Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • ٹرمپ کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ سے متعلق وہ باتیں ، جو آپ نہیں جانتے

    ٹرمپ کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ سے متعلق وہ باتیں ، جو آپ نہیں جانتے

    نیویارک: ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوئے تو ان کی 46 سالہ سلوینیائی نژاد اہلیہ میلانیا کو خاتون اول کا درجہ مل گیا لیکن کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ دراصل کون ہیں، کہاں سے آئیں اور ٹرمپ سے کیسے شادی ہوئی۔

    میلانیا ٹرمپ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں جو یقیناََ آپ نہیں جانتے ہوں گے۔

    میلانیا ڈونلڈ ٹرمپ کی تیسری بیوی ہے

    میلانیا اور ٹرمپ کی پہلی ملاقات نیویارک فیشن ویک میں 1998 میں ہوئی ، ان دونوں کی شادی 2005 میں ہوئی ،ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ، جسکا نام بیرون ہے۔

    m1

    ٹرمپ اور میلانیا کے درمیان محبت کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ڈدونلڈ اپنی پہلی بیوی ایوانا کے ساتھ رہ رہے تھے اور ان دونوں کی شادی 1977ءمیں ہوئی ، جن سے انکے تین بچے ہیں۔

    ایوانا اور ڈونلڈ ٹرمپ 1980ءمیں نیویارک کے نامی گرامی رئیس تھے لیکن 1992ءمیں ان کی طلاق ہوگئی تھی،

    بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن ملانیا کی شادی میں شریک تھے

    ڈونلڈ ٹرمپ اور میلینیا کی شادی پام بیچ فلوریڈا میں ہوئی ،اس وقت تین سو مہمانوں میں بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن بھی موجود تھی، میلانیا نے جو شادی کا جوڑا پہنا اس کی قیمت 100,000 ڈالر تھی اور اس پر 1500 کرسٹلز جڑے تھے اور اس جوڑے کی تیاری پر 550 گھنٹے لگے تھے۔

    m2

    میلانیا ٹرمپ 5 مختلف زبانیں بول سکتی ہے

    میلینیا ٹرمپ کو سلووینین، انگلش، فرانسیسی اور جرمن زبانیں بولنے پر عبور حاصل ہے۔

    ٹرمپ کی صدر بننے کے بعد میلانیا ٹرمپ خاتون اوّل بن گئی، اس طرح وہ کمیونسٹ معاشرے میں پیدا ہونے والی امریکہ کی پہلی خاتونِ اول جبکہ امریکہ سے باہر پیدا ہونے والی دوسری خاتون اول ہیں۔

    m3

    اس سے قبل لوئس ایڈم امریکہ سے باہر پیدا ہونے والی پہلی امریکی خاتون اوّل ہے، جو امریکہ کے چھٹے صدر جان کوئنس کی اہلیہ تھی۔

    میلانیا ٹرمپ کا سوتیلا بھائی بھی ہے

    میلانیا کی زندگی کے حقائق تلاش کرتے ہوئے رپورٹر جولیا لوف نے نکشاف کیا کہ میلانیا کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے، میلانیا کے والد وکٹر کناوس، جنہیں وہ روائتی اور محنتی بتاتی ہیں، میلانیا کی والدہ سے شادی سے پہلے انکا ایک بیٹا بھی ہے۔

    t6

    سب سے کم مقبولیت رکھنے والی خاتون اول

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق میلانیا ٹرمپ ہیلری کلنٹن کے بعد سب سے کم مقبولیت رکھنے والی خاتون اول ہیں، میلانیا ٹرمپ اور بل کلنٹن کے حوالے سے ایک سروے کیا گیا ، جس میں بل کلنٹن کو سب سے زیادہ شہرت رکھنے والا قرار دیا گیا جبکہ سروے میں شامل نفص سے زائد لوگوں نے ان کے بارے میں مثبت رائے دی۔

    t7

    سروے میں کہا گیا کہ صدارتی انتخاب کے تمام امیدواروں کی اہلیہ میں سب سے میلانیا ٹرمپ سب سے کم مقبولیت رکھنےن والی خاتون اول ہے۔

    مہاجرین سے متعلق بیانات پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت

    کسی بھی صدارتی امیدوار کی اہلیہ کی اپنے شوہر کی پالیسیوں کی حمایت کرنا حیرت کی بات نہیں لیکن میلانیا کے ایک غیر ملکی ہوتے ہوئے امریکہ میں مقیم غیر ملکیوں سے متعلق ٹرمپ کے خیالات کی حمایت پر بہت حیران کن تھا ۔

    t5

    ایک انٹرویو میں میلانیا کا کہنا تھا کہ میں نے غیر قانونی طریقے سے کبھی بھی امریکہ میں رہنے کا نہیں سوچا۔

