Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • کنگنا رناوت کو عدالت نے بری خبر سنادی

    کنگنا رناوت کو عدالت نے بری خبر سنادی

    بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ اور فلم اداکارہ کنگنا رناوت کو پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے بری خبر سنادی۔ عدالت نے ان کے خلاف ہتک عزت کی شکایت رَد کرنے سے متعلق عرضی کو خارج کرنے کا فیصلہ سنادیا، اداکارہ کو اب ہتک عزت کے مقدمہ کا سامنا کرنا ہوگا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق معاملہ 2021 کا ہے، جب کسان تحریک چل رہی تھی۔ اس دوران کنگنا رناوت نے بھٹنڈا کے گاؤں بہادر گڑھ جنڈیا کی 87 سالہ بزرگ خاتون کسان مہندر کور کو 100-100 روپے لے کر دھرنا میں شامل ہونے والی خاتون بتاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کی تھی۔

    کنگنا کی اسی پوسٹ کے خلاف مہندر کور نے بھٹنڈا کورٹ میں ہتک عزتی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ کنگنا نے اس سوشل میڈیا پوسٹ کو بعد میں ڈیلیٹ کر دیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق مہندر کور نے کنگنا کی پوسٹ کے بعد 4 جنوری 2021 کو ہتک عزتی کا مقدمہ داخل کیا تھا۔ تقریباً 13 ماہ تک سماعت چلی، جس کے بعد بھٹنڈا کی عدالت نے کنگنا کو سمن جاری کرتے ہوئے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد کنگنا نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں راحت کی عرضی داخل کی تھی، جسے اب خارج کر دیا گیا ہے۔

    اس معاملے میں کنگنا کا کہنا تھا کہ انھوں نے صرف ایک وکیل کی پوسٹ کو ری پوسٹ کیا تھا۔ لیکن اب عدالت نے کنگنا کی عرضی کو خارج کردیا ہے۔

    زہران بھارتی سے زیادہ پاکستانی لگ رہا ہے، ڈیموکریٹک امیدوار کیخلاف کنگنا کی زہریلی ٹوئٹ

    ہائی کورٹ کے مطابق عرضی دہندہ، جو ایک مشہور شخصیت ہیں، ان کے خلاف خصوصی الزام ہے کہ ان کے ری ٹوئٹ میں ان کی طرف سے لگائے گئے جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات نے خاتون کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ نے کیس سے منسلک سبھی باتوں کو اچھی طرح دیکھا ہے۔ انھوں نے یہ طے کرنے کے بعد ہی کارروائی شروع کی، کیونکہ کنگنا کے خلاف پہلی نظر میں ہتک عزتی (دفعہ 499) کا معاملہ بنتا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد بھٹنڈا کورٹ میں ہتک عزتی کے مقدمہ پر آگے کی سماعت ہوگی۔

  • بنگلادیشی ماڈل شانتا پال بھارت میں گرفتار

    بنگلادیشی ماڈل شانتا پال بھارت میں گرفتار

    بنگلادیشی یوٹیوبر اور ماڈل شانتا پال کو بھارت میں جعلی دستاویزات رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس نے کلکتہ کے علاقے میں کرائے فلیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران شانتا پال کو گرفتار کیا۔

    پولیس نے 28 سالہ ماڈل کے قبضے سے دو جعلی آدھار کارڈ، ایک ووٹر آئی ڈی، راشن کارڈ اور پین کارڈ برآمد کیا ہے جو تمام مغربی بنگال کے مختلف پتوں پر رجسٹرڈ تھے۔

    پولیس کے مطابق اداکارہ اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی بھارت میں ہی چھپ کر مقیم تھیں جبکہ وہ 2023 میں کلکتہ آئیں تھیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ وہ مقامی باشندوں میں گھل مل جانے کے لیے بروکرز کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے یہ جعلی دستاویزات حاصل کر رہی تھیں۔

    شانتا پال کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب پولیس نے ایک معمول کی جانچ کے دوران ان سے درست ویزا طلب کیا جسے وہ پیش نہ کر سکیں۔

    اس کے بعد تلاشی کے دوران ان کے پاس سے جعلی دستاویزات کے ساتھ ساتھ متعدد بنگلا دیشی پاسپورٹ اور دیگر ذاتی شناختی کارڈ بھی برآمد ہوئے۔

