Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • بھارتی اداکار 34 برس کی عمر میں چل بسے

    بھارتی اداکار 34 برس کی عمر میں چل بسے

    بھارتی کنڑا فلموں کے معروف اداکار سنتوش بالاراج 34 برس کی عمر میں چل بسے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق اداکار سنتوش بالاراج کو گزشتہ ماہ جگر اور گردے کے مسائل سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث اسپتال داخل کروایا گیا تھا جس کی وجہ سے شدید یرقان ہوگیا اور بہترین طبی علاج کے باوجود ان کی صحت بگڑ گئی۔

    رواں ہفتے کے شروع میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی ان کی صحت نازک ہوگئی اور وہ کوما میں چلے گئے تھے، آئی سی یو میں انتہائی نگہداشت کے باوجود بہتر نہ ہوسکی۔

    سنتوش کنڑ فلم انڈسٹری کے معروف اداکار تھے اور وہ مشہور فلم پروڈیوسر انیکل بالاراج کے بیٹھے تے جنہوں نے اپنے پروڈکشن کے بینر کے تحت کریا، کریا 2 اور جیک پاٹ جیسی ہٹ فلمیں بنائیں۔

    والد کے انتقال کے بعد سنتوش والدہ کے ساتھ رہتے تھے اور غیر شادی شدہ تھا۔

    سنتوش نے مختلف قسم کے چیلنجنگ کرداروں سے اپنی استعداد کا ثبوت دیا۔ 2015 میں اداکار نے گنپا کا کردار ادا کیا جس میں گینگسٹر کا کردار ادا کیا گیا۔ 2024 میں وہ ستھیم میں نمایاں ہوئے، اور سمنت کرانتھی کی شاٹ فلم برکلے میں بھی نظر آئے۔

  • شہناز گل اچانک اسپتال میں داخل، بھائی نے پوسٹ میں کیا وجہ بتائی؟

    شہناز گل اچانک اسپتال میں داخل، بھائی نے پوسٹ میں کیا وجہ بتائی؟

    بھارتی پنجاب اور بالی ووڈ کی معروف اداکارہ شہناز گل کو اچانک اسپتال میں ہونا پڑا، بھائی نے پوسٹ شیئر کرکے اطلاع دی۔

    ‘پنجاب کی کترینہ کیف’ کے نام سے مشہور شہناز گل طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے اسپتال میںزیر میں زیرعلاج ہیں، اداکارہ کے بھائی شہباز نے سوشل میڈیا پر اسپتال سے شہناز گل کی تصویر بھی پوسٹ کی ہے اور ان کی جلد صحت یابی کی مداحوں سے دعا کرنے کی اپیل کی ہے۔

    شہناز گل اور ان کے بھائی شہباز اکثر اپنے مداحوں کے لیے مضحکہ خیز پوسٹس شیئر کرتے رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے انھوں نے بھائی اور بہن کے درمیان لڑائی کے بارے میں ایک مزاحیہ پوسٹ شیئر کی تھی۔

    اس ویڈیو میں شہناز اپنے بھائی کا میک اپ کرتی نظر آئیں، اس دوران شہناز نے اپنے بھائی کو طنزیہ انداز میں تھپڑ مار دیا تھا۔

    یہ ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے چند گھنٹے بعد شہباز نے انسٹاگرام اسٹوری پر اپنی بہن کی ایک تصویر پوسٹ کی جو کہ 4 اگست کو پوسٹ کی گئی اور کیپشن میں لکھا ‘جلد ٹھیک ہو جاؤ’۔

    شہناز ان تصاویر م یں اسپتال کے لباس میں بستر پر لیٹی ہیں، تاہم شہناز گل کو اسپتال میں کیوں داخل کیا گیا ہے اور کتنے دنوں سے وہاں موجود ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

