Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

    ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

    اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

    یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

    اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

    کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

    تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

    جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

    اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

    جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

     مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

    جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    آپ کو وہ زمانہ یقیناً یاد ہوگا جب بڑے بڑے گھروں میں خوبصورت دالان ہوا کرتے تھے۔ دالان وہ کشادہ اور وسیع راہداریاں ہوتی ہیں جو آج کل کی تنگ راہداریوں کی طرح صرف گزرنے کے کام نہیں آتیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا سامان رکھ کر اکثر محفلیں سجائی جاتی تھیں اور بچے ان دالانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دالانوں پر چھت بھی ہوتی ہے جو عموماً محراب دار ہوتی ہے۔

    ایران کے کئی شہروں میں ایسے بازار موجود ہیں جو محراب دار دالانوں کی شکل میں ہیں یعنی وسیع اور چوڑی راہداریوں میں دکاندار اپنا خوانچہ سجائے بیٹھے ہیں۔

    لیکن اب یہ مقام شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے طرز زندگی اور کم جگہ کے باعث رہائش کے لیے فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی تعمیر نے صرف ایک دالان تو کیا ہمارے رہنے کے لیے مناسب کھلی جگہ بھی چھین لی۔ ایک گنجان آباد شہر میں رہنے والا شخص شاید ہی بتا سکے کہ اس نے آخری بار آسمان پر چاند کب دیکھا تھا؟ یا وہ کون سا دن تھا جب اس نے آخری بار سورج ڈھلتے دیکھا؟ یا جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو اسے ابلتے گٹروں، جا بجا کھڑے پانی اور لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو بھی محسوس ہوئی جو بارش کا پہلا قطرہ زمین پر پڑتے ہی چہار سو پھیل جاتی ہے؟

    آپ سمیت یقیناً بہت سے افراد ان سوالات پر تذبذب کا شکار ہوجائیں گے۔

    تو چلیں پھر آپ کو ان لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے شاید ان سب کو محسوس کیا ہو تب ہی ان چیزوں کو یاد کروانے کے لیے انہوں نے اپنا تصوراتی اور تخیلاتی دالان تشکیل دے ڈالا۔

    چھ افراد پر مشتمل پاکستانی تخلیق کاروں کی تخلیق ‘دالان‘ آج کل لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں ہونے والی لندن ڈیزائن بینالے 2016 میں جلوہ گر ہے جو مشرقی و مغربی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

     یہ ڈیزائن کراچی کے کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کے تخلیق کاروں نے تشکیل دیا ہے جس میں ایک تخیلاتی دالان کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسٹوڈیو اس سے قبل بھی ’نروان‘ اور ’زاویہ‘ نامی ڈیزائن تشکیل دے چکا ہے جو ادب اور مصوری کی سرحدوں کو ملا کر تشکیل دیے گئے ہیں۔

    یہاں کی سب سے منفرد چیز گھومنے والے اسٹولز ہیں جنہیں لٹو کا نام دیا گیا ہے۔ چھت سے اسکرین پرنٹ (ڈیجیٹل سطح پر سیاہی یا دھات سے تصویر کشی) کے ذریعہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت سے جڑے بچوں کے مختلف کھیلوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

    لندن میں ہونے والی اس نمائش کا مرکزی خیال آرٹ کے ذریعہ یوٹوپیا (خیالی دنیا) تشکیل دینا ہے جہاں فنکار اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت میں ڈھال کر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک فنکار کے تصور کی کوئی سرحد نہیں لہٰذا یہاں پیش کیے گئے نمونہ فن ایسے ہیں جو عام افراد کی سوچ و ادراک سے بالکل بالاتر ہے۔

    دالان کے تخلیق کاروں کی ٹیم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی ثقافت کو بیرون ملک پیش کرتے ہوئے نہایت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ’لوگ یہاں آتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تشکیل دیا گیا نمونہ فن دراصل پاکستانی ثقافت و روایت کا حصہ ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں‘۔

