Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • معروف بھارتی کامیڈین اچانک چل بسے، بھارتی انڈسٹری سوگ میں ڈوب گئی

    معروف بھارتی کامیڈین اچانک چل بسے، بھارتی انڈسٹری سوگ میں ڈوب گئی

    بھارت کے معروف کامیڈین اچانک ہوٹل کے کمرے میں مردہ حال میں پائے گئے، مرنے کی خبر سن کر بھارتی ملیالم انڈسٹری سوگ میں ڈوب گئی۔

    جنوبی بھارت کی ملیالم فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مشہور اداکار اور کامیڈین کلابھاون نواس کیرالا کے ہوٹل میں مردہ حالت میں پائے گئے، وہ اپنی نئی فلم "پرکَمبنم” کی شوٹنگ کےلیے ہوٹل میں مقیم تھے، تاہم یہ ان کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    کلابھاون نواس کو ہوٹل کے کمرے سے چیک آؤٹ کرنا تھا مگر کافی دیر تک کمرے سے باہر نہ آئے تو عملے کو تشویش ہوئی انھوں نے دروازہ کھولا تو اداکار بے حس و حرکت پڑے تھے۔

    عملے نے فوری طور پر بے ہوش پڑے اداکار کو اسپتال منتقل کیا مگر وہاں پہنچنے پر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ان کی موت اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہو گئی ہے۔

    پولیس نے کامیڈین کے مرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعے میں کسی مشتبہ عنصر کے شواہد نہیں ملے، ممکنہ طور پر وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے۔

    1995 میں فلم چیتنیام سے اسٹیج اداکار نواس نے سنیما میں قدم رکھا، اور پھر میٹٹی پیٹی ماچان، جونیئر منڈریک، اما امّائی اما جیسی مشہور ملیالم فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے، بہت سے فنکاروں نے انھیں "اسٹیج کا ہنستا مسکراتا چراغ” قرار دیا جو اچانک بجھ گیا۔

    ان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی، شوبز انڈسٹری کے بڑے ناموں اور مداحوں کی جانب سے گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ کلابھاون نواس کی موت کے حوالے سے حتمی طور پر کوئی بھی بات پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد ہی کی جا سکتی ہے کہ ان کی موت کن وجوہات کے سبب ہوئی۔

    https://urdu.arynews.tv/comedian-raju-srivastava-passes-away/

  • مہمان داری

    مہمان داری

    پاکستان کی نام ور افسانہ و ناول نگار حجاب امتیاز علی تاج کی رومانی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ ان کا نام اردو کی ایسی فکشن نگار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی کہانیوں کو دل کش انداز سے لفظوں کا جامہ پہنایا اور بہت شہرت پائی۔

    حجاب، اردو کے مشہور ڈرامہ نگار سید امتیاز علی تاج کی اہلیہ تھیں۔ دکن میں پیدا ہونے والی حجاب امتیاز علی تاج اپنے دور کی ایک روشن خیال اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ حجاب کی یہ کہانی حیرت انگیز اور تجسس آمیز ہے جس میں انھوں نے دو لڑکیوں اور ایک پروفیسر کو کردار بناتے ہوئے ایک طویل سفر طے کر کے دوسرے شہر میں قدیم مقام پر جاتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس شہر میں ان کا قیام ایک ایسی عورت کے گھر ہوتا ہے جس کا دس روز قبل انتقال ہوا ہے مگر اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد وہی عورت ان کا استقبال کرتی ہے۔ کہانی پڑھیے!

    مجھے ایک مدت سے سمرد کے کھنڈر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اتفاق سے ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اپنے شوق کا ذکر بوڑھے ڈاکٹر گار سے کیا۔ وہ سنتے ہی بولے، ’’اتنا اشتیاق ہے تو بیٹی وہاں کی سیر کو جاتی کیوں نہیں؟ تمہارے قیام کا انتظام میں کیے دیتا ہوں۔ مادام حمرہ دلی خوشی سے تمہیں اپنا مہمان بنائیں گی۔ کہو تو آج ہی انہیں خط لکھ دوں؟‘‘

    ’’مادام حمرہ کون ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ بوڑھے ڈاکٹر گار نے نسوار کی ڈبیہ پتلون کی جیب سے نکالی اور اس پر انگلی مارتے ہوئے بولا،‘‘ تم مادام حمرہ کو نہیں جانتیں روحی؟ دو سال ہوئے یہ خاتون سمرد سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر کار کے حادثہ میں بری طرح زخمی ہوگئی تھیں۔ اتفاق کی بات اسی زمانہ میں ہماری پارٹی شکار کی غرض سے نکلی ہوئی تھی۔ خیمے قریب ہی لگے۔ رات کا وقت تھا۔ شہر دور تھا۔ ایک میں ہی وہاں ڈاکٹر تھا۔ اللہ نے وقت پر مجھے توفیق دی اور میں اس بچاری خاتون کو اپنے خیمے میں اٹھا لایا۔ چوٹیں سخت آئی تھیں مگر چار دن کی تیمار داری اور علاج نے خطرے سے باہر کردیا اور میں نے انہیں اپنی کار میں بٹھا کر ان کے گھر پہنچا دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہمیشہ ان کا اصرار رہا کہ میں کچھ دن کو ان کے ہاں جاؤں اور ان کا مہمان رہوں مگر باوجود اس بچاری کی شدید اصرار کے میں ادھر اب تک نہ جا سکا۔ نہ کھنڈروں کی سیر کے لیے وقت نکال سکا۔ بیماری کی خدمت سے جو وقت بچتا ہے وہ مطالعہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ اب یہ موقع اچھا پیدا ہوگیا۔ اپنی بجائے میں تمہیں بھیج دوں گا۔ انہیں خوشی ہوگی تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔‘‘