    تصاویر دیکھ کر مداح ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں، ایک مداح نے ایکس ہینڈل پر شہناز کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘میں نے سوچا کہ آپ ٹھیک ہیں، مجھے آپ کو اسپتال کے بستر پر دیکھ کر اچھا نہیں لگتا۔ جلد ٹھیک ہو جاؤ اور جلد صحت یاب ہو جاؤ۔’

    ایک مداح نے لکھا، ‘شہناز گل کی طبیعت ٹھیک نہیں، وہ اسپتال میں ہیں، براہ کرم سب اس کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کریں’۔

  • ساحرؔ کے بجھے ہوئے سگریٹ اور امرتا کے تخیل کی کرامات

    ساحرؔ کے بجھے ہوئے سگریٹ اور امرتا کے تخیل کی کرامات

    پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور ادیب امرتا پریتم کی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ ان کی زندگی کی وہ جھلک دکھاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امرتا پریتم ایک آزاد اور بے باک قلم کار تھیں۔

    برصغیر کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی سے امرتا پرتیم کے عشق اور ان کے درمیان ملاقاتوں کا بھی خوب چرچا ہوا تھا۔ اور پھر امرتا نے اپنی آپ بیتی میں ساحر سے متعلق اپنے جذبات اور چند واقعات بھی لکھے ہیں۔ امرتا اور ساحر ایک تو نہیں ہو سکے لیکن دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کی کہانی زندہ ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی‌ ہیں:

    لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔ کبھی ایک بار اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی، لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی تخیل کی کرامات کا سہارا لیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی۔ ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا…. وہ پاس ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہو جاتا تھا۔ پھر برسوں بعد، اپنے اس احساس کو میں نے ’ایک تھی انیتا‘ ناول میں قلم بند کیا۔ لیکن ساحرؔ کو ابھی تک سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں۔‘‘

  • ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) کی اشاعت کے بعد 1988ء میں فکشن کا پلٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ ان کا یہ ناول ایک ایسی ماں کی زندگی کے بارے میں ہے، جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنے سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا اذیت ناک فیصلہ کرتی ہے۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں بہت منفرد اور اعلیٰ مقام کی حامل تھیں جن کو افریقی نژاد امریکی مصنفین کی اہم ترین نمائندہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مشہور تصانیف میں ‘انتہائی نیلی آنکھیں‘، ‘سلیمان کا گیت‘، ‘انسان کا بچہ‘، ‘جاز‘ اور ‘جنت‘ شامل ہیں۔

    وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ٹونی موریسن ایک بے مثل فکشن رائٹر کے طور پر ہی نہیں بااثر سیاہ فام خاتون بھی مشہور ہوئیں۔ وہ 2019ء میں آج ہی کے دن چل بسی تھیں۔ ٹونی موریسن نے 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لیا۔ ان کا بچپن غربت اور تعصب پر مبنی سلوک دیکھتے ہوئے گزرا۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز رویہ ان کی تلخ یادوں کا حصہ رہا۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا اور ادب کے مطالعہ کا شوق اپنایا تو خود بھی لکھنے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عظیم قلم کار کے طور پر سامنے آئیں اور کئی مشاہیر اور اعلیٰ منصب دار ان کے فن و افکار سے متاثر ہوئے۔ ان میں‌ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی شامل ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ سویڈش اکیڈیمی نے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ٹونی موریسن کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ان کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا تھا، ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں وہ بے رحم ہیں۔’

    وہ امریکا کی ایک ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا اور زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا۔ وہ سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنانے والی خاتون تھیں اور ہمیشہ سیاہ فام نسل کو یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دانش ور اور اہل قلم سمجھتے ہیں کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔

    ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ انھوں نے پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ ناول تھا جس نے بلاشبہ موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ٹونی موریسن کی ایک تصنیف ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon) بھی بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اس ناول کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    ناول نگار ٹونی موریسن نیویارک میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی زندگی کا آخری دن تمام ہوا۔

