Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • پی ٹی آئی خواتین کے انوکھے ہتھیار

    پی ٹی آئی خواتین کے انوکھے ہتھیار

    لاہور: پاکستان تحریکِ انصاف کے اسلام آباد لاک ڈاؤن پلان کو کامیاب بنانے کے لئے خواتین نے بھرپور تیاری کرلی ہے۔

    لاہور سے پی ٹی آئی کی کارکن خواتین دھرنوں میں ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ شامل ہوئی ہیں۔ سبز اور سرخ رنگ کے لباس، دوپٹے، میچنگ جیولری، جوش اور جذبہ ہمیشہ بھرپور رہا ہے۔ اس بار لاک ڈاؤن کی تیاری میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پولیس کے پی ٹی آئی کی خواتین کارکن سےاسلام آباد میں بدتمیزی کے بعد لاہور کی خواتین نے اپنے ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔

    پاکستان تحریکِ انصاف کی سرگرم کارکن ثروت نے گھر سے گندے انڈے، سڑی ہوئی سبزیاں اور مرچیں جمع کر لی ہیں۔ اس کے علاوہ اسپرے بھی ساتھ رکھے ہیں کہ اگر کوئی پولیس کا اہلکار رستے میں آئے تو اس کا مقابلہ آنکھوں میں مچھر مار سپرے کر کے کیا جا سکے۔

    پی ٹی آئی کی خواتین کارکن کے ساتھ ساتھ بچیاں بھی اسلام آباد لاک ڈاؤن میں شامل ہونے کے لئے پرجوش ہیں اوربیلن تھامے لڑائی کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنان کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں‘ گزشتہ دو دنوں سے آنسو گیس شیلنگ اور  لاٹھی چارج کا سلسلہ پولیس کی جانب سے جاری ہے۔پولیس نے تحریک انصاف کی خواتین رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔

    عمران خان کا کہنا ہے کارکنان دو نومبر کو ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں اورحکومت سے کرپشن کا حساب لیں۔

  • داعش کے ظلم کا شکار عراقی خواتین کے لیے یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز

    داعش کے ظلم کا شکار عراقی خواتین کے لیے یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز

    اسٹارسبرگ: داعش کی قید سے رہائی پانے والی دو یزیدی خواتین کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے نوازا جارہا ہے۔

    سخاروف انعام برائے آزادی اظہار ایک روسی سائنسدان آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جانے والا انعام ہے۔ اس کا آغاز دسمبر 1988 میں یورپی پارلیمنٹ نے ان افراد کے لیے کیا جنہوں نے آزادی اظہار، انسانی حقوق کی بالادستی اور تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا اور نتیجہ میں انہیں حکمران طبقوں یا حکومت کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین کی غیر قانونی قید ۔ غیر انسانی مظالم کی دردناک داستان

    رواں برس یہ ایوارڈ دو یزیدی خواتین نادیہ مراد طحہٰ اور لامیا حاجی بشر کو دیا جائے گا۔ یہ دونوں خواتین داعش کی ظالمانہ قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں جس کے بعد اب یہ عراق کے اقلیتی مذہب یزید کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

    اس انعام کے لیے ترکی کے ایک جلا وطن صحافی کان دندار اور کریمیا میں اقلیتی طبقے کے حقوق کے لیے سرگرداں سماجی کارکن مصطفیٰ جمیلاو کو بھی نامزد کیا گیا تاہم انعام کی حقدار یہ دونوں خواتین قرار پائیں۔

    گزشتہ برس یہ انعام سعودی بلاگر رائف بداوی کو دیا گیا تھا۔ بداوی نے سنہ 2008 میں سعودی عرب میں ’لبرل سعودی نیٹ ورک‘ کے نام سے ایک آن لائن فورم تشکیل دیا تھا جس کا مقصد سعودی عرب میں مذہبی اور سیاسی معاملات پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

    saudi

    بداوی کی اس کوشش کو توہین مذہب کا نام دیا گیا اور اس کی پاداش میں اسے دس سال قید اور ایک ہزار کوڑے مارے جانے کی سزا سنائی گئی۔

    نادیہ مراد طحہٰ کون ہیں؟

    عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ کی زندگی اس وقت ایک بھیانک خواب بن گئی جب 2014 میں داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب واقع ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔

    داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجؤں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔

    وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں۔

    نادیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہو کر اپنی کہانی سنا چکی ہیں جس نے وہاں موجود تمام افراد کو رونے پر مجبور کردیا۔

    nadia-2

    وہ ایک عرصے سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے، داعش کی قید میں موجود خواتین کو آزاد کروایا جائے اور داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے جس میں انہیں شکست ہو، اور اس کے بعد داعشی جنگجؤں کو جنگی مجرم قرار دے انہیں عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

    گزشتہ ماہ نادیہ کو اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا گیا ہے جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    nadia-2

    دوسری جانب لندن کی مشہور وکیل برائے انسانی حقوق اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی نے عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    نادیہ مراد کی جانب سے دائر کیے جانے والے اس کیس کے بعد اب یہ دونوں خواتین اس مہم پر ہیں کہ عالمی طاقتوں کو داعش کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے پر زور دیا جائے۔

    nadia-3

    واضح رہے کہ داعش کی قید میں موجود خواتین اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین المیہ کی مثال ہیں۔ یہ خواتین داعش کے لیے جنسی غلام یعنی سیکس سلیوز کی حیثیت رکھتی ہیں جن کا مقصد داعش جنگجؤں کی نسل میں اضافہ کرنا ہے۔

    جو خواتین اپنے جنسی استحصال سے انکار کردیتی ہیں، انہیں داعش کی جانب سے بدترین اور بھیانک سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے ایک سزا زندہ جلایا جانا بھی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے 7 ہزار خواتین کو اغوا کرکے غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عراق کے یزیدی قبیلے سے ہے۔ مختلف ممالک سے کچھ خواتین اپنی مرضی سے داعش میں شمولیت اختیار کرنے آئی ہیں تاہم داعش کی جانب سے غیر انسانی سلوک کے باعث اب یہ بھی اس قید سے رہائی چاہتی ہیں۔

  • صبا قمر کی فٹنس کا راز کیا ہے؟

    صبا قمر کی فٹنس کا راز کیا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں معروف اداکارہ صبا قمر کی فٹنس کا راز کیا ہے؟

    صبا قمر پاکستانی ڈراموں کی ایک معروف اداکارہ ہیں اور وہ متعدد ٹی وی ڈراموں اور ٹیلی فلمز میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔

    اب وہ ایک فلم لاہور سے آگے میں جلوہ گر ہونے جارہی ہیں جو اے آر وائی فلمز کے بینر تلے بنائی گئی ہے۔

    فلم کی کاسٹ نے اے آر وائی نیوز کی ٹیم کو خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اپنی ذاتی و عملی زندگی کے بارے میں کئی دلچسپ راز بتائے۔

    صبا قمر نے بتایا کہ لوگوں کو لگتا ہے وہ بہت نخریلی اور مغرور ہیں لیکن حقیقی زندگی میں وہ بہت عاجز شخصیت ہیں۔

    وہ ڈرامہ سیریل ’مات‘ کو اپنی زندگی بدل دینے والا تجربہ قرار دیتی ہیں۔ ڈرامہ سیریل مات دو بہنوں کی چپقلش پر مبنی ڈرامہ تھا جس میں مرکزی کرداروں میں اداکارہ آمنہ شیخ اور صبا قمر شامل تھیں۔

    بقول صبا کے، یہ ان کی عملی زندگی کا پہلا منفی کردار تھا جو دیکھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔ بعد ازاں فلم کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف اور مصنف یاسر حسین نے بتایا کہ انہوں نے صبا کو فلم میں لینے کا فیصلہ اسی ڈرامے میں صبا کی اداکاری کو دیکھنے کے بعد کیا تھا۔

    اپنی فٹنس کا راز بتاتے ہوئے صبا قمر کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ محنتی ہیں اور کسی بھی لمحہ فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔ ہر لمحہ وہ کسی نہ کسی جسمانی حرکت میں مصروف رہتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ جم نہیں جاتیں البتہ جب کبھی گھر میں انہیں فراغت ملتی ہے وہ میوزک لگا کر رقص کرنا پسند کرتی ہیں۔ یہ ان کا شوق بھی ہے اور اس بہانے ان کی ورزش بھی ہوجاتی ہے۔