    یہ سن کر میں بولی، ’’واقعی موقع تو اچھا ہے مگر ڈاکٹر اکیلی میں نہیں جاتی۔ بخدا مجھے لطف نہ آئے گا تم بھی ساتھ چلو۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنے قدیم انداز میں صاف انکار کردیا ، ’’نہ بیٹی میرا جی نہیں چاہتا کون سوٹ کیس بھرے اور سفر کی زحمت اٹھائے۔‘‘ جسوتی برآمدے کے سر ے پر بیٹھی میوہ کھارہی تھی۔ یہ سن کر وہیں سے بولی، ’’سوٹ کیس میں بھر دوں گی پیارے گاری۔ آپ ضرور چلیں۔‘‘ جسوتی بچپن سے بوڑھے ڈاکٹر کو گاری گاری کہنے کی عادی ہے۔

    ڈاکٹر گار نے تھوڑی دیر کے غور کے بعد اپنی عادت کے مطابق ارادہ بدل ڈالا، بولا، ’’تم لوگوں کی فرمائش ٹالتے ہوئے بھی طبیعت آزردہ ہوتی ہے تو پھر جسوتی! میرے سوٹ کیس تم کو بھرنے ہوں گے اور میری نسوارکی پڑیوں کی دیکھ بھال روحی تم کرو۔‘‘

    بوڑھے ڈاکٹر کی اسی ایک گندی عادت سے مجھے نفرت ہے۔ مجھے نسوار کو چھونے سے بھی گھن آتی ہے مگر کیا کرتی اس وقت مطلب اپنا تھا۔ ناچار وعدہ کرلیا کہ نسوار کی پڑیوں کا اہتمام میں کر لوں گی۔ ڈاکٹر گار نے اسی وقت مادام حمرہ کو خط لکھ دیا کہ ہفتہ عشرہ میں ہم لوگوں سمیت وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کے پاس بعض ایسے اہم کیس آتے رہے کہ خط لکھنے کے پندرہ دن بعد ہم اپنی سفر شروع کرسکے۔

    اس روز میری محبوب اکلوتی سہیلی جسوتی اور ڈاکٹر گار ہم تینوں ڈاکٹر کی چھوٹی سی سفری کار میں چل پڑے۔ دن کی گرمی سے بچنے کے لیے رات کا کھانا کھا کر سفر شروع کیا گیا۔ پروگرام یہ بنا کہ سمرد کے راستے میں رات مادام حمرہ کے ہاں بسر کر کے ان کی خوشی پوری کریں اور دوسری صبح سمرد کے کھنڈروں میں پہنچ جائیں۔ یہ خبر نہ تھی کہ یہ رات زندگی کی نہایت خوفناک راتوں میں سے ایک ہوگی۔۔۔مالک کی پناہ!

    ماہ مئی کی تپتی ہوئی چاندنی رات تھی۔ ہماری ننھی سی ’’ہیمنٹ لے‘‘ ویران سڑک پر کسی تیز رفتار کیڑے کی طرح چلی جارہی تھی۔ نو بج چکے تھے، خیال تھا کہ بارہ ساڑھے بارہ بجے تک ہم مادام حمرہ کے ہاں پہنچ جائیں گے۔ سڑک پر کوئی راہ گیر نہ تھا۔ زرد چاند موسم گرما کے شفاف آسمان پر دم بخود تھا۔ تاڑ کے فلک بوس چھتری نما درخت رات کی فسوں کاری سے مبہوت کھڑے تھے۔

    جسوتی کار چلا رہی تھی۔ میں اس کے پہلو میں بیٹھی ٹافی کھا رہی تھی۔ بوڑھا ڈاکٹر بجھا ہوا سگار منہ میں دبائے غنودگی کے عالم میں پچھلی سیٹ پر پڑا تھا۔ غنودی سے چونکتا تو مزے میں آکر عمر خیام کی کوئی شوخ رباعی اپنی موٹی غیر شاعرانہ آواز میں گا دیتا۔ یہ اس کی مخصوص عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔

    دل فریب چاندنی تھی اور خوابناک سماں۔ دفعتاً جسوتی نے کار کھڑی کردی۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ میں نے چاکو لیٹ کا ایک ٹکڑا نگلتے ہوئے پوچھا۔ وہ بولی، ’’کوئی خرابی روحی!‘‘ اور پھر سیٹ سے اترکر انجن کھول کر دیکھنے لگی۔ میں نے کہا، ’’ناممکن۔۔۔ اچھا ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنا دستی بٹوہ ڈاکٹر گار کی گود میں پھینک دیا اور خود انجن کو دیکھنے لگی۔ آدھے گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد ہم نے مایوس ہوکر ایک دوسرے کو تکا۔ ’’اب کیا ہوگا روحی؟‘‘ جسوتی نے کھسیانے لہجہ میں پوچھا۔