    مشیل اوباما اور میلانیا ٹرمپ کی ملاقات میں کیا بات ہوئی

    انتخابات میں کامیابی کے بعد وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے براک اوباما سے ملاقات کی اور صدارتی اقتدار کی پر امن منتقلی پر بات چیت ہوئی۔ وہی مشیل اوباما نے میلاینا کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کرایا اور دونوں خواتین کے درمیان وائٹ ہاوس مین بچوں کی نگہداشت سے متعلق پروگرام پر غور کیا گیا۔

    t8

  • پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان ماہرین نے اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔ پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    تاہم رواں سال اکتوبر میں قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے خلاف بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت ان جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں طے کرلی گئی ہیں۔

    تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت ایک 16 روزہ مہم کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ اس مہم کے تناظر میں چند روز قبل پاکستانی مشہور شخصیات نے بھی ایک متاثر کن ویڈیو جاری کی۔

  • پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پیرس: صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے سرگرم عمل تنظیم اویئر گرلز کو فرانس میں شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ یہ انعام ان اداروں یا افراد کو دیا جاتا ہے جو تنازعات کا شکار علاقوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    فرانس کے سابق صدر جیکس شیراک کے نام سے منسوب یہ پرائز رواں برس پاکستانی تنظیم اویئر گرلز اور ایک موسیقار طائفے پونٹینیما کوئر کو دیا گیا۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں پر مشتمل یہ طائفہ بوسنیا ہرزگوینیا میں تمام طبقوں کی روایتی موسیقی کو پیش کرتا ہے۔

    دوسری جانب اویئر گرلز خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے مصروف عمل ہے۔ اس کی منفرد بات اس تنظیم کا صرف لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہونا ہے اور اس میں کوئی مرد شامل نہیں۔ فیصلہ سازی سے لے کر نچلی سطح کے کارکنان تک، اویئر گرلز کے صوبے میں موجود نیٹ ورک میں صرف لڑکیاں اور خواتین ہیں۔

    یہ تنظیم گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی صحت و تعلیم پر کام کر رہی ہے اور معاشی خود مختاری کے عمل میں ان کی مدد کر رہی ہے۔

    تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسس اولاندے نے بھی شرکت کی اور قیام امن کے لیے دونوں اداروں کی خدمات کو سراہا۔

    اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں اپنے اس سفر کا احوال بتایا۔

    سنہ 2002 میں جب اس ادارے نے عالمی یوم خواتین کے دن سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو اس وقت گلالئی کی عمر صرف 16 سال تھی۔

    گلالئی کو اس سے قبل بھی کئی اعزازات مل چکے ہیں جن میں ڈیموکریسی ایوارڈ 2013 بھی شامل ہے۔ انہیں 30 سال سے کم عمر 30 رہنما نوجوانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جبکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے انہیں ’تبدیلی کا استعارہ‘ قرار دیا۔

    اپنے سفر کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے گلالئی نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی قدامت پسند معاشرتی روایات نے، جس میں عورت کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، انہیں ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف متوجہ کیا جو خواتین کے لیے کام کر سکے۔ ’یہاں پر سب کچھ مردوں کے مزاج کے حساب سے ہوتا ہے۔ گھر کے مرد چاہیں گے تو اس گھر کی خواتین پڑھ سکیں گی اور کوئی کام کرسکیں گی۔ لیکن اگر مرد نہیں چاہیں گے تو عورتوں کو ان کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا‘۔

    گلالئی کا کہنا ہے کہ یہاں کے معاشرے میں، اور اس جیسے دنیا کے دیگر کئی معاشروں میں تعلیم بنیادی حق نہیں، ایک سہولت ہے جو صرف قسمت سے مل سکتی ہے۔

    وہ بتاتی ہیں کہ اس ادارے کے لیے ان کے عزم کو پختہ ان کی کزن کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے کیا۔ ان کی ایک کزن جو ان کے ساتھ اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسے پائلٹ بننے کا بہت شوق تھا۔ ’اس کے عزائم بہت بلند تھے اور وہ آسمان کو چھونا چاہتی تھی لیکن میٹرک میں جانے سے قبل ہی اس کی شادی کردی گئی‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جس شخص سے اس کی شادی کی گئی، وہ نہ صرف عمر میں اس سے دگنا تھا بلکہ شادی کے بعد وہ ایک تشدد پسند شخص ثابت ہوا جس نے بیوی کو حقیقی معنوں میں پاؤں کی جوتی سمجھا۔

