Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • اروشی روٹیلا کا جیولری سے بھرا قیمتی بیگ چوری ہوگیا

    اروشی روٹیلا کا جیولری سے بھرا قیمتی بیگ چوری ہوگیا

    (1 اگست 2025):بالی ووڈ اداکارہ اروشی روٹیلا کا لندن ائیرپورٹ سے لاکھوں مالیت جیولری سے بھرا بیگ چوری ہوگیا۔

    بھارتی میڈیا بالی ووڈ اداکارہ اروشی روتیلا نے چونکا دینے والا دعویٰ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ لندن کے گیٹوک ائیرپورٹ سے 70 لاکھ روپے بھارتی روپے کی مالیت کے زیورات سے بھرا بیگ چوری ہوگیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اروشی روٹیلا کی ٹیم کی جانب سے واقعے کی تصدیق کی گئی جس میں بتایاگیا ہےکہ لندن کے گیٹوک ائیرپورٹ سے اداکارہ کا جیولری سے بھرا بیگ چوری ہوگیا، بیگ میں 70 لاکھ روپے کے زیورات تھے۔

    اداکارہ کی ٹیم نے بیان میں بتایا کہ ’اداکارہ اروشی ومبلڈن ٹینس ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے لندن گئی تھیں، واپسی پر گیٹوک ائیرپورٹ پر لگیج بیلٹ سے اداکارہ کا قیمتی بیگ چوری ہوگیا، اس واقعے کے بعد جب ائیرپورٹ انتظامیہ سے مدد طلب کی گئی تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

    اروشی نے بیگ چوری ہونے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انسٹا اسٹوری پر کہا کہ’ میرے  سامان کا ٹیگ اور ٹکٹ ہونے کے باوجود بیگ بیلٹ ایریا سے غائب ہو گیا۔

    اداکارہ نے مزید کہا کہ بیگ کی چوری ائیرپورٹ سکیورٹی کی خطرناک خلاف ورزی ہے، یہ معاملہ صرف گمشدہ بیگ کا نہیں بلکہ  تمام مسافروں کی سیکیورٹی اور وقار کا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل  بھار تی شہر احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں پاک بھارت میچ کے دوران بھی اروشی روٹیلا اپنے آئی فون سے محروم ہوگئی تھیں۔

  • علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری ایک درد مند اور انسان دوست شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ وہ ان اہلِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی و ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی انقلابی شاعری سے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری نے ہندوستان میں وہ دور دیکھا جب ترقی پسند ادب کے عروج کے ساتھ برصغیر میں آزادی اور تقسیمِ ہند کے لیے انقلابی نعروں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ وہ بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور 2000ء میں یکم آج ہی کے روز ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم تھے۔

    شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ انھوں نے اس پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے ساتھ اپنی تخلیقات کے ذریعے ہندوستان میں بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ ان کی نظمیں فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے خیالات سے آراستہ ہیں۔ علی سردار جعفری اپنے وقت کے مقبول انقلابی شاعروں میں‌ سے شامل تھے۔ ان کی نظموں کو ہندوستان بھر میں پڑھا گیا۔ نئے قلم کاروں کو متاثر کرنے والے علی سردار جعفری شاعر ہی نہیں ادبی نقّاد اور ایسے مصنف تھے جن کا قلم شخصی خاکے، تذکرے، تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے بھی لکھتا رہا اور پھر ان کی یادداشتوں پر مشتمل کئی تحریریں‌ بھی یادگار ثابت ہوئیں۔

