Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • میلانیا ٹرمپ کو 2 صدیوں بعد امریکہ کی پہلی غیر ملکی خاتونِ اول ہونے کا اعزاز حاصل

    میلانیا ٹرمپ کو 2 صدیوں بعد امریکہ کی پہلی غیر ملکی خاتونِ اول ہونے کا اعزاز حاصل

    واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے امریکی صدر منتخب ہوتے ہی میلانیا خاتون اول تو بن گئی لیکن انھیں دو صدیوں بعد پہلی غیر ملکی خاتون اول کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے۔

    امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا پیشے کے لحاظ سے سپر ماڈل رہ چکی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میلانیا ٹرمپ کو دو صدیوں بعد پہلی غیر امریکی خاتون اول کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔

    یہی نہیں انھیں پہلی مرتبہ کسی امریکی صدر کی تیسری بیوی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    melina-trump-post-4

    اس سے قبل یہ اعزاز لوئسا ایڈمز کے پاس تھا، وہ امریکہ کے چھٹے صدر جان کوئنسی ایڈمز کی اہلیہ تھیں، جان کوئنسی ایڈمز منصب صدارت پر 04 مارچ1825ء تا 04مارچ1829ء تک فائز رہے ، وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلے صدر تھے۔

    loiusa

    میلانیا ٹرمپ نے اپنے شوہر کی انتخابی مہم میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لی لیکن ٹرمپ کی 2005 کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد پہلی مرتبہ میلانیا ٹرمپ کا امریکی ٹی وی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہیں ٹرمپ کے الفاظ سے شدید دھچکا پہنچا تاہم ٹرمپ کے معافی مانگنے پر انہوں نے ٹرپ کو معاف کردیا ہے۔

    malina-trump-post-7

    میلانیا ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خاوند نرم دل اور جنٹل مین انسان ہیں۔

    melina-trump-post-1

    میلانیا نے انٹرویو کے دوران کہا کہ میں جانتی ہوں کہ وہ خواتین کی عزت کرتے ہیں،لیکن وہ اپنا دفاع کر رہے ہیں کیوں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔یہ اسکینڈل ہلیری کلنٹن کی ٹیم اور میڈیا نے ٹرمپ کی امیدواری کو نقصان پہنچانے کی خاطر کھڑا کیا ہے۔

    ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ پر الزام لگایا کہ انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں خاتون اول مشیل اوباما کی تقریر کے الفاظ استعمال کی۔

    melina-trump-post-3

    میلانیا ٹرمپ 26اپریل 1970ءکو”سوشلسٹ فیڈرل ریپبلک یوگوسلاویہ، سلوانیہ میں پیدا ہوئیں، انھوں نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے ہی حاصل کی، پیشے کے لحاظ سے میلانیا جیولری اور گھڑیوں کی ڈیزائنر ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی میں سپر ماڈل رہ چکی ہیں ۔

     

    میلانیا 2005ءمیں ارب پتی امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں ،جس سے ان کا ایک بیٹا بیرون ولیم ٹرمپ ہے۔

    melina-trump-post-5

    ملانیا ٹرمپ نے مارچ 2001 میں "گرین کارڈ” حاصل کیا اور 2006 میں وہ امریکی شہری بن گئیں۔

  • ملیے امریکا کی نئی خاتون اول سے

    ملیے امریکا کی نئی خاتون اول سے

    امریکا اپنے 45 ویں صدر کے طور پر ڈونلد ٹرمپ کا انتخاب کرچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس 45 ویں خاتون اول کا بھی استقبال کرے گا جو میلانیا ٹرمپ ہیں۔

    امریکا کی حالیہ خاتون اول کے منصب پر فائز ہونے والی میلانیا ٹرمپ سابق ماڈل ہیں۔ بنیادی طور پر وہ جمہوری سلوینیا کی شہریت یافتہ ہیں تاہم وہ ماڈلنگ میں اپنا کیریئر بنانے کے لیے امریکا آبسیں۔