  • میری شادی خطرے میں ہے، عتیقہ اوڈھو نے ایسا کیوں‌ کہا؟

    میری شادی خطرے میں ہے، عتیقہ اوڈھو نے ایسا کیوں‌ کہا؟

    شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے انکشاف کیا ہے کہ میری شادی اب خطرے میں ہے۔

    نجی ٹی وی کے پروگرام میں اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ میرا رشتہ میاں کے ساتھ خطرے میں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ دن رات ڈرامہ دیکھتی رہتی ہو، مجھ سے بات نہیں کرتیں، میرے لیے وقت نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا ڈرامے پر تبصرے کے لیے ہوم ورک کرنا پڑتا ہے، ایمانداری سے نہیں کریں تو نہیں بیٹھنا چاہیے، لوگوں کے کیریئر ان کے مستقبل کا سوال ہوتا ہے۔

    عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر کسی اداکار، رائٹر پر بات کریں تو ہمارا ہوم ورک مکمل ہونا چاہیے۔

    اداکارہ نے کہا کہ گھر میں ڈرامے دیکھ کر چیزیں نوٹ کرتی ہوں تو سارا وقت اسی میں نکل جاتا ہے، شوہر کو وقت نہیں دے رہی، میرے گھر کا ماحول برباد ہورہا ہے۔

    مرینہ خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اداکاروں کی تصاویر کو لے کر بہت جھوٹ بولا جارہا ہے جسے نارمل بنایا جارہا ہے اس پر ایکشن ہونا چاہیے۔

    اداکارہ نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ فیک ہے تو آپ رک کیوں نہیں جانتے کیا پاگل ہوگئے ہیں۔

  • طلاق لینے پر خوش ہیں تو اس میں کیا غلط ہے، آغا علی

    طلاق لینے پر خوش ہیں تو اس میں کیا غلط ہے، آغا علی

    شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار آغا علی کا کہنا ہے کہ طلاق لینے پر خوش ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔

    اداکار آغا علی نے حال ہی میں پوڈ کاسٹ میں شرکت کی جہاں میزبان نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں خوشی خوشی طلاق کو پروموٹ کرنا چاہیے؟

    جواب میں اداکار نے کہا کہ میں نے نہیں بولا بٹ صاحب نے بولا تھا، اگر آپ طلاق لینے پر خوش ہیں تو اس میں غلط کیا ہے، کوئی بھی جوڑا الگ کیوں ہوتا ہے کیونکہ وہ خوش نہیں ہوتا۔

    آغا علی نے کہا کہ کوئی بھی الگ ہونے کا فیصلہ اسی لیے کرتا ہے کہ ساتھ میں خوش نہیں ہے الگ رہ کر خوش رہیں گے تو مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے کچھ غلط کہا ہے۔

    اداکار نے کہا کہ اس بات کو سال ہوگیا ہے کہ میں عوام سے کیوں جھوٹ بولوں گا۔ اگر وہ ایسا نہیں بولتے تو اس پوڈ کاسٹ میں ایسی بات نہیں ہوتی۔

    انہوں نے کہا کہ آغا علی سے ملاقات کرلی تو سنبھل گے ہیں ورنہ کچھ عرصے پہلے فیصلہ سنا دیا گیا تھا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے، انڈسٹری، لوگ ایسا رویہ کررہے تھے کہ میں ختم ہوگیا ہوں۔

    آغا علی نے کہا کہ میں کہیں نہیں گیا یہیں پر موجود ہوں اپنا بیسٹ دینے کی کوشش کررہا ہوں۔

    واضح رہے کہ آغا علی نے اداکارہ حنا الطاف سے شادی کی لیکن دونوں کی شادی نہیں چل سکی اور باہمی رضامندی سے علیحدگی اختیار کرلی۔

  • حرا اور ارسلان خان کی دلچسپ ویڈیو وائرل

    حرا اور ارسلان خان کی دلچسپ ویڈیو وائرل

    شوبز انڈسٹری کی جوڑی اداکارہ حرا اور ارسلان خان کی دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ حرا خان شوہر ارسلان کے ساتھ مزاحیہ ویڈیو شیئر کرتی رہتی ہیں جنہیں ان کے مداح بھی پسند کرتے ہیں۔

