Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • سبین محمود کے ’ٹی ٹو ایف‘ کے لیے ایک اور اعزاز

    سبین محمود کے ’ٹی ٹو ایف‘ کے لیے ایک اور اعزاز

    کراچی: کراچی میں واقع مشہور سماجی سرگرمیوں کے مرکز ’دی سیکنڈ فلور ۔ ٹی ٹو ایف‘ کو رواں برس پرنس کلاز ایوارڈز کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔ ٹی ٹو ایف سبین محمود کا قائم کردہ ہے جنہیں گذشتہ برس قتل کردیا گیا تھا۔

    پرنس کلاز ایوارڈ ہر سال فن و ثقافت کے شعبہ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔ رواں برس یہ ایوارڈ دی سیکنڈ فلور ۔ ٹی ٹو ایف کو دیا جارہا ہے جو اپنی سماجی اور فن و ادب کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔

    sabeen-3

    یہ ایوارڈ نیدر لینڈز کے شہزادے کی طرف سے رواں برس 15 دسمبر کو پیش کیا جائے گا۔ ٹی ٹو ایف کی ڈائریکٹر ماروی مظہر کے مطابق یہ ٹی ٹو ایف کی پوری ٹیم کے لیے ایک پرمسرت اور پرجوش لمحہ ہے۔ ’لیکن کاش کہ سبین محمود اپنی محنت کو بار آور ہوتا دیکھنے کے لیے خود موجود ہوتیں‘۔

    مزید پڑھیں: پروین رحمٰن اور سبین محمود کے نام سے شاہراہیں منسوب

    مزید پڑھیں: سبین محمود کے قتل کو ایک سال بیت گیا

    سبین محمود کے قتل کے بعد ڈائریکٹرز کی ایک ٹیم اس ادارے کے انتظامی امور کو دیکھ رہی ہے اور ماروی مظہر ان میں سے ایک ہیں۔

    سبین کی والدہ مہناز محمود نے بھی اس موقع پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔

    sabeen-2

    دی سیکنڈ فلور 2007 میں قائم کیا گیا تھا اور یہاں فن و ادب کے چاہنے والے، فنکار، طلبہ اور مختلف شعبہ جات کے لوگ آیا کرتے ہیں۔ یہاں کئی علمی و ادبی بحثیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔

    سنہ 2015 میں دا سیکنڈ فلور کی ڈائریکٹر سبین محمود کو قتل کردیا گیا۔ ان کے چاہنے والے تاحال ان کے خون ناحق کا انصاف کیے جانے کے منتطر ہیں۔

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    کراچی: جب قومی نغموں میں جذبہ اور وطن سے محبت کا جنون شامل ہو اور توقومی ترانے کی مدھر دھن اور سر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوز کرنے کا ساماں ہوتے ہیں  اور جذبہ ایمان بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے ہیں ۔

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا، اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا۔

    پاک فوج اور وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے چند ملی نغمے اسے بھی ہیں  جو کئی دہائیوں سے ہر محب وطن کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج کے بہادری اور جذبے کیا ذکر کیا گیا ہے۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    پاکستان کے مشہور و معروف گلوکاروں کے چند  ایسے ملی نغمے جن تخلیق کے بعد سے کبھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی مندرجہ ذیل ہیں۔

     

    حال ہی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے شہدا آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے یاد میں ایک نغمہ پیش کیا جس پورے ملک میں بہت پزیرائی حاصل کی۔

     

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا۔

    اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا، ملکہ ترنم نورجہاں کے گیتوں کا پاکستانی افواج پرکیا اثر پڑا۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    سانگ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنین نی جرنیل نی،  زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے ملکہ ترنم نے اپنے ملی نغموں سے جارح بھارتی فوج کو وطن کی حفاظت کرتی ہوئی غیور قوم کا پیغام دیا۔

     سیالکوٹ تو زندہ رہے گا تو زندہ رہے گا، میرا سوہنا شہر قصور نی اے میریا ڈھول سپاہیا وے تینوں رب دیاں رکھاں انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاں میڈم نور جہاں کے گیتوں نے پاک افواج کے حوصلوں اور جذبوں کو بڑھایا وہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن،مسعود رانا، مہناز بیگم نے بھی اپنے گیتوں سے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کیے۔