    فلم کے مصنف اور ہیرو یاسر حسین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد انہیں ہمیشہ نصیحت کرتے تھے کہ اپنے اندر کبھی کسی قسم کا کوئی خوف مت رکھنا، حتیٰ کہ میرا بھی نہیں۔

    اس نصیحت کا یاسر پر اتنا اثر ہوا کہ وہ اپنے والد سمیت واقعی ہر چیز سے بے خوف ہوگئے، ’بعد میں والد صاحب اپنی اس نصیحت پر بہت پچھتائے‘۔

    یاسر کا کہنا تھا کہ اس نصیحت نے انہیں زندگی میں بڑے بڑے چیلنجز قبول کرنے کی ہمت دی یہاں تک کہ اب موت کا خوف بھی ان کے دل سے نکل گیا، ’موت کوئی ڈرنے والی چیز نہیں، یہ جب آئے گی تو آپ بہتر جگہ پر پہنچ جائیں گے‘۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ فیس بک استعمال نہیں کرتے۔

    صبا نے بتایا کہ ایک بار انہوں نے اپنے بارے میں منی لانڈرنگ کی افواہ سنی۔ ’میں نہیں جانتی یہ افواہ کس طرح اور کیوں نکلی لیکن یہ بہت حیرت انگیز تھی‘۔ بقول ان کے اس افواہ نے انہیں بے حد دکھ بھی پہنچایا۔

    فلم کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ اس مقولے پر عمل کیا کہ اپنے باس خود بنو، ’بی یور اون باس‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ اس مقام پر ہیں اور انہیں کسی کی ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں۔

    اے آر وائی فلمز اور شوکیس فلمز کے مشترکہ تعاون سے بننے والی فلم لاہور سے آگے رواں برس 11 نومبر کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

  • فلم ’لاہور سے آگے‘ اور ’کراچی سے لاہور‘ مختلف فلمیں

    فلم ’لاہور سے آگے‘ اور ’کراچی سے لاہور‘ مختلف فلمیں

    پاکستانی فلم ’لاہور سے آگے‘ کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف کا کہنا ہے کہ یہ فلم ’کراچی سے لاہور‘ کا سیکوئل ہرگز نہیں ہے۔ اس فلم میں آپ کو ہر چیز مختلف نظر آئے گی۔

    اے آر وائی فلمز اور شوکیس فلمز کے مشترکہ تعاون سے بننے والی فلم لاہور سے آگے بہت جلد سینما گھروں کی زینت بننے والی ہے۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں صبا قمر اور یاسر حسین شامل ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف ہیں جبکہ یاسر حسین ہی فلم کے مصنف بھی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فلم کی مرکزی کاسٹ صبا قمر، یاسر حسین اور ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے فلم کے بارے میں بتایا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے بتایا کہ اس فلم کو کراچی سے لاہور کا سیکوئل نہیں کہا جاسکتا۔ یہ دونوں فلمیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

    اس سے قبل کراچی سے لاہور میں مرکزی کردار عائشہ عمر اور شہزاد شیخ نے ادا کیا تھا۔

    اس بار فلم کے مرکزی کردار کے لیے صبا قمر کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس بارے میں ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے بتایا کہ ایک تو اس کردار کے لیے لمبی لڑکی چاہیئے تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اور یاسر نے صبا کے بے شمار ڈرامے دیکھے تو ان کے کرداروں کے تنوع سے انہیں اندازہ ہوا کہ صبا ایک ورسٹائل اداکارہ ہیں۔

    انہیں محسوس ہوا کہ صبا اس کردار کو بخوبی نبھا سکتی ہیں اور وہ ان کی توقعات پر پورا اتریں۔ یاسر نے یہ بھی بتایا کہ صبا کا تعلق لاہور سے ہے اور فلم میں ایک لاہوری لڑکی ہی کی ضرورت تھی جس کے لہجے سے لاہور کی پہچان جھلکے۔ ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرعہ فال صبا قمر کے نام نکلا۔

    اپنے کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صبا قمر نے بتایا کہ وہ فلم میں ایک موسیقار کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی مستقل تکمیل کے لیے نہایت جنونی ہے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ فلم میں ایک اور کردار موجود ہے جو اس راک اسٹار کا بوائے فرینڈ ہے لیکن وہ کردار کون ادا کر رہا ہے، یہ فلم بینوں کے لیے ایک سرپرائز ہوگا۔