    گلالئی کے مطابق اس واقعہ نے انہیں بہت دکھ پہنچایا اور انہوں نے سنجیدگی سے پختونخواہ کی لڑکیوں کے لیے ایسا ادارہ قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا جو انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوا سکے۔

    خواتین پر زیادتیاں ایک معمول کی بات

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کے بنیادی حقوق ان سے چھن جانے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ خواتین ان زیادتیوں کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر چکی ہیں۔ بقول گلالئی، وہ ان تمام زیادتیوں کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اسے بدلنے کی خواہش تک نہیں رکھتیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’میری کزن کی شادی کردی گئی جس کے باعث وہ اپنی تعلیم بھی نہ مکمل کر سکی۔ جبکہ اس کے بھائی تاحال زیر تعلیم ہیں اور وہ جو پڑھنا چاہتے ہیں انہیں پڑھنے دیا جارہا ہے۔ یہ ہماری طرف ایک عام بات ہے‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے لڑکیوں کو اس بات کا شعور دلانا شروع کیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو زیادتی سمجھیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

    غیر ملکی ایجنٹ

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو حسب روایت ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں پھیلائی گئیں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، اور بیرونی عناصر کی معاونت سے پاکستانی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ’لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو ہماری نیک نیتی کا یقین ہوگیا ہے۔ اب لوگ ہمارے بارے میں خود کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کی اقدار و ثقافت کے اندر رہتے ہوئے ہم نے کام کیا اور کبھی اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کیا‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کی مقبولیت کا ایک سبب اس کے ارکان کا صرف لڑکیوں پر مشتمل ہونا بھی تھا۔ ’بے شمار لڑکیوں نے اسی لیے ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کی کہ انہیں اپنے گھروں سے کام کرنے کی مشروط اجازت تھی کہ وہ مردوں سے میل جول نہیں رکھیں گی۔ اسی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پارہی تھیں۔ اویئر گرلز کے پلیٹ فارم سے انہیں موقع مل سکا کہ وہ کام کرسکیں‘۔

    گلالئی کے مطابق خیبر پختونخواہ کی روایات تو اب بھی برقرار ہیں تاہم خیالات میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ کئی والدین نے گلالئی سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو اس ادارے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کار آمد حصہ بن سکیں۔

    یہی نہیں، گلالئی اور ان کی ٹیم جب مخلوط ( کو ایجوکیشن) اسکولوں میں ٹریننگ دینے کے لیے جاتی ہے تو اسکول کی انتظامیہ اصرار کرتی ہے کہ صرف لڑکیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی آگاہی دی جائے، تاکہ یہ آگے چل کر اپنے گھر کی خواتین کو خود مختار بنائیں۔

    گلالئی اور ان کی ٹیم کے کام کا دائرہ کار مختلف اسکولوں اور کمیونٹیز میں پھیلا ہوا ہے جہاں یہ کچھ لڑکیوں یا خواتین کو منتخب کر کے ٹریننگ دیتی ہیں۔ وہ لڑکی یا عورت بعد ازاں مزید 10 لڑکیوں کو سکھانے کی پابند ہوتی ہے۔

    خود مختاری کا مطلب بے راہ روی نہیں

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر جائیں۔ ایسی خواتین جو غربت کا شکار ہیں، معاشی طور پر خود مختار ہو کر اپنے خاندان کا کارآمد حصہ بن سکتی ہیں۔ ’ہمارے ادارے نے خواتین کو معاشی امداد دینے کے بجائے انہیں خود مختار بنایا۔ انہیں سکھایا کہ کس طرح مختلف کام کر کے وہ معاشی خود مختاری حاصل کرسکتی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کو نہ صرف خود مختار بلکہ با اعتماد بھی بنایا گیا جس کے بعد اپنے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ضلعی حکومت سے خود رابطہ کیا اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھے۔

    گلالئی کا ماننا ہے کہ خواتین اور نوجوان، معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا ادارہ بھی انہی دو طبقوں کو رہنمائی اور حتیٰ الامکان مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

  • ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حقوق نسواں بل میں ’بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد‘ کی شق شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد پاکستانی خواتین نے اس سفارش کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور مردوں کو ’دعوت‘ دینی شروع کردی کہ وہ ان پر ہلکا پھلکا تشدد کریں۔

    پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل منظور ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اپنی سفارشات پیش کی تھیں جس میں شامل شوہروں کی جانب سے بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دینے کی شق سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی۔

    اس شق پر نہ صرف خواتین بلکہ عقل رکھنے والے مرد بھی چیخ اٹھے جن کا اصل مقصد کونسل کو یہ باور کروانا تھا کہ بیوی انسان ہے، کوئی ملکیت میں رکھا جانور نہیں جسے سدھارنے کے لیے اس قسم کی تجاویز پیش کی جائیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    اس شق کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا جس میں لاکھوں لوگوں نے اس شق کی مخالفت میں آواز اٹھائی جبکہ کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے اس کی حمایت کی۔

    حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین پاکستان نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ملک کی مشہور خواتین مردوں کو ’بیٹ کرنے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔

    بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ خواتین مردوں کو خود پر ہاتھ اٹھانے کا چیلنج دے رہی ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ چیلنج دراصل اس کام کو کر دکھانے کا ہے جو ان خواتین نے سرانجام دیا۔

    ویڈیو میں ایتھلیٹ نسیم حمید مردوں کو ’پیروں سے ہرانے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔ نسیم حمید کو سنہ 2010 میں ڈھاکہ میں ہونے والی 100 میٹر کی ریس جیتنے پر ایشیا کی تیز ترین خاتون ہونے کا اعزاز ملا تھا۔

    معروف گلوکارہ میشا شفیع مردوں کو اپنی آواز سے جبکہ معروف صحافی اور براڈ کاسٹر ثنا بچہ اپنے الفاظ سے شکست دینے کا چیلنج دے کر اس پہلو کی طرف توجہ دلوا رہی ہیں تشدد صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی ہوتا ہے۔

    ثمینہ خیال بیگ کی دعوت ہے کہ مرد انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر مات دے کر دکھائیں۔ ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین مسلمان خاتون ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکی ہیں۔

    یہی نہیں وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

    ویڈیو میں ثروت گیلانی، مومنہ مستحسن اور آمنہ شیخ بھی شامل ہیں جو مردوں کو للکار رہی ہیں کہ اگر تم وہ کرسکتے ہو جو ہم نے کیا تو کر کے دکھاؤ۔

    یہ ویڈیو دراصل اقوام متحدہ کی اس 16 روزہ مہم کے تناظر میں جاری کی گئی ہے جو دنیا بھر میں خواتین پر جنسی و جسمانی تشدد کے خاتمے اور اس کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔

    اقوام متحدہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے ذریعہ نہ صرف خواتین پر مردوں کی جانب سے ذہنی و جسمانی تشدد کے خلاف آگاہی دی گئی بلکہ ان خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں حیرت انگیز کمالات دکھائے اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ پاکستان کی جاری کی گئی ویڈیو میں ایک حاملہ خاتون کو بھی دکھایا گیا ہے جو مردوں کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ایک زندگی کو اس دنیا میں لانا سب سے زیادہ طاقت اور جرات کا کام ہے جس کا کوئی مرد تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    ویڈیو میں شامل تمام خواتین کی دعوت ہے کہ، ’اگر ہمت ہے تو آگے بڑھو، کیونکہ میں تمہیں بتانے کی منتظر ہوں کہ میں ناقابل شکست ہوں‘۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کا رجحان ایک ’وبائی‘ صورت اختیار کر رہا ہے اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    نیویارک: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے خواتین پر تشدد کے خلاف اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔

    یو این وومین کی جانب سے منعقد کی گئی اس تقریب کا مقصد دراصل خواتین پر تشدد کے خلاف پچھلے 20 سال سے جاری اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ تقریب کا شریک میزبان ادارہ یو این ٹرسٹ فنڈ تھا جس نے شرکا پر زور دیا کہ وہ خواتین پر تشدد کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مالی تعاون کریں۔

    تقریب میں فلم ’دا آورز‘ میں بہترین اداکاری پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی اداکارہ نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔ نکول اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں جو دنیا بھر میں صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    دائیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی اہلیہ، بائیں ۔ یو این وومین کی سربراہ

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 10 سال قبل اقوام متحدہ کی جانب سے سفیر مقرر ہونے کے بعد انہوں نے پہلا دورہ کوسوو کا کیا تھا۔ ’وہاں میں ایسی لڑکیوں اور خواتین سے ملی جنہوں نے بدترین تشدد کا سامنا کیا تھا لیکن وہ سروائیو کرنے میں کامیاب رہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئیں تاہم اقوام متحدہ نے ان ذہنی صحت اور سماجی رتبے کی کی بحالی کے لیے بہت کام کیا۔