    سلمان جاوید، فائزہ آدم جی، علی حسین، مصطفیٰ مہدی، حنا فینکی، اور زید حمید پر مشتمل یہ تمام فنکار انڈس ویلی اسکول آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں اور چونکہ اس ٹیم میں ماہر تعمیرات (آرکیٹیکچر)، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اور گرافک ڈیزائنر شامل ہیں لہٰذا ان تمام علوم کی آمیزش سے تخلیق کیا ہوا فن پاکستانی فن و مصوری کو نئی جہتیں عطا کررہا ہے۔

    لندن میں جاری اس 10 روزہ نمائش میں ’دالان‘ کو یہاں پیش کی گئی بہترین 6 تخلیقات میں سے ایک کا اعزاز مل چکا ہے۔ کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کی ٹیم اس سے قبل گذشتہ برس بھی دبئی ڈیزائن ویک میں پاکستانی پویلین کے ذریعہ اپنا فن پیش کر چکی ہے جسے بہترین پویلین کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    دالان کی روایت و رومانویت نے دراصل اردو شاعری کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔

    کئی شاعر اپنی شاعری میں محبوب کے ہجر و فراق میں دالان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
    ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

    ۔ جون ایلیا

    دالان کے تخلیق کاروں کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان کے فن کو دیکھیں تو وہ اس بھولے بسرے وقت کو یاد کریں جب لمبی دوپہریں اور ٹھنڈی شامیں دالانوں کے سائے میں گزرتی تھیں اور انہیں احساس ہو کہ زندگی کی تیز رفتار چال کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں وہ اپنی ثقافت کے خوبصورت پہلوؤں کو بھی بھلا بیٹھے۔

    برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر سید ابن عباس نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور پاکستانی تخلیق کاروں سے ملاقات کی۔ ان کے حیرت انگیز فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آپ لوگ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں اور دراصل آپ ہی پاکستان کی درست اور حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ جس طرح ان فنکاروں نے پاکستانی ثقافت اور طرز زندگی کو اجاگر کیا ہے یہ کوشش نہایت قابل تعریف ہے۔

    پاکستان کی دم توڑتی روایات کو زندہ کرنے کی کوششوں کی اس مثال کا اب تک کئی ہزار افراد دورہ کر چکے ہیں اور وہ اس اچھوتے اور سادہ ڈیزائن کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

    لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں جاری یہ نمائش مزید ایک روز تک جاری رہے گی اور ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے۔

  • پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    یہ ایوارڈ اس ادارے یا فرد کو دیا جانا تھا جو خواتین اور کم عمر لڑکیوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ ’ڈاکٹ ہرز‘ نامی یہ ادارہ غیر ترقی یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران منعقدہ ایوارڈز کی تقریب میں یہ ایوارڈ ادارے کی بانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے وصول کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے ادارے کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ان کا ادارہ طبی سہولیات سے محروم خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ موبائل، یا انٹرنیٹ سے ویڈیو کانفرنس / کال کے ذریعہ خواتین کو طبی آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان کی مختلف بیماریوں کے لیے علاج تجویز کرتا ہے۔

    یہی نہیں یہ ادارہ کئی بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار خواتین کو بھی مختلف طبی ٹریننگز دے کر ان کے ذریعہ روزگار کا سبب بن رہا ہے۔

    ادارے سے منسلک ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو ماہر کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور مڈ وائفس کے ذریعہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روبرو بھی مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔

    ادارے کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ڈاکٹر اشعر حسین اور انہوں نے 2014 میں ایک کمیونٹی ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت تجرباتی طور پر شروع کیا۔ آغاز میں کراچی کے مضافاتی علاقہ سلطان آباد میں ویڈیو کنسلٹنگ کے ذریعہ خواتین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران 6 ماہ میں 100 خواتین اس سے مستفید ہوئیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، مزید لوگ بھی شامل ہوتے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر عفت ظفر کے ساتھ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کردیا جس کے بعد اب پاکستان میں ان کے 9 ٹیلی کلینکس کام کر رہے ہیں۔ 6 کراچی کے مضافاتی علاقوں کورنگی، وائے ایریا لانڈھی، نیو لیاری، ضیا کالونی، بن قاسم اور بلدیہ ٹاؤن میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 2 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں دادار اور مانسہرہ جبکہ ایک پنجاب کے علاقہ حافظ آباد میں واقع ہے جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ایک  سال میں 22 ہزار افراد کو بالواسطہ اور ایک لاکھ افراد کو بلا واسطہ طبی امداد، طبی تربیت اور مختلف طبی سیشن فراہم کرچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    پاکستانی خواتین فلاحی اسپتالوں کی کیوں محتاج ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز کی تعداد صرف 1 لاکھ 57 ہزار 206 ہے یعنی 11 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر۔ ان میں 74 ہزار خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں رہنے والوں میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو کسی قسم کی کوئی طبی امداد میسر نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کو ان کا ادارہ طبی امداد فراہم کرتا ہے ان میں 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں اگر اس ادارے کا آسرا نہ ہو تو انہیں زندگی بھر کوئی اور طبی امداد مل ہی نہیں سکتی۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہمارے ملک میں جاری بدترین صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ہمارے گھروں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اچھا کھانا بھی ان کے لیے، اچھی تعلیم بھی ان کے لیے، تمام سہولیات بھی انہیں میسر، اور اگر وہ بیمار پڑجائیں تو ہزاروں روپے خرچ کر کے بہترین ڈاکٹر سے ان کا علاج کروایا جائے گا‘۔ ’اگلی نسل کی ضامن ہونے کے باوجود لڑکیاں کم اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں اور اس کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہی صنفی تفریق لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی وجہ ہے جیسے لڑکی کوئی بوجھ ہو جس کی جلد سے جلد شادی کر کے بوجھ سے جان چھڑائی جائے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یہی نہیں کم عمری کی شادیاں خواتین پر جنسی و گھریلو تشدد کا باعث بھی بنتی ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ دوران علاج اکثر انہیں خواتین نے کمپیوٹر کی اسکرین پر اپنے مسائل بتانے، یا تکلیف کا شکار کوئی جسمانی حصہ دکھانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں ’اجازت‘ نہیں تھی۔

    انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں اوسٹوپروسس (ہڈیوں کی بوسیدگی / ٹوٹ پھوٹ کا عمل) کا مرض زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی خواتین اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    کام کے دوران ان کی ٹیم کو کن خطرات کا سامنا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ اکثر مضافاتی علاقے مختلف سیاسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں تاہم  ڈاکٹر سارہ کی ٹیم علاقہ کی تمام پارٹیوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد ان کی ٹیم نے بھی غیر معمولی احتیاط کرنی شروع کردی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین عملہ کو ان علاقوں میں جانے کے بعد خراب ماحول کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ عموماً اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ جانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پولیو ٹیم پر حملہ، 4 ورکرز جاں بحق

    اقوام متحدہ میں ملنے والا یہ ایوارڈ ڈاکٹر سارہ اور ان کی ٹیم کے خلوص اور انتھک محنت اور کاوشوں کا اعتراف ہے۔ ’یہ ایوارڈ ان آوازوں کے نام ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا، ان خوابوں کے نام ہے جو پورا ہونا چاہتے ہیں مگر ہو نہیں پاتے، ان مریضوں کے نام ہیں جو قابل علاج بیماریوں کا بھی علاج نہیں کر سکتے اور ان عناصر کے خلاف ایک مزاحمت ہے جو ڈاکٹرز کو ان کے بنیادی فرض یعنی علاج کرنے سے روکتے ہیں‘۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل گولز ایوارڈز گزشتہ برس مقرر کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے۔