    میلانیا کے والد ایک تاجر اور سیاستدان تھے۔ انہوں نے سلوینیا کے ایک مقامی کالج برائے ڈیزائن اینڈ فوٹوگرافی سے تعلیم حاصل کی۔

    melania-4

    melania-5

    انہوں نے اپنے ماڈلنگ کیریئر کا آغاز 16 برس کی عمر سے سلوینیا میں ہی کردیا تھا تاہم اس کیریئر کو عروج دینے کے لیے وہ امریکا آئیں اور یہیں ان کی ملاقات ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوئی جو آج امریکا کے صدر بن گئے۔

    mealnia-2

    melania-3

    کسی بھی ملک میں خاتون اول کا کردار ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ خواتین اول عموماً غیر سیاسی رہتے ہوئے تعلیم، صحت اور خواتین کے شعبوں میں کام کرتی ہیں۔ بعض خواتین اول کی انفرادی شخصیت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ بعض اوقات صدر مملکت بھی ان کے آگے پھیکے پڑجاتے ہیں۔

    اسی طرح بعض خواتین اول دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں جگہ بناتی ہیں، اور بعض فیشن آئیکون بن جاتی ہیں اور فیشن ایبل ترین خاتون اول کا اعزاز پاتی ہیں۔

    صرف ایک میلانیا ٹرمپ ہی نہیں، امریکی تاریخ متاثر کن اور اسٹائلش خواتین اول سے بھری پڑی ہے۔ ان خواتین نے دنیا بھر کے فیشن ٹرینڈز کا تعین کیا اور ان کا اختیار کیا ہوا لباس یا انداز دنیا بھر میں مقبول ہو کر فیشن بن گیا۔

    آج ہم آپ کو امریکی تاریخ کی ان خواتین اول کے بارے میں بتا رہے ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی فیشن انڈسٹری پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اسٹائلش ترین خاتون اول کا نام پایا۔

    :جیکی کینیڈی اوناسس

    اس فہرست میں سب سے پہلا نام مقتول صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی کا ہے۔

    1

    ساٹھ کی دہائی میں اپنی مسحور کن شخصیت سے دنیا بھر کو متاثر کرنے والی جیکی کینیڈی اس زمانے میں فیشن آئیکون سمجھی جاتی تھیں۔ ان کا اختیار کیا ہوا ہر انداز تھوڑے ہی دن میں فیشن بن جاتا تھا۔

    2

    جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد جیکی نے فرانسیسی ارب پتی ارسٹوٹل اوناسس سے شادی کی لیکن اپنے نام سے کینیڈی کو خارج نہیں کیا۔ مرتے دم تک وہ پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں اور ان کا ہر انداز قابل ستائش رہا۔

    مزید پڑھیں: جیکولین کینیڈی کا کردار خطرناک ترین

    :مشل اوباما

    امریکی قصر صدارت میں براجمان رہنے والی مشل اوباما کو بھی فیشن کی دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ مشل اوباما سادگی پسند ہیں اور سادہ لباس استعمال کرتی ہیں، لیکن یہ ان کی منفرد شخصیت کا کمال ہے کہ ان کی سادگی بھی فیشن میں شمار ہونے لگی۔

    6

    5

    4

    10

    صدر اوباما کے ساتھ ہم قدم رہتے ہوئے انہوں نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی خود مختاری کے لیے بے پناہ کام کیا۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں مشل اوباما کی سرگرمیاں

    :ہیلری کلنٹن

    سنہ 2016 کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن، بل کلنٹن کے دور صدارت میں نہایت اسٹائلش اور فیشن ایبل خاتون اول ہوا کرتی تھیں۔ ان کا اسٹائل تو اب بھی برقرار ہے تاہم عمر کے ساتھ اب اس میں رکھ رکھاؤ آگیا ہے اور اب وہ نہایت پروقار خاتون لگتی ہیں۔

    7

    8

    9

    :نینسی ریگن

    امریکا کے 40 ویں صدر رونلڈ ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن اپنی میچنگز کے حوالے سے بے حد مشہور تھیں۔