    صبا قمر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہیں اور وہ متعدد ٹیلی فلمز اور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں، تاہم ڈرامہ اور فلم میں اداکاری کے درمیان انہیں کیا فرق محسوس ہوا؟

    اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبا نے بتایا کہ فلم کا کینوس اور اس میں اداکاری کا دائرہ وسیع ہے۔ انہوں نے فلم اور ڈرامہ دونوں میں اداکاری کے لیے بہت محنت کی اور دونوں میں کام کر کے وہ بہت لطف اندوز ہوئیں۔

    مزید پڑھیں: فلم لاہور سے آگے دیکھیں اور میری زندگی بچائیں

    فلم کی شوٹنگ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کی گئی ہے۔ اس بارے میں یاسر نے ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے (جگہ اور افراد کے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے) بتایا کہ ایک مقام پر ٹراؤٹ مچھلی بے حد مشہور تھی اور وہاں باقاعدہ ایک وزیر صاحب بھی تھے جن کا خود ساختہ شعبہ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش تھا۔

    انہوں نے فلم کی کاسٹ کے لیے کئی ڈبوں میں بھر کر ٹراؤٹ مچھلی بھجوا دی۔ وہ مچھلی مقدار میں اس قدر زیادہ تھی کہ اس دن وہاں آس پاس موجود تمام ہوٹلوں کے چوکیداروں تک نے ٹراؤٹ مچھلی کھائی۔ بقول یاسر وہاں سے گزرتے لوگوں کو روک کر ٹراؤٹ مچھلی کھلائی گئی تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔

    فلم لاہور سے آگے مرکزی کرداروں کے سفر پر مشتمل ہے جس کے دوران انہیں مختلف سنگین و رنگین حادثات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں پانچ گانے شامل کیے گئے ہیں۔ ایک آئٹم سانگ بھی شامل ہے جسے صبا قمر اور یاسر حسین پر فلمایا گیا ہے۔ فلم کی موسیقی شیراز اوپل نے ترتیب دی ہے۔

    دیگر کرداروں میں بہروز سبزواری، روبینہ اشرف، عتیقہ اوڈھو، عبد اللہ فرحت اللہ اور عمر سلطان بھی شامل ہیں۔

    فلم بنیادی طور پر مزاحیہ اسکرپٹ پر مشتمل ہے اور فلم کی کاسٹ کا کہنا ہے کہ یہ 2 گھنٹے فلم بینوں کی زندگی کے پر مزاح ترین اور بہترین 2 گھنٹے ثابت ہوں گے۔

    اے آر وائی فلمز کی پیشکش لاہور سے آگے رواں سال 11 نومبر کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

    تصاویر: حمزہ عباس

  • مہندی سے مصوری کرنے والی فلسطینی خاتون

    مہندی سے مصوری کرنے والی فلسطینی خاتون

    غزہ : ایسی فلسطینی خاتون جنہوں نے مہندی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور مہندی سے یروشلم میں تاریخی مقامات اور فلسطینی علاقوں کے شاندار فن پارے بنا ڈالے۔

    مہندی کا رواج کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے جو مشرقی خواتین کے بناؤ سنگہار کا جزو لازم ہے ،خوشی کی کوئی موقع ہو یا شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو مہندی کے بغیر کا بناو سنگھار ادھورا ہوتا ہے۔ لیکن فلسطینی خاتون نے مہندی کے ڈیزائنز کو ہاتھوں پرسے نکال کر کینوس پر بکھیر دیا۔

    gaza-post-2

    فلسطینی خاتون فاطمہ نے کینوس پر مہندی کا استعمال کرکے خوبصورت فن پارے بنا ڈالے، فاطمہ نے مہندی کو مصوری کے انداز کچھ اسطرح ڈھالا کہ پہلی ہی نظر میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

    فاطمہ نے مہندی سے اس طرح نقش نگاری کی کہ حقیقت کا گماں ہونے لگتا ہے، مہندی سے اب تک کئی تاریخی مقامات کے پورٹریٹس بنائے ہیں۔

    gaza-post-1

    فلسطینی خاتون اپنے اس فن کو بین الاقوامی سطح پر آگے بڑھانے کی خواہاں ہیں۔

    فاطمہ 2020 میں ہونے والی نمائش کیلئے کام کر رہی ہے ، جس کا مضمون ‘زمین اور مہندی’ ہے، انکا مقصد فلسطینیوں کی حالت زار پر توجہ دلانا ہے۔