    ان کے تحت مزید 2 ایوارڈز ’دا گرل ایوارڈ‘ اور ’دا سوشل چینج ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ دا گرل ایوارڈ 16 سالہ شامی مہاجر لڑکی یسریٰ ماردینی کو دیا گیا جس نے شام سے ہجرت کے دوران اپنی کشتی کو حادثہ پیش آنے کے بعد جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے مہاجرین کی ٹیم میں شامل ہوکر ریو اولمپکس میں بھی شرکت کی۔

    سوشل چینج ایوارڈ تنزانیہ سے تعق رکھنے والی وکیل ربیکا گیومی کو دیا گیا جنہوں نے تنزانیہ میں چائلڈ میرج کے خلاف انتھک کوششیں کیں۔

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    خلیفہ راشد سوئم، کامل حیا و ایمان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا نام عثمان کنیت ابوعبداللہ اورابوعمراور لقب ذوالنورین تھا، آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا۔ آپکا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاشمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں، آپ کا شمارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے۔ اُمت مسلمہ میں کامل الحیاء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔

    حضور اکرم ﷺ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ

    میں اس سے کس طرح شرم نہ کروں ، جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں‘۔

    حضرت عثمان نے ابتدائی زمانہ اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا، آپ نے اسلام کی راہ میں بڑے شدائد برداشت کیے ،مگردامے ،درمے اورسخنے اسلام کے لیے سرگرم رہے، قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کا نکاح حضور اکرمﷺ کی صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہمہ سے ہوگیا، بعدازاں آپ کو ہجرت حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا اور راہ اسلام میں آپ اپنا آبائی وطن ترک کرکے حبشہ چلے گئے۔

    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دونوں(یعنی میاں بیوی) لوط علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے اللہ کی طرف ہجرت کی ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ بھی مدینہ چلے آئے،جہاں آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔غزوہ بدر کے دوران ہی جب حضرت رقیہ کا وصال ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ  کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کر دیا جس کہ بعد آپ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہو گیا۔

    نو ہجری میں جب حضرت ام کلثوم کا بھی وصال ہوگیا اس موقع ابن اثیر نے حضرت علی سے روایت کی نقل ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

    ’اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں انہیں یکے بعد دیگرے عثمان سے بیاہ دیتا‘۔

    مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو میٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی۔شہر مدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھا حضرت عثمان نے ۳۵ ہزاردرہم کے عوض یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا جس پر نبی اکرم نے آپ کو جنت کی بشارت دی۔


    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کنواں


    حضرت عثمان کا ایک لقب غنی بھی تھا اوردرحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق تھے، یوں تو ساری عمر آپ نے اپنا مال بڑی فیاضی سے راہ اسلام میں خرچ کیا تاہم غزوہ تبوک میں آپ کا مالی انفاق حد سے بڑھ گیا آپ نے اس موقع پر روایات کے مطابق نو سو اونٹ،ایک سوگھوڑے ،دو سو اوقیہ چاندی اور ایک ہزار دینار خدمت نبویﷺ میں پیش کیے جس پرخوش ہو کر نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔

    واقعہ صلح حدیبیہ 6 کے نازک موقع پر یہ حضرت عثمانؓ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اور نبی اکرم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ کا پیغام قریش تک پہنچایا اور اس سلسلے میں اپنی جان تک کی پروا نہ کی، اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عثمان کا سب سے عظیم کارنامہ جمع قرآن کا انجام دیا۔

    ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم ﷺکے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ جب آپ اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھےاور کئی دن کے روزے سے تھے۔

