Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • مایا خان کی دلچسپ مشورے دینے کی ویڈیو وائرل

    مایا خان کی دلچسپ مشورے دینے کی ویڈیو وائرل

    شوبز انڈسٹری کی میزبان اور اداکارہ مایا خان کی دلچسپ مشورے دینے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ مایا خان نے ویڈیو شیئر کی جس میں وہ حجاب پہنے لوگوں کو دلچسپ مشورے دے رہی ہیں۔

    اداکارہ کہتی ہیں کہ ’کوئی تمہیں نیچا دکھانے کے لیے بولے یہ کام نہیں کرسکتے تو بولو ہاں نہیں کرسکتے تم کرلو اور اسی کو وہ کام کرنے دو۔‘

    مایا خان کا کہنا ہے کہ ’آج کا کام کل پر چھوڑ دو اور کل کا پرسوں کیا پتا پرسوں وہ کام کرنا ہی نہ پڑے۔‘

    یہ پڑھیں: وزن زیادہ ہونے پر لوگ مجھے ’موٹی بھینس‘ کہتے تھے، مایا خان

    ایک اور مشورے میں وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کو اپنا مستقبل نہیں دکھائی دے رہا تو آپ نے کوئی فلم لگا کر دیکھنی ہے کیونکہ مستقبل تو ویسے ہی نہیں دکھائی دے رہا، فلم دیکھ کر ٹائم ہی پاس کرلو۔’

    اداکارہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کو لگتا ہے کہ زندگی میں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا تو آپ نے ’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘ دیکھنی ہے کیونکہ وہاں سب ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Maya Khan Official (@therealmayakhan)

  • رجنی کانت کے ’قلی‘ کے لیے معاوضے نے سب کو حیران کردیا

    رجنی کانت کے ’قلی‘ کے لیے معاوضے نے سب کو حیران کردیا

    بھارت کے لیجنڈری اداکار رجنی کانت کا فلم ’قلی‘ کے لیے معاوضے نے سب کو حیران کردیا۔

    اداکار رجنی کانت کی فلم ’قلی‘ 350 سے 400 کروڑ بھارتی روپے بجٹ سے بنائی گئی ہے جس میں عامر خان اور اوپیندرا سمیت دیگر اداکار بھی شامل ہیں۔

    تاہم اداکاروں کی جانب سے وصول کیے گئے معاوضے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق رجنی کانت نے فلم کے لیے 200 کروڑ روپے معاوضی لیا ہے، ان کا معاوضہ پہلے 150 کروڑ تھا اور فلم کی ریلیز سے قبل بکنگ نے پروڈیوسرز کو ان کا معاوضہ بڑھانے پر مجبور کیا۔

    عامر خان کا فلم میں کردار محض 15 سے 20 منٹ کا ہوگا لیکن اس کے لیے انہوں نے 20 کروڑ روپے معاوضہ لیا ہے۔

    اس فلم کیلئے اداکار ستھیا راج اور اداکارہ شروتی ہاسن نے 4، 4 کروڑ بھارتی روپے معاوضہ لیا جبکہ ہدایت کار نے 50 کروڑ بھارتی روپے فیس وصول کی۔

  • محسن گیلانی نے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کا نام بتا دیا

    محسن گیلانی نے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کا نام بتا دیا

    شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار محسن گیلانی نے پاکستان کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کا نام بتا دیا۔

    محسن گیلانی ناصرف اداکار بلکہ ہدایت اور مصنف بھی ہیں جنہیں اپنے غیرمعمولی کام کے لیے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل کا ہے۔

    حالیہ پوڈ کاسٹ میں انہوں نے کئی فنکاروں، بالعموم انڈسٹری کے بارے میں بات کی اور فواد خان کے بارے میں انوکھی تفصیل بتائی۔

     فواد خان اپنے پراجیکٹس کے بارے میں بہت سلیکٹو ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں اور بہت سارے ڈراموں یا فلموں میں نظر نہیں آئے۔

    جب محسن گیلانی سے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ فواد خان ہیں، وہ فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے واحد اسٹار ہیں، ان سے پہلے شان اس عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