    اداکارہ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ حقیقی واقعات سے متاثر ہے جبکہ ویڈیو کے اوپر ہر شوہر کے دل کی آواز لکھا دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں حرا خان شوہر سے کہتی ہیں کہ اچھا سنو، میں آپ کو ابھی بھی پیاری لگتی ہوں، شوہر کہتے ہیں کہ ہاں۔ پھر وہ کہتی ہیں کہ آپ کو میری قسم ہے کہ میرے لیے کوئی گانا گا کر سنائیں۔

    ارسلان خان گانا گاتے ہیں کہ ’تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے۔‘ اس کے بعد وہ منہ بناتے ہوئے گاتے ہیں کہ ’کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے۔‘

    شوہر کے چہرے کے تاثرات سے بے خبر حرا گانے سے محظوظ ہوتی رہتی ہیں۔

  • اچھے کپڑوں اور لگژری گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، حرا مانی

    اچھے کپڑوں اور لگژری گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، حرا مانی

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حرا مانی نے نئی تصاویر کے ساتھ مداحوں کے لیے دلچسپ پیغام شیئر کردیا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ حرا مانی نے چند تصاویر اور ویڈیو شیئر کیں جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں۔

    اداکارہ سوشل میڈیا پر اکثر اپنی ڈانس ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں تاہم اب حرا مانی نے تصاویر کے ساتھ دلچسپ پیغام بھی شیئر کیا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ ’اچھے کپڑوں اور لگژری گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی جب میرے پاس یہ سب کچھ آیا تو پتا لگا ہے۔‘

    حرا مانی نے مزید لکھا کہ ’اپنے اندر کے بچے کو مت مارو جو صرف چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوش رہتا ہے۔‘

  • ORIGIN OF SPECIES: وہ کتاب جس نے ذہنی انقلاب برپا کر دیا

    ORIGIN OF SPECIES: وہ کتاب جس نے ذہنی انقلاب برپا کر دیا

    ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سیاست کے میدان میں تو نمایاں تھے ہی اور انھیں ہندوستان کا معمار بھی کہا جاتا ہے، مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں‌ کہ ان کو لکھنے پڑھنے سے بھی شغف تھا۔ انگریزی زبان میں ان کے کئی مفید اور معلومات افزا مضامین پر مشتمل کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں۔

    یہ جواہر لال نہرو کے ایک انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے۔ پنڈت نہرو انگریزی زبان کے ایسے قلم کار تھے جن کی زبان رسمی نہیں بلکہ تخلیقی رہی ہے۔ اس مضمون کو رفیق محمد شاستری نے اردو میں ڈھالا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    انیسویں صدی کے وسط یعنی 1851ء میں انگلینڈ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس نے غیر استدلالی یا اعتقادی نظریے اور سائنٹفک نظریے کی تکرار کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ یہ کتاب چارلس ڈارون کی "جاندار مخلوق کی ابتدا” (ORIGIN OF SPECIES) تھی۔ ڈارون کا شمار بہت بڑے سائنس دانوں میں نہیں ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا اس میں کوئی بہت نئی بات نہیں تھی۔ ڈارون سے پہلے طبقات الارض اور طبعی علوم کے بہت سے ماہروں نے بھی اس موضوع پر بہت کام کیا تھا اور بہت سا مواد اکٹھا کر لیا تھا۔ پھر بھی ڈارون کی کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا اثر بہت وسیع پیمانے پر مرتب ہوا۔ دوسری سائنسی تصنیفات کے مقابلے میں اس کتاب نے سماجی نظریے میں تبدیلی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مدد دی۔ اس نے ایک ذہنی انقلاب برپا کر دیا اور ڈارون کو شہرت بخشی۔