    اسی وقت تاڑ کے دیو قد درخت پر تہذیب و تمدن سے نا آشنا صحرائی الو نے ایک وحشیانہ چیخ ماری۔ بھلا جسوتی کے کان جو ستار کی موسیقی اور محبت کی شیریں سرگوشیوں کے عادی تھے الو کی اس زیادہ کی تاب کب لاسکتے تھے وہ مارے خوف کے مجھ سے چمٹ گئی لیکن میں تو غیر ہموار زمینوں اور مہا ذری جیسے دشوار گزار پہاڑیوں کی سیاحت کی عادی ہوں۔ اس کی بزدلی پر اس کو ہمت دلائی۔ اتنے میں بوڑھا ڈاکٹر گار حافظ کا ایک عشقیہ شعر پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا اور پوچھنے لگا، ’’کیا ہم پہنچ گئے؟‘‘

    کچھ دیر بعد پریشانی کے عالم میں ہم تینوں کار سے نیچے اتر آئے اور سراسمیگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ رات زیادہ گہری ہوتی چلی جاتی تھی۔ چاند کی زرد روشنی میں رات کا کوئی پرند اپنے بڑے بڑے بازو پھیلائے کسی سمت اڑتا تو ہم کسی راہ گیر یا گاڑی بان کے دھوکے میں اسی سمت تکنے لگتے۔ بہت دیر بعد دور سے بغیر چھت کے دیہاتی وضع کی ایک مضحکہ انگیز گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔ جسوتی نے اسے دیکھ کر غمگین لہجہ میں کہا، ’’اگر ہم دیر میں پہنچے تو وہ سوچکی ہوں گی۔ اس لیے اس گاڑی میں چلے چلو۔’’

    گاڑی سڑک کے کنارے بے فکری سے چہل قدمی کرتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ ڈاکٹر گار نے دور سے آواز دی، ’’بڑے میاں! ایوب محلہ میں عشرت خانہ نامی کوٹھی تک ہمیں پہنچا دو گے؟‘‘ گاڑی بان نے بغیر ہماری طرف دیکھے دیہاتیوں کے سے اکھڑ لہجہ میں جواب دیا، ’’نہیں بارہ بج گئے ہیں۔ دیر ہوگئی ہے۔‘‘

    یہ بد تہذیب اور ٹکا سا جواب سن کر بہت ہی غصہ آیا۔ ضبط کر کے میں اور جسوتی اس کے پاس گئیں۔ وہ ہمارے بیش قیمت زریں لباس اور باوقار چہرے کو دیکھ کر گاڑی سے نیچے اُتر آیا۔ ’’یہ لو۔۔۔‘‘ میں نے جاتے ہی چاندی کا ایک چمکدار سکہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا اور بولی، ’’اب ہمیں جلدی سے عشرت خانہ تک پہنچا دو۔‘‘ وہ مرعوب ہوگیا اور مؤدب لہجہ میں بولا، ’’سوار ہوجائیے حضور دو گھنٹوں میں پہنچا دوں گا۔‘‘

    گاڑی کے پائیدان پر قدم رکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ گاڑی سر پر آرہے گی۔ اس لیے فوراً میں نے اس کی چھت تھام لی۔ جسوتی نے اس کے پہیے کو مضبوطی سے پکڑ کر گاڑی پر قدم رکھا۔ غرض ہم تینوں چڑھ کر بیٹھ گیے۔ اب گاڑی چلی جارہی تھی۔ آہستہ آہستہ جیسے کسی جاں بلب مریض کا سانس چل رہا ہو۔ چاند زرد پڑ گیا تھا۔ ہواؤں میں خوفناک سرسراہٹ پیدا ہوگئی تھی۔

    بوڑھا ڈاکٹر گار گاڑی کے ہچکولوں سے ناخوش اور چڑا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ہم دونوں گرمی سے نڈھال ہاتھوں میں خس کی زریں پنکھیاں لیے جن کی ڈنڈیاں خوشبودار صندل کی لکڑی کی تھیں، بار بار بے کلی سے پہلو بدل رہی تھیں۔ آہ! اللہ وہ گرم اور ویران چاندنی رات! سانس آگ کے شعلوں کی طرح ناک سے نکلتا تھا۔ زبان سوکھے پتوں کی طرح خشک تھی۔ جسوتی رہ رہ کر اپنی پری کی وضع کی چھوٹی سی نقرئی صراحی سے پانی انڈیل انڈیل کر پی رہی تھی۔ مشرقی ممالک کی یہ وہی گرم رات تھی جس کے متعلق ہمارے ان ایشیائی ممالک میں مشہور ہے کہ سبز چشم پریاں بھی اپنی آبی دنیا سے باہر نکل آتی ہیں۔

    دور سے ایک سفید شاندار عمارت نظر آنے لگی۔ پھر یک لخت بوڑھا ڈاکٹر گار گاڑی بان پر اور میں جسوتی پر جا پڑی اور اس طرح ہماری مضحکہ خیز گاڑی ایک جھٹکے ساتھ عشرت خانہ کے شاندار پھاٹک میں مڑگئی۔ میں نے رونے کے لہجہ میں کہا، ’’ایسی بھدی گاڑی میں اپنے میزبان کے سامنے جاتے ہوئے میں تو زمین میں گڑ جاؤں گی۔‘‘ اس پر بوڑھے ڈاکٹر گار نے کہا، ’’مگر روحی! اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ وہ کیا سمجھ نہ جائیں گی کہ مجبوری کو اس گاڑی میں سوار ہونا پڑا ہوگا۔‘‘ جسوتی نے کہا، ’’نہ نہ جتنی جلدی ہوسکے اس کو واپس کردو۔‘‘