  • لڑکیوں کا عالمی دن، پاکستان کا نام روشن کرنے والی طالبات

    لڑکیوں کا عالمی دن، پاکستان کا نام روشن کرنے والی طالبات

    کراچی : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج لڑکیوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل ، صنفی امتیاز، مساوی مواقع کی عدم دستیابی، بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں مشکلات اورمظالم وتشدد کی طرف دنیاکی توجہ مبذول کروانا ہے۔

    دنیا بھر میں 11 اکتوبر کو انٹر نیشنل ڈے فار دی گرلز چائلڈ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 19 دسمبر 2011 کو یہ دن منانے کی قرار داد پاس کی تھی۔

    اقوام متحدہ کے اداراہ یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں پرائمری اسکول جانے کی عمر والی تین کروڑ 10 لاکھ بچیاں اسکول نہیں جا رہی ہیں، دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی عمر کی ہر چار میں سے ایک لڑکی کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پاکستان میں اس عمر کی تیس فیصد لڑکیوں کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا ہے۔


    پاکستان کا نام روشن کرنے والی لڑکیاں


    حدیقہ بشیر

    hadiqa

    پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ حدیقہ بشیر کو ایشین گرلز کی سفیر مقرر کیا گیا ہے، وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں۔

    عالیہ حریر

    aliya

    عالیہ حریر کو بھارت میں جاری ‘گلوبل یوتھ پیس فیسٹول‘ میں انہیں گلوبل یوتھ آئیکن ایوارڈ سے نوازا گیا، عالیہ 19 طالبات کے وفد ساتھ چندی گڑھ گئی تھیں۔ وہ پاکستان سے مختلف اسکولوں کے طلبہ کی جانب سے دوستی اور امن کے پیغام کو لے کر بھارت گئی تھیں۔

    شوانہ شاہ

    shawana

    پاکستانی طالبہ شوانہ شاہ نے امریکہ میں محمد علی ہیومنٹرین ایوارڈ جیت کر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کردیا، شوانہ شاہ سال دو ہزار بارہ سے معاشرے کی پسماندہ خواتین اور ان پر ہونے والے تشدد اور جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کے حقوق کیلئے کام کررہی ہیں۔

    سدرہ

    sidra

    صوابی سے تعلق رکھنے والی طالبہ سدرہ نے چارٹرڈ اکاونٹنٹ کے امتحان میں 180 ممالک کے طلبا و طالبات کو مات دے کر پوری دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔

    روما سیدین

    roma

    پاکستان کی روما سیدین نے کم ترین عمر میں ایتھیکل ہیکر کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔ ایتھیکل ہیکنگ کا کورس کرنے والے عموما 18 سال کی عمر میں اسے مکمل کر پاتے ہیں، لیکن پاکستان کی روما سیدین نے ساڑھے 13 سال کی عمر میں اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے عالمی اعزاز حاصل کیا۔

    سارہ احمد

    sarah

    پاکستان کی سارہ احمد جو لاہور کی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی طلبہ ہے، مائیکروسافٹ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہیرو مائیکروسافٹ پارٹنر کے ایوارڈ 2016 سے نوازا۔

     

  • پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی صنفی امتیاز کے ممالک کی فہرست میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ فہرست میں شامل 145 ممالک میں پاکستان کا نمبر 144واں ہے۔ ملک میں مختلف افراد اور ادارے صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہم نے ایسی ہی ایک نوجوان خاتون عروج اشرف اعوان سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں صنفی امتیاز کی وجہ آخر کیا ہے؟

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ جب تک خواتین تعلیم حاصل نہیں کریں گی، انہیں اپنے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہوگا اور وہ اپنے لیے کیے جانے ہر فیصلے کو، چاہے وہ ان کے لیے درست ہو یا نہ ہو، آرام سے قبول کرلیں گی۔

    دوسری وجہ خواتین کا معاشی طور پر خود کفیل نہ ہونا ہے۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اکثریت کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں اور وہ لامحالہ اپنے سرپرستوں کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہوتی ہیں۔