    علم الطبیعات کے ایک ماہر کی حیثیت سے ڈارون جنوبی امریکا اور بحر الکاہل میں ادھر ادھر خوب گھوما تھا اور اس نے اس سلسلے میں کافی مواد اکٹھا کرلیا تھا۔ اس کا استعمال کرکے اس نے یہ دکھایا کہ جانداروں کی ہر ایک نسل کس طرح قدرت کے ایک متعینہ اصول… اصولِ انتخاب کے ماتحت بدلتی ہوئی ترقی یافتہ شکل اختیار کرتی گئی ہے۔ اس وقت تک عام طور سے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ انسان اور دوسری مخلوقات کی تشکیل خدا نے ان کی موجودہ شکل میں الگ الگ کی ہے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی یا یہ کہ ایک جاندار مخلوق بدل کر دوسری مخلوق کی شکل نہیں لے سکتی۔ ڈارون نے بہت سے ثبوت فراہم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ جاندار مخلوق کا ایک طبقہ دوسرے طبقے میں لازمی طور سے بدلتا ہے اور ترقی کا یہ فطری عمل ہے۔ یہ تبدیلی فطری انتخاب کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ اگر کسی ذرا سی تبدیلی سے کسی جاندار طبقے کو ذرا بھی فائدہ ملا یا دوسروں کے مقابلے میں زندہ رہنے میں اس سے کچھ زیادہ مدد ملی تو وہ تبدیلی ان کے اندر آہستہ آہستہ مستقل اور دائمی شکل اختیار کر لے گی۔

    ظاہر ہے کہ اس تبدیل شدہ طبقے کے جاندار زیادہ تعداد میں زندہ رہیں گے اور کچھ دنوں بعد اس تبدیل شدہ نسل کی بہتات ہو جائے گی اور یہ دوسری نسلوں کا صفایا کر دے گی۔ اس طریقے سے ایک کے بعد ایک تبدیلی اور تغیر ہوتے چلے جائیں گے اور کچھ مدت کے بعد تقریباً ایک بالکل نئی نسل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح وقت پاکر تنازع الالبقاء کے اصول کے ماتحت فطری انتخاب کے عمل کے ذریعے بہت سی نئی نسلیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ اس اصول کا پودوں، جانوروں اور انسانوں تک پر اطلاق ہوگا۔ اس نظریے کے مطابق یہ ممکن ہے کہ آج حیوانات اور نباتات کی جو مختلف نسلیں دکھائی دے رہی ہیں ان سب کا پرکھا ایک ہی رہا ہو۔

    کچھ ہی سال بعد ڈارون نے اپنی دوسری کتاب”انسان کا ارتقاء” شائع کی۔ جس میں اس نے اس نظریے کا نسل انسانی پر اطلاق کرکے دکھایا۔ ارتقاء اور فطری انتخاب کا یہ نظریہ اب بیشتر لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے۔ اگرچہ ٹھیک اسی شکل میں نہیں جس شکل میں ڈارون اور اس کے پیروکاروں نے اسے دریافت اور مرتب کیا تھا۔ دراصل جانوروں کی نسل سدھارنے اور پودوں اور پھلوں کے اگانے میں انتخاب کے اس اصول کا عملی طور پر استعمال کرنا لوگوں کے لئے ایک آسان بات بن گئی ہے۔ آج کل کے مختلف بیش قیمت جانور اور پودے مصنوعی طریقوں سے پیدا کی ہوئی نئی نسلوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر انسان تھوڑی مدت میں اس طرح مصنوعی تبدیلی کر کے نئی نسلیں پیدا کرسکتا ہے تو لاکھوں اور کروڑوں سال کی مدت میں فطرت اس سلسلہ میں کیا کچھ نہیں کرسکی ہوگی؟ لندن نے ساؤتھ کینسنگٹن میوزیم جیسے کسی علم الطبیعیات کے عجائب گھر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نباتات اور حیوانات ہمیشہ اپنے آپ کو قدرتی حالات کے مطابق ڈھالتے چلے جارہے ہیں۔