    چاندنی کی سفید دھاریاں خوش قطعے اور تنگ روشوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ہماری گاڑی صدر دروازے پر جاکر لگ گئی۔ ہم نے فوراً اسے واپس کردیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا ، ’’یہاں کی دنیا تو خواب میں ملفوف نظر آتی ہے۔ چوکیدار کا بھی پتہ نہیں۔‘‘ جسوتی نے کہا، ’’کہ کون جانے مادام حمرہ یہاں ہیں یا نہیں۔‘‘ ڈاکٹر کہنے لگا، ’’ہوں گی کیوں نہیں؟ انہوں نے میرے خط کا جواب دیا تھا کہ میں دلی اشتیاق سے آپ سب کی آمد کی منتظر رہوں گی۔‘‘

    ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پہلے احتیاط سے آہستہ آہستہ پھر کچھ دیر بعد زور زور سے۔ مکان کا طواف کیا۔ نوکروں کو پکارا۔ چوکیدار کو آوازیں دیں۔ غرض جتنی کوششیں ہوسکتی تھیں کرلیں مگر زرد چاندنی میں سفید مرمریں محرابوں والا عالی شان محل ساکت کھڑا رہا۔ وسیع برآمدوں میں لمبے لمبے ستونوں کا عکس چاندنی میں ترچھا پڑ رہا تھا۔ چنبیلی کی بیل میں جھینگر اپنا نغمۂ تنہائی الاپ رہا تھا۔

    جب مایوس ہوکر ہم لوگ زینے سے اترنے لگے تو اچانک اندر کسی کمرے سے ایک ایسی آواز آئی جیسے کسی نے دیا سلائی جلائی ہو۔ ڈاکٹر گار نے چونک کر کہا، ’’ٹھہرو۔ میرا خیال ہے کہ کوئی جاگ اٹھا۔‘‘ ہم تینوں پھر زینے طے کر کے دروازے کے پاس اس امید میں جا کھڑے ہوئے کہ اب کھلتا ہے اور اب کھلتا ہے۔ اندر سے کبھی کبھی کوئی خفیف سی آواز آجاتی تھی۔ پانچ منٹ اسی حالت میں گزر گئے۔ ہم بند دروازے پر نظریں گاڑے کھڑے رہے۔

    آخر ڈاکٹر نے حیران ہوکر کہا، ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے شیشوں میں سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ وہاں سوائے تاریکی کے کچھ نہ تھا۔ ڈاکٹر بیزار ہو کر چلایا ، ’’ارے بھئی یہاں کوئی ہے بھی؟‘‘ اس کے چلانے کا اثر یہ ہوا کہ اندر پھر کچھ گڑبڑی سی ہونے لگی۔ دو لمحہ بعد دروازہ یکایک اس زور سے کھلا کہ ہماری تو آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس کا کھلنا تھا کہ تیز و تند ہوا کا ایک سرد جھونکا اچانک ہمارے گرم چہروں سے یوں آکر لگا جیسے کسی نے تھپڑ مارا ہو۔ میری تو آنکھیں بند ہوگئیں اور ساتھ ہی ہم تینوں کھڑے کھڑے کانپ سے گئے لیکن دروازہ کے سامنے جو موجود کوئی نہ تھا۔ ڈاکٹر گار حیران اور پریشان ہوکر بولا، ’’یہ دروازہ کھولا کس نے؟‘‘

    اندر کی ویران تاریکی میں داخل ہونے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک قدم اندر رکھا تھا کہ جسوتی نے اسے روک دیا۔ بیزار ہو کر ہم نے پھر باغ کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ یک لخت پھر اندر کے کسی دروازے کے پٹ سے کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی سرد اور تند ہوا کا جھونکا ایک بار پھر ہم تک پہنچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تاریکی میں ایک ہلکی سی روشنی نظر آنے لگی جو بتدریج موم بتی میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے نگاہ موم بتّی سے ذرا اوپر اٹھائی تو اٹھائیس انتیس سالہ ایک حسین اور دلفریب خاتون نظر آئی جس نے نہایت سادہ اور سفید لمبے لمبے لرزاں دامنوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ موم بتی اس کے ہاتھ میں تھی۔ ڈاکٹر گار کو دیکھ کر وہ مسکرائی اور سر جھکایا۔ ’’مزاج شریف مادام حمرہ۔۔۔ یہ دونوں لڑکیاں میری ہیں، انہیں کا ذکر میں نے خط میں کیا تھا۔‘‘ خاتون حمرہ نے نہایت دلکش انداز میں ہماری طرف دیکھ کر خیر مقدم کے طور پر سر جھکایا۔

    پھر ایک لمحہ بعد بغیر کوئی بات کیے انہوں نے اشارے سے ہمیں اپنے پیچھے بلایا اور روشنی دکھاتے ہوئے خود سامنے چلنے لگیں۔ ایک بل کھائے ہوئے ناگ کے پھن پر موم بتی جل رہی تھی۔ ہوا سے ان کے لمبے لمبے دامن ان کے پیچھے دو ردور تک لہرا رہے تھے۔ چال ایسی تھی جیسے کوئی پری ہوا میں تیر رہی ہو۔ سیاہ بال سفید ریشمی چادر کے نیچے ہوا کی شوخیوں سے لہرا رہے تھے۔ چہرے پر حوروں کی سی مسکراہٹ تھی۔