    نکول کڈمین نے ان خواتین سے ملاقات کو اپنی زندگی بدلنے والا تجربہ قرار دیا۔ ’میں سمجھتی ہوں کے اقوام متحدہ کی سفیر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لڑکیوں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے خلاف اقدامات میں حصہ لوں‘۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    واضح رہے کہ عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

  • خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

    خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

    حجاب مسلم خاتون کی شان ‘ عزت و آبرو کی علامت ہے اور دنیا بھر بالخصوص امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصب کی بنا پر خواتین کے حجاب کھینچے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

    امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد مسلم خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کے سر سے زبردستی حجاب کھینچ کر اتارے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا سبب ڈونلڈٹرمپ کی مسلمان مخالف تقریریں ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے یا ان کی سرگرمیاں محدود کرنے کے دعوے کیے تھے۔


    امریکی مسلم خواتین حجاب پہننے سے خوف زدہ


     امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات سامنے آنے لگے، کیلیفورنیا کی سین جوز یونیورسٹی میں سفید فام نوجوان امریکی نے مسلمان خاتون پر حملہ کرکے حجاب اتار دیا۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بھی ایک 18 سالہ باحجاب مسلم طالبہ پر 2 امریکی نوجوانوں نے حملہ کیا جبکہ لوزیانا یونیورسٹی انتظامیہ نے مسلم طالبہ پر حملے کو جھوٹ پر مبنی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔


    ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی، باحجاب مسلم طالبات اور خواتین پر حملے


    سان ڈیاگو یونیورسٹی کیمپس میں باحجاب مسلم لڑکیوں پر کیمپس کے قریب پارکنگ پلازہ میں حملہ کیا گیا، حملہ آور لڑکیوں سے گاڑی کی چابیاں چھین کر فرار ہو گیا۔

    ایسے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شکاگو میں مقیم عراقی نژاد مسلم خاتون زینب عبداللہ نے ایک ویڈیو اپنے فیس بک پر شیئر کی ہے جس میں حجاب کھینچے جانے کے واقعہ کا سامنا کرنے پر ردعمل دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

    ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک شخص ایک مسلم خاتون کا اسکارف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ خاتون ایک معمولی سی مارشل آرٹ تکنیک کی مدد سے سیکنڈٖوں میں اس حملہ آور کو بے یارو مددگار کردیتی ہے۔

    ویڈیو میں دکھائی گئی مشق اس قدر آسان ہے کہ گھر پر کسی مرد کے ساتھ محض چند مرتبہ کی مشق سے اس میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی مدد سےکسی بھی اوباش کو مزہ چکھایا جاسکتا ہے۔


    یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟


     واضح رہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ماضی میں مسلمانوں کے بارے میں سخت بیانات دے چکے ہیں جو کہ تنازعات کا باعث بھی بنیں،2015 میں انہوں نے امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر مکمل پابندی اور امریکا میں رہائش پذیر مسلمانوں کی جانچ پڑتال سخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں موجود تمام مساجد کو بند کرنے اور سیکورٹی کی خاطر تمام مسلمانوں کا ڈیٹا بیس اکھٹا کرنے کا بھی بیان دے چکے ہیں۔

  • ہجرت اور جدائی کا دکھ

    ہجرت اور جدائی کا دکھ

    جان بچانے کے لیے ہجرت کرنا تو ایک معلوم عمل ہے، یا روزگار میں اضافے کے لیے دوسرے شہروں میں جانا بھی ایک معمولی بات ہے۔ لیکن ایسی ہجرت کہ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے اور پلٹ کر ان کی خبر نہ لی جائے، ایک انسانی المیہ ہی کہلائے گا۔

    ایسے ہی ایک انسانی المیے کا شکار وسطی ایشیا کا ملک تاجکستان بھی ہے جہاں لاکھوں خواتین اپنے شوہروں کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا ہیں اور بے بسی و پسماندگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    مہاجر کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر *

    وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک تاجکستان سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد سے ہی غربت کا شکار اور بلند ترین بے روزگاری کی شرح والا ملک ہے۔