    11

    13

    12

    وہ اپنے لباس اور اس سے جڑی ذرا ذرا سی باریکیوں کا بھی خیال رکھتی تھیں، اور ان کے کانوں کے بندے، دستانے اور جوتے بھی میچنگ یا کنٹراسٹ سے ہوا کرتے تھے۔

    :بیٹی فورڈ

    امریکا کے 38 ویں صدر جیرالڈ فورڈ کی اہلیہ بیٹی فورڈ ہمیشہ جدید لباس زیب تن کیا کرتیں۔

    14

    15

    ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ بعض دفعہ کچھ مختلف انداز بھی اختیار کیا کرتیں جو اس وقت کے فیشن سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن ان کے خاتون اول ہونے کی وجہ سے وہ انداز بھی مقبول ہوجاتا تھا۔

    :لیڈی برڈ جانسن

    لنڈن بی جانسن کی اہلیہ لیڈی برڈ جانسن بھی ایک مسحور کن شخصیت کی مالک تھیں اور ہمیشہ بہترین لباس زیب تن کیا کرتیں۔

    16

    18

    19

    :ایلینور روز ویلیٹ

    فرینکلن ڈی روز ویلیٹ کی اہلیہ ایلینور روز ویلیٹ 32 ویں خاتون اول تھیں اور ہمیشہ گھیردار ملبوسات، دستانوں اور خوبصورت ہیٹس کا استعمال کرتی تھیں۔

    20

    امریکی مؤرخین انہیں خوبصورت خاتون تو نہیں مانتے، تاہم ان کی شخصیت اور انداز کی خوبصورتی سے سب ہی متفق ہیں۔

    :ڈولی میڈیسن

    21

    امریکا کے چوتھے صدر جیمس میڈیسن کی اہلیہ ڈولی میڈیسن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں تاہم مؤرخین کے مطابق وہ اس زمانے کی ایک اسٹائلش خاتون تھیں۔

  • امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکی صدارتی انتخابات اب چند ہی گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ اس بار صدارتی انتخاب کے لیے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔

    ہیلری کلنٹن سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ ان کا سیاسی اور امور حکومت کا تجربہ نہایت وسیع ہے لہٰذا ان کے جیتنے کے امکانات بھی خاصے روشن ہیں۔

    حالیہ انتخابات میں اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اوّل

    لیکن ہیلری کلنٹن واحد خاتون صدارتی امیدوار نہیں ہیں۔ امریکا کی طویل جمہوری تاریخ میں کئی خواتین صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں، لیکن یا تو وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہیں، یا پھر حتمی مرحلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلا نام ایکول رائٹس پارٹی کی وکٹوریہ ووڈ ہل کا ملتا ہے جو سنہ 1872 کے انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئیں۔ تاہم مطلوبہ ووٹس نہ ملنے کے باعث وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہ حاصل کر سکیں۔

    یہاں ان خواتین امیدواروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو امریکی امور حکومت کو چلانے کا عزم لیے میدان میں اتریں لیکن ناکام رہیں۔

    :گریسی ایلن

    6

    سنہ 1940 میں امریکا کی سرپرائز پارٹی نے گریسی ایلن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ صرف 42 ہزار ووٹ حاصل کرسکیں۔

    :لنڈا جینز

    9

    سنہ 1972 میں لنڈا جینز کو سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔

    :مارگریٹ رائٹ

    سنہ 1976 میں امریکا کی پیپلز پارٹی نے مارگریٹ رائٹ کو بطور صدارتی امیدوار منتخب کیا لیکن انہوں نے جمی کارٹر سے شکست کھائی۔

    :ایلن میک کرومیک

    5

    سنہ 1980 میں امریکا کی رائٹ ٹو لائف پارٹی نے ایلن میک کرومیک کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا تاہم وہ بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :سونیا جانسن

    8

    سنہ 1984 میں سٹیزن پارٹی نے سونیا جانسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