    تاہم عروج اشرف اعوان کا ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’صنفی امتیاز‘ کی تشریح غلط کی جاتی ہے۔

    وہ اس کی وضاحت کچھ یوں کرتی ہیں، ’صنفی امتیاز کا تعین چار چیزوں پر کیا جاتا ہے۔ معاشی عمل میں شرکت، تعلیمی مواقع، سیاسی خود مختاری، اور طبی سہولیات‘۔

    اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عروج اشرف وہ واحد پاکستانی نوجوان ہیں جو بین الاقوامی مہم ’ہی فار شی‘ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کے تحت شروع کی جانے والی اس مہم ’ہی فار شی‘ کا آغاز ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن نے کیا اور اس کا مقصد خواتین کی خود مختاری اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں مردوں کے کردار کو آگے لانا ہے۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    چند دن قبل اس مہم کے دو سال پورے ہونے کے موقع پر نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں اقوام متحدہ کے نمائندگان سمیت جاپان کے وزیر اعظم شنزو ایبے، اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی شرکت کی۔

    عروج نے اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے متاثر کن خیالات کا اظہار کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عروج کا کہنا تھا کہ معاشی عمل میں شرکت سے مراد اچھی ملازمتوں کے یکساں مواقع، یکساں تنخواہیں، اور اداروں میں رہتے ہوئے مختلف مواقع حاصل کرنے کا یکساں امکان ہے۔ تعلیم چاہے ابتدائی ہو، ثانوی یا اعلیٰ تعلیم، مرد و خواتین دونوں کے لیے اس کو حاصل کرنے کے یکساں مواقع ہوں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی بامعنی شمولیت، اور مردوں کو حاصل تمام طبی سہولیات کی خواتین کو بھی یکساں فراہمی دراصل صنفی برابری کی نشانی ہے۔

    عروج کا تعلق ایک آرمی خاندان سے ہے۔ وہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ایک ہیں جنہیں بچپن سے ہی وہی اہمیت و مواقع حاصل ہوئے جو ان کے بھائیوں کو ملے۔ انہیں اس صنفی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا آغاز سب سے پہلے لڑکیوں کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔

    البتہ اپنی یونیورسٹی میں ان کا جنسی متعصبانہ رویے سے ضرور واسطہ رہا۔ انہوں نے لاہور کی ایک مشہور انجینیئرنگ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں 20 لڑکوں کے مقابلے میں ایک لڑکی زیر تعلیم تھی۔

    ہی فار شی کی تقریب میں عروج نے بتایا، ’میرے کلاس فیلوز مجھے کہا کرتے تھے، لڑکیوں کو اچھے گریڈز ان کی کارکردگی و ذہانت کی بنیاد پر نہیں ملتے، بلکہ اس بنیاد پر ملتے ہیں کہ انہوں نے کتنا میک اپ کیا ہوا ہے‘۔

    عروج کا خیال تھا کہ ایک پڑھے لکھے ماحول کا حصہ ہونے کے باوجود انہیں ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ایک مڈل کلاس عام لڑکی کو کیا کیا نہ سننا پڑتا ہوگا۔

    یہی وہ خیال تھا جس نے انہیں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔

    دوران تعلیم انہوں نے اپنی ساتھی طلبا کے ساتھ مل کر لڑکیوں کے لیے ایک سوسائٹی ’زمل‘ تشکیل دی جس کا مقصد صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے آگاہی پیدا کرنا تھا۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    گزشتہ برس عالمی یوم خواتین کےموقع پر زمل نے لڑکوں کی ایک تنظیم ’خاردار‘ کے ساتھ مل کر ہی فار شی مہم کا پاکستان میں آغاز کیا۔ ’ایز برادر وی اسٹینڈ‘ کے نعرے کے ساتھ خاردار نامی تنظیم کا مقصد کم و بیش یہی تھا کہ خواتین کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مرد قدم بڑھائیں۔

    عروج بتاتی ہیں، ’اس مہم کے تحت ہم نے صنفی امتیاز کے خاتمے کی آگاہی کے لیے پوسٹرز تقسیم کیے اور بینرز لگائے۔ ہمارا مقصد تھا کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ وہ کون سے رویے ہیں جو صنفی امتیاز کا سبب بنتے ہیں‘۔