    آج یہ سب باتیں ہمیں مسلّم نظر آتی ہیں۔ لیکن ستّر سال پہلے یہ حالت نہیں تھی۔ اس وقت مغرب کے زیادہ تر لوگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ بائیبل کے تذکرے کے مطابق کائنات کا وجود عیسیٰ مسیح سے 4004 قبل ہوا۔ ہر ایک پیڑ پودے اور جان دار الگ الگ پیدا کیے گئے اور سب سے آخر میں انسان بنایا گیا۔ وہ مانتے تھے کہ سیلاب نوح آیا تھا اور نوح کی کشتی میں سارے جانداروں کے جوڑے اس لئے رکھے گئے تھے کہ کسی بھی جاندار مخلوق کا وجود ختم نہ ہونے پائے۔ یہ سب باتیں ڈارون کے نظریے سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ ڈارون اور طبقات الارض کے ماہرین جب زمین کی عمر کا ذکر کرتے تھے تو 6000 سال کی مختصر مدت کے بجائے کروڑوں سال کی بات کرتے تھے۔ اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں زبردست ہلچل مچی ہوئی تھی اور بہت سے آدمیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کریں۔ ان کا عقیدہ انہیں ایک بات ماننے کی تلقین کرتا تھا اور ان کی عقل دوسری بات ماننے پر مجبور کرتی تھی۔ جب انسان پرانی روایات میں اندھا یقین رکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو مجبور اور بے بس سا محسوس کرتے ہیں اور انہیں کھڑے ہونے کے لئے کہیں ٹھوس زمین دکھائی نہیں دیتی۔ مگر کسی دھچکے سے اگر ہمیں حقیقت کا علم ہوجائے تو وہ دھچکا اچھا ہوتا ہے۔

    انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں سائنس اور مذہب کے درمیان خوب نوک جھونک رہی۔ اس کے نتیجے کے بارے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ صنعت و حرفت اور ٹکنالوجی کی نئی دنیا کا دارومدار سائنس پر تھا اس لئے سائنس کا دامن چھوڑا نہیں جاسکتا تھا۔ سائنس کی برابر فتح ہوتی چلی گئی اور "فطری انتخاب” اور "تنازع الالبقاء” کی اصطلاحیں زبان زد ہوگئیں۔ بہت سے لوگ ان کا مطلب پوری طرح سمجھے بغیر ہی ان فقروں کو استعمال کرنے لگے۔

    ڈارون نے اپنی کتاب "انسان کی نسل” میں یہ بتایا تھا کہ انسان اور بندروں کی کچھ ذاتیں اصلاً شاید ایک ہی ہوں گی۔ یہ بات ارتقاء کے مختلف مراحل کی مثال پیش کر کے ثابت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس سے "کوئی ہوئی کڑی” کا ایک عام مذاق چل پڑا اور عجیب بات یہ ہوئی کہ حکمراں طبقوں نے بھی ڈارون کے نظریے کو توڑ مروڑ کر اس سے اپنے مطلب کی بات نکال لی۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اس نظریے سے ان کی برتری کا ایک اور ثبوت بھی مل گیا ہے۔ زندگی کی جدو جہد میں سب سے قابل ہونے کی وجہ سے وہ بچ گئے تھے اس لئے تنازع الالبقاء اور فطری انتخاب کے اصولوں کے ماتحت وہ سب سے اوپر آگئے اور حکمراں طبقہ بن گئے! ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر یا ایک قوم کا دوسری قوم پر تسلط جمانے کے حق میں یہ ایک نیا بہانہ ہاتھ آگیا۔ سامراجی طاقت اور سفید نسل کی برتری کے لئے یہ ایک اور دلیل بن گئی اور مغرب کے بہت سے لوگ سمجھنے لگے کہ دوسروں پر جتنا زیادہ دھونس جمائیں گے اور جتنے زیادہ طاقتور اور ظالم بن کر رہیں گے۔ انسانی زندگی کی قدر و قیمت میں ان کا درجہ اتنا ہی اونچا ہونا ممکن ہوگا۔ یہ نظریہ صحت مند نہیں ہے۔ مگر اس سے ایشیا اور افریقہ میں مغرب کی سامراجی طاقتوں کے رویے کا راز کچھ کچھ کھلتا ہے۔

    بعد میں کچھ سائنس دانوں نے ڈارون کے نظریے پر تنقید کی ہے۔ لیکن اس کا نظریے اپنے وسیع معنوں میں آج بھی صحیح مانا جاتا ہے۔ اس کے نظرییے کی وسیع پیمانے پر مقبولیت کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کا ارتقائی نظریے میں یقین ہوگیا ہے۔ اس نظریے کا یہ مطلب تھا کہ یہ انسانی سماج اور دنیا اپنے کمال کی طرف بڑھ رہی ہے اور روز بہ روز ترقی کرتی جارہی ہے۔ ترقی اور آگے بڑھنے کا یہ تصور صرف ڈارون کے نظریے کا ہی نتیجہ نہیں تھا۔ سائنٹفک تحقیق کے سارے رجحان نے اور صنعتی انقلاب کے نتیجے کے طور پر اور اس کے بعد رونما ہونے والی تمام تبدیلیوں نے لوگوں کا ذہن اس کے لئے ہموار کردیا تھا۔ ڈارون کے نظریے نے اس کی ایک طرح سے تصدیق کردی اور لوگ سوچنے لگے کہ انسانی ترقی کی آخری منزل کچھ بھی ہو وہ پے در پے فتح حاصل کرتے ہوئے فخر کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