    جنت البقیع میں موجود حضرت عثمان ؓ کی قبر مبارک

    آپ کی شہادت کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔

  • پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

    لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔

    پناہ گزین بچوں کے خواب *

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔

    اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔

    مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔

    یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

    1
    حوا

    مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

    2

    یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔

    4
    اردو فدیماتو

    اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔

    5
    یایا دیا آدما

    یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔

    یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

    6
    اوسینا حمادو

    اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔

    7
    نینی داؤدا

    نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔

    اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔

    8

    کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔

  • داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    نیویارک: داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے اور بعد ازاں اپنی جان بچا کر واپس آنے والی عراقی خاتون نادیہ مراد طحہٰ کو اقوام متحدہ نے اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کردیا ہے۔

    عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ ایک عرصے سے داعش کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے۔

    nadia-2

    واضح رہے کہ داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر 2014 میں عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔ داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤوں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

    اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجؤں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔

    nadia-4

    وہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہو کر اپنی کہانی سنا چکی ہیں جس نے وہاں موجود افراد کو رونے پر مجبور کردیا۔ ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    ایک رپورٹ کے مطابق داعش کی قید میں 3200 لڑکیاں موجود ہیں۔ نادیہ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین داعش کے جنگجوؤں کے لیے جنسی غلام کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے عالمی طاقتوں سے انہیں آزاد کروانے کا مطالبہ کیا۔

    مزید پڑھیں: داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے خوف اس بات کا ہے کہ جب ہم داعش کو شکست دے دیں گے تب داعش کے جنگجو اپنی داڑھی منڈوا کر، کلین شیو ہو کر سڑکوں پر ایسے پھریں گے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’مجھے امید ہے کہ داعش کے ظلم کا شکار یزیدی ایک دن اپنی آنکھوں سے اپنے مجرمان کو عالمی عدالت برائے جرائم میں کھڑا ہوا دیکھیں گے جہاں انہیں ان کے انسانیت سوز جرائم کی سزا ملے گی‘۔

    اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر ہونے کے بعد اب نادیہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    اس سے قبل لندن کی مشہور وکیل برائے انسانی حقوق اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’بحیثیت انسان مجھے شرمندگی ہے کہ ہم ان کی مدد کے لیے اٹھنے والی درد ناک صداؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ داعش کو ہر صورت اپنے بھیانک جرائم کا حساب دینا ہوگا‘۔

    nadia-3

    یاد رہے کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے جس میں عراق اور برطانیہ عالمی طاقتوں سے داعش کو اس کے جرائم کی سزا دلوانے کا مطالبہ کریں گے۔ اجلاس میں امل کلونی اور نادیہ مراد طحہٰ بھی شرکت کریں گی۔

    دوسری جانب ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے مہاجرین انجلینا جولی بھی اجلاس میں شرکت کریں گی۔ انہوں نے حال ہی میں اردن کے دارالحکومت عمان سے 100 کلومیٹر دور صحرائی علاقہ میں قائم ازراق مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تھا۔

  • وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل مشل اوباما کی سرگرمیاں

    وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل مشل اوباما کی سرگرمیاں

    واشنگٹن: امریکی خاتون اول مشل اوباما آج کل وائٹ ہاؤس میں اختتامی دن گزار رہی ہیں۔ رخصت ہونے سے قبل انہوں نے امریکی صدر کے ساتھ ایک فیشن میگزین کے لیے فوٹو شوٹ کروایا۔

    بارک اوباما کے دور صدارت کے دوران ان کی اہلیہ مشل اوباما بھی خاصی سرگرم رہیں۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کیا۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے ’لیٹ گرلز لرن‘ نامی منصوبے کا آغاز کیا۔ اس کے تحت پاکستان، افغانستان، اردن اور کئی افریقی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعمیر اور دیگر تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان منصوبوں کے لیے امریکی بجٹ کی ایک خطیر رقم مختص کی گئی۔