    لیکن حسب توقع، لوگوں کو اس سے اختلاف تھا۔ عروج اور اس کے ساتھیوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ ان کے لگائے گئے بینرز پھاڑ دیے گئے۔ کچھ لوگوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت کی کہ اس قسم کی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے لیے مناسب نہیں۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی تنازعہ سے بچنے کے لیے عروج اور اس کی ٹیم کو اپنی مہم بند کرنے کا حکم دیا۔

    لیکن یہ چیز ان لوگوں کو ان کے مقصد سے نہ ہٹا سکی۔

    عروج نے بتایا کہ لوگ اس سے پوچھتے تھے، ’تم ایک بہترین زندگی گزار رہی ہو، ایک اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہی ہو، پھر تم کس امتیاز کی بات کرتی ہو‘؟ اور عروج کا جواب تھا، ’بات صرف میری نہیں، ہر اس لڑکی کی ہے جسے اپنے حقوق کے لیے بولنے کی اجازت نہیں‘۔

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ خواتین کی معاشی خود مختاری اور تعلیم دونوں ہی ان کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ’معاشی طور پر خوشحال خواتین اپنی صحت سے متعلق مسائل کا حل نکال سکتی ہیں۔ جبکہ تعلیم انہیں قومی سیاست میں باعمل بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    عروج کا ماننا ہے کہ خود مختار اور باعمل خواتین مستحکم معاشرے کی تشکیل اور اس کے امن میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں اور نئی نسل کی بہترین تربیت کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنا سکتی ہیں۔

    عروج، ان کی ٹیم اور زمل کے بانی ارکان کو صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے پر گزشتہ برس ’ہی فار شی ہیرو ۔ گلوبل ایوارڈ‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    وہ کون سا قدم ہے جو پاکستان میں صنفی امتیاز کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عروج نے بتایا کہ آگاہی اور تعلیم دو بنیادی چیزیں ہیں۔ ’لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع دینے سے ان کی مذہبی و معاشی اقدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ صنفی امتیاز کا خاتمہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    عروج کا کہنا تھا، ’اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دیے جسے ہم دوسرے لفظوں میں ان کی خود مختاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے قبل خواتین کی حیثیت مردوں کے لیے ایک مفتوحہ شے جیسی تھی۔ عزت کے ساتھ تمام بنیادی حقوق، اور یکساں مواقعوں کی فراہمی اسلام ہی نے عورت کو فراہم کیے‘۔

    عروج بتاتی ہیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے ملنا ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا۔ ’جسٹن ٹروڈو موجودہ دور کے وہ واحد لیڈر ہیں جو حقوق نسواں کے حامی اور علمبردار ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں‘۔

    نیویارک میں ہونے والی اس تقریب میں عروج کی تقریر کو بے حد سراہا گیا اور شنزو ایبے اور جسٹن ٹروڈو سمیت حاضرین نے کھڑے ہو کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

    عروج کا عزم ہے کہ وہ اس مہم کو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں گی۔ ’ملک بھر سے اب تک 6 ہزار افراد (مرد) اس مہم میں شامل ہو کر اپنے آس پاس کی خواتین کو خود مختار بنانے کا عزم کر چکے ہیں‘۔

    عروج کی متاثر کن تقریر کے بعد پاکستان اب ہی فار شی کے پلیٹ فارم پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ عروج اب اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے پوری طرح وقف کر چکی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس مہم کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کریں گی۔

  • بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    لاہور: آج دنیا بھر میں جہاں اساتذہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے وہیں ایک پاکستانی خاتون استاد آج کے دن سے بے نیاز اپنے فرائض کی انتھک تکمیل میں مشغول ہیں۔

    سنہ 1994 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کو منانے کا مقصد استاد کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے زیر اہتمام یہ دن اساتذہ کے نام کیا گیا تاکہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔

    پاکپتن سے تعلق رکھنے والی فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔

    پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات تھی۔

    مزید پڑھیں: بائیک پر ایسا سفر جس نے زندگی بدل دی

    فریدہ اور بائیک کا ساتھ کافی پرانا ہے۔ پاکپتن ڈاٹ سجاگ کے مطابق پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا۔ اسی طرح ایک لمبا سفر کر کے انہوں نے اعلٰ تعلیم حاصل کی۔