    غور کرنے کی بات ہے کہ ترقی کا یہ تصور بالکل نہیں تھا۔ گزرے ہوئے زمانے میں یورپ، ایشیا یا کسی بھی قدیم تہذیب میں ایسا کوئی تصور رہا ہو، ایسا نہیں معلوم ہوتا۔ یورپ میں ٹھیک صنعتی انقلاب کے زمانے تک لوگ ماضی کو درخشاں اور مثالی زمانہ مانتے تھے۔ یونان اور روم کی کلاسیکی تصنیفات کا پرانا زمانہ بعد کے زمانوں سے برتر اور بہتر مانا جاتا تھا۔ لوگ ایسا ماننے لگے تھے کہ بنی نوع انسان تنزلی کے راستے پر گامزن ہے یا کم سے کم اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہورہی ہے۔

    ہندوستان میں بھی تنزلی اور ماضی کی درخشاں تصویر کی قریب قریب ایسی ہی کہانی ہے۔ ہندوستانی بھی ان طبقاتُ الارض کے ماہرین کے قائم کئے ہوئے زمانوں کی طرح کائنات کی بہت لمبی مدت مانتے ہیں مگر وہ بھی "سَت یُگ” سے شروع کرکے "کل جُگ” پر آتے ہیں۔

    اس لئے ہم دیکھتے ہیں انسانی ترقی کا تصور بالکل نیا ہے۔ قدیم تاریخ کا ہمیں جتنا کچھ علم ہے ، اس سے ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا علم ابھی بہت محدود ہے اور ممکن ہے اس علم میں اضافہ ہونے پر ہمارا نظریہ بدل جائے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس ترقی کے بارے میں جتنی گرمجوشی تھی اتنی شاید آج نہیں رہی ہے۔ اگر ترقی کا نتیجہ یہی کہ پچھلی عالم گیر جنگ کی طرح ہم ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر تباہ و برباد کریں تب تو اس "ترقی” میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے۔ دوسری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ ڈارون کے تنازع الالبقاء کی منطق کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ زندگی کی جدوجہد میں برتر ہی زندہ رہتا ہے۔ یہ سب تو عالموں کے مفروضات ہیں۔ ہمارے لئے تو غور کرنے کی بات صرف یہ ہے کہ غیر تغیر پذیر سماج کے پرانے اور عام خیال کو انیسویں صدی کی جدید سائنسی معلومات نے ایک طرف دھکیل دیا اور اس کی جگہ یہ خیال پھیل گیا کہ سماج تغیر پذیر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترقی کا تصور بھی سامنے آیا اور اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں سماج درحقیقت اتنا بدل گیا ہے کہ اسے پہچانا نہیں جاسکتا۔

    جب میں ڈارون کا جاندار نسلوں کے ماخذ کا نظریہ بتا رہا ہوں تو یہ جاننا اور بھی دلچسپ ہوگا کہ اس موضوع پر ایک چینی فلسفی نے 2500 سال پہلے کیا لکھا تھا۔ اس کا نام ژون ژے تھا اور اس نے عیسیٰ سے چھے سو سال پہلے بدھ کے زمانے کے آس پاس لکھا تھا: "سب جاندار مخلوق کی پیدائش ایک ہی نسل سے ہوئی ہے۔ اس ایک بنیادی نسل میں رفتہ رفتہ اور برابر تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ جس کے نتیجے میں جان داروں کی مختلف شکلیں سامنے آئیں۔ یہ تبدیلی ان جانداروں میں یکایک نہیں پیدا ہوگئی۔ بلکہ اس کے برخلاف پشت در پشت رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں سے یہ فرق پیدا ہوا۔”

    یہ اصول ڈارون کے اصول سے کافی ملتا جلتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ عمرانیات کا یہ قدیم چینی مفکر ایسے نتیجے پر پہنچ گیا جس کی دوبارہ دریافت کرنے میں دنیا کو ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔

    انیسویں صدی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی۔ تبدیلیوں کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی۔ سائنس نے حیرت انگیز کارنامے دکھائے اور تحقیق و ایجاد کی کبھی نہ ختم ہونے والی دنیا کی رنگا رنگی نے لوگوں کی آنکھوں کو چکا چوند کر دیا۔ ان میں سے تار، ٹیلیفون ، موٹر اور پھر ہوائی جہاز جیسی کتنی ہی ایجادوں نے عوام کی زندگی میں بے پناہ تبدیلیاں لا دی ہیں۔ سائنس نے دور آسمان اور آنکھوں کو نہ دکھائی دینے والے ایٹم کو ناپنے کی ہمت کی۔ اس نے انسان کی تھکا دینے والی مشقت کم کر دی اور کروڑوں انسانوں کی زندگی میں آسائشیں میسر کردیں۔ سائنس کی وجہ سے دنیا کی اور خاص طور سے صنعتی ملکوں کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ ساتھ ہی سائنس نے بربادی کے کامل طریقے بھی ایجاد کر ڈالے۔ مگر اس میں سائنس کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس نے تو قدرت پر قابو پانے کے لئے انسان کی قوت بڑھا دی۔ مگر اس تمام قوت کو حاصل کرنے کے بعد انسان یہ نہیں سمجھ پایا کہ اپنے اوپر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس نے بہت سے شرمناک کام کئے اور سائنس کی دین کو بیکار گنوا دیا۔ لیکن سائنس کی ترقی کا یہ سفر برابر جاری رہا اور اس نے ڈیڑھ سو سال کے اندر ہی دنیا کی ایسی کایا کلپ کر دی، جیسی پچھلے ہزاروں سال میں بھی نہیں ہوپائی تھی۔ سچ مچ سائنس نے ہر ملک میں اور زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ گیر انقلاب برپا کر دیا ہے۔

    سائنس کے میدان میں یہ ترقی اب بھی جاری ہے اور اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے لئے کوئی ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے۔ ایک ریلوے لائن بنتی ہے مگر جب تک کہ وہ چالو ہو، پرانی پڑ جاتی ہے۔ وقت آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایک مشین خرید کر کھڑی کی جاتی ہے کہ سال دو سال کے اندر اس سے بہتر اور کارگر مشینیں بننے لگتی ہیں۔ یہ دوڑ بے تحاشا جاری ہے۔

  • ’دھڑک 2‘ تامل فلم ’پرییرم پیرومل‘ کا ریمیک نکلی؟

    ’دھڑک 2‘ تامل فلم ’پرییرم پیرومل‘ کا ریمیک نکلی؟

    کرن جوہر کی دھرما پروڈکشن کی حالیہ ریلیز ’دھڑک 2‘ تامل فلم ’پرییرم پیرومل‘ کا چربہ نکلی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرن جوہر کی فلم ’دھڑک 2‘ میں سدھانت چترویدی اور ترپتی ڈمری نے مرکزی کردار نبھایا ہے اور اس کی کہانی شازیہ اقبال نے لکھی ہے۔

    رومانوی ڈرامہ کالج کے رومانس پر مبنی ہے اور اس میں بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک، تشدد کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ ایشان کھٹر اور جھانوی کپور کی ’دھڑک‘ 2018 کا روحانی سیکوئل دراصل جنوبی ہند کے فلمساز ماری سیلواراج کی پہلی فلم ’پرییرم پیرومل‘ کا ریمیک ہے جس میں کتھیر اور آنندی نے اداکاری کی تھی اور اس میں ذات سے تعلق رکھنے والی قانون کی طالبہ کی پیروی کی گئی تھی۔

    سیزن کے کئی اعلیٰ ایوارڈز جیتنے کے علاوہ، ڈرامہ فلک بالآخر سلیپر ہٹ کے طور پر ابھرا اور اسے جدید تامل سنیما کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    اگر آپ ‘پیریرم پیرومل’ دیکھنا چاہتے ہیں، تو یہ ایمزون پرائم ویڈیو پر سب ٹائٹلز کے ساتھ اسٹریم کرنے کے لیے دستیاب ہے۔