    مشل اوباما نے ہالی ووڈ اداکارہ میرل اسٹریپ اور بالی ووڈ اداکارہ فریدہ پنٹو کے ہمراہ لائبیریا اور مراکش میں بھی تعلیمی منصوبوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور و آگاہی کی مہم چلائی۔

    michelle-2

    مشل اوباما کی سربراہی میں چلنے والا ایک اور منصوبہ ’مائی برادرز کیپر‘ ہے۔ اس کے تحت امریکا میں آباد سیاہ فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی استعداد میں اضافہ کے لیے کام کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی اور امریکی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    حال ہی امریکی خاتون اول نے 2 میگزینز کے لیے فوٹ شوٹ کروایا ہے۔ ایک میں وہ امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دوسرے میں وہ اکیلی میگزین کے سرورق پر جلوہ گر ہیں۔

    m5

    دونوں فوٹو شوٹس میں وہ اپنے منفرد سادہ اسٹائل میں نظر آرہی ہیں۔

    اس بارے میں مشل اوباما کا کہنا ہے، ’میں فیشن ٹرینڈز کی پاسداری نہیں کرسکتی۔ میں کوئی نوعمر لڑکی نہیں بلکہ نوعمر لڑکیوں کی ماں ہوں۔ میرے لیے خوبصورت لگنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میں اپنی بیٹیوں اور امریکا کی تمام نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بنوں‘۔

    مشل اوباما اپنی ہر تقریر میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے، انہیں محنت کرنے، آگے بڑھنے اور وقت ضائع کرنے والے فیشن ٹرینڈز کے پیچھے نہ بھاگنے کی تلقین کرتی ہیں۔

    اس سے قبل ایک تقریب میں وہ امریکی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی کر چکی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا، ’اس عمر میں کوئی لڑکا اس قابل نہیں جو آپ کو آپ کی تعلیم سے بھٹکا دے۔ اگر آپ کی عمر میں، میں اس بارے میں سوچتی تو میری شادی امریکی صدر سے نہ ہوئی ہوتی‘۔

  • عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی لاہور کی مسیحی کھلاڑی

    عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی لاہور کی مسیحی کھلاڑی

    لاہور: مضافاتی علاقوں کی تنگ گلیوں، چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے خواب اونچے تو ضرور ہوسکتے ہیں، مگر ان میں چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن کی قسمت کا ستارہ چمکتا ہے اور وہ عروج پر پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

    بلند مقاصد پر نظر رکھنے والے قسمت کی اس تبدیلی سے بے نیاز صرف اپنی محنت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سوچ کر اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ان کی قسمت کا ستارہ ضرور چمکے گا۔ لاہور کی رہائشی ٹوئنکل سہیل اور سونیا عظمت بھی اسی بات پر یقین رکھتی ہیں۔

    t4

    خواتین کی پاور لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی یہ دونوں خواتین مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ گزشتہ برس ٹوئنکل نے پہلی بار ویٹ لفٹنگ میں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایشین بنچ پریس چیمپئن شپ کے جونیئر ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    اس ایونٹ میں اگلے ہی دن ان کی ٹیم میٹ سونیا نے پاکستان کے لیے دوسرا سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ یوں دونوں خواتین پاکستانی کھیلوں کی تاریخ میں منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

    اسی ایونٹ میں ایک اور پاکستانی ویٹ لفٹنگ کی کھلاڑی شازیہ کنول نے بھی پاکستان کے لیے تیسرا گولڈ میڈل جیتا۔

    t5

    ان خواتین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے انہیں اگلے سال امریکی ریاست فلوریڈا میں ہونے والی ورلڈ پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں بھی بھیجا جارہا ہے۔