  • کیل مہاسوں کے علاج کے لیے اپنا ’تھوک‘ استعمال کرتی ہوں، تمنا بھاٹیا کا انکشاف

    کیل مہاسوں کے علاج کے لیے اپنا ’تھوک‘ استعمال کرتی ہوں، تمنا بھاٹیا کا انکشاف

    بالی ووڈ کی خوبرو اداکارہ تمنا بھاٹیا نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کیل مہاسوں کے علاج کے لیے صبح اٹھ کر اپنا ہی تھوک استعمال کرتی ہیں۔

    بھارتی میڈیا کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں تمنا بھاٹیا سے جلد سے متعلق سوال کیا گیا تو اداکارہ نے بغیر ہچکچائے کہا کہ اپنا تھوک لگائیں۔

    انہوں نے کہا کہ دانوں کے علاج کے لیے آپ کا صبح کا تھوک (برش کرنے سے بھی پہلے منہ میں آنے والا لعاب) کام کرتا ہے اور یہ بات سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ اگرچہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں لیکن یہ میرا ذاتی طور پر کیا گیا تجربہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سائنس ضرور ہے کیونکہ جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو آپ کا جسم رات بھر کے دوران منہ میں کافی اینٹی بیکٹیرل عناصر پیدا کرچکا ہوتا ہے۔

    تمنا نے مزید کہا کہ آپ کا   جسم  بیکٹیریا کے خلاف  راتوں رات دفاع  کرتا ہے، نتیجتاً صبح سویرے ہماری آنکھوں میں لیس دار سیال موجود ہوتا ہے، ہماری ناک بھری ہوئی ہوتی ہے،  حتیٰ کہ ہمارے منہ میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات  موجود ہوتی ہیں، اگر آپ صبح کے وقت اس تھوک کو استعمال کرتے ہیں تو یہ فوری طور پر آپ کے پمپلوں کو خشک کر دے گا۔

    واضح رہے کہ تمنا بھاٹیا کے اس دعوے کی تصدیق سائنسی طریقے سے بھی ہوئی ہے۔

    جرنل آف کاسمیٹک ڈرماٹولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انسانی لعاب میں جراثیم کش مرکبات موجود ہوتے ہیں جو مہاسے پیدا کرنے والے بیکٹیریا کو مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

  • شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں شمیم آرا کو ان کے فن اور پروقار شخصیت کی بدولت مقبولیت ہی نہیں بے پناہ عزت اور احترام بھی ملا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن تھیں جن کا کیریئر 30 سال پر محیط ہے۔ آج شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکارہ شمیم آرا نے ہیروئن کے بعد بطور کریکٹر ایکٹریس بھی بڑی شان سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے بعد میں بطور ہدایت کار بھی خود کو منوایا تھا۔

    شمیم آرا کا تعلق بھارت کے شہر علی گڑھ سے تھا جو ایک علمی و تہذیبی مرکز رہا ہے۔ وہ علی گڑھ سے پاکستان منتقل ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا کا اصل نام ’’پتلی بائی‘‘ تھا جنھیں پاکستانی فلموں میں فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی نے شمیم آرا کے نام سے متعارف کروایا۔ وہ اردو فلم’’ کنواری بیوہ‘‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار نظر آئیں جو ایک ناکام فلم ثابت ہوئی مگر شمیم آرا نے اپنی ابتدائی دور کی ناکامیوں کے باوجود انڈسٹری سے تعلق برقرار رکھا اور پھر وہ لاہور چلی گئیں۔ شمیم آرا کو لاہور میں نام ور ہدایت کار ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ’’ہم راز‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر کے ساتھ کاسٹ کیا اور سائیڈ رول شمیم آرا نے بھرپور پرفارمنس سے فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ فلم سازوں کو اداکارہ کے مکالمے ادا کرنے کا سادہ انداز اور بہترین اردو کا تلفظ اچھا لگا اور رفتہ رفتہ شمیم آرا کے فن و شخصیت میں نکھار آتا گیا۔