    :لینورا فلنائی

    3

    سنہ 1988 میں نیو الائنس پارٹی کی جانب سے لینورا فلنائی صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں تاہم انہیں جارج بش سینئر سے شکست کھانی پڑی۔

    سنہ 1992 میں نیو الائنس پارٹی نے لینورا فلنائی کو دوبارہ اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا اور ایک بار پھر انہوں نے بل کلنٹن سے شکست کھائی۔

    :سنتھیا مک کینی

    4

    سنہ 2008 میں گرین پارٹی نے سنتھیا مک کینی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن اس سال انتخابات میں امریکی تاریخ بدل گئی اور پہلی بار ایک سیاہ فام صدر بارک اوباما صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس جا پہنچا۔

    :روزینے بار

    سنہ 2012 میں ہی صدر اوباما کے دوسرے دور حکومت سے قبل پیس اینڈ فریڈم پارٹی کی جانب سے روزینے بار ان کے مدمقابل آئیں لیکن چونکہ صدر اوباما کا وائٹ ہاؤس میں ابھی قیام باقی تھا لہٰذا انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    :جل اسٹین

    2

    سنہ 2012 میں ہی گرین پارٹی نے بھی جل اسٹین کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ بھی شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :ہیلری کلنٹن

    1

    ہیلری کلنٹن نے 2008 میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تاہم وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے بعد وہ صدر اوباما کی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔ حالیہ الیکشن میں وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں اور یہ واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت ہے کہ اس بار اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔

  • شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد

    شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد

    ہنزہ: گلگت بلتستان کے ایک بلند گاؤں شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ ٹورنامنٹ کا انعقاد شاہ شمس اسپورٹس کلب کی جانب سے کیا گیا ہے۔

    سطح سمندر سے 31 ہزار میٹر بلند یہ گاؤں شمشال ضلع ہنزہ کی گوجال تحصیل میں واقع ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔

    shimshal-2

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں کھیل کے شعبہ میں خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل مایہ ناز کوہ پیما ثمینہ بیگ بھی بلند برفانی چوٹیوں پر اپنے عزم و ہمت کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔

    ثمینہ خیال بیگ پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین مسلمان خاتون ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکی ہیں۔ یہی نہیں وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

    shimshal-3

    اس سفر میں قدم قدم پر ثمینہ کو اپنے اہل خانہ اور خاص طور پر بھائی مرزا علی بیگ کی حمایت حاصل رہی جو بعض مہمات پر خود بھی ان کے ساتھ رہے۔

    فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل *

    ثمینہ بیگ اور مرزا علی نے شمشال میں ہونے والے خواتین کے پہلے فٹبال ٹورنامنٹ پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ بہت جلد وہاں جا کر خواتین کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھائیں گے۔

    اس موقع پر اپنے پیغام میں مرزا علی نے کہا کہ ایک مرد ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی خواتین کو خود مختار اور صنفی برابری کو یقینی بنائیں۔

    shimshal-4

    انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں صںفی برابری کا ہدف بھی شامل ہے اور اس قسم کے ٹورنامنٹ کے انعقاد سے ہم اس ہدف کی تکمیل کی جانب ایک قدم بڑھائیں گے۔

    ٹورنامنٹ میں 12 سے 22 سال کی خواتین نے حصہ لیا۔ منتظمین کے مطابق ٹورنامنٹ کا اعلان ہونے کے بعد نوجوان لڑکوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پاس آئی جو اپنی بہنوں کو اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

  • عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

    مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

    خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

    ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


    مصورہ کے بارے میں

    سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


    سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

    سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

  • انسانی حقوق ٹیولپ ایوارڈ 2016 پاکستانی سماجی کارکن نگہت داد کے نام

    انسانی حقوق ٹیولپ ایوارڈ 2016 پاکستانی سماجی کارکن نگہت داد کے نام

    اسلام آباد: پاکستان کی ڈیجیٹل حقوق فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کو ہالینڈ حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے ٹیولپ ایوارڈ 2016 سے نوازا گیا ۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق ٹیولپ ایوارڈ وزیر خارجہ کی جانب سے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کیلئے ایک سالانہ ایوارڈ ہے، ہالینڈ حکومت کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ نگہت داد کو یہ ایوارڈ ہالینڈ کے وزیرخارجہ بریٹ کونڈرز انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر10دسمبر کو دی ہیگ میں دیں گے۔

    وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے جدید دور کے ہیرو ہے، بہت سے خطرات کے باوجود نگہت داد کی ایک منفرد اور جدید انداز میں پاکستان میں انسانی حقوق کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں جاری ہے۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی پاکستان میں دباؤ کا شکار ہے اور بڑھتی ہوئی پابندیوں نے یکساں افراد اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی ڈیجیٹل آزادیوں کو متاثر کیا ہے، نگہت داد ڈیجیٹل حقوق کی ایک کٹر محافظ ہے۔

    بریٹ کونڈرز نے امید ظاہر کی کہ یہ ایوارڈ انٹرنیٹ صارفین، خاص طور پر خواتین کی آزادی کے لئے حمایت کے طور پر کام کرے گا۔

    ٹیولپ ایوارڈ کانسی کے مجسمے اور ایک لاکھ یورو کی انعامی رقم شامل ہے۔ نگہت داد پاکستان میں لوگوں خاص طور پرخواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات دورکرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

    نگہت داد وکیل ہیں، جنہوں نے 2012ء میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن قائم کی تھی، جس کے بعد سے وہ اب تک ہزاروں پاکستانیوں کو آن لائن ہراساں ہونے سے بچنے اور خود کی حفاظت کی تعلیم دے چکی ہیں۔

    نگہت کے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے غیر ملکی اور ریاستی انٹیلی جنس اداروں کے لیے صارفین کی ذاتی معلومات کے حصول کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔

    نگہت داد کو گزشتہ ماہ ٹاپ 10 میں شامل کیا گیا تھا ، جس کے بعد انھیں آخری تین امیدواروں میں چنا گیا۔


    مزید پڑھیں : پاکستانی خاتون نگہت داد نیکسٹ جنریشن لیڈرز کی فہرست میں شامل


    یاد رہے کہ ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم پاکستانی خاتون نگہت داد کو نیکسٹ جنریشن لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

  • آدھے دماغ کے ساتھ زندگی گزارنے والی با ہمت خاتون

    آدھے دماغ کے ساتھ زندگی گزارنے والی با ہمت خاتون

    آپ نے یہ تو ضرور سنا ہوگا کہ کچھ افراد ایک گردے کے سہارے اپنی ساری زندگی گزاردیتے ہیں لیکن اس دنیا میں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جو کہ آدھے دماغ کے ساتھ اپنی زندگی انتہائی نارمل انداز میں گزار رہی ہیں۔

    کرسٹینا سین تھاؤز کی عمر 28 سال ہے اور وہ ایک سپیچ تھراپسٹ ہیں ‘ دو سال قبل انہوں نے اپنا گھر خریدا ہے اور اسی دوران شادی بھی کی لیکن ان کی زندگی میں سب کچھ ہمیشہ سے اتنا آسان نہیں تھا۔

    کرسٹینا جب تیسری کلاس میں تھی تو انہیں ایک انتہائی کمیاب دماغی مرض لاحق ہوگیا جس سے ان دماغ کے سیدھے حصے کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر اس کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو یہ مرض ان کے مکمل دماغ کو تباہ کردے گا جس سے ان کی موت واقع ہوجاتی۔

    باہمت کرسٹینا اس پیچیدہ اور تقریباً لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں اور انہوں نے اپنی تمام نصابی ‘ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں جاری رکھیں ‘ یہاں تک کہ ان کے مرض کی شدت اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں بیماری کے سبب لگنے والے جھٹکوں کی تعداد ایک دن میں 150 بار تک جا پہنچی۔