  • ملک بھر میں یوم دفاع آج ملی جوش وجذبے سے منایا جارہا ہے

    ملک بھر میں یوم دفاع آج ملی جوش وجذبے سے منایا جارہا ہے

    کراچی : ملک بھر میں آج یوم دفاع ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

    چھ ستمبر 1965 کو آج ہی کے دن پاکستان افواج کے بہادر سپوتوں نے دشمن کو کاری ضرب لگا کر منہ توڑ جواب دیا تھا، جو تا دنیا تک یاد رہے گا، اس جنگ میں مٹھی بھر فوج نے اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو ناکو چنے چبوا دیئے تھے۔ اس دن شہید ہونے والوں کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں، جب کہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    اس دن کی مناسبت سے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر مختلف پروگرامز بھی نشر کیے جاتے ہیں، یوم دفاع ہمیں ملکی دفاع اور وقار کی خاطر ڈٹ جانے کا سبق دیتا ہے، جب ہمارے سپاہیوں، غازیوں اور شہیدوں ملک کے خاطر اپنی جانوں کو پیش کیا۔

    war 1

    پچاس سال قبل 6 ستمبر 1965 کو دشمن کی جارحیت کے جواب میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی۔ بری ، بحری، فضائی اور جہاں مسلمان فوجیوں نے دفاع وطن میں تن من دھن کی بازی لگائی وہیں پاکستان میں بسنے والی اقلیت بھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں پیش پیش رہی۔

    war 3

    چھ ستمبر کو دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والے شیردل جوانوں نے مذہب اور فرقے سےبالاتر ہو کر وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کیا، ایئر مارشل ایرک گورڈن ہال نے آزادی کے بعد پاک فضائیہ کے انتخاب کو ترجیح دی جبکہ وہ بھارتی ایئر فورس کا انتخاب بھی کر سکتے تھے، جنگ چھڑی تو انہیں احساس ہوا کہ پاک فضائیہ کے پاس بمبار طیاروں کی کمی ہے۔

    انہوں نے سی ون تھرٹی ٹرانسپورٹ طیارے میں تبدیلی کی اور اسے بمباری کے قابل بنایا، ان طیاروں کی مدد سے انہوں نے لاہور کے اٹاری سیکٹرمیں بھارت کے ہیوی توپ خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

    اسی طرح پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے لیفٹینٹ میک پسٹن جی سپاری والا نے بلوچ ریجمنٹ کی قیادت میں بھارتی سورماوں کو خاک چٹا دی تھی ان کے علاوہ ایئرفورس پائلٹ سیسل چودھری، اسکورڈرن لیڈر ڈیسمنڈہارنے، ونگ کمنڈر نزیر لطیف، ونگ کمانڈر میرون لیزلی اور سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی سمیت بے شمار اقلیتی برادری نے مقدس سرزمین پر بھارت کے ناپاک قدم روکنے کے لیے سر ڈھڑ کی بازی لگا دی تھی۔

    پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں لاہور کے تین اطراف سے حملہ کیا تو عالمی سطح پر بھی بھارت کے اس مکار انہ رویے کی شدید مذمت کی گئی ۔ پاکستان کے سدا بہار دوست چین نے اپنی افواج کے ایک بڑے حصے کو بھارتی بارڈر کے ساتھ لا کھڑا کیا تھا اور مبصروں کے مطابق اسی خوف کی وجہ سے دشمنوں کے بزدل حکمران سیز فائر پر مجبور ہو گئے۔

    یوم دفاع کا آغاز ہوتے ہی عوام نے آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کر کے اپنے جوش و جذبے اور پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اور دیگر سیاستدانوں نے عوام کو یوم دفاع کی بھرپور مبارکباد دی ہے اور شہدائے پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ عظیم دن داد ِ شجاعت دینے والے جاں بازوں اور شہیدوں کو عقیدت کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔

  • صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    موغا دیشو: افریقی ملک صومالیہ میں رواں برس صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک خاتون فڈومو ڈیب بھی امیدوار ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئیں تو صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کہلائی جائیں گی۔

    فڈومو صومالیہ کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تاہم ان کی پیدائش کینیا میں ہوئی۔ ان کے والد ایک ٹرک ڈرائیور تھے۔ 1989 میں جب کینیا اور صومالیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تو اس خاندان کو کینیا سے ڈی پورٹ کردیا گیا اور وہ واپس صومالیہ جا کر رہنے پر مجبور ہوگئے۔

    somali-3

    اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’میں اس وقت کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتی۔ ذلت، بے بسی اور دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس جو مجھے ساری عمر یاد رہے گا‘۔