    اسی وقت جسوتی نے سرگوشی کی، ’’روحی! یہاں کیسی خنک ہوا چل رہی ہے، باہر تو سڑکوں پر لو کی تکلیف دہ لپٹوں سے ہمارے چہرے گرم ہورہے تھے۔‘‘ جسوتی کا فقرہ ختم ہوا ہی تھا کہ ہم ایک عالی شان محل میں پہنچے جہاں ایک سیاہ لمبی اعلیٰ پالش شدہ چمکدار میز پر انواع اقسام کے پھل برگ نما نقرئی طشتوں میں سجے ہوئے تھے۔ دل کی شکل کی ننھی کٹوریوں میں شربت رکھا ہوا تھا۔ میز کے اوپر چھت میں کنول کے پھولوں کی وضع کے فانوس آویزاں تھے۔ دروازوں پر ارغوانی رنگ کے زریں پردے لگے ہوئے تھے۔ دیواروں پر کسی قدیم جنگ چین کے مناظر لٹک رہے تھے۔

    مادام حمرہ نے اپنی سانپ کی شکل کا شمع دان میز پر رکھ دیا اور خود سرے والی میز پر بیٹھ گئیں۔ ’’لیکن!‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا، ’’میری پیاری مادام۔۔۔ رات کے دو بجے ایسی لذیذ میز سے کوئی کس طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے؟ اس وقت تو ایک نرم آرام دہ بستر عنایت ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘

    یہ سنتے ہی مادام حمرہ بغیر کسی قسم کا کوئی لفظ منہ سے نکالے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کھانے کے لیے مطلق اصرار نہ کیا۔ اپنا وہی ناگ کی وضع کا شمع دان اٹھا لیا اور مسکرا کر گردن کے اشارے سے ہمیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ ایک پرتکلف خواب گاہ میں جہاں مدھم روشنیوں کے نیچے نفیس اور رنگین ریشمی بستر بچھے ہوئے تھے لے گئیں۔ یہاں پہنچ کر سر کے اشارے سے ہمیں شب بخیر کہا اور چپ چاپ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی اسی طرح باہر چلی گئیں۔

    میں ایک کمزور دل کی وہمی عورت ہوں۔ اپنی میزبان کی ان حرکات نے میرا خون خشک کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے کمرے سے باہر جاتے ہی میں نے ڈاکٹر گار کا ہاتھ تھام لیا اور بولی، ’’یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ گار بولا، ’’میں خود حیران ہوں نہ جانے کیا معاملہ ہے؟‘‘

    ’’یہاں سے بھاگ چلو ڈاکٹر۔‘‘ میں نے بیزار لہجہ میں کہا۔ جسوتی بولی، ’’ان کی کیسی میٹھی شکل ہے۔ پر کہیں گونگی تو نہیں؟‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا ’’نہیں بیٹی! نہیں! وہ بے حد باتونی ہیں۔‘‘ میں سوچتے ہوئے بولی، ’’باوجود ان کے حسن کے انہیں دیکھ کر مجھے دہشت سی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر گار اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جسوتی اور میں اس راز کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہوئی کوئی تین بجے کے قریب اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹ گئیں۔ صبح کی عبادت کے وقت عادتاً میری آنکھ کھل گئی۔ پروگرام کے مطابق آٹھ بجے ہمیں سمرد کے کھنڈروں کی طرف روانہ ہوجانا تھا اس لیے میں نے جسوتی کو بھی جگا دیا۔ ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ صبح گرم اور خوشگوار تھی۔ نماز کے بعد سامنے چنبیلی کی بیلوں میں بیٹھ کر بہت دیر تک چائے کا انتظار کیا۔ مگر جب مایوسی ہوئی تو میں ڈاکٹر گار کے کمرے میں گئی اور بولی، ’’ڈاکٹر! ابھی تک سورہے ہو؟‘‘ وہ بولے، ’’چائے کے انتظار میں پڑا ہوں روحی۔ چائے آجائے تو اٹھوں۔ ذرا وہ نسوار کی ڈبیا پکڑا دینا۔ شکریہ۔‘‘ نوبج گئے اور کسی نے خبر نہ کی تو میں نے کہا، ’’چلیے ڈاکٹر ذرا باہر نکل کر دیکھیں۔ چائے یا کوئی خادمہ کیوں نہیں آتی؟‘‘

    ڈاکٹر گار نے جلدی جلدی کپڑے پہن لیے۔ ہم تینوں وسیع برآمدے سے گزر کر بڑے ہال میں آئے۔ تمام دروازے بند تھے۔ ہر طرف سناٹا اور ویرانی تھی۔ بیش قیمت فرنیچر پر گرد تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوٹھی کئی روز سے بند پڑی ہے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے کھنکھار کر آہٹ کر کے ایک ایک کمرے کو کھولا لیکن ہر کمرہ خالی تھا۔ ہر کمرے کے سامان کی یہ حالت تھی جیسے برتا نہیں جاتا۔ سنگو کر رکھ دیا گیا ہے۔ ساری کوٹھی دیکھ ڈالی۔ اس میں کہیں کوئی متنفس نہ تھا۔ ہمارے دلوں پر دہشت ایک بوجھ کی طر ح بیٹھنے لگی۔ پریشان ہوکر باہر باغ میں نکل آئے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ راتوں رات کیا ہوگیا۔۔۔ نوکر کدھر ہیں؟ مادام حمرہ کہاں غائب ہوگئیں۔