    اداکارہ کو اصل شہرت اردو زبان میں میں بننے والی فلم ’’بھابی‘‘ سے ملی۔ اس کے بعد ’’سہیلی‘‘ اور ’’فرنگی‘‘ وہ فلمیں ثابت ہوئیں جنھوں نے شمیم آرا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اردو فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ میں شمیم آرا کی پرفارمنس بہت جاندار رہی اور اس فلم نے شان دار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کے بعد شمیم آرا فلم انڈسٹری کی مصروف ترین اداکار بن گئیں۔ شمیم آرا نے مشہور رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ میں اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور باکمال اداکار سنتوش کمار کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔بعد میں شمیم آرا نے کمال، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے ساتھ بھی کام کرکے فلم بینوں کے دل جیتے۔ شمیم آرا کو فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کرنے کا بے حد شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شمیم آرا نے اداکاری کے ساتھ بطور ہدایت کار اور فلم ساز بھی کام کیا۔

    اداکارہ شمیم آرا کی ذاتی زندگی میں کئی پریشان کن موڑ آئے۔ ان کی کوئی شادی بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ اس وقت اداکار کمال اور شمیم آرا کے درمیان محبت اور شادی کا چرچا بھی ہوا۔ لیکن شمیم آرا کی نانی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ شمیم آرا کی شادی فلم ساز فرید احمد سے ہوئی جنھوں نے ’عندلیب‘، ’بندگی‘، ’سہاگ‘، ’خواب اور زندگی‘ اور ’زیب انسا‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پھر شمیم آرا فلم ساز و تقسیم کار اے مجید کی دلہن بنیں۔ آخری شادی تقریباً بڑھاپے میں دبیرالحسن نامی فلمی رائٹر سے کی تھی۔ جب شمیم آرا کا فلم انڈسٹری میں وقت ختم ہوا تو دبیر الحسن نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور تب وہ اپنے بیٹے کے پاس لندن چلی گئیں۔ لندن ہی میں 5 اگست 2016ء کو وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئیں۔

    فلم کی دنیا میں شمیم آرا نے ’ہمراز، سہیلی، دوراہا، صاعقہ، مجبور، زمانہ کیا کہے گا، سہاگ، فرنگی، چنگاری، سالگرہ سمیت 86 فلموں میں اداکاری کی۔ ان کی مشہور فلموں میں قیدی، اک تیرا سہارا، انسان بدلتا ہے، آنچل، لاکھوں میں ایک، دل بیتاب، خاک اور خون، پرائی آگ، دوسری ماں، فیصلہ، بھابھی، پلے بوائے شامل ہیں۔

    شمیم آرا انتہائی خوش اخلاق اور مؤدب خاتون مشہور تھیں اور ساتھی فن کاروں کے مطابق انھیں بہت کم غصہ آتا تھا۔ شمیم آرا انتہائی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ابتدائی عمر میں ہی ماں کی شفقت سے محروم ہوگئی تھیں اور نانی کے زیر تربیت رہیں جن کے فیصلوں کے آگے وہ بے بس تھیں۔ شمیم آرا کی پیشہ ورانہ زندگی پر ان کی نانی کی گرفت سخت رہی۔ اداکارہ کی پیدائش 1940ء کی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کے شہر کراچی آگئی تھیں اور یہاں سے لاہور منتقل ہوگئیں جو فلمی مرکز بنا ہوا تھا۔

    اداکارہ کو 1960ء میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا جب کہ بہترین نگار ایوارڈ فلم ’’فرنگی پر ملا تھا۔ شمیم آرا کو اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فلموں میں عورت کو طاقت ور اور بہادر دکھایا ہے جس کی مثال ’مس ہانگ کانگ‘، ’مس کولمبو‘، ’مس سنگاپور‘ اور ’مس بینکاک‘ جیسی فلمیں ہیں جن میں ہیروئن اور خاتون کردار کو انھوں نے ظالم اور بدمعاش سے لڑتے ہوئے پیش کیا۔