    شاعری کی بات کی جائے تو وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن ان کی غزلیں اور گیت بھی پسند کیے گئے جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ علی سردار جعفری کے کلام وہ صوتی آہنگ ملتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں علی سردار جعفری نے اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت کے مراحل اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا تھا کہ: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔ سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    اس پس منظر اور زندگی کے مختلف ادوار کی جھلک کے بعد علی سردار جعفری پر بات کی جائےتو بجا طور پر وہ اردو ادب میں اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنانے میں کام یاب رہے اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر ان کو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ انگریزوں سے آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلیمی سفر جس زمانہ میں جاری تھا، اسی زمانہ میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کرچکے تھے اور قید یا نظر بندی بھی ان کے حصّہ میں آئی۔ یوں نوجوانی میں وہ ادب کی دنیا سے ایک نہایت فعال اور متحرک شخصیت کے طور پر بھی سب کے سامنے آتے رہے۔ سردار صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔ لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    علی سردار جعفری مزید لکھتے ہیں: 1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔ 1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    علی سردار جعفری کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنے۔ وہ ممبئ سے جاری ہونے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر بھی تھے۔ انھوں نے انگریزی سے کئی مصنفین کی تحریروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ فلم کے لیے بطور گیت نگار اور مصنّف بھی کام کیا۔

    بھارتی حکومت نے علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ اور 1997ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں انھیں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) سے نوازا گیا جب کہ روس نے خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں دیا تھا۔

  • صبا قمر کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، اسپتال منتقل

    صبا قمر کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، اسپتال منتقل

    کراچی (1 اگست 2025): پاکستانی شوبز انڈسٹری کی مقبول اداکارہ صبا قمر کو طبیعت خراب ہونے کے باعث راولپنڈی کے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق صبا قمر کی ایک پروجیکٹ کی شوٹنگ کے دوران طبیعت اچانک بگڑ گئی جس کے باعث اداکارہ کو راولپنڈی کے قائد اعظم انٹرنیشنل اسپتال لے جایا گیا۔

    بتایا جا رہا ہے کہ صبا قمر کو دل میں تکلیف ہوئی تھی، انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں رکھا گیا۔ ڈاکٹروں نے اداکارہ کی انجیوگرافی سمیت متعدد طبی ٹیسٹ کیے۔

    یہ بھی پڑھیں: صبا قمر نے اپنی خوبصورتی کا راز بتا دیا

    ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ اسپتال لانے پر اداکارہ کی حالت خراب تھی تاہم اب مستحکم ہے اور ان کی صحت میں بہتری آ رہی ہے۔

    صبا قمر

    صبا قمر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ وہ ایک بڑے پروجیکٹ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں اور شدید ذہنی تناؤ اور تھکن کا شکار ہیں۔

    ڈاکٹروں نے زیادہ کام اور نیند کی کمی کو طبیعت بگڑنے کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ بروقت علاج اور نگرانی میں رہنے کے بعد صبا قمر کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

    صبا قمر کو کچھ ہفتوں تک آرام کرنے اور مکمل صحت یابی کو یقینی بنانے کیلیے جسمانی مشقت سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

    مقبول اداکارہ کو اسپتال منتقل کرنے کی خبر پر مداحوں اور شوبز شخصیات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، انہیں نے ان کی صحت یابی کیلیے دعائیں کیں۔

  • ‘پاکستان اور بھارت نے ہر چیز کو تقسیم کرلیا محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے’

    ‘پاکستان اور بھارت نے ہر چیز کو تقسیم کرلیا محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے’

    الگ الگ ملک بننے کے بعد پاکستان اور بھارت نے آپس میں بہت سی چیزیں تقسیم کیں مگر ایک چیز جسے تقسیم نہ کرسکے وہ گلوکار محمد رفیع تھے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے برصغیر کے معروف گلوکار محمد رفیع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے بہت سی چیزیں تقسیم کیں مگر وہ محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے، دنوں ملکوں نے کہا کہ محمد رفیع ہمارا بھی ہے۔

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہم ہر بات پر جھگڑتے ہیں کچھ دن پہلے بھی ہمارا ان کا جھگڑا ہوا اور جنگ ہوئی لیکن جس بات پر ہم نہیں جھگڑے وہ محمد رفیع تھے۔

    برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف ترین گلوکاروں میں سے ایک محمد رفیع کے حوالے سے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں نے مان لیا کہ یہ دونوں کے ہیں، یہ محمد رفیع صاحب کی خوبی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ دلیپ کمار صاحب کو ٹریجڈی کنگ بنانے میں بھی محمد رفیع صاحب کو 50 فیصد حصہ تو ضرور تھا۔

    پرویز رشید نے کہا کہ ایک مشہور فلم دیدار تھی جس کا مشہور گانا تھا میری کہانی بھولنے والوں، وہ گانا اتنا پُراثر تھا اور خواتین پر اتنا اثر کرتا تھا کہ وہ صدمے میں اپنی چوڑیوں کو توڑ دیتی تھیں۔

  • خوشحال اور رمشا خان کے ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ کا ٹیزر جاری

    خوشحال اور رمشا خان کے ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ کا ٹیزر جاری

    اداکار خوشحال اور رمشا خان کے ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ کا دوسرا ٹیزر جاری کردیا گیا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ میں خوشحال خان، ثروت گیلانی اور رمشا خان مرکزی کردار نبھائیں گے۔

    ٹیزر میں دکھایا گیا ہے کہ رمشا خان ایک سادہ سی لڑکی ہے، اس کی دنیا صرف یونیورسٹی اور گھر ہے۔ دوسری جانب خوشحال خان ایک فرمانبردار لڑکا ہے، جو اس کا طالب علم بنتا ہے۔

    ’بریانی‘ ایک محبت کی کہانی ہے جو دلوں میں سفر کرتی ہے، فاصلے عبور کرتی ہے اور روح کے ساتھ رہتی ہے

    ثروت گیلانی کی ایک مختصر سی جھلک بھی ملتی ہے، جن کا کردار ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ پوسٹر پر اس کے سنجیدہ اظہار اور شمولیت سے، وہ ایک روایتی مخالف کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے، ممکنہ طور پر کوئی ایسا شخص جو معاشرتی دباؤ یا فیصلے کو مجسم کرتا ہو۔

    ٹیزر میں ثروت گیلانی کہتی ہیں کہ یہ لائبریری اور یہاں کی کتابوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے جب آنکھ کھولی تو انہی کی گود میں خود کو پایا ہے۔

    بریانی کی کہانی ظفر معراج نے لکھی ہے جو اپنی شاعرانہ تحریر اور جذبات پر فوکس کرنے کے لیے مشہور ہیں جبکہ اس کے ہدایت کار بدر محمود ہیں جو اس سے قبل بلا، عشقیہ اور کبھی میں کبھی تم جیسے مقبول ڈراموں ڈائریکت کرچکے ہیں۔

  • ماں، باپ کا مقام فراموش نہ کریں وہ آپ کی بنیاد ہوتے ہیں، حنا خواجہ بیات

    ماں، باپ کا مقام فراموش نہ کریں وہ آپ کی بنیاد ہوتے ہیں، حنا خواجہ بیات

    شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیات کا کہنا ہے کہ ماں، باپ کا مقام کبھی فراموش نہ کریں وہ آپ کی بنیاد ہوتے ہیں۔

    اداکارہ حنا خواجہ بیات نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے مزاحیہ شو میں شرکت کی اور اس دوران بچوں کی جانب سے ماں، باپ کو الزام دینے پر اظہار خیال کیا۔

    انہوں نے اس بار بھی اپنے بیان میں نوجوان نسل کو آئینہ دکھایا ہے۔

    حنا خواجہ کا کہنا تھا کہ تھراپی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ ہر دکھ کا الزام اپنے والدین پر ڈال کر بری الذمہ ہوجائیں۔

    انہوں نے کہا کہ والدین کی پرورش، محنت اور قربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دینا ناشکری اور ناپختگی کی علامت ہے۔