    دس بجنے آگئے۔ ہم پریشانی کے عالم میں اس ویران گھر کے زینے پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ اتنے میں دیکھا کہ بوڑھا ملازم باغ سے ہوکر اندر آیا اور چپ چاپ ایک کمرے میں داخل ہوگیا پھر اس نے فرنیچر نکال کر باہر رکھنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ زور زور سے روتا بھی جارہا تھا۔ ہم لوگ تیزی سے اس کی طرف گئے۔ وہ ہمیں دیکھ کر ٹھٹک سا گیا اور پھر حیران ہوکر ہمارا منہ تکنے لگا۔ ڈاکٹر گار نے پوچھا، ’’مادام حمرہ کہاں ہیں؟‘‘

    بوڑھا متعجب ہوکر دیوانوں کی طرح ڈاکٹر کا منہ تکنے لگا۔ ڈاکٹر گار نے پھر کہا ’’ہم ان کے مہمان ہیں۔ مادام حمرہ کہاں گئیں؟‘‘ بوڑھے نے حیران ہوکر کہا، ’’مادام حمرہ۔۔۔؟ آہ حضور بیگم صاحبہ کو تو سانپ نے ڈس لیا۔ ان کے انتقال کو آج پورے دس دن ہوگئے۔ آج گھر کا سامان نیلام ہونے والا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے جسم میں ایک پھریری سی محسوس کی۔ رات کا وہ پراسرار سرد ہوا کا جھونکا پھر ایک دفعہ مجھے قریب محسوس ہونے لگا اور میں بید مجنوں کی طرح کانپنے لگی۔ اس کے بعد مجھے مطلق یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا؟

  • فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • لڑکے شادی کرنے کا کہیں تب بھی لڑکیاں تصویر اور ویڈیوز نہ بھیجیں، مشی خان

    لڑکے شادی کرنے کا کہیں تب بھی لڑکیاں تصویر اور ویڈیوز نہ بھیجیں، مشی خان

    اداکارہ مشی خان کا کہنا ہے کہ لڑکے شادی کرنے کا بھی کہیں تب بھی لڑکیاں تصویر اور ویڈیوز نہ بھیجیں۔

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ مشی خان نے لڑکیوں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنی ویڈیوز اور تصاویر بنا کر جس سے بھی آپ کا رابطہ ہے اس کو مت بھیجیں۔

    انہوں نے کہا کہ چاہے لڑکا الٹ جائے کہ میں شادی کروں گا، شادی بس کل ہی ہونے والی ہے تب بھی نہ بھیجیں بلکہ آپ شادی شدہ بھی ہیں تو اس طرح کی چیزیں جو پرائیویٹ ہوتی ہیں وہ آپ کو قطعاً کسی کو بھی نہیں بھیجنی چاہئیں۔

    اداکارہ نے کہا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ دوسرے شخص کا دماغ کب تبدیل ہوجائے اور وہ آپ کو بلیک میل کرنے لگے، بلینگ میلنگ کے بہت سارے قصے ہیں، بہت ساری لڑکیاں اس جھانسے میں آجاتی ہیں۔

    مشی خان نے کہا کہ لڑکا پھر دھمکی دے کر پیسے منگواتا ہے، آپ ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں، بہت سی خواتین اور لڑکیاں خودکشیاں بھی کرلیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ مذاق کی بات نہیں ہے ٹھیک ہے پیار محبت ہوتا ہے تو ایک حد تک چیزیں ٹھیک ہوتی ہیں لیکن آپ لوگ بالکل ہی دماغ سے کام لینا چھوڑ دیتی ہیں اور وہ یہ سب حاصل کرکے مسکرا رہا ہوں۔

  • فواد خان کی ’پروانہ‘ کے ساتھ میوزک انڈسٹری میں واپسی

    فواد خان کی ’پروانہ‘ کے ساتھ میوزک انڈسٹری میں واپسی

    عالمی شہرت یافتہ معروف پاکستانی اداکار و گلوکار فواد خان نے ’پروانہ‘ کے ساتھ میوزک انڈسٹری میں واپسی کرکے مداحوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    اداکار فواد خان نے سالوں قبل راک بینڈ ای پی کے ساتھ گلوکاری کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد گلوکارہ چھوڑ کر اداکاری میں لوہا منوایا تاہم اب انہوں نے دوبارہ نیا نغمہ ’پروانہ‘ کے ساتھ میوزک انڈسٹری میں واپسی کی ہے۔

    پروانہ محبت، دھوکے اور پچھتاوے کے جذبات پر مبنی ہے جس میں فواد خان عاشق کا کردار نبھا رہے ہیں جو بارش میں بھیگی یادوں کے ساتھ ماضی کو یاد کررہا ہے۔

    گانے کی پیشکش مشہور ہدایت کار بلال لاشاری نے کی ہے، اور فواد خان نے اپنے مخصوص انداز اور بے مثال اداکاری سے اس گانے میں جان ڈال دی ہے۔

    مداحوں نے نہ صرف فواد خان کی پرفارمنس کو سراہا بلکہ ساؤنڈ اسٹیشن کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے ایک بار پھر ایک لیجنڈری گلوکار کو سننے کا موقع دیا۔