  • بجلی کے بل اتنے زیادہ آرہے ہیں کسی کو بھی دل کا دورہ پڑسکتا ہے، نبیل

    بجلی کے بل اتنے زیادہ آرہے ہیں کسی کو بھی دل کا دورہ پڑسکتا ہے، نبیل

    پاکستان کے نامور اداکار اور ہدایتکار نبیل ظفر نے بجلی کے بلوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بہت زیادہ ہونے کا شکوہ زبان پر لے آئے۔

    اے آر وائی کے ڈرامے بلبلے کے معروف اداکار و پرڈیوسر نبیل ظفر بھی بجلی کے بھاری بلوں کے ہاتھوں پریشان نظر آتے ہیں، نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بجلی کے موجودہ بل اتنے زیادہ آرہے ہیں کہ انھیں دیکھ کر کسی کو بھی دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

    اداکار نے بتایا کہ وہ بجلی کے بلوں سے سخت پریشان ہیں، اگر ان کے گھر میں اضافی لائٹس یا پنکھا چل رہا ہو تو وہ فوری طور پر انھیں بند کرنے کا کہتے ہیں۔

    نبیل ظفر لڑکی بنے تو کیا ہوا؟ اداکار نے بتا دیا

    نبیل ظفر نے مزاحیہ انداز میں اپنے والد کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں لگتا ہے ان کے والد کی روح ان کے اندر آگئی ہے، وہ کہا کرتے تھے "بل بہت آئے گا بھائی”، انھوں نے انکشاف کیا کہ مہنگائی سے تنگ گھر میں انھوں نے سولر سسٹم انسٹال کروالیا ہے۔

    اداکار نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ گھر میں سول سسٹم تو لگوا لیا ہے مگر جب کراچی میں بادل آتے ہیں تو سولر سسٹم ٹھیک طرح کام نہیں کرتا۔

    حالیہ دنوں کراچی میں بادلوں کی موجودگی کے حوالے سے نبیل نے مزاحیہ انداز میں کہا وہ دل ہی دل میں بادلوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یا تو برس جاؤ یا شہر چھوڑ دو تاکہ سولر ٹھیک کام کرے۔

    خیال رہے کہ ان دنوں اے آر وائی سے نبیل ظفر کا ڈرامہ سیریل ‘شیر’ نشر کیا جارہا ہے، جسے ناظرین کی جانب سے بے حد پذیرائی مل رہی ہے، وہ ڈرامے میں سارہ خان (ڈاکٹر فجر) کے والد کا کردار نبھا رہے ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/sher-youtube-trend-ary-digital-danish-taimoor/

  • سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ………. یہ نام آپ نے سنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے، وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر اور ان کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے…….. جوہری سائنس داں……..حادثے میں موت…….موساد۔

    امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلمان نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

    سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ”خطرہ” تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

    سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

    1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تابکاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃ کو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تابکاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

    سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔” ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

    سمیرہ موسیٰ نے ”جوہری توانائی برائے امن کانفرنس” کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ”جوہر برائے امن” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

    سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

    اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کر کے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فل برائٹ (Fulbright) اسکالر شپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونیورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،”میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔”

    امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

    بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952 کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جا گری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہو گئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کار کے گرنے سے پہلے اس نے چھلانگ لگا دی تھی اور زندہ بچ گیا لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

    اس سانحے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

    (سمیرہ موسیٰ کے حالاتِ زندگی پر محمد عثمان جامعی کے مضمون سے اقتباس)

  • درفشاں سلیم کے بیان پر عمران عباس کا ردعمل

    درفشاں سلیم کے بیان پر عمران عباس کا ردعمل

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ درفشاں سلیم کے بیان پر عمران عباس کا ردعمل آگیا۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’کیسی تیری خود غرضی‘ میں ’مہک‘ کے کردار سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی اداکارہ درفشاں سلیم کے بیان پر اداکار عمران عباس نے ردعمل دیتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے۔

