتوں میں کام کرتی یہ خواتین اپنی رضا مندی سے زمینداروں اور اپنے نگرانوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہیں، لیکن اس ’رضا مندی‘ کے لیے انہیں مجبور کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کی صورت اور کبھی معاشی احسانات کے عوض۔

    مشکل در مشکل

    بھارتی ریاست مغربی مہاراشٹر میں بھی گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کاشتکاروں کے لیے اپنے مالکوں اور نگرانوں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد ایک عام سی بات ہے۔

    بھیودے بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک زبردستی جسمانی تعلق کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو یہ کوئی آسان حمل نہیں تھا۔ انہیں شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے نومولود بچے کی موت پر منتج ہوا۔

    india-3

    ڈاکٹر نے انہیں ہسٹرریکٹمی یعنی اپنی بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل میں مزید ایسی تکالیف سے بچا جاسکے۔

    اور ایسا مشورہ پانے والی بھیودے پہلی عورت نہیں تھی۔ کھیتوں میں زمینداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی تقریباً ہر عورت کو یا تو اپنے خاندان والوں کی جانب سے اس عمل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر وہ خود ہی اس عمل سے گزرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا سکے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    دراصل کھیتوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات اس قدر عام، اور تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں بار بار حمل سے بچنے کے لیے یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وقفوں کے مستقل کام کرسکیں اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔

    ان خواتین کا سروے کرنے والی ممبئی کی ایک تنظیم کے رکن نیرجا بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل بیان قسم کا تشدد ہے۔ ’یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ آپ کسی کو اس کے جسم کے کسی حصہ سے اس لیے محروم کردیں، تاکہ وہ ایسی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے جو اسے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی‘۔

    خواتین مجبور کیوں ہیں؟

    بھارت دنیا کا دوسرا بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کاروبار کے لیے بھارت کے طول و عرض پر بے شمار گنے کے کھیت ہیں جن میں کام کرنے کے لیے اس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی اس مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔

    گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے عموماً میاں بیوی کو رکھا جاتا ہے۔ ان جوڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاہم معاوضے میں ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔

    چونکہ ان کھیتوں میں کام کرنے کے لیے صرف جوڑوں کو ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا کاشت کاری سے وابستہ خاندان اپنی لڑکیوں کی شادی اس عمر سے پہلے ہی کردیتے ہیں جو حکومت نے قانونی طور پر طے کر رکھی ہے یعنی 18 سال۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں دنیا کی ترقی کے لیے خطرہ

    کھیتوں میں فصل کی کٹائی نومبر سے مئی تک جاری رہتی ہے۔ اس دوران خواتین و بچے قابل استعمال اور ناقابل استعمال گنے کو علیحدہ کرتے ہیں اور یہ عمل صبح 4 بجے شروع ہوجاتا ہے جو بغیر کسی وقفے کے دوپہر ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔

    اس کے بعد یہ ان گٹھوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھو کر بیل گاڑیوں میں رکھتے ہیں جو انہیں کھینچ کر فیکٹری میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں چینی میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔

    یہ مدت کاشت کاروں کے سال بھر کے روزگار کی مدت ہوتی ہے چنانچہ یہ دوسرے گاؤں دیہاتوں سے بھی عارضی ہجرت کر کے کھیتوں میں آبستے ہیں۔ اس دوران نہ تو انہیں جسم کی صفائی یا دیگر ضروریات کے لیے پانی میسر ہوتا ہے، نہ بجلی اور نہ ہی باقاعدہ بیت الخلا قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

    معاوضے کے لیے انہیں درمیان میں موجود ایک شخص سے واسطہ پڑتا ہے۔ 5 سے 6 ماہ کی اس مشقت کے ان سے 50 یا 60 ہزار روپے طے کیے جاتے ہیں، تاہم دینے کے وقت ان کی کچھ رقم روک لی جاتی ہے تاکہ اگلے سال یہ دوبارہ لوٹ کر آئیں۔