    حنا بیات نے دوٹوک پیغام میں کہا کہ ہاں! آپ کے ماضی کے تجربات اہم ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہی والدین آپ کو اس مقام تک لائے، بالغ ہونے کے بعد انسان کو چاہیے کہ وہ ماضی سے آگے بڑھے، خود کو سنوارے اور تھراپی سے واقعی فائدہ اٹھائے نہ کہ اُسے ماں باپ کے خلاف زہر نکالنے کا ذریعہ بنائے۔

    اداکارہ  نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈاکٹر دوا تجویز کرے تو شرم محسوس کیے بغیر اسے استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ ذہنی صحت جسمانی صحت جتنی ہی اہم ہے۔

  • ‘لڑکوں کیلئے کہتے ہیں شادی نہیں کی، لڑکیوں کیلئے کہتے ہیں شادی نہیں ہوئی!’ منافقانہ سلوک کیوں؟

    ‘لڑکوں کیلئے کہتے ہیں شادی نہیں کی، لڑکیوں کیلئے کہتے ہیں شادی نہیں ہوئی!’ منافقانہ سلوک کیوں؟

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار توثیق حیدر نے غیر شادی شدہ مرد و خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے منافقانہ رویے کو آشکار کیا ہے۔

    معروف میزبان و اداکار توثیق حیدر نے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات میں نے محسوس کی ہے کہ جب مرد شادی نہیں کرتا تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے کا انتخاب کیا ہے جب کہ خواتین کے لیے سمجھا جاتا ہے کہ ان کی شادی ہی ہو نہیں سکی۔

    زندگی کے مختلف امور پر اظہار خیال کرتے ہوئے اور معاشرے کے منافقانہ معیار کو اُجاگر کرتے ہوئے توثیق حیدر نے کہا کہ خواتین کے لیے کہا جاتا ہے ان کی شادی نہیں ہوئی، مردوں کے لیے الفاظ کا چناؤ ہوتا ہے کہ انھوں نے شادی نہیں کی۔

    توثیق حیدر نے سوال کیا آج تک کسی نے مجھ سے میرا دکھ پوچھا ہے؟ کیا پتہ میری شادی نہیں ہوئی ہو، اسی طرح ممکن ہے خواتین نے اپنی مرضی سے نہ کی ہو لیکن اسے بیچاری بنا دیا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمر نکلنے کے ڈر سے شادی نہیں کرنی چاہیے بلکہ شادی اس وقت اور اس شخص سے کرنی چاہیے جس سے مل کے لگے کہ اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔

    معروف میزبان نے انکشاف کیا کہ میں نے اپنے وقت میں شادی کےلیے کسی کو ڈھونڈا لیکن میری ان سے شادی نہیں ہوئی بعدازاں میں نے کیرئیر پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔

  • تذکرۂ صالحین: حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ

    تذکرۂ صالحین: حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ

    اولیا اللہ سے مراد وہ مخلص اہلِ ایمان ہیں جو اللہ پاک کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ علم کی دولت کے ساتھ حب الہیٰ اور محبتِ رسولؐ ان کا امتیاز ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو قرآن اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بسر کرتے ہیں۔ یہی بزرگ دوسروں کی دینی اور روحانی تربیت اور راہ نمائی کرتے ہوئے جب اس دنیا سے پردہ کرتے ہیں، تب بھی ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ یہ تذکرہ ہے بہاء الدّینؒ زکریا ملتانی کا جن کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی موجود ہے۔

    خاندان اور ابتدائی حالات زندگی
    وجیہہ الدّین محمّد کے بزرگ مکّہ معظمہ سے خوارزم منتقل ہوئے اور پھر تاتاریوں کی یلغار کے سبب وہاں سے نکل کر کوٹ کروڑ( اب کروڑ لعل عیسن، ضلع لیّہ، پنجاب) میں بس گئے۔ پھر کچھ عرصے بعد ملتان نقل مکانی کی اور وہیں وجیہہ الدّین پیدا ہوئے اور ان کو شادی کے بعد اللہ نے جس فرزند سے نوازا ہم انھیں بہاء الدّینؒ زکریا کے نام سے جانتے ہیں۔