    یہی وہ وقت تھا کہ جب ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ آٹھ سالہ کرسٹینا کی زندگی بچانے کے لیے ان کے دماغ کا دایاں نصف نکال دیا جائے ۔

    ان کی والدہ کا کہنا ہےکہ’’ ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا تھا‘ لوگ ایک گردے کے ساتھ تو زندگی گزارتے ہیں لیکن آدھے دماغ کے ساتھ زندہ رہنا‘ مجھے یہ سب انتہائی ظالمانہ لگ رہا تھا ، تاہم اپنی بیٹی کی زندگی کے لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ لیا۔

    ان کی دماغ کی سرجری کر نے والے ڈاکٹر کارسن نے اس سے قبل محض ایک بچے کا اس نوعیت کا آپریشن کیا تھا ‘ آپریشن کی رات وہ کرسٹینا کے کمرے میں گئے اور اس سے کہا کہ ’’ آج تم اپنے لیے دعا مانگو اور میں اپنے لیے دعا مانگتا ہوں ‘ خدا ہم دونوں کو کامیاب کرے‘‘۔

    صدیوں طویل 14 گھنٹے پر مشتمل یہ آپریشن کامیاب رہا اور کرسٹینا ایک بار پھر نارمل زندگی گزارنے لگیں لیکن یہ سب بھی آسان نہیں تھا ‘ وہ اپنا موٹر سینس کھو چکی تھیں تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور17 سال کی عمر میں انہوں نے اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیا۔

    واضح رہے کہ اس قسم کی سالانہ دماغی سرجری ایک سال میں سو کے لگ بھگ ہوتی ہیں تاہم کرسٹینا ان دو خوش قسمت افراد میں شامل ہیں جنہوں نے اس پیچیدہ سرجری سے گزرنے کے بعد اپنا گرایجویشن مکمل کیا اور نارمل زندگی گزار رہی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن ایک بڑی مشکل تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ مجھے زندگی میں میرے خوابوں کے حصول سے روک دیتا ۔

  • کیا ایک عورت دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    کیا ایک عورت دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    دنیا کو بچانے کے لیے ایسے کردار کا تصور تو بہت پرانا ہے جو عموماً مرد ہوتا ہے اور سپر ہیرو کی خصوصیات رکھتا ہے، لیکن کیا کبھی کوئی عورت بھی دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یقیناً آپ کی غلط فہمی ’ونڈر وومن‘ کے اس نئے ٹریلر کو دیکھ کر دور ہوجائے گی جس میں ایک عورت دنیا کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔

    سپر وومن یا ونڈر وومن کا آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 1941 میں سامنے آیا جب ایک امریکی کامک سیریز میں ایک خاتون کو جادوئی اور ماورائی قوتوں کا حامل دکھایا گیا۔

    wonder-woman-1

    امریکی پرچم سے مشابہہ لباس میں ملبوس اس ونڈر وومن نے نہ صرف اس وقت خواتین کے بارے میں قائم تصورات کو کسی حد تک تبدیل کیا بلکہ اس کی تخلیق خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک اہم قدم تھی۔

    اس کامک کردار کو اب بڑے پردے پر ’ونڈر وومن‘ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے جس کا ایک اور ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔

    پیٹی جینکنز کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں مرکزی کردار گیل گیڈٹ نبھا رہی ہیں جو اس سے قبل مشہور فلم فرنچائز ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ کے کئی حصوں میں بھی جلوہ گر ہوچکی ہیں۔

    woman-4

    ان کے مدمقابل ’اسٹار ٹریک‘ سے شہرت پانے والے کرس پائن بھی اہم کردار ادا کر ہے ہیں۔

    فلم کی کہانی دور دراز جزیرے میں پرورش پانے والی عورت ڈیانا کی ہے جس کی ملاقات اتفاقاً اسٹیو (کرس پائن) سے ہوتی ہے۔ اسٹیو جہاز کریش ہونے کے باعث اس جزیرے تک پہنچتا ہے۔

    chris

    اس کے بعد وہ ڈیانا کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے اور یہیں سے فلم اور ڈیانا کی زندگی کا نیا رخ شروع ہوتا ہے۔