    یہ پڑھیں: فواد خان اور وانی کپور کی فلم ’عبیر گلال‘ کی ریلیز سے متعلق بڑی خوشخبری

    سوشل میڈیا صارفین اس رائے پر تقسیم نظر آئے، ایک صارف نے لکھا کہ فواد ہمیشہ بالی ووڈ کے پیچھے رہتے ہیں۔

    دوسرے صارف نے لکھا کہ ’وہ ایک اسٹار ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کا کوئی ہٹ ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھی۔‘

    تیسرے کا کہنا تھا کہ ’فواد کی اسٹار پاور سے 100 فیصد متفق ہوں۔‘

  • ہانیہ عامر کی موٹر سائیکل پر سواری کی ویڈیو وائرل

    ہانیہ عامر کی موٹر سائیکل پر سواری کی ویڈیو وائرل

    شوبز انڈسٹری کی مقبول اداکارہ ہانیہ عامر کی موٹر سائیکل پر ڈانس کرنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ ہانیہ عامر موٹر سائیکل پر ڈانس کی ویڈیو شیئر کی جس پر مداحوں کی جانب سے تبصرے کیے جارہے ہیں۔

    ویڈیو میں ہانیہ کو کراچی کی سڑکوں پر موٹرسائیکل کی سواری سے لطف اندوز ہوتے اور ڈانس کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے مختلف سرگرمیوں کی بھی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں گھڑ سواری بھی شامل ہے وہ ان تصاویر میں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ خوشگوار لمحات گزارتی دکھائی دے رہی ہیں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل ہانیہ عامر کی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ گلوکار عاصم اظہر کے ایک کنسرٹ میں اسٹیج کے قریب اداکارہ یشما گل اور دوستوں ہمراہ ان کے مشہور گانے ’غلط فہمی‘ کو انجوائے کررہی تھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by afia qazi (@afiablogs)

    ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کی بھارتی فلم ‘سردار جی 3‘ نے حال ہی میں کامیابی کے ریکارڈ بنائے ہیں۔

  • مومنہ اقبال نے اپنے پسندیدہ اداکار کا نام بتا دیا

    مومنہ اقبال نے اپنے پسندیدہ اداکار کا نام بتا دیا

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ مومنہ اقبال نے اپنے پسندیدہ اداکار کا نام بتا دیا۔

    اداکارہ مومنہ اقبال نے حال ہی میں اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’دستک‘ میں ’فریال‘ کا کردار نبھایا جسے مداحوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔

    اداکارہ حال ہی میں میشن پاکستان کے ساتھ مختصر چٹ چیٹ سیشن میں نظر آئیں جہاں انہوں نے اپنے پسندیدہ اداکار کے بارے میں بات کی جو انہیں ہمیشہ متاثر کرتا ہے۔

    مومنہ اقبال نے کہا کہ ’میں صبا قمر سے محبت کرتی ہوں، وہ میری پسندیدہ اداکارہ ہیں، میں ان کی اداکاری سے چیزیں چنتی ہوں اور ان کی شخصیت سے چیزیں لیتی ہوں، وہ بالکل پرفیکٹ ہیں۔

    انہوں نے ظاہری لباس کے حوالے سے کہا کہ مجھے فواد خان اور صبا قمر پسند ہیں۔

    یہ پڑھیں: مومنہ اقبال نے پوسٹ پر منفی تبصرے کرنے والوں کو خبردار کردیا

    اس سے قبل مومنہ اقبال اپنی تصاویر اور پوسٹس پر منفی تبصرے کرنے والوں پر برس پڑی تھیں۔

    انہوں نے لکھا تھا کہ ’میں نے یہ متعدد مرتبہ پہلے بھی کہا تھا کہ اپنی گندی ذہنیت اور خراب باتوں کو لیکر میری تصاویر یا پروفائل پر مت آیا کریں، اپنی چھوٹی سوچ اپنے گھر تک ہی محدود رکھیں۔‘

    مومنہ اقبال کا کہنا تھا کہ ’اگر ان لوگوں نے ایسا کرنے سے گریز نہ کیا تو میں سخت اقدام لوں گی، اور وہ تمام لوگ سن لیں جو یہ سوچتے ہیں کہ فیک آئی ڈی کی آڑ میں کچھ بھی کرتے رہیں گے اور مجھے معلوم نہیں چلے گا، ایسا نہیں ہے، انکے ساتھ بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے، کیونکہ ہر بکواس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

  • جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے تمام مذاہب کے ماننے والوں اور ہر شعبۂ سماج سے وابستہ لوگوں‌ نے مل کر جدوجہد کی اور ہر قسم کی قربانیاں دیں، لیکن جب مخصوص ذہینت اور ہندو قوم پرستی نے مسلمانوں‌ کو محکوم بنانے کے لیے سازشیں شروع کیں تو مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت محسوس ہوئی اور تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا جس میں شاعر و ادیب اور دوسرے اہلِ قلم بھی شامل تھے اور ان کی ادبی اور صحافتی تحریریں ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کا ولولہ اور لگن بڑھاتی رہیں

    معروف شاعر اور کالم نویس غالب عرفان نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہلِ قلم کے کردار اور کارناموں پر ایک طویل مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات جشنِ آزادی کی مناسبت سے نقل کیے جارہے ہیں۔ غالب عرفان لکھتے ہیں:

    اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔ یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑپانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آ جائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔

    وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

  • فیروز خان کا آنکھیں متاثر ہونے کا انکشاف

    فیروز خان کا آنکھیں متاثر ہونے کا انکشاف

    شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار فیروز خان نے آنکھیں متاثر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکار فیروز خان نے شوٹنگ کے دوران بام لگانے کی وجہ سے اپنی آنکھیں متاثر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    اداکار نے لکھا کہ اداکاری کے دوران فوری طور پر آنسو نکالنے کے لیے انہوں نے آنکھوں میں بام لگا لگا کر اپنی آنکھیں خراب کر لیں۔

    اداکار کے مطابق اب حالت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ ہلکی سی روشنی بھی آنکھوں میں بری طرح چبھتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

    یہ پڑھیں: فیروز خان کی اہلیہ زینب سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ اداکار نے بتا دیا

    اس سے قبل انٹرویو میں اداکار نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ زینب سے کہاں ملے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ میری ڈاکٹر تھیں، اس پر صحافی نے کہا کہ دل کی ڈاکٹر تھیں جس پر فیروز نے مسکراتے ہوئے کہا وہ میرے دل کی ڈاکٹر تھیں اور اب وہ میرے بلوں کی ڈاکٹر ہیں۔

    اداکار نے کہا کہ زینب ایک خوبصورت لڑکی ہے، ماشا اللہ اور میں بہت خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے اتنا خوبصورت ساتھی دیا، وہ میرے ساتھ ہر اچھے اور برے وقت میں کھڑی رہتی ہے۔

    واضح رہے کہ فیروز خان نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’حبس‘ اور ’عشقیہ‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور مداحوں کی جانب سے ان کی اداکاری کو سراہا جاتا ہے۔

  • رحمٰن ورما: پاکستانی فلموں کا ایک بھولا بسرا موسیقار

    رحمٰن ورما: پاکستانی فلموں کا ایک بھولا بسرا موسیقار

    پاکستان کے کئی بڑے فلمی موسیقاروں کے شاگردوں نے بھی خود کو نہ صرف قابل و باصلاحیت ثابت کیا بلکہ اپنی محنت اور لگن سے فلم کی دنیا میں اپنی پہچان بھی بنائی۔ انہی میں ایک نام رحمٰن ورما کا ہے جو نام ور موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بدقسمتی سے آج نہ تو پاکستان میں‌ وہ باکمال اور عظیم فن کار رہے ہیں اور نہ ہی ماضی کے اس سنہری دور کی یاد تازہ کرنے کا کوئی سلسلہ باقی ہے کہ رحمٰن ورما اور ان جیسے فن کاروں کا تذکرہ ہی نکلے۔ اب شاذ ہی اس موسیقار کا نام سننے کو ملتا ہے۔ رحمٰن ورما 11 اگست 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    موسیقار جی اے چشتی کے اس شاگرد کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب رہی۔ اس فلم کے بعد ان کی ایک اور فلم کام یاب ہوئی اور یوں رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کا بہترین موسیقار کہا جانے لگا۔ لیکن ان کا فلمی کیریئر ناکامی سے بھی دوچار رہا اور ابتدائی چند فلموں کے گیتوں کے بعد بطور موسیقار ان کے اکثر گیتوں کو وہ کام یابی نہیں ملی جس کی انھیں امید تھی۔