    محققین حضرت بہاء الدّینؒ کے حسب و نسب پر تحقیق کے بعد متفق ہیں کہ آپؒ قریشی اسدی ہاشمی تھے۔ اس پر بھی اکثر محققین متفق ہیں کہ آپ کی ولادت 27 رمضانُ المبارک 566 ہجری (3 جون 1171ء) ہوئی اور وہ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ بعضوں نے آپؒ کو اس دور میں شیخ الاسلام کے منصب پر فائز لکھا ہے جو بہت ذہین اور قوی حافظے کے مالک تھے۔ چھوٹی عمر ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور پھر علماء سے مختلف علوم کی کتب پڑھیں۔

    ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ حصولِ علم کی خاطر خراسان بھی گئے اور 7 برس تک علماء کی صحبت میں رہے۔ بعد میں بخارا پہنچے اور وہاں بھی لگ بھگ اسی مدت تک قیام کے دوران علماء سے فیض اٹھاتے رہے۔ وہاں آپؒ ایک نوجوان عالم ہی کے طور پر نہیں بلکہ ایسے متّقی اور پرہیزگار مشہور ہوگئے لوگ آپؒ کو ’’بہاء الدّین فرشتہ‘‘ پکارنے لگے تھے۔

    بعد میں حج کی ادائی کو روانہ ہوئے اور مدینہ میں قیام کے زمانہ میں پانچ برس تک شیخ کمال الدّین محمد یمنیؒ جیسے نام وَر عالم سے حدیث پڑھی۔ بعدازاں، بیتُ المقدس میں زیارتوں کے لیے گئے اور دمشق میں بھی علماء سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔

    بیعت کا شرف اور خلافت کا سلسلہ
    جس وقت وہ بغداد پہنچے، تو وہاں سلسلۂ سہروردیہ کے عظیم بزرگ شیخ شہاب الدّین سہروردیؒ فکر و عمل کے ساتھ روحانیت کی روشنی پھیلائے ہوئے تھے۔ اُن سے کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دے دیا۔ بعد میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ کہتے ہیں کہ آپؒ شروع ہی سے ذکر و اذکار کرتے آرہے تھے اور مجاہدات میں مصروف رہتے تھے جس نے شیخ‌ صاحب کی نظر کے ساتھ ہی باطن کو بھی خوب خوب آراستہ کر دیا۔

    ملتان میں قیام اور روحانیت کا سفر
    مرشد نے خلافت سے نوازتے ہوئے بہاء الدّین کو ان کے آبائی علاقے ملتان جانے کی ہدایت فرمائی تو ملتان تشریف لے گئے۔ یہ 615 ہجری کی بات ہے۔ ملتان پہنچ کر ابتداْ گوشہ نشین رہ کر عبادت کرتے رہے اور پھر مجلسِ وعظ کا آغاز کیا، جس میں ہر خاص و عام شریک ہونے لگا۔ دلوں کو نورِ ایمان سے منوّر کرنے کے لیے آپؒ نے ملتان میں ایک مدرسے کی بھی بنیاد ڈالی۔ کہتے ہیں کہ یہ ایک اقامتی ادارہ تھا اور اس کی شہرت خوب ہوئی تو وہاں طلبہ عراق، شام اور حجاز سے آنے لگے تھے۔ مدرسے نے اسلام کے مبلغین تیار کیے جو بہاء الدین زکریاؒ کے حکم پر مختلف علاقوں میں جاکر دین کو پھیلاتے۔ ہزاروں لوگوں نے حضرت شیخ کی کوششوں سے اسلام قبول کی۔ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کی ذات بابرکات سے اِس خطّے میں سہروردی سلسلے کو فروغ حاصل ہوا اور آپؒ کو بجا طور پر برّصغیر میں اِس سلسلے کا بانی کہا جاسکتا ہے۔