    ڈیانا کو پتہ چلتا ہے کہ دنیا ایک ہولناک جنگ کا شکار ہونے والی ہے جس کے بعد وہ دنیا کو بچانے والے افراد کی پہلی صف میں جا کھڑی ہوتی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے سب کو دنگ کردیتی ہے۔

    woman-7

    woman-8

    ٹریلر میں وہ کئی بار اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کے باعث اسٹیو اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی جانیں بچاتی نظر آتی ہے۔

    woman-6

    women-5

    اسی طرح اسے ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی ایک روایتی عورت کا روپ اختیار کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

    woman-3

    فلم کے ٹریلر میں خواتین کی غیر معمولی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بظاہر دھان پان نظر آنے والی عورت اپنی زمین اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے جان کی بازی بھی لگا سکتی ہے اور ایسے میں وہ ایسا غیر مرئی صلاحیتوں کا حامل کردار بھی بن سکتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے مرد کو کئی نسلوں تک محنت کرنی پڑے۔

    فلم ’ونڈر وومن‘ اگلے برس جون میں سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

  • زمین پرآج موجود انسانوں کی ماں کون؟

    زمین پرآج موجود انسانوں کی ماں کون؟

    کرہ ارض پر آج کے دور میں آباد تمام انسان ایک ہی خاتون کی اولاد ہیں اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ خاتون’اماں حوا‘ نہیں تھیں۔

    روئے زمین پر انسانی ارتقا ءکے دوران کچھ مواقع ایسے بھی آئے ہیں کہ انسانی نسل موسمی حالات یا شکاری جانداروں کی وجہ سے تقریباً ختم ہوتے ہوتے بچی اور کئی بار ایسے ادوار آئے کہ جب زمین پر صرف چند ہزار انسان بچے تھے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہی بچ جانے والے انسانوں میں سےایک خاتون تھیں جن کو ’مایٹوکونڈریل حوا‘ کا نام دیا گیا ہے‘ جس کا سبب تمام انسانوں کے ڈی این اے کا انہی خاتون سے منسوب ہونا بتایا جارہا ہے ۔ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ خاتون حضرت آدمؑ اور اماں حوا کی ابتدائی نسلوں میں شامل رہیں ہوں گی۔

    ان کی خاص بات کیا تھی ؟

    جہاں ان کے بندر نما اجداد (نسناس) اور ان کے زمانے کے دوسرے انسانوں کی نسلیں معدوم ہوگئیں ، وہاں ان کی نسل چلتی رہی اور آج زمین پر موجود تمام انسان براہ راست ان کی اولاد ہیں ، ایک محتاط اندازے کے مطابق زمین پر موجود کل آبادی میں سے کم از کم پانچ ارب افراد مایٹو کونڈریل اماں حوا۔

    یہ ہمیں کیسے پتا چلا ؟

    انسانی خلیوں کے کچھ اعضاء کو مایٹوکونڈریا کہا جاتا ہے ، ان میں معمولی مقدار میں ڈی این اے ہوتا ہے ، یہ ڈی این اے صرف ماں کے ذریعے اگلی نسل کو ٹرانسفر ہو سکتا ہے ، اگر ہم زمین پر موجود تمام انسانوں کے مایٹوکوندریا کے ڈی این اے کا تجزیہ کریں تو ان کے تانے بانے کسی ایک خاتون سے ملتے ہیں جو آج سے ایک سے دو لاکھ برس قبل موجود تھیں۔

    ان کے دور کے انسانوں اور ان سے قبل کے انسانوں اورانسان نما جانداروں کے فاسلز کے ڈی این اے میں بہت ساری ایسی تبدیلیاں ہیں جو مختلف اجداد کا پتا دیتی ہیں لیکن یہ تمام تبدیلیاں مایٹوکونڈریل حوا کے بعد کی دوسری نسلوں میں بتدریج غائب ہوتی گئیں اور آج موجود نہیں ہیں ، آج صرف مایٹو کونڈریل حوا کے ڈی این اے کی نسلیں موجود ہیں۔