    فواد خان کی یہ واپسی ان کے فنی سفر کا نیا اور خوش آئند باب ثابت ہو رہی ہے، اور مداح ایک بار پھر ان کی آواز میں نئی موسیقی سننے کے لیے بے چین ہیں۔

  • ‘سابق شوہر بہت ڈیمانڈنگ تھے، مائیں لڑکوں کو ایسے ہی تیار کرتی ہیں‘

    ‘سابق شوہر بہت ڈیمانڈنگ تھے، مائیں لڑکوں کو ایسے ہی تیار کرتی ہیں‘

    شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے سابق شوہر کو ڈیمانڈنگ قرار دے دیا۔

    سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے 1978 میں پروڈیوسر اور ہدایت کار اقبال انصاری سے پہلی شادی کی جو 2014 میں اختتام پذیر ہوئی جس کے بعد اداکارہ نے دوسری شادی اقبال حسین سے کی ہے۔

    حالیہ انٹرویو میں بشریٰ انصاری نے کہا کہ شادی سے قبل ہمیں یہ لگتا تھا کہ میاں بیوی ہیں جو محبت اور خوشی سے زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ہم نے والدین کو بہت محبت کرتے دیکھا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ جب پہلی شادی ہوئی تو شوہر کامیاب انسان تھے، انڈسٹری کو سمجھتے تھے لیکن وہ ایک نارمل شوہر تھے جو بہت ڈیمانڈنگ تھے جنہیں ہر چیز چاہیے ہوتی تھی۔

    اداکارہ نے کہا کہ پاکستان میں مائیں لڑکوں کو ایسا ہی تیار کرتی ہیں، وہ بیٹوں کو خود کام کرنے ہی نہیں دیتیں۔

    اس سے قبل ایک انٹرویو میں بشریٰ انصاری نے اپنے سابق شوہر کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سابق شوہر اقبال انصاری کو برا کہنے والوں کو منع کر دیتی ہیں۔

    اداکارہ نے کہا تھا کہ میرے سابق شوہر اقبال انصاری کے بارے میں لوگ غلط بات کرتے ہیں، اخلاقی طور پر میرا فرض بنتا ہے کہ میں لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کروں۔

  • ‘انداز اپنا اپنا’ کے سین کی پیروڈی، عامر اور جنید خان نے دھوم مچادی

    ‘انداز اپنا اپنا’ کے سین کی پیروڈی، عامر اور جنید خان نے دھوم مچادی

    بالی وود کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان اور ان کے بیٹے جنید خان نے فلم ‘انداز اپنا اپنا’ کے سین کی پیروڈی کرکے دھوم مچادی۔

    سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ‘مس مالینی’ نامی پیج سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں عامر خان اپنی مشہور زمانہ فلم ‘انداز اپنا اپنا’ کے ایک سین کی مزاحیہ پیروڈی اپنے بیٹے جنید خان کے ساتھ کرتے نظر آرہے ہیں جسے مداح کافی پسند کررہے ہیں۔

    عامر خان اس فلم میں جس طرح اپنے والد کو بیوقوف بناتے ہیں، اس سین کو کاپی کرتے ہوئے جنید خان نے اپنے اصلی والد عامر خان کے ساتھ کلپ بنائی ہے۔

    ویڈیو میں سین شروع ہوتا ہے اور عامر خان گیٹ سے اندار آکر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے، جس پر جنید خان انھیں کہتے ہیں آؤٹ بولا تھا نہ باہر کھڑے رہو، جس پر عامر غصے سے کہتے ہیں کہ گدھے میں تیرا باپ ہوں۔

    اس مزاحیہ کلپ کو کچھ ہی گھنٹوں پہلے مذکورہ پیج پر شیئر کیا گیا ہے جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں اور اس پر دلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔

  • حنا رضوی نے شوہر عمار احمد خان سے علیحدگی اختیار کرلی

    حنا رضوی نے شوہر عمار احمد خان سے علیحدگی اختیار کرلی

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حنا رضوی نے شوہر عمار احمد خان سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    اداکارہ حنا رضوی نے اپریل 2024 میں اداکار اور دوست عمار احمد خان کے ساتھ شادی کی جس میں عزیز و اقارب اور دوستوں نے شرکت کی تھی۔

    تاہم آج انسٹاگرام اسٹوری میں حنا رضوی نے شوہر عمار احمد خان سے طلاق کا اعلان کردیا۔

    یہ پڑھیں: ہماری شادی کی تصاویر پر لوگوں نے کہا ماں بیٹا لگ رہے: حنا رضوی

    انہوں نے لکھا کہ ’بڑے دل کے ساتھ میں اعلان کرتی ہوں کہ میرے شوہر عمار احمد خان اور میں نے علیحدگی اختیار کرلی ہے، میں سب سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہماری پرائیویسی کا احترام کریں۔‘

    اداکارہ نے لکھا کہ ’یہ کوئی آسان قدم نہین تھا اور ہم دونوں کو مزید یہ فیصلہ کرنے کے لیے وقت درکار ہے کہ اس رشتے کے مستقبل کے لیے کیا بہتر ہے، تب تک براہ کرم ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں۔‘

    حنا رضوی نے مزید لکھا کہ ’ایک عجازانہ درخواست، براہ کرم اپنے منفی ریمارکس سے ہماری زندگیوں کو دکھی نہ کریں۔