    دنیا کا فہم
    تصوف اور اولیائے کرام کے تذکروں پر مبنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ محض صوفی یا دینی مبلغ ہی نہیں تھے بلکہ عوام کی حالت بہتر بنانے اور فلاح و بہبود پر بھی بہت توجّہ دیتے تھے۔ اس کے لیے زراعت اور تجارت سے معاش کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کی، نہریں کھدوائیں اور کنوئیں بنوائے۔ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کی یہ کوشش اس لیے تھی کہ ان کے عقیدت مند کسی پر بوجھ نہ بنیں بلکہ ان کو کام کرنے کی ترغیب دی جائے۔ آپؒ کے دور میں سلطان التمش کا راج تھا جس سے ان کے اچھے تعلقات تھے اور اُس کی درخواست پر شیخ الاسلام کا منصب قبول کیا۔ کہتے ہیں کہ جب منگول ملتان پر حملہ آور ہوئے تو آپؒ نے شہر سے باہر جاکر اُن سے ملاقات کی اور حملہ نہ کرنے کے عوض ایک لاکھ درہم کی پیش کش کی، جو اُنھوں نے قبول کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے اس طرح شہریوں کے قتلِ عام کو روکا۔

    ثروت مندی
    حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کو وراثت میں بہت دولت حاصل ہوئی تھی اور پھر آپؒ نے اس مال کو تجارت میں لگایا تو آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا جس میں سے خطیر رقم محتاج اور ضرورت مند لوگوں پر خرچ کی۔

    تعلیمات اور معمولات
    عبادات کا ذوق و شوق اور عادت نوّے برس سے زاید عمر ہونے کے باوجود پختہ رہی اور مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے رہے۔ شب بیدار تھے اور تلاوت معمول تھا۔ مریدین کی روحانی راہ نمائی کرنے کے ساتھ ان کے دنیاوی مسائل سنتے اور مدد فرماتے۔

    وصال اور اولاد
    محققین کی اکثریت نے لکھا ہے کہ دسمبر 1261ء کو ملتان میں 96 برس کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ آپؒ کا مزار فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں، جن سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ ان کے بیٹوں میں مخدوم صدر الدّین عارفؒ اور اُن کے صاحب زادے شاہ رکن عالمؒ نے بہت شہرت پائی۔

    (اس مضمون کا ماخذ بزرگانِ دین کے تذکروں پر مبنی کتابیں ہیں جس میں خاندان کے بزرگوں کے ناموں اور مختلف مقامات پر درج سنہ و تاریخ میں محققین کے درمیان اختلاف بھی موجود ہے)

  • وجے سیتھوپی نے کاسٹنگ کاؤچ کے الزامات پر خاموشی توڑ دی

    وجے سیتھوپی نے کاسٹنگ کاؤچ کے الزامات پر خاموشی توڑ دی

    اداکار وجے سیتھوپتی نے کاسٹنگ کاؤچ کے الزامات پر بالآخر خاموشی توڑ دی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق اداکار اور فلم پروڈیوسر وجے سیتھوپتی جو تامل فلموں میں شاندار اداکاری کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے بالی ووڈ میں جوان، مہاراجہ، فرزی، میری کرسمس میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔

    تاہم ایکس صارف رمیا موہن کی جانب سے ان پر جنسی استحصال کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے لکھا کہ ’کالی ووڈ کا ڈرگ اور کاسٹنگ کاؤچ کلچر کوئی مذاق نہیں، ایک لڑکی جسے میں جانتا ہوں اب میڈیا کا ایک جانا پہچانا چہرہ ایک ایسی دنیا میں گھسیٹا گیا جس کے لیے اس نے کبھی سائن اپ نہیں کیا تھا، وہ اب بحالی مرکز میں ہے، ہیرا پھیری اور لین دین کا استحصال انڈسٹری میں معمول ہے۔

    Allegations against Vijay Sethupati
    byu/10UJ inBollyBlindsNGossip

    پوسٹ میں اداکار کو ٹیگ کیا اور لکھا کہ یہ کہانی نہیں ہے، میڈیا ان لوگوں کی پوجا کرتا ہے، ان کا ڈرگ ایس ایکس گٹھ جوڑ حقیقی ہے کوئی مذاق نہیں۔