    ٹوئنکل نے اپنے کیریئر کا اغاز ایک سائیکلسٹ کی حیثیت سے کیا، لیکن ورزش کے دوران ان کے کوچز نے ان کی صلاحیتوں کی نشاندہی کی اور انہیں پاور لفٹنگ کی طرف جانے کا مشورہ دیا۔

    t3

    سونیا کے والد اپنے خاندان سے الگ رہتے ہیں اور والدہ مختلف نوکریاں کر کے زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہیں۔ سونیا کی والدہ اپنی بیٹی کی صلاحیتوں پر بے حد فخر کرتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ایک دن پاکستان ان کی بیٹی کے نام سے جانا جائے گا۔

    t8

    سونیا اور ٹوئنکل کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی اقلیتی خواتین نہیں ہیں۔ اس سے قبل ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک اور کھلاڑی شیتل آصف بھی عالمی مقابلوں میں شرکت کر چکی ہیں۔

    سونیا اور ٹوئنکل کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والی ان کی دوست حرا ارشد بھی اپنی دوستوں کی کامیابی پر خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ان دونوں کی کامیابی نہ صرف میسحی برادری بلکہ پورے ملک کی خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کی کامیابی تمام پاکستانی لڑکیوں کو مہمیز کرے گی کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرلیں‘۔

    t2

    t9

    سونیا اور ٹوئنکل کو اپنی صلاحیتوں اور جدوجہد پر پورا بھروسہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ ایک دن وہ اپنے خوابوں کی تعبیر ضرور حاصل کریں گی۔ پاکستانی لڑکیوں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’آؤ، آگے بڑھو اور پاکستان کو عروج کی نئی بلندیوں پر لے جاؤ‘۔

  • کراچی کی مویشی منڈی: ایک مکمل تفریحی میلہ

    کراچی کی مویشی منڈی: ایک مکمل تفریحی میلہ

    کراچی: گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سپر ہائی وے پر سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگائی جاتی ہے، جس میں مختلف علاقوں سے چھوٹے بڑے ہر نسل کے تقریباً تین لاکھ سے زائد جانور بیچنے کے لیے لائے جاتے ہیں، جن میں ایک لاکھ 75ہزار بڑے جانور اور تقریباً ایک لاکھ 25ہزار چھوٹے جانور ہوتے ہیں۔

     سپر ہائی وے پر سجنے والی مویشی منڈی کی روایتی رونقیں عروج پر پہنچ گئی لیکن بیش قیمت جانوروں کی قیمتیں آسمان پر دیکھ کر کاہگ پریشان نظر آتے ہیں، کراچی میں سجنے والی ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی جو آج کل اہل کراچی کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

    Karachi

     کراچی میں عیدالاضحی پر قربانی کیلئے جانوروں کی نمائش کے الگ ہی رنگ ہیں، جو خریداروں سمیت عام شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہے، جہاں بھاری بھرکم بیلوں نے لوگوں کو حیران کر دیا ہے وہیں ان کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت کو دیکھ کر شہری پریشان نظر آتے ہیں۔

    عید قربان جذبہ ایثار کا نام ہے اسی لیے ہر کوئی قربانی کیلئے خوبصورت اور صحت مند جانور کی تلاش میں ہے، عید قربان کے آتے ہی سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ خوب سے خوب ترجانور قربان کیا جائے، مویشیوں کے بیوپاری بھی اپنے جانوروں کی صفائی ستھرائی میں ہیں۔

    Karachi

    بیوپاریوں نے عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے اونٹ ،گائے اور بکروں کو رنگ برنگی مالا،جھنجروں اور مہندی سے سجا رکھا ہے ان منڈیوں میں آنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ بیوپاری جانوروں کا ریٹ ڈبل سے بھی زائد مانگ رہے ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    ملک بھر سے بیو پاری اپنے بیش قیمت جانوروں کو بیچنے کی غرض سے مویشی منڈی کا رخ کررہے ہیں، اس کے باوجود مویشی منڈی میں قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور نظر آتی ہیں، بیوپاریوں کے مطابق مہنگائی سبب مویشی مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں، بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جانور اور چارا مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ جانور مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں۔