    اس کے بعد جب صومالیہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تو بالآخر اس خاندان نے ہجرت کی اور وہ فن لینڈ میں آ بسے۔

    فڈومو 14 برس کی عمر تک صرف پڑھ سکتی تھیں لیکن انہوں نے فن لینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب ان کے پاس ہارورڈ یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ 3 ڈگریاں ہیں۔

    حالات بہتر ہونے کے بعد انہوں نے صومالیہ جانا شروع کردیا۔ انہوں نے وہاں اقوام متحدہ کے لیے بھی کام کیا اور اب وہ صدارتی انتخاب کی امیدوار ہیں۔

    فڈومو اب شادی شدہ ہیں اور ان کے 4 بچے بھی ہیں لیکن وطن سے محبت کی خاطر وہ اپنے بچوں کو فن لینڈ میں ہی چھوڑ کر واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے نہیں پتہ کہ واپس آؤں گی یا نہیں۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا ہے کہ اگر میں واپس نہ آؤں تو وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اپنی مقاصد کی تکمیل کریں‘۔

    فڈومو کو قتل کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہیں لیکن وہ اپنے عزم پر ڈٹی ہوئی ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    ان کی جدوجہد کو دیگر افریقی ممالک میں بھی پذیرائی مل رہی ہے اور یوگنڈا اور کینیا وغیرہ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ صومالیہ اپنی پہلی خاتون صدر منتخب کرے۔

  • دوران حمل نشہ کرنے والی خواتین کے بچے بدترین مسائل کا شکار

    دوران حمل نشہ کرنے والی خواتین کے بچے بدترین مسائل کا شکار

    واشنگٹن: کیا آپ جانتے ہیں امریکا میں 23 ملین افراد منشیات کے عادی ہیں اور الکوحل یا دوسری منشیات استعمال کرتے ہیں۔

    یہ صورتحال اس وقت اور بھی خراب ہوجاتی ہے جب خواتین دوران حمل بھی منشیات کا استعمال جاری رکھتی ہیں نتیجتاً ان کے پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر منشیات کے عادی ہوتے ہیں اور بچپن ہی سے بے شمار سنگین طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق امریکا میں ہر سال 1 لاکھ 30 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو منشیات کے مضر اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں دوران حمل منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔

    ماہرین ایسے بچوں کو پیدائشی شکار بچوں کا نام دیتے ہیں۔

    ان بچوں کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بچے غیر فطری طور پر کانپنا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں شدید پیٹ میں درد اور ڈائریا بھی ہوتا ہے۔ ان بچوں کے رونے کی آواز بھی دیگر بچوں کی نسبت بلند ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ شدید تکلیف میں ہوتے ہیں۔

    کمزور بچے ان بیماریوں سے نبرد آزما نہیں ہو پاتے اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ امریکا میں 2010 سے اب تک 110 نومولود بچے منشیات کا شکار ہونے کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔

    منشیات کی عادی خواتین کا دوران حمل بحالی مراکز میں علاج بھی کیا جاتا ہے لیکن ان خواتین کی بڑی تعداد ان مراکز میں جانے سے انکار کردیتی ہے۔ وہ اپنی منشیات کی لت پر قائم رہنا چاہتی ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے بھی اسے سنگین بحران قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے اقدمات کرنے پر زور دیا۔

  • پی آئی اے کی 2 پائلٹ بہنوں کا منفرد ریکارڈ

    پی آئی اے کی 2 پائلٹ بہنوں کا منفرد ریکارڈ

    اسلام آباد: یوں تو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے ہر قت خبروں میں رہتی ہے اور یہ خبریں عموماً منفی ہوتی ہیں، تاہم حال ہی میں دو پائلٹ بہنوں نے پی آئی اے کے 2 بوئنگ طیارے بیک وقت اڑا کر ایک تاریخ رقم کر ڈالی۔

    پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کے ٹوئٹ کے مطابق یہ پی آئی اے کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ 2 سگی بہنوں مریم مسعود اور ارم مسعود نے 777 بوئنگ طیارے بیک وقت اڑائے۔ دونوں طیارے بیک وقت فضا میں محو پرواز ہوئے تاہم دونوں کی منزلیں مختلف تھیں۔