    نیشنل ایوارڈ یافتہ اداکار نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کردی ہے۔

    اداکار نے لکھا کہ جو بھی مجھے دور سے جانتا ہے وہ اس پر ہنسے گا، میں خود کو بھی جانتا ہوں، اس قسم کے الزامات مجھے پریشان نہیں کرسکتے۔

    وجے سیتھوپتی نے لکھا کہ میرے خاندان اور قریبی دوست پریشان ہیں لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ عورت یہ کام کررہی ہے اس کے پاس اپنی چند منٹ کی شہرت ہے اسے لطف اندوز ہونے دو۔

    اداکار نے کہا کہ ہم نے سائبر کرائم میں شکایت کی ہے، میں نے سات سالوں سے ہر قسم کی سرگوشی کی مہموں کا سامنا کیا ہے، اس طرح کی ٹارگٹنگ نے مجھے اب تک متاثر نہیں کیا ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

  • میری 7 سالہ بیٹی کو 24 گھنٹوں میں دو بار دل کا دورہ پڑا، عینی خالد

    میری 7 سالہ بیٹی کو 24 گھنٹوں میں دو بار دل کا دورہ پڑا، عینی خالد

    پاکستانی معروف گلوکارہ عینی خالد نے انکشاف کیا ہے کہ میری 7 سالہ بیٹی کو  گزشتہ سال 24 گھنٹوں کے دوران دو بار دل کا دورہ پڑا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پوسٹ میں عینی خالد نے بیٹی عیشا کی داستان شیئر کی جس میں ان کی بیٹی کو اسپتال میں اور پھر گھر میں کھیلتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    گلوکارہ نے بتایا کہ میں یقین نہیں کرسکتی کہ آخرکار مجھ میں یہ شیئر کرنے کی ہمت کہاں سے آئی، 24 جنوری 2024 وہ تاریخ ہے جو کہ ہمیشہ کے لیے میری روح میں نقش ہوگئی ہے، اس دن میری 7 سالہ بیٹی عیشا کو آکسیجن کی کمی ہونے کی وجہ سے ایک نہیں بلکہ دو دل کے دورے پڑے۔

    عینی نے بتایا کہ میں اسپتال میں آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اپنی اس بیٹی کو دیکھ رہی تھی جو ہر وقت پُرجوش انداز میں گھر میں اچھل کود کرتی رہتی تھی اور دل کا دورہ پڑنے کے بعد بے ہوش تاروں اور مشینوں میں الجھی ہوئی پڑی تھی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Annie Khalid (@anniecurli)

    عینی خالد کے مطابق میری عیشا بالکل صحت مند پیدا ہوئی تھی، اسے کوئی بیماری نہیں تھی لیکن اب اس کے جسم کے اعضا میں خرابی اور فالج کا سامنا ہے، وہ زیادہ چل بھی نہیں سکتی، وہیل چیئر اس کی زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے زندگی کے اس مشکل ترین لمحے میں بھی اللّٰہ پر اپنے ایمان کو قائم رکھا
کیونکہ جب دوا کام نہیں کرتی تو دعا کام آتی ہے۔

    گلوکارہ نے یہ بھی بتایا کہ میری بیٹی کا زندہ بچنا ایک معجزہ ہے اور ڈاکٹرز بھی یہ دیکھ کر حیران ہیں وہ صحت یاب ہو رہی ہے لیکن میرا یقین ہے کہ جہاں انسان کی عقل ختم ہو جاتی ہے وہاں سے اللّٰہ کی رحمت شروع ہوتی ہے۔

    عینی خالد کا کہنا تھا کہ میری بیٹی زندہ ہے، مسکرا رہی ہے، ہنس رہی ہے اور صحتیاب ہورہی ہے، اللہ نے چاہا تو وہ ایک دن چلنے بھی لگے گی۔