    اس وقت انسان کی بودوباش کیسی تھی ؟

    انسان غاروں میں رہتا تھا ، اس نے ابھی لکھنا پڑھنا اور غاروں میں تصویریں بنانا نہیں سیکھا تھا ، اس کا اندازِ زندگی جانوروںسے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا اور اس نے ابھی پیچیدہ الفاظ میں گفتگو کرنا بھی نہیں سیکھا تھا۔

    سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مایٹو کونڈریل حوا کرہ ارض پر انسانوں کی بالکل ابتدائی نسلوں سے تعلق رکھتی تھیں اورکسی نامعلوم قدرتی سبب کےتحت انسانی آبادی کے انتہائی کم تعداد میں رہ جانے کے بعد ان کی نسل کو فروغ ملا اوروہ موجودہ انسانوں کی جدہ قرار پائی گئیں۔

  • مختاراں مائی کی ریمپ پر واک

    مختاراں مائی کی ریمپ پر واک

    کراچی میں جاری فیشن پاکستان ویک کے آخری روز مختاراں مائی نے ریمپ پر واک کرکے سب کی توجہ سمیٹ لی۔ انہوں نے ڈیزائنر روزینہ منیب کا تیار کردہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔

    سنہ 2002 میں پنچایت کے حکم پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی اس وقت دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے مجرمان کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا، تاہم بدقسمتی سے وہ انصاف پانے میں ناکام رہیں اور ان کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرمان کو عدالت نے ناکافی سزا دی جس نے مختاراں مائی اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والے افراد کو بے حد مایوس کیا۔

    کیس کے عدالت میں جانے کے ساتھ ہی مختاراں مائی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ان کی مدد کی اور مختاراں مائی پھر سے نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہوئیں۔

    مختاراں مائی کو زیادتی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے اور اس کے خلاف لڑنے پر کونسل آف یورپ کی جانب سے نارتھ ساؤتھ پرائز سے بھی نوازا گیا۔ سنہ 2009 میں انہوں نے شادی بھی کرلی۔

    پاکستان فیشن ویک کی منتظمین میں سے ایک، مشہور ڈیزائنر فریحہ الطاف کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ تھا کہ مختاراں مائی کو ریمپ پر پیش کرنے کا آئیڈیا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ ’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگ کہیں کہ یہ شہرت حاصل کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ ہے‘۔

    m2

    m3

    لیکن ڈیزائنر روزینہ منیب نے ان کی ہمت بندھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ مختاراں مائی کو ریمپ پر پیش کرنے کا مقصد توجہ حاصل کرنا تو ضرور ہے، تاہم یہ توجہ ایک مثبت پہلو کے لیے ہوگی۔

    m4

    اس کا مقصد نہ صرف خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدام کی حمایت کرنا ہوگا، بلکہ لوگوں کی توجہ ریپ جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دلانا بھی مقصود ہوگا۔

    دونوں ڈیزائنرز نے فیصلہ کیا کہ مختاراں مائی کو کسی ماڈل کی طرح پیش کرنے کے بجائے پاکستانی روایتی لباس پہنایا جائے جو خود مختاراں مائی کے لیے بھی قابل قبول ہو۔

    Your my hero! #muktharamai @rozinamunibofficial #fpw2016 #day3 ❤️❤️❤️ @catwalk_events

    A photo posted by Frieha Altaf (@friehaaltaf) on

    پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنرز کی اس کوشش سے اب فیشن انڈسٹری بھی صرف فیشن کو فروغ دینے کے علاوہ خواتین کے حقوق کی فراہمی اور ان کی خود مختاری کے لیے مثبت قدم اٹھانے والے شعبوں میں شامل ہوگئی۔