    بڑی بہن مریم کافی عرصہ سے پی آئی اے کے مختلف جہازوں کو بطور پائلٹ اڑا چکی ہیں تاہم حال ہی میں ان کی چھوٹی بہن ارم کو بھی جہاز اڑانے کا لائسنس مل گیا جس کے بعد دونوں بہنوں نے مختلف جہازوں میں بیک وقت اڑان بھری۔

    دو سگی بہنوں کا ایک ساتھ جہاز اڑانے کا یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا پہلا ریکارڈ ہے۔

    اس سے قبل پاک فضائیہ کی خاتون فلائنگ آفیسر مریم مختار بھی فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں تاہم وہ گزشتہ برس میانوالی میں تربیتی پرواز کے دوران جہاز کو حادثہ پیش آنے کے سبب شہید ہوگئیں۔

  • تزئین و آرائش کے بعد شاہ رخ خان کے گھر کی تصاویر منظرعام پر

    تزئین و آرائش کے بعد شاہ رخ خان کے گھر کی تصاویر منظرعام پر

    ممبئی: بالی ووڈ کے کنگ شاہ رخ خان کے مہنگے ترین گھر’’منت‘‘ کی اندرونی تصاویر منظر عام پر آگئیں ہیں جنہوں نے دنیا بھر کو حیران کردیا ہے۔

    بالی ووڈ کے کنگ شاہ رخ خان کا گھر ممبئی کے پوش علاقے باندرہ میں 6000 اسکوائر فٹ پر قائم ہے جسے ’منت‘ بھی کہا جاتا ہے جب کہ کنگ خان کا گھر بالی ووڈ کے تمام اداکاروں کے گھروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مہنگا ترین گھر ہے جس کی تزئین و آرائش 4 سال میں مکمل ہوئی ہے۔

    mannat1-1471608783

    کنگ خان کے گھر کو آرٹ اور تاریخ کا بہترین امتزاج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس کی تعمیر آرٹ اور تاریخ کو ملحوظ خاطر رکھ کر کی گئی ہے جب کہ گھر کو جاذب نظر بنانے کے لئے پورے گھر کی تعمیر میں سفید رنگ کا سنگ مرمر خصوصی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

    mannat-a_1472297176

    mannat-k_1472297178

    شاہ رخ خان کا گھر20ویں صدی کے ثقافتی ورثے ’گریڈ تھری ہیریٹیج‘ کی بھی شاندار عکاسی کرتا ہے جس کی راہداریاں ہر طرف کھلتی ہیں جب کہ یہ شاندار گھر 5 کمروں پر مشتمل ہے۔

    شاہ رخ خان نے ’منت‘ میں اپنے لیے جمنازیم بھی بنا رکھا ہے جس میں فٹنس اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں۔

    mannat-j_1472297178

    mannat-g_1472297177

    mannat-e_1472297177

    کنگ خان نے اپنے مطالعہ کا شوق پورا کرنے کے لیے گھر میں ہی لائبریری قائم کر رکھی ہے جس میں دنیا بھر کی نایاب کتابیں بھی موجود ہیں۔

    بالی ووڈ بادشاہ نے دنیا بھر کے مشہور فن پارے بھی’’ منت ‘‘ میں سجا کر رکھے ہیں جسے آرٹ گیلری کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    mannat-d_1472297177

    mannat2-1471608799

    mannat3-1471608805

    mannat4-1471608811

    mannat6-1471608826

  • بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    کراچی : ساؤن کا موسم آیا، بادل گرج بھی رہے ہیں اوربرس بھی رہےہیں، ملک بھر کے علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے موسم دلفریب کر دیا۔

    برکھارت کی جھڑی کیساتھ جہاں موسم بدلنے لگتا ہے وہاں موڈ بھی اچھا ہونے لگتا ہے ایسے میں ہمارے پرانے موسیقاروں کے گیت اگر یاد آنے لگے تو انکی آوازیں کانوں میں جیسے رس گھولنے لگتی ہیں۔

    بارشوں میں موسم کیساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار ہوجاتا ہے ایسے میں موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

    برکھارت میں موسم سہانا ہوگیا، گھنگھور گھٹائیں کیا برسیں، ہر چیزنکھری نکھری اور دلفریب نظرآنے لگی،بھیگا بھیگا موسم منچلا ہوگیا، جہاں پھول پتوں اور درختوں نےساون میں جھومنا شروع کیا وہیں لبوں پر خود بخود ساون کے گیت آنے لگے۔

