Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر آج اپنی 86 ویں سالگرہ منارہی ہیں

    سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر آج اپنی 86 ویں سالگرہ منارہی ہیں

    ممبئی : سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر نے آج اپنی زندگی کی پچاسی ویں بہاردیکھ رہی ہیں، اپنی مدھر آواز سے کانوں میں رس گھولتی عہد ساز گلوکارہ لتا منگیشکر آج اپنی 86 ویں سالگرہ منارہی ہیں۔

    اٹھائیس ستمبرانیس سو انتیس کو بھارت میں پیدا ہونے والی اس گلوکارہ نے گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے چاہنے والوں کواپنی آوازکے سحرمیں جکڑرکھا ہے۔

    Lata Mangeshkar

    لتا نے سن انیس سو بیالیس میں اپنے والد کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کر دی تھی، عہدساز گلوکارہ لتا منگیشکر نے تیرہ برس میں اپنے کیریئرکاآغازکیا جوپچاس ہزارگانوں کاریکارڈ بنانے کے بعد بھی کامیابی سےجاری ہے۔

    لتا منگیشکر بھارت کی دوسری گلوکارہ ہیں، جنہیں سب سے بڑے سویلین اعزاز رتنا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سب سے زیادہ گانے گانے کے لئے لتا کا نام گنیزبک آف ورلڈریکارڈمیں بھی شامل ہے۔

    لتا کے کئی پُرانےگانےآج بھی بے حدمقبول ہیں۔ لتامنگیشکر کی مقبولیت پچھلی تین نسلوں سے لے کرآج تک کم نہیں ہوسکی، لتاکی جادوبھری آوازسے اُن کی عمر کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

    کئی دہائیوں تک سر سنگیت کی نگری پر راج کرنے والی یہ عظیم گلوکارہ اگرچہ اب فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو چکی ہیں لیکن گلوکاری سے اس کا رشتہ اسی طرح برقرار ہے اور آخری سانس تک برقرار رہے گا۔

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • پندرہویں سالگرہ پر خصوصی ٹرانسمیشن، اے آر وائی فیملی کی شرکت

    پندرہویں سالگرہ پر خصوصی ٹرانسمیشن، اے آر وائی فیملی کی شرکت

    تصاویر: پیار علی امیر علی

    کراچی: اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کی پندرہویں سالگرہ پر خصوصی نشریات میں اے آر وائی فیملی نے شرکت کی

    اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹورک کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر شام سات سے رات ساڑھے دس بجے تک اسپیشل ٹرانسمیشن جاری رہی۔ اسپیشل ٹرانسمیشن میزبانی فہد مصطفیٰ اور وسیم بادامی نے کی بعد ازاں اے آر وائی نیوز کے اینکر اقرار الحسن نے بھی میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔

    اس موقع پر اے آر وائی کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال کا کہنا تھا پندرہ سال ایک جدوجہد میں گزارے ہیں، کامیابی میں قوم کا بہت بڑاکردار ہے۔

    حاجی جان محمد نے ابتدائی جد و جہد کی یاد تازہ کی اور اے آروائی نیٹ ورک کے بانی حاجی عبدالرزاق یعقوب مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔

    اسپیشل ٹرانسمیشن میں محبوب عبد الرووف اور جرجیس سیے جا نے جرات مندانہ فیصلوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا، معروف کمپیئر انور مقصود اور بشریٰ انصاری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    اے آر وائی کی پندرہویں سالگرہ کی خصوصی نشریات اے آر وائی نیوز اور ڈیجیٹل پر براہ راست نشر کی گئی، اےآروائی نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال نے اے آروائی فیملی اور کور ٹیم کے ہمراہ اسپیشل ٹرانسمیشن کا اسپیشل کیک کاٹا۔

    اے آر وائی نیٹ ورک کی پندرہویں سالگرہ پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر#SalgirahMubarakARYکا ٹرینڈ پاکستان میں ٹاپ پر رہا جس کے کچھ ٹوئٹس پیش ہیں۔

  • عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    اردو ہے میرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی
    میں ’میر‘ کی ہمراز ہوں، ’غالب‘ کی سہیلی

    اردو دنیا کی خوبصورت اور شیریں ترین زبانوں میں شامل ہے، اردو زبانوں کی انڈو یورپین شاخ سے تعلق رکھتی ہے، ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے نزدیک اردو ایک مخلوط زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے، الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ

    شہد و شکر سے شیریں اردو زبان ہماری
    ہوتی ہے جس کی بولی میٹھی زبان ہماری

    مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو "دہلی اور نواح دہلی” سے، حافظ محمود خاں شیرانی "پنجاب” سے، سید سلیمان ندوی "وادی سندھ” سے منسوب کرتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق "اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق "اردو کی اصل کھڑی بولی ہے”۔اردو کے ذخیرۂ الفاظ کا بڑاحصّہ ایڈو آرین ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات ہیں۔ جس سے اس زبان کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں، جبکہ اقبال اشعر کہتے ہیں کہ

    غالب‘ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
    حالی‘ نے مروت کا سبق یاد دلایا
    اقبال‘ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
    مومن‘ نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی

    عدالت عظمی نے سرکاری اداروں میں اردو کو نافذ کرنے کاحکم جاری کر دیا، فرمان جاری ہوا ہے کہ آئین کی دفعہ دوسو اکاون کے احکامات کو بلا تاخیر نافذ کیا جائے،اور اس کام کیلئے جو مدت حکومت نے مراسلہ بتاریخ چھ جولائی سنہ دوہزار پندرہ کے خود طے کی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے کیوں کہ اس کا عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے ۔