    خواتین دہری اذیت میں

    یہ ایک عام صورتحال ہے، تاہم خواتین اس سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جن میں سرفہرست ان سے زیادتی، ہراساں کرنے اور نگرانوں کی جانب سے تشدد کے واقعات شامل ہیں۔

    کام کے دوران اگر کوئی کم عمر لڑکی، زبردستی کے تعلق یا کچھ عرصہ قبل ہوئی شادی کے نتیجے میں حاملہ ہوجائے تو سخت محنت اور جسمانی مشقت کے باعث حمل ضائع ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے

    بار بار کی جنسی زیادتی کے باعث حمل سے بچنے کے لیے نہ صرف انہیں ہسٹرریکٹمی کا مشورہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے مردوں کو بھی نس بندی کروانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔

    سماجی رکن بھٹنا گر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کی جو ان کاشت کار خواتین کی ہسٹرریکٹمی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کم از کم 35 ہزار روپے فیس طلب کرتے ہیں اور یہ ان غریب اور بدحال خاندانوں کو مزید قرض میں دھنسا دیتا ہے۔

    india-5

    وہ کہتے ہیں، ’اس عمل کے لیے عورتوں کو خاندان والوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے تاہم آپ خاندان کو الزام نہیں دے سکتے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں ان کی عورتوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ کسی صورت ان کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ لیکن انہیں زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں‘۔

    دوسری جانب خواتین لاعلم ہیں کہ اس سرجری کے بعد بغیر آرام کیے سخت محنت کرنے کا ان کے جسم پر کیا نقصان ہوگا، نہ ہی وہ یہ جانتی ہیں کہ کم عمری میں ہی یہ عمل ان کے جسم پر آگے چل کر کیا خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہر 3 میں سے ایک عورت تشدد کا شکار

    سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ جدید دور کی غلامی کی بدترین مثال ہے اور خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔

    زمینداروں اور فیکٹری مالکان کی ہٹ دھرمی

    گنا فیکٹریوں کے مالکان اور کارکنان نے اس بات سے انکار کیا کہ کھیتوں میں ایسی کوئی صورتحال موجود ہے۔

    مہاراشٹر کو آپریٹو شوگر فیکٹریز فیڈریشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، نہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ سنا۔ ’اگر یہ خواتین ایسی شکایت کرتی ہیں، یا وہ اپنے معاوضوں سے خوش نہیں، تو وہ وہاں کام کرنے آتی ہی کیوں ہیں‘۔

    ممبئی میں خواتین کے لیے سرگرم عمل ایک غیر ملکی تنظیم کی رکن افلیویا اگنز کا کہنا ہے کہ گو کہ جبری مشقت اور بدسلوکی کے خلاف بھارت میں قوانین موجود ہیں لیکن یہ تمام کاشت کار نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اپنی اونچی ذات کے مالکوں سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارکنان متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو انہیں کچھ تحفظ مل سکے، لیکن کھیتوں کے مالکان ایسے واقعات کو ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کئی شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں یا ان ملوں کے مالکان ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ واپس اسی کام پر جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور بدترین سلوک کیا جاتا ہے‘۔

  • آذربائیجانی خاتون نے ریشم کے شفاف اوراق پرقرآن شریف تحریرکردیا

    آذربائیجانی خاتون نے ریشم کے شفاف اوراق پرقرآن شریف تحریرکردیا

    باکو: آذربائیجانی نژاد مصورہ نے ریشم کے شفاف اوراق پرسونے اورچاندی سے قرآن شریف تحریرکردیا۔

    آذربائیجانی نژاد 33سالہ مصور نے قرآن شریف کو ریشم کے شفاف اوراق پرنقل کیا ہے، میمد ذادی جنہوں نے ترکی کی مارمرہ یونیورسٹی سے فنِ تاریخ کی تعلیم حاصل کی، انھوں نے اس کی تیاری میں 50 میٹر شفاف کالا ریشم اور 1500 ملی لیٹر سنہری اورچاندی کی سیاہی استعمال کیا۔

    quran-2

    یہ قرآن مجید تنزیلے میمد زادے نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ، قرآن مجید کو باریک اور نفیس ریشم پر لکھا گیا، جس کی لمبائی 11.4 انچ اور چوڑائی 13 انچ ہے۔