    حنا رضوی نے اس سے قبل انسٹاگرام پر کچھ معنی خیز پوسٹ شیئر کی تھیں جو ان کی علیحدگی کا اشارہ دیتی ہیں۔

  • جس انڈسٹری میں اداکاراؤں کی لاشیں ملیں، وہاں کون کام کرے گا، نعیمہ بٹ

    جس انڈسٹری میں اداکاراؤں کی لاشیں ملیں، وہاں کون کام کرے گا، نعیمہ بٹ

    اداکارہ نعیمہ بٹ کو پاکستانی شوبز انڈسٹری سے متعلق بیان دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مقبول ڈرامہ سیریل ’کبھی میں کبھی تم‘ میں نعیمہ بٹ نے عماد عرفانی کی اہلیہ کا کردار نبھایا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

    اب انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری میں ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کہتی ہیں کہ مجھ سے کہا جارہا کہ آپ کو پاکستانی انڈسٹری میں کام نہیں مل رہا ہے تبھی اس طرح کی ویڈیوز بنا رہی ہیں۔

    جواب میں نعیمہ بٹ نے کہا کہ ’جس انڈسٹری میں اداکاراؤں کی لاشیں مل رہی ہوں وہاں کس کو کام چاہیے۔‘

    اداکارہ نے ویڈیو میں اپنے پالتو کتے کو بھی دکھایا اور کہا کہ شوبز انڈسٹری سے تو ان کا پالتو کتا وفادار ہے۔

    نعیمہ بٹ نے اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا، تاہم ان کا اشارہ گزشتہ ماہ جولائی میں مردہ حالت میں پائی گئیں اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر اور سینئر اداکارہ عائشہ خان کی جانب تھا۔

    حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو کراچی کے کرائے کے فلیٹ سے ملی تھی، ان سے قبل جون میں سینئر اداکارہ عائشہ خان بھی کراچی میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئی تھیں۔

    نعیمہ بٹ ’کبھی میں، کبھی تم‘ میں فہد مصطفیٰ اور ہانیہ عامر کے ساتھ کام کرنے کے بعد اسکرین سے دور ہیں، تاہم وہ سوشل میڈیا پر مزاحیہ اور ڈانس ویڈیوز شیئر کرتی رہتی ہیں۔

    اداکارہ کی جانب سے شیئر کی گئی نئی ویڈیو کو دوسرے سوشل میڈیا پیجز کی جانب سے بھی شیئر کیا گیا، جہاں صارفین نے اداکارہ پر تنقید کی اور لکھا کہ اداکارہ فضول میں اپنا نام خراب کر رہی ہیں، انہیں ایسی ویڈیوز نہیں بنانی چاہئیں۔

  • شاہ رخ خان کا 33 سالہ انتظار ختم، اہم ایوارڈ سے نواز دیا گیا

    شاہ رخ خان کا 33 سالہ انتظار ختم، اہم ایوارڈ سے نواز دیا گیا

    بالی ووڈ کے کنگ شاہ رخ خان کا 33 سالہ انتظار ختم ہوا انہیں پہلی بار بہترین اداکاری پر نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ کے شہنشاہ شاہ رخ کو 33 سال کے انتظار کے بعد ’’نیشنل فلم ایوارڈ‘‘ مل گیا، کنگ خان کو فلم ’جوان‘ میں بہترین اداکاری پر نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔؛

    شاہ رخ نے اس اعزاز کے ملنے پر انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں انہوں نے حکومتِ بھارت اور اپنے مداحوں کا دل سے شکریہ ادا کیا، ویڈیو میں ان کے چہرے پر خوشی اور فخر صاف دکھائی دے رہا تھا۔

    شاہ رخ خان جنہیں اکثر "کنگ خان” یا "بالی ووڈ کے بادشاہ” کہا جاتا ہے، ایک مشہور بھارتی اداکار، فلم پروڈیوسر، اور ٹیلی ویژن شخصیت ہیں۔ وہ 2 نومبر 1965 کو نئی دہلی، بھارت میں پیدا ہوئے، وہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے سب سے کامیاب اور بااثر اداکاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے 100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا ہے۔

    شاہ رخ خان نے رومانٹک، ایکشن، ڈرامہ، اور کامیڈی فلموں میں اپنی ورسٹائل اداکاری سے شہرت حاصل کی۔ ان کی کچھ مشہور فلمیں شامل ہیں:

    دل والے دلہنیا لے جائیں گے (1995)

    کچھ کچھ ہوتا ہے (1998)

    دیو داس (2002)

    چک دے! انڈیا (2007)

    راب نے بنائی جوڑی (2008)

    چنائی ایکسپریس (2013)

    جوان (2023)

    پٹھان (2023)

    شاہ رخ خان نے اپنی اہلیہ گوری خان کے ساتھ مل کر ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ قائم کی، جو کئی کامیاب فلمیں اور ویب سیریز پروڈیوس کر چکی ہے۔

    انہوں نے متعدد ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں 14 فلم فیئر ایوارڈز شامل ہیں، بھارت نے انہیں پدم شری (2005) اور پدم وبھوشن (2015) جیسے اعلیٰ سول ایوارڈز سے بھی نوازا ہے۔ فرانس نے انہیں آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز اور لیجن آف آنر سے بھی سرفراز کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Shah Rukh Khan (@iamsrk)