    علاوہ ازیں ‘دھڑک 2’ اس وقت دنیا بھر کے سینما گھروں میں چل رہی ہے۔

  • سلمان کی ’سکندر‘ کے ڈائریکٹر  نے فلم کی ناکامی پر خاموشی توڑ دی

    سلمان کی ’سکندر‘ کے ڈائریکٹر  نے فلم کی ناکامی پر خاموشی توڑ دی

    بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کی فلم ’سکندر‘ کے ڈائریکٹر اے آر مروگا دوس نے فلم کی ناکامی پر خاموشی توڑ دی۔

    جنوبی ہند کے فلمساز اے آر مروگادوس نے بالی ووڈ میں ریمیک کے لیے مشہور ہیں جن میں گجنی، ہالیڈ؁، اور اکیرا شامل ہیں اب انہوں نے سکندر کی ناکامی ہندی سمجھنے کو قرار دیا ہے۔

    ایکشن تھرلر فلم ’مدھراسی‘ کی تشہیر کے دوران انہوں نے کہا کہ جب ہم اپنی مادری زبان میں فلمیں بناتے ہیں تو اس سے ہمیں طاقت ملتی ہے ہم جانتے ہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے، ایک بار کے لیے میں تیلگو فلمیں لے سکتا ہوں لیکن ہندری ہمارے لیے کام نہیں کرسکتی۔

    فلمساز نے کہا کہ جب ہم اسکرپٹ لکھتے ہیں، وہ اس کا انگریزی ترجمہ کرتے ہیں پھر اس کا ہندی میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔

    یہ پڑھیں: تمام تر تنقید کے باوجود سلمان خان کی فلم "سکندر” 200 کروڑ کمانے میں کامیاب

    اے آر مروگادوس نے کہا کہ ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن ہمیں اس بارے میں قطعی طور پر یقین نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب آپ کسی نامعلوم زبان اور جگہ پر فلم بناتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ معذور ہیں، ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ہاتھ نہیں ہیں۔

    انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اصل طاقت ان کی اپنی ثقافت اور زبان میں ہے۔

    واضح رہے کہ سکندر میں سلمان خان کے سازتھ رشمیکا مندانا نے مرکزی کردار نبھایا، دیگر کاسٹ میں کاجل اگروال، اجینی دھون، پراتک ببر، شرمن جوشی اور ستیہ راج شامل تھے۔

    میگا بجٹ فلم سکندر سامعین کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔

  • شوہر کیا کام کرتے ہیں کہ سوال پر نیلم منیر کا دلچسپ جواب

    شوہر کیا کام کرتے ہیں کہ سوال پر نیلم منیر کا دلچسپ جواب

    اداکارہ نیلم منیر نے شوہر کے کاروبار سے متعلق سوال کرنے والے مداح کو دلچسپ جواب دے دیا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ نیلم منیر نے مداحوں کے ساتھ سیشن رکھا اور اس دوران مداحوں کے سوالات کے جوابات دیے۔

    ایک مداح نے سوال کیا کہ راشد بھائی کیا کرتے ہیں؟

    نیلم منیر نے دلچسپ جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’مجھ سے محبت کرتے ہیں۔‘ اداکارہ نے دل کی ایموجیز بھی بنائیں۔

    اداکارہ نے اس سے قبل پوسٹ میں شادی کے بعد انڈسٹری چھوڑنے کی خبروں کی تردید کی تھی۔

    انسٹاگرام اسٹوری پر ایک بیان میں نیلم منیر نے لکھا تھا کہ میرے بارے میں بہت ساری افواہیں گردش کر رہی ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ مجھے ان تمام غلط معلومات کی وضاحت کرنی چاہیے۔

    نیلم منیر نے لکھا تھا کہ ہاں میں نے شادی کر لی ہے اور نہیں میں شوبز نہیں چھوڑ رہا ہوں، اداکاری میرا جنون ہے اور میں ایسی چیز کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں جو مجھے بہت پسند ہے۔

    واضح رہے کہ نیلم منیر نے سال 2025 کے آغاز میں ہی اپنی زندگی کے سب سے حسین سفر کا آغاز کیا اور شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔

    نیلم منیر نے دبئی میں مقیم، صوبے پنجاب کے شہر میانوالی سے تعلق رکھنے والے محمد راشد نامی شخص سے شادی کی جنکا ٹریول اینڈ ٹورازم کا بزنس اور 3 سے 4 ریسٹورنٹس ہیں۔