    میمد ذادی کو پورا قرآن شریف تحریر کرنے میں 3 سال کا عرصہ لگا۔

    quran3

    اس کا کہنا ہے کہ اس نے قرآن شریف کی یہ نقل دیانت کی تصدیق کردہ کاپی سے حاصل کی، جو کہ ترکی کے وزارت مذہبی امورسے منسلک ہے، یہ ریشم کے اوراق پربنایا گیا ہے، جس کی پیمائش 29 ×33 سیٹی میٹر ہے۔

    میمد ذادی نے بتایا کہ تحقیق کرنے پرمعلوم ہوا کہ اس سے قبل قرآن شریف کو کئی مختلف طرح کی چیزوں پر نقل کیا گیا لیکن کبھی ریشم پرنقل نہیں ہوا اور یہی بات میرے لئے اس منصوبے پرکام کرنے کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔

    quran-4

    میمد ذادی نے خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ وہ اس شاہکار کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اسے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ پہلی خاتون ہے جس نے ایسے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔

     

  • خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی: مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی: مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    لاہور: خواتین پر تشدد اور صنفی امتیاز کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے مینار پاکستان نارنجی رنگ سے نہلا دیا گیا۔ یہ رنگ خواتین کے حقوق کی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے آگاہی دینے کی سولہ روزہ مہم ’اورنج دا ورلڈ‘ جاری ہے۔ یہ رنگ خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کو ظاہر کرنے کے لیے علامتی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

    اس مہم کا آغاز گزشتہ ماہ 25 نومبر کو (خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن) سے ہوگیا۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں مختلف افراد اور اداروں نے یہ رنگ پہن کر اور مختلف عمارتوں کو اس رنگ میں رنگ کر خواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

    لاہور میں بھی اس سلسلے میں ایک آگاہی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس کے اختتام پر مینار پاکستان کو نارنجی روشنیوں سے روشن کردیا گیا۔

    minar-4

    minar-3

    minar-2

    اس موقع پر پنجاب کی وزیر برائے بہبود خواتین حمیدہ وحید الدین نے بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ صوبائی محکمہ برائے بہبود خواتین نے ’ہر ٹاک 2016‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز بھی کیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں قومی ترقی اور خوشحالی کے لیے خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ 

    صوبائی وزیر کے مطابق اس مہم میں اقوام متحدہ کا اداہ برائے خواتین یو این وومین بھی ان کے ہم قدم ہے۔

    واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی رواں برس خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے بل بھی منظور کر چکی ہے جس میں خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کے لیے سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔

    رواں سال اکتوبر میں قومی اسمبلی میں بھی غیرت کے نام پر خواتین کے قتل اور انسداد عصمت دری کے خلاف بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت ان جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں طے کرلی گئی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

  • ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب

    ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب

    واشنگٹن: ایک ناخوشگوار ازدواجی زندگی دونوں فریقین کو کئی طبی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے، لیکن ماہرین نے منتبہ کیا ہے کہ اس کا زیادہ اثر خواتین پر پڑتا ہے اور وہ مردوں کی نسبت زیادہ طبی خطرات کا شکار ہوتی ہیں۔

    حال ہی میں امریکی ماہرین نفسیات کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چونکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتی ہیں اور وہ معمولی باتوں کو شدت سے محسوس کرتی ہیں لہٰذا ازدواجی زندگی میں آنے والی پریشانیاں اور ذہنی دباؤ ان کو طبی و نفسیاتی خطرات کا آسان شکار بنا دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم جوڑوں کی کچھ عادات

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے 226 ایسے جوڑوں کا جائزہ لیا جو اوسطاً 20 برس سے ازدواجی رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن جوڑوں میں ناراضگی، غصہ، لڑائی جھگڑے، اور نوک جھونک کا تناسب زیادہ تھا ان جوڑوں میں بیویاں خوف یا افسردگی کا شکار تھیں جو آگے چل کر ان میں امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا سبب بن سکتا تھا۔