    صرف 8 لاکھ اور 74 ہزار سے کچھ ہی زائد آبادی والے اس ملک کی بیشتر آبادی تاجکستان سے باہر رہائش پذیر ہے۔ مختلف ممالک میں رہنے اور کام کرنے والے یہ افراد مجموعی طور پر ایک کثیر رقم ملک میں بھیجتے ہیں جو تاجکستان کی جی ڈی پی کا 47 فیصد حصہ بنتا ہے۔

    tajik-5

    اس وقت دنیا بھر میں آباد تاجکوں کی 90 فیصد آبادی روس میں مقیم ہے۔ پوری دنیا میں موجود تاجک، تاجکستان کی کل مرادنہ آبادی کا ایک تہائی فیصد ہیں اور ان کی عمریں 20 سے 39 سال کے قریب ہیں۔

    گویا تاجکستان میں اب صرف خواتین ہیں، بچے اور بوڑھے جو اگر اس قابل نہیں کہ اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں تو نہایت ہی قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دنیا بھر میں چونکہ تاجک مزدوروں کی خدمات نہایت ارزاں ہیں لہٰذا بیرون ملک ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کی تنخواہ اس قابل نہیں ہوتی کہ یہ اسے گھر والوں کو بھیج سکیں، یا اگر بھیجتے بھی ہیں تو وہ نہایت قلیل ہوتی ہے۔

    چھٹی لے کر گھر آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، چنانچہ ان مزدوروں کے اہلخانہ خاص طور پر بیوی اور بچے باپ اور شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    انہی میں سے ایک خاتون تشبکووا بھی ہیں جن کا شوہر انہیں چھوڑ کر روس جاچکا ہے، اور انہیں قطعی اس کی امید نہیں کہ وہ اسے دوبارہ دیکھ بھی سکیں گی۔

    وہ بتاتی ہیں، ’10 سال قبل ہم نے محبت کی شادی کی تھی۔ صرف ایک سال بعد میرا شوہر مجھے چھوڑ کر انجانے سفر پر روانہ ہوگیا جس کے بعد سے وہ اب تک پلٹ کر نہیں آیا‘۔

    تشبکووا نے یہ عرصہ نہایت پریشانی میں گزارا۔ زندگی گزارنے کا کوئی آسرا ان کے پاس نہیں تھا۔ اس پر شوہر کی جدائی کا غم اور دوبارہ نہ ملنے کی اذیت بقول ان کے، انہیں کھا رہی تھی۔

    خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟ *

    تشبکووا شدید ڈپریشن کا شکار تھیں اور زیادہ تر وقت اپنے گھر میں ہی گزارتیں جہاں کئی کئی وقت کا فاقہ ان کے ساتھ ہوتا۔

    اور صرف ایک تشبکووا ہی نہیں، ان جیسی لاکھوں خواتین تھیں جو اسی صورتحال کا شکار تھیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ڈھائی لاکھ کے قریب خاندان اور خواتین اپنے مردوں کے باہر جانے کے بعد بے سہارا تھیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھیں۔

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے *

    پھر ان خواتین کے لیے اقوام متحدہ کی مدد غیبی امداد کی صورت آئی۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے، جو دنیا بھر میں مشکلات کا شکار خواتین کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے، ان تاجک خواتین کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

    تاجکستان کی روایات کی بدولت یہ خواتین نہ تو زیادہ خواندہ تھیں، نہ ہی ہنر مند اور نہ ہی اس قدر بااعتماد کہ باہر جا کر حالات کا مقابلہ کرسکتیں۔ یو این وومین نے تاجک معاشروں کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خواتین کو ہنرمند بنانے کا کام شروع کیا۔

    سنہ 2014 میں شروع کیے گئے بحالی پروگرام کے تحت خواتین کو روایتی تاجک دستکاری کا کام سکھایا گیا۔ آہستہ آہستہ خواتین کی نفسیاتی کیفیات میں بھی تبدیلی آتی گئی اور انہوں نے زندگی سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کر ہی لیا۔

    tajik-2

    tajik-4

    یو این وومین کی معاونت سے ان ہنر مند خواتین نے اپنے تیار شدہ ملبوسات، کھلونوِں، کمبلوں، میز پوش، اور دیگر اشیا کو قریبی شہروں اور قصبوں میں لے جا کر بیچنا شروع کیا۔

    ان اشیا کے خریدار زیادہ تر مختلف ممالک سے آئے سیاح ہوتے ہیں جو روایتی تاجک کڑھائی کے ان نمونوں کو بصد شوق خریدتے ہیں اور بطور یادگار اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

    گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار *

    یو این وومین کی جانب سے تاجکستان میں تعینات معاونت کار زرینہ یوروکوا نے بتایا کہ تاجک حکومت کو علم ہی نہیں تھا کہ روزگار کے لیے ہجرت کرنے والوں کے خاندان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ ’جب ہم نے اس طرف ان کی توجہ دلائی تو حکومت نے بھی ان کے لیے کام شروع کیا اور اب ہجرت کرنے والوں کے خاندانوں کو مفت طبی، قانونی اور دیگر سماجی سہولیات فراہم ہیں‘۔

    تشبکووا اور ان جیسی لاکھوں خواتین اب ایک نارمل اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے لیے کماتی ہیں بلکہ دیگر خواتین کا ہمت اور حوصلہ بھی بڑھاتی ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔

    tajik-3

    تشبکووا بتاتی ہیں، ’یہ ماضی کی باتیں ہیں جب ہم تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھے۔ اب ہم اپنے معاشرے کا نہایت کارآمد حصہ ہیں اور حکومت سمیت کسی پر بوجھ نہیں‘۔

  • فضائی حادثے میں چینی فائٹر جیٹ پائلٹ ہلاک

    فضائی حادثے میں چینی فائٹر جیٹ پائلٹ ہلاک

    بیجنگ:چین میں فضائی حادثے میں جے ٹین فائٹر جیٹ کی پہلی خاتون پائلٹ ہلاک ہوگئیں، پہلے خاتون اسکواڈ کا حصہ تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق فضائی حادثہ ہفتے کے روز چین کے یومِ فضائیہ کے اگلے ہی روز پیش آیا جس میں تیس سالہ پائلٹ فضائی حادثے کا نشانہ بننے والی پہلی چینی خاتون بن گئیں۔

    چین کے قصبے چنگ ڈو میں پیدا ہونے والی خوب رو ’یوژو‘، پیپلز لبریشن آرمی کے فضائیہ ڈیویژن کے فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم کا حصہ تھیں اور ان گنی چنی خاتون پائلٹس میں سے ایک تھیں جو کہ چین میں تیار ہونے والے لڑاکا طیاروں کو اڑا نے کی اہلیت رکھتی تھیں۔

    39d49874-a98f-11e6-a836-75a661626cad_1280x720

    چینی میڈیا رپورٹس کے مطابق یو ژو کا جہاز ہبائی نامی صوبے میں کسی نامعلوم حادثے کا شکار ہوا اور زمین سے جا ٹکرایا۔ صورتحال کچھ ایسی ہوئی کہ یو ژو جہاز سے بروقت اخراج کی حالت میں نہ رہیں ۔ ان کے ساتھ جہا زمیں ایک مرد پائلٹ بھی تھے جو کہ زخمی ہوئے ہیں۔

    یو ژو نے 2005 میں چینی فضائیہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور چارسال بعد وہ چین کے پہلے سولہ رکنی خاتون پائلٹ دستے کا حصہ تھیں جو کہ لڑاکا طیارے اڑانے کی استعداد رکھتا ہے۔

  • عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    دنیا بھر میں خواتین پر جنسی حملوں اور عوامی مقامات پر ان کے ساتھ ہراسمنٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس نے خواتین اور ان کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی متعدد رپورٹس کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے ایک خاتون کو کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہے جو صرف جنس کی بنیاد پر اس سے کی جاتی ہے۔ ان میں گھورنے سے لے کر خطرناک جنسی حملوں تک کے واقعات شامل ہیں اور اس میں ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی کوئی قید نہیں۔

    harrasment

    دنیا بھر میں ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بسوں میں پینک بٹن نصب کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

    خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن *

    یہ پینک بٹن بس میں دروازے کے اوپر لگایا جائے گا جسے دباتے ہی قریبی پولیس اسٹیشن میں ایک ہنگامی پیغام جائے گا اور اس کے بعد پولیس بس میں نصب کیمرے کی براہ راست فوٹیج دیکھ سکے گی۔

    تاہم ان اقدامات کی ایک بہترین مثال جنوبی امریکی ملک ایکواڈور کے دارالحوکمت کیٹو میں دیکھی گئی جہاں شہری ترقیاتی کے لیے ’کیٹو سیف سٹی پروگرام‘ کا آغاز کیا گیا اور اس میں سرفہرست شہر کو خواتین کے لیے محفوط بنانے کا ہدف رکھا گیا۔