    فریدہ کو معلمہ بننے کا بچپن سے شوق تھا۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح اپنی تعلیم مکمل کر کے گھر بیٹھ کر اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ اپنے نواحی گاؤں میں نئی نسل کی علم کی پیاس کو سیراب کریں۔

    فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے ابتدا میں لوگوں نے بہت باتیں بنائیں اور ہمارے گھرانے کو عجیب و غریب نگاہوں اور باتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن میں نے ان تمام رویوں کو نظر انداز کیا۔ آج وہی لوگ اپنی بچیوں کو میرے پاس پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں‘۔

    فریدہ کے اس ان تھک سفر میں انہیں ان کے گھر والوں اور والدین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    ان کے والد خود تو مڈل پاس ہیں لیکن انہیں جنون ہے کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے۔ فریدہ کا ایک بھائی انٹر میڈیٹ جبکہ دوسرا بی ایس سی انجئینرنگ کا طالب علم ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈینٹسٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    فریدہ اپنی تنخواہ سے اپنے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں بھی اپنے والد کی مدد کرتی ہیں۔

    فریدہ کا عزم ہے کہ پاکپتن جیسے غیر ترقی یافتہ شہر میں وہ لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ بھی بڑی ہو کر ایک اور فریدہ پروین بن سکیں۔

  • یومِ شہادتِ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    یومِ شہادتِ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، عدل و انصاف کی بات ہو تو آپؓ اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔

    خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

    حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام

    اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں،

    حضرت عمر بن خطابؓ وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام، دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔

    جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا ۔

    اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔

    لقب فاروق کیسے ملا

    فاروق کا مطلب ہے کہ ’فرق کرنے واالا ‘، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ اور آپؓ کو فاروق کا لقب ملا ۔

    حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

    میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔

    عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔

    جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)۔

    میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)۔

    دور خلافت

    آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ

    اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا

    حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا، بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

    قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔

    حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ

    اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا

    اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔

    حضرت عمر کے دور میں فتح کئے گئے علاقے

    حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان، تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔

    حضرت عمر ؓ کے دور میں قائم ہونے والے محکمے

    محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

    ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے۔

    ۔ آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں

    ۔ اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا ۔

    ۔ مردم شماری کی بنیاد ڈالی، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔

    ۔ احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی۔

    ۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے، سن ہجری جاری کیا، محصول اور لگان،

    ۔ زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں، نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں میں ترتیب دیا گیا

    ۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا

    ۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع، باجماعت نماز تراویح، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ۔

    ۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام، نئے شہروں اور صوبوں کا قیام

    ۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء۔ جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام

    ۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت، مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف

    ۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام، بچوں کے وظائف،

    ۔ قیاس کا اصول رائج کیا، فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا

    ۔ امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا

    شہادت 

    اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔

    یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ثمر، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

     

    وہ عمر جس کے ا عداء پہ شیدا سقر
    اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام

  • شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا 121 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا 121 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم شہید ملت لیاقت علی خان کا ایک سو اکیسواں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔

    یکم اکتوبر اٹھارہ سو پچانوے کو بھارتی پنجاب کے گاؤں کرنال میں پیدا ہونے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی، لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ چلے گئے۔

    pm-post-15

    سن 1923 میں ہندوستان واپس آتے ہی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی، لیاقت علی خان اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث جلد ہی قائداعظم کے قریب ہو گئے اور تحریک پاکستان کے دوران ہر اہم سیاسی معاملے میں قائداعظم کی معاونت کی۔

    pm-post-4

    انیس سو تینتیس میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، قائد ملت لیاقت علی خان برٹش حکومت کی عبوری حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ بھی منتخب ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے انھیں ملک کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا، جس پر قائد کے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لئے انھوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن مملکت خداداد پاکستان کے خلاف سازشیں ابتدا میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔

    pm-post-3

    لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔

    pm-post-2

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ واقعہ انیس سو اکیاون کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام میں اس وقت پیش آیا، جب لیاقت علی خان خطاب کیلئے ڈائس پر پہنچے،اس دوران سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں،ان کے آخری الفاظ تھے “خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس نے گولیوں سے اڑا دیا۔

    pm-post-1

    اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا، لیاقت علی خان کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