    ماہرین نے بڑی عمر کی ایسی خواتین کو دل کے امراض، فالج، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی پایا جو ایک طویل عرصہ سے ناخوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی تھیں۔

    اس کے برعکس وہ جوڑے جو ایک دوسرے کی رفاقت میں مطمئن اور خوش تھے ان میں بیماریاں کم تھیں جبکہ ان میں قبل از وقت موت کا خطرہ بھی کم دیکھا گیا۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم شادی شدہ جوڑوں میں دل کے امراض کم

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تناؤ بھری زندگی کا منفی اثر دونوں فریقین پر پڑتا ہے لیکن مرد باہر کی مصروفیات اور چیزوں کو نظر انداز کردینے کی عادت کے سبب کم خطرات کا شکار ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے متنبہ کیا کہ طویل عرصہ تک لڑائی جھگڑوں والی اور غیر مطمئن زندگی گزارنا تمام افراد کو مختلف اقسام کی طبی و نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔

  • امریکہ : مقابلہ حسن، حجاب پہن کر شرکت کرنے والی پہلی خاتون

    امریکہ : مقابلہ حسن، حجاب پہن کر شرکت کرنے والی پہلی خاتون

    مینی سوٹا : کون کہتا ہے کہ باحجاب لڑکی ملکہ حسن نہیں بن سکتی، مقابلہ حسن میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والی حلیمہ ایڈن نے پہلی بار حجاب پہن کر حصہ لیا۔

    us5

    امریکی ریاست مینی سوٹا میں ہونے والے مقابلہ حسن میں نازک حسیناؤں کے سامنے باحجاب حسینہ آگئی، صومالیہ سے تعلق رکھنے والی انیس سالہ حلیمہ ایڈن نے پہلی باحجاب خاتون کے طور پر مقابلہ حسن میں شرکت کی۔

    مقابلہ حسن میں جہاں شریک دیگر خواتین نے تیراکی کا مخصوص لباس پہن کر حصہ لیا وہیں حلیمہ ایڈن علیحدہ اور مکمل طور پر جسم ڈھکا ہوا لباس پہن کر جلوہ گر ہوئی۔

    us-1

    دلکش حسینہ جب حجاب میں اسٹیج پر آئی تو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔

    صومالیہ سے تعلق رکھنے والی انیس سالہ حلیمہ نے سب کو حیران کردیا، حلیمہ نے ثابت کردیا کہ مسلم لڑکیاں بھی اپنے انداز سے ملکہ حسن بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

    usa-5

    us2

    حلیمہ کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے کیونکہ کوئی بھی لڑکی حجاب میں باوقار اور پر کشش نظر آتی ہے۔

  • خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    ریاض: سعودی شہزادے ولید بن طلال نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

    ولید بن طلال نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’اس بحث کو ختم ہوجانا چاہیئے۔ اب وقت ہے کہ خواتین ڈرائیونگ کریں‘۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں سنہ 1990 سے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے۔ یہ پابندی قانون کا حصہ نہیں تاہم معاشرتی اور تہذیبی طور پر سعودی عرب میں اس عمل کی اجازت نہیں ہے۔

    لیکن اب اس پابندی کے خلاف صرف سعودی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی آواز اٹھانا شروع کردی ہے۔ سعودی عرب میں اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور متعدد مرد و خواتین مظاہرین کو پولیس کی جانب سے جرمانوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    saudi-1

    خواتین کی ڈرائیونگ کے حامی ان ہی میں سے ایک شہزادہ ولید بن طلال بھی ہیں جنہیں شاہی خاندان کا ایک بے باک رکن سمجھا جاتا ہے۔ ان کے پاس کوئی سیاسی عہدہ تو نہیں تاہم وہ شاہی خاندان کے کاروباری معاملات دیکھتے ہیں۔