    رحمٰن ورما کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ فلم انڈسٹری میں اس موسیقار کو ورما جی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ 1927ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی وہ بطور موسیقار چند فلموں کے لیے کام کرچکے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما کو پاکستان میں 1955ء میں فلم دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت کی دھن بنانے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئی اور اس کے اگلے برس انھوں نے فلمی گیتوں‌ کی موسیقی ترتیب دی اور کام یاب رہے۔ رحمٰن ورما نے اپنے کیریئر میں اردو کے ساتھ پنجابی گیتوں کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کے لیے موسیقی دی تھی جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

  • اداکارہ اریج فاطمہ کا کینسر میں مبتلا ہونے کا انکشاف، ویڈیو جاری

    اداکارہ اریج فاطمہ کا کینسر میں مبتلا ہونے کا انکشاف، ویڈیو جاری

    (11 اگست 2025): پاکستان شوبز انڈسٹری کی سابقہ اداکارہ اریج فاطمہ نے کینسر میں مبتلا ہوکر صحتیاب ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    اریج فاطمہ نے گزشتہ روز فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کینسر میں مبتلا تھیں لیکن اب مکمل طور پر صحتیاب ہوچکی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں اریج نے اپنے کینسر کے سفر کی کچھ تصاویر بھی شیئر کیں اور بتایا کہ میری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی، میں زندگی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی تھی، مجھے لگتا تھا کہ میں لمبی زندگی گزارنے والی ہوں، اس دوران میں نے کئی بار نمازیں بھی چھوڑیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Arij Fatyma (@arijfatymajafri)

    سابقہ اداکارہ نے کہا کہ لیکن پھر ایک دن چند گھنٹوں میں ہی میری زندگی مکمل طور پر بدل گئی، میں نے اپنی زندگی کے لیے جنگ لڑ ی، میں نے اپنی بیماری سے متعلق پہلے پہلے کبھی اس لیے نہیں بتایا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ لوگ میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں کریں گے اور میرے کردار پر سوال اٹھائیں گے۔

    اداکارہ نے بتایا کہ پچھلے 4 مہینے سے وہ اور ان کی فیملی بہت مشکل وقت سے گزرے، انہیں کوریوکارسینوما (Choriocarcinoma) نامی کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، کوریوکارسینوما ایک نایاب اور تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے جو مولر پریگننسی کے بعد پیدا ہو سکتا ہے۔

    اریج کا کہنا تھا کہ اس بیماری کے دوران مجھے دو بڑے خوف تھے: اللہ کے سامنے حساب دینا اور دوسرا میرے بعد میری فیملی کا کیا ہوگا، کیوں کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے بعد میری فیملی کا کیا ہوگا۔

    اداکارہ نے کینسر سے متعلق آگاہی پر بات کرتے ہوئے سب کو مشورہ دیا کہ اپنے باقاعدہ میڈیکل چیک اپ کروائیں، ان کا کہنا تھا کہ  انہیں کئی سالوں تک فالو اپ ٹیسٹ کرانے ہوں گے تاکہ یہ کینسر دوبارہ نہ ہو۔

    اداکارہ نے مزید کہا کہ کینسر کے واپس آنے کا خیال مجھے حقیقت پسند بناتا ہے، موت یاد دلاتا ہے اور زندگی کو مزید بامقصد طریقے سے گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔

  • تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے بے مثال جذبے، جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا، ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسرا وہ ہندو تھا جو دل میں بغض و عناد اور مسلمانوں سے عداوت رکھتا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جو ناکام رہی۔ مگر بعد میں یہ کھلا کہ ہندو قیادت انگریزوں سے مل کر مسلمانوں‌ کے خلاف سازش کر رہی ہے تو مسلمان اکابرین نے اپنی شناخت اور قومیت کو بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    1857ء کے بعد ہندوؤں کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں‌ کی وجہ سے ان کا متحدہ ہندوستان پر راج قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تو انہوں نے انگریز سرکار کی قربت حاصل کر لی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت مٹائی جاسکے۔ انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اردو زبان جو برصغیر کی بولیوں اور مسلمان ریاستوں کی زبانوں عربی، ترکی اور فارسی کا امتزاج تھی اور مسلمانوں کے عہد میں ہی پروان چڑھی تھی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کرتے ہوئے برصغیر کی مقبول ترین زبان بنی اور مسلمانوں کی شناخت اسی سے کی جانے لگی۔ چوں کہ اس زبان میں بکثرت عربی اور فارسی الفاظ شامل تھے اور اس کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی تھا، اس لیے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے صرف مسلمانوں کی زبان کہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا۔

    تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ علیحدہ وطن کے مطالبہ کی وجوہ میں ایک اردو ہندی تنازع بھی شامل تھا۔ زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علم بردار ہوتی ہے۔ برصغیر میں یہ زبان مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا وسیلہ بنی کیوں کہ برطانوی حکومت نے دفاتر سے فارسی زبان کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد اردو ہی عوام اور خواص میں مقبول ہوئی جسے مخصوص ذہینت کے حامل ہندو قبول نہ کرسکے اور زبان کا تنازع بھی زور پکڑ گیا۔

    اردو زبان کے ساتھ مسلمانوں کا لگاؤ اس لیے بھی تھا کہ حضرت امیر خسرو سے لے کر ولی دکنی تک اور میر و غالب جیسے شاعر بھی فارسی اور مقامی بولیوں کے ساتھ اسی زبان سے وابستہ تھے۔ اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملّی اور قومی فریضہ تھا۔دوسری طرف تنگ نظر ہندو سوچ اردو زبان کو مٹا کر ہندی کو فوقیت دلانے پر کمر بستہ تھی۔ ان حالات میں علیحدہ وطن کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور پاکستان بن کر رہا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اردو زبان کے خلاف اس محاز آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا۔ اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرینِ تحریک پاکستان میں لکھتے ہیں:

    ’’سر انتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ اردو چونکہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا‘‘۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ’’اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو” تھا۔ اور کئی ایسی تنظیموں‌ اور اہل علم و ادب کی جدوجہد سے ہندوؤں پر واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر میں موجودہ دور میں اردو کے دامن میں پھلنے پھولنے والی اپنی تہذیب اور ثقافت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اردو ہندی تنازع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ اردو زبان ہندو سماج کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پیشتر برعظیم کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا۔ پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیائے کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں۔ اردو کو قوت بخشی اور اسے بجا طور پر محفوظ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ 1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازع اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بن گیا تھا۔ اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندی زبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دو سیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں‘‘۔

    اس دور میں اردو ہندی تنازع لسانی سے بڑھ کر سیاسی نوعیت کا ہو چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے تو ساتھ ہی اردو زبان کے تحفظ کو بھی لازمی خیال کیا جاتا تھا۔ بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4 دہائیوں سے لڑ رہے تھے۔ جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔

    تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردو رہی۔ ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر، جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جب کہ دوسری طرف ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریۂ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے، ان کے ملّی اور قومی شعور کو بیدار کرنے، اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان و ادب نے جو اہم کردار ادا کیا، وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘‘۔

    اردو زبان کے ان شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کردار ادا کیا۔ تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ہیں۔ ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے۔ ان کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں۔ وہ ایک سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھا جس کی وجہ سے ان کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرمِ عمل رہے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کانام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

    اردو شاعری کی طرح اردو نثر نے بھی تحریک پاکستان میں اپنا حصّہ ڈالا۔ اردو زبان کے جن ادیبوں نے نظریۂ پاکستان کا پرچار کیا ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

    تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کے بے شمار اخبارات، رسائل اور جرائد نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید کرتے رہے اور ان کے مالکان کو قید و بند کے ساتھ انگریز سرکار کی جانب سے جرمانے بھی کیے گئے۔

    (وقار حسن کے تحقیقی مضمون سے منتخب پارے)