    کالے بادلوں کے برستے ہی موسم جیسے نکھرسا گیا ہو، بارش کی بوُندوں کا مٹی کو مہکانا، بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا یہ تمام چیزیں جب سامنے ہوں تو ایسے میں ہمارے موسیقاروں کے گیت کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں جیسے ناہید اختر کا خوبصورت گیت ’ساون کے دن آئے‘ ۔

     نیرہ نور کی اس گیت کی کیا ہی بات ہے کہ ’پھر ساون رت کی‘۔

     ملکہ ترنم نور جہاں نے کچھ یوں سر بکھیرے ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘۔

     اخلاق احمد ساون میں کچھ یوں گنگناتے ہیں کہ ’ساون آئے ساون جائے‘۔

    بارش کے موسم میں احمد رشدی کا یہ گانا بھلا کسے یاد نہ آئے گا کہ ’اے ابر کرم آج اتنا برس‘ـ

    ایسے میں نئے گلوکار بھی پیچھے نہیں ہیں علی حیدر کا یہ گیت کیا خوب یاد آیا، ’بارش کا ہے موسم چلے ٹھنڈی ہوا‘۔

     سلیم جاوید نےبھی بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں کی کہ ’بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں‘۔

    علی عظمت بادلوں کی گرج برس کے گیت کو کچھ یوں گایا، ’گرج برج ساون گھِر آیو‘۔

  • نقاب پہن کر گٹار بجانے والی فنکارہ

    نقاب پہن کر گٹار بجانے والی فنکارہ

    کیا آپ نے کبھی کسی باحجاب فنکار کو دیکھا ہے جو نقاب کے پیچھے چھپ کر گانا گائے یا گٹار بجائے؟

    یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات اور روایتی تصور کے خلاف ہوگی۔

    لیکن برازیل کی گزیل میری اسی روایتی اور فرسودہ تصور کو پاش پاش کر چکی ہیں جو نقاب پہن کر گٹار بجاتی ہیں۔

    5

    ساؤ پاؤلو کی رہائشی 42 سالہ میری عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن 2009 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔

    لیکن انہوں نے اپنا پیشہ، جو کہ ان کا شوق بھی ہے نہیں چھوڑا۔ وہ ایک پروفیشنل موسیقار ہیں اور گٹار بجاتی ہیں۔ میری اور ان کے بھائی نے مل کر ایک میوزک بینڈ بھی بنایا تھا جس میں میری گٹار بجایا کرتی تھیں۔ تاہم ذاتی اختلافات کی وجہ سے وہ بینڈ ٹوٹ گیا۔

    7

    6

    اب میری مکمل برقعہ اور نقاب میں ملبوس، گٹار بجاتی ہیں اور کچھ گلوکاروں کے ساتھ مل کر بہت جلد ایک البم بھی ریلیز کرنے والی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’اسلام میرا مذہب ہے اور موسیقی میرا شوق۔ مذہب مجھے میرے شوق کی تکمیل سے کسی صورت نہیں روکتا‘۔

    4

    میری کو شعبہ موسیقی اور مذہبی افراد دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ مذہبی افراد ان کے گٹار بجانے پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ موسیقاروں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس بات پر اعتراض ہے کہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ مناسب لباس نہیں ہے۔

    تاہم میری کو اس بات کی چنداں فکر نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی کا پیشہ، اور اس کا مذہب بالکل ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو اس پر رائے زنی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے برقعہ میں ملبوس، یا گٹار بجاتے دیکھ کر کیا سوچتے ہیں‘۔

    3

    البتہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو میری کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہیں۔

    اپنے قبول اسلام کے بارے میں میری کا کہنا ہے، ’میرا تعلق ایک کٹر عیسائی گھرانے سے ہے۔ لیکن جب میں نے اسلام قبول کیا تو میرے خاندان نے اسے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہی نہیں انہوں نے میرے باحجاب لباس پر بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا‘۔

    2

    1

    میری اکثر کنسرٹس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں جہاں انہیں تعریف و تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    میری کا ماننا ہے کہ ایک باعمل مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے شوق کی تکمیل سے وہ اسلام کا ایک مثبت تشخص اجاگر کرنا چاہتی ہیں کہ، اسلام شدت پسند مذہب ہرگز نہیں اور اس میں فنون لطیفہ کی بھی گنجائش ہے۔