    اداکارہ نے حال ہی میں سفید ساڑھی پہنے اپنی خوبصورت تصاویر شیئر کیں، ایک مداح نے ان سے پوچھا کہ ’ایہماندارانہ سوال، براہ کرم جواب دیں، یہ اتنا خوبصورت ہونا کیسا لگتا ہے؟ آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

    انہوں نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’بہترین فوٹو گرافر، بہترین میک اپ آرٹسٹ، کوئی بھی بہترین ٹیم بنا سکتا ہے۔’

    Imran Abbas Reacts to Durefishan’s Viral Comment

    اس پر اداکار عمران عباس نے درفشاں کی عاجزی کی تعریف کی اور لکھا کہ تم بہت ڈاؤن ٹو ارتھ ہو، واقعی آپ ہر اس لڑکی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو آپ کو دیکھتی ہے۔

    درفشاں سلیم کو سوشل میڈیا مداحوں کی جانب سے پذیرائی مل رہی ہے اور مداحوں کا کہنا ہے کہ اداکارہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا جانتی ہیں۔

  • دوست کے شوہر سے شادی رچانے والی اداکارہ کے ساتھ قسمت نے کیا کھیل کھیلا؟

    دوست کے شوہر سے شادی رچانے والی اداکارہ کے ساتھ قسمت نے کیا کھیل کھیلا؟

    بالی ووڈ میں کم عمری سے ہی اداکاری کرنے والی ہنسیکا موٹوانی اور ان کے شوہر سہیل کتوریہ کے درمیان علیحدگی کی افواہیں نے زور پکڑ لیا ہے۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ پر آنے والی خبروں کے مطابق ہنسیکا اور ان کے شوہر سہیل مبینہ طور پر علیحدہ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں، سہیل کتوریہ اب اپنے والدین کے ساتھ رہ رہے ہیں جبکہ بالی ووڈ اداکارہ اپنی والدہ کے ساتھ رہائش کرچکی ہیں۔

    پہلی بار گلوکار و اداکار ہمیش ریشمیا کیساتھ فلم ’آپ کا سرور‘ بطور ہیروئین بڑی اسکرین پر نظر آنے والی ہنسیکا نے مبینہ طور پر اپنی سہیلی کے شوہر سے شادی کی تھی۔

    تاہم اب سہیل کتوریہ اور ان کا رشتہ تنائو کا شکار ہوچکا ہے اور دونوں کے درمیان تعلقات پیچیدہ ہو چکے ہیں جبکہ علیحدگی کی خبریں بھی میڈیا میں آرہی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ہنسیکا اور سہیل کی علیحدگی کی خبریں تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں، تاہم ہنسیکا کی طرف سے کسی قسم کا تبصرہ یا ردِ عمل تاحال سامنے نہیں آیا۔

    بھارتی صارفین کا کہنا ہے کہ ہنسیکا نے اپنی ’بہترین دوست‘ کو دھوکا دے کر اس کے شوہر (سہیل کتوریہ ) سے مبینہ تعلقات بنائے اور اس کے بعد شادی کی، بالی ووڈ اداکارہ کو اپنے کیے کا پھل مل رہا ہے۔

    خیال رہے کہ دسمبر 2022 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد ہنسیکا اپنے شوہر سہیل کے والدین کے گھر مقیم تھیں، تاہم بڑے خاندان کے ساتھ رہنے میں مشکلات پیش آنے پر دونوں نے اسی عمارت میں ایک علیحدہ فلیٹ لے کر رہائش اختیار کی تھی۔

    ان سب کے باوجود اپنی دوست کے شوہر سے شادی کرنے والی بالی ووڈ اداکارہ اور ان کے شوہر کے درمیان میں مسائل رہے جس کے نتیجے میں اب دونوں نے علیحدہ رہنے کا فیصلہ لیا ہے، میڈیا نے سہیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے ان افواہوں کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/hansika-motwani-family-accused-of-domestic-violence/