     عدالت نے کہا ہے کہ قومی زبان کا رسم الخط یکساں بنانے کیلئے وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہم آہنگی پیدا کریں۔اور تین ماہ میں وفاقی اور صوبائی قوانین کا ترجمہ انگریزی سے اردو زبان میں کر لیا جائے۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ نگرانی کرنے والے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارےبغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے تمام متعلقہ اداروں میں اس کا نفاذ یقینی بنائیں ۔ وفاقی سطح پہ مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے،عوامی مفاد سے متعلق عدالتی فیصلوں کو اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں لازماَاردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔

    عدالت نے تنبیہ کی ہے کہ اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار دفعہ دو سو اکاون کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اسکی خلاف ورزی سے نقصان ہو گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو قومی کے ساتھ سرکاری زبان بنانے کا حکم آنے کے بعد ، اردو کے نفاذ کے حوالے سے متعدد سوال پیدا ہو گئے ہیں۔

    زندہ قومیں اظہار بیان کے لئے اپنی زبان کو ترجیح دیتی ہیں،عظیم چینی رہنما ماو زے تنگ نے بہترین انگریزی جاننے کے باوجود کبھی انگریزی میں بات نہیں کی، ان کا کہنا تھا چین گونگا نہیں ہے، ترک وزیراعظم طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیا، زندہ قوموں کے رہنما کسی اجنبی زبان کی غلامی نہیں کرتے اور یہ ہیں ہمارے وزیر اعظم جو عالمی رہنماؤں کی بیٹھک میں انگریزی زبان میں تقریر کر رہے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حکم کے بعد کیا ہمارے وزیر اعظم رواں ماہ ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو میں خطاب کریں گے؟ کیا سرکاری تمام محکمہ جاتی افسران کے نام کی تختی اردو میں ہوگی؟ ، کیا سرکاری دفاتر کے فارم اردو میں چھاپے جائیں گے؟ کیا دفاتر میں جملہ سرکاری خط و کتابت اور دفتری کارروائی اردو میں ہوگی؟  اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری بابوؤں کو اردو میں لکھنا اور ٹائپ کرنا سکھانے کے لئے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا؟۔

    دنیا بھر کی وہ قومیں جو آج ترقی کے بام عروج پہ کھڑی ہیں انکے اندرونی نظام کو ٹٹولیں تو وہاں ہر سطح پہ انکی قومی زبانوں کا راج پائینگے اور اکثر میں تو انگریزی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی، حتیٰ کہ سری لنکا جیسا چھوٹا ملک کہ جہاں کی قومی زبان سنہالی دنیا میں سو ویں درجے میں بھی نہیں شمار ہوتی، وہاں بھی اعلیٰ تعلیم تک کا انتظام انکی زبان میں متوازی طور پہ موجود ہے۔

    لیکن  یہاں ہماری قومی زبان کی وقعت کو تو دیکھئے کہ جو زبان دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پہ ہے، اسکا خود اس ملک میں کیا مقام بناکر رکھ دیا گیا ہے، سارے ملک کے تعلیمی نظام ہی نہیں دفتری و عدالتی نظام تک پہ انگریزی مکمل طور پہ قابض ہے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اردو نہ رہی تو ہمارے اولیا کرام شعراء کرام مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں کون پڑھےگا بابائے اردو مولوی عبدالحق ، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ اقبال ، مرزا غالب مولانا حالی اور سر سید احمد خان جیسے تاریخی ہیروں کو کون یاد رکھے گا؟

    اُردو زبان کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے قابل قدر کام ہوچکا ہے، پنجاب یونیورسٹی نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، وفاقی اُردو ڈکشنری بورڈ نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو لغت شائع کی ہے، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تاریخ ادبیات اُردو چھ جلدوں میں تصنیف کی ہے جسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے، منہاج الدین نے قاموس الاصطلاحات کے نام سے ڈکشنری مرتب اور شائع کرائی ہے جس میں انگریزی زبان کی تمام سائنسی، دفتری اور تکنیکی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ شامل ہے،حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

  • سال2013: پاکستان فلم، سینمااور فیشن انڈسٹری کیلئے سب سے بہتر رہا

    سال2013: پاکستان فلم، سینمااور فیشن انڈسٹری کیلئے سب سے بہتر رہا

    سال دوہزارتیرہ پاکستان فلم، سینما اور فیشن انڈسٹری کیلئےگزشتہ ایک عشرے میں سب سے بہتر رہا،مگر شوبز کے افق پر چمکنے والے بہت سے ستارے ہمیشہ کیلئے ڈوب گئے۔

    سال دوہزار تیرہ میں ملکی اور غیرملکی53 فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں جن میں باکس آفس پر کامیابی کے اعتبار سے اے آروائی فلمز کی وار پہلے نمبر پر رہی جبکہ اسی ادارے کی دو فلموں زندہ بھاگ اور میں ہوں شاہد آفریدی کی کامیابی سے لالی وڈ پر چھائے مایوسیوں کے بادل چھٹ گئے سینیر اینکر مبشر لقمان کی رٹ پر غیرقانوںبھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی۔

    جبکہ سینما اور فلم انڈسٹری کے مابین معاہدہ طے پایا،نغمہ نگار ریاض الرحمان ساغر اور اداکار نشیلا کے علاوہ دنیائے موسیقی کی خوبصورت آوازیں مہناز،زبیدہ خانم اور ریشماں ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئیں 2013ملکی فیشن انڈسٹری کیلئے بھی بے خوشگوار رہا جبکہ ملکہ سکینڈلزویناملک، معروف ماڈل مہرین سید،جگن کاظم اور ثنابلوچ پیا گھر سدھار گئیں