    وہ سعودی عرب میں سماجی خدمات میں بھی مصروف ہیں اور وہ ریاست میں خواتین کے حقوق اور خود مختاری کے حامی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سعودی بلدیاتی انتخابات: خواتین امیدواروں کی پہلی بار شرکت

    ان کے ٹوئٹ کے بعد ان کے دفتر سے باقاعدہ طور پر ان کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے جیسے ان کے بنیادی حق سے انہیں محروم کردیا جائے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا جائے یا ان کی انفرادی شخصیت ان سے چھیننے کی کوشش کی جائے۔

    شہزادے کا کہنا ہے، ’یہ ایک روایتی معاشرے کے غیر منصفانہ قوانین ہیں، اور یہ مذہب کے طے کردہ قوانین سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ مذہب میں ایسی کوئی پابندی نہیں ملتی‘۔

    talal

    بیان میں اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ خواتین ڈرائیونگ پر پابندی کی وجہ سے پرائیوٹ ڈرائیور کو رکھنے یا ٹیکسی بلانے پر مجبور ہیں جو انفرادی طور پر کسی گھر کی معیشت پر ایک بوجھ ہے۔

    علاوہ ازیں اگر گھر کے مرد بھی خواتین کو کہیں لانے لے جانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو اس کے لیے انہیں دفاتر سے چھٹی لینی پڑتی ہے جس سے ملازمین کے کام کرنے کی صلاحیت اور مجموعی پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: موسیقی کے لیے سعودی عرب چھوڑ کر پاکستان آنے والی گلوکارہ

    ولید بن طلال کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا معاشرتی ضرورت ہے اور اس سے کہیں زیادہ یہ موجودہ معاشی حالات کا تقاضا ہے۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب میں تیل سے حاصل ہونے والے عالمی زرمبادلہ میں 51 فیصد کمی آئی ہے اور یہ پچھلے دو سال کے مقابلے میں نصف ہوگیا ہے۔ اس کے باعث سعودی حکومت نے کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دیا ہے، اور پانی اور بجلی سمیت کئی سہولیات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔

  • ممبئی: درگاہ حاجی علی میں خواتین کے داخلے پر پابندی ختم

    ممبئی: درگاہ حاجی علی میں خواتین کے داخلے پر پابندی ختم

    ممبئی : بھارت کی مشہور درگاہ حاجی علی میں خواتین کے داخلے پر پابندی چارسال بعد ختم کردی گئی، حاجی علی درگاہ کے ٹرسٹ نے خواتین پر اس درگاہ کے اندرونی مزار میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق ممبئی میں خواتین کا ایک گروپ حاجی علی درگاہ کے اندرونی مزار میں چار سال بعد داخل ہو گیا، خواتین پر داخلے سے متعلق پابندی کیس میں ممبئی ہائی کورٹ نے اگست میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ‘یہ فیصلہ آئین کی خلاف ورزی’ اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک تھا۔

    darga-post-01

    حاجی علی درگارہ ٹرسٹ نے پہلے ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم گذشتہ ماہ اس پابندی کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

    بھارت میں حالیہ مہینوں کے دوران خواتین کو مذہبی مزارات پر جانے کی اجازت دینے کے لیے متعدد مہمات شروع کی گئی ہیں۔

    darga-post-02

    واضح رہے کہ سنہ 2011 میں عورتوں کو مزار کے اندر جانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں ٹرسٹ نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ٹرسٹ کا مؤقف تھا کہ خواتین کو صوفی مردوں کے مزاروں کو چھونے کی اجازت دینا ‘گناہ’ ہے۔

    darga-post-04

    اس حوالے سے مسلمان خواتین کے لیے سرگرم ایک تنظیم مسلم مہیلا آندولن (بی ایم ایم اے) نے بی بی سی کو بتایا کہ 100خواتین پر مشتمل ایک گروپ منگل کو معروف درگاہ حاجی علی میں داخل ہو گیا۔

    darga-post-03

    بی ایم ایم اے نے 15 ویں صدی میں قائم ہونے والی اس درگاہ پر خواتین کے داخلے پر پابندی کو چیلنج کر رکھا تھا۔

  • لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور جینز ٹی شرٹ پر پابندی عائد

    لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور جینز ٹی شرٹ پر پابندی عائد

    آگرہ: بھارتی ریاست فتح گڑھی کے گاؤں خیر تحصیل میں پنجائیت نے فیصلہ کرتے ہوئے لڑکیوں کے موبائل فون کے استعمال، جینز اور ٹی شرٹ پہننے اور پر مکمل پابندی عائد کردی جبکہ گاؤں میں شراب نوشی اور جوئے کے اڈے بھی بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نیک کرم چوہدری کی سربراہی میں بھارتی ریاست آگرہ کے گاؤں میں 28 رکنی مہا پنچائیت کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں لڑکیوں کو موبائل فون کے استعمال جینز ٹی شرٹ پہننے پر پابندی جبکہ گاؤں میں جوئے اور شراب نوشی پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

    پنجائیت کے سربراہ نیک کرم چوہدری نے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’لڑکیوں کے موبائل فون کا استعمال جینز اور  ٹی شرٹ پہننا ہندوستانی روایات کے خلاف ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔


    پڑھیں: ’’ لڑکیوں کا عالمی دن، پاکستان کا نام روشن کرنے والی طالبات ‘‘


     انہوں نے کہا کہ ’’پنجائیت کا فیصلہ نہ ماننے والے افراد اور اُن کے والدین کو سزا دی جائے گی تاہم سزا یا جرمانہ عائد کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا‘‘۔ چوہدری نیک کرم نے کہا کہ اگر گاؤں میں کوئی شخص جوا کھیلتے ہوئے پکڑا گیا تو اُس پر 3100 روپے جرمانہ جبکہ شراب نوشی والے کو 5000 روپے بطور ادا کرنے ہوں گے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جرمانے سے حاصل ہونے والی رقم گاؤں کے فلاحی کاموں پر لگائی جائے گی تاہم خلاف ورزی کرنے والے کو پنچائیت کی جانب سے اعلان کردہ سزا کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

    بھارتی حکام کے مطابق گاؤں میں 2000 سے زائد خاندان آباد ہیں جو پنچائیت کا فیصلہ ماننے پر مجبور ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال علی گڑھ میں واقع باسولی گاؤں میں بھی پنچائیت نے لڑکیوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی ہے۔

  • قطرمیں پاکستانی کمیونٹی کے لیے سرگرم راحت منظور

    قطرمیں پاکستانی کمیونٹی کے لیے سرگرم راحت منظور

    دوحہ: پاکستانی خواتین دنیا بھر میں اپنی محنت سےکامیابی کےجھنڈےگاڑ رہی ہیں‘ دوحہ میں مقیم راحت منصور بھی ایسی ہی خاتون ہی جوسماجی وثقافتی سرگرمیوں سےاپنے ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔

    سولہ سال سے دوحہ میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ راحت منصورقطرمیں ہونے والی سماجی وثقافتی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتی ہیں۔

    انہوں نے اپنی سماجی اور سیاسی خدمات کی بنا پر کئی بین الاقوامی ایوارڈحاصل کیے ہیں۔ راحت کا تعلق کراچی سےہے اوروہ اپنے ذاتی کاروبارکےساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی کیلئے خدمات بھی سرانجام دےرہی ہیں۔

    راحت منصور پاکستان وومن ایسوسی ایشن قطر کی بانی صدرہیں،انہیں پاکستانی سفارتخانے، قطرداخلیہ، قطرچیریٹی جیسےاداروں نے کمیونٹی خدمات پراعزازات سےنوازا۔

    راحت منصور کاکہناہے کہ بیرون ملک مقیم خواتین کوملک کاامیج بہتربنانےکیلئےآگےآناچاہیئے‘ انہوں نےقطر میں ثقافتی میلے،کنسرٹس،کوکنگ اورفیشن سےمتعلق کئی پروگرامات کااہتمام کیا ہے۔