    Karachi

    منڈی میں جگہ کی تقسیم پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر کی گئی ہے،وی آئی پی جگہ کے مختلف ریٹ مقرر کیے گئے ہیں، جو جگہ جتنی بہتر اسی حساب سے اس کا کرایہ بھی مہنگا ہے۔ وی آئی پی جگہ کا کرایہ ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اندرون ملک سے آنے والے فی جانور پر ٹول ٹیکس ایک ہزار روپے رکھا گیا ہے۔

     وی آئی پی کیٹل فارم کے نام بھی وی آئی پی رکھے گئے ہیں جس میں 786 کیٹل کارم ، جناح کیٹل فارم اور اے ٹی ایم کیٹل فارم وغیرہ ہیں۔منڈی میں وی آئی پی بلاک بھی قائم کیے گئے کیٹل فارم کو شادی ہالزکی طرح لائٹس اور میوزک کے ساتھ سجایا گیا ہے جہاں قیمتی اور نایاب قربانی کے جانور فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔ وی آئی پی بلاک میں لائے جانے والے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں دو لاکھ روپے سے 30 لاکھ روپے تک ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    نایاب اور دلکش جانوروں کو اس خوبصورتی کے ساتھ رکھا گیا ہے کہ  عوام کی ایک بڑی تعداد صرف ان جانوروں کی تصویریں اور سلفیاں بنانے میں مصروف نظر آتی ہے۔

    Karachi

    تمام کیٹل فارم مالکان کا کہنا تھا کہ ان قیمتی جانوروں پر بہت محنت ہوتی ہے ، ایک کیٹل فارم کے مالک ریاض نے بتایا کہ ہم صحت بخش کھانا کہلاتے ہیں جو جانوروں کی نشو نماکو تیزی سے بڑھانے میں مدد دیتا ہے اس کے علاوہ ان قیمتی  جانوروں کو مکھن اور دن میں ایک بار 5 کلو دودھ بھی دیا جاتا ہے۔

    Karachi

    فارم کے مالک کا کہنا تھا کہ میرا ایک جانور کی قیمت کم ازکم ساڑھے پانچ لاکھ روپے ہے، مہنگی قیمتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نایاب جانوروں کی دیکھ بھال اور خوراک میں بڑی رقم صرف ہوتی ہے۔

    Karachi

    ؎گزشتہ برس کی طرح کی رواں سال بھی مویشی منڈیوں میں آنے والے خریداروں کے گاڑیوں کی پارکنگ وسیع اور مفت رکھی گئی ہے جس کے باعث عوام کو پارکنگ کی دشواریوں سے بچنے میں مدد مل رہی ہے۔

    Karachi

    منڈی میں بے شمار مختلف قسم کی اشیاءکی دکانیں بھی بنائی گئی ہیں ، دکان بنانے کے لیے انتظامیہ سے پہلے بات کرنی پڑتی ہے اور فی دکان کا اندازاً تیس ہزار روپے کرایہ دینا پڑتا ہے،منڈی میں لوگوں کی تعداد کے مطابق متعدد ہوٹل بھی بنائے گئے ہیں،ان ہوٹلوں سے دوردراز سے آئے ہوئے بیوپاری اور خریدار کھانا خریدتے ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی پہلی بار ایک فوڈ کوڈ بنایا گیا ہے جہاں بچوں کے لئے جھولے اور کھانے کے اچھے ریسٹورنٹ کے ساتھ ساتھ ایک شیشہ کیفے بھی قائم کیا گیا ہے۔

    Karachi

    تاہم چند وجوہات کے باعث انتظامیہ نے شیشہ کیفے کو بند کروادیا ، شیشہ کیفے کے مالک کا کہنا تھا کہ جب ہم نے اجازت طلب کی تھی انتظامیہ کو اسی وقت انکار کردینا چاہیئے تھا ۔

    Karachi

    کراچی چیمبر آف کامرس کے مطابق گزشتہ برس عید الاضحیٰ کے موقع پر تقریبا پچھتر لاکھ جانور ذبح کیے گئے ہیں، جن کی مالیت تین سو ارب روپے تک ہوسکتی ہے۔

    Karachi

    Karachi