    اس منصوبے کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کی جانب سے ایک سروے کیا گیا تھا جس میں دیکھا گیا کہ 12 ماہ کے دوران شہر کی 68 فیصد خواتین نے عوامی مقامات پر کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

    quito-3

    یو این وومین نے اس کے بعد شہری حکومت، خواتین کے لیے سرگرم عمل متعدد اداروں، اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔

    جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر *

    اس منصوبے کے تحت شہر میں جابجا رضا کارانہ خدمات انجام دینے والی خواتین کو تعینات کیا گیا۔ ان خواتین کو باقاعدہ اتھارٹی دی گئی جس کے بعد یہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے اہم طاقت بن گئیں۔

    رضاکارانہ خدمات انجام دینے والی ان اہلکاروں کو اس قسم کے واقعات کی اطلاع بھی دی جا سکتی ہے جس کے بعد سنگین نوعیت کے کیسز میں یہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینے کی مجاز ہوں گی۔

    کیٹو کے میئر ماریشیو روڈز کا کہنا ہے کہ شہر کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس ضمن میں شہری حکومت کے تحت 4 شعبوں میں کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ سڑکوں کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا، گھریلو تشدد کے واقعات کا سدباب، آفات اور خطرات میں خواتین کو سہولیات کی فراہمی، اور تمام شعبوں میں خواتین کی شراکت داری۔

    quito-2

    انہوں نے بتایا کہ کیٹو کے سیف سٹی منصوبے کے تحت اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کن مقامات پر خواتین کو ہراسمنٹ کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ان مقامات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں محفوط بنانے کے لیے اقدامات کیے جیسے وہاں روشنیاں نصب کی گئیں اور وہاں کا ماحول بہتر بنایا گیا۔

    زیادتی کا شکار مختاراں مائی کی ریمپ پر واک *

    ایکواڈور میں یو این وومین کی نمائندہ مونی پیزانی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد کے واقعات اور اس کے سدباب کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی از حد ضرورت ہے تاکہ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا حصہ نہ سمجھیں۔

    ماہرین نے کیٹو میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کو بے حد سراہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام شہروں میں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں۔

  • دنیا کے تمام ممالک کی سیر کرنے والی واحد خاتون

    دنیا کے تمام ممالک کی سیر کرنے والی واحد خاتون

    ہم میں سے بہت سے افراد سیر و سیاحت کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جب سیاحوں سے ملتے ہیں، جو دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں تو وہ ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان کے لیے رشک کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔

    سیاحت کا شوقین ایک عام شخص زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 ممالک کا سفر کرتا ہے۔ بہت زیادہ شوقین 30 یا اس سے زیادہ ممالک کا سفر کرتا ہے۔ کوئی انتہائی سرپھرا ہوگا تو وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی زندگی سیاحت میں گزار دے گا اور 100 ممالک کا سفر کرلے گا۔

    مزید پڑھیں: مختلف ممالک کی سیر کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھیں

    لیکن کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوسکتا ہے جو پوری دنیا کے 196 ممالک کا سفر کرلے؟

    یہ ایک افسانوی اور حیرت انگیز بات ہوگی لیکن دنیا میں ایک شخص ایسا موجود ہے اور وہ ایک خاتون ہیں۔

    امریکا کی کسینڈرا ڈی پیکول دنیا کی پہلی باقاعدہ سب سے زیادہ سیاحت کرنے والی خاتون، کم عمر ترین امریکی سیاح اور دنیا میں سب سے تیز رفتار سیاحت کرنے کا اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے انوکھے ترین ریستوران

    صرف 25 سال کی عمر میں اب تک انہوں نے 181 ممالک کا دورہ کرلیا ہے جس کے بعد وہ مندرجہ بالا تمام اعزازات اپنے نام کرچکی ہیں، اور اب اگر وہ بقیہ 15 ممالک کا بھی دورہ کرلیں گی تو دنیا کے تمام ممالک کا سفر کرنے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیں گی۔

    کسینڈرا کے شوق کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ برائے امن بذریعہ سفر نے انہیں اپنا اعزازی سفیر مقرر کردیا ہے جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں امن اور محبت کا پیغام لے کر جاتی ہیں۔ وہ اپنے اس سفر کو ایکسپیڈیشن 196 کا نام دیتی ہیں۔

    ہم ان کے تمام سفر کی تصاویر تو نہیں پیش کر سکتے، تاہم کچھ تصاویر سے آپ ان کے اس حیرت انگیز اور غیر معمولی سفر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    travel-2

    travel-3

    7

    6

    5

    4

    